کیا نبیﷺ پر جادو کیا گیا تھا
کیا نبیﷺ پر جادو کیا گیا تھا ایک انتہائی اہم ترین موضوع
منکرین حدیث کے ہر سوال کا جواب!
( تمام مسالک کے علماء کرام کی تفاسیر سے جادو کے متعلق عبارات نقل کی ہیں )
(1) تفسیر احسن التفاسیر (حافظ محمد سید احمد حسن 1315/1897 )تفسیر فلق و الناس
ان دونوں سورتوں کے شان نزول کی رواییں جو حضرت عائشہ رضہ اللہ عنھما سے اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھم اور انس رضی اللہ عنہ سے صحیحین ؎ وغیرہ میں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ لبیدبن عاصم نے جب اپنی بیٹیوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کرایا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں دو فرشتوں نے اس جادو کا حال بتایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ بالوں اور کچھ کنگھی کے دندانوں پر یہ جادو کیا گیا ہے اور ذروان کا کنواں جو مشہور ہے وہاں یہ جادو کی چیزیں ایک پتھر کے نیچے ہیں جب یہ چیزیں منگوائی گئیں تو معلوم ہوا کہ سر کے بالوں اور ایک تانت کے ٹکڑے میں گیارہ گرہ بھی لگائی گئی تھیں غرض اسی وقت یہ گیارہ آیتوں کی دونوں سورتیں نازل ہوئیں اور ہر ایک آیت کے پڑھنے کے ساتھ ہی جادو کی ایک ایک گرہ گھل گئی اور دونوں سورتوں کے ختم ہوتے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جادو کا اثر جاتا رہا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تندرست ہوگئے یہ لبید بن عاصم منافق تھا یہود سے بھائی چارہ رکھتا تھا۔ ایک یہود کا لڑکا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کیا کرتا تھا یہود نے اس کو بلایا اور اس کی معرفت وہ آپ کے کنگھی کے دندانے اور بال منگوائے تھے جب یہ سب حال کھل گیا تو صحابہ نے چاہا کہ لبید بن عاصم وغیرہ سے اس کا بدلہ لیا جائے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع کیا اور فرمایا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی اب کسی سے بدلہ لینے کی ضرورت نہیں اہل سنت کا یہ مذہب ہے کہ جادو کا اثر حقیقی طور پر دنیا میں ہوتا ہے فرقہ معتزلہ اس کا مخالف ہے کیونکہ وہ لوگ جادو کے اثر کو خیالی بتاتے ہیں مگر اہل سنت نے اپنے مذہب کو بہت سی آیتوں اور حدیثوں سے ثابت کیا ہے
(2)تفسیر ابن عباس 817/1416،مترجم پروفیسر محمد سعید احمد عاطف
یہ دونوں سورتیں لبید بن اعصم یہودی کے متعلق نازل ہوئی ہیں جس نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کردیا تھا آپ نے جادو پر ان سورتوں کو پڑھا تو وہ اس طرح زائل ہوگیا جیسا کہ رسی کی گرہ کھل جاتی ہے۔
شان نزول : معذتین
امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں بواسطہ کلبی، ابو صالح، حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت بیمار ہوئے تو آپ کے پاس دو فرشتے آئے ایک آپ کے سر مبارک کے پاس بیٹھا اور دوسرا پیروں کی طرف۔ تو جو پیروں کی طرف بیٹھا ہوا تھا اس نے اس فرشتہ سے جو کہ سر کے پاس تھا کہا آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے اس نے کہا کہ تکلیف ہے وہ کہنے لگا کیا تکلیف ہے تو اس نے کہا جادو ہے اس فرشتہ نے کہا کہ کس نے جادو کیا ہے اس فرشتہ نے کہا لبید بن اعصم یہودی نے کیا ہے وہ فرشتہ کہنے لگا کہ کس جگہ ہے اس فرشتہ نے کہا وہ فلاں خاندان کے کنوئیں میں پتھر کے نیچے ایک بالوں کے جوڑے میں ہے چناچہ وہاں جاؤ اور اس کا پانی نکالو اور پتھر کو اٹھا کر اس جادو کو جلا دو چناچہ جب صبح ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمار بن یاسررضی اللہ عنہ کو ایک جماعت کے ساتھ اس کنوئیں کے پاس بھیجا تو اس کا پانی مہندی کی طرح سرخ ہورہا تھا چناچہ انہوں نے پانی نکالا اور پتھر کو اٹھا کر اس جادو کو نکال لیا اور اس کو جلا دیا اور اس میں ایک دھاگہ کا ٹکڑا بھی تھا جس میں گیارہ گرہیں تھیں اور آپ پر یہ دونوں سورتیں یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس نازل ہوئی چناچہ جب اس پر ان سورتوں میں سے ایک ایک آیت پڑھنی شروع کی تو ایک ایک گرہ کھل گئی۔
اس کی اصلیت کے لیے بغیر سبب نزول کے ذکر کیے ہوئے صحیح میں شاہد موجود ہے اور نیز ان سورتوں کے نزول کے تذکرہ کے ساتھ شاہد موجود ہے۔
اور ابو نعیم نے دلائل میں ابوجعفر رازی، ربیع بن انس، حضرت انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچانے کے لیے کچھ حرکت کی جس سے آپ سخت بیمار ہوگئے صحابہ کرام آپ کے پاس حاضر ہوئے تو سمجھے کہ آپ بیمار ہیں چنانچہ جبریل امین معوذتین لے کر آپ کے پاس آئے اور آپ نے یہ سورتیں پڑھ کر دم کیا جس سے آپ صحیح و تندرست ہو کر اپنے صحابہ کے پاس تشریف لے گئے۔
(3) تفسیر مدارک التنزیل النفسی ، (710/1310
روایت میں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سحر کی گئی جس کی وجہ سے آپ بیمار ہوگئے پس آپ کے ہاں دو فرشتے آئے۔ جبکہ آپ سو رہے تھے ایک نے دوسرے کو کہا ان کو کیا ہوا ؟ دوسرے نے کہا ان پر سحر ہوا۔ اس نے سوال کیا کس نے کیا ؟ دوسرے نے کہا لبید بن اعصم یہودی نے، اس نے کہا کس چیز سے سحر کیا۔ اس نے کہا کنگھی کے دندانے اور بال ایک گابھے کو کھود کر ذی اروان کے کنوئیں میں ایک پتھر کے نیچے رکھے گئے ہیں۔ اس پر آپ جاگ گئے پھر زبیر، علی و عمار (رض) کو بھیجا انہوں نے کنوئیں سے پانی نکالا اور کھودی ہوئی لکڑی کو جب نکالا تو اس میں کنگھی کے دندانے اور بال مبارک تھے۔ اس میں بالوں کو گیارہ گرھیں لگی تھیں۔ جن میں سوئیاں چبھوئی گئیں تھیں۔ پس یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں۔ جب جبرئیل (علیہ السلام) ایک آیت پڑھتے تو ایک گرہ کھل جاتی یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری گرہ کھلنے پر اٹھ کھڑے ہوئے۔ گویا کوئی بندھن کھل گیا ہے
(4) تفسیر اشرفی (1369/1950
اس سورۃ کا نام اسی کی پہلی آیت سے ماخوذ ہے ۔ روایت ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک یہودی تھا لبید بن اعصم ، اس نے اور اس کی لڑکیوں نے ملکر حضور پر جادو کیا تھا۔ جادو خطرنا تھا مگر حضور کا بال بیکا نہ ہوسکا ، صرف اتنی بات ہوئی کہ آپ بیمار سے ہوگئے ، جس پر سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا ایک ساتھ نزول ہوا۔
اللہ نے آپ کو اطلاع دی کہ لبید اور اس کی لڑکیوں نے آپ پر جادو کیا ہے ، اور یہ عمل آپ کی داڑھی کے بالوں اور کنگھی کے دندانوں پر کیا ہے ، اور یہ سب چیزیں کھجور کے گابھے کے بنے ہوئے ڈھکن میں رکھ کر بنی زریق کے کنویں میں ڈال دی گئی ہیں۔ مسند عبد بن حمید میں یہ تفصیل ہے کہ آپ نے حضرت علی کو بھیج کر یہ چیزیں منگوائیں۔ ان میں گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں۔ حضور نے فرمایا کہ ان سورتوں کی ایک ایک آیت پڑھتے جاؤ اور گرہ کھولتے جاؤ۔ دونوں سورتوں میں مجموعی گیارہ آیتیں ہیں۔ حضرت علی نے تعمیل کی اور جادو کا اثر بالکل ختم ہوگیا۔
بعض روایتوں میں یہ تفصیل بھی ہے کہ ان سامانوں میں ایک تانت بھی تھی جس میں گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں ، اور ان میں سوئیاں چبھوئی گئی تھیں۔ اس مقام پر یہ ذہن نشین رہے کہ حضور پر جادو کا اثر ایسا نہیں پڑا تھا کہ ہوش و حواس متاثر ہوجاتے ، محض اتنا اثر پڑا تھا کہ آپ بیمار سے ہوگئے تھے ، اس سے فریضہ نبوت کی ادائیگی میں کسی طرح کا کوئی خلل نہیں پڑا تھا ، کفار ازراہ طنز جو رسول کریم کو مسحور کہتے تھے ، اس سے مرادایسا سحر زدہ ہے جو سحر کے اثر سے عقل و ہوش کھودے اور مجنون ہوجائے اور اس طرح کے سحر کا اثر نبی کریم پر کبھی نہیں ہوسکتا۔
اوپر نبی کریم پر جس سحر کا ذکر ہے اس کا اثر نبی کی ذات پر اس نوعیت کا نہیں پڑا ، جس سے نبی اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھیں۔ اب جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ نبی پر جادو کا اثر ہو ہی نہیں سکتا ، ان کی مراد اگر یہ ہے کہ ایسا اثر جو نبی کو مجنون بنا دے تو بات بالکل صحیح ہے۔ اور اس کو مان لینے کی صورت میں بھی اس بات کو ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ نبی پر بھی جادو کا ہلکا اثر ہوسکتا ہے ، ایسا اثر جو نبی کو مجنون و مفتور العقل نہ بنا دے۔
(5) تفسیر مظہر القرآن ۔ شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی (1369/1950
ان دونوں سورتوں کی شان نزول کی روایتیں جو حضرت عائشہ سے اور حضرت عبداللہ بن عباس اور انس رضی اللہ عنھم سے صحیحین میں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ لبید بن اعصم یہودی اور اس کی بیٹیوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا، اور حضور کے جسم مبارک اور اعضاء ظاہرہ پر اس کا اثر ہوا، قلب وعقل و اعتقاد پر کچھ اثر نہ ہوا، چند روز کے بعد حضرت جبرائیل آئے اور انہوں نے عرض کیا ایک یہودی نے آپ پر جادو کیا ہے اور جادوکا کچھ سامان ہے وہ ذرواں کا کنواں ہے وہاں ایک پتھر کے نیچے داب دیا ہے۔ حضور نے علی مرتضی (رض) کو بھیجا، انہوں نے کنویں کا پانی نکالنے کے بعد پتھراٹھایا، اس کے نیچے سے کھجور کے گابھے کی تھیلی برآمد ہوئی اس میں حضور کے موے شریف جو کنگھی سے برآمد ہوئے اور حضور کی کنگھی کے چند دندانے اور ایک ڈورایا کمان کا چلہ جسمیں گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں، ایک موم کا پتلا جس میں گیارہ سوئیاں چبھی ہوئی تھیں، یہ سب سامان پتھر کے نیچے سے نکلا اور حضور کی خدمت میں حاضر کیا گیا اللہ نے یہ دونوں سورتیں نازل فرمائیں ان دونوں سورتوں میں گیارہ آیتیں ہیں پانچ فلق میں ہر ایک آیت کے پڑھنے کے ساتھ ایک ایک گرہ کھلتی جاتی تھی یہاں تک کہ سب گرہیں کھل گئیں اور حضور بالکل تندرست ہوگئے اہل سنت کا یہ مذہب ہے کہ جادو کا اثر حقیقی طور پر دنیا میں ہوتا ہے فرقہ معتزلہ اس کا مخالف ہے کیونکہ وہ لوگ جادو کے اثر کو خیالی بتلاتے ہیں مگر اہل سنت نے بہت سی آیتوں اور حدیثوں سے ثابت کیا ہے۔
(6) تفسیر خزائن العرفان،نعیم الدین مرادآبادی(1364/1945
یہ سورت اور سورۃ الناس جو اس کے بعد ہے جو اس وقت نازل ہوئی جب کہ لبیدبن اعصم یہودی اور اس کی بیٹیوں نے حضور سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا اور حضور کے جسم مبارک اور اعضاء ظاہرہ پر اس کا اثر ہوا قلب و عقل و اعتقاد پر کچھ اثر نہ ہوا چند روز کے بعد جبریل آئے اور انہوں نے عرض کیا کہ ایک یہودی نے آپ پر جادو کیا ہے اور جادو کا جو کچھ سامان ہے وہ فلاں کنوئیں میں ایک پتھر کے نیچے داب دیا ہے، حضور سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی مرتضٰی (رض) کو بھیجا انہوں نے کنوئیں کا پانی نکالنے کے بعد پتھر اٹھایا اس کے نیچے سے کھجور کے گابھے کی تھیلی برآمد ہوئی اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موئے شریف جو کنگھی سے برآمد ہوئے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کنگھی کے چند دندانے اور ایک ڈورا یا کمان کا چلّہ جس میں گیارہ گرہیں لگی تھیں اور ایک موم کا پتلہ جس میں گیارہ سوئیاں چبھیں تھیں یہ سب سامان پتھر کے نیچے سے نکلا اور حضور کی خدمت میں حاضر کیا گیا اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں نازل فرمائیں ان دونوں سورتوں میں گیارہ آیتیں ہیں پانچ سورۃ فلق میں ہر ایک آیت کے پڑھنے کے ساتھ ایک ایک گرہ کھلتی جاتی تھی یہاں تک کہ سب گرہیں کھل گئیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالکل تندرست ہوگئے۔
