بریلوی اعتراضات اور تاویل کا جواب حضرات مفسرین کرام سے
اعتراض1
احمد رضا صاحب اور ان کی جماعت کے نزدیک ”تبیانا لکل شئی “ کی آیت سے ہر ہر ذرہ کا اور ہر ہر رطب ویابس کا علم ثابت ہوتا ہے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ قرآن کریم میں ہر ہر چیز کا علم ہے اور محض بیان ہی نہیں بلکہ روشن بیان اور صرف مجمل ہی نہیں بلکہ مفصل ۔۔۔چناچہ احمد رضا صاحب لکھتے ہیں کہ ” جب فرقان مجید ہر شے کا بیان ہے اور بیان بھی کیسا روشن اور روشن بھی کس درجے کا مفصل “ (انباءالمصطفےٰ ص 3)
اب ملاحظہ فرمائیں کہ حضرات مفسرین کرام رحمھم اللہ نے ”تبیانا لکل شئی “ اور اسی مضمون کی دوسری آیات کا کیا مطلب بیان فرمایا ہے
1
علامہ بغوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
تبیانا لکل شئی یحتاج الیہ من الامر و النھی والحلال و الحرام والحدود والاحکام
یعنی ہر وہ چیز جس کی امر و نہی اورحلال حرام اور حدود و احکام میں جس کی ضرورت پڑتی ہو
(معالم التنزیل ج 2 ص 212)
2
علامہ ابو البرکات نسفی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
تبیانا لکل شئی من امور الدین امافی الاحکام المنصوصة فظاھر وکذا فیما ثبت بالسنة او بالا جماع او بقول الصحابی او بالقیاس لان مرجع الکل الیٰ الکتاب حیث امرنا فیہ باتباع رسولہ وطاعتہ
یعنی تبیانا لکل شئی سے امور دین کا بیان مراد ہے احکام منصوصہ میں تو بالکل ظاہر ہے اور اسی طرح جو احکام سنت یا اجماع یا قول صحابی یا قیاس سے ثابت ہیں کیوں کہ ان سب کا مرجع کتاب اللہ ہی ہے کہ اس میں ہمیں آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور طاعت کا حکم دیا گیا ہے
(المدارک ج 1 ص 442)
3
علامہ معین بن صفی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
تبیانا لکل شئی بیانابلیغا لکل شئی یحتاجون الیہ من امور دین
یعنی تبیانا لکل شئی کا مطلب یہ ہے کہ اقرآن میں امور دین کی ہر ایسی چیز کا بیان بلیغ موجود ہے جس کی لوگوں کو حاجت پڑتی ہے
(جامع البیان ج 1 ص 232)
4
علامہ خازن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
قال مجاھد یعنی لما امر بہ وما نھی عنہ وقال اھل المعانی تبیانا لکل شئی یعنی من امور الدین اما بالنص علیہ او بالاحالة علیٰ ما یوجب العلم بہ من بیان النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم لان النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم بین مافی القراٰن من الاحکام والحدود والحلال والحرام و جمیع الما مورات والمنھیات و اجماع الامت فھو ایضا اصل و مفتاح لعلوم الدین
یعنی حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تبیانا لکل شئی سے مامور بہ اور منہی عنہ مراد ہے اور اہل معانی فرماتے ہیں کہ تبیانا لکل شئی سے امور دین مراد ہیں یا تو نصوص کی وجہ سے اور یا اس لئے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے اس کا ثبوت ملتا ہے کیوں کہ آپ نے قرآن کریم کے پیش کردہ احکام اور حدود اور حلال و حرام اور تمام مامورات اور منہیات بیان فرمائے ہیں اور اجماع امت کے ساتھ جو کچھ ثابت ہے وہ بھی اس میں داخل ہے کیوں کہ اجماع بھی علوم دین کی ایک اصل اور مفتاح ہے۔
(تفسیر خازن ج 4 ص 90)
نیز وہ لکھتے ہیں کہ
بین فی ھذہ الایة الما مور بہ و المنھی عنہ علیٰ سبیل الاجمال فما من شئی یحتاج الیہ الناس فی امر دینھم مما یجب ان یوتی بہ او یترک الا وقد اشتملت علیہ ھذہ الایة
یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مامور بہ و منہی عنہ کو علیٰ سبیل الاجمال بیان فرمایا ہے سو کوئی ایسی چیز نہیں جس کی ھاجت لوگوں کو امور دین میں پیش آئے جس کا ذکر کرنا یا چھوڑنا واجب ہے مگر اس کا بیان اس آیت میں کردیا گیا ہے
(خازن ج 4 ص 91)
5
قاضی بیضاوی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
تبیانا لکل شئی من امور الدین
یعنی امور دین کی واضح تشریح اس میں موجود ہے (تفسیر بیضاوی ج 1 ص 450)
6
علامہ جلال الدین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
تبیانا لکل شئی یحتاج الناس الیہ من امر الشریعة
یعنی ہر وہ چیز مراد ہے جس کی لوگوں کو امر شریعت میں حاجت ہوسکتی ہے
یعنی ہر وہ چیز مراد ہے جس کی لوگوں کو امر شریعت میں حاجت ہوسکتی ہے
(جلالین ص224)
اور امام رازی رحمتہ اللہ علیہ نے اسی کے قریب (تفسیر کبیر ج 20 ص 99) لکھا ہے ۔
7
بلکہ امام رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
اما العلوم التی لیست دینیة فلا تعلق لھا بھذہ الایة
یعنی بہر حال وہ علوم جو دینی نہیں تو ان کا آیت سے کوئی تعلق نہیں
(تفسیر کبیر ج 20 ص 99)
8
اور ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
تبیانا لکل شئی قال ابن مسعود بین لنا فی ھذا القراٰن کل علم و کل شئی وقال مجاھد کل حرام و حرام و قول ابن مسعود اعم و اشمل فان القراٰن اشمل علیٰ کل علم نافع من خبر ماسبق وعلم ما سیاتی وکل حلال و حرام وما الناس الیہ محتاجون فی امر دنیا ھم و دینھم و معاشھم و معادھم
یعنی ”تبیانا لکل شئی “کا مطلب حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کریم میں ہر علم اور ہر شئے بیان کی ہے ۔۔۔اور حضرت مجاہدرحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہر حلال اور حرام بیان کیا گیا ہے اور حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کا قول اعم اور اشمل ہے کیوں کہ قرآن کریم ہر نافع علم پر مشتمل ہے جس میں پہلے کے لوگوں کی خبریں ہیں ،اور آئیندہ آنے والے واقعات کا علم ہے اور ہر حلال حر ام کا ،اور اسی طرح لوگ اپنے دین و دنیا اور معاش معاد میں جس چیز کے محتاج ہیں اس میں یہ سب کچھ بیان کیا گیا ہے
(تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 582)
9
علامہ السید محمود آلوسی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
والمراد من کل شئی علیٰ مذھب الیہ جمع مایتعلق بامور الدین ای بیانا بلیغا لکل شئی یتعلق بذٰلک ومن جملتہ احوال الامم مع انبیائھم علیھم السلام وکذا ما اخبرت بہ ھذا الاٰیة من بعث الشھداءوبعثہ علیہ الصلوة والسلام فانتظام الاٰیة بما قبلھا ظاھر والدلیل علیٰ تقدیر الوصف المخصص للشئی المقام وان بعثة الانبیاءعلیھم الصلوة والسلام انما ھی لبیان الدین
یعنی کل شئی سے مراد جیسا کہ حضرات مفسرین کرام کی ایک بڑجماعت اس طرف گئی ہے وہ امور ہیں جو دین سے متعلق ہوں یعنی امو دین کی پوری تشریح اس میں مذکور ہے اور منجملہ ان کے وہ حالات بھی اس میں مندرج ہیں جو امم سابقہ کو حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کے ساتھ پیش آئے اوراسی طرح اس آیت میں اس کا بیان بھی ہے کہ قیامت کے دن دیگر گواہوں کی شہادتیں اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی گواہی کیسے ہوگی ؟اس اعتبار سے آیت کا ماسبق کے ساتھ ربط بھی بالکل ظاہر ہے اور کل شئی سے امور دین کے وصف مخصص کی ضرورت بحسب مقام ضروری ہے علاہ بریں حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کی دنیا میں بعث ہی بیان دین کے لئے ہوتی ہے لہٰذا امو دین کی قید لگائی گئی ہے(روح المعانی ج 14 ص 214)
یہ جتنے بھی حضرات مفسرین کرام ہیں تمام معتبر اور مستند ہیں اور اہل سنت والجماعت کے مسلم مفسر ہیں
اعتراض2
فلم یدع شیئا“کی شرح
فلم یدع شیئا“کی شرح میں حضرت ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں
ای مما یتعلق بالدین مما لا بد منہ
یعنی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں دین کی ہر ضروری بات کو بیان فرمایا
(مرقات ج 5 ص8 )
