علم غیب پر چند مغالطے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا واضح اور صاف صاف فرمان کہ”غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا“ :
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ الخ النمل 65 پارہ 20
(ترجمہ :کہہ دے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے کوئی بھی سوائے اللہ کے غیب کو نہیں جانتا ،اور انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھا کھڑے کئے جائیں گے )
علامہ بغوی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
یہ آیت مشرکین کے بار ے میں نازل ہوئی جبکہ انہوں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے وقت کے متعلق سوال کیا تھا۔(معالم التنزیل جلد 5 صفحہ 128)
اور یہی شان نزول تفسیر جلالین صفحہ 321،مدارک جلد2 صفحہ 167،اور جامع البیان صفحہ 321 وغیرہ میں مذکور ہے۔
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ابن کثیر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو حکم دےتا ہے کہ وہ سارے جہاں کو معلوم کرا دیں کہ ساری مخلوق آسمان کی ہو یا زمین کی ،غیب کے علم سے خالی ہے بجز اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کے کوئی اور غیب کا جاننے والا نہیں ۔ مزید لکھتے ہیں کہ یہاں استثناءمنقطع ہے ،یعنی سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی انسان ،جن ،فرشتہ غیب داں نہیں۔(تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 372)
علامہ خازن رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
”مطلب آیت کا یہ ہے کہ بس اللہ تعالیٰ ہی کو علم غیب ہے اور وہی جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی اور ان کو یہ خبر نہیں کہ وہ کب دوبارہ زندہ کئے جائیں گے یعنی جو مخلوق کہ آسمانوں میں ہے اور وہ فرشتے ہیں اور جو زمین میں ہیں یعنی بنی آدم (اور جنات وغیرہ)ان کو یہ نہیں معلوم کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ہی اس کے علم کے ساتھ متفرد ہے“(یعنی اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا) (تفسیر خازن جلد 5 صفحہ125)
قاضی ثنا ءاللہ الحنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
”اے محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم آپ فرمادیجیے کہ غیب بجز اللہ تعالیٰ کے نہیں جانتے وہ جو آسمانوں میں ہیں یعنی فرشتے ،اور جو زمین میں ہیں یعنی جن اور انسان اور انہی انسانوں میں حضرات انبیا ءکرام علیہم الصلوةوالسلام بھی ہیں“(تفسیر مظہری جلد 7 صفحہ 126)
غیب پر مطلع ہونا ، انباءغیب اور غیب جاننے کا فرق
اس موضوع کا یہ نقطہ سب سے زیادہ اہم ہے ۔ کیوں کہ یہ نقطہ ہی سمجھنے کی غلط فہمی علم غیب پر اختلافات کی بنیاد ہے ۔اور فریق مخالف کے دلائل کی بنیادیں اسی نقطہ پر رکھی گئیں ہیں۔اس لئے آپ تمام دوستوں سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے ۔
اب یہاں ہم سب سے پہلے فریق مخالف کی طرف سے پیش کی ہوئی غیب کے اثبات میں آیات مبارکہ پیش کرتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ الخ اٰٰل عمران 179 پارہ 4
(ترجمہ:اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ مطلع کرے تم کو غیب پر ،لیکن ہاں جس کو خود چاہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں ،اُن کو منتخب فرمالیتا ہے)
اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ الخ جن 26،27 پارہ 29
(ترجمہ :۔ غیب کا جاننے والا وہ ہی ہے،سو مطلع نہیں فرماتا وہ اپنے غیب پر کسی کو ، سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے)
اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ الخ یوسف 102 پارہ 13
(ترجمہ:یہ غیب کی خبریں ہیں جو وحی کر رہے ہیں ہم تمہاری طرف )
اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـٰذَا الخ ھود 49 پارہ 12
(ترجمہ:یہ خبریں ہیں غیب کی جو ہم وحی کر رہے ہیں تمہاری طرف (اے نبی)نہیں جانتے تھے یہ باتیں تم اور نہ تمہاری قوم اس سے پہلے)
اوپر بیان کی گئیں غیب کے اثبات میں آیات مبارکہ میں آپ نوٹ فرمائیں کہ ایک موقعہ پر بھی بیان نہیں کہ ”اللہ کے رسول غیب جانتے ہیں “ بلکہ ’مطلع کیا گیا“یا” غیب کی خبریں وحی کی گئیں“ کا بیان ہے۔
یہ بہت ہی خاص بات ہے ،آپ لوگ اپنے ذہن میں رکھیں ان شاءاللہ آگے مزید وضاحت آئے گی۔
اب یہاں نیچے والی آیات مبارکہ ملاحظہ فرمائیں کہ غیب کی نفی میں واضح طور پر ”غیب جاننے کی نفی “ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ الخ النمل 65 پارہ 20