(7) تفسیر تسہیل القرآن، مولوی فیروزالدین صاحب (1362/1943
کسی یہودی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سحر کردیا تھا جس سے آپ کو سہو اور نسیان کی سی حالت ہوگئی تھی۔ اس کے دفعیہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ دونوں معوذتین نازل کیں چناچہ جوں جوں آپ یہ آیت پڑھتے جاتے تھے آپ کی حالت بہتر ہوتی جاتی تھی اور آیات کے خاتمہ پر آپ بالکل تندرست ہوگئے تھے آئندہ آپ ہمیشہ ان آیات سے مریضوں پر دَم فرمایا کرتے تھے تو شفاء ہوجاتی تھی۔
(8) تفسیر عثمانی ، شیخ الاسلام علامہ شبر احمد عثمانی (1356/1938
(تنبیہ) کئی صحابہ (مثلاً عائشہ صدیقہ، ابن عباس زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بعض یہود نے سحر کیا۔ جس کے اثر سے ایک طرح کا مرض سا بدن مبارک کو لاحق ہوگیا۔ اس دوران میں کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دنیاوی کام کرچکے ہیں، مگر خیال گزرتا تھا کہ نہیں کیا۔ یا ایک کام نہیں کیا اور خیال ہوتا تھا کہ کرچکے ہیں۔ اس کے علاج کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ دو سورتیں نازل فرمائیں اور ان کی تاثیر سے وہ اثر باذن اللہ زائل ہوگیا۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ صحیحین میں موجود ہے جس پر آج تک کسی محدث نے جرح نہیں کی۔ اور اس طرح کی کیفیت منصب رسالت کے قطعاً منافی نہیں۔ جیسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی کبھی بیمار ہوئے۔ بعض اوقات غشی طاری ہوگئی یا کئی مرتبہ نماز میں سہو ہوگیا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " انما انا بشر انسی کما تنسون فاذا نسیت فذکرونی " (میں بھی ایک بشر ہی ہوں جیسے تم بھولتے ہو، میں بھی بھولتا ہوں، میں بھول جاؤں تو یاد دلا دیا کرو) کیا اس غشی کی کیفیت اور سہود نسیان کو پڑھ کر کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اب وحی پر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوسری باتوں پر کیسے یقین کریں، ممکن ہے ان میں بھی سہو و نسیان اور بھول چوک ہوگئی ہو۔ اگر وہاں سہو و نسیان کے ثبوت سے یہ لازم نہیں آتا کہ وحی الہٰی اور فرائض تبلیغ میں شکوک و شبہات پیدا کرنے لگیں، تو اتنی بات سے کہ احیاناً آپ ایک کام کرچکے ہوں اور خیال گزرے کہ نہیں کیا، کس طرح لازم آیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام تعلیمات اور فرائض بعثت سے اعتبار اٹھ جائے۔ یاد رکھیے سہو و نسیان، مرض اور غشی وغیرہ عوارض خواص بشریت سے ہیں۔ اگر انبیاء بشر ہیں، تو ان خواص کا پایا جانا اس کے رتبہ کو کم نہیں کرتا۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ جب ایک شخص کی نسبت دلائل قطعیہ اور براہین نیرہ سے ثابت ہوجائے کہ وہ یقینا اللہ کا سچا رسول ہے، تو ماننا پڑے گا کہ اللہ نے اس کی عصمت کا تکفل کیا ہے اور وہی اس کو اپنی وحی کے یاد کرانے سمجھانے اور پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔ ناممکن ہے کہ اس کے فرائض دعوت و تبلیغ کی انجام دہی میں کوئی طاقت خلل ڈال سکے۔ نفس ہو، یا شیطان، مرض ہو، یا جادو، کوئی چیز ان امور میں رخنہ اندازی نہیں کرسکتی، جو مقصد بعثت کے متعلق ہیں۔ کفار جو انبیاء کو " مسحور " کہتے تھے، چونکہ ان کا مطلب نبوت کا ابطال اور یہ ظاہر کرنا تھا کہ جادو کے اثر سے ان کی عقل ٹھکانے نہیں رہی، گویا " مسحور " کے معنی " مجنون " کے لیتے تھے اور وحی الہٰی کو جوش جنون قرار دیتے تھے (العیاذ باللہ) اس لئے قرآن میں ان کی تکذیب و تردید ضروری ہوئی۔ یہ دعویٰ کہیں نہیں کیا گیا کہ انبیاء (علیہم السلام) لوازم بشریت سے مستشنٰی ہیں۔ اور کسی وقت ایک آن کے لئے کسی نبی پر سحر کا معمولی اثر جو فرائضِ بعثت میں اصلا خلل اندازہ ہو نہیں ہوسکتا۔
(9) بیان القرآن ، حکیم الامت شاہ اشرف علی تھانوی(1352/1934
سورۃ فلق اور ناس ایک ساتھ نازل ہوئی تھیں، حسب روایت دلائل بیہقی ان کا سبب نزول یہ ہے کہ حضور انور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لبید یہودی اور اس کی بیٹیوں نے سحر کردیا تھا جس سے آپ کو مرض کی سی حالت عارض ہوگئی، آپ نے حق تعالیٰ سے دعا کی، اس پر یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں جن میں ایک کی پانچ آیتیں اور ایک کی چھ آیتیں مجموعہ گیارہ آیتیں ہیں، اور آپ کو وحی سے اس سحر کا موقع بھی معلوم کرادیا گیا۔ چناچہ وہاں سے مختلف چیزیں نکلیں جن میں سحر کیا گیا تھا اور اس میں تانت کا ایک ٹکڑا بھی تھا جس میں گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں، حضرت جبریل (علیہ السلام) یہ سورتیں پڑھنے لگی، ایک ایک آیت پر ایک ایک گرہ کھل گئی۔ چناچہ آپ کو بالکل شفا ہوئی اور دونوں سورتوں کے مجموعہ میں مختلف شرور سے استعاذہ کا اور سب امور میں حق تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم ہوا ہے۔
(10) ترجمان القرآن ،ابوالکلام (1350/1931
سورۃ الفلق اور سورۃ الناس یہ دونوں سورتیں مکی مدنی ہیں اور ان دونوں کا نام، معوذتین، رکھا گیا ہے بعض روایات میں ہے کہ مدینہ میں یہود نے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا اور اس کے اثر سے حضور بیمار ہوگئے تھے اس پر یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں۔ مکہ میں دشمنوں کی شدید مخالفتیں ان سورتوں کے نزول کا سبب بنیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دشمن سے پناہ مانگنے کے لیے ان سورتوں کی تعلیم دی گئی۔
دوسرا مبحث :
روایات میں ہے کہ مدینہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا گیا تھا اور تاریخی حیثیت سے یہ ثابت ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے متاثر ہوئے تھے اور لبید بن اعصم یہودی نے جادوچلایا جو انصار کے قبیلہ بنی زریق سے تعلق رکھتا تھا اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال اور کنگھی کسی طریقہ سے حاصل کرلی اور موئے مبارک اور کنگھی کے دندانوں کو بنی زریق کے کنویں ذروان یاذی اروان کی تہ میں دبادیا تھا اس سے آپ کے مزاج مبارک میں تغیر آگیا تھا مگر یہ تمام آپ کی ذات تک محدود ہے حتی کہ کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ آپ پر کیا گزری ہے وحی پر اس کا کوئی اثرنہ تھا۔ اس حد تک یہ واقعہ بالکل صحیح ہے جسمانی طور پر نبی کو اذیت پہنچنے سے منصب نبوت پر کوئی اثر نہیں پڑتا مگر بعض لوگوں نے ان جادو والی احادیث کا ہی انکار کردیا ہے اور ان احادیث کو ان تتبعون الارجلامسحورا۔ کے خلاف سمجھا ہے مگر یہ تمام توجیہات غلط ہیں جیسا کہ ہم واضح کرچکے ہیں۔ اس کے بعد اب ہم ان سورتوں کے الفاظ کی وضاحت کرتے ہیں۔
(11)تفسیر حل القرآن،شاہ اشرف علی تھانوی(1345/1926
فائدہ : واضح ہو کہ ایک یہودی عورت نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کردیا تھا اور ایک بال میں گیارہ گرہیں دے کر کنوئیں میں ڈال دیا تھا۔ اس پر یہ دونوں سورتیں قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس نازل ہوئیں۔ اور جبریل (علیہ السلام) کنوئیں میں سے وہ بال لائے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یہ سورتیں پڑھو۔ پس جب آپ ان کی ایک آیت پڑھتے تھے تو ایک گرہ کھل جاتی تھی اور اسی قدر اس کے اثر میں کمی آجاتی تھی۔ پس جب کہ آپ نے دونوں سورتیں ختم کیں تو کل گرہیں کھل گئیں۔ اور آپ بالکل اچھے ہوگئے۔ من شرالنفثت فی العقد میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ ھذا خیر ماتیسر لی فی حل القرآن بفضل الملک المنان والحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی خیر خلقہ محمد والہ و اصحابہ اجمعین۔
(12)تفسیر ضیاء القرآن، پیر کرم شاہ صاحب
نبی کریم (علیہ الصلوۃ والسلام) پر کیا جادو کیا گیا ؟ اور ذات اقدس واطہر پر اس کا اثر کیا ظاہر ہوا ؟ اس کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کرنے سے پہلے میں قارئین کرام کے سامنے ان تمام روایات کا خلاصہ پیش کرتا ہوں جو مختلف کتب میں باختلاف الفاظ منقول ہیں۔ اس کے بعد ان اعتراضات کا ذکر کروں گا جو قدیم اور جدید معتزلیوں نے وارد کیے ہیں۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اہل سنت کے مؤقف کو بیان کروں گا۔
یثرب کے یہودیوں کو روز اول سے ہی جو بلاوجہ عداوت اور حسد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کے ساتھ تھا اس کی تفصیلات کئی مقامات پر آپ پڑھ چکے ہیں۔ جیسے جیسے اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کی شان کو بلند کرتا۔ فتوحات کے دروازے کھلتے جاتے، ایسے ایسے ہی ان کی عداوت کے شعلے بھڑکنے لگتے۔ 7 ھء میں جب حدیبیہ سے حضور بخیریت واپس تشریف لائے تو خیبر کے یہودیوں کا ایک وفد مدینہ کے ایک مشہور جادوگر لبید ابن اعصم کے پاس آیا۔ بعض مؤرخین نے اسے یہودی کہا ہے لیکن یہ درحقیقت انصار کے ایک قبیلہ بنی زریق کا ایک فرد تھا۔ ممکن ہے اس نے یہودی مذہب اختیار کرلیا ہو۔ اس لیے اسے یہودی کہا گیا ہو۔ خیبر کے سیاسی طور پر ان کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، سازشیں کیں، منصوبے بنائے، مشرک قبائل کو ان کے خلاف بھڑکایا۔ لیکن ناکام رہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں جتنے ماہر جادوگر تھے، انہوں نے بھی بڑے جتن کیے، بڑی زور آزمائی کی، لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ ہمارے اس علاقہ میں تمہارے سحر کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ہم تیرے پاس آئے ہیں۔ اگر تو ہماری امداد کرے تو یہ مشکل آسان ہوسکتی ہے۔ انہوں نے اس کی خدمت میں بھاری نذرانہ بھی پیش کیا۔ چناچہ اس نے حامی بھر لی۔
ایک یہودی لڑکا حضور کی خدمت میں رہا کرتا تھا کسی طرح ورغلا کر اس سے حضور کی کنگھی کا ایک ٹکڑا اور چند موئے مبارک حاصل کرلیے۔ اس نے اور اس کی بیٹیوں نے اس فن میں اپنے باپ سے بھی دو قدم آگے تھیں، جادو کیا اور ان چیزوں کو نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھ کر بنی زریق کے ایک کنویں کی تہہ میں ایک بھاری پتھر کے نیچے دبا دیا۔ اس کنویں کا نام " ذروان " یا ذی اروان، بتایا جاتا ہے۔ بعض نے اس کا نام " بئر اریس " بھی لکھا ہے۔
چھ ماہ گزرنے کے بعد معمولی اثر ظاہر ہونے لگا۔ آخری چالیس دن زیادہ تکلیف کے تھے۔ ان میں سے بھی آخری تین دن تکلیف اپنی نہایت کو پہنچ گئی۔ اس جادو سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس قسم کی تکلیف محسوس ہوتی تھی۔ اس کے بارے میں بھی تصریحات موجود ہیں۔ علامہ سیوطی لکھتے ہیں :
