*موضوع :سر ڈھانپ کر نماز پڑھنا*
(قسط نمبر ۴)
*مذاہبِ اربعہ کے حوالہ جات*
💫مذہبِ حنفی💫
💫1: والمستحب أن يصلي في ثلاثة ثياب من أحسن ثيابه قميص وأزرار وعمامة•
(مراقی الفلاح لحسن بن عمار الشرنبلالی: ص124)
ترجمہ: مستحب یہ ہے کہ خوبصورت کپڑوں میں نماز ادا کی جائے یعنی قمیص، تہبند اور پگڑی میں۔
2: لو صلى مكشوف الرأس، وهو يجد ما يستر به الرأس؛ إن كان تهاوناً بالصلاة يكره•
(المحیط البرہانی:ج5 ص137)
ترجمہ: اگر سر ڈھانپنے کے لیے کپڑا موجود ہو اس کے باوجود اسے محض اہمیت نہ دیتے ہوئے ننگے سر نماز پڑھے تو یہ مکروہ ہے۔
💫مذہبِ مالکی💫
والسنۃ فی حق الرجل ان یستُر جمیع جسدہ علی الوجہ المشروع فیہ فہو مطلوب بذلک لاجل الامتثال ثم العمامۃ علی صفتہا کما تقدم ذکرہ•
(المدخل لابن الحجاج: ج1 ص142 فصل فی اللباس)
ترجمہ: مرد کے حق میں سنت یہ ہے کہ وہ شرعی طریقہ کے مطابق اپنے جسم کو ڈھانپے اور اللہ کے احکام کی بجا آوری کے پیشِ نظر یہی بات مطلوب ہے، پھر بیان کردہ طریقہ کے مطابق پگڑی باندھ کر سر کو ڈھانپا جائے جیسا کہ اس کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے۔
💫مذہبِ شافعی💫
1: قال أصحابنا يستحب ان يصلي الرجل في أحسن ثيابه المتيسرة له ويتقمص ويتعمم•
(المجموع شرح المہذب للنووی: ج4ص196 باب ستر العورۃ)mmh
ترجمہ: ہمارے حضرات شوافع کہتے ہیں کہ آدمی کو جو خوبصورت لباس میسر ہو وہ پہن کر نماز پڑھے، قمیض بھی پہنے اور پگڑی بھی باندھے۔
2: وَيُسَنُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَلْبَسَ لِلصَّلَاةِ أَحْسَنَ ثِيَابِهِ وَيَتَقَمَّصَ وَيَتَعَمَّمَ•
(تحفۃ المحتاج فی شرح المنہاج: ج6 ص265 باب شروط الصلاۃ)
ترجمہ: آدمی کے لیے نماز میں اچھے سے اچھا لباس پہننا سنت ہے ، قمیص پہنے، پگڑی کے ساتھ سر کو ڈھانپے۔
3: ويسن لرجل والإمام أبلغ أن يصلى في ثوبين مع ستر رأسه ولا يكره في ثوب واحد يستر ما يجب ستره•
(الاقناع لمحمد الشربینی: ج1 ص88)
ترجمہ: آدمی کے لیے سنت یہ ہے کہ دو کپڑوں میں نماز پڑھے اور سر بھی ڈھانپے، اور امام کے لیے تو یہ حکم اور بھی زیادہ تاکید رکھتا ہے اور ایک کپڑے میں نماز پڑھنا جس سے واجب ستر ڈھانکا جا سکے، مکروہ نہیں ہے۔
💫مذہبِ حنبلی💫
ويستحب للرجل حرا كان أو عبدا أن يصلي في ثوبين ذكره بعضهم إجماعا. قال ابن تميم وغيره مع ستر رأسه بعمامة•
(المبدع شرح المقنع لبرہان الدین ابراہیم بن محمد:ج1 ص312)
ترجمہ: آزاد یا غلام کے لیے دو کپڑوں میں نماز پڑھنا مستحب ہے اور بعض علماء نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ ابن تمیم وغیرہ نے کہا ہے کہ پگڑی کے ساتھ سر کو چھپانے کے علاوہ دو کپڑے مراد ہیں۔
*غیر مقلدین کے اکابر کی تصریحات*
🕸️[1]: سید نذیرحسین دہلوی صاحب:
آپ لکھتے ہیں:
اس میں کلام نہیں کہ عمامہ کے ساتھ نماز پڑھناافضل ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ وصحابہ کرامﷺ ومن بعد ھم عام طورعمامہ کی موجودگی میں عمامہ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے حضرت امام مالک ؒ فرماتے ہیں:
ادرکتُ فی مسجدِ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سبعین مُحَنَّكًا و اِنَّ احدَہم لَوِ ائْتُمَنَ علٰی بیت المال لَکان بہ امیناً•
ترجمہ: حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی مسجد میں ستر کے قریب آدمی دیکھے جنہوں نے سرپرپگڑیاں باندھ رکھی تھی اوران میں سے ایک اس درجہ کا آدمی تھاکہ اگر اس بیت المال پرامین بنایاجائے توامین ثابت ہو،علمانے بھی یہ لکھاہے کہ نماز باعمامہ مستحب وافضل ہے۔
”رفع الالتباس عن مسائل اللباس“ میں ہے: شک نہیں کہ نماز باعمامہ کوبے عمامہ پرفضیلت ہے باعتباروقاروسکینہ واتباع سنت کے،حدیث عبادہ ؓ میں فرمایاہے کہ:
علیکم بالعِمامۃ فانھا سِیْمَاءُ الملائکۃ•
(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
ترجمہ: پگڑی سرپررکھاکروکیونکہ یہ فرشتوں کالباس ہے
اورحدیث رکانہ میں فرمایا ہے:
فرق ما بيننا وبين المشركين العمائم على القلانس
(رواہ الترمذی)
ترجمہ: رسول اللہﷺ نے فرمایاہمارے اورمشرکین کے درمیان یہ فرق ہے کہ ہمارے عماموں کے نیچے ٹوپیاں ہوتی ہیں……
ایک اورفتویٰ میں لکھاہے کہ :
جمعہ کی نماز ہویاکوئی اورنماز رسول اللہﷺ اورصحابہ کرامؓ عمامہ باندھ کرنماز پڑھتے تھے اورعمامہ باندھنادربار شاہی کے منافی نہیں ہے بلکہ اسی شہنشاہ احکم الحاکمین نے اپنے دربارمیں حاضر ہونے کی نسبت یہ حکم کیاہے کہ﴿خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾
یعنی تم لوگ ہرنماز کے وقت اپنے کپڑے لے لیاکرو یعنی اپنے کپڑے پہن کرنماز پڑھاکرو اورکپڑے میں عمامہ بھی داخل ہے کیونکہ عمامہ ایک مسنون کپڑاہے۔
(فتاویٰ نذیریہ: ج3ص372، 373)
🕸️[2]: ثناءاللہ امرتسری صاحب:
موصوف لکھتے ہیں:
صحیح مسنون طریقہ نماز کاوہی ہے جوآنحضرت ﷺ سے بالدوام ثابت ہواہے یعنی بدن پرکپڑے اورسرڈھکاہواہوپگڑی سے یاٹوپی سے۔
(فتاویٰ ثنائیہ: ج1ص522 تا 523)
🕸️[3]: سید محمدداؤد غزنوی صاحب
آپ نے اپنے والد بزرگوار امام عبدالجبار کاننگے سرنماز کے خلاف فتویٰ نقل کرکے آخر میں اپنی رائے کایوں اظہارکیاہے:
ابتداءعہد اسلام کوچھوڑ کرجب کہ کپڑوں کی قلت تھی اس کے بعد اس عاجز کی نظر سے کوئی ایسی روایت نہیں گذری جس میں باصراحت یہ مذکورہوکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یاصحابہ کرام نے مسجدمیں اوروہ بھی نماز باجماعت میں ننگے سرنماز پڑھی ہوچہ جائیکہ معمول بنالیاہو، اس لیے اس بدرسم کوجوپھیل رہی ہے بند کرناچاہیے۔
اگر فیشن کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھی جائے تونماز مکروہ ہوگی، اگر تعبد اورخضوع وخشوع وعاجزی کے خیال سے پڑھی جائے تویہ نصاریٰ کے ساتھ تشبہ ہوگا،
اسلام میں ننگے سر رھناسوائے احرام کے تعبد یاخضوع وخشوع کی علامت نہیں اوراگر کسل و سستی کی وجہ سے ہے تومنافقوں کی ایک خلقت سے تشابہ ہوگا۔ وَلَا يَأْتُونَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالیٰ
(نماز کوآتے ہیں توسست اورکاہل ہوکر)غرض ہرلحاظ سے یہ ناپسند یدہ عمل ہے۔
(ہفت روزہ الاعتصام ج11شمارہ نمبر18 وفتاویٰ علمائے حدیث: ج4ص291)
🕸️[4]: عبدالمجیدسوہدروی صاحب:
لکھتےہیں: بطورفیشن لاپرواہی اورتعصب کی بناءپر مستقل اورابدالآباد کے لیے یہ (ننگے سر نمازپڑھنے والی)عادت بنالیناجیسا کہ آج کل دھڑلے سے کیاجارہاہے ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے نبی ﷺ نے خود یہ عمل نہیں کیا۔
(اہلحدیث سوہدرہ ج15شمارہ22وفتاوی علمائے حدیث: ج4ص281)
🕸️[5]: ابوسعید شرف الدین دہلوی:
آپ لکھتے ہیں: بحکم ﴿خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾اور رسول اللہﷺ کاسرپرعمامہ رکھنے سے عمامہ سنت ہے اورہمیشہ ننگے سرکونماز کاشعاربنانابھی ایجادبندہ ہے(یعنی بدعت ہے)اورخلاف سنت ہے گاہے چنیں جس کاحکم اورہے شعارکااورپس اول جائز ثانی ایجاد۔
(فتاویٰ ثنائیہ: ج1ص590)
مزید لکھتے ہیں:
بعض کاشیوہ ہے کہ گھر سے ٹوپی یاپگڑی سرپررکھ کرآتے ہیں اورٹوپی یاپگڑی قصدااتارکرننگے سرنماز پڑھنے کواپناشعار بنارکھاہے اورپھراس کوسنت کہتے ہیں بالکل غلط ہے یہ فعل سنت سے ثابت نہیں ہاں اس فعل کومطلقا ناجائز کہنابھی بیوقوفی ہے۔
[ہم بھی مطلقا ًعدم جواز کے قائل نہیں کسی عذر اور مجبوری کی وجہ سے جائز ہے۔ ناقل] ایسے ہی برہنہ سرکوبلاوجہ شعاربنانابھی خلاف سنت ہے اورخلاف سنت بے وقوفی ہی توہوتی ہے۔
(فتاویٰ ثنائیہ: ج1ص521)
🕸️[6]: مولوی محمد اسماعیل سلفی:
موصوف نے ننگے سرنماز کی عادت کے خلاف بڑاطویل،مدلل،زورداراورفکرانگیزفتویٰ دیاہے، چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:
ننگے سرنماز کی عادت عقل اورفہم کے خلاف ہے عقل مند اورمتدین آدمی کواس سے پرہیز کرناچاہیے۔
آنحضرتﷺ صحابہ کرامؓ اوراہل علم کاطریقہ وہی ہے جواب تک مساجد میں متوارث اور معمول بہاہے کوئی مرفوع حدیث صحیح میری نظر سے نہیں گزری جس سے اس عادت کاجواز ثابت ہوخصوصاًباجماعت فرائض میں بلکہ عادت مبارک یہی تھی کہ پورے لباس سے نماز ادا فرماتے تھے عام ذہن کے لوگوں کو(فی ثوب واحد)اس قسم کی احادیث سے غلطی لگی ہے کہ ایک کپڑے میں نماز(ادا)کی جائے توسرننگارہے گاحالانکہ ایک کپڑے کواگر پوری طرح لپیٹاجائے تو سر ڈھکاجاسکتاہے۔غرض کسی حدیث سے بھی بلاعذرننگے سرنماز کوعادت اختیارکرناثابت نہیں محض بے عملی یابدعملی یاکس کی وجہ سے یہ رواج پڑرہاہے بلکہ جہلاتواسے سنت سمجھنے لگے ہیں العیاذ باللہ کپڑاموجود ہوتوسر ننگے نماز اداکرنایاضد سے ہوگایاقلت عقل سے نیز یہ ثابت ہوتاہے کہ اچھے کپڑوں کے ساتھ تجمل سے نماز پڑھنامستحب اورمسنون ہے آیت ﴿ خُذُوا زِينَتَكُمْ ﴾کے مضمون سے بھی اسی سے وضاحت ہوجاتی ہے۔ ان تمام گزارشات سے مقصد یہ ہے کہ سر ننگارکھنے کی عادت اوربلاوجہ ایساکرنااچھافعل نہیں یہ عمل فیشن کے طورپرروز بروز بڑھ رہاہے یہ اوربھی نامناسب ہے۔۔
ویسے یہ مسئلہ کتابوں سے زیادہ عقل وفراست سے متعلق ہے اگر اس جنس لطیف سے طبعیت محروم نہ ہوتوننگے سرنمازویسے ہی مکروہ معلوم ہوتی ہے۔
(فتاویٰ علماءحدیث ج4ص286تا289)
🕸️[7]: مولوی عبدالستار:
نائب مفتی محکمۃ القضاء الاسلامیہ ، جماعت غرباءاہلحدیث لکھتے ہیں:
ٹوپی یاعمامہ کے ساتھ نماز پڑھنی اولیٰ وافضل ہے کیونکہ ٹوپی اورعمامہ باعث زیب وزینت ہے۔
(فتاویٰ ستاریہ ج3ص59)
🕸️[8]: سید محب اللہ شاہ راشدی:
سید محب اللہ شاہ راشدی غیرمقلد نے حافظ نعیم الحق نعیم کے فتویٰ کہ ننگے سرنماز ہوجاتی ہے، کارد بڑے پرزورانداز اورتحقیقی لب ولہجہ سے کیاہے فتوی بڑاطویل ہے، چند اقتباسات حاضرخدمت ہیں:
”یہ کہنا کہ سر ڈھانپنے پر پسندیدہ ہونے کاحکم نہیں لگایاجاسکتاہے، اس سے راقم الحروف کو اختلاف احادیث کے تبتع سے معلوم ہوتاہے کہ اکثر وبیشتر اوقات آنحضرتﷺ اورصحابہ کرامؓ سرپرعمامہ باندھے رہتے یاٹوپیاں ہوتی تھیں اورراقم الحروف کے علم کی حدتک سوائے حج وعمرہ کوئی ایسی صحیح حدیث دیکھنے میں نہیں آئی جس میں یہ ہوکہ آنحضرت ﷺ ننگے سر گھومتے پھرتے تھے یا کبھی سرمبارک پرعمامہ وغیرہ تھالیکن مسجد میں آکرعمامہ وغیرہ اتارکررکھ لیااورننگے سرنمازپڑھنی شروع کی۔
اگر یہ آنحضرتﷺ کاپسندیدہ معمول نہ ہوتاتو جس طرح سرپرعمامہ یاٹوپی کاثبوت مل رہاہے اس طرح ننگے سر چلتے پھرتے رہنے یاننگے سرنماز پڑھنے کے متعلق بھی روایات ضرورمل جاتیں لیکن اس قسم کی ایک روایت بھی میرے علم میں نہیں آئی، جب یہ آنحضرتﷺ کاپسندیدہ معمول ہواتویہ عمل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاپسند ہوگا۔سرڈھانپ کرچلتے پھرتے یانمازوغیرہ پڑھنے کوپسندیدہ قرارنہ دیناصحیح معلوم نہیں ہوتا اسی طرح ہم نے بڑے بڑے علماءوفضلاءکو دیکھا کہ وہ اکثر وبیشتر سرڈھانپ کرچلتے پھرتے اور نماز پڑھتے ہیں یہ آج کل جونئی نسل خصوصا اہل حدیث جماعت کے افراد کامعمول بنارکھاہے اسے چلتے ہوئے فیشن کااتباع توکہاجاسکتاہے۔ مسنون نہیں یاکسی چیز کے جائز ہونے کایہ مطلب ہے کہ مندوبات و مستحبات کوبالکل ترک کر دیا جائے لیکن آج کل کے معمول سے تویہ ظاہر ہورہاہے کہ کتب احادیث میں جوجومندوبات ومستحبات، سنن ونوافل کے ابواب موجود ہیں یہ سراسر فضول ہیں اورہمیں صرف جواز اور رُخص پر ہی عمل کرناہے یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے ہمیں کیاضرورت پڑی ہے کہ ان(یعنی حنفیوں) کے لیے مستحبات کاخاتمہ بھی کردیں اورننگے سر نماز پڑھنے کاکوئی دائمی معمول بنالیں پھراگر یہی مقصودتھا تو گھر سے ہی ننگے سر آتے اورنماز پڑھ لیتے لیکن یہ عجیب طرفہ تماشا ہے کہ گھر سے توٹوپی وغیرہ سر پررکھ آتے ہیں لیکن مسجد میں داخل ہوکرسرسے ٹوپی وغیرہ اتارکرایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ اورنماز شروع کردیتے ہیں۔
اب عوام میں یہ غلط فہمی پھیلتی جاتی ہے کہ گھر سے توٹوپی وغیرہ سرپررکھ کر آنا چاہیے لیکن مسجد میں آکراس کو اتار دینا چاہیے اورننگے سرہی نمازپڑھنی چاہیے۔ کیونکہ یہی سنت رسول ﷺ ہے اس لیے کہ اہلحدیث جماعت کے بہت سے افراد کااس پرعمل ہے۔اب آپ ہی سوچیں کہ یہ کتنی بڑی غلطی ہے اوریہ محض اہلحدیثوں کے طرز عمل سے ہی پیداہورہی ہے حالانکہ صحیح توکجامجھے توایسی ضعیف حدیث بھی نہیں ملی جس میں یہ ہوکہ آنحضرت ﷺ گھرسے تواس حال میں نکلے کہ سرپرعمامہ وغیرہ تھالیکن مسجد میں آتے ہی اس کو اتار لیا اور ننگے سرنماز پڑھی، پھراس کودائمی اورمستمرہ معمولات میں سے بنانے کی وجہ سے لوگوں کوکیایہ خیال نہ گزرتاہوگاکہ آنحضرت ﷺ کی سنت ہے تواس غلط فہمی کے دورکرنے کے لیے بھی کیایہ اہم وپسندیدہ بات نہیں کہ اکثر وبیشتر سرڈھانپ دیاجائے خواہ نمازمیں خواہ اس سے باہر تاکہ یہ غلطی رفع ہوجائے۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے جواز کے ثبوت سے اس کانزلہ یہ حضرات صرف اسی بیچاری ٹوپی وغیرہ پرہی کیوں گرانے پرمصرہیں۔
اگر ننگے سر نماز پڑھنے کے مسنون ہونے کامدارآپ حضرات ایک کپڑے میں نماز پڑھنے والی حدیث پرہی رکھتے ہیں توبسم اللہ آپ گھر سے ہی ایک کپڑے میں آئیں اور نماز بھی پڑھ لیں اوریہ اچھی ستم ظریفی ہے کہ گھر سے توقمیض،شلوار،کوٹ، وغیرہ پہن کرآتے ہیں اورمسجد میں دخول کے بعد صرف پگڑی یاٹوپی اتارکرنمازپڑھنی شروع کردی، یاللعجب۔
مجھے توسرڈھانپنا ہرحال میں بہتر اولی اورمستحب و مندوب نظرآتاہے۔
(الاعتصام، مجریہ22 دسمبر 1989ءج45شمارہ27)
🕸️[10]: مولوی عبیدا للہ عفیف:
موصوف لکھتے ہیں:
قرآن مجید کے اطلاق، رسول اللہ ﷺ کے ارشاد،صحابہ کرامؓ کی تصریحات، شارحین حدیث کی تحقیقات اورشیخ امام ابن تیمیہ ودیگر مفتیان عظام کے فتاویٰ جات زیب قرطاس کرنے کے بعد اتمام حجت کے طورپرعملی توارث بھی پیش کردینا نامناسب نہ ہوگا۔
سوواضح رہے کہ رسول اللہﷺ صحابہ کرام سلف صالحین اوراہل علم کاطریق وہی رہاہے جو شروع سے اب تک مساجد میں متوارث ومعمول بہاچلاآرہاہے یعنی رسول اللہﷺ اورسلف صالحین کی عادت یہی تھی کہ پگڑی یاٹوپی سمیت پورے لباس میں نماز ادافرماتے تھے لیجئے پڑھیئے اوراس غلط رواج پرکچھ غورفرمائیے!
ایک اورمقام پرلکھتے ہیں:
خلاصہ کلام یہ ہے اس (ننگے سر نماز پڑھنے)کورسول اللہﷺ کی سنت اورعادت مبارک سمجھنا صحیح نہیں بلکہ اس جواز کوشعاربنالینابد رسم اورایجادبندہ(یعنی بدعت) ہے اورعافیت اس کے ترک ہی میں ہے۔ پس پورالباس قمیض،تہبنداورپگڑی وغیرہ پہن کراوربن ٹھن کرنماز پڑھنی چاہیے،کیونکہ رسول اللہﷺ کی عادت مستمرہ اورسلف وخلف اہل علم کامتواترعمل یہی رہاہے کہ وہ پگڑی اورٹوپیوں کے ساتھ نمازپڑھاکرتے تھے اوریہی طریق سنت اورافضل ہے۔ کوئی ایسی مرفوع حدیث صحیح اورصریح میرے ناقص علم ومطالعہ میں نہیں گزری جس سے اس عادت اور فیشن کاثبوت ملتا ہوچہ جائے کہ اس رواج اوربدرسم کوسنت کہاجائے یااس کوسنت باورکرانے کے لیے اشہب قلم کو مہمیز کی جائے اوراضطراب کاباب اس سے الگ ہے۔
(فتاویٰ محمدیہ بترتیب مبشر احمد ربانی: ج1ص385)🎯🎯🎯
No comments:
Post a Comment