Friday, 27 November 2020

نبیﷺ کا سایہ نہیں تها ضعیف حدیث

 

نبیﷺ کا سایہ نہیں تها ضعیف حدیث


ایک غلط فہمی کا ازالہ
نبیﷺ کا سایہ نہیں تها ضعیف حدیث
الأحادیث الضعیفة
نبی کریم ﷺ کا سایہ مبارک نہیں تھا

ایک روایت میں آتا ہے کہ:
أنّ رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لم یکن یُریٰ له ظلّ فی شمس ولا قمر
” نبی کریم ﷺ کا سایہ نہ سورج کی روشنی میں نظر آتا تھا نہ چاند کی چاندنی میں۔“
(الخصائص الکبریٰ للسّیوطی: 71/1)

موضوع (من گھڑت): اس روایت کی سند درج ذیل ہے:”عبد الرحمٰن بن قیس الزّعفرانیّ عن عبد الملک بن عبد اللہ بن الولید عن ذکوان“ ، یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے:
٭ اس کا راوی عبد الرحمٰن بن قیس الزعفرانی "متروک و کذاب" ہے۔ (تقریب التہذیب: 3989)
٭عبد الملک بن عبد اللہ کو ملا علی قاری نے "مجہول" کہا ہے۔ (شرح الشفاء: 282/3، طبع مصر)
٭ذکوان تابعی ہیں، اور وہ یہ روایت صحابی کے واسطے کے بغیر بیان کررہے ہیں، لہٰذا یہ "مرسل" ہے، اس لیے قابلِ حجت نہیں ہے،۔
٭ نیز یہ روایت صحیح احادیث کے مخالف بھی ہے، جس سے نبی کریم ﷺ کے سایہ مبارک کا ثبوت ملتا ہے۔

فائدہ : سیّد الانبیاء محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ کے برگزیدہ نبی اور انسان تھے ۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلسلہ انسانیت سے پیدا کیا تھا اور انسان ہونے کے اعتبار سے یہ بات عیاں ہے کہ انسان کا سایہ ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے ایک مقام پر فر ما یا ہے کہ : ’’اور جتنی مخلو قا ت آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی اور نا خوشی سے اﷲ تعالیٰ کے آگے سجدہ کر تی ہیں اور اْن کے سائے بھی صْبح و شام سجدہ کرتے ہیں ۔‘‘(رعد :۱۵)
ایک اور مقام پر فرمایا :
’’کیا اْنہوں نے اﷲکی مخلوقات میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا کہ اْس کے سائے دائیں اور بائیں سے لوٹتے ہیں ۔ یعنی اﷲ کے آگے ہو کر سر بسجود ہوتے ہیں۔‘‘(النحل : ۴۸)
اِن ہر دو آیات سے معلوم ہو تا ہے کہ آسمان و زمین میں اﷲ نے جتنی مخلوق پیدا کی ہے اْن کا سایہ بھی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو اﷲ کی مخلوق ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی سا یہ تھا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سائے کے متعلق کئی احادیث موجود ہیں جیسا کہ : سیّدنا اَنس رضی اللہ عنہہ فرماتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور بالکل نماز کی حالت میں اپنا ہاتھ اچانک آگے بڑھایا مگر پھر جلد ہی پیچھے ہٹالیا ہم نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج آپؐ نے خلافِ معمول نماز میں نئے عمل کا اضافہ کیا ہے ۔آپؐ نے فرمایا نہیں ۔بلکہ بات یہ ہے کہ میرے سامنے ابھی ابھی جنت پیش کی گئی میں نے اِس میں بہترین پھیل دیکھے تو جی میں آیا کہ اِس میں سے کچھ اْچک لوں مگر فوراً حکم ملا کہ پیچھے ہٹ جاؤ میں پیچھے ہٹ گیا پھر مجھ پر جہنم پیش کی گئی۔
((حَتّٰی رَأَیْت ظِلِیّ وَظِلِیّ وَظِلَّلکْمْ)) اِس کی روشنی میں میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا ۔ دیکھتے ہی میں نے تمہاری طرف اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔ (مستدرک حاکم ۴ / ۴۵۶) امام ذہبیؒ نے تلخیص مستدرک میں فرمایا :” یہ حدیث صحیح ہے۔“
اِسی طرح مسند احمد ۶/۱۳۲‘۶/۳۳۸طبقات الکبریٰ ۸/۱۲۷‘مجمع الزوائد۴/۳۲۳ پر ایک حدیث میں مروی ہے کہ سیدّہ زینب رضی اللہ عنہا اورسیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں‘ صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک اْونٹ تھا اور وہ بیمار ہو گیا جب کہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس دو اونٹ تھے ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک زائد اونٹ صفیہ رضی اللہ عنہا کو دے دو تو اْنہوں نے کہا میں اْس یہودیہ کو کیوں دوں ؟ اِس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوگئے ۔ تقریباً تین ماہ تک زینب رضی اللہ عنہا کے پاس نہ گئے حتیٰ کہ زینب رضی اللہ عنہا نے مایوس ہو کر اپنا سامان باندھ لیا۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
’’اچانک دیکھتی ہوں کہ دوپہر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک آرہا ہے ۔‘‘
عقلی طور پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ سایہ مرئیہ فقط اْس جسم کا ہوتا جو ٹھوس اور نگر ہو نیز سورج کی شعاعوں کوروک ہی نہیں سکتا تو اِس کا سایہ بلاشبہ نظر نہیں آتا ۔ مثلاً صاف اور شفاف شیشہ اگر دھوپ میں لایا جائے تو اْس اک سایہ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اِس میں شعاعوں کو روکنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔ بخلاف اِس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر نہایت ٹھوس اور نگر تھا اْس کی ساخت شیشے کی طرح نہیں تھی کہ جس سے سب کچھ ہی گزر جائے۔ لا محالہ آپﷺ کا سایہ تھا ۔ اگر جسم اطہر کا سایہ مبارک نہ تھا تو کیا جب آپﷺ لباس پہنتے تو آپﷺکے مبلوسات کا بھی سایہ نہ تھا اگر وہ کپڑے اتنے لطیف تھے کہ اْن کا سایہ نہ تھا تو پھر اِن کے پہننے سے ستر وغیرہ کی حفاظت کیسے ممکن ہوگی؟
منکرینِ سایہ یہ کہتے ہیں کہ آپﷺ نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپﷺ کا سایہ اِس لیے نہیں تھا کہ اگر کسی کا آپﷺ کے سایہ پر قد م آجا تا تو آپﷺ کی توہین ہوتی اِس لیے اﷲ نے آپﷺ کا سایہ پیدا ہی نہیں کیا ۔ جہاں تک پہلی بات کا ذکر ہے کہ آپﷺ نور تھے (حالانکہ آپ ﷺ بشر تھے)اور نور کا سایہ نہیں ‘ سراسر غلط ہے۔ نوریوں کا سایہ صحیح حدیث سے ثابت ہے جب سیّد نا جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداﷲ رضی اللہ عنہ غزوۂ اْحد میں شہید ہوگئے تو اْن کے اہل و عیال اْن کے گرد جمع ہوکر رونے لگے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کہ جب تک تم انہیں یہاں سے اْٹھا نہیں لیتے اْس وقت سے فرشتے اِس پر اپنے پرّوں کا سایہ کیے رکھیں گے۔‘‘(بخاری کتاب الجنائز ۲ / ۱۵)
اور دوسری بات بھی خلافِ واقع ہے کیونکہ سایہ پاؤں کے نیچے آہی نہیں سکتا جب کبھی کوئی شخص سائے پر پاؤںرکھے گا تو سایہ اْس کے پاؤں کے اْوپر ہوجائے گا نہ کہ نیچے ۔ لہٰذا ان عقلی اور نقلی دلائل کہ خلاف یہ بے عقلی کی 

 اور بے سند باتیں حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔

......................................................................................
 