کان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یذوب ولا یدری ماوجعہ : یعنی حضور کی طبیعت گھٹنے لگی۔ نقاہت بڑھنے لگی لیکن بظاہر اس کی کوئی وجہ معلوم نہ ہوتی۔
علامہ آلوسی لکھتے ہیں : حتی لیخیل الیہ انہ فعل الشیئ ولم یکن فعلہ (روح المعانی)
یعنی ایسا کام جو نہ کیا ہوتا، اس کے بارے میں حضور کو خیال ہوتا کہ کرلیا گیا ہے۔
کتب حدیث میں اس جادو کے اثرات کے بارے میں جتنی روایات ملتی ہیں۔ ان کا یہی نچوڑ ہے کہ جسمانی طور پر نقاہت و کمزوری محسوس ہوتی، لیکن ایسی کوئی ضعیف سے ضعیف روایت بھی موجود نہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فرائض نبوت کی ادائیگ میں کبھی بال برابر فرق آیا ہو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نماز کے ارکان میں تقدیر و تاخیر سرزد ہوئی ہو یا تلاوت قرآن کے وقت نسیان طاری ہوگیا ہو یا مملکت اسلامیہ کی توسیع اور استحکام یا اسلام کی تبلیغ میں کوئی معمولی سا رخنہ بھی پیدا ہوا ہو۔
جب تکلیف زیادہ بڑھی تو حضور علیہ الصلوہ والسلام نے بارگاہ الٰہی میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اسی رات حضور کو خواب میں حقیقت حال سے آگاہ فرمادیا گیا : چناچہ حضور نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو بتایا کہ اے عائشہ میں نے اپنے رب سے جس بات کے بارے میں دریافت کیا تھا، میرے خدا نے مجھے اس کے متعلق بتادیا ہے۔ حضرت عائشہ نے عرض کی یا رسول اللہ کیا بتایا گیا ہے۔ ارشاد ہوا رات کو خواب میں دو آدمی میرے پاس آئے ایک میرے سرہانے بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے نزدیک۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ جبرائیل اور میکائیل تھے۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا۔ انہیں کیا تکلیف ہے۔ دوسرے نے جواب دیا۔ انہیں جادو کیا گیا ہے۔ پوچھا کس نے کیا ہے ؟ جواب ملا لبید بن اعصم نے۔ پوچھا کس چیز میں۔ بتایا : کنگھی کے ایک ٹکڑے کو اور چند بالوں کو نر کھجور کے خوشہ کے پردے میں رکھ کر۔ پوچھا کہاں رکھا ہے ؟ بتایا۔ ذی اروان کے کنوئیں کی تہ میں ایک پتھر کے نیچے۔ پوچھا اب کیا کرنا چاہیے۔ بتایا : اس کنوئیں کا سارا پانی نکال دیا جائے پھر اس پتھر کے نیچے سے ان چیزوں کو نکالاجائے۔
حضور علیہ الصلوہ والسلام نے فورا حضرت سیدنا علی، عمار ابن یاسر اور حضرت زبیر (رض) کو اس مقصد کے لیے اس کنویں کی طرف بھیجا انہوں نے پانی نکال کر اس کنویں کو خشک کردیا۔ اتنے میں حضور خود بھی وہاں تشریف لے گئے۔ پتھر کو اٹھا یا تو اس کے نیچے وہ غلاف نکلا، اسے کھولا تو اس کے اندر کنگھی کا ایک ٹکڑا، چند بال جو تانت کے ایک ٹکڑے میں بندھے ہوئے تھے اور اس تانت میں گیارہ گرہیں لگی ہوئیں تھیں۔ اسی اثنا میں حضرت جبرائیل حاضر ہوئے اور یہ دو سورتیں پڑھ کر سنائیں۔ اور عرض کیا کہ آپ ان سورتوں کی ایک ایک آیت پڑھتے جائیں اور ایک ایک گرہ کھولتے جائیں اور ایک ایک سوئی نکالتے جائیں۔ چناچہ دونوں سورتوں کی گیارہ آیتیں پڑھی گئیں ان کی تلاوت سے گیارہ گرہیں کھلیں اور ساری سوئیاں نکل گئیں اس طرح حضور علیہ الصلوہ والسلام کی طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی اور جادو کا سارا اثر زائل ہوگیا۔
صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ اجازت ہو تو اس خبیث کا سر قلم کردیا جائے۔ حضرت سید عالم نے ارشاد فرمایا : اما ان فقد شفانی اللہ واکرہ ان اثیر علی الناس شرا۔
ترجمہ : مجھے تو اللہ تعالیٰ نے شفا بخش دی ہے۔ میں اپنے لیے لوگوں میں فتنہ کی آگ بھڑکانا نہیں چاہتا۔
سبحان اللہ رحمت للعالمینی کی کیا شان ہے۔ اپنی ذات کے لیے اپنی جان کے دشمنوں سے بھی کبھی انتقام نہیں لیا۔ صلی اللہ علیک یارسول اللہ۔ صلی اللہ علیک یا مقیل العچرات۔ صلی اللہ علیک یا صفوح عن الزالات وبارک وسلم۔
اس واقعہ کا خلاصہ آپ نے ملاحظہ فرمالیا ہے۔ اب ذرا قدیم معتزلہ اور جدید عقلیت پسندوں کے اعتراضات کا مطالعہ فرمائیے۔ وہ ان تمام روایات کو ساقط الاعتبار، ناقابل اعتماد قرار دیتے ہوئے بیک قلم ان پر خط تنسیخ خھینچ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان روایات کو صحیح تسلیم کیا جائے۔ تو اس سے منصب نبوت کی توہین ہوتی ہے بلکہ رہ قسم کی وحی اور شریعت کے جملہ احکام پر سے وثوق اٹھ جاتا ہے۔ کیونکہ اگر ان روایات کے مطابق مان لیا جائے کہ حضور پر جادو کا اثرہو گیا تھا تو پر یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے اثر سے کوئی آیت ذہن سے اتر گئی ہو قرآنی آیت کے بجائے کسی خد ساختہ جملہ کو آیت ِ قرآنی فرض کرلیا گیا ہو۔ شریعت کا یہ قانون اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو بلکہ سحر کی فسوں کاری کا کرشمہ ہو نیز یہ روایات اس آیت کے بھی منافی ہیں واللہ یعصمک من الناس۔ کہ لوگوں کی شر انگیزیوں سے اللہ تعالیٰ آپ کا محافظ ہے۔ جب عصمت نبوت کی ذمہ داری خود اللہ رب العزت نے لی ہے، تو پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ یہودیوں کے سحر کا حضور پر اثر ہوگیا ہو۔ عقل کے جدید اور قدیم پرستاروں کا نظریہ آپ نے پڑھ لیا۔ بات کا جس طرح انہوں نے بتنگڑ بنایا ہے، اس کو بھی آپ نے دیکھ لیا۔
ان اعتراضات اور شکوک کے بارے میں اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو حیثیتیں تھیں۔ ایک حیثیت نبوت اور دوسری حیثیت بشریت عوارض بشری کا ورود ذات اقدس پر ہوتا رہتا تھا۔۔ بخار، درد، چوٹ لگنا۔ دندان، مبارک کا شہدی ہونا۔ طائف میں پنڈلیوں کا لہولہان ہونا اور احد میں جبین سعادت کا زخمی ہونا۔ یہ سب واقعات تاریخ کے صفحات کی زینت ہیں۔ یہ لوگ بھی ان سے انکار کی جرأت نہیں کرسکتے اور ان عوارض سے حجور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان رسالت اور حیثیت نبوت پر قطعا کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح یہاں بھی جادو کا اثر حضور کی جسمانی صحت تک محدود تھا، رسالت کا کوئی پہلو قطعاً اس سے متاثر نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا کہ اس جادو سے حضور کوئی آیت بھول جاتے یا الفاظ میں تقدیم و تاخیر کردیتے یا قرآن میں اپنی طرف سے کوئی جملہ بڑھا دیتے یا نماز کے ارکان میں ردو بدل ہوجاتا تو اسلام کے بدخواہ اتنا شوروغل مچاتے کہ الامان والحفیظ ! بطلان رسالت کے لیے انہیں ایک ایسا مہلک ہتھیار دستیاب ہوجاتا کہ اس کے بعد انہیں دعوت اسلامی کو ناکام کرنے کے لیے مزید کسی ہتھیار کی ضرورت نہ رہتی، لیکن اس قسم کا کوئی واقعہ کسی حدیث یا تاریخ کی کتاب میں موجود نہیں۔ دشمنان اسلام نے آج تک جتنی کتابیں پیغمبر اسلام (علیہ الصلوۃ والسلام) کے بارے میں لکھی ہیں ان میں بھی اس قسم کا کوئی واقعہ درج نہیں۔ معلوم ہوا کہ لبید یہودی کے جادو کا اثر فقط اس حد تک ہوا کہ صحت گرامی متأثر ہوا جس طرح علامہ سیوطی (رح) اور علامہ آلوسی (رح) کے حوالے نقل کیے جا چکے ہیں۔
رہی یہ بات کہ جادو کی کوئی حقیقت ہے یا نہیں ؟ جادو سے کسی چیز کی حقیقب بدل جاتی ہے یا فقط نظر بندی کے طور پر چیز ہوتی کچھ ہے اور دکھائی کچھ دیتی ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس سے لوگوں کا متاثر ہونا ایک یقینی چیز ہے۔ ساحران فرعون کا تذکرہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمایا گیا ہے۔ نص قرآنی سے یہ چیز ثابت ہے کہ لوگ ان رسیوں کو سانپ خیال کرنے لگے۔ سانپوں کی طرف انہیں لہراتے ہوئے دیکھ کر وقتی طور پر موسیٰ (علیہ السلام) بھی خائف وہراساں ہوگئے قرآن کریم کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے۔
فاذا حبالھم وعصیھم یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعی۔ فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسیٰ قلنا لاتخف انک انت الاعلی۔
ترجمہ : پس ان کی رسیاں اور سونٹیاں آپ کو یوں معلوم ہوتا کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔ ان کے دل میں خوف پیدا ہوا۔ ہم نے کہا اے موسیٰ ! مت ڈرو۔ تم ہی سر بلند ہو۔
انہیں کے بارے میں سورۃ طہ میں ہے : سحروا اعین الناس : یعنی ان جادوگروں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا تھا۔
(13)تفسیر ماجدی ، عبدالماجد دریا آبادی(1395/1975
سحر کا رواج دنیا میں ہمیشہ بہت زائد رہا ہے، اب بھی متعدد قوموں میں ہے۔ شان نزول کی روایتوں میں ہے کہ بعض یہودی عورتوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کچھ منتر پڑھ کر سحر کردیا تھا، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں، اور حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے آیتوں کو پڑھ پڑھ کر اس سحر کو باطل کردیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سحر سے (جومادیات ہی کی ایک سفلی قسم ہے۔ ) متاثر ہوجانا بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے ذات الجنب سے، ملیریا سے، درد اعصاب سے متاثر ہوجانا، اور اس میں منافی نبوت ہونے کا کوئی ادنی پہلو بھی نہیں، مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اسباب طبعی سے اہل باطل کا اثر اہل حق پر بھی پڑسکتا ہے، اور ایسی تاثیرات حق و باطل کا معیار ہرگز نہیں بن سکتیں۔
تفسیر جوہرالقرآن، شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان (1392/1972
سورۃ الفلق
* ف 1:۔ ربط وخلاصہ : جب آپ مسئلہ توحید کو اس طرح واشگاف کریں گے اور کھلم کھلا بیان فرمائیں گے تو دشمن ایذاء کے دوسرے حربوں کے علاوہ آپ پر جادو کرنے کا حربہ بھی استعمال کریں گے اس لیے آپ ان دونوں سورتوں کی اکثر تلاوت کیا کریں آپ پر جادو کا اثر نہ رہے گا۔
* ف 4:۔ ” ومن شر النفثت “ گرہوں میں پھونکنے والیوں سے جادو کرنے والی عورتوں مراد ہیں۔ عام طور پر عورتیں ہی جادو کا کام کرتی ہیں اس لیے ان کا ذکر فرمایا۔ یا اس سے لبید بن اعصم یہودی کی بیٹیاں مراد ہیں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا۔ ”
(14) تفسیرمحمود ، مولانا مفتی محمود صاحب (1395/1970
