مسئلہ علم غیب اور چند مغالطے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علم غیب کی دو قسمیں ذاتی اور عطائی
اب آجائیں فریق مخالف کے ایک اور اعتراض کی طرف۔
فرماتے ہیں کہ جیسے قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے(ترجمہ:کہہ دے کہ زمین والوں میں سے اور آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا)
اور جیسا کہ قرآن پاک میں اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ :۔ غیب کا جاننے والا وہ ہی ہے،سو مطلع نہیں فرماتا وہ اپنے غیب پر کسی کو ، سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے)
فریق مخالف فرماتے ہیں کہ اگر بالفرض مان لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا تو دوسری آیت مبارکہ میں اللہ کے رسولوں کے لئے غیب کا اثبات ہے تو اس کو کس زمرے میں رکھیں گے ؟
اورفرماتے ہیں کہ یہاں تعارض پیدا ہوجائے گا کہ ایک موقعہ پر ارشاد ہے کہ”اللہ کے سوا غیب کوئی نہیں جانتا “اور دوسرے مقام پر غیب کا اثبات ہے۔
محترم قارئین کرام
حالانکہ تضاد ان آیات مبارکہ کو سمجھنے میں تھا جو ہم نے اوپر قرآن پاک کے ہی ارشادات سے ہی واضح کیا ہے۔ کہ غیر اللہ کے لئے غیب کے اثبات کے ارشاد میں ”مطلع ہونا“ یا”یہ انباءغیب (غیب کی خبریں) ہیں جو وحی کیں گئیں “کے ارشادات ہیں۔
جبکہ غیر اللہ کے لئے غیب کی نفی کے ارشاد میں ”اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا “کابیان ہے۔
اور جاننا اور مطلع ہونے میں کیا فرق ہے اور اس کی وضاحت بھی پیش کی ہے ۔
لیکن اگر بالفرض غیب کے اثبات کی آیات مبارکہ سے فریق مخالف کے موقف کو درست مان لیا جائے کہ”حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم علم غیب جانتے ہیں“
تو تعارض تو اصل یہاں پیدا ہوتا ہے کہ
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے ”زمین والوں اور آسمان والوں میں سے اللہ کے سوا کوئی بھی غیب کو نہیں جانتا“
اور فریق مخالف کا دعوی ہے کہ ”حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں“
اوراس واضح اور صاف تعارض کوفریق مخالف یہ کہہ کر دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ”جہاں اللہ تعالیٰ کے سوا غیب کے جاننے کی نفی آئی ہے اس سے مراد”ذاتی علم غیب ہے عطائی نہیں “
ملاحظہ فرمائیں اس دلیل کی حقیقت:
ہمارے اکابرین کی عبارت میں ”ذاتی “ اور ”عطائی“ کے الفاظ آئے ہیں۔
لیکن بزرگان دین کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم ”ذاتی“ طور پر اور بالاستقلال تو کل غیوب کو نہیں جانتے مگر ”عطائی“اور غیر مسقل طور پر کل مغیبات کو جانتے ہیں ۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے آپ یہ بات سمجھیں کہ بزرگوں نے لفظ ”ذاتی“ کا استعمال کر کے کیا بات سمجھانے کی کوشش کی ہے ؟
ذاتی طور پر غیب جاننے سے مراد ہے کہ” از خودغیب جاننا“جس کا فریق مخالف بھی قائل نہیں ۔