شیخ عبد الحق رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں
ای مما یتعلق بالدین ای کلیاتہ اوھومبالغة اقامة للاکثر مقام الکل
یعنی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں دین کی ہر ضروری بات کو بیان فرمایا یا مبالغہ کے طور پر اکثرچیزوں کو ”کل“ کہا گیا
(لمعات ہامش مشکوٰة ج2 ص437 )
نیز لکھتے ہیں
فلم یدع شیئا پس نگذاشت چیز یرااز قواعد مہمات دین کہ واقع میشود تاقیامت مگر آنکہ ذکر کرد آنرایا ایں مبالغہ است بگر دانیدن اکثر درحکم کل
سو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے لئے قواعد اور مہمات دین میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑی جو بیان نہ فرمادی اور یا یہ مبالغہ ہے جس میں” اکثر“کو” کل“ کے معنی میں کر دیا گیا ہے
(اشعتہ اللمعات ج 4 ص181 )
ں۔مگر یہاں شیخ عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ نے خود بیان فرمادیا کہ ایسے عام لفظ کو کبھی مبالغتہ”ً اکثر“ کے معنی میں لیا جاتا ہے ،اس سے ہر مقام پر ”کل حقیقی“ اور”عموم استغراقی“ ہی مراد نہیں ہوتی اور جس جس مقام پر ایسے عام لفظ آتے ہیں ان کو دیگر دلائل کی رو سے یہی مطلب اور معنی لیا جائے گا کہ مبالغتہً ”اکثر“ کو” کل“ کے معنی میں لیا گیا ہے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا (المتوفاة 59 ھ)سے روایت ہے
وہ فرماتی ہیں کہ دو فریق اپنا ایک مقدمہ لے کر جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ،آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فریقین کو مخاطب کرکے یوں ارشاد فرمایا
انما انا بشر وانہ یاتینی الخصم فلعل بعضکم ان یکون ابلغ من بعض فا حسب انہ صادق فا قضی لہ بذالک فمن قضیت لہ بحق مسلم فانما ھی قطعة من النار فلیا ءخذ ھا او لیترک
یعنی سنو میں انسان ہوں جو سنتا ہوں اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں،بہت ممکن ہے کہ ایک شخص زیادہ حجت بازاور چرب زبان ہواور میں اس کی باتوں کو صحیح جان کراس کے حق میں فیصلہ کردوں اور فی الواقع وہ حقدار نہ ہوتو وہ سمجھ لے کہ وہ اس کے لئے جہنم کا ٹکڑا ہے اب اسے اختیار ہے کہ اسے لے لے یا چھوڑ دے
(بخاری ج 2 ص 1065 )(مسلم ج 2 ص 74 ) (موطا امام مالک ص 299 )(نسائی ج 2 ص 261 )(ابو داود ج 2 ص 148 )(ابن ماجہ ص 168 )(طحاوی ج 2 ص 284 )(سنن الکبریٰ ج 10 ص 143 )
یہ روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔(بخاری کتاب الاحکام:باب من قضی لہ بحق اخیہ فلا یا خذہ ۔۔۔۔ح :7181)(مسلم کتاب الاقضیة :باب بیان ان حکم الحاکم لا بغیر باطن،ح:1713 )(ابن ماجہ ص 168 )(مسند احمد ج 2 ص 332 )
ابو داؤد میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ(میں تمہارے درمیان اپنی سمجھ سے ان امور میں فیصلہ کرتا ہوں جن میں کوئی وحی مجھ پر نازل شدہ نہیں ہوتی) ابو داؤدکتاب القضاہ:باب فی القضا ءالقاضی اذا خطاء۔ح:3585(صحیح)
حضرت امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی الشافعی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 676 ھ ) اسی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
معناہ التنبیہ علیٰ حالة البشریة وان البشر لایعلمون من الغیب وبواطن الامور شیئا الاان یطلعھم اللہ تعالیٰ علیٰ شئی من ذٰلک وانہ یجوز علیہ فی امور الاحکام مایجوز علیھم وانہ یحکم بین الناس بالظاھر واللہ یتولی السرائر فیحکم بالبینة وبالیمین ونحو ذٰلک من احکام الظاھر مع امکان کونہ فی الباطن خلاف ذٰلک (شرح مسلم ج 2 ص 74 )
یعنی اس کا منشا یہ ہے کہ حالت بشریت پر تنبیہ کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ بشر کو غیب اور باطنی امور کا علم نہیں ہوتا بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز پر ان کو مطلع کردے اور اس سے یہ بھی بتانا ہے کہ فصل خصومات میں جس طرح دوسروں سے خلاف واقع فیصلہ کرنا ممکن ہے اسی طرح آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے بھی ممکن ہے اور آپ بھی لوگوں کے درمیان ظاہری حال پر فیصلہ کرتے ہیں اور اندرونی رازوں کا معاملہ خدا سے ہے سو آپ شہادت اور قسم وغیرہ ظاہری قرائن کے ذریعہ ہی فیصلہ صادر فرماتے ہیں اور اس کا امکان ہے کہ واقع میں معاملہ اس کے خلاف ہو
معناہ التنبیہ علیٰ حالة البشریة وان البشر لایعلمون من الغیب وبواطن الامور شیئا الاان یطلعھم اللہ تعالیٰ علیٰ شئی من ذٰلک وانہ یجوز علیہ فی امور الاحکام مایجوز علیھم وانہ یحکم بین الناس بالظاھر واللہ یتولی السرائر فیحکم بالبینة وبالیمین ونحو ذٰلک من احکام الظاھر مع امکان کونہ فی الباطن خلاف ذٰلک (شرح مسلم ج 2 ص 74 )
یعنی اس کا منشا یہ ہے کہ حالت بشریت پر تنبیہ کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ بشر کو غیب اور باطنی امور کا علم نہیں ہوتا بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز پر ان کو مطلع کردے اور اس سے یہ بھی بتانا ہے کہ فصل خصومات میں جس طرح دوسروں سے خلاف واقع فیصلہ کرنا ممکن ہے اسی طرح آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے بھی ممکن ہے اور آپ بھی لوگوں کے درمیان ظاہری حال پر فیصلہ کرتے ہیں اور اندرونی رازوں کا معاملہ خدا سے ہے سو آپ شہادت اور قسم وغیرہ ظاہری قرائن کے ذریعہ ہی فیصلہ صادر فرماتے ہیں اور اس کا امکان ہے کہ واقع میں معاملہ اس کے خلاف ہو
ابن حجر العسقلانی الشافعی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 852 ھ) فرماتے ہیں:
قولہ انماانا بشر ،ای کواحد من البشر فی عدم علم الغیب
”میں بشر ہوں یعنی علم غیب نہ ہونے میں دوسرے انسانی افراد کی طرح ہوں
قولہ انماانا بشر ،ای کواحد من البشر فی عدم علم الغیب
”میں بشر ہوں یعنی علم غیب نہ ہونے میں دوسرے انسانی افراد کی طرح ہوں
(فتح الباری ج3 ص 139 )
اور دوسرے مقام پر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں
اتی بہ رداعلیٰ من زعم ان من کان رسولا فانہ یعلم کل غیب
انما ان بشر“کا جملہ خاص طور پر ان لوگوں کے باطل خیال کی تردید کے لئے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول کو کلی علم غیب ہوتا ہے
(فتح الباری ج 13 ص151 )
علامہ بدر الدین العینی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 855ھ )لکھتے ہیں
انما انا بشر ۔یعنی کواحد منکم ولا اعلم الغیب و بواطن الامور کما ھو مقتضی الحالة البشریة وانا حکم بالظاھر
میں تمہاری طرح ایک بشر ہی ہوں اور میں غیب کا علم نہیں رکھتا اور تمہارے معاملات کے اندرونی احوال کو میں نہیں جانتا جیسا کہ بشریت کا تقاضا ہوتا ہے اور میں تو صرف ظاہری حال پر ہی فیصلہ دیتا ہوں
(عمدة القاری ج 11 ص271 )
اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے دوسرے مقام پر یوں رقمطراز ہیں
انما انا بشر ۔ای من البشر ولا ادری باطن ماتتحا کمون فیہ عندی وتختصمون فیہ لدی وانما اقضی بینکم علیٰ ظاھر ماتقولون فاذا کان الانبیاءعلیھم الصلوة والسلام لایعلمون ذٰلک فغیرجائزان یصح دعویٰ غیرھم من کاھن او منجم العلم وانما یعلم الانبیاءمن الغیب ما اعلمو بہ بوجہ من الوحی
یعنی میں انسانوں میں سے ایک بشر ہوں اور جو مقدمات تم میرے پاس لاتے ہو تو ان کے باطن کو میں نہیں جانتا اور میں تو تمہاری ظاہری باتوں کو سن کر ہی فیصلہ کرتا ہوں ۔(علامہ عینی فرماتے ہیں ) جب حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام غیب اور باطنی امور نہیں جانتے تو نجومی اور کاہن وغیرہ کا غیب اور باطنی امور کے علم کا دعوی کیسے جائز اور صحیح ہوسکتا ہے ؟اور حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام بھی غیب کی صرف وہی باتیں جانتے ہیں جن کا بذریعہ وحی ان کو علم عطاءکیا گیا ہو