شان نزول : حضرت عائشہ صدیق اور دیگر صحابہ سے منقول ہے کہ حضور کی خدمت میں ایک یہودی لڑکا وقتاً فوقتا آیا کرتا تھا۔ بعض یہود نے اور لبید بن اعصم نے جو کہ یہود کا حلیف تھا، اس کو بہلا پھسلا کر اس کے ذریعے حضور کی ریش مبارک یا سر مبارک کے بال حاصل کرلیے جو اکثر کنگھا کرتے وقت کنگھی میں رہ جاتے تھے۔ انہوں نے بالوں کے ذریعے آپ پر جادو کردیا۔ گیارہ گرہیں دے دیں اور سوئیاں بھی چبھو دیں اور اس کو کھجور کے کھوکھلے تنے میں رکھ کر اوپر سے ڈھانپ کر ذروان نامی کنویں میں رکھ کر اوپر ایک وزنی پتھر رکھ دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کا اتنا سا اثر ہوا کہ ایک تو آپ کے سر مبارک کے بال کچھ گرنے لگے اور کچھ نسیان کا غلبہ ہوا کہ ایک کام آپ نے کیا نہیں ہوتا تھا، لیکن خیال فرماتے تھے کہ میں کیا یاس کے برعکس۔ چھ مہینے یہ کیفیت طاری رہی۔ اس کے بعد آپ نے خواب میں دیکھا کہ دو آدمی (فرشتے) آئے۔ ایک آپ کے سر اور دوسرا پاؤں کی جانب بیٹھ گیا۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا ان کو (محمد) کیا ہوا ؟ دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو ہوا ہے۔ پوچھا کس نے کیا ہے ؟ کہنے لگا بنی زریق کے ایک شخص لبید بن اعصم نے۔ پوچھا کہاں ہے۔ دوسرے نے کہا کہ ذروان کنویں میں ہے۔ چناچہ حضور جب خواب سے بیدار ہوئے تو حضرت عائشہ (رض) سے فرمانے لگے میری بیماری کی اطلاع مجھ کو میرے رب نے کردی۔ پھر حضور نے حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت عمار بن یاسر کو بھیجا کہ وہاں سے بال اٹھا کرلے آئیں۔ اس صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں نازل فرما دیں۔ حضرت ایک آیت پڑھتے تھے تو ایک گرہ کھل جاتی تھی۔ ان دونوں سورتوں کی گیارہ آیتیں آپ نے پڑھیں۔ اس بال کی گیارہ گرہیں تھیں جو سب کی سب کھل گئیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کانما انشط من عقال، یعنی گویا میں رسیوں میں جکڑا ہوا تھا اور وہ اب کھل گئیں اور میرا جسم بالکل ہلکا ہوگیا۔ (تفسیر ابن کثیر) ۔
بعض صحابہ نے حضور سے اجازت مانگی کہ حضور ہم اس خبیث کا سر قلم کرنا چاہتے ہیں۔ سبحان اللہ حضور نے ارشاد فرمایا مجھ کو میرے رب نے شفا دے دی ہے اور اب میں اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام لینا پسند نہیں کرتا۔ حکومت مسلمانوں کی تھی اور یہودی ذمی تھے۔
(15) تفسیر حقانی، ابو محمد عبدالحق حقانی(1389/1969
اکثر اہل روایت کہتے ہیں کہ مدینہ میں لبید بن اعصم یہودی نے اپنی بیٹیوں سے حضرت پر جادو کرایا تھا اور انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال مبارک پر کچھ پڑھ کر اور ایک تاگے میں گرہیں لگا کر ایک کنوئیں میں جو خشک تھا جس کو ذردان کہتے تھے رکھوا دیا تھا۔ اس نفاثات فی العقد میں اس کی لڑکیوں کی طرف اشارہ بتاتے ہیں اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علیل ہوگئے تھے۔ دو روز یہ حالت رہی تھی پھر جبرئیل (علیہ السلام) نے مطلع کیا تو حضرت علیٰ و طلحہ (رض) گئے اور اس کنوئیں میں سے وہ تاگا اور بال نکال لائے جوں جوں اس کی گرہیں کھلتی جاتی
تھیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آرام ہوتا جاتا تھا۔
دوسری بات یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پر جادو کا ثبوت قرآنِ کریم نے فراہم کیا ہے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(قَالَ بَلْ اَلْقُوْا فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعِصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی)(طٰہٰ : ٦٦)
”ان (جادو گروں)کے جادو کی وجہ سے ان(موسیٰ علیہ السلام )کو گمان ہوا کہ وہ (رسیاں سانپ بن کر)دوڑ رہی ہیں ، پس موسیٰ علیہ السلام نے اپنے نفس میں ڈر محسوس کیا
اور فرعون کے جادوگروں کے اس جادو کے بارے میں قرآنِ کریم نے اعلان کیا ہے کہ :
نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا ثبوت حدیث نے انہی قرآنی الفاظ یُخَیَّّلُ اِلَیْہِ کے ساتھ دیا ہے ۔
آخر میں ہم علامہ عینی حنفی کی عبارت پیش کرتے ہیں ، جس سے تمام شکوک وشبہات دور ہو جاتے ہیں ، عینی حنفی لکھتے ہیں : انّ ذلک السّحر لم یضرّہ ، لأنّہ لم یتغیّر علیہ شیء من من الوحی ، ولا دخلت علیہ داخلۃ فی الشّریعۃ ، وانّما اعتراہ شیء من التّخیّل والوھم ، ثمّ لم یترکہ اللّٰہ علی ذلک ، بل تدارکہ بعصمتہ وأعلمہ موضع السّحر وأعلمہ استخراجہ وحلّہ عنہ کما دفع اللّٰہ عنہ السّمّ بکلام الذّراع الثّالث أنّ ھذا السّحر انّما تسلّط علی ظاہرہ ، لا علی قلبہ وعقلہ واعتقادہ والسّحر مرض من الأمراض وعارض من العلل ، یجوز علیہ کأنواع الأمراض ، فلا یقدح فی نبوّتہ ، ویجوز طروہ علیہ فی أمر الدّنیا ، وھو فیھا عرضۃ للآفات کسائر البشر ۔
”بلاشک وشبہ اس جادو نے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرر نہیں پہنچایا ، کیونکہ وحی میں سے کوئی چیز متغیّر نہیں ہوئی ، نہ ہی شریعت میں کوئی مداخلت ہوئی ، پس تخیل ووہم میں سے ایک چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لاحق ہوئی ، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی حالت پر نہیں چھوڑا ، بلکہ اس کو اس سے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا تدارک بھی کیا ، آپ کو جادو کی جگہ بھی بتائی ، اس کو نکالنے کا بھی پتا دیا اور آپ سے اس کو ختم کیا ، جس طرح کہ بکری کے شانے کے گوشت کے بولنے کے ساتھ اس کے زہر کو آپ سے دور کیا تھا ،تیسری بات یہ ہے کہ جادو آپ کے ظاہر پر ہوا تھا ، دل ودماغ اور اعتقاد پر نہیں ، جادو امراض میں سے ایک مرض ہے اور بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے ، دوسری بیماریوں کی طرح آپ کواس کا لاحق ہونا بھی ممکن ہے ، لہٰذا یہ بات آپ کی نبوت میں کوئی عیب پیدا نہیں کرتی ، دنیاوی معاملات میں آپ پر اس کا اثر ممکن ہے، دوسرے انسانوں کی طرح دنیاوی معاملات میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی آفات آسکتی ہیں ۔”(عمدۃ القاری از عینی : ١٦/٩٨)
نیز لکھتے ہیں : وقد اعترض بعض الملحدین علی حدیث عائشۃ وقالوا : کیف یجوز السّحر علی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم والسّحر کفر وعمل من أعمال الشّیاطین ، فکیف یصل ضررہ الی النّبیّ مع حیاطۃ اللّٰہ لہ وتسدیدہ ایّاہ بملاتکتہ وصون الوحی عن الشّیاطین وأجیب بأنّ ھذا اعتراض فاسد وعناد للقرآن ، لأنّ اللّٰہ تعالیٰ قال لرسولہ : قل أعوذ بربّ الفلق الی قولہ : فی العقد ، والنّفّاثات السّواحر فی العقد کما ینفث الرّاقی فی الرّقیۃ حین سحر ، ولیس فی جواز ذلک علیہ ما یدل علی أنّ ذلک یلزمہ أبدا ، أو یدخل علیہ داخلۃ فی شیء من ذاتہ أو شریعتہ ، وانّما کان لہ من ضرر السّحر ما ینال المریض من ضرر الحمّٰی والبرسام من ضعف الکلام وسوء التّخیّل ، ثمّ زال ذلک عنہ وأبطل اللّٰہ کید السّحر ، وقد قام الاجماع فی عصمتہ فی الرّسالتہ ۔۔۔ ”بعض ملحدین (بے دین لوگوں)نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیسے ہو سکتا ہے ، حالانکہ یہ تو کفر ہے اور شیطان کے اعمال میں سے ایک عمل ہے ؟ اللہ کے نبی کو اس کانقصان کیسے پہنچ سکتا تھا ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کی تھی ، فرشتوں کے ذریعے آپ کی رہنمائی کی تھی اور وحی کو شیطان سے محفوظ کیا تھا؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ اعتراض فاسد اور قرآن کے خلاف بغض پر مبنی ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہئ فلق سکھائی تھی ، اس میں النفّاثاتکامعنیٰ گرہوں میں جادو کرنے والی عورتیں ہے ،جس طرح کہ جادو کرنے والا شخص کرتا ہے ، اس جادو کو نبی پر ممکن کہنے میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے معلوم ہو کہ وہ آپ کے ساتھ ہمیشہ لازم رہا تھا یاآپ کی ذات یا شریعت میں کوئی خلل آیا تھا ،آپ کو جادو کے اثر سے اسی طرح کی تکلیف پہنچی تھی ، جس طرح کی تکلیف بیمار کو بخار یا برسام کی وجہ سے پہنچتی ہے ، یعنی کلام کا کمزور ہونا ، خیالات کا فاسد ہوناوغیرہ ، پھر یہ چیز آپ سے زائل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے جادوکی تکلیف کو ختم کر دیا ، اس بات پر اجماع ہو چکاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت (اس جادو کے اثر سے)محفوظ رہی ہے ۔”(عمدۃ القاری : ١٦/٩٨)
شیخ الاسلام ثانی علامہ ابن قیم الجوزیہ ؒ لکھتے ہیں:
منکرین حدیث کے ہر سوال کا جواب!
( تمام مسالک کے علماء کرام کی تفاسیر سے جادو کے متعلق عبارات نقل کی ہیں )
(1) تفسیر احسن التفاسیر (حافظ محمد سید احمد حسن 1315/1897 )تفسیر فلق و الناس
ان دونوں سورتوں کے شان نزول کی رواییں جو حضرت عائشہ رضہ اللہ عنھما سے اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھم اور انس رضی اللہ عنہ سے صحیحین ؎ وغیرہ میں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ لبیدبن عاصم نے جب اپنی بیٹیوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کرایا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں دو فرشتوں نے اس جادو کا حال بتایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ بالوں اور کچھ کنگھی کے دندانوں پر یہ جادو کیا گیا ہے اور ذروان کا کنواں جو مشہور ہے وہاں یہ جادو کی چیزیں ایک پتھر کے نیچے ہیں جب یہ چیزیں منگوائی گئیں تو معلوم ہوا کہ سر کے بالوں اور ایک تانت کے ٹکڑے میں گیارہ گرہ بھی لگائی گئی تھیں غرض اسی وقت یہ گیارہ آیتوں کی دونوں سورتیں نازل ہوئیں اور ہر ایک آیت کے پڑھنے کے ساتھ ہی جادو کی ایک ایک گرہ گھل گئی اور دونوں سورتوں کے ختم ہوتے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جادو کا اثر جاتا رہا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تندرست ہوگئے یہ لبید بن عاصم منافق تھا یہود سے بھائی چارہ رکھتا تھا۔ ایک یہود کا لڑکا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کیا کرتا تھا یہود نے اس کو بلایا اور اس کی معرفت وہ آپ کے کنگھی کے دندانے اور بال منگوائے تھے جب یہ سب حال کھل گیا تو صحابہ نے چاہا کہ لبید بن عاصم وغیرہ سے اس کا بدلہ لیا جائے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع کیا اور فرمایا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی اب کسی سے بدلہ لینے کی ضرورت نہیں اہل سنت کا یہ مذہب ہے کہ جادو کا اثر حقیقی طور پر دنیا میں ہوتا ہے فرقہ معتزلہ اس کا مخالف ہے کیونکہ وہ لوگ جادو کے اثر کو خیالی بتاتے ہیں مگر اہل سنت نے اپنے مذہب کو بہت سی آیتوں اور حدیثوں سے ثابت کیا ہے
(2)تفسیر ابن عباس 817/1416،مترجم پروفیسر محمد سعید احمد عاطف
یہ دونوں سورتیں لبید بن اعصم یہودی کے متعلق نازل ہوئی ہیں جس نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کردیا تھا آپ نے جادو پر ان سورتوں کو پڑھا تو وہ اس طرح زائل ہوگیا جیسا کہ رسی کی گرہ کھل جاتی ہے۔
شان نزول : معذتین
امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں بواسطہ کلبی، ابو صالح، حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت بیمار ہوئے تو آپ کے پاس دو فرشتے آئے ایک آپ کے سر مبارک کے پاس بیٹھا اور دوسرا پیروں کی طرف۔ تو جو پیروں کی طرف بیٹھا ہوا تھا اس نے اس فرشتہ سے جو کہ سر کے پاس تھا کہا آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے اس نے کہا کہ تکلیف ہے وہ کہنے لگا کیا تکلیف ہے تو اس نے کہا جادو ہے اس فرشتہ نے کہا کہ کس نے جادو کیا ہے اس فرشتہ نے کہا لبید بن اعصم یہودی نے کیا ہے وہ فرشتہ کہنے لگا کہ کس جگہ ہے اس فرشتہ نے کہا وہ فلاں خاندان کے کنوئیں میں پتھر کے نیچے ایک بالوں کے جوڑے میں ہے چناچہ وہاں جاؤ اور اس کا پانی نکالو اور پتھر کو اٹھا کر اس جادو کو جلا دو چناچہ جب صبح ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمار بن یاسررضی اللہ عنہ کو ایک جماعت کے ساتھ اس کنوئیں کے پاس بھیجا تو اس کا پانی مہندی کی طرح سرخ ہورہا تھا چناچہ انہوں نے پانی نکالا اور پتھر کو اٹھا کر اس جادو کو نکال لیا اور اس کو جلا دیا اور اس میں ایک دھاگہ کا ٹکڑا بھی تھا جس میں گیارہ گرہیں تھیں اور آپ پر یہ دونوں سورتیں یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس نازل ہوئی چناچہ جب اس پر ان سورتوں میں سے ایک ایک آیت پڑھنی شروع کی تو ایک ایک گرہ کھل گئی۔
اس کی اصلیت کے لیے بغیر سبب نزول کے ذکر کیے ہوئے صحیح میں شاہد موجود ہے اور نیز ان سورتوں کے نزول کے تذکرہ کے ساتھ شاہد موجود ہے۔
اور ابو نعیم نے دلائل میں ابوجعفر رازی، ربیع بن انس، حضرت انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچانے کے لیے کچھ حرکت کی جس سے آپ سخت بیمار ہوگئے صحابہ کرام آپ کے پاس حاضر ہوئے تو سمجھے کہ آپ بیمار ہیں چنانچہ جبریل امین معوذتین لے کر آپ کے پاس آئے اور آپ نے یہ سورتیں پڑھ کر دم کیا جس سے آپ صحیح و تندرست ہو کر اپنے صحابہ کے پاس تشریف لے گئے۔
(3) تفسیر مدارک التنزیل النفسی ، (710/1310
روایت میں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سحر کی گئی جس کی وجہ سے آپ بیمار ہوگئے پس آپ کے ہاں دو فرشتے آئے۔ جبکہ آپ سو رہے تھے ایک نے دوسرے کو کہا ان کو کیا ہوا ؟ دوسرے نے کہا ان پر سحر ہوا۔ اس نے سوال کیا کس نے کیا ؟ دوسرے نے کہا لبید بن اعصم یہودی نے، اس نے کہا کس چیز سے سحر کیا۔ اس نے کہا کنگھی کے دندانے اور بال ایک گابھے کو کھود کر ذی اروان کے کنوئیں میں ایک پتھر کے نیچے رکھے گئے ہیں۔ اس پر آپ جاگ گئے پھر زبیر، علی و عمار (رض) کو بھیجا انہوں نے کنوئیں سے پانی نکالا اور کھودی ہوئی لکڑی کو جب نکالا تو اس میں کنگھی کے دندانے اور بال مبارک تھے۔ اس میں بالوں کو گیارہ گرھیں لگی تھیں۔ جن میں سوئیاں چبھوئی گئیں تھیں۔ پس یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں۔ جب جبرئیل (علیہ السلام) ایک آیت پڑھتے تو ایک گرہ کھل جاتی یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری گرہ کھلنے پر اٹھ کھڑے ہوئے۔ گویا کوئی بندھن کھل گیا ہے
(4) تفسیر اشرفی (1369/1950
اس سورۃ کا نام اسی کی پہلی آیت سے ماخوذ ہے ۔ روایت ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک یہودی تھا لبید بن اعصم ، اس نے اور اس کی لڑکیوں نے ملکر حضور پر جادو کیا تھا۔ جادو خطرنا تھا مگر حضور کا بال بیکا نہ ہوسکا ، صرف اتنی بات ہوئی کہ آپ بیمار سے ہوگئے ، جس پر سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا ایک ساتھ نزول ہوا۔
اللہ نے آپ کو اطلاع دی کہ لبید اور اس کی لڑکیوں نے آپ پر جادو کیا ہے ، اور یہ عمل آپ کی داڑھی کے بالوں اور کنگھی کے دندانوں پر کیا ہے ، اور یہ سب چیزیں کھجور کے گابھے کے بنے ہوئے ڈھکن میں رکھ کر بنی زریق کے کنویں میں ڈال دی گئی ہیں۔ مسند عبد بن حمید میں یہ تفصیل ہے کہ آپ نے حضرت علی کو بھیج کر یہ چیزیں منگوائیں۔ ان میں گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں۔ حضور نے فرمایا کہ ان سورتوں کی ایک ایک آیت پڑھتے جاؤ اور گرہ کھولتے جاؤ۔ دونوں سورتوں میں مجموعی گیارہ آیتیں ہیں۔ حضرت علی نے تعمیل کی اور جادو کا اثر بالکل ختم ہوگیا۔
بعض روایتوں میں یہ تفصیل بھی ہے کہ ان سامانوں میں ایک تانت بھی تھی جس میں گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں ، اور ان میں سوئیاں چبھوئی گئی تھیں۔ اس مقام پر یہ ذہن نشین رہے کہ حضور پر جادو کا اثر ایسا نہیں پڑا تھا کہ ہوش و حواس متاثر ہوجاتے ، محض اتنا اثر پڑا تھا کہ آپ بیمار سے ہوگئے تھے ، اس سے فریضہ نبوت کی ادائیگی میں کسی طرح کا کوئی خلل نہیں پڑا تھا ، کفار ازراہ طنز جو رسول کریم کو مسحور کہتے تھے ، اس سے مرادایسا سحر زدہ ہے جو سحر کے اثر سے عقل و ہوش کھودے اور مجنون ہوجائے اور اس طرح کے سحر کا اثر نبی کریم پر کبھی نہیں ہوسکتا۔
اوپر نبی کریم پر جس سحر کا ذکر ہے اس کا اثر نبی کی ذات پر اس نوعیت کا نہیں پڑا ، جس سے نبی اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھیں۔ اب جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ نبی پر جادو کا اثر ہو ہی نہیں سکتا ، ان کی مراد اگر یہ ہے کہ ایسا اثر جو نبی کو مجنون بنا دے تو بات بالکل صحیح ہے۔ اور اس کو مان لینے کی صورت میں بھی اس بات کو ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ نبی پر بھی جادو کا ہلکا اثر ہوسکتا ہے ، ایسا اثر جو نبی کو مجنون و مفتور العقل نہ بنا دے۔
(5) تفسیر مظہر القرآن ۔ شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی (1369/1950
ان دونوں سورتوں کی شان نزول کی روایتیں جو حضرت عائشہ سے اور حضرت عبداللہ بن عباس اور انس رضی اللہ عنھم سے صحیحین میں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ لبید بن اعصم یہودی اور اس کی بیٹیوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا، اور حضور کے جسم مبارک اور اعضاء ظاہرہ پر اس کا اثر ہوا، قلب وعقل و اعتقاد پر کچھ اثر نہ ہوا، چند روز کے بعد حضرت جبرائیل آئے اور انہوں نے عرض کیا ایک یہودی نے آپ پر جادو کیا ہے اور جادوکا کچھ سامان ہے وہ ذرواں کا کنواں ہے وہاں ایک پتھر کے نیچے داب دیا ہے۔ حضور نے علی مرتضی (رض) کو بھیجا، انہوں نے کنویں کا پانی نکالنے کے بعد پتھراٹھایا، اس کے نیچے سے کھجور کے گابھے کی تھیلی برآمد ہوئی اس میں حضور کے موے شریف جو کنگھی سے برآمد ہوئے اور حضور کی کنگھی کے چند دندانے اور ایک ڈورایا کمان کا چلہ جسمیں گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں، ایک موم کا پتلا جس میں گیارہ سوئیاں چبھی ہوئی تھیں، یہ سب سامان پتھر کے نیچے سے نکلا اور حضور کی خدمت میں حاضر کیا گیا اللہ نے یہ دونوں سورتیں نازل فرمائیں ان دونوں سورتوں میں گیارہ آیتیں ہیں پانچ فلق میں ہر ایک آیت کے پڑھنے کے ساتھ ایک ایک گرہ کھلتی جاتی تھی یہاں تک کہ سب گرہیں کھل گئیں اور حضور بالکل تندرست ہوگئے اہل سنت کا یہ مذہب ہے کہ جادو کا اثر حقیقی طور پر دنیا میں ہوتا ہے فرقہ معتزلہ اس کا مخالف ہے کیونکہ وہ لوگ جادو کے اثر کو خیالی بتلاتے ہیں مگر اہل سنت نے بہت سی آیتوں اور حدیثوں سے ثابت کیا ہے۔
(6) تفسیر خزائن العرفان،نعیم الدین مرادآبادی(1364/1945
یہ سورت اور سورۃ الناس جو اس کے بعد ہے جو اس وقت نازل ہوئی جب کہ لبیدبن اعصم یہودی اور اس کی بیٹیوں نے حضور سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا اور حضور کے جسم مبارک اور اعضاء ظاہرہ پر اس کا اثر ہوا قلب و عقل و اعتقاد پر کچھ اثر نہ ہوا چند روز کے بعد جبریل آئے اور انہوں نے عرض کیا کہ ایک یہودی نے آپ پر جادو کیا ہے اور جادو کا جو کچھ سامان ہے وہ فلاں کنوئیں میں ایک پتھر کے نیچے داب دیا ہے، حضور سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی مرتضٰی (رض) کو بھیجا انہوں نے کنوئیں کا پانی نکالنے کے بعد پتھر اٹھایا اس کے نیچے سے کھجور کے گابھے کی تھیلی برآمد ہوئی اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موئے شریف جو کنگھی سے برآمد ہوئے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کنگھی کے چند دندانے اور ایک ڈورا یا کمان کا چلّہ جس میں گیارہ گرہیں لگی تھیں اور ایک موم کا پتلہ جس میں گیارہ سوئیاں چبھیں تھیں یہ سب سامان پتھر کے نیچے سے نکلا اور حضور کی خدمت میں حاضر کیا گیا اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں نازل فرمائیں ان دونوں سورتوں میں گیارہ آیتیں ہیں پانچ سورۃ فلق میں ہر ایک آیت کے پڑھنے کے ساتھ ایک ایک گرہ کھلتی جاتی تھی یہاں تک کہ سب گرہیں کھل گئیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالکل تندرست ہوگئے۔
(7) تفسیر تسہیل القرآن، مولوی فیروزالدین صاحب (1362/1943
کسی یہودی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سحر کردیا تھا جس سے آپ کو سہو اور نسیان کی سی حالت ہوگئی تھی۔ اس کے دفعیہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ دونوں معوذتین نازل کیں چناچہ جوں جوں آپ یہ آیت پڑھتے جاتے تھے آپ کی حالت بہتر ہوتی جاتی تھی اور آیات کے خاتمہ پر آپ بالکل تندرست ہوگئے تھے آئندہ آپ ہمیشہ ان آیات سے مریضوں پر دَم فرمایا کرتے تھے تو شفاء ہوجاتی تھی۔
(8) تفسیر عثمانی ، شیخ الاسلام علامہ شبر احمد عثمانی (1356/1938
(تنبیہ) کئی صحابہ (مثلاً عائشہ صدیقہ، ابن عباس زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بعض یہود نے سحر کیا۔ جس کے اثر سے ایک طرح کا مرض سا بدن مبارک کو لاحق ہوگیا۔ اس دوران میں کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دنیاوی کام کرچکے ہیں، مگر خیال گزرتا تھا کہ نہیں کیا۔ یا ایک کام نہیں کیا اور خیال ہوتا تھا کہ کرچکے ہیں۔ اس کے علاج کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ دو سورتیں نازل فرمائیں اور ان کی تاثیر سے وہ اثر باذن اللہ زائل ہوگیا۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ صحیحین میں موجود ہے جس پر آج تک کسی محدث نے جرح نہیں کی۔ اور اس طرح کی کیفیت منصب رسالت کے قطعاً منافی نہیں۔ جیسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی کبھی بیمار ہوئے۔ بعض اوقات غشی طاری ہوگئی یا کئی مرتبہ نماز میں سہو ہوگیا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " انما انا بشر انسی کما تنسون فاذا نسیت فذکرونی " (میں بھی ایک بشر ہی ہوں جیسے تم بھولتے ہو، میں بھی بھولتا ہوں، میں بھول جاؤں تو یاد دلا دیا کرو) کیا اس غشی کی کیفیت اور سہود نسیان کو پڑھ کر کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اب وحی پر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوسری باتوں پر کیسے یقین کریں، ممکن ہے ان میں بھی سہو و نسیان اور بھول چوک ہوگئی ہو۔ اگر وہاں سہو و نسیان کے ثبوت سے یہ لازم نہیں آتا کہ وحی الہٰی اور فرائض تبلیغ میں شکوک و شبہات پیدا کرنے لگیں، تو اتنی بات سے کہ احیاناً آپ ایک کام کرچکے ہوں اور خیال گزرے کہ نہیں کیا، کس طرح لازم آیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام تعلیمات اور فرائض بعثت سے اعتبار اٹھ جائے۔ یاد رکھیے سہو و نسیان، مرض اور غشی وغیرہ عوارض خواص بشریت سے ہیں۔ اگر انبیاء بشر ہیں، تو ان خواص کا پایا جانا اس کے رتبہ کو کم نہیں کرتا۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ جب ایک شخص کی نسبت دلائل قطعیہ اور براہین نیرہ سے ثابت ہوجائے کہ وہ یقینا اللہ کا سچا رسول ہے، تو ماننا پڑے گا کہ اللہ نے اس کی عصمت کا تکفل کیا ہے اور وہی اس کو اپنی وحی کے یاد کرانے سمجھانے اور پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔ ناممکن ہے کہ اس کے فرائض دعوت و تبلیغ کی انجام دہی میں کوئی طاقت خلل ڈال سکے۔ نفس ہو، یا شیطان، مرض ہو، یا جادو، کوئی چیز ان امور میں رخنہ اندازی نہیں کرسکتی، جو مقصد بعثت کے متعلق ہیں۔ کفار جو انبیاء کو " مسحور " کہتے تھے، چونکہ ان کا مطلب نبوت کا ابطال اور یہ ظاہر کرنا تھا کہ جادو کے اثر سے ان کی عقل ٹھکانے نہیں رہی، گویا " مسحور " کے معنی " مجنون " کے لیتے تھے اور وحی الہٰی کو جوش جنون قرار دیتے تھے (العیاذ باللہ) اس لئے قرآن میں ان کی تکذیب و تردید ضروری ہوئی۔ یہ دعویٰ کہیں نہیں کیا گیا کہ انبیاء (علیہم السلام) لوازم بشریت سے مستشنٰی ہیں۔ اور کسی وقت ایک آن کے لئے کسی نبی پر سحر کا معمولی اثر جو فرائضِ بعثت میں اصلا خلل اندازہ ہو نہیں ہوسکتا۔
(9) بیان القرآن ، حکیم الامت شاہ اشرف علی تھانوی(1352/1934
سورۃ فلق اور ناس ایک ساتھ نازل ہوئی تھیں، حسب روایت دلائل بیہقی ان کا سبب نزول یہ ہے کہ حضور انور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لبید یہودی اور اس کی بیٹیوں نے سحر کردیا تھا جس سے آپ کو مرض کی سی حالت عارض ہوگئی، آپ نے حق تعالیٰ سے دعا کی، اس پر یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں جن میں ایک کی پانچ آیتیں اور ایک کی چھ آیتیں مجموعہ گیارہ آیتیں ہیں، اور آپ کو وحی سے اس سحر کا موقع بھی معلوم کرادیا گیا۔ چناچہ وہاں سے مختلف چیزیں نکلیں جن میں سحر کیا گیا تھا اور اس میں تانت کا ایک ٹکڑا بھی تھا جس میں گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں، حضرت جبریل (علیہ السلام) یہ سورتیں پڑھنے لگی، ایک ایک آیت پر ایک ایک گرہ کھل گئی۔ چناچہ آپ کو بالکل شفا ہوئی اور دونوں سورتوں کے مجموعہ میں مختلف شرور سے استعاذہ کا اور سب امور میں حق تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم ہوا ہے۔
(10) ترجمان القرآن ،ابوالکلام (1350/1931
سورۃ الفلق اور سورۃ الناس یہ دونوں سورتیں مکی مدنی ہیں اور ان دونوں کا نام، معوذتین، رکھا گیا ہے بعض روایات میں ہے کہ مدینہ میں یہود نے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا اور اس کے اثر سے حضور بیمار ہوگئے تھے اس پر یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں۔ مکہ میں دشمنوں کی شدید مخالفتیں ان سورتوں کے نزول کا سبب بنیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دشمن سے پناہ مانگنے کے لیے ان سورتوں کی تعلیم دی گئی۔
دوسرا مبحث :
روایات میں ہے کہ مدینہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا گیا تھا اور تاریخی حیثیت سے یہ ثابت ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے متاثر ہوئے تھے اور لبید بن اعصم یہودی نے جادوچلایا جو انصار کے قبیلہ بنی زریق سے تعلق رکھتا تھا اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال اور کنگھی کسی طریقہ سے حاصل کرلی اور موئے مبارک اور کنگھی کے دندانوں کو بنی زریق کے کنویں ذروان یاذی اروان کی تہ میں دبادیا تھا اس سے آپ کے مزاج مبارک میں تغیر آگیا تھا مگر یہ تمام آپ کی ذات تک محدود ہے حتی کہ کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ آپ پر کیا گزری ہے وحی پر اس کا کوئی اثرنہ تھا۔ اس حد تک یہ واقعہ بالکل صحیح ہے جسمانی طور پر نبی کو اذیت پہنچنے سے منصب نبوت پر کوئی اثر نہیں پڑتا مگر بعض لوگوں نے ان جادو والی احادیث کا ہی انکار کردیا ہے اور ان احادیث کو ان تتبعون الارجلامسحورا۔ کے خلاف سمجھا ہے مگر یہ تمام توجیہات غلط ہیں جیسا کہ ہم واضح کرچکے ہیں۔ اس کے بعد اب ہم ان سورتوں کے الفاظ کی وضاحت کرتے ہیں۔
(11)تفسیر حل القرآن،شاہ اشرف علی تھانوی(1345/1926
فائدہ : واضح ہو کہ ایک یہودی عورت نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کردیا تھا اور ایک بال میں گیارہ گرہیں دے کر کنوئیں میں ڈال دیا تھا۔ اس پر یہ دونوں سورتیں قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس نازل ہوئیں۔ اور جبریل (علیہ السلام) کنوئیں میں سے وہ بال لائے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یہ سورتیں پڑھو۔ پس جب آپ ان کی ایک آیت پڑھتے تھے تو ایک گرہ کھل جاتی تھی اور اسی قدر اس کے اثر میں کمی آجاتی تھی۔ پس جب کہ آپ نے دونوں سورتیں ختم کیں تو کل گرہیں کھل گئیں۔ اور آپ بالکل اچھے ہوگئے۔ من شرالنفثت فی العقد میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ ھذا خیر ماتیسر لی فی حل القرآن بفضل الملک المنان والحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی خیر خلقہ محمد والہ و اصحابہ اجمعین۔
(12)تفسیر ضیاء القرآن، پیر کرم شاہ صاحب
نبی کریم (علیہ الصلوۃ والسلام) پر کیا جادو کیا گیا ؟ اور ذات اقدس واطہر پر اس کا اثر کیا ظاہر ہوا ؟ اس کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کرنے سے پہلے میں قارئین کرام کے سامنے ان تمام روایات کا خلاصہ پیش کرتا ہوں جو مختلف کتب میں باختلاف الفاظ منقول ہیں۔ اس کے بعد ان اعتراضات کا ذکر کروں گا جو قدیم اور جدید معتزلیوں نے وارد کیے ہیں۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اہل سنت کے مؤقف کو بیان کروں گا۔
یثرب کے یہودیوں کو روز اول سے ہی جو بلاوجہ عداوت اور حسد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کے ساتھ تھا اس کی تفصیلات کئی مقامات پر آپ پڑھ چکے ہیں۔ جیسے جیسے اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کی شان کو بلند کرتا۔ فتوحات کے دروازے کھلتے جاتے، ایسے ایسے ہی ان کی عداوت کے شعلے بھڑکنے لگتے۔ 7 ھء میں جب حدیبیہ سے حضور بخیریت واپس تشریف لائے تو خیبر کے یہودیوں کا ایک وفد مدینہ کے ایک مشہور جادوگر لبید ابن اعصم کے پاس آیا۔ بعض مؤرخین نے اسے یہودی کہا ہے لیکن یہ درحقیقت انصار کے ایک قبیلہ بنی زریق کا ایک فرد تھا۔ ممکن ہے اس نے یہودی مذہب اختیار کرلیا ہو۔ اس لیے اسے یہودی کہا گیا ہو۔ خیبر کے سیاسی طور پر ان کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، سازشیں کیں، منصوبے بنائے، مشرک قبائل کو ان کے خلاف بھڑکایا۔ لیکن ناکام رہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں جتنے ماہر جادوگر تھے، انہوں نے بھی بڑے جتن کیے، بڑی زور آزمائی کی، لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ ہمارے اس علاقہ میں تمہارے سحر کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ہم تیرے پاس آئے ہیں۔ اگر تو ہماری امداد کرے تو یہ مشکل آسان ہوسکتی ہے۔ انہوں نے اس کی خدمت میں بھاری نذرانہ بھی پیش کیا۔ چناچہ اس نے حامی بھر لی۔
ایک یہودی لڑکا حضور کی خدمت میں رہا کرتا تھا کسی طرح ورغلا کر اس سے حضور کی کنگھی کا ایک ٹکڑا اور چند موئے مبارک حاصل کرلیے۔ اس نے اور اس کی بیٹیوں نے اس فن میں اپنے باپ سے بھی دو قدم آگے تھیں، جادو کیا اور ان چیزوں کو نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھ کر بنی زریق کے ایک کنویں کی تہہ میں ایک بھاری پتھر کے نیچے دبا دیا۔ اس کنویں کا نام " ذروان " یا ذی اروان، بتایا جاتا ہے۔ بعض نے اس کا نام " بئر اریس " بھی لکھا ہے۔
چھ ماہ گزرنے کے بعد معمولی اثر ظاہر ہونے لگا۔ آخری چالیس دن زیادہ تکلیف کے تھے۔ ان میں سے بھی آخری تین دن تکلیف اپنی نہایت کو پہنچ گئی۔ اس جادو سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس قسم کی تکلیف محسوس ہوتی تھی۔ اس کے بارے میں بھی تصریحات موجود ہیں۔ علامہ سیوطی لکھتے ہیں :
کان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یذوب ولا یدری ماوجعہ : یعنی حضور کی طبیعت گھٹنے لگی۔ نقاہت بڑھنے لگی لیکن بظاہر اس کی کوئی وجہ معلوم نہ ہوتی۔
علامہ آلوسی لکھتے ہیں : حتی لیخیل الیہ انہ فعل الشیئ ولم یکن فعلہ (روح المعانی)
یعنی ایسا کام جو نہ کیا ہوتا، اس کے بارے میں حضور کو خیال ہوتا کہ کرلیا گیا ہے۔
کتب حدیث میں اس جادو کے اثرات کے بارے میں جتنی روایات ملتی ہیں۔ ان کا یہی نچوڑ ہے کہ جسمانی طور پر نقاہت و کمزوری محسوس ہوتی، لیکن ایسی کوئی ضعیف سے ضعیف روایت بھی موجود نہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فرائض نبوت کی ادائیگ میں کبھی بال برابر فرق آیا ہو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نماز کے ارکان میں تقدیر و تاخیر سرزد ہوئی ہو یا تلاوت قرآن کے وقت نسیان طاری ہوگیا ہو یا مملکت اسلامیہ کی توسیع اور استحکام یا اسلام کی تبلیغ میں کوئی معمولی سا رخنہ بھی پیدا ہوا ہو۔
جب تکلیف زیادہ بڑھی تو حضور علیہ الصلوہ والسلام نے بارگاہ الٰہی میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اسی رات حضور کو خواب میں حقیقت حال سے آگاہ فرمادیا گیا : چناچہ حضور نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو بتایا کہ اے عائشہ میں نے اپنے رب سے جس بات کے بارے میں دریافت کیا تھا، میرے خدا نے مجھے اس کے متعلق بتادیا ہے۔ حضرت عائشہ نے عرض کی یا رسول اللہ کیا بتایا گیا ہے۔ ارشاد ہوا رات کو خواب میں دو آدمی میرے پاس آئے ایک میرے سرہانے بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے نزدیک۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ جبرائیل اور میکائیل تھے۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا۔ انہیں کیا تکلیف ہے۔ دوسرے نے جواب دیا۔ انہیں جادو کیا گیا ہے۔ پوچھا کس نے کیا ہے ؟ جواب ملا لبید بن اعصم نے۔ پوچھا کس چیز میں۔ بتایا : کنگھی کے ایک ٹکڑے کو اور چند بالوں کو نر کھجور کے خوشہ کے پردے میں رکھ کر۔ پوچھا کہاں رکھا ہے ؟ بتایا۔ ذی اروان کے کنوئیں کی تہ میں ایک پتھر کے نیچے۔ پوچھا اب کیا کرنا چاہیے۔ بتایا : اس کنوئیں کا سارا پانی نکال دیا جائے پھر اس پتھر کے نیچے سے ان چیزوں کو نکالاجائے۔
حضور علیہ الصلوہ والسلام نے فورا حضرت سیدنا علی، عمار ابن یاسر اور حضرت زبیر (رض) کو اس مقصد کے لیے اس کنویں کی طرف بھیجا انہوں نے پانی نکال کر اس کنویں کو خشک کردیا۔ اتنے میں حضور خود بھی وہاں تشریف لے گئے۔ پتھر کو اٹھا یا تو اس کے نیچے وہ غلاف نکلا، اسے کھولا تو اس کے اندر کنگھی کا ایک ٹکڑا، چند بال جو تانت کے ایک ٹکڑے میں بندھے ہوئے تھے اور اس تانت میں گیارہ گرہیں لگی ہوئیں تھیں۔ اسی اثنا میں حضرت جبرائیل حاضر ہوئے اور یہ دو سورتیں پڑھ کر سنائیں۔ اور عرض کیا کہ آپ ان سورتوں کی ایک ایک آیت پڑھتے جائیں اور ایک ایک گرہ کھولتے جائیں اور ایک ایک سوئی نکالتے جائیں۔ چناچہ دونوں سورتوں کی گیارہ آیتیں پڑھی گئیں ان کی تلاوت سے گیارہ گرہیں کھلیں اور ساری سوئیاں نکل گئیں اس طرح حضور علیہ الصلوہ والسلام کی طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی اور جادو کا سارا اثر زائل ہوگیا۔
صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ اجازت ہو تو اس خبیث کا سر قلم کردیا جائے۔ حضرت سید عالم نے ارشاد فرمایا : اما ان فقد شفانی اللہ واکرہ ان اثیر علی الناس شرا۔
ترجمہ : مجھے تو اللہ تعالیٰ نے شفا بخش دی ہے۔ میں اپنے لیے لوگوں میں فتنہ کی آگ بھڑکانا نہیں چاہتا۔
سبحان اللہ رحمت للعالمینی کی کیا شان ہے۔ اپنی ذات کے لیے اپنی جان کے دشمنوں سے بھی کبھی انتقام نہیں لیا۔ صلی اللہ علیک یارسول اللہ۔ صلی اللہ علیک یا مقیل العچرات۔ صلی اللہ علیک یا صفوح عن الزالات وبارک وسلم۔
اس واقعہ کا خلاصہ آپ نے ملاحظہ فرمالیا ہے۔ اب ذرا قدیم معتزلہ اور جدید عقلیت پسندوں کے اعتراضات کا مطالعہ فرمائیے۔ وہ ان تمام روایات کو ساقط الاعتبار، ناقابل اعتماد قرار دیتے ہوئے بیک قلم ان پر خط تنسیخ خھینچ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان روایات کو صحیح تسلیم کیا جائے۔ تو اس سے منصب نبوت کی توہین ہوتی ہے بلکہ رہ قسم کی وحی اور شریعت کے جملہ احکام پر سے وثوق اٹھ جاتا ہے۔ کیونکہ اگر ان روایات کے مطابق مان لیا جائے کہ حضور پر جادو کا اثرہو گیا تھا تو پر یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے اثر سے کوئی آیت ذہن سے اتر گئی ہو قرآنی آیت کے بجائے کسی خد ساختہ جملہ کو آیت ِ قرآنی فرض کرلیا گیا ہو۔ شریعت کا یہ قانون اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو بلکہ سحر کی فسوں کاری کا کرشمہ ہو نیز یہ روایات اس آیت کے بھی منافی ہیں واللہ یعصمک من الناس۔ کہ لوگوں کی شر انگیزیوں سے اللہ تعالیٰ آپ کا محافظ ہے۔ جب عصمت نبوت کی ذمہ داری خود اللہ رب العزت نے لی ہے، تو پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ یہودیوں کے سحر کا حضور پر اثر ہوگیا ہو۔ عقل کے جدید اور قدیم پرستاروں کا نظریہ آپ نے پڑھ لیا۔ بات کا جس طرح انہوں نے بتنگڑ بنایا ہے، اس کو بھی آپ نے دیکھ لیا۔
ان اعتراضات اور شکوک کے بارے میں اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو حیثیتیں تھیں۔ ایک حیثیت نبوت اور دوسری حیثیت بشریت عوارض بشری کا ورود ذات اقدس پر ہوتا رہتا تھا۔۔ بخار، درد، چوٹ لگنا۔ دندان، مبارک کا شہدی ہونا۔ طائف میں پنڈلیوں کا لہولہان ہونا اور احد میں جبین سعادت کا زخمی ہونا۔ یہ سب واقعات تاریخ کے صفحات کی زینت ہیں۔ یہ لوگ بھی ان سے انکار کی جرأت نہیں کرسکتے اور ان عوارض سے حجور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان رسالت اور حیثیت نبوت پر قطعا کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح یہاں بھی جادو کا اثر حضور کی جسمانی صحت تک محدود تھا، رسالت کا کوئی پہلو قطعاً اس سے متاثر نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا کہ اس جادو سے حضور کوئی آیت بھول جاتے یا الفاظ میں تقدیم و تاخیر کردیتے یا قرآن میں اپنی طرف سے کوئی جملہ بڑھا دیتے یا نماز کے ارکان میں ردو بدل ہوجاتا تو اسلام کے بدخواہ اتنا شوروغل مچاتے کہ الامان والحفیظ ! بطلان رسالت کے لیے انہیں ایک ایسا مہلک ہتھیار دستیاب ہوجاتا کہ اس کے بعد انہیں دعوت اسلامی کو ناکام کرنے کے لیے مزید کسی ہتھیار کی ضرورت نہ رہتی، لیکن اس قسم کا کوئی واقعہ کسی حدیث یا تاریخ کی کتاب میں موجود نہیں۔ دشمنان اسلام نے آج تک جتنی کتابیں پیغمبر اسلام (علیہ الصلوۃ والسلام) کے بارے میں لکھی ہیں ان میں بھی اس قسم کا کوئی واقعہ درج نہیں۔ معلوم ہوا کہ لبید یہودی کے جادو کا اثر فقط اس حد تک ہوا کہ صحت گرامی متأثر ہوا جس طرح علامہ سیوطی (رح) اور علامہ آلوسی (رح) کے حوالے نقل کیے جا چکے ہیں۔
رہی یہ بات کہ جادو کی کوئی حقیقت ہے یا نہیں ؟ جادو سے کسی چیز کی حقیقب بدل جاتی ہے یا فقط نظر بندی کے طور پر چیز ہوتی کچھ ہے اور دکھائی کچھ دیتی ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس سے لوگوں کا متاثر ہونا ایک یقینی چیز ہے۔ ساحران فرعون کا تذکرہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمایا گیا ہے۔ نص قرآنی سے یہ چیز ثابت ہے کہ لوگ ان رسیوں کو سانپ خیال کرنے لگے۔ سانپوں کی طرف انہیں لہراتے ہوئے دیکھ کر وقتی طور پر موسیٰ (علیہ السلام) بھی خائف وہراساں ہوگئے قرآن کریم کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے۔
فاذا حبالھم وعصیھم یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعی۔ فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسیٰ قلنا لاتخف انک انت الاعلی۔
ترجمہ : پس ان کی رسیاں اور سونٹیاں آپ کو یوں معلوم ہوتا کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔ ان کے دل میں خوف پیدا ہوا۔ ہم نے کہا اے موسیٰ ! مت ڈرو۔ تم ہی سر بلند ہو۔
انہیں کے بارے میں سورۃ طہ میں ہے : سحروا اعین الناس : یعنی ان جادوگروں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا تھا۔
(13)تفسیر ماجدی ، عبدالماجد دریا آبادی(1395/1975
سحر کا رواج دنیا میں ہمیشہ بہت زائد رہا ہے، اب بھی متعدد قوموں میں ہے۔ شان نزول کی روایتوں میں ہے کہ بعض یہودی عورتوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کچھ منتر پڑھ کر سحر کردیا تھا، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں، اور حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے آیتوں کو پڑھ پڑھ کر اس سحر کو باطل کردیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سحر سے (جومادیات ہی کی ایک سفلی قسم ہے۔ ) متاثر ہوجانا بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے ذات الجنب سے، ملیریا سے، درد اعصاب سے متاثر ہوجانا، اور اس میں منافی نبوت ہونے کا کوئی ادنی پہلو بھی نہیں، مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اسباب طبعی سے اہل باطل کا اثر اہل حق پر بھی پڑسکتا ہے، اور ایسی تاثیرات حق و باطل کا معیار ہرگز نہیں بن سکتیں۔
تفسیر جوہرالقرآن، شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان (1392/1972
سورۃ الفلق
* ف 1:۔ ربط وخلاصہ : جب آپ مسئلہ توحید کو اس طرح واشگاف کریں گے اور کھلم کھلا بیان فرمائیں گے تو دشمن ایذاء کے دوسرے حربوں کے علاوہ آپ پر جادو کرنے کا حربہ بھی استعمال کریں گے اس لیے آپ ان دونوں سورتوں کی اکثر تلاوت کیا کریں آپ پر جادو کا اثر نہ رہے گا۔
* ف 4:۔ ” ومن شر النفثت “ گرہوں میں پھونکنے والیوں سے جادو کرنے والی عورتوں مراد ہیں۔ عام طور پر عورتیں ہی جادو کا کام کرتی ہیں اس لیے ان کا ذکر فرمایا۔ یا اس سے لبید بن اعصم یہودی کی بیٹیاں مراد ہیں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا۔ ”
(14) تفسیرمحمود ، مولانا مفتی محمود صاحب (1395/1970
شان نزول : حضرت عائشہ صدیق اور دیگر صحابہ سے منقول ہے کہ حضور کی خدمت میں ایک یہودی لڑکا وقتاً فوقتا آیا کرتا تھا۔ بعض یہود نے اور لبید بن اعصم نے جو کہ یہود کا حلیف تھا، اس کو بہلا پھسلا کر اس کے ذریعے حضور کی ریش مبارک یا سر مبارک کے بال حاصل کرلیے جو اکثر کنگھا کرتے وقت کنگھی میں رہ جاتے تھے۔ انہوں نے بالوں کے ذریعے آپ پر جادو کردیا۔ گیارہ گرہیں دے دیں اور سوئیاں بھی چبھو دیں اور اس کو کھجور کے کھوکھلے تنے میں رکھ کر اوپر سے ڈھانپ کر ذروان نامی کنویں میں رکھ کر اوپر ایک وزنی پتھر رکھ دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کا اتنا سا اثر ہوا کہ ایک تو آپ کے سر مبارک کے بال کچھ گرنے لگے اور کچھ نسیان کا غلبہ ہوا کہ ایک کام آپ نے کیا نہیں ہوتا تھا، لیکن خیال فرماتے تھے کہ میں کیا یاس کے برعکس۔ چھ مہینے یہ کیفیت طاری رہی۔ اس کے بعد آپ نے خواب میں دیکھا کہ دو آدمی (فرشتے) آئے۔ ایک آپ کے سر اور دوسرا پاؤں کی جانب بیٹھ گیا۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا ان کو (محمد) کیا ہوا ؟ دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو ہوا ہے۔ پوچھا کس نے کیا ہے ؟ کہنے لگا بنی زریق کے ایک شخص لبید بن اعصم نے۔ پوچھا کہاں ہے۔ دوسرے نے کہا کہ ذروان کنویں میں ہے۔ چناچہ حضور جب خواب سے بیدار ہوئے تو حضرت عائشہ (رض) سے فرمانے لگے میری بیماری کی اطلاع مجھ کو میرے رب نے کردی۔ پھر حضور نے حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت عمار بن یاسر کو بھیجا کہ وہاں سے بال اٹھا کرلے آئیں۔ اس صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں نازل فرما دیں۔ حضرت ایک آیت پڑھتے تھے تو ایک گرہ کھل جاتی تھی۔ ان دونوں سورتوں کی گیارہ آیتیں آپ نے پڑھیں۔ اس بال کی گیارہ گرہیں تھیں جو سب کی سب کھل گئیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کانما انشط من عقال، یعنی گویا میں رسیوں میں جکڑا ہوا تھا اور وہ اب کھل گئیں اور میرا جسم بالکل ہلکا ہوگیا۔ (تفسیر ابن کثیر) ۔
بعض صحابہ نے حضور سے اجازت مانگی کہ حضور ہم اس خبیث کا سر قلم کرنا چاہتے ہیں۔ سبحان اللہ حضور نے ارشاد فرمایا مجھ کو میرے رب نے شفا دے دی ہے اور اب میں اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام لینا پسند نہیں کرتا۔ حکومت مسلمانوں کی تھی اور یہودی ذمی تھے۔
(15) تفسیر حقانی، ابو محمد عبدالحق حقانی(1389/1969
اکثر اہل روایت کہتے ہیں کہ مدینہ میں لبید بن اعصم یہودی نے اپنی بیٹیوں سے حضرت پر جادو کرایا تھا اور انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال مبارک پر کچھ پڑھ کر اور ایک تاگے میں گرہیں لگا کر ایک کنوئیں میں جو خشک تھا جس کو ذردان کہتے تھے رکھوا دیا تھا۔ اس نفاثات فی العقد میں اس کی لڑکیوں کی طرف اشارہ بتاتے ہیں اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علیل ہوگئے تھے۔ دو روز یہ حالت رہی تھی پھر جبرئیل (علیہ السلام) نے مطلع کیا تو حضرت علیٰ و طلحہ (رض) گئے اور اس کنوئیں میں سے وہ تاگا اور بال نکال لائے جوں جوں اس کی گرہیں کھلتی جاتی
تھیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آرام ہوتا جاتا تھا۔
دوسری بات یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پر جادو کا ثبوت قرآنِ کریم نے فراہم کیا ہے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(قَالَ بَلْ اَلْقُوْا فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعِصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی)(طٰہٰ : ٦٦)
”ان (جادو گروں)کے جادو کی وجہ سے ان(موسیٰ علیہ السلام )کو گمان ہوا کہ وہ (رسیاں سانپ بن کر)دوڑ رہی ہیں ، پس موسیٰ علیہ السلام نے اپنے نفس میں ڈر محسوس کیا
اور فرعون کے جادوگروں کے اس جادو کے بارے میں قرآنِ کریم نے اعلان کیا ہے کہ :
نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا ثبوت حدیث نے انہی قرآنی الفاظ یُخَیَّّلُ اِلَیْہِ کے ساتھ دیا ہے ۔
آخر میں ہم علامہ عینی حنفی کی عبارت پیش کرتے ہیں ، جس سے تمام شکوک وشبہات دور ہو جاتے ہیں ، عینی حنفی لکھتے ہیں : انّ ذلک السّحر لم یضرّہ ، لأنّہ لم یتغیّر علیہ شیء من من الوحی ، ولا دخلت علیہ داخلۃ فی الشّریعۃ ، وانّما اعتراہ شیء من التّخیّل والوھم ، ثمّ لم یترکہ اللّٰہ علی ذلک ، بل تدارکہ بعصمتہ وأعلمہ موضع السّحر وأعلمہ استخراجہ وحلّہ عنہ کما دفع اللّٰہ عنہ السّمّ بکلام الذّراع الثّالث أنّ ھذا السّحر انّما تسلّط علی ظاہرہ ، لا علی قلبہ وعقلہ واعتقادہ والسّحر مرض من الأمراض وعارض من العلل ، یجوز علیہ کأنواع الأمراض ، فلا یقدح فی نبوّتہ ، ویجوز طروہ علیہ فی أمر الدّنیا ، وھو فیھا عرضۃ للآفات کسائر البشر ۔
”بلاشک وشبہ اس جادو نے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرر نہیں پہنچایا ، کیونکہ وحی میں سے کوئی چیز متغیّر نہیں ہوئی ، نہ ہی شریعت میں کوئی مداخلت ہوئی ، پس تخیل ووہم میں سے ایک چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لاحق ہوئی ، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی حالت پر نہیں چھوڑا ، بلکہ اس کو اس سے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا تدارک بھی کیا ، آپ کو جادو کی جگہ بھی بتائی ، اس کو نکالنے کا بھی پتا دیا اور آپ سے اس کو ختم کیا ، جس طرح کہ بکری کے شانے کے گوشت کے بولنے کے ساتھ اس کے زہر کو آپ سے دور کیا تھا ،تیسری بات یہ ہے کہ جادو آپ کے ظاہر پر ہوا تھا ، دل ودماغ اور اعتقاد پر نہیں ، جادو امراض میں سے ایک مرض ہے اور بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے ، دوسری بیماریوں کی طرح آپ کواس کا لاحق ہونا بھی ممکن ہے ، لہٰذا یہ بات آپ کی نبوت میں کوئی عیب پیدا نہیں کرتی ، دنیاوی معاملات میں آپ پر اس کا اثر ممکن ہے، دوسرے انسانوں کی طرح دنیاوی معاملات میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی آفات آسکتی ہیں ۔”(عمدۃ القاری از عینی : ١٦/٩٨)
نیز لکھتے ہیں : وقد اعترض بعض الملحدین علی حدیث عائشۃ وقالوا : کیف یجوز السّحر علی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم والسّحر کفر وعمل من أعمال الشّیاطین ، فکیف یصل ضررہ الی النّبیّ مع حیاطۃ اللّٰہ لہ وتسدیدہ ایّاہ بملاتکتہ وصون الوحی عن الشّیاطین وأجیب بأنّ ھذا اعتراض فاسد وعناد للقرآن ، لأنّ اللّٰہ تعالیٰ قال لرسولہ : قل أعوذ بربّ الفلق الی قولہ : فی العقد ، والنّفّاثات السّواحر فی العقد کما ینفث الرّاقی فی الرّقیۃ حین سحر ، ولیس فی جواز ذلک علیہ ما یدل علی أنّ ذلک یلزمہ أبدا ، أو یدخل علیہ داخلۃ فی شیء من ذاتہ أو شریعتہ ، وانّما کان لہ من ضرر السّحر ما ینال المریض من ضرر الحمّٰی والبرسام من ضعف الکلام وسوء التّخیّل ، ثمّ زال ذلک عنہ وأبطل اللّٰہ کید السّحر ، وقد قام الاجماع فی عصمتہ فی الرّسالتہ ۔۔۔ ”بعض ملحدین (بے دین لوگوں)نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیسے ہو سکتا ہے ، حالانکہ یہ تو کفر ہے اور شیطان کے اعمال میں سے ایک عمل ہے ؟ اللہ کے نبی کو اس کانقصان کیسے پہنچ سکتا تھا ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کی تھی ، فرشتوں کے ذریعے آپ کی رہنمائی کی تھی اور وحی کو شیطان سے محفوظ کیا تھا؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ اعتراض فاسد اور قرآن کے خلاف بغض پر مبنی ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہئ فلق سکھائی تھی ، اس میں النفّاثاتکامعنیٰ گرہوں میں جادو کرنے والی عورتیں ہے ،جس طرح کہ جادو کرنے والا شخص کرتا ہے ، اس جادو کو نبی پر ممکن کہنے میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے معلوم ہو کہ وہ آپ کے ساتھ ہمیشہ لازم رہا تھا یاآپ کی ذات یا شریعت میں کوئی خلل آیا تھا ،آپ کو جادو کے اثر سے اسی طرح کی تکلیف پہنچی تھی ، جس طرح کی تکلیف بیمار کو بخار یا برسام کی وجہ سے پہنچتی ہے ، یعنی کلام کا کمزور ہونا ، خیالات کا فاسد ہوناوغیرہ ، پھر یہ چیز آپ سے زائل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے جادوکی تکلیف کو ختم کر دیا ، اس بات پر اجماع ہو چکاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت (اس جادو کے اثر سے)محفوظ رہی ہے ۔”(عمدۃ القاری : ١٦/٩٨)
شیخ الاسلام ثانی علامہ ابن قیم الجوزیہ ؒ لکھتے ہیں:
وھذا الحدیث ثابت عند أھل العلم بالحدیث متلقی بالقبول بینھم، لایختلفون فی صحتہ، وقد اعتاض علی کثیر من أھل الکلام وغیرھم و أنکروا أشد الانکار و قابلو ہ بالتکذیب و صنف بعضھم مصنفا مفردا، حمل فیہ علیہ ھشام، وکان غایۃ ما أحسن القوم فیہ أنہ قال غلط و اشتبہ علیہ الأمر، ولم یکن من ھذا شیء ، قال: لأن النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یجوز أن یسحر، فانہ یکون تصدیقا لقول الکفار: (اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَسْحُوْ رًا) (الاسراء : ۱۰۱)،وقال قوم صالح لہ : (الشعراء: ۱۸۵) قالو ا : فالانبیاء لایجوز علیھم آن یسحروا، فان ذلک ینافی حمایۃ اللہ لھم وعصمتھم من الشیاطین ، وھذا الذی قالہ ھؤلاء مردود عند أھل العلم، فان ھشام من أوثق الناس او أعلمھم، ولم یقدح فیہ أحد من الأءمۃ بما یوجب رد حدیثہ، فما للمتکلمین، وما لھذا الشأن، وقد رواہ غیر ھشام عن عائشۃ، وقد اتفق أصحاب الصحیحین علی تصحیح ھذا الحدیث، ولم یتکلم فیہ أحد من أھل الحدیث بکلمۃ واحدۃ، و القصۃ مشھورۃ عند أھل التفسیر و السنن و الحدیث و التاریخ و الفقھاء، وھؤلاء أعلم بأحوال رسول اللہ وأیّامہ من المتکلمین۔
‘‘ حدیث کا علم رکھنے والے لوگوں کے نزدیک یہ حدیث صحیح ثابت ہے، و ہ اسے قبولیت سے لیتے ہیں اور اس کی صحت میں ان کا اختلاف نہیں ہے، اکثر اہل کلام اور دیگر کئی لوگوں نے اعتراض کیاہے اور انہوں نے اس کا سخت انکار کیا، اس کو جھوٹ قرار دیا اور ان میں سے بعض نے اس بارے میں مستقل کتاب لکھی، اس میں انہوں نے ہشام بن عروہ پر اعتراض کیا ہے، اس بارے میں سب سے بڑی بات جو کسی نے کہی ہے، وہ یہ ہے کہ ہشام بن عروہ نے غلطی کی ہے اور ان پر معاملہ مشتبہ ہو گیا تھا، ان کا کہنا ہے، اس لئے کہ نبی کریم ﷺ پر جادو ہونا ممکن نہیں ہے، کیونکہ ایسا کہنا کافروں کے قول کی تصدیق ہے، انہوں نے (مسلمانوں سے) کہا تھا: ترجمہ : تم تو ایک جادو زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو۔ (الاسراء:۴۷) یہی بات فرعون نے موسیٰ ؑ سے کہی تھی: ترجمہ: اے موسیٰ ، میں تجھے جادو زدہ سمجھتا ہوں(الاسراء: ۱۰۱) صالح کی قوم نے ان سے کہا: ترجمہ:یقیناً تو جادو زدہ لوگوں میں سے ہے(الشعراء ۱۵۳) اور شعیب ؑ کی قوم نے ان سے کہا: ترجمہ: بلا شبہ تو جادوزدہ لوگوں میں سے ہے(الشعراء ۱۸۵) نیز ان (منکرینِ حدیث) کا کہنا ہے کہ انبیاء پر جادو ا س لئے بھی ممکن نہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ان کی حمایت اور شیاطین سے ان کی حفاظت کے منافی ہے۔
یہ بات جو انہوں نے کہی ہے، اہل علم کے ہاں مردود ہے، کیونکہ ہشام بن عروہ (اپنے دور کے ) تمام لوگوں سے بڑھ کر عالم اور ثقہ تھے، کسی امام نے بھی ان کے بارے میں ایسی بات نہیں کہی، جس کی وجہ سے ان حدیث کو رد کرنا ضروری ہو، متکلمین کو اس فن(حدیث) سے کیا تعلق (یعنی ان کی ہشام پر جرح حیثیت نہیں رکھتی) ، نیز ہشام کے علاوہ دوسرے راویوں نے بھی یہ حدیث سیدہ عائشہ ؓ سے بیان کی ہے، امام بخاری و مسلم ؓ نے اس حدیث کی صحت پر اتفاق کیا ہے، محدثین میں سے کسی نے اس حدیث کے (ضعف کے ) بارے میں ایک کلمہ بھی نہیں کہا، یہ واقعہ مفسرین، محدثین ، مؤرخین اور فقہاء کے ہاں مشہور ہے، اور یہ لوگ متکلمین سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے حالات و واقعات سے آگاہ ہیں۔ ’’
(بدائع الفوائد لابن القیم:۲؍۲۲۳)
حافظ ابنِ حجر ؒ علامہ مازری سے نقل کرتے ہیں:
أنکر بعض المبتدعۃ ھذا الحدیث، وزعموا انہ یحط منصب النبوۃ ویشکک فیھا، قالوا: وکل ماأدی الی ذالک فھو باطل، وزعموا أن تجویز ھذا یعدم الثقۃ بما شرعوہ من الشرائع، اذ یحتمل علی ھذا أن یخیل الیہ أنہ یری جبریئل، ولیس ھو ثم وأنہ یوحی الیہ بشیء، ولم یوح الیہ شیء، وھذا کلہ مردود، لأن الدلیل قد قام علی صدق النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیما یبلغہ عن اللہ تعالیٰ و علی عصمتہ فی التبلیغ، و المعجزات شاھدات بتصدیقہ، فتجویز ما قام الدلیل علی خلافہ باطل، و أمَا ما یتعلق ببعض أمور الدنیا التی لم یبعث لأجلھا، ولا کانت الرسالۃ من أجلھا، فھو فی ذالک عرضۃ لما یعترض البشر کالأ مراض، فغیر بعید أن یخیل الیہ الیہ من أمر من أمور الدنیا مالا حقیقۃ لہ مع عصمتہ عن مثل ذالک من أمور الدین، وقد قال بعض الناس: ان المراد بالحدیث أنہ کان صلی اللہ علیہ وسلم یخیل الیہ أنہ وطیء زوجاتہ، ولم یکن وطأھن ، وھذا کثیر ما یقع تخلیہ للانسان فی المنام، فلا یبعد أن یخیل الیہ فی الیقظۃ۔
‘‘ ماذری کا کہنا ہے کہ بعض بدعتی لوگوں نے اس حدیث کا انکار کر دیا ہے اور یہ گمان کیا ہے کہ یہ حدیث مقامِ نبوت کو گراتی اور اس میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے، ان کے بقول ہر وہ چیز جو اس طرف لے جائے، وہ باطل ہے اور انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انبیاء پر جادو کو ممکن سمجھنا ان کی بیان کردہ شرعیتوں پر سے اعتماد کو ختم کر دیتا ہے، کیونکہ احتمال ہے کہ وہ جبریل کو دیکھنے کا گمان کریں ، حالانکہ وہاں جبریل نہ ہو، نیز اس کی طرف وحی کی جائے اور وہ یہ سمجھے کہ اس کی طرف کوئی وحی نہیں آئی۔
یہ سب شبہات مردود ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم ﷺ کے اپنی تبلیغ میں سچے ہونے اور غلطی سے معصوم ہونے کی دلیل آچکی ہے، پھر آپ کے معجزات اس بات کے گواہ ہیں، لہذا جس بات پر دلیل قائم ہو چکی ہے، اس کے خلاف امکانات پیش کرنا باطل ہے، رہے وہ معاملات جو دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان کے لئے مبعوث ہی نہیں فرمایا، نہ ہی رسالت کا ان سے تعلق ہے ، لہٰذا نبی کریم ﷺ بھی ان معاملات سے عام انسانوں کی طرح دوچار ہوتے ہیں، جیسا کہ بیماریاں ہیں، لہٰذا دنیاوی معاملات میں کسی بے حقیقت چیز کا آپ کو خیال آ جانا کوئی بعید بات نہیں ہے، جبکہ آپ ﷺ دینی معاملات میں اس سے بالکل محفوظ ہیں، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث کی مراد یہ ہے کہ آپ کو یہ خیال آتا تھا کہ میں نے اپنی بیویوں سے مباشرت کی ہے، حالانکہ ایسا ہوا نہ ہوتا تھا، یہ بات تو اکثر انسانوں کو خواب میں بھی لاحق ہوتی رہتی ہے، اس صورت حال کا آپ کو بیداری میں پیش آ جانا کوئی بعید نہیں۔۔۔’’
(فتح الباری لابن حجر: ۱۰؍۲۲۶۔۲۲۷)
نیز حافظ ابنِ حجر ؒ مہلب سے ذکر کرتے ہیں:
صون النبی صلی اللہ علیہ وسلم من الشیاطین لا یمنع ارادتھم کیدہ، فقد مضیٰ فی الصحیح أن شیطانا أراد أن یفسد علیہ صلاتہ، فأمکنہ اللہ منہ، فکذلک السحر، مانالہ من ضررہ مایدخل نقصا علی ما یتعلق بالتبلیغ، بل ہو من جنس ما کان ینالہ من ضرر سائر الأمراض من ضعف عن الکلام ، أو بحجز عن بعض الفعل، أو حدوث تخیل لا یستمر، بل یزول و یبطل اللہ کید الشیاطین۔
‘‘نبی کریم ﷺ کا شیطانوں سے محