Friday, 23 October 2020

کتے اور گدھے کے گوشت کی تجارت کا مسئلہ⭕*

 *⭕اعتراض نمبر17: کتے اور گدھے کے گوشت کی تجارت کا مسئلہ⭕*


طالب الرحمن لکھتے ہیں:

اسلام میں درندوں کی تجارت

ابو مسعود سے روایت ہے کہ

ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نہی عن ثمن الکلب و مھر البغی وحلوانۃ الکاہن

بخاری رقم 2237

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت لونڈی اور جادو گر کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔

فقہ حنفی میں درندوں کی تجارت

اب احناف کی بھی سن لیجیے۔

صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:

1۔ ویجوز بیع الکلب والفہد والسباع المعلم وغیر المعلم فی ذلک سوائ

ہدایہ اخرین ص103

کتے، شیر اور درندے چاہے سدھائے ہوئے ہوں یا غیر سدھائے ہوئے ان کی تجارت جائز ہے۔

فتاویٰ عالمگیری میں یہ بھی ہے:

2۔ اذا ذبح کلبہ وباع لحمہ جاز و کذا اذا ذبح حمارہ و باع لحمہ… ویجوز بیع لحوم السباع والحمر المذبوحۃ فی الروایۃ الصحیحۃ

3/115

اگر اپنے کتے کو ذبح کر لے اس کا گوشت بیچے اسی طرح اپنے گدھے کو ذبح کرے اور اس کا گوشت بیچے صحیح روایت کے مطابق درندوں کا گوشت اور ذبح شدہ گدھے کا گوشت فروخت کرنا جائز ہے۔

کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص40، 41

🔘◻️◻️◻️◻️◻️◻️◻️◻️◻️◻️

*دفاع احناف دیوبند یوٹیوب چینل لنک*

https://m.youtube.com/channel/UCq5oQRcOBGCDvd9mH0qdUlg

◻️◻️◻️◻️◻️◻️◻️◻️◻️◻️◻️

سترہویں اعتراض کا جواب:

امام ابو حنیفہ کا موقف یہ ہے کہ احادیث میں مذکور نہی اس زمانے سے متعلق ہے جب کتوں کے بارے میں شریعت کے احکام بہت سخت تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اہل عرب میں کتوں کے ساتھ غیر معمولی انس اور محبت پائی جاتی تھی اور ان کے گھروں میں کتوں کو شوقیہ پالنے کا بکثرت رواج تھا۔ یہ انس و محبت اور تعلق ان کے دل سے نکالنے کے لیے ابتداء میں بہت سخت احکام دیے گئے جو کہ بعد میں بتدریج نرم ہوتے گئے اور آخر میں یہ حکم ٹھہر گیا کہ کسی ضرورت کی غرض سے تو کتے کو پال لینے کی اجازت ہے لیکن شوقیہ طور پر کتا رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ احادیث ملاحظہ فرمائیں:

عن عبداﷲ عن ابن المغفل قال امر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بقتل الکلاب ثم قال ما بالہم وبال الکلاب ثم رخص فی کلب الصید وکلب الغنم

مسلم شریف جلد2 ص25

حضرت ابن مغفل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ابتدا میں) کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا پھر فرمایا کتے لوگوں کو کیا تکلیف دیتے ہیں پھر آپ نے شکاری کتے اور بکریوں (کی حفاظت) کے (لیے) کتوں کو پالنے کی اجازت دے دی۔

اس حدیث میں تین باتوں کا ذکر ہے۔

1۔ پہلے کتے کو قتل کرنے کا حکم تھا۔

2۔ پھر قتل کرنے کا حکم منسوخ ہو گیا۔

3۔ پھر شکاری کتے اور بکریوں کی حفاظت کے لیے پالنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ چنانچہ شکار اور کھیتی اور ریوڑ کی حفاظت کے لیے کتے کو پانے کی اجازت کی صریح روایات حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت ابوہریرہ اور سفیان بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہم سے مروی ہیں۔

صحیح مسلم کتاب المساقات والمزراعہ

عن ابی ہریرۃ عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قال من اقتنی کلبا لیس بکلب صید ولا ماشیۃ ولا ارض فانہ ینقص من اجرہ قیراطان کل یوم

مسلم مترجم ج4 ص306 حدیث: 8193

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے شکار، مویشی اور زمین کے علاوہ کتا پالا یا رکھا) اس کے اجر میں سے ہر روز دو قیراط کم ہوتے رہیں گے۔

اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ ان تین وجہوں سے کتا پالنے کی اجازت ہے۔ یہ اجازت بعد کے زمانے ہی کی ہے۔ جس وقت کتوں کو قتل کرنے کا حکم منسوخ ہو چکا تھا۔

قرآن پاک میں بھی کتے کے شکار کا ذکر ملتا ہے:

فَکُلُوْا مِمَّا اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ

المائدہ:4

تو کھاؤ اس شکار میں سے جو وہ (شکاری کتے وغیرہ) مار کر تمہارے لیے رہنے دیں اور اس پر اﷲ کا نام لو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی بن حاتم سے فرمایا کہ

اذا ارسلت الکلب المعلم وذکرت اسم اﷲ علیہ فاخذ فکل

جب تو اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر سدھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑے اور کتا اسے پکڑ لے تو ایسے شکار کا کھانا تیرے لیے جائز ہے۔

نسائی ج2 ص192

ان روایات کے پیش نظر امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ جب کسی جائز ضروریات کے لیے کتے کو پالنا اور اس سے فائدہ اٹھانا درست ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کی خرید و فروخت کرنا بھی درست ہو گا۔ اسی وجہ سے جن بعض روایات میں کتوں کی خرید و فروخت سے ممانعت آئی ہے۔ خود انہی روایات میں یہ استثناء بھی ثابت ہے چنانچہ دیکھئے مندرجہ ذیل روایات۔

عن جابر ان النبی علیہ الصلوۃ والسلام نہی عن ثمن السنور والکلب الا کلب صید

نسائی کتاب الصید ج2 ص195، دار قطنی ج3 ص73

سنن الکبریٰ بیہقی ج6، ص6، مسند احمد ج3 ص317

حضرت جابر بن عبداﷲ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے بلی اور کتے کی بیع سے منع فرمایا۔ مگر شکاری کتے کی بیع سے۔

عن ابی ہریرۃ قال نھی عن ثمن الکلب الا کلب الصید

ترمذی ج1 ص154، سنن دار قطنی ج3 ص73، سنن الکبری بیہقی ج2 ص6

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہا انہوں نے منع کیا (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے) کتے کی قیمت سے۔ مگر شکاری کتے کی قیمت کو یعنی اس کو منع نہیں کیا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :

رخص رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فی ثمن الکلب الصید

حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے شکاری کتے کی قیمت لینے کی اجازت دی۔

مسند امام اعظم ص169، نصب الرایہ ج4 ص54

اس کے علاوہ طحاوی اور سنن الکبریٰ بیہقی میں عبداﷲ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ اور سنن بیہقی میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے کسی کے شکاری کتے کو قتل کر دیا تو حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص نے قضی فی کلب صید قتلہ رجل باربعین درہما فیصلہ فرمایا کہ کتے کا قاتل اس کے مالک کو چالیس درہم اور بیس اونٹوں کا تاوان ادا کرے۔

بیہقی ص8 ج6، طحاوی ج2 ص228

اگر شکاری کتے کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی تو مندرجہ بالا فیصلہ ہر گز نہ فرمایا جاتا۔

ان روایات میں شکاری کتے کی بیع کی اجازت مذکور ہے جب کہ کھیتی اور ریوڑ کے محافظ کتے کی خرید و فروخت کی اجازت اس پر قیاس کرنے سے ثابت ہو گی اور جو روایت طالب الرحمن نے نقل کی ہے۔ وہ پہلے زمانے کی ہے جب کتوں کو قتل کرنے کا حکم تھا جب شکار اور کھیتی اور ریوڑ کی حفاظت کے لیے کتا رکھنے کی اجازت ہو گئی تو شکاری کتے کی بیع کی اجازت بھی بعد میں ہو گئی تھی۔

فتاویٰ عالمگیری کے حوالہ کی وضاحت

طالب الرحمن نے عالمگیری سے جو مسئلہ نقل کیا ہے اس کا جواب ہماری طرف سے مولانا محمد ایوب نے بڑی تفصیل سے مولانا عبدالعزیز نورستانی غیر مقلد کو دیا ہے ہم وہ بھی یہاں پر نقل کرتے ہیں قارئین کرام کے فائدہ کے لیے۔یہ سوال عبد العزیز نورستانی نے اپنے رسالہ میں احناف سے کیا تھا۔ مولانا ابو ایوب صاحب اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

جس طرح احادیث کی کتابوں میں بعض احادیث صحیح، بعض منسوخ اور بعض ضعیف و متروک ہوتی ہیں۔ اسی طرح کتب فقہ اور اس کے شروح اور فتاویٰ میں بھی بعض اقوال مفتی بہا اور معمول بہا ہوتے ہیں۔ مذہب حنفی اسی سے عبارت ہے۔ اسی طرح بعض غیر مفتی بہا مرجوح اور شاذ اقوال ہوتے ہیں۔

لہٰذا مرجوح اور غیر مفتی بہا اقوال کو بہانہ بنا کر مذہب حنفی پر اعتراضات کرنا یہ منکرین حدیث کا شیوہ ہے، مسلمان کا نہیں کیونکہ منکرین حدیث بھی ضعیف اور موضوع احادیث کو بہانہ بنا کر ذخیرہ احادیث سے انکار کرتے ہیں اور اسلام پر کئی قسم کے اعتراضات کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ اسی طرح ہے کہ کتے اور گدھے کو شرعی طریقہ سے ذبح کر کے اس کا گوشت فروخت کیا جائے تو کیا یہ جائز ہے یا ناجائز؟ اس میں فقہائے احناف کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض جواز کے قائل ہیں۔ اکثر محققین احناف عدم جواز کے قائل ہیں۔جو جائز سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ذبح کرنے کے بعد اس کے گوشت سے نجاست زائل ہوتی ہے اور جن کے نزدیک فروخت کرنا جائز نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ ذبح کرنے سے گوشت سے نجاست زائل نہیں ہوتی یہی قول مفتی بہ اور راجح ہے۔ غیر مقلدین قول اول پر اعتراض کرتے ہیں۔

غیر مقلدین کی خیانت

غیر مقلدین فتاویٰ عالمگیری سے آدھی عبارت نقل کرتے ہیں اور اس مسئلہ میں عالمگیری میں جو اختلاف بیان کیا ہے اس سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر دیتے ہیں۔ عالمگیری میں مسئلہ مذکورہ کے بعد لکھا ہے:

وہذا فصل اختلف المشائخ فیہ بناہ علی اختلافہم فی طہارۃ ہذا اللحم بعد الذبح

فتاویٰ عالمگیری ج3 ص115

”یہ فصل ہے اس میں مشائخ نے اختلاف کیا ہے اختلاف کی بنا ذبح ہونے کے بعد اس گوشت کی طہارت میں اختلاف پر ہے۔“

اسی طرح علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:

فالظاہر منہما ان ہذا الحکم علی القول بطہارۃ عینہ

البحر الرائق ج1 ص103

”ظاہر یہ ہے کہ یہ حکم (بیع کا جواز اور عدم جواز) متفرع ہے اس کی ذات کے طاہر ہونے پر۔“

یعنی جو ذبح کرنے کے بعد بھی گوشت کو نجس کہتے ہیں تو ان کے نزدیک اس کی بیع ناجائز ہے اور جو کہتے ہیں کہ ذبح کرنے کے بعد گوشت سے نجاست زائل ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک اس کی بیع جائز ہے۔ اگرچہ عالمگیری وغیرہ میں لکھا ہے کہ ”مذکورہ گوشت کے جواز بیع کا ثبوت روایت صحیحہ میں ہے۔“

فتاویٰ عالمگیری ج3 ص115

لیکن فتویٰ نجاست اور عدم جواز بیع پر ہے جیسے امام بخاری نے صحیح بخاری میں دو روایتیں ران کی ستر کے متعلق نقل کی ہیں۔

انس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ران ستر میں داخل نہیں ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ران ستر میں داخل ہے۔دونوں روایات صحیح ہیں لیکن انس کی روایت کے متعلق امام بخاری لکھتے ہیں:

وحدیث انس اسند

بخاری ج1 ص53

انس کی روایت کو زیادہ صحیح کہہ کر معلوم ہوا کہ امام بخاری کا رجحان بھی اس طرف ہے کہ ران ستر میں داخل نہیں ہے لہٰذا ان کے نزدیک مفتی بہ قول یہ ہے کہ ران ستر میں داخل نہیں۔

حنفی مذہب کا مفتی بہ قول

احناف کا مفتی بہ مذہب یہ ہے کہ ذبح کرنے کے بعد کتے اور گدھے کے گوشت سے نجاست زائل نہیں ہوتی تو ان کا فروخت کرنا بھی جائز نہیں۔

چنانچہ صاحب بحر الرائق لکھتے ہیں:

وصح فی الاسرار والکفایۃ والتبیین نجاسۃ

البحر الرائق ج1 ص106

صاحب اسرار صاحب کفایہ اور صاحب تبین نے مذکورہ گوشت کی نجاست کو صحیح قرار دیا ہے۔ بحرالرائق ہی میں ہے:

وفی المعراج انہ قول محققین من اصحابنا

البحر الرائق ج1 ص106

کتاب معراج میں ہے کہ مذکورہ گوشت کی نجاست محققین احناف کا قول ہے۔

صاحب بحر الرائق مزید لکھتے ہیں:

وفی الخلاصۃ وہو القول المختار واختارہ قاضی خان فی التبیین انہ قول اکثر المشائخ۔

البحر الرائق ج1 ص106

خلاصہ میں ہے کہ (مذکورہ گوشت کی نجاست) قول مختار ہے اور اسی کو قاضی خان نے اختیار کیا ہے تبیین میں ہے کہ یہ اکثر مشائخ کا قول ہے۔

صاحب بحر نے خود بھی نجاست والے قول کے متعلق فرمایا کہ وہو الصحیح

البحر الرائق ج1 ص106

”یہ صحیح قول ہے۔“

صاحب در مختار لکھتے ہیں:

لا یطھر لحمہ ہذا صح ما یفتی بہ

اس کا گوشت پاک نہیں ہوتا یہ اصح قول ہے جس پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔

مولانا عبدالحئی حنفی لکھتے ہیں:

قال کثیر من المشائخ انہ یطہر جلدہ لا لحمہ وہو الاصح

حاشیہ ہدایہ ج1 ص24

بہت سے مشائخ نے کہا ہے کہ (ذبح کرنے کے بعد) اس کا چمڑا پاک ہو جاتا ہے گوشت پاک نہیں ہوتا اور یہی سب سے صحیح قول ہے۔

علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں:

قال کثیر من المشائخ انہ یطہر جلدہ لا لحمہ وہو الاصح واختارہ الشارحون

فتح القدیر ج1 ص84

بہت سے مشائخ نے کہا ہے (ذبح کرنے کے بعد) اس کا چمڑا پاک ہوتا ہے گوشت پاک نہیں ہوتا اور یہی سب سے صحیح قول ہے اسی کو شارحین نے اختیار کیا ہے۔

علامہ شرنبلالی لکھتے ہیں:

وتطہر الذکدۃ الشرعیۃ جلد غیر الماکول دون لحمہ علی اصح ما یغی بہ

شرعی ذبح غیر ماکول اللحم کے چمڑے کو پاک کرتا ہے گوشت کو پاک نہیں کرتا اصح قول کے مطابق جس پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔

صاحب خلاصہ لکھتے ہیں:

وہو المختار وبہ اخذ الفقیہ ذکرہ صدر الشہید فی صید الفتاوٰی

خلاصۃ الفتاوٰی ص43

یہی قول مختار ہے فقہاء نے اس کو لیا ہے۔ صاحب مراقی الفلاح لکھتے ہیں:

دون لحمہ فلا یطہر علی اصح ما یفتی بہ۔

مراقی الفلاح

اصح مفتی بہ مذہب میں ذبح کرنے سے حرام گوشت پاک نہیں ہوتا۔

صاحب کبیری لکھتے ہیں:

الصحیح ان اللحم لا یطہر بالذکاۃ۔

کبیری ص144

صحیح یہ ہے کہ حرام جانوروں کا گوشت ذبح کرنے سے پاک نہیں ہوتا۔

ملا علی القاری حنفی قائلین بالطہارۃ کے اسماء ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

وقال کثیر من المشائخ یطہرہ جلدہ بھا ولا یطہر لحمہ کما لا یطھر بالدباغ قال شارح الکنز وہو الصحیح واختیارہ صاحب الغایۃ والنہایۃ

شرح النقایۃ ج1 ص20

بہت سے مشائخ نے کہا ہے کہ ذبح کرنے سے چمڑا پاک ہوتا ہے گوشت پاک نہیں ہوتا جیسا کہ دباغت سے پاک نہیں ہوتا شارح کنز نے کہا ہے کہ یہی صحیح ہے اسے صاحب غایہ اور صاحب نہایہ نے اختیار کیا ہے۔

ان حوالہ جات سے ثابت ہوا ہے کہ مذہب حنفی میں اصح اور مفتی بہ قول یہی ہے کہ ذبح کرنے سے حرام جانوروں کا گوشت پاک نہیں ہوتا تو اس کا فروخت کرنا بھی جائز نہیں لیکن یاد رہے کہ غیر مقلدین کے علماء کہتے ہیں کہ شرعی ذبح کے بعد گوشت پاک ہو جاتا ہے۔ چنانچہ غیر مقلد مولانا وحید الزمان لکھتے ہیں:

ما یطہر بالدباغۃ یطہر بالذکاۃ الا لحم الخنزیر فانہ رجس۔

نزل الابرار ج1 ص30

جو دباغت سے پاک ہو جاتا ہے ذبح سے بھی پاک ہو جاتا ہے خنزیر کے گوشت کے ماسو کہ وہ رجس ہے۔

غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان نے کتے کے گوشت، ہڈی، خون، بال اور پسینے کو نجس نہیں کہا۔

بدور الاہلہ ص16

صدیق حسن خان کے بیٹے غیر مقلد نور الحسن لکھتے ہیں کہ کتے اور خنزیر کے نجس کے ہونے کا دعویٰ شراب اور دم مسفوح کے پلید ہونے کا دعویٰ اور مرے ہوئے جانور کے ناپاک ہونے کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔

عرف الجادی

نور ستانی کے دلائل کا تحقیقی جائزہ

نورستانی نے جن روایات سے مذبوح کتے اور گدھے کے گوشت کو فروخت کرنا حرام ثابت کیا ہے (بزم خویش) ان کا مشاہدہ بھی کیجیے کہ واقعی وہ دلائل ان کے مدعی کے مطابق ہے یا صرف اپنے حمایتی اور اپنے مریدین کو خوش کرنے کے لیے یہ ناکام کوشش کی ہے۔

1۔ ابو ثعلبہ خشنی فرماتے ہیں کہ بے شک رسول علیہ الصلوۃ والسلام نے درندوں میں سے ہر داڑ والے درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔

بخاری

2۔ رسول علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک آواز دینے والے کو حکم دیا تو اس نے لوگوں میں منادی کرائی کہ اﷲ اور اﷲ کے رسول تمہیں گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرماتے ہیں۔

بخاری

3۔ رسول علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اﷲ تعالیٰ یہود کو ہلاک کرے ان پر چربی حرام کر دی گئی تو انہوں نے پگھلا کر فروخت کیا پھر اس کے پیسے کو کھایا۔

بخاری و مسلم

4۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جس ذات نے اس (شراب) کے پینے کو حرام قرار دیا ہے اس ذات نے اس کے فروخت کرنے کو بھی حرام قرار دیا ہے۔

مسلم

المبنی للفاعل 4۔5

مشہور ہے ”لن یصلح العطار ما افسدہ الدہر“ بظاہر تو قوم نے ان کے ان علمی جوابات سے خبردار ہو کر خراج تحسین ادا کیا ہو گا بھوکے کو باسی روٹی مل جائے تو خوشی مناتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے قوم کو اندھیرے میں رکھا ہے۔ کیوں جناب! ان چار روایت میں سے کسی ایک روایت میں بھی ذبح کا لفظ ہے؟ حضرت مولانا صاحب دامت برکاتہم نے تو مذبوح کتے اور گدھے کا گوشت فروخت کرنے کی حرمت پر دلیل مانگی تھی جناب نورستانی صاحب نے غیر مذبوح حرام جانوروں کا گوشت اور شراب کی فروخت کے حرام ہونے پر دلائل پیش کردیے۔

جناب من! آپ نے حرام جانوروں کی حرمت پر دلائل پیش کیے اگر جانور حلال بھی ہو لیکن شرعی ذبح کے بغیر مر جائے احناف وغیرہم تو ان کی حرمت کے بھی قائل ہیں۔ چہ جائیکہ حرام جانور۔

البتہ بات شرعی طریقہ پر ذبح کرنے میں ہے کہ ذبح کرنے سے عند البعض حرام جانور کی نجاست زائل ہوتی ہے جیسا کہ مرا ہوا حلال جانور کا کھانا حرام ہے لیکن ان کے چمڑے کو اگر دباغت دی جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے اور ان کا فروخت کرنا بھی جائز ہے چنانچہ ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک برتن سے وضو کا ارادہ کیا کسی نے کہا کہ یہ برتن مرے ہوئے جانور کے چمڑے سے بنا ہے تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس چمڑے کی دباغت اس کے نجاست کو زائل کر دیتی ہے۔

مسند احمد، ابن خزیمہ، حاکم بیہقی، قال الحافظ واسنادہ صحیح تلخیص الحبیر 2/190

بہرحال یہ غیر مفتی بہ اور مرجوح بھی دلائل سے مبرہن ہے لیکن دیگر دلائل کی بنا پر محققین احناف نجاست اور حرمت والے قول کو راجح اور مفتی بہ قرار دیتے ہیں۔ کما مر۔

عاشق حق ص8 تا 18، ترمیم و اضافہ کے ساتھ

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀


No comments:

Post a Comment