(عمدة القاری ج 11 ص 411)
قسطلانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں
انما انا بشر ۔مشارک لکم فی البشریة بالنسبہ لعلم الغیب الذی لم یطلعنی اللہ علیہ وقال ذالک توطئة لقولہ وانہ یاتینی الخصم الخ فلا اعلم باطن امرہ
یعنی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ”انما انا بشر “ اُن لوگوں کی تردید کے لئے ارشاد فرمایا جو یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول کو کل غیب کا علم ہوتا ہے حتی کہ اس پر مظلوم اور ظالم مخفی نہیں رہتے
(ارشاد الساری ج 10ص 204 )
یہی علامہ قسطلانی رحمتہ اللہ علیہ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں
اتی بہ علی الرد علیٰ من زعم ان من کان رسولا یعلم الغیب فیطلع علی البواطن ولا یخفی علیہ المظلوم و نحو ذٰلک فا شاران الوضع البشری یقتضی ان لاید رک من الامور الاظواھر ھا فانہ خلق خلقا لا یسلم من قضا یا تحجبہ عن حقائق الاشیاءفاذا ترک علیٰ ماجبل علیہ من القضایا البشریة ولم یوید بالوحی السماوی طراءعلیہ ماطراءعلی سائرالبشر
یعنی انماانا بشر ۔آپ نے ان لوگوں کی تردید کے لئے ارشاد فرمایا جو یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول کو غیب کا علم ہوتا ہے اور وہ باطن پر مطلع ہوتا ہے اور اس پر مظلوم وغیرہ مخفی نہیں رہتا ،آپ نے اس ارشاد میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وضع بشری اس کا مقتضی ہے کہ وہ صرف ظاہری امور کا ادارک کرے کیوں کہ بشر ایک ایسی مخلوق ہے کہ اس کے اور حقائق اشیاءکے ادارک کے درمیان پردے حائل ہوجاتے ہیں ۔جب اس کی جبلت بشری تقاضوں پر چھوڑ دیا جائے اور وحی سماوی سے تائید نہ ہو تو اس پر باوجود رسول ہونے کے وہی کچھ طاری ہوتا ہے جو تمام انسانوں پر طاری ہوتا ہے ۔
(ارشاد الساری ج ۴ ص ۲۱۴)
علامہ علی بن احمد العزیزی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 1070 ھ) لکھتے ہیں
انما انا بشر ۔ای من البشر والمراد انہ مشارک البشر فی اصل الخلفة وان زاد علیھم بالزایا التی اختص بھا فی ذاتہ قالہ ردا علی من زعم ان من کان رسولا فانہ یعلم کل غیب حتی لایخفی علیہ المظلوم
میں انسانوں میں سے ایک انسان ہوں اور بشر ہوں مراد یہ ہے کہ آپ اصل خلقت میں انسانوں کے ساتھ شریک ہیں اگر چہ دیگر فضائل مختصہ میں وہ دوسرے انسانوں سے برتر ہیں ،اس ارشاد میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی تردید فرمائی جو یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول کل غیب جانتے ہیں حتی کہ اُن پر مظلوم مخفی نہیں رہ سکتا
(السراج المنیر ج2 ص43 )
علامہ شہاب الدین احمد الخفاجی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 1069 ھ) لکھتے ہیں
وانما انا بشر ۔لااعلم الغیب وانکم تختصمون الی
یعنی میں تو بشر ہی ہوں ،میں غیب نہیں جانتا اور تم اپنے جھگڑے میرے پاس لاتے ہو
(نسیم الریاض ج 4 ص 261 )
علامہ الحسین بن عبد اللہ بن محمد الطیبی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 743ھ ) لکھتے ہیں
انما انا بشر۔ان الوضع البشری یقتضی ان لایدرک من الامور الاظاہر ھا وعصمتہ انما ھو عن الذنوب فانہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم لم یکلف فیما لم ینزل فیہ الا ما کلف غیرہ وھو الاجتھاد
میں تو بشر ہی ہوں اور وضع بشری اس کو نہیں چاہتی کہ وہ امور ظاہرہ کے علاوہ امور باطنہ کا بھی ادراک کرے ۔رہا آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا معصوم ہونا ،تو وہ گناہوں سے ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اُن احکام میں جن میں وحی نازل نہیں ہوئی تھی،اُسی چیز کا مکلف قرار دیا ہے جس کا دوسروں کو مکلف بنایا اور وہ اجتہاد ہے
(بحوالہ انجاح الحاجہ ص 169 )
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
ثم لیعلم انہ یحب ان ینفی ٰعنھم صفات الواجب جل مجدہ من العلم بالغیب و القدرة علیٰ خلق العالم الیٰ غیر ذٰلک ولیس ذٰلک بنقص (الیٰ ان قال بعد عدة السطر)و ان استدل بقولہ علیہ الصلوة والسلام فتجلی لی کل شئی قلنا ھو بمنزلة قولہ تعالیٰ فی التوراة تفصیلا لکل شئی والا صل فی العمومات التخصیص بما یناسب المقام ولو سلم فھذا عند وضع اللہ یدہ بین کتفیہ ثم لما سری عنہ ذٰلک فلا بُعد من ان یکون تعلیم تلک المور ثانیا فی حالة اُخری
یعنی پھر جاننا چاہیے کہ واجب ہے کہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام سے باری تعالیٰ کی صفات کی نفی جائے مثلاً علم غیب اور جہان کے پیدا کرنے کی قدرت وغیرہ اور اس میں کوئی تنقیص نہیں ہے (پھر کئی سطور کے بعد فرمایاکہ)اور اگر کوئی شخص آپ کے علم غیب پر ”فتجلی کل شئی “(کی حدیث )سے استدلال کرے تو ہم اس کو یوں جواب دیں گے کہ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ تورات کے بارے میں تفصیلا ً لکل شئی آیا ہے اور اصل عمومات میں مقام کے مناسب تخصیص کرنا ہے اور اگر یہ تجلی ہر ایک چیز لے لئے بھی تسلیم بھی کرلی جائے تو یہ صرف اس وقت کے لئے تھی جب کہ اللہ تعالیٰ نے دست قدرت آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی پشت پر رکھا تھا پھر جب اللہ تعالیٰ نے دست قدرت اٹھالیا تو یہ تجلی اور انکشاف بھی جاتا رہا سو اس میں کوئی بُعد نہیں کہ اس کے بعد دوسری حالت میں آپ کو دوبارہ ان امور کی تعلیم دی گئی ہو
(تفہیمات الٰہیہ جلد 1 صفحہ 24،25 )
چناچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ،علامہ بغوی رحمہ اللہ،علامہ عینی رحمہ اللہ،علامہ سیوطی رحمہ اللہ،علامہ آلوسی رحمہ اللہ،ملااحمد جیون الحنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
نقل فی نزولھا ان حارث بن عمر جاءالیٰ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم وقال اخبرنی عن الساعة ایان مرسھا وقد زرعت بذافاخبرنی متی ینزل الغیث وامراءتی حاملة فاخبرنی عما فی بطنھا ذکرام انثیٰ واعلم ماوقع امس واخبرنی عما یقع غدا وعلمت ارضا ولدت فیھا اخبرنی عما ادفن فیہ فنزلت الآیة المذکورة فی جوابہ یعنی ان ھذا الخمسة فی خزانة غیب اللہ لایطلع علیہ احد من البشر والملک والجن
(ابن کثیر جلد3 صفحہ 455)(معالم التنزیل،جلد 3 صفحہ 156)(عمدة القاری جلد 11 صفحہ 519)(درمنشور جلد5 صفحہ170) (روح المعانی جلد21 صفحہ97) (تفسیر احمدی صفحہ 396)
یعنی اس کا شان نزول یہ نقل کیا گیا ہے کہ حارث بن عمررضی اللہ عنہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے سوال کیا مجھے بتائےے کہ قیامت کب آئے گی اور کب اس کا قیام ہوگا،اور میں نے کھیتی بو کر اس میں بیج ڈالا ہے بتائیے بارش کب ہوگی،اور میری بیوی حاملہ ہے فرمائےے کہ اس کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی،مجھے تو یہ علم ہے کہ گذشتہ کل میں کیا ہوا ،آپ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم مجھے بتائےے کہ آنے والے کل میں کیا کچھ ہوگا ؟اور مجھے علم ہے کہ میں کس زمین میں پیدا ہوا آپ مجھے یہ بتائیں کہ میں کہاں دفن کہاں ہوں گا۔آپ کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئیں کہ یہ پانچ چیزیں اللہ تعالیٰ کے خزانہ غیب میں ہیں ان پر نہ تو کوئی بشر اور فرشتہ مطلع نہ ہوسکا ہے اور نہ جن
امام رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
”اس آیت مبارک کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ بس انہی پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے کیوں کہ اُ س کا ذرہ بے مقدار کا علم بھی اللہ ہی کو ہے جو مثلاطوفان نوح کے زمانے میں ریت کے کسی ٹیلے میں تھا اور بعد میں ہوا نے اُس کو بار ہا مشرق سے مغرب کی طرف منتقل کیا“(تفسیر کبیر،جلد 6 صفحہ503)
”اس آیت مبارک کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ بس انہی پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے کیوں کہ اُ س کا ذرہ بے مقدار کا علم بھی اللہ ہی کو ہے جو مثلاطوفان نوح کے زمانے میں ریت کے کسی ٹیلے میں تھا اور بعد میں ہوا نے اُس کو بار ہا مشرق سے مغرب کی طرف منتقل کیا“(تفسیر کبیر،جلد 6 صفحہ503)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم قال مفاتح الغیب خمس لایعلمھا الااللہ لایعلم مافی غدا لااللہ ولا یعلم ماتغیض الارحام الااللہ ولا یعلم متی یاءتی المطراحد الااللہ ولاتدری نفس بای ارض تموت ولایعلم متی تقوم الساعة الااللہ “ (بخاری ج 1ص 141۔و ۔ج 2ص 681۔۔و ۔۔ج2 ص 1097)واللفظہ لہ مسلم و مسند احمد ج 2 ص 24۔۔و ج 2 ص 52۔۔و ۔۔ج 2ص 58 ) (درمنشور ج 3 ص15۔۔و۔۔ج 5 ص170)(مواردالظمآن ص434)
یعنی حضور سرور عالم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مفاتح الغیب یہ پانچ چیزیں ہیں جن کو بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا واقعات رونما ہوں گے ،اور سوا اللہ کے کوئی نہیں جانتا کہ ارحام(بچہ دانیوں ) میں کیا ہے (مثلا نر یا مادہ ایک یا زیادہ وغیرہ) اور اس کے سوا کسی کوخبر نہیں کہ بارش کب ہوگی ؟اور کسی نفس کو معلوم نہیں کہ اس کی موت کس سرزمین میں واقع ہوگی اور خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب ہوگی
ان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم قال مفاتح الغیب خمس لایعلمھا الااللہ لایعلم مافی غدا لااللہ ولا یعلم ماتغیض الارحام الااللہ ولا یعلم متی یاءتی المطراحد الااللہ ولاتدری نفس بای ارض تموت ولایعلم متی تقوم الساعة الااللہ “ (بخاری ج 1ص 141۔و ۔ج 2ص 681۔۔و ۔۔ج2 ص 1097)واللفظہ لہ مسلم و مسند احمد ج 2 ص 24۔۔و ج 2 ص 52۔۔و ۔۔ج 2ص 58 ) (درمنشور ج 3 ص15۔۔و۔۔ج 5 ص170)(مواردالظمآن ص434)
یعنی حضور سرور عالم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مفاتح الغیب یہ پانچ چیزیں ہیں جن کو بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا واقعات رونما ہوں گے ،اور سوا اللہ کے کوئی نہیں جانتا کہ ارحام(بچہ دانیوں ) میں کیا ہے (مثلا نر یا مادہ ایک یا زیادہ وغیرہ) اور اس کے سوا کسی کوخبر نہیں کہ بارش کب ہوگی ؟اور کسی نفس کو معلوم نہیں کہ اس کی موت کس سرزمین میں واقع ہوگی اور خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب ہوگی
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (المتوفی32 ھ) فرماتے ہیں:
اعطی نبیکم صلیٰ اللہ علیہ وسلم مفاتح الغیب الاالخمس ان اللہ عندہ علم الساعة (الیٰ اٰخر السورة)
(طیالسی ص 51)(فتح الباری ج 8 ص395)(مسند احمد ج 4 ص 438 )
”یعنی تمہارے نبی حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب کے خزانے عطا کئے گئے ہیں مگر یہ پانچ امورعطا نہیں کئے گئے جو سورہ لقمان کی آخر میں ہیں
اعطی نبیکم صلیٰ اللہ علیہ وسلم مفاتح الغیب الاالخمس ان اللہ عندہ علم الساعة (الیٰ اٰخر السورة)
(طیالسی ص 51)(فتح الباری ج 8 ص395)(مسند احمد ج 4 ص 438 )
”یعنی تمہارے نبی حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب کے خزانے عطا کئے گئے ہیں مگر یہ پانچ امورعطا نہیں کئے گئے جو سورہ لقمان کی آخر میں ہیں
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ(المتوفی 62 ھ)فرماتے ہیں
سمعت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم یقول خمس لایعلمن الااللہ ان اللہ عندہ علم الساعة وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام وما تدری نفس ماذا تکسب غدا وما تدری نفس بای ارض تموت ان اللہ علیم خبیر
(مسند احمد ج :5 ص:353)(داروہ الضیاءالمقدسی سند صحیح ،در منشور ج 5 ص170)وقال ابن حجر صحیح ،ابن حبان و الحاکم ،(فتح الباری ج10 ص 132)(حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں ھذا حدیث صحیح الاسناد ،تفسیرج3 ص454 )
یعنی میں نے جناب نبی کریم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ چیزیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ،بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے علم قیامت کا ،اور وہی (اپنے علم کے مطابق )اتارتا ہے بارش اور وہی جانتا ہے جو کچھ ارحام میں ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کل کیا کرے گا،اور کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کس زمین میں مرے گا ،یقینا اللہ تعالیٰ ہی ان چیزوں کا جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے
حضرت ایاس بن سلمہ رحمہ اللہ(المتوفی 119ھ) اپنے والد حضر ت سلمہ رضی اللہ عنہ(المتوفی 74 ھ) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور اس نے حضور حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے چند سوالات کئے ،ایک یہ بھی تھا:
قال متی تقوم الساعة فقال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب ولا یعلم الغیب الااللہ )
”یعنی قیامت کب آئے گی ؟تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کا علم) غیب ہے اور غیب کو اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جانت
قال متی تقوم الساعة فقال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب ولا یعلم الغیب الااللہ )
”یعنی قیامت کب آئے گی ؟تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کا علم) غیب ہے اور غیب کو اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جانت
(مستدرک ج1 ص7) قال احاکم و الذہبی علیٰ شرط مسلم
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ھذا الخمسۃ لایعلمھا ملک مقرب ولا نبی مصطفیٰ فمن ادعی انہ یعلم شیئا من ھذا فقد کفر بالقراٰن لانہ خالفہ
یعنی یہ پانچ چیزیں وہ ہیں کہ ان کا علم نہ تو کسی مقرب فرشتہ کو ہے اور نہ جناب نبی کریم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ،تو جو کوئی ان میں سے کسی چیز کے علم کا دعوی کرے تو اس نے قرآن کریم کا انکار کیا ،کیوں کہ اس نے اس کی مخالفت کی ہے
(تفسیر خازن ج 5ص183)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
لم یعلم علیٰ نبیکم صلیٰ اللہ علیہ وسلم الا الخمس من سرائر الغیب ھذہ الآیة فی اٰخر لقمان الیٰ اٰخر الاٰیة
یعنی تمہارے نبی حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر اسرار غیب سے بس یہی پانچ چیزیں مخفی رکھیں گئیں ہیں جو سورہ لقمان کی آخری آیت میں مذکور ہیں
(درمنشور ج 5ص 170)
ابو امامہ رضی اللہ عنہ (المتوفی 86 ھ ) سے روایت ہے
ان اعرابیا وقف علیٰ النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم یوم بدر علیٰ ناقة لہ عشراءفقال یا محمد مافی بطن ناقتی ھذہ فقال لہ رجل من الانصار دع عنک رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم وھلم الی حتی اُخبرک وقعت انت علیھا وفی بطنھا ولد منک فاعرض عنہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ثم قال ان اللہ یحب کل حیی کریم متکرہ ویبغض کل لیئم متفحش ثم اقبل علیٰ الاعرابی فقال خمس لا یعلمھن الااللہ ان اللہ عندہ علم الساعة الآیة
یعنی غزﺅہ بدر کے دن ایک اعرابی اپنے دن مہینے کی گابھن اوٹنی پر سوار ہوکر جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے محمدصلیٰ اللہ علیہ وسلم بتائیے میری اس اوٹنی کے پیٹ میں کیا ہے ؟ایک انصاری نے( طیش میں آکر)اُس سے کہا کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر میرے پاس آ تاکہ میں تجھے بتلاﺅں تونے اس اوٹنی سے مجامعت کی ہے اور اس کے پیٹ میں تیرا بچہ ہے ،آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس انصاری کی طرف سے منہ پھیر لیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر صاحب حیا اور صاحب وقار کوجو گندی باتوں سے کنارہ کشی کرتا ہو پسند کرتا ہے اور ہر کمینہ اور بدزبان کو مبعوض رکھتا ہے ،پھر حضور اقدس صلیٰ اللہ علیہ وسلم اُس اعرابی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا پانچ چیزیں وہ ہیں جن کا علم بجز اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں پھر آپ نے سورہ لقمان کی یہ آخری آیت پڑھی ”ان اللہ عندہ علم الساعة “الآیة
(درمنشور ج 5ص 170)
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ (المتوفی 74 ھ ) سے روایت ہے
کان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم فی قبة حمراءاذ جاءرجل علیٰ فرس فقال من انت قال انا رسول اللہ،قال متی الساعة ؟قال غیب وما یعلم الغیب الااللہ قال مافی بطن فرسی ؟قال غیب وما یعلم الغیب الااللہ قال فمتی یمطر ؟قال غیب وما یعلم الغیب الااللہ
یعنی جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ایک سرخ رنگ کے خیمہ میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص گھوڑی پر سوار ہوکر آیا اور دریافت کیا کہ آپ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کا رسول ہوں ،اس نے دریافت کیا قیامت کب آئے گی ؟آپ نے فرمایا یہ غیب کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اس کو کوئی نہیں جانتا ،پھر اس نے سوال کیا میری گھوڑی کی پیٹ میں کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ غیب ہے اور غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ،پھر اس نے کہا کہ بارش کب ہوگی ؟آپ نے فرمایا کہ یہ بھی غیب ہے اور اس کو خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا
(درمنشور ج5 ص170)
حضرت لقیط بن عامر رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میں آتا ہے
قلت یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم عن حاجتی فلا تعجلن علی قال سل عما شئت قلت یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ھل عندک من علم الغیب فضحک لعمراللہ وھزواءسہ وعلم انی ابتغی بسقطہ فقال ضن ربک بمفاتح خمس من الغیب لایعلمن الا اللہ و اشارہ بیدہ
یعنی میں نے کہا یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں آپ سے اپنی ایک حاجت کے بارے میں سوال کرتا ہوں سو آپ مجھ پر جلدی نہ کریں ،آپ نے فرمایا جو چاہتا ہے پوچھ ؟میں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کیا آپ کے پاس علم غیب ہے ؟ بخدا آپ زور سے ہنسے اور سر مبارک کو حرکت دی اور آپ کو خیال گذرا کہ شاید میں نے آپ کی منزلت کو گرانے کے درپے ہوں تو آپ نے فرمایا کہ مفاتح الغیب کو بتانے میں اللہ تعالیٰ نے رازداری سے کام لیا ہے ان کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ،پھر اپنے ہاتھ سے ان مفاتح الغیب کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ پانچ ہیں
(مستدرک ج 4ص 561 قال الحاکم صحیح الاسناد والبدایہ والنہایہ ج5 ص80)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تصریح فرمائی ہے کہ لقیط بن عامر ابو رزین العقیلی کا یہ سوال رجب9 ھ کو پیش آیا تھا (دیکھئے البدایہ والنہایہ ج5 ص 40,80
حضرت ربعی بن خراش (المتوفی 100ھ)سے روایت ہے
حدثنی رجل من بنی عامر انہ قال یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ھل بقی من العلم شیئی لا تعلمہ قال قد علمنی اللہ عزوجل الخمس ان اللہ عند ہ علم الساعة وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام الآیة
یعنی مجھ سے بنی عامر کے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ علم میں سے کوئی ایسی چیز بھی باقی ہے جس کو آپ نہ جانتے ہوں ،حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سی خیر کی تعلیم دی ہے اور بے شک علوم میں سے وہ بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا چناچہ پانچ باتیں جو سورہ لقمان کی آخری آیت میں مذکور ہیں ،ان کا پورا علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کسی دوسرے کو نہیں
(راوہ احمد فی مسند )(وقال ابن کثیر ج 3 ص 455ہذا اسناد صحیح) (در منشور ج 5ص 170)
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ(المتوفی 256ھ ) کی روایت میں یوں آتا ہے کہ
بے شک اللہ تعالیٰ نے خیر کی تعلیم دی ہے لیکن ایسا علم بھی جس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں “(جیسا کہ سورہ لقمان کی آخری آیت میں ہے)
(ادب المفرد ص 159
(ادب المفرد ص 159
حضرت مجاہد رحمہ اللہ(المتوفی 102 ھ) فرماتے ہیں
’وھی مفاتح الغیب التی قال اللہ تعالیٰ وعندہ مفاتح الغیب لایعلمھا الاھو
یہ پانچ چیزیں وہی مفاتح الغیب ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مفاتح الغیب کا علم صرف اللہ کو ہے اس کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا
(ابن کثیر ج3 ص455)
علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے
انہ یجوازن یطلع اللہ تعالیٰ بعض اصفیاءہ علیٰ احدی ھذہ الخمس ویرزقہ عزوجل العلم بذلک فی الجملة وعلمھا الخاص بہ جل وعلا ماکان علیٰ وجہ الاحاطة والشمول لاحوال کل منھا وتفصیلہ علیٰ الوجہ الاتم وفی شرح المناوی للجامع الصغیر فی الکلام علیٰ حدیث بریدة السابق خمس لا یعلمھن الا اللہ علیٰ وجہ الاحاطة والشمول کلیا وجزئیا فلا نیا فیہ اطلاع اللہ تعالیٰ بعض خواصہ علیٰ بعض المغیبات حتی من ھذہ الخمس لانھا جزئیات معدودة
یعنی یہ جائز کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض برگزیدہ بندوں کو ان پانچ امور میں سے کسی چیز پر مطلع کردے اور اللہ تعالیٰ ان کو فی الجملہ ان کا علم عطا فرمادے ان علوم خمسہ میں سے جو علم اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے وہ ایسا علم ہے جو علےٰ وجہ الاحاطہ اور علی سبیل الشموں ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا علیٰ وجہ الاتم تفصیلی علم اس پر مشتمل ہو،جامعہ صغیر کی شرح میں علامہ مناوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ ان پانچ چیزوں کا علم سوائے باری تعالیٰ کے کسی اور کو نہیں ،اس سے مراد یہ ہے کہ ان تمام کلیات اور جزئیات کا علیٰ سبیل الاحاطة والشمول علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض خاص خاص بندوں کو ان پانچ میں سے بعض مغیبات پر مطلع کردے ،کیوں کہ یہ تو چند گنے چنے واقعات اور معدودے چند جزئیات ہیں
(تفسیر روح المعانی،جلد 21،صفحہ:100)
حضرت قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ مشہور تابعی اس آیت(لقمان34) کی تفسیر میں فرماتے ہیں
اشیاءمن الغیب استاثر اللہ بھن فلم یطلع علیھن ملکا مقربا ولا نبیا مرسلا ان اللہ عندہ علم الساعة فلا یدری احد من الناس متی تقوم الساعة فی ای سنة اوفی ای شھر او لیل او نھار وینزل الغیث فلا یعلم احد متی ینزل الغیث لیلا او نھارا ینزل ویعلم مافی الارحام اذکراوانثی احمراواسودا وما ھو وما تدری یا ابن اٰدم متی تموت لعلک المیت غدا المصاب غدا وما تدری نفس بای ارض تموت لیس احدمن الناس یدری این مضجعہ من الارض فی بحر وبراو سھل اوجبل
یعنی کئی چیزیں غیب میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے مختص کرلیا ہے اُس نے ان پر نہ تو کسی فرشتہ مقرب کو اطلاع دی ہے اور نہ کسی نبی مر سل کو ،بے شک قیامت کا علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ،پس کوئی بھی انسانوں میں سے نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی ؟کس سال اور کس مہینہ میں رات میں یا دن میں ؟اور وہی نازل کرتا ہے بارش کو سو کسی کو خبر نہیں کہ کب بارش نازل ہوگی رات کو یا دن کو ،وہی جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے سو کسی کو علم نہیں کہ نر ہے یا مادہ ؟سرخ ہے یاسیاہ ؟اور پھر وہ کیا ہے ؟(سعید ہے یا شقی وغیرہ )اور کسی کو نہیں پتہ کہ کل وہ کیا کرے گا اچھا کرے گا یا برا ،اور اے فرزند آدم تو کیا جانتا ہے کہ شائد تو کل مرنے والا ہو اور شاید کہ کل ہی تجھ پر کوئی مصیبت نازل ہو اور کوئی نفس خبردار نہیں کہ کس زمین میں اس کو موت آئے گی ،یعنی کسی انسان کو پتہ نہیں کہ زمین کے کس حصے میں اس کی قبر ہوگی آیا دریا میں یا خشکی میں نرم زمین میں یا پہاڑ اور سخت جگہ میں (بس اللہ تعالیٰ ہی ان باتوں کا جاننے والا اور خبردار ہے)
(ابن جریرج 21 ص 88واللفظ لہ ،ابن کثیر ج 3 ص455،درمنشور ج 5 ص170،السراج المنیر ج3 ص200،روح المعانی ج 21 ص99 )
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ کی صریح عبارت
ولا یعلم متی تقوم الساعة الا اللہ فلم یعلم ذالک نبی مرسل ولا ملک مقرب
(قسطلانی شرح بخاری ج10 ص 296)
یعنی کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی بجز اللہ تعالیٰ کے نہ تو قیام ساعت کا وقت کسی نبی مرسل کو معلوم ہے اور نہ فرشتہ مقرب کو
ایک حدیث پاک کی شرح میں شیخ رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں
”حضرت جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک ماہ قبل سنا ،حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تم مجھ سے قیامت کے آنے کا وقت دریافت کرتے ہو حالانکہ اس کے وقت معین کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں یعنی قیامت کبریٰ آنے کا وقت خود مجھ کو معلوم نہیں اور اس کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا “(اشعتہ اللمعات ج 4ص 377)
چناچہ امام رازی رحمہ اللہ اور خطیب شربیننی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ فان قیل الیس انہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم قال بعث انا والساعة کھاتین فکان عالما بقرب وقوع القیٰمة فکیف قال ھٰھنا لاادری اقریب ام بعید اجیب بان المراد بقرب وقوعہ ھو ان ما بقی من الدنیا اقل مما انقضٰی فھٰذہ القدر من القرب معلوم فاما معرفة مقدار القرب فغیر معلوم الخ (تفسیر کبیر ج 8ص 343)( سراج المنیر ج 4ص 408)
یعنی اگر یہ کہا جائے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ میری بعث اور قیامت میں اتنا قرب ہے جتنا انگشت شہادت اور اُسکی قریب والی انگلی میں تو اس معلوم ہوا کہ آپ کو قرب قیامت کا علم تھا پھر آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ مجھے اس قرب و بعد کی خبرنہیں ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے قریب ہونے کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ دنیا کی باقی ماندہ عمر اُس کی گذشتہ عمر سے کم ہے ۔پس اتنا قرب تو معلوم ہے لیکن اس قرب کی ٹھیک مقدار معلوم نہیں
’’ فان قیل الیس انہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم قال بعث انا والساعة کھاتین فکان عالما بقرب وقوع القیٰمة فکیف قال ھٰھنا لاادری اقریب ام بعید اجیب بان المراد بقرب وقوعہ ھو ان ما بقی من الدنیا اقل مما انقضٰی فھٰذہ القدر من القرب معلوم فاما معرفة مقدار القرب فغیر معلوم الخ (تفسیر کبیر ج 8ص 343)( سراج المنیر ج 4ص 408)
یعنی اگر یہ کہا جائے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ میری بعث اور قیامت میں اتنا قرب ہے جتنا انگشت شہادت اور اُسکی قریب والی انگلی میں تو اس معلوم ہوا کہ آپ کو قرب قیامت کا علم تھا پھر آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ مجھے اس قرب و بعد کی خبرنہیں ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے قریب ہونے کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ دنیا کی باقی ماندہ عمر اُس کی گذشتہ عمر سے کم ہے ۔پس اتنا قرب تو معلوم ہے لیکن اس قرب کی ٹھیک مقدار معلوم نہیں
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم واضح کرچکے ہیں کہ ہمارا فریق مخالف سے اختلاف علوم خمسہ کے جزئیات میں نہیں ہے ۔وہ تو باذن اللہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کو بذریعہ وحی اور حضرات اولیائے عظام ؒ کو کشف اور الہام کے طور پر معلوم ہوسکتے ہیں۔۔۔ اختلاف کلیات میں ہے جس کی فریق مخالف کے پاس ایک بھی دلیل نہیں ۔۔۔
آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے جب بدر کے مقتولوں کے سرغنہ ابو جہل کے قتل کی سرسری خبر سنی تو:
’’قال النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم یوم بدر من ینظر ما فعل ابو جھل فا نطلق ابن مسعود فوجدہ قد ضربہ ابنا عفرآء(بخاری ج 2 ص 565)(مسلم ج 2 ص 110)
یعنی جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے بدر والے دن فرمایا کون ہے جو جاکر دیکھے کہ ابو جہل اس وقت کس حال میں ہے اور کیا کررہا ہے ؟تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے اور جاکر دیکھا کہ اُ س کو عفراءرضی اللہ عنہ کے دو بیٹوں نے مارا ہے ۔
اگر جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ان مقتولوں کے اور خصوصیت سے ان کے سرکردہ سردار ابوجہل کے قتل کے مکمل تفصیلی حالات معلوم ہوتے تو آپ یہ کیوں فرماتے کہ وہ اس وقت کیا کر رہا ہے ؟؟؟
ثم انصرنا الیٰ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم فا خبراہ فقال ایکما قتلہ فقال کل واحد منھما انا قتلتہ فقال ھل مستحما سیفیکما فقالا لا فنظر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم الی السیفین فقال کلا کما قتلہ وقضی رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم لبلبہ لمعاذ بن عمرو رضی اللہ عنہ بن الجموح والرجلان معاذ بن عمرو بن الجموح و معاذ بن عفراء(بخاری ج 1 ص 444) (مسلم ج 2 ص 88 )(مشکوة ج 2 ص 352)
یعنی پھر وہ دونوں آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں نے ابو جہل کے قتل کی خبر آپ کو سنا ئی آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کس نے اس کو قتل کیا ہے ؟ ان دونوں میں سے ہر ایک نے کہا کہ میں نے اس کو قتل کیا ہے ۔آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے اپنی تلواریں پونچھیں ہیں ؟دونوں بولے نہیں ۔جب آپ نے دیکھا تو دونوں کی تلواریں خون آلود تھیں ۔آپ نے فرمایا کہ تم دونوں نے ہی اس کو قتل کیا ہے مگرآپ نے ابوجہل کا سلب کا کل سامان معاذ بن عمرو بن الجموح رضی اللہ عنہ کو دیا اور یہ دونوں آدمی معاذ بن عمرو اور دوسرا معاذ بن عفراءتھے۔
یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ھذا عدو اللہ ابو جھل قد قتل فقال النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم لقد قتل قلت اللہ لقد قتل فانطلق بنا فا رینا ہ فجاءہ فنظر الیہ فقال ھذا کان فرعون ھذہ الامة ( ابو داﺅ طیالسی ص 42)
یعنی یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ،یہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ابو جہل قتل کردیا گیا ہے آپ نے ارشاد فرمایا بخدا ابو جہل قتل ہوچکا ہے ؟ میں نے کہا ہاں حضرت خدا کی قسم وہ قتل ہوچکا ہے ۔پس آپ ہمارے ساتھ تشریف لے گئے اور ہم نے ابو جہل آپ کو دکھایا اور آپ نے دیکھ کر فرمایا کہ یہ اس امت کا فرعون تھا۔
یہ روایت بھی اس بات کی صریح دلیل ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ابو جہل کے قتل کے تفصیلی حالات اور جملہ کیفیات معلوم نہ تھیں ۔
امام نووی رحمہ اللہ اور علامہ طیبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
’’قالو ا وانما اخذالسیفین لیستدل بھما علی حقیقة کیفیة قتلھما فعلم ان ابن الجموح اثخنہ ثم شارکہ الثانی بعد ذلک و بعد استحاق السلب فلم یکن لہ حق فی السلب
(نووی ج 2 ص 88 )(ہامش مشکوة ج 2 ص 352)
یعنی حضرات علماءکرام نے فرمایا کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے دودونوں کی تلواریں اس لئے لیں اور دیکھیں تھیں تاکہ ان کے ذریعہ سے ان دونوں کے قتل کی کیفیت کی حقیقت کو معلوم کرسکیں جب آپ نے تلواریں دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوا کہ ابن جموح کے زخم کاری ہیں اس کے بعد دوسرا قاتل اس کے ساتھ شریک ہوا ہے اور چونکہ ابن جموح اپنے کاری زخموں کی وجہ سے سلب کا مستحق ہوچکا تھا اس لئے دوسرے کو سلب سے کچھ نہ مل سکا (مگر تطییب خاطر کے لئے آپ نے دونوں کو قاتل فرمایا)
معزز قارئین کرام !
کوئی پوچھے جا کر مولوی عمر اور مفتی احمد یار نعیمی صاحب کے چاہنے والوں سے کہ ”مافی غد“ کے اندر جو کھرب ہا کھرب حوادث اور واقعات شامل ہیں ۔۔۔۔ان کا تو قصہ چھوڑئیے ۔۔۔جن مقتولین بدر کے قتل کی خبر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ایک دن پہلے سنائی تھی ،ان کے قتل کی کیفیات ،قاتلوں کا صحیح علم ،اور یہ کہ کس کی تلوار سے وہ قتل ہوں گے وغیرہ یہ بھی معلوم نہ تھا ۔۔۔۔لیکن فریق مخالف تو رائی کا پہاڑ بنانا جانتا ہے ۔۔۔۔نصوص قطعیہ اور صریح روایات کو چھوڑ کر صرف ادھورے جملوں پر اپنے عقائد کی بنیاد رکھتے ہیں ۔
اسی طرح فریق مخالف کے وکیل مولوی عمر ”علم ما غد “پر چند اور روایات بھی پیش کیں ہیں ۔۔۔مثلا یہ کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام زمین پر نازل ہوں گے اور شادی کریں گے ان کی اولاد ہوگی اور کم و بیش پینتالیس سال حکومت کریں گے ،پھر ان کی وفات ہوگی اور میری قبر کے پاس ہی دفن ہوں گے۔۔۔۔۔ اسی طرح یہ روایت کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام باب لُد کے پاس دجال کو قتل کریں گے وغیرہ وغیرہ (دیکھئے مقیاس حنفیت ص 329،330)
مگر ان روایات سے استدلال باطل ہے کیوں کہ یہ اشراعت ساعت اور علامات قیامت سے ہیں اور ان کے بارے میں کسی مسلمان کو ذرہ برابر بھی شک نہیں ہوسکتا ان سے ”علم جمیع مافی غد“ ثابت کرنا دوراز کار بات ہے ۔۔۔۔اگر فریق مخالف خود ہی اپنے دعوی اور دلیل پر غور کرلیں تو ہمارے خیال میں اس کو خود ہی با آسانی سمجھ آجانا چاہیے کہ دعوی اور دلیل میں کوئی مطابقت نہیں۔
باقی اسی طرح مفتی احمد یار نعیمی صاحب لکھتے ہیں کہ :
”مشکوة باب مناقب علی رضی اللہ عنہ میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے خیبر کے دن فرمایا کہ ہم کل یہ جھنڈااس کو دیں گے جس کے ہاتھ پر اللہ خیبر فتح فرمائے گا ۔اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے “(جاءالحق ص65)
اگر اس سے یہ مراد ہو کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کل کے واقعات میں سے ایک واقع کی اطلاع دی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر قلع فتح ہوگا تو بالکل صحیح ہے اس میں کسی کو کلام نہیں ہے ۔
اوراگر مراد یہ ہو کہ کل کے اندر رونما ہونے والا ہرہر واقعہ آپ کو معلوم تھا اور یہ حدیث اس کی دلیل ہے تو یہ قطعا غلط ہے ۔ کیوں کہ اس ارشاد کے بعد ہی خیبر میں زنیب نامی ایک یہودیہ عورت نے بکری کے گوشت میں زہر ڈال کر آپ کو اور آپ کے چند ساتھیوں کو کھلایا جس کی وجہ سے حضرت بشیر رضی اللہ عنہ بن براءبن معرور کی شہادت ہوگئی (دیکھئے ابو داﺅد ج 2 ص 264 )(مستدرک ج 3 ص 219 )
بلکہ یہ روایت بھی آتی ہے کہ :
”وتوفی اصحابہ الذین اکلو امن الشاة الخ (مشکوة ج 2 ص 542)اور (ابو داﺅد ج 2 ص 264) میں ”وتوفی بعض اصحابہ “(الحدیث) ہے ۔کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے وہ صحابہ کرام جنہوں نے وہ زہر آلود بکری کھائی تھی وفات پاگئے ۔۔۔۔اس سے معلوم ہوا کہ وفات پانے والے متعدد صحابہ کرام تھے ۔
لہذا ثابت ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو کل کے ہر ہر واقعہ کی خبر نہ تھی ۔۔۔ ورنہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو وہ زہر آلود گوشت ہرگز کھانے نہ دیتے
مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ:
”خیال رہے کہ جہنمی یا جنتی ہونا علوم خمسہ میں سے ہے کہ سعید یا شقی اسی طرح کون کس کا بیٹا ہے ؟یہ ایسی بات ہے کہ جس کا علم سوائے اس کی ماں کے اور کسی کو نہیں ہوسکتا ۔قربان جاﺅں ان نگاہوں کے جو کہ اندھیرے اُجالے دنیا و آخرت سب کو دیکھتی ہیں “انتہیٰ بلفظہ (جاءالحق ص 64)(مقیاس حنفیت ص462)
الجواب:
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم واضح کرچکے ہیں کہ ہمارا فریق مخالف سے اختلاف علوم خمسہ کے جزئیات میں نہیں ہے ۔وہ تو باذن اللہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کو بذریعہ وحی اور حضرات اولیائے عظام ؒ کو کشف اور الہام کے طور پر معلوم ہوسکتے ہیں۔۔
اس روایت سے فریق مخالف کا علم غیب کلی پر استدلال اس لئے بھی باطل ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ”سلونی“کہ مجھ سے سوال کرو،اظہار ناراضگی کی وجہ سے تھا ۔۔۔۔۔کیوں کہ لوگوں نے دور ازکار اور لایعنی سوالات کرنے شروع کردیئے تھے اس لئے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے بطور ناراضگی کے یہ فرمایا۔۔۔۔چناچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی تصریح موجود ہے کہ:
’’قال سئل رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم عن اشیاءکرھھا فلما اکثر و اعلیہ المساءلة غضب وقال سلونی (الحدیث)(بخاری ج2 ص1083) (مسلم ج 2ص264)
”یعنی آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ایسی اشیاءکے بارے میں سوال کیا گیا جن کو آپ پسند نہیں فرماتے تھے جب لوگوں کے سوالات بڑھ گئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے طیش میں آکر فرمایا پوچھو مجھ سے الخ“
جب بعض لوگوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی منشاءکو نہ سمجھا اور سوالات شروع کردئیے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی ان کے جوابات آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو بتلائے جاتے رہے
امام نووی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
قال العلماءھٰذا القول منہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم محمول علیٰ انہ اوحی الیہ والا فلا یعلم کل مایساءل عنہ من المغیبات الا باعلام اللہ تعالیٰ قال القاضی وظاھر الحدیث ان قولہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سلونی انما کان غضبا کما فی الروایة الاخریٰ سئل النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم عن اشیاءکرھھا فلما اکثر علیہ غضب ثم قال للناس سلونی وکان اختیارہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ترک تلک المسائل لکن وافقھم فی جوابھا لانہ لایمکن رد السوال لما راءمن حرصھم علیھا واللہ اعلم (شرح مسلم ج 2 ص263)
حضرات علماءکرام کا کہنا ہے کہ یہ قول جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا س بات پر محمول ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اس کی وحی ہوئی تھی ورنہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو تمام مغیبات کا جن کے بارے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سوالات ہوتے تھے کوئی علم نہ تھا ہاں مگر جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا تھا اطلاع دے دیتا تھا ۔حضرت قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث کے ظاہری الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا سلونی فرمانا اظہار ناراضگی پر مبنی تھا کیوں کہ دوسری روایت میں موجود ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے جب بکثرت ایسی چیزی پوچھی گئیں جن کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پسند نہیں کرتے تھے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے غصہ میں آکر لوگوں سے فرمایا مجھ سے پوچھو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم صرف اسی امر کو پسند کرتے تھے کہ یہ سوالات نہ ہوں لیکن جب لوگوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے پوچھنا شروع کیا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کو جواب دینے میں (نظر با خلاق کریمہ )موافقت کی کیوں کہ لوگ جب پوچھنے میں حریص واقع ہوئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے ممکن نہ تھا کہ ان کو بے نیل مرام واپس کردیتے
اور شیخ السلام علامہ بدرالدین عینی الحنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
فان قلت من این عرف رسول اللہ علیہ الصلوة والسلام انہ ،ابنہ قلت اما بالوحی وھو الظاھر او بحکم الفراسة او بالقیاس او بالاستلحاق الخ (عمدة القاری ج 9ص 509)
”سو اگر تو یہ کہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ خذافہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں ؟تو میں جواب میں کہوں گا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ سے یہ معلوم
ہوا تھا اور یہی ظاہر ہے یا فراست یا قیاس یا استلحاق کے حکم سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاتھا
اوراسی طرح ملا علی قاری رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’فان قلت قد اخبر الانبیاءوالاولیاءبشیئی کثیر من ذٰلک فکیف الحصر قلت الحصر باعتبار کلیا تھا دون جزئیتھاالخ (مرقات ج 1ص 66) (فتح الملہم ج1 ص 172)
”اگر تو یہ کہے کہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام اور اولیاءعظام نے ان پانچ میں سے بہت سی چیزوں کے بارے میں خبر دی ہے تو یہ حصر کیسے صحیح ہے کہ اللہ ہی کے پاس اس کا علم ہے؟تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ حصر کلیات کے اعتبار سے ہے جزئیات کے اعتبار سے نہیں
انبا الغیب اطلاع الغیب
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمًا مِنْ جُهَيْنَةَ فَقَاتَلُونَا قِتَالًا شَدِيدًا فَلَمَّا صَلَّيْنَا الظُّهْرَ قَالَ الْمُشْرِکُونَ لَوْ مِلْنَا عَلَيْهِمْ مَيْلَةً لَاقْتَطَعْنَاهُمْ فَأَخْبَرَ جِبْرِيلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِکَ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَقَالُوا إِنَّهُ سَتَأْتِيهِمْ صَلَاةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ الْأَوْلَادِ فَلَمَّا حَضَرَتْ الْعَصْرُ قَالَ صَفَّنَا صَفَّيْنِ وَالْمُشْرِکُونَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ قَالَ فَکَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَبَّرْنَا وَرَکَعَ فَرَکَعْنَا ثُمَّ سَجَدَ وَسَجَدَ مَعَهُ الصَّفُّ الْأَوَّلُ فَلَمَّا قَامُوا سَجَدَ الصَّفُّ الثَّانِي ثُمَّ تَأَخَّرَ الصَّفُّ الْأَوَّلُ وَتَقَدَّمَ الصَّفُّ الثَّانِي فَقَامُوا مَقَامَ الْأَوَّلِ فَکَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَبَّرْنَا وَرَکَعَ فَرَکَعْنَا ثُمَّ سَجَدَ مَعَهُ الصَّفُّ الْأَوَّلُ وَقَامَ الثَّانِي فَلَمَّا سَجَدَ الصَّفُّ الثَّانِي ثُمَّ جَلَسُوا جَمِيعًا سَلَّمَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ ثُمَّ خَصَّ جَابِرٌ أَنْ قَالَ کَمَا يُصَلِّي أُمَرَاؤُکُمْ هَؤُلَائِ
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قبیلہ جہینہ کی ایک قوم کے ساتھ جہاد کیا انہوں نے ہم سے بہت سخت جنگ کی جب ہم نے ظہر کی نماز پڑھی لی مشرکوں نے کہا کاش ہم ان پر ایک دم حملہ آور ہوتے تو انہیں کاٹ کر رکھ دیتے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سے باخبر کیا اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کیا اور فرمایا کہ مشرکوں نے کہا کہ ان کی ایک اور نماز آئے گی جو ان کو اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہے تو جب عصر کی نماز کا وقت آیا تو ہم نے دو صفیں بنالیں اور مشرک ہمارے اور قبلہ کے درمیان میں تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر کہی اور ہم نے بھی تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع فرمایا تو ہم نے بھی رکوع کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پہلی صف والوں نے سجدہ کیا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پہلی صف والے کھڑے ہو گئے تو دوسری صف والوں نے سجدہ کیا اور پہلی صف والے پیچھے اور دوسری صف والے آگے ہو گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکیبر کہی اور ہم نے بھی تکبیر کہی پھر آپ نے رکوع فرمایا ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رکوع کیا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا اور دوسری صف والوں نے سجدہ کیا پھر سب بیٹھ گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کے ساتھ سلام پھیرا حضرت ابوالزبیر فرماتے ہیں کہ پھر حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جس طرح آج کل تمہارے یہ حکمران نماز پڑھتے ہیں۔
1845
فضائل قرآن کا بیان
مسلم
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چابیوں سے مراد خزانہِ غیب ہے، وہ لکھتے ہیں
فاﷲ تعالی عنده الغيب، و بيده الطرق الموصلة إليه، لا يملکها إلا هو فمن شاء إطلاعه عليها إطلعه، وَمن شاء حجبه عنها حجبه
’’اﷲ تعالیٰ کے پاس علم الغیب ہے اور اسی کے ہاتھ میں وہ راستے اور ذریعے بھی ہیں (جن کو چابیاں کہا گیا ہے) جن کے ذریعے سے اس خزانہِ غیب تک پہنچا جا سکتاہے۔ ان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے پس وہ جسے اس پر اطلاع کرنا چاہے تو اسے اس پر مطلع کر دیتا ہے اور جسے محروم رکھنا چاہے محروم رکھتا ہے۔‘‘
(قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 7 : 2)
قرآن مجید میں غیب کی تقسیم دو طرح بیان کی گئی ہے خبر غیب اور علم غیب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذاتی و عطائی کا تصور غیر اسلامی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خبر غیب خاصہ نبوت ہے جبکہ علم غیب خاصہ خداوندی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں غیب کو علم سے جوڑا گیا ہے وہاں اللہ کا ذکر آیا ہے اور جہاں جہاں ، خبر ، اطلاع یا مطلع کے الفاظ آ استعمال ہوئے ہیں وہاں نبی رحمت کا ذکر موجود ہے
No comments:
Post a Comment