(ترجمہ :کہہ دے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے کوئی بھی سوائے اللہ کے غیب کو نہیں جانتا)
اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ الخ الاعراف 188 پارہ 9
(ترجمہ: کہہ دو کہ میں نہیں اختیار رکھتا میں اپنی ذات کے لئے بھی نہ کسی نفع اور نہ کسی نقصان کا ،مگر یہ کہ چاہے اللہ ،اور ہوتا مجھے علم غیب کا تو ضرور حاصل کر لیتا میں بہت فائدے اور نہ پہنچتا مجھے کوئی نقصان)
ہم یہاں آیات مبارکہ کی تفاسیراس لئے پیش نہیں کر رہے ہیں کیو ں کہ ہمارا مقصد اس وقت صرف غیب کے اثبات اور غیب میں نفی میں آیات مبارکہ میں اس فرق کو واضح کر نا ہے کہ فریق مخالف کا موقف ہے کہ ”حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں“
اوردلیل میں جو آیات مبارکہ پیش فرماتے ہیں ان میں غیب پر مطلع ہونا یا انباءغیب کا بیان ہے۔
اب آجائیں فریق مخالف کے کچھ اعتراضات کی طرف۔
فریق مخالف کا کہنا ہے کہ ”مخالفین کہتے ہیں کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ،یا نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں غیب نہیں جانتا ،یا فقہاءکرام فرماتے ہیں جو غیر اللہ کے لئے غیب جاننے کا عقیدہ مانے وہ کافر ہے۔
فریق مخالف کا کہنا ہے کہ یہ دلائل تو خود مخالفین کے خلاف ہیں کیوں کہ بعض غیب تو وہ بھی مانتے ہیں ،اور اختلاف تو ”جمیع کان وما یکون (یعنی جو ہوچکا ہے یا جو کچھ ہونے والا ہے) “پر ہے۔تو یہ حضرات فرماتے ہیں کہ پھر اس فتوی کی زد سے تو مخالفین بھی نہیں بچ سکتے کیوں کہ ایک بات کا بھی علم مانا تو ان کے دلائل کے خلاف ہوا۔
یہاں ہم فریق مخالف کی اس غلط فہمی کی دو حصوں میں وضاحت کریں گے ۔
یہاں پہلے تو” بعض غیب “ کا مفہوم سمجھیں ۔ اور یہ بات سمجھیں کہ ”اللہ تعالیٰ نے بعض غیب پر نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو مطلع کیا“ سے کیا مراد ہے؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔(الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ )البقرة 3 پارہ 1
(ترجمہ:جو لوگ لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں)
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایمان کسی چیز کی تصدیق کرنے کا نام ہے۔ (تفسیر طبری 1/335)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں۔(تفسیر طبری 1/235))
حضرت زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایمان کہتے ہیں عمل کو۔(تفسیر طبری 1/235)
ربیع بن انس رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہاں ایمان لانے سے مراد ڈرنا ہے۔(تفسیر طبری 1/235)
ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ سب اقوال مل جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ زبان سے،دل سے،عمل سے غیب پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کا ڈر رکھتے ہیں۔ ایمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ پر ،اس کی کتابوں پر ،اس کے رسولوں پر ایمان لانا شامل ہے،اور اس اقرار کی تصدیق عمل کے ساتھ بھی کرنا لازم ہے ۔ مزید فرماتے ہیں لغت میں ایمان کہتے ہیں صرف سچا مان لےنے کو۔
ابن کثیر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ غیب کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ غیب کا لفظ جو یہاں ہے اس کے معنی میں بھی مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں ،اور وہ سب صحیح ہیں اور جمع ہوسکتے ہیں
ابوالعالیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ پر،فرشتوں پر،کتابوں پر رسولوں پر ،قیامت پر،جنت دوزخ پر،اللہ سے ملاقات پر،مرنے کے بعد جی اٹھنے پر ایمان لانا ہے۔
قتادہ ابن دعامہ رحمتہ اللہ علیہ کا یہی قول ہے۔(تفسیر طبری1/236)
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعض دیگر اصحاب سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں جیسے جنت دوزخ وغیرہ ،وہ امور جو قرآن پاک میں مذکور ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ آیا ہے وہ سب غیب میں داخل ہے۔
ابو ذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن ہے۔
عطاءابن ابو رباح رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ پر ایمان لانے والا غیب پر ایمان لانے والا ہے ۔
اسماعیل بن ابو خالد رحمتہ اللہ علیہ اسلام کی تمام پوشیدہ چیزیں مراد ہیں۔
زید بن اسلم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں تقدیر پر ایمان لانا ہے۔
مزید لکھتے ہیں کہ پس یہ تمام اقوال معنی کی رو سے ایک ہی ہیں۔اس لئے کہ سب چیزیں پوشیدہ ہیں اور غیب کی تفسیر ان سب پر مشتمل ہے ،ان سب پر ایمان لاناواجب ہے۔
میرے بھائیوں دوستوں بزرگوں !
اللہ تعالیٰ کی کتابیں،اللہ کے رسول، فرشتے،مرنے کے بعد کی زندگی، قیامت کی نشانیاں اورقیامت ،روز آخرت ،میدان محشر،اللہ سے ملاقات ، حساب کتاب ،پل صراط ،جنت ،جہنم ،یہ سب غیب کی باتیں توہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرمایا۔ الحمد للہ جن پر ہم ایمان لاتے ہیں۔
اس کے علاوہ متعدد احادیث پاک ہیں جن میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے غیب کی اطلاع دیں۔(ہم اختصار کے ساتھ چند احادیث پاک پیش کر رہے ہیں)
” حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت چھینے کی کوشش کی اطلاع“(ترمذی ج 2 ص 212)
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر“(ترمذی ج 2 ص 221)
”حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت مدینہ طیبہ کے سفر میں آندھی کا آنا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کسی بڑے منافق کی موت کی خبر دی“(مشکوة ج2 ص 536)
”حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت جنت میں سب سے پہلے اہل بیت میں سے بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ملاقات“(مشکوة ج 2 ص 563)
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ (نفیع بن الحارث المتوفی 49ھ) فرماتے ہیں :
”جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (المتوفی 50ھ)کی طرف اشارہ کر کے ارشاد فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا(بخاری ج 2 ص 1053)
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے:
”حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد کچھ ایسے حکام پیدا ہوں گے جو میری سیرت اور میری سنت پر نہیں چلیں گے دل ان کے شیطانوں کے سے ہوں گے مگر شکل صورت میں انسان ہوں گے“(مسلم ج 2 ص127)
اس طرح اللہ تعالیٰ کی کتابیں،اللہ کے رسول، فرشتے،مرنے کے بعد کی زندگی، قیامت کی نشانیاں اور قیامت کا قائم ہونا ،روز آخرت ، میدان محشر،اللہ سے ملاقات ، حساب کتاب ،پل صراط ،جنت ،جہنم
اور اس کے علاوہ بہت سی احادیث پاک ہیں جن میں حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیوں کی اطلاع دیں،اور بہت سی غیب کی خبروں کی اطلاع دیں (یہاں وہ تما م احادیث پاک شامل ہوجاتیں ہیں جن میں غیب کی خبروں کابیان ہے اور فریق مخالف اپنے موقف میں بطور دلیل پیش فرماتے ہیں ،الحمد للہ ہمارا تمام احادیث پاک پر ایمان ہے)
بزرگان دین ان غیب کی خبروں کو اخبار غیب یا انبا ءغیب فرماتے ہیں ۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے اطلاع علی الغیب ،انبا ءالغیب اور اظہار الغیب کے ذریعہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو جتنے علوم سے نوازا وہ اللہ کی مخلوق میں کسی کو بھی عطا نہیں ،اور فوق کل ذی علم علیم کے مصداق آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔
اب آجائیں اس نقطہ کے انتہائی اہم رخ کی طرف ۔
بہت زیادہ توجہ کی درخواست ہے۔
فریق مخالف حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے غیب کے اثبات میں اوپر بیان کی گئیں آیات مبارکہ سے دلیل پیش کرتے ہیں کہ ”حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم علم غیب جانتے ہیں“
جبکہ ایک آیات مبارکہ میں بھی حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے غیب جاننے کا بیان موجود نہیں بلکہ مطلع کیا اور انباءغیب کا بیان ہے۔
اورفریق مخالف کو مغالطہ ہے کہ غیب کی خبروں پر مطلع ہونا غیب جاننے کی دلیل ہے۔
تو غور فرمائیں :
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے غیب کی خبروں سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو مطلع فرمایا۔
(فریق مخالف کی منطق سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی غیب کے جاننے والے ہوئے)
صحابہ کرام نے تابعین کرام کو مطلع فرمایا
اور تابعین کرام نے تبع تابعین کرام کو مطلع فرمایا
اور اسی طرح درجہ بدرجہ ائمہ کرام،بزرگان دین ،محدثین حضرات ایک دوسرے کو مطلع فرماتے رہے
اور اسی طرح آج لاکھوں کروڑوں مسلمان غیب کی خبروں پر مطلع ہوئے ۔
ان غیب کی خبروں میں سے بہت سے واقعات ہوچکے ہیں(جو غیب میں داخل ہیں)اور بہت سے واقعات ہونے والے ہیں (جو غیب میں ہی داخل ہیں)
تو فریق مخالف کی منطق سے اگر غیب پر مطلع ہونا،غیب جاننے کی دلیل ہے تو اس لحاظ سے وہ سب لوگ غیب جاننے والے ہوئے جو لوگ احادیث پاک سے مطلع ہوئے کہ کل کیا کیا ہوا ؟اور آنے والے کل کیا کیا ہوگا؟
یقینا ایسا عقیدہ کوئی بھی مسلمان نہیں رکھتا ۔۔۔۔۔ لہذا واضح ہوتا ہے کہ غیب پر مطلع ہونا غیب جاننے کی دلیل نہیں ۔۔۔۔ اور "علم غیب" (یعنی غیب جاننا) کی اصطلاح ذاتی علم غیب کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔۔۔۔ جس کا فریق مخالف بھی قائل نہیں ہے ۔۔۔ بلکہ ہماری بات کی تصدیق خود فریق مخالف کے امام احمد رضا صاحب کے اس حوالہ سے بھی ہوتی ہے ۔۔۔ احمد رضا صاحب فرماتے ہیں کہ:
"علم جب کہ مطلق بولا جائے خصوصا جبکہ غیب کی خبر کی طرف مضاف ہو تو اس سے مراد علم ذاتی ہوتا ہے" (ملفوضات حصہ سوم)
اور یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام رحمھم اللہ نے غیر اللہ کے لئے علم غیب کا عقیدہ رکھنے والے کی تکفیر فرمائی ہے ۔
چناچہ ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کے لئے علم غیب پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”پھر تو جان لے کہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام غیب کی چیزوں کا علم نہیں رکھتے تھے مگر جتنا کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ ان کو علم دے دیتا ہے اور حنفیوں نے تصریح کی ہے کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں تو وہ کافر ہے کیوں کہ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا معارضہ کیا کہ تو کہدے کہ جو ہستیاں آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ غیب نہیں جانتی بجز پروردگار کے ایسا ہی مسایرہ میں ہے“(مسائرہ مع المسامرہ ج 2 ص 88 طبع مصر)(شرح فقہ اکبر ص 185 طبع کانپور)
تو واضح ہوتا ہے کہ غیر اللہ کے لئے غیب جاننے کا عقیدہ ر کھنا کفر ہے۔
جبکہ بزرگان دین اور دیگر علماءکرام کے اقوال کے مفہوم یہ نہیں ہیں کہ” نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں “
بلکہ بزرگان دین اور علماءکرام کے اقوال میں” بعض غیب پرمطلع ہوئے “وغیرہ کے ارشادات ہیں ۔اور غیب پر مطلع ہونا ۔غیب جاننے کی دلیل نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی وفیق عطاء فرمائے آمین
اگر کسی بھائی کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی غلطی نظرآئے تو ہمیں ضرور نشاندہی فرمائیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا واضح اور صاف صاف فرمان کہ”غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا“ :
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ الخ النمل 65 پارہ 20
(ترجمہ :کہہ دے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے کوئی بھی سوائے اللہ کے غیب کو نہیں جانتا ،اور انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھا کھڑے کئے جائیں گے )
علامہ بغوی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
یہ آیت مشرکین کے بار ے میں نازل ہوئی جبکہ انہوں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے وقت کے متعلق سوال کیا تھا۔(معالم التنزیل جلد 5 صفحہ 128)
اور یہی شان نزول تفسیر جلالین صفحہ 321،مدارک جلد2 صفحہ 167،اور جامع البیان صفحہ 321 وغیرہ میں مذکور ہے۔
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ابن کثیر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو حکم دےتا ہے کہ وہ سارے جہاں کو معلوم کرا دیں کہ ساری مخلوق آسمان کی ہو یا زمین کی ،غیب کے علم سے خالی ہے بجز اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کے کوئی اور غیب کا جاننے والا نہیں ۔ مزید لکھتے ہیں کہ یہاں استثناءمنقطع ہے ،یعنی سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی انسان ،جن ،فرشتہ غیب داں نہیں۔(تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 372)
علامہ خازن رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
”مطلب آیت کا یہ ہے کہ بس اللہ تعالیٰ ہی کو علم غیب ہے اور وہی جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی اور ان کو یہ خبر نہیں کہ وہ کب دوبارہ زندہ کئے جائیں گے یعنی جو مخلوق کہ آسمانوں میں ہے اور وہ فرشتے ہیں اور جو زمین میں ہیں یعنی بنی آدم (اور جنات وغیرہ)ان کو یہ نہیں معلوم کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ہی اس کے علم کے ساتھ متفرد ہے“(یعنی اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا) (تفسیر خازن جلد 5 صفحہ125)
قاضی ثنا ءاللہ الحنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
”اے محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم آپ فرمادیجیے کہ غیب بجز اللہ تعالیٰ کے نہیں جانتے وہ جو آسمانوں میں ہیں یعنی فرشتے ،اور جو زمین میں ہیں یعنی جن اور انسان اور انہی انسانوں میں حضرات انبیا ءکرام علیہم الصلوةوالسلام بھی ہیں“(تفسیر مظہری جلد 7 صفحہ 126)
غیب پر مطلع ہونا ، انباءغیب اور غیب جاننے کا فرق
اس موضوع کا یہ نقطہ سب سے زیادہ اہم ہے ۔ کیوں کہ یہ نقطہ ہی سمجھنے کی غلط فہمی علم غیب پر اختلافات کی بنیاد ہے ۔اور فریق مخالف کے دلائل کی بنیادیں اسی نقطہ پر رکھی گئیں ہیں۔اس لئے آپ تمام دوستوں سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے ۔
اب یہاں ہم سب سے پہلے فریق مخالف کی طرف سے پیش کی ہوئی غیب کے اثبات میں آیات مبارکہ پیش کرتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ الخ اٰٰل عمران 179 پارہ 4
(ترجمہ:اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ مطلع کرے تم کو غیب پر ،لیکن ہاں جس کو خود چاہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں ،اُن کو منتخب فرمالیتا ہے)
اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ الخ جن 26،27 پارہ 29
(ترجمہ :۔ غیب کا جاننے والا وہ ہی ہے،سو مطلع نہیں فرماتا وہ اپنے غیب پر کسی کو ، سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے)
اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ الخ یوسف 102 پارہ 13
(ترجمہ:یہ غیب کی خبریں ہیں جو وحی کر رہے ہیں ہم تمہاری طرف )
اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـٰذَا الخ ھود 49 پارہ 12
(ترجمہ:یہ خبریں ہیں غیب کی جو ہم وحی کر رہے ہیں تمہاری طرف (اے نبی)نہیں جانتے تھے یہ باتیں تم اور نہ تمہاری قوم اس سے پہلے)
اوپر بیان کی گئیں غیب کے اثبات میں آیات مبارکہ میں آپ نوٹ فرمائیں کہ ایک موقعہ پر بھی بیان نہیں کہ ”اللہ کے رسول غیب جانتے ہیں “ بلکہ ’مطلع کیا گیا“یا” غیب کی خبریں وحی کی گئیں“ کا بیان ہے۔
یہ بہت ہی خاص بات ہے ،آپ لوگ اپنے ذہن میں رکھیں ان شاءاللہ آگے مزید وضاحت آئے گی۔
اب یہاں نیچے والی آیات مبارکہ ملاحظہ فرمائیں کہ غیب کی نفی میں واضح طور پر ”غیب جاننے کی نفی “ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ الخ النمل 65 پارہ 20
(ترجمہ :کہہ دے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے کوئی بھی سوائے اللہ کے غیب کو نہیں جانتا)
اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ الخ الاعراف 188 پارہ 9
(ترجمہ: کہہ دو کہ میں نہیں اختیار رکھتا میں اپنی ذات کے لئے بھی نہ کسی نفع اور نہ کسی نقصان کا ،مگر یہ کہ چاہے اللہ ،اور ہوتا مجھے علم غیب کا تو ضرور حاصل کر لیتا میں بہت فائدے اور نہ پہنچتا مجھے کوئی نقصان)
ہم یہاں آیات مبارکہ کی تفاسیراس لئے پیش نہیں کر رہے ہیں کیو ں کہ ہمارا مقصد اس وقت صرف غیب کے اثبات اور غیب میں نفی میں آیات مبارکہ میں اس فرق کو واضح کر نا ہے کہ فریق مخالف کا موقف ہے کہ ”حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں“
اوردلیل میں جو آیات مبارکہ پیش فرماتے ہیں ان میں غیب پر مطلع ہونا یا انباءغیب کا بیان ہے۔
اب آجائیں فریق مخالف کے کچھ اعتراضات کی طرف۔
فریق مخالف کا کہنا ہے کہ ”مخالفین کہتے ہیں کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ،یا نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں غیب نہیں جانتا ،یا فقہاءکرام فرماتے ہیں جو غیر اللہ کے لئے غیب جاننے کا عقیدہ مانے وہ کافر ہے۔
فریق مخالف کا کہنا ہے کہ یہ دلائل تو خود مخالفین کے خلاف ہیں کیوں کہ بعض غیب تو وہ بھی مانتے ہیں ،اور اختلاف تو ”جمیع کان وما یکون (یعنی جو ہوچکا ہے یا جو کچھ ہونے والا ہے) “پر ہے۔تو یہ حضرات فرماتے ہیں کہ پھر اس فتوی کی زد سے تو مخالفین بھی نہیں بچ سکتے کیوں کہ ایک بات کا بھی علم مانا تو ان کے دلائل کے خلاف ہوا۔
یہاں ہم فریق مخالف کی اس غلط فہمی کی دو حصوں میں وضاحت کریں گے ۔
یہاں پہلے تو” بعض غیب “ کا مفہوم سمجھیں ۔ اور یہ بات سمجھیں کہ ”اللہ تعالیٰ نے بعض غیب پر نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو مطلع کیا“ سے کیا مراد ہے؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔(الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ )البقرة 3 پارہ 1
(ترجمہ:جو لوگ لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں)
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایمان کسی چیز کی تصدیق کرنے کا نام ہے۔ (تفسیر طبری 1/335)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں۔(تفسیر طبری 1/235))
حضرت زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایمان کہتے ہیں عمل کو۔(تفسیر طبری 1/235)
ربیع بن انس رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہاں ایمان لانے سے مراد ڈرنا ہے۔(تفسیر طبری 1/235)
ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ سب اقوال مل جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ زبان سے،دل سے،عمل سے غیب پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کا ڈر رکھتے ہیں۔ ایمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ پر ،اس کی کتابوں پر ،اس کے رسولوں پر ایمان لانا شامل ہے،اور اس اقرار کی تصدیق عمل کے ساتھ بھی کرنا لازم ہے ۔ مزید فرماتے ہیں لغت میں ایمان کہتے ہیں صرف سچا مان لےنے کو۔
ابن کثیر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ غیب کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ غیب کا لفظ جو یہاں ہے اس کے معنی میں بھی مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں ،اور وہ سب صحیح ہیں اور جمع ہوسکتے ہیں
ابوالعالیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ پر،فرشتوں پر،کتابوں پر رسولوں پر ،قیامت پر،جنت دوزخ پر،اللہ سے ملاقات پر،مرنے کے بعد جی اٹھنے پر ایمان لانا ہے۔
قتادہ ابن دعامہ رحمتہ اللہ علیہ کا یہی قول ہے۔(تفسیر طبری1/236)
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعض دیگر اصحاب سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں جیسے جنت دوزخ وغیرہ ،وہ امور جو قرآن پاک میں مذکور ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ آیا ہے وہ سب غیب میں داخل ہے۔
ابو ذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن ہے۔
عطاءابن ابو رباح رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ پر ایمان لانے والا غیب پر ایمان لانے والا ہے ۔
اسماعیل بن ابو خالد رحمتہ اللہ علیہ اسلام کی تمام پوشیدہ چیزیں مراد ہیں۔
زید بن اسلم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں تقدیر پر ایمان لانا ہے۔
مزید لکھتے ہیں کہ پس یہ تمام اقوال معنی کی رو سے ایک ہی ہیں۔اس لئے کہ سب چیزیں پوشیدہ ہیں اور غیب کی تفسیر ان سب پر مشتمل ہے ،ان سب پر ایمان لاناواجب ہے۔
میرے بھائیوں دوستوں بزرگوں !
اللہ تعالیٰ کی کتابیں،اللہ کے رسول، فرشتے،مرنے کے بعد کی زندگی، قیامت کی نشانیاں اورقیامت ،روز آخرت ،میدان محشر،اللہ سے ملاقات ، حساب کتاب ،پل صراط ،جنت ،جہنم ،یہ سب غیب کی باتیں توہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرمایا۔ الحمد للہ جن پر ہم ایمان لاتے ہیں۔
اس کے علاوہ متعدد احادیث پاک ہیں جن میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے غیب کی اطلاع دیں۔(ہم اختصار کے ساتھ چند احادیث پاک پیش کر رہے ہیں)
” حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت چھینے کی کوشش کی اطلاع“(ترمذی ج 2 ص 212)
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر“(ترمذی ج 2 ص 221)
”حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت مدینہ طیبہ کے سفر میں آندھی کا آنا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کسی بڑے منافق کی موت کی خبر دی“(مشکوة ج2 ص 536)
”حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت جنت میں سب سے پہلے اہل بیت میں سے بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ملاقات“(مشکوة ج 2 ص 563)
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ (نفیع بن الحارث المتوفی 49ھ) فرماتے ہیں :
”جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (المتوفی 50ھ)کی طرف اشارہ کر کے ارشاد فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا(بخاری ج 2 ص 1053)
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے:
”حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد کچھ ایسے حکام پیدا ہوں گے جو میری سیرت اور میری سنت پر نہیں چلیں گے دل ان کے شیطانوں کے سے ہوں گے مگر شکل صورت میں انسان ہوں گے“(مسلم ج 2 ص127)
اس طرح اللہ تعالیٰ کی کتابیں،اللہ کے رسول، فرشتے،مرنے کے بعد کی زندگی، قیامت کی نشانیاں اور قیامت کا قائم ہونا ،روز آخرت ، میدان محشر،اللہ سے ملاقات ، حساب کتاب ،پل صراط ،جنت ،جہنم
اور اس کے علاوہ بہت سی احادیث پاک ہیں جن میں حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیوں کی اطلاع دیں،اور بہت سی غیب کی خبروں کی اطلاع دیں (یہاں وہ تما م احادیث پاک شامل ہوجاتیں ہیں جن میں غیب کی خبروں کابیان ہے اور فریق مخالف اپنے موقف میں بطور دلیل پیش فرماتے ہیں ،الحمد للہ ہمارا تمام احادیث پاک پر ایمان ہے)
بزرگان دین ان غیب کی خبروں کو اخبار غیب یا انبا ءغیب فرماتے ہیں ۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے اطلاع علی الغیب ،انبا ءالغیب اور اظہار الغیب کے ذریعہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو جتنے علوم سے نوازا وہ اللہ کی مخلوق میں کسی کو بھی عطا نہیں ،اور فوق کل ذی علم علیم کے مصداق آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔
اب آجائیں اس نقطہ کے انتہائی اہم رخ کی طرف ۔
بہت زیادہ توجہ کی درخواست ہے۔
فریق مخالف حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے غیب کے اثبات میں اوپر بیان کی گئیں آیات مبارکہ سے دلیل پیش کرتے ہیں کہ ”حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم علم غیب جانتے ہیں“
جبکہ ایک آیات مبارکہ میں بھی حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے غیب جاننے کا بیان موجود نہیں بلکہ مطلع کیا اور انباءغیب کا بیان ہے۔
اورفریق مخالف کو مغالطہ ہے کہ غیب کی خبروں پر مطلع ہونا غیب جاننے کی دلیل ہے۔
تو غور فرمائیں :
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے غیب کی خبروں سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو مطلع فرمایا۔
(فریق مخالف کی منطق سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی غیب کے جاننے والے ہوئے)
صحابہ کرام نے تابعین کرام کو مطلع فرمایا
اور تابعین کرام نے تبع تابعین کرام کو مطلع فرمایا
اور اسی طرح درجہ بدرجہ ائمہ کرام،بزرگان دین ،محدثین حضرات ایک دوسرے کو مطلع فرماتے رہے
اور اسی طرح آج لاکھوں کروڑوں مسلمان غیب کی خبروں پر مطلع ہوئے ۔
ان غیب کی خبروں میں سے بہت سے واقعات ہوچکے ہیں(جو غیب میں داخل ہیں)اور بہت سے واقعات ہونے والے ہیں (جو غیب میں ہی داخل ہیں)
تو فریق مخالف کی منطق سے اگر غیب پر مطلع ہونا،غیب جاننے کی دلیل ہے تو اس لحاظ سے وہ سب لوگ غیب جاننے والے ہوئے جو لوگ احادیث پاک سے مطلع ہوئے کہ کل کیا کیا ہوا ؟اور آنے والے کل کیا کیا ہوگا؟
یقینا ایسا عقیدہ کوئی بھی مسلمان نہیں رکھتا ۔۔۔۔۔ لہذا واضح ہوتا ہے کہ غیب پر مطلع ہونا غیب جاننے کی دلیل نہیں ۔۔۔۔ اور "علم غیب" (یعنی غیب جاننا) کی اصطلاح ذاتی علم غیب کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔۔۔۔ جس کا فریق مخالف بھی قائل نہیں ہے ۔۔۔ بلکہ ہماری بات کی تصدیق خود فریق مخالف کے امام احمد رضا صاحب کے اس حوالہ سے بھی ہوتی ہے ۔۔۔ احمد رضا صاحب فرماتے ہیں کہ:
"علم جب کہ مطلق بولا جائے خصوصا جبکہ غیب کی خبر کی طرف مضاف ہو تو اس سے مراد علم ذاتی ہوتا ہے" (ملفوضات حصہ سوم)
اور یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام رحمھم اللہ نے غیر اللہ کے لئے علم غیب کا عقیدہ رکھنے والے کی تکفیر فرمائی ہے ۔
چناچہ ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کے لئے علم غیب پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”پھر تو جان لے کہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام غیب کی چیزوں کا علم نہیں رکھتے تھے مگر جتنا کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ ان کو علم دے دیتا ہے اور حنفیوں نے تصریح کی ہے کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں تو وہ کافر ہے کیوں کہ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا معارضہ کیا کہ تو کہدے کہ جو ہستیاں آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ غیب نہیں جانتی بجز پروردگار کے ایسا ہی مسایرہ میں ہے“(مسائرہ مع المسامرہ ج 2 ص 88 طبع مصر)(شرح فقہ اکبر ص 185 طبع کانپور)
تو واضح ہوتا ہے کہ غیر اللہ کے لئے غیب جاننے کا عقیدہ ر کھنا کفر ہے۔
جبکہ بزرگان دین اور دیگر علماءکرام کے اقوال کے مفہوم یہ نہیں ہیں کہ” نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں “
بلکہ بزرگان دین اور علماءکرام کے اقوال میں” بعض غیب پرمطلع ہوئے “وغیرہ کے ارشادات ہیں ۔اور غیب پر مطلع ہونا ۔غیب جاننے کی دلیل نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی وفیق عطاء فرمائے آمین
اگر کسی بھائی کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی غلطی نظرآئے تو ہمیں ضرور نشاندہی فرمائیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں
No comments:
Post a Comment