 صحیح ابن خزیمہ کی صحیح سند سے روایت ہے

 نا بَحْرُ بْنُ نَصْرِ بْنِ سَابَقٍ الْخَوْلَانِيُّ، نا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ قَالَ: فَبَيْنَمَا هُوَ فِي الصَّلَاةِ مَدَّ يَدَهُ، ثُمَّ أَخَّرَهَا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَنَعْتَ فِي صَلَاتِكَ هَذِهِ مَا لَمْ تَصْنَعْ فِي صَلَاةٍ قَبْلَهَا قَالَ: «إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ قَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ، وَرَأَيْتُ فِيهَا. . . . قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ، حَبُّهَا كَالدُّبَّاءِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَنَاوَلَ مِنْهَا، فَأُوحِيَ إِلَيْهَا أَنِ اسْتَأْخِرِي، فَاسْتَأْخَرَتْ، ثُمَّ عُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ حَتَّى رَأَيْتُ ظِلِّيَ وَظِلَّكُمْ، فَأَوْمَأْتُ إِلَيْكُمْ أَنِ اسْتَأْخَرُوا، فَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنْ أَقِرَّهُمْ، فَإِنَّكَ أَسْلَمْتَ وَأَسْلَمُوا، وَهَاجَرْتَ وَهَاجَرُوا، وَجَاهَدْتَ وَجَاهَدُوا، فَلَمْ أَرَ لِي عَلَيْكُمْ فَضْلًا إِلَّا بِالنُّبُوَّةِ»


انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے ساتھ ہم نے صبح کی نماز پڑھی پھر نماز کے دوران انہوں نے باتھ کو آگے کیا پھر پیچھے پس ہم نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کہ آپ نے نماز میں کیا کیا  جو اس سے پہلے نہیں کیا – فرمایا میں نے جنت دیکھی اور اس میں لٹکتے پھل دیکھے … پس ارادہ کیا کہ اس کو لوں تو وحی کی گئی کہ چھوڑ کروں لہٰذا چھوڑ دیا  پھر جہنم پیش کی گئی یہاں تک (روشنی میں)  میں نے اپنآ سایہ اور تمھارے سائے تک دیکھے


الذھبی نے اسکو صحیح کہا ہے روایت دلیل ہے کہ رسول الله کا سایہ تھا


صحیح مسلم کی روایت ہے کہ نور سے فرشتوں کو تخلیق کیا 
گیا صحیح بخاری میں فرشتوں کے سایہ کا ذکر ہے


عن جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ أَبِي جَعَلْتُ أَبْكِي، وَأَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، فَجَعَلَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَوْنِي وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنْهَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لاَ تَبْكِيهِ – أَوْ: مَا تَبْكِيهِ – مَا زَالَتِ المَلاَئِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ “[صحيح البخاري 5/ 102 رقم 4080 ]۔

جابر بن عبد الله رضی الله عنہ کہتے ہیں میرے والد کا قتل شہادت ہوئی میں رونے لگا اور ان کے چہرے پر سے کپڑا ہٹاتا  پس اصحاب رسول نے منع کیا لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع نہ کیا اور کہا مت رو فرشتوں نے ان پراپنے پروں  سایہ کرنا نہ چھوڑا یہاں تک کہ بلند ہوئے


عبد الرحمن بن قيس الزعفراني عن عبد الملك بن عبد الله بن الوليد عن ذكوان ان رسول الله  لم يكن يرى له ظل في شمس ولا قمر ولا أثر قضاء حاجة

اس  کی سند میں   عبدالرحمن بن قیس زعفرانی ہے جو احادیث گھڑتا تھا


سوره الرعد میں ہے

لِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ١٥ اور (سات) آسمانوں اور زمین میں جو  ہیں مرضی اور بغیر مرضی سے اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ کرتی ہیں اور ان کے سائے بھی صبح و شام سجدہ کرتے ہیں۔


سوره النحل میں ہے


أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ٤٨  
کیا انہوں نے جو  اللہ نے خلق کیا ان  میں کسی کو نہیں دیکھا کہ ان کے سائے دائیں اور بائیں گرتے ہیں الله کے لئے سجدے میں اور وہ کم ترکیے گئے ہیں



(مستدرک حاکم ۴ / ۴۵۶) امام ذہبیؒ نے تلخیص مستدرک میں فرمایا :” یہ حدیث صحیح ہے۔“
 اِسی طرح مسند احمد ۶/۱۳۲‘۶/۳۳۸طبقات الکبریٰ ۸/۱۲۷‘مجمع الزوائد۴/۳۲۳ پر ایک حدیث میں مروی ہے کہ سیدّہ زینب رضی اللہ عنہا اورسیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں‘ صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک اْونٹ تھا اور وہ بیمار ہو گیا جب کہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس دو اونٹ تھے ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک زائد اونٹ صفیہ رضی اللہ عنہا کو دے دو تو اْنہوں نے کہا میں اْس یہودیہ کو کیوں دوں ؟ اِس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوگئے ۔ تقریباً تین ماہ تک زینب رضی اللہ عنہا کے پاس نہ گئے حتیٰ کہ زینب رضی اللہ عنہا نے مایوس ہو کر اپنا سامان باندھ لیا۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
 *’’اچانک دیکھتی ہوں کہ دوپہر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک آرہا ہے ۔‘‘* عقلی طور پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ سایہ مرئیہ فقط اْس جسم کا ہوتا جو ٹھوس اور نگر ہو نیز سورج کی شعاعوں کوروک ہی نہیں سکتا تو اِس کا سایہ بلاشبہ نظر نہیں آتا ۔ مثلاً صاف اور شفاف شیشہ اگر دھوپ میں لایا جائے تو اُس کا سایہ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اِس میں شعاعوں کو روکنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔ بخلاف اِس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر نہایت ٹھوس اور نگر تھا اُس کی ساخت شیشے کی طرح نہیں تھی کہ جس سے سب کچھ ہی گزر جائے۔ لا محالہ آپﷺ کا سایہ تھا ۔ اگر جسم اطہر کا سایہ مبارک نہ تھا تو کیا جب آپﷺ لباس پہنتے تو آپﷺکے مبلوسات کا بھی سایہ نہ تھا اگر وہ کپڑے اتنے لطیف تھے کہ اْن کا سایہ نہ تھا تو پھر اِن کے پہننے سے ستر وغیرہ کی حفاظت کیسے ممکن ہوگی ؟؟؟؟؟؟ منکرینِ سایہ یہ کہتے ہیں کہ آپﷺ نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپﷺ کا سایہ اِس لیے نہیں تھا کہ اگر کسی کا آپﷺ کے سایہ پر قد م آجا تا تو آپﷺ کی توہین ہوتی اِس لیے ﷲ نے آپﷺ کا سایہ پیدا ہی نہیں کیا ۔ جہاں تک پہلی بات کا ذکر ہے کہ آپﷺ نور تھے (حالانکہ آپ ﷺ بشر تھے)اور نور کا سایہ نہیں ‘ سراسر غلط ہے۔ نُوری مخلوق کا سایہ بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے الحمد للہ..
 *الحمد للہ الصلوة والسلام علیٰ رسول اللہ اما بعد!*

 سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میرے والد شہید کر دیئے گئے تو میں ان کے چہرے پر پڑا ہو کپڑا کھولتا اور روتا تھا۔ دوسرے لوگ تو مجھے اس سے روکتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔ آخر میری چچی فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی رونے لگیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ روؤ یا چپ رہو۔ جب تک تم لوگ میت کو اٹھاتے نہیں ملائکہ تو برابر اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے ہیں۔
 *صحیح البخاری 1244*

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے، سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہوگیا، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے اونٹوں میں ایک فالتو اونٹ تھا، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا ، صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہوگیا تھا، آپ اسے اپنے اونٹوں میں سے ایک اونٹ دے دیں تو بہتر ہے ، زینب رضی اللہ عنہا نے کہا، میں ایک یہودیہ کو اونٹ دے دوں؟ (صفیہ رضی اللہ عنہا ایک یہود ی سردار حییٔ بن اخطب کی بیٹی تھیں) رسول اللہ ﷺ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس دو یا تین ماہ تک نہ گئے ، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ، میں مایوس ہوگئی، میں نے اپنی چارپائی وہاں سے ہٹا دی، کہتی ہیں:
فبینما أنا یوماً بنصف النھار اذا أنا بظلّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقبل.
ایک دن دوپہر کے وقت میں نے اچانک رسول اللہ ﷺ کا سایہ مبارک آتے دیکھا۔ ”   (مسند الامام احمد : ۱۳۲/۶ ، ۲۶۱ ، طبقات ابن سعد : ۱۲۶-۱۲۷/۸ ، وسندہ صحیح)
اس حدیث کی راویہ شمیسہ بنتِ عزیز کے بارے میں امام یحییٰ بن معین فرماتےہیں کہ یہ “ثقہ” ہے ۔     (تاریخ الدارمی عن ابن معین : ت۴۱۸ ، الجرح و التعدیل لا بن ابی حاتم : ۳۹۱/۴)
نیز امام شعبہ نے اس سے روایت لی ہے ، وہ “ثقہ” سے روایت لینے میں مشہور ہیں ، اس پر “جرح” کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں ہے ، لہٰذا بلاشبہ یہ “ثقہ” ہے ۔
یہی روایت سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ۔        (مسند الامام احمد : ۳۳۸/۶)
یہ حدیث نبیٔ اکرم ﷺ کے سایہ مبارک کے ثبوت پر نصِّ صریح ہے ۔
۲٭        سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی ، اس دوران آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک پھیلایا، پھر پیچھے کھینچ لیا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے دریافت کیا ، اے اللہ کے رسول ! آپ نے اس نماز میں ایک ایسا کام کیا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، میں نے جنت دیکھی ، وہ مجھ پر پیش کی گئی ، اس میں مَیں نے انگوروں کی بیل دیکھی ، جس کے خوشے (گچھے) قریب قریب تھے ، اس کے دانے کدو کی طرح تھے ، میں نے اس سے کچھ کھانے کا ارادہ کیا تو جنت کی طرف اس بات کا اشارہ کیا گیا کہ وہ پیچھے ہٹ جائے ، چنانچہ وہ پیچھے ہٹ گئی ، پھر مجھ پر جہنم پیش کی گئی ، اس جگہ جو میرے اور تمہارے درمیان ہے ، حتّٰی رأیت ظلّی و ظلّکم (یہاں تک کہ میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا) ، میں نے تمہاری طر ف اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ تو میری طر ف وحی کی گئی کہ ان کو اپنی جگہ کھڑا رہنے دیں ، بے شک آپ نے بھی اسلام قبول کیا اور انہوں نے بھی اسلام قبول کیا ، آپ نے ہجرت کی اور انہوں نے بھی ہجرت کی ہے ، آپ نے جہاد کیا اور انہوں نے بھی جہاد کیا، پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ، میں نے اپنے لیے سوائے نبوت کے تم پر کوئی فضیلت نہیں دیکھی ۔ “          (صحیح ابن خزیمہ: ۵۱/۲ ، وسندہ صحیح)
اس حدیث کو امام ابوعوانہ (کمافی اتحاف المھرۃ لابن حجر: ۱۲/۲ ، ح : ۱۰۹۶) اور حافظ الضّیاء المقدسی  (المختارۃ : ۲۱۳۶) نے “صحیح ” کہا ہے ، امام ابوعوانہ فرماتے ہیں کہ 
  یہ حدیث ایک ہزار احادیث کے برابر ہے ۔

  وَلِلَّـهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ [13-الرعد:15]
  اور جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی اور ناخوشی سے اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ کرتی ہیں اور ان کے سائے بھی صبح و شام سجدہ کرتے ہیں۔

 ایک مقام پر فرمایا : أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى مَا خَلَقَ اللَّـهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّـهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ [16-النحل:48]
’’ کیا انہوں نے اللہ کی مخلوقات میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا کہ اس کے سائے دائیں او بائیں سے لوٹتے ہیں۔ یعنی اللہ کے آگے عاجز ہو کر سربسجود ہوتے ہیں۔

  ❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور نماز کی حالت میں اپنا ہاتھ اچانک آگے بڑھایا، مگر پھر جلدی ہی پیچھے ہٹا لیا۔ ہم نے عرض کیا : ’’ اے اللہ کے رسول ! آج آپ نے خلاف معمول نماز میں ایک نیا عمل کیا ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ میرے سامنے ابھی ابھی جنت پیش کی گئی، میں نے اس میں بہترین پھل دیکھے تو جی میں آیا کہ اس میں سے کچھ اچک لوں مگر فورا حکم ملا کہ پیچھے ہٹ جاؤ، میں پیچھے ہٹ گیا، پھر مجھ پر جہنم پیش کی گئی حتي رايت ظلي و ظلكم اس کی روشنی میں میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا، دیکھتے ہی میں نے تمہاری طرف اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔ “ [مستدرک حاکم 4/ 456]

No comments:

Post a Comment