اور ’’عطائی‘‘ طور پر غیب جاننے سے مراد یہ ہے کہ مثال کے طور پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی ،جب تک ارض حجاز سے آگ نہ نکلے جس کی روشنی بصری کے مقام پر اونٹوں کی گردنیں نظرآنے لگیں“(بخاری ج 2 ص 1054)(مسلم ج 2 ص 393 )
یہ غیب کی خبر ہے ۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اس خبر سے مطلع فرمایا( یا اس ”غیب کی خبر“ کا علم عطا ءفرمایا)
تو یہاں بزرگوں کے قول سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ”ذاتی “طور پر (یعنی از خود)یہ غیب کی خبر نہیں جانتے بلکہ” عطائی “طور پر یہ غیب کی خبر جانتے ہیں۔
اسی طرح اللہ رب العزت نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اطلاع علی الغیب ،انبا ءالغیب اور اظہار الغیب سے جتنے غیوب کی خبروں پر مطلع فرمایا ۔۔۔۔ وہ سب عطائی ہیں یعنی جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم از خود غیب نہیں جانتے بلکہ اللہ رب العزت نے عطاء فرمایا۔
جبکہ فریق مخالف کا ”ذاتی اور عطائی“ کا استعمال اپنے دعوے”ابتدائے آفرینش سے الیٰ یوم القیامتہ کے ذرے ذرے کا کلی علم غیب “کے دفاع کے لئے ہے ۔
بزرگوں کا "ذاتی عطائی" کی قیود کو ملحوظ رکھنے کی وجہ قرآن پاک اور احادیث پاک میں غیب کے اثبات اور نفی کی نصوص ہیں۔
جبکہ فریق مخالف کا ”ذاتی اور عطائی “ کا استعمال غیب کی نفی کی واضح اور صریح نصوص میں تاویلات کرنے کے لئے ہے ۔
کیوں کہ فریق مخالف کا دعوی زمین و آسمان کے کلی علم غیب پر ہے ۔۔۔۔اور اس دعوی کا دفاع اُسی صورت میں ممکن ہے کہ جب قرآن و حدیث میں کسی بھی غیب کی نفی میں کی نصوص کو غیب جاننے کے اثبات میں نہ تبدیل نہ کرلیا جائے ۔
اور اس کا آسان راستہ فریق مخالف کے پاس لفظ ”ذاتی اور عطائی“ کی صورت میں موجود ہے ۔۔۔۔یعنی قرآن و حدیث یا آثار صحابہ یا بزرگان دین کے اقوال میں جہاں بھی صریح اور واضح طور پر بھی غیر اللہ کے لئے غیب کی نفی کی عبارت مل جائے ۔۔۔۔اس کے جواب میں محض ”ذاتی کی نفی“ کہہ کر آسان جواب دیا جاسکتا ہے ۔
مثال کے طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے :
” حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے کہ جو کہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلمکل کی بات جانتے تھے ،اس نے اللہ تعالیٰ پر بہتان عظیم باندھا،اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب کی بات جاننے والا نہیں“
مسلم شریف ،کتاب الایمان،باب معنی قول اللہ عزوجل (ولقد رآہ نزلتہ اخریٰ )ح : 177 طول منہ (بخاری جلد 2 صفحہ 720 )(مسلم جلد 1 صفحہ 98 )(ابو عوانہ جلد1 صفحہ 154 )(بخاری جلد 2 صفحہ 1089 )(ترمذی جلد 2 صفحہ 160 )(مشکوۃ جلد 2 صفحہ 501 )
یہاں فریق مخالف کاآسان جوا ب ہوتا ہے کہ ”حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ”علم غیب ذاتی کی نفی کی ہے عطائی کی نہیں“
میرے بھائیوں بزرگو اور دوستو!
فریق مخالف کے اس مغالطہ (یعنی جن مقامات پر حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے غیب جاننے کی”نفی“ آجائے وہاں لفظ ”ذاتی “ کا استعمال کرکے اپنے موقف کا دفاع کیا جاسکے)پرسے پردہ اٹھا نے کے لئے ہم آپ کے سامنے ایسی صحیح احادیث پاک پیش کر رہے ہیں جن میںغیب کا ”اثبات “اور” نفی“ بھی ہے“
دیکھتے ہیں نیچے بیان کی گئی صحیح احادیث پاک کے جواب میں فریق مخالف کیا فرماتے ہیں؟؟؟
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں ،اللہ ہی کے پاس ہیں علم قیامت کا اور بارش نازل کرنے کا اور مافی الرحام کا خبیر تک (جو سورہ لقمان کی آخری آیتیں ہیں)(کنز العمال ج 6 ص 106 )(مسند احمد ج2 ص 85 )(درمنشور ج5 ص 170 )(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 454 )(امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح خصائص الکبریٰ ج 2 ص 195 )(علامہ عزیزی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں قال الشیخ الحدیث صحیح (السراج المنیر ج2 ص79 )(علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح (روح المعانی ج 21 ص 99 )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (المتوفی32 ھ ) فرماتے ہیں:
” تمہارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب کے خزانے عطا کئے گئے ہیں مگر یہ پانچ امورعطا نہیں کئے گئے جو سورہ لقمان کی آخر میں ہیں“(مسند احمد ج 4 ص 438 )
نیز فرماتے ہیں کہ:
”نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم عطا کیا گیا ہے سوائے ان پانچ چیزوں کے (کہ ان کا علم کسی کوبھی عطا نہیں ہوا)(فتح الباری ج 1 ص 115 ۔اور ج 8 ص395 ۔جلد 13 ص 308 )(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 454)وقال ہذا اسناد حسن و در منشور ج 5 ص 170 )
حضرت ربعی رحمتہ اللہ علیہ بن خراش (المتوفی 100ھ )سے روایت ہے :
مجھ سے بنی عامر کے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاظر ہوا اور عرض کیا کہ علم میں سے کوئی ایسی چیز بھی باقی ہے جس کو آپ نہ جانتے ہوں ،حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سی خیر کی تعلیم دی ہے اور بے شک علوم میں سے وہ بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا چناچہ پانچ باتیں جو سورہ لقمان کی آخری آیت میں مذکور ہیں ،ان کا پورا علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کسی دوسرے کو نہیں “(مسند احمد )(وقال ابن کثیر ج 3 ص 455 ہذا اسناد صحیح) (در منشور ج 5 ص 170 )
ہمارا فریق مخالف سے سوال ہے کہ:
کیا یہ احادیث پاک صحیح ہیں ؟؟؟
اگریہ احادیث پاک صحیح ہیں تو ان احادیث پاک میں بیان ہوا ہے کہ(مثال کے طور پر) عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ
” حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے سب چیز کی چابیاں دی گئیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں“(جو سورہ لقمان کی آخری آیات ہیں)
فریق مخالف فرمائیں گے کہ ”جن پانچ چیزوں کی چابیاں عطا ءنہیں کی گئیں“ کا بیان ہے اس سے مراد ”ذاتی “ ہے ”عطائی “ نہیں۔
پھر آپ جواب دیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”مجھے سب چیز کی چابیاں دیں گئیں ہیں “
اس سے کیا مفہوم ثابت ہوتا ہے ؟
کیا جن چیزوں کی چابیاں عطا کئے جانے کا بیان آیا ہے وہ ”ذاتی“ کے لئے ہے ؟
(جبکہ ذاتی ہونے کا فریق مخالف بھی قائل نہیں)
تو پھر ”عطائی “ کے لئے ہے ۔
(جیسا کہ ان احادیث پاک کے الفاظ سے ہی واضح ہو رہا ہے ”عطا کی گئیں“)
تو پھر ان احادیث پاک میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے جن پانچ چیزوں کی چابیوں کی نفی کی ہے وہ کیا ہیں؟
تمام قارئین کرام سے درخواست ہے کہ جب آپ اس نکتہ پر غور فرمائیں گے تو ان شاءاللہ تعالیٰ بات آسانی سے سمجھ آجائے گی کہ قرآن پاک اور احادیث پاک میں اللہ تعالیٰ کے سوا علم غیب جاننے کی جہاں جہاں واضح نفی ہے فریق مخالف اس” نفی“ کواپنے موقف کے” اثبات“ میں” ڈھالنے“ کے لئے لفظ ”ذاتی “ کا استعمال کرتے ہیں۔تاکہ اپنے موقف کا دفاع کیا جاسکے۔اور لوگوں کے ذہنوں میں سے پیدا ہونے والے سوالات کا آسان جواب دیا جاسکے ۔
فریق مخالف کا محض”ذاتی اور عطائی “ کے الفاظ کو استعمال کر کے واضح اور صاف تعارض (یعنی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ زمین والوں میں سے اور آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا اورفریق مخالف کا دعوی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم علم غیب جانتے ہیں)دور نہیں ہوگا۔
یہاں ہم اپنی بات ایک دفعہ پھر دہراتے ہیں کہ بزرگان دین کے اقوال میں ”عطائی طور پر“ غیب جاننے سے مراد بطور ” بعضغیب کی خبروں پر مطلع ہونا یا غیب کی خبروں کا علم عطا ءہونا“ ہے۔
اور جبکہ فریق مخالف کا موقف ”عطائی طور پر“غیب جاننے سے مراد ” ابتدائے آفرینش سے الی یوم القیامتہ کے ذرے ذرے کاکلی علم غیب جانناعطاء“ہوتا ہے ۔
جبکہ بیشتر وہ بزرگان دین جو ذاتی اور عطائی کی قیود کو ملحوظ رکھتے ہیں وہ اپنی تصریحات میںصاف اورواضح طور پر لکھتے ہیں کہ” کلی علم غیب“ صرف خاصہ خداوندی ہے۔
لیکن افسوس کہ فریق مخالف نے بزرگان دین کے ان واضح اورصریح اقوال کو چھوڑ کر محض” ذاتی اور عطائی“ کے الفاظ کو لے کر ”ذرے ذرے کاکلی علم غیب جاننا “ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔اورجب دیکھتے ہیں کہ بزرگوں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے بعض غیب پر مطلع ہونے کی اور کل غیب خاصہ خداوندی ہونے کی واضح تصریح فرمائی ہے ۔۔۔۔ اورخود یہ حضرات ”بعض کے بجائے کل غیب عطاء“کے مدعی ہیں ۔۔۔۔ تو اس تعارض کو دور کرنے کے لئے کیاتاویلات کرتے ہیں ۔۔۔ ان شاءاللہ تعالیٰ اس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی ۔
آپ تمام حضرات سے دعاﺅں کی خصوصی درخواست ہے ۔
ضروری گذارش : اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشاندہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے
علم غیب کی دو قسمیں ذاتی اور عطائی
اب آجائیں فریق مخالف کے ایک اور اعتراض کی طرف۔
فرماتے ہیں کہ جیسے قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے(ترجمہ:کہہ دے کہ زمین والوں میں سے اور آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا)
اور جیسا کہ قرآن پاک میں اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ :۔ غیب کا جاننے والا وہ ہی ہے،سو مطلع نہیں فرماتا وہ اپنے غیب پر کسی کو ، سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے)
فریق مخالف فرماتے ہیں کہ اگر بالفرض مان لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا تو دوسری آیت مبارکہ میں اللہ کے رسولوں کے لئے غیب کا اثبات ہے تو اس کو کس زمرے میں رکھیں گے ؟
اورفرماتے ہیں کہ یہاں تعارض پیدا ہوجائے گا کہ ایک موقعہ پر ارشاد ہے کہ”اللہ کے سوا غیب کوئی نہیں جانتا “اور دوسرے مقام پر غیب کا اثبات ہے۔
محترم قارئین کرام
حالانکہ تضاد ان آیات مبارکہ کو سمجھنے میں تھا جو ہم نے اوپر قرآن پاک کے ہی ارشادات سے ہی واضح کیا ہے۔ کہ غیر اللہ کے لئے غیب کے اثبات کے ارشاد میں ”مطلع ہونا“ یا”یہ انباءغیب (غیب کی خبریں) ہیں جو وحی کیں گئیں “کے ارشادات ہیں۔
جبکہ غیر اللہ کے لئے غیب کی نفی کے ارشاد میں ”اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا “کابیان ہے۔
اور جاننا اور مطلع ہونے میں کیا فرق ہے اور اس کی وضاحت بھی پیش کی ہے ۔
لیکن اگر بالفرض غیب کے اثبات کی آیات مبارکہ سے فریق مخالف کے موقف کو درست مان لیا جائے کہ”حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم علم غیب جانتے ہیں“
تو تعارض تو اصل یہاں پیدا ہوتا ہے کہ
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے ”زمین والوں اور آسمان والوں میں سے اللہ کے سوا کوئی بھی غیب کو نہیں جانتا“
اور فریق مخالف کا دعوی ہے کہ ”حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں“
اوراس واضح اور صاف تعارض کوفریق مخالف یہ کہہ کر دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ”جہاں اللہ تعالیٰ کے سوا غیب کے جاننے کی نفی آئی ہے اس سے مراد”ذاتی علم غیب ہے عطائی نہیں “
ملاحظہ فرمائیں اس دلیل کی حقیقت:
ہمارے اکابرین کی عبارت میں ”ذاتی “ اور ”عطائی“ کے الفاظ آئے ہیں۔
لیکن بزرگان دین کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم ”ذاتی“ طور پر اور بالاستقلال تو کل غیوب کو نہیں جانتے مگر ”عطائی“اور غیر مسقل طور پر کل مغیبات کو جانتے ہیں ۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے آپ یہ بات سمجھیں کہ بزرگوں نے لفظ ”ذاتی“ کا استعمال کر کے کیا بات سمجھانے کی کوشش کی ہے ؟
ذاتی طور پر غیب جاننے سے مراد ہے کہ” از خودغیب جاننا“جس کا فریق مخالف بھی قائل نہیں ۔
اور ’’عطائی‘‘ طور پر غیب جاننے سے مراد یہ ہے کہ مثال کے طور پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی ،جب تک ارض حجاز سے آگ نہ نکلے جس کی روشنی بصری کے مقام پر اونٹوں کی گردنیں نظرآنے لگیں“(بخاری ج 2 ص 1054)(مسلم ج 2 ص 393 )
یہ غیب کی خبر ہے ۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اس خبر سے مطلع فرمایا( یا اس ”غیب کی خبر“ کا علم عطا ءفرمایا)
تو یہاں بزرگوں کے قول سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ”ذاتی “طور پر (یعنی از خود)یہ غیب کی خبر نہیں جانتے بلکہ” عطائی “طور پر یہ غیب کی خبر جانتے ہیں۔
اسی طرح اللہ رب العزت نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اطلاع علی الغیب ،انبا ءالغیب اور اظہار الغیب سے جتنے غیوب کی خبروں پر مطلع فرمایا ۔۔۔۔ وہ سب عطائی ہیں یعنی جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم از خود غیب نہیں جانتے بلکہ اللہ رب العزت نے عطاء فرمایا۔
جبکہ فریق مخالف کا ”ذاتی اور عطائی“ کا استعمال اپنے دعوے”ابتدائے آفرینش سے الیٰ یوم القیامتہ کے ذرے ذرے کا کلی علم غیب “کے دفاع کے لئے ہے ۔
بزرگوں کا "ذاتی عطائی" کی قیود کو ملحوظ رکھنے کی وجہ قرآن پاک اور احادیث پاک میں غیب کے اثبات اور نفی کی نصوص ہیں۔
جبکہ فریق مخالف کا ”ذاتی اور عطائی “ کا استعمال غیب کی نفی کی واضح اور صریح نصوص میں تاویلات کرنے کے لئے ہے ۔
کیوں کہ فریق مخالف کا دعوی زمین و آسمان کے کلی علم غیب پر ہے ۔۔۔۔اور اس دعوی کا دفاع اُسی صورت میں ممکن ہے کہ جب قرآن و حدیث میں کسی بھی غیب کی نفی میں کی نصوص کو غیب جاننے کے اثبات میں نہ تبدیل نہ کرلیا جائے ۔
اور اس کا آسان راستہ فریق مخالف کے پاس لفظ ”ذاتی اور عطائی“ کی صورت میں موجود ہے ۔۔۔۔یعنی قرآن و حدیث یا آثار صحابہ یا بزرگان دین کے اقوال میں جہاں بھی صریح اور واضح طور پر بھی غیر اللہ کے لئے غیب کی نفی کی عبارت مل جائے ۔۔۔۔اس کے جواب میں محض ”ذاتی کی نفی“ کہہ کر آسان جواب دیا جاسکتا ہے ۔
مثال کے طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے :
” حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے کہ جو کہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلمکل کی بات جانتے تھے ،اس نے اللہ تعالیٰ پر بہتان عظیم باندھا،اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب کی بات جاننے والا نہیں“
مسلم شریف ،کتاب الایمان،باب معنی قول اللہ عزوجل (ولقد رآہ نزلتہ اخریٰ )ح : 177 طول منہ (بخاری جلد 2 صفحہ 720 )(مسلم جلد 1 صفحہ 98 )(ابو عوانہ جلد1 صفحہ 154 )(بخاری جلد 2 صفحہ 1089 )(ترمذی جلد 2 صفحہ 160 )(مشکوۃ جلد 2 صفحہ 501 )
یہاں فریق مخالف کاآسان جوا ب ہوتا ہے کہ ”حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ”علم غیب ذاتی کی نفی کی ہے عطائی کی نہیں“
میرے بھائیوں بزرگو اور دوستو!
فریق مخالف کے اس مغالطہ (یعنی جن مقامات پر حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے غیب جاننے کی”نفی“ آجائے وہاں لفظ ”ذاتی “ کا استعمال کرکے اپنے موقف کا دفاع کیا جاسکے)پرسے پردہ اٹھا نے کے لئے ہم آپ کے سامنے ایسی صحیح احادیث پاک پیش کر رہے ہیں جن میںغیب کا ”اثبات “اور” نفی“ بھی ہے“
دیکھتے ہیں نیچے بیان کی گئی صحیح احادیث پاک کے جواب میں فریق مخالف کیا فرماتے ہیں؟؟؟
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں ،اللہ ہی کے پاس ہیں علم قیامت کا اور بارش نازل کرنے کا اور مافی الرحام کا خبیر تک (جو سورہ لقمان کی آخری آیتیں ہیں)(کنز العمال ج 6 ص 106 )(مسند احمد ج2 ص 85 )(درمنشور ج5 ص 170 )(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 454 )(امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح خصائص الکبریٰ ج 2 ص 195 )(علامہ عزیزی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں قال الشیخ الحدیث صحیح (السراج المنیر ج2 ص79 )(علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح (روح المعانی ج 21 ص 99 )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (المتوفی32 ھ ) فرماتے ہیں:
” تمہارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب کے خزانے عطا کئے گئے ہیں مگر یہ پانچ امورعطا نہیں کئے گئے جو سورہ لقمان کی آخر میں ہیں“(مسند احمد ج 4 ص 438 )
نیز فرماتے ہیں کہ:
”نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم عطا کیا گیا ہے سوائے ان پانچ چیزوں کے (کہ ان کا علم کسی کوبھی عطا نہیں ہوا)(فتح الباری ج 1 ص 115 ۔اور ج 8 ص395 ۔جلد 13 ص 308 )(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 454)وقال ہذا اسناد حسن و در منشور ج 5 ص 170 )
حضرت ربعی رحمتہ اللہ علیہ بن خراش (المتوفی 100ھ )سے روایت ہے :
مجھ سے بنی عامر کے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاظر ہوا اور عرض کیا کہ علم میں سے کوئی ایسی چیز بھی باقی ہے جس کو آپ نہ جانتے ہوں ،حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سی خیر کی تعلیم دی ہے اور بے شک علوم میں سے وہ بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا چناچہ پانچ باتیں جو سورہ لقمان کی آخری آیت میں مذکور ہیں ،ان کا پورا علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کسی دوسرے کو نہیں “(مسند احمد )(وقال ابن کثیر ج 3 ص 455 ہذا اسناد صحیح) (در منشور ج 5 ص 170 )
ہمارا فریق مخالف سے سوال ہے کہ:
کیا یہ احادیث پاک صحیح ہیں ؟؟؟
اگریہ احادیث پاک صحیح ہیں تو ان احادیث پاک میں بیان ہوا ہے کہ(مثال کے طور پر) عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ
” حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے سب چیز کی چابیاں دی گئیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں“(جو سورہ لقمان کی آخری آیات ہیں)
فریق مخالف فرمائیں گے کہ ”جن پانچ چیزوں کی چابیاں عطا ءنہیں کی گئیں“ کا بیان ہے اس سے مراد ”ذاتی “ ہے ”عطائی “ نہیں۔
پھر آپ جواب دیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”مجھے سب چیز کی چابیاں دیں گئیں ہیں “
اس سے کیا مفہوم ثابت ہوتا ہے ؟
کیا جن چیزوں کی چابیاں عطا کئے جانے کا بیان آیا ہے وہ ”ذاتی“ کے لئے ہے ؟
(جبکہ ذاتی ہونے کا فریق مخالف بھی قائل نہیں)
تو پھر ”عطائی “ کے لئے ہے ۔
(جیسا کہ ان احادیث پاک کے الفاظ سے ہی واضح ہو رہا ہے ”عطا کی گئیں“)
تو پھر ان احادیث پاک میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے جن پانچ چیزوں کی چابیوں کی نفی کی ہے وہ کیا ہیں؟
تمام قارئین کرام سے درخواست ہے کہ جب آپ اس نکتہ پر غور فرمائیں گے تو ان شاءاللہ تعالیٰ بات آسانی سے سمجھ آجائے گی کہ قرآن پاک اور احادیث پاک میں اللہ تعالیٰ کے سوا علم غیب جاننے کی جہاں جہاں واضح نفی ہے فریق مخالف اس” نفی“ کواپنے موقف کے” اثبات“ میں” ڈھالنے“ کے لئے لفظ ”ذاتی “ کا استعمال کرتے ہیں۔تاکہ اپنے موقف کا دفاع کیا جاسکے۔اور لوگوں کے ذہنوں میں سے پیدا ہونے والے سوالات کا آسان جواب دیا جاسکے ۔
فریق مخالف کا محض”ذاتی اور عطائی “ کے الفاظ کو استعمال کر کے واضح اور صاف تعارض (یعنی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ زمین والوں میں سے اور آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا اورفریق مخالف کا دعوی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم علم غیب جانتے ہیں)دور نہیں ہوگا۔
یہاں ہم اپنی بات ایک دفعہ پھر دہراتے ہیں کہ بزرگان دین کے اقوال میں ”عطائی طور پر“ غیب جاننے سے مراد بطور ” بعضغیب کی خبروں پر مطلع ہونا یا غیب کی خبروں کا علم عطا ءہونا“ ہے۔
اور جبکہ فریق مخالف کا موقف ”عطائی طور پر“غیب جاننے سے مراد ” ابتدائے آفرینش سے الی یوم القیامتہ کے ذرے ذرے کاکلی علم غیب جانناعطاء“ہوتا ہے ۔
جبکہ بیشتر وہ بزرگان دین جو ذاتی اور عطائی کی قیود کو ملحوظ رکھتے ہیں وہ اپنی تصریحات میںصاف اورواضح طور پر لکھتے ہیں کہ” کلی علم غیب“ صرف خاصہ خداوندی ہے۔
لیکن افسوس کہ فریق مخالف نے بزرگان دین کے ان واضح اورصریح اقوال کو چھوڑ کر محض” ذاتی اور عطائی“ کے الفاظ کو لے کر ”ذرے ذرے کاکلی علم غیب جاننا “ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔اورجب دیکھتے ہیں کہ بزرگوں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے بعض غیب پر مطلع ہونے کی اور کل غیب خاصہ خداوندی ہونے کی واضح تصریح فرمائی ہے ۔۔۔۔ اورخود یہ حضرات ”بعض کے بجائے کل غیب عطاء“کے مدعی ہیں ۔۔۔۔ تو اس تعارض کو دور کرنے کے لئے کیاتاویلات کرتے ہیں ۔۔۔ ان شاءاللہ تعالیٰ اس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی ۔
آپ تمام حضرات سے دعاﺅں کی خصوصی درخواست ہے ۔
ضروری گذارش : اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشاندہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے
No comments:
Post a Comment