Friday, 27 November 2020

کیا دعاء(یعنی پکار) عبادت ہے

 

کیا دعاء(یعنی پکار) عبادت ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَقَالَ رَ‌بُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسْتَكْبِرُ‌ونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِ‌ينَ ﴿٦٠﴾...سورۃ غافر
''تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ: تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا اور جو لوگ مجھے پکارنے سے تکبر کرتے ہیں، وہ عنقریب رسوا ہوکر جہنم رسید ہوں گے۔''
اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزّت ہمیں دعاء اور سوال کرنے کی ترغیب دلا رہے ہیں۔نیز بتلایا ہےکہ جو لوگ اللہ سے دعاء و سوال نہیں کرتے ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے عبادت سے اعراض کرنے والے قرار دیا ہے۔اس سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ دعاء ایک عبادت ہے اور اللہ کے نبیﷺ نے اس کی صراحت فرما دی ہے۔
''عن نعمان بن بشیر عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أنه قال: الدعاء ھو العبادة ثم قرأ وَقَالَ رَ‌بُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسْتَكْبِرُ‌ونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِ‌ينَ'' ''حضرت نعمان بن بشیرؓ، آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ؐنے فرمایا کہ : دعا ہی اصل عبادت ہے، اس کے بعد آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔: ''وَقَالَ رَ‌بُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ............ الخ''
کہ ''تیرے رب نے فرمایا: تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعاء کو قبول کروں گا۔ جو لوگ مجھے پکارنے سے تکبر کرتے ہیں۔ وہ عنقریب رسوا ہوکر جہنم رسید ہوں گے۔''
( ترمذی9؍311، ابوداؤد حدیث 1466۔ ابن ماجہ 3828)
پس معلوم ہوا کہ دعاء صرف عبادت ہی نہیں، بلکہ بڑی عبادتوں میں سے ایک ہے اوراللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ایک شاندار ذریعہ بھی۔
دعاء کی فضیلت اور فائدہ:
دعاء اللہ کے نزدیک ایک بڑی اہم عبادت ہے۔ حدیث میں ہے:
''عن أبي ھریرة رضی اللہ عنه عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لیس شيء أکرم علی اللہ من الدعاء'' ''حضرت ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے ہاں دعاء سے بڑھ کر کوئی عمل افضل نہیں۔''
(ترمذی 9؍309، ابن ماجہ حدیث نمبر 7821، مسند احمد 2؍362)
اس لیے کہ اس میں انسان اپنی محتاجی، عاجزی او رکمزوری کے ساتھ ساتھ اپنے اللہ کی بے انتہاء قوت و قدرت کا اعتراف اور اقرار کرتا ہے۔ جیسا کہ ایک صحیح حدیث کے حوالہ سے پہلے گزر چکا ہے کہ ''دعاء ہی عبادت ہے'' تو دعاء کرنے والا اجر وثواب کا مستحق ہے، خواہ اس کی دعاء قبول نہ بھی ہو۔

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔
نہ عبادت اللہ کے سوا کسی اور کی جائز ہے اور نہ مدد مانگنا کسی اور سے جائز ہے۔ ان الفاظ سے شرک کا سد باب کر دیا گیا لیکن جن کے دلوں میں شرک کا روگ راہ پا گیا ہے وہ ما فوق الاسباب اور ما تحت الاسباب استعانت میں فرق کو نظر انداز کر کے عوام کو مغالطے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ہم بیمار ہو جاتے ہیں تو ڈاکٹر سے مدد حاصل کرتے ہیں بیوی سے مدد چاہتے ہیں ڈرائیور اور دیگر انسانوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اس طرح وہ یہ باور کراتے ہیں کہ اللہ کے سوا اوروں سے مدد مانگنا بھی جائز ہے۔ حالانکہ اسباب کے ما تحت ایک دوسرے سے مدد چاہنا اور مدد کرنا یہ شرک نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے۔ جس میں سارے کام ظاہر اسباب کے مطابق ہی ہوتے ہیں حتی کہ انبیاء بھی انسانوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا (من انصاری الی اللہ) اللہ کے دین کیلئے کون میرا مددگار ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو فرمایا (وتعاونوا علی البر والتقوی) نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو ظاہر بات ہے کہ یہ تعاون ممنوع ہے نہ شرک بلکہ مطلوب و محمود ہے۔ اس کا اصطلاحی شرک سے کیا تعلق؟ شرک تو یہ ہے کہ ایسے شخص سے مدد طلب کی جائے جو ظاہری اسباب کے لحاظ سے مدد نہ کر سکتا ہو جیسے کسی فوت شدہ شخص کو مدد کے لیے پکارنا اس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا اس کو نافع و ضار باور کرنا اور دور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے کی صلاحیت سے بہرہ ور تسلیم کرنا۔ اس کا نام ہے ما فوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کرنا اور اسے خدائی صفات سے متصف ماننا اسی کا نام شرک ہے جو بدقسمتی سے محبت اولیاء کے نام پر مسلمان ملکوں میں عام ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔



ہمارے فاضل دوست جناب زاہد صدیق مغل صاحب نے فوت شدگان یا غیر حاضر انبیاء اور اولیاء اللہ سے، پریشانی میں مدد مانگنے اور مشکل میں ان کی دہائی دینے کے بارے، بریلوی علماء کا موقف کچھ ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔ "جو مسلمان اللہ کے سواء کسی کو مستحق عبادت قرار نہ دیتا ھو، اور نہ اولیاء کو متصرف بالذات سمجھتا ھو، نہ انکو تصور میں مستقل سمجھتا ھو بلکہ یہ سمجھتا ھو کہ اولیاء کرام اللہ کی دی ھوئی قدرت اور اسکے اذن سے تصرف کرتے ہیں اور اسی عقیدے کے ساتھ ان سے استعانت کرے تو اس مسلمان کا یہ فعل شرک ھے نہ زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں کا سا کام ھے۔"
اس موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر فوت شدگان یا غیر حاضر انبیاء اور اولیاء اللہ کو "عبادت کا مستحق" نہ سمجھا جائے تو ان سے مدد مانگنا جائز ہے اور یہ شرک نہیں ہے۔ یعنی عبادت ان کا حق نہیں ہے لیکن کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اسے ان کا حق نہ سمجھے۔ یہ موقف قطعی طور کتاب وسنت کے خلاف اور شیطان کا دجل اور فریب ہے۔ مشرکین مکہ نہ تو اپنے بتوں کو زمین وآسمان کی تخلیق میں اللہ کا شریک قرار دیتے تھے اور نہ ہی انہیں مستحق عبادت یا متصرف بالذات سمجھتے تھے بلکہ قرآن مجید انہیں مشرک اس لیے قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے بتوں سے استغاثہ اور استعانت کو اللہ کے تقرب کا ذریعہ یا اللہ کے ہاں سفارشی سمجھتے تھے۔
ارشاد باری تعالی ہے:

ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم ولا ينفعهم ويقولون هؤلاء شفعاؤنا عند الله [يونس: 18]۔
اور وہ اللہ کے علاوہ اس کی عبادت کرتے ہیں کہ جو انہیں نہ تو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی فائدہ دے سکتے ہیں اور وہ کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
اس آیت میں شروع ہی میں اللہ عزوجل نے مشرکین مکہ کا عقیدہ بیان کر دیا کہ وہ بتوں کو مستقل بالذات فائدہ یا نقصان پہچانے والا نہیں سمجھتے تھے بلکہ اللہ کے ہاں سفارشی تصور کر کے ان سے مدد مانگنے اور ان کی دہائی دینے کے قائل تھے جبکہ اللہ نے ان کے اس فعل کو شرک قرار دیا ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ

( والذين اتخذوا من دونه أولياء ما نعبدهم إلا ليقربونا إلى الله زلفى) [الزمر:3]
اور جن لوگوں نے اللہ کے علاوہ کچھ اولیاء پکڑ لیے ہیں، وہ کہتے یہ ہیں کہ ہم ان اولیاء کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے بہت زیادہ قریب کر دیں۔
اسی لیے تو مشرکین مکہ کا حج کے موقع پر تلبیہ یہ تھا کہ:
لبيك اللهم لبيك لا شريك لك إلا شريك هو لك تملكه وما ملك۔
حاضر ہوں، اے اللہ، میں حاضر ہوں، اے اللہ، آپ کا کوئی شریک نہیں، سوائے اس شریک کے آپ ہی اس شریک کے مالک بھی ہیں اور اس چیز کے بھی کہ جو اس شریک کے پاس ہے۔
اگر مشرکین مکہ کے اس تلبیے میں غور کریں تو اللہ کا شریک ٹھہرانے میں انہوں نے کمال درجے کی توحید کا مظاہرہ کیا ہے کہ اے اللہ، اپنے شریک کا بھی تو ہی مالک اور جو اس شریک کے پاس ہے، اس کا بھی تو ہی مالک، یعنی اس شریک کا مستقل بالذات تو کچھ بھی نہیں، سب تیرا ہی ہے۔ اور یہی مشرکین مکہ کی توحید آج بدقسمتی سے برصغیر پاک ہند میں بریلوی طبقہ فکر کے علماء پیش کر رہے ہیں۔ چلیں، قرآن سمجھ نہیں آ پا رہا تو سنت سے سمجھ لیں کہ اس میں تفصیل زیادہ ہوتی ہے،
ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ

ما شاء اللہ وما شئت
کہ جو اللہ چاہے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں،
تو آپ نے جواب میں فرمایا: "اجعلتنی للہ ندا" کہ کیا تو نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا۔ اور ساتھ ہی حکم دیا کہ صرف یہ کہو کہ جو اللہ چاہے۔ [سنن ابو داود]
اب کیا وہ صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مستحق عبادت یا متصرف بالذات سمجھتے تھے؟ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس قول کو اللہ کا شریک ٹھہرانے کے برابر قرار دے دیا۔ اور آپ نے "ند" یعنی مدمقابل کا لفظ استعمال فرمایا ہے کہ جس کی جمع مشرکین کی مذمت میں قرآن مجید میں "انداد" آئی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ غزوہ حنین سے واپسی پر صحابہ کا گزر ایک درخت "ذات انواط" پر سے ہوا کہ جس سے مشرکین برکت حاصل کرتے تھے تو بعض صحابہ نے عرض کی آپ ہمارے لیے بھی فلاں بیری کے درخت کو "ذات انواط" کا درجہ دے دیں تو آپ نے جواب میں کہا کہ تم مجھ سے وہ مطالبہ کر رہے ہو جو بنی اسرائیل نے موسی علیہ السلام سے کیا تھا جبکہ انہوں نے ایک قوم کو بتوں کا اعتکاف کرتے دیکھا تھا تو کہا تھا کہ "اجعل لنا إلها كما لهم آلهة"۔ اے موسی، ہمارے لیے بھی ایک ایسا ہی معبود بنا دیں جیسا کہ ان کے معبود ہیں۔ [سنن الترمذی]
تو کیا فتح مکہ کے بعد بھی صحابہ سے یہ امید کی جا سکتی تھی کہ وہ اس درخت کو مستحق عبادت اور متصرف بالذات سمجھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کر رہے تھے؟
ان واقعات میں قابل غور بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے انہیں قرآن مجید کی آیات کی تفسیر بنا کر انہیں اللہ کا بیان بنا دیا ہے۔ اب سب مل کر کہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو وہابی اور اہل حدیث تھے؟ کہ تمہارے بقول تو اتنی چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر شرک کے فتوے تو یہی لگاتے ہیں۔ پس فوت شدگان سے مدد مانگنا، چاہے وہ انبیاء ہوں یا اولیاء، اور ان کی دہائی دینا، انہیں اپنے نفع یا نقصان کا مالک سمجھنا، ان کو اس لیے پکارنا کہ ان کو پکارنے سے میری کوئی تکلیف یا غم دور ہو جائے گا یا مجھے کوئی خوشی اور نعمت مل جائے گی، چاہے انہیں مسحق عبادت یا متصرف بالذات سمجھے یا نہ سمجھے، یا غائب یعنی جو زندہ تو ہوں لیکن پاس موجود نہ ہوں، ان سے مدد مانگنا اور ان کی دہائی دینا جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا شاہ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ وغیرہ کی دہائی دینا یا انہیں مشکل کشا سمجھ کر ان سے مدد مانگنا، اور حاضر سے ایسی مدد مانگنا کہ جس کی وہ قدرت نہ رکھتا ہو مثلا اس سے بیٹا مانگنا وغیرہ، شرک اکبر ہے اور ایسا کرنے والے دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے کہ یہی وہ شرک ہے جو مشرکین مکہ کا شرک تھا، جو قوم نوح کا شرک تھا بلکہ تمام انبیاء کی قوموں کا شرک یہی تھا اور یہی وہ شرک ہے کہ جس کے رد میں قرآن مجید نازل ہوا ہے۔

No comments:

Post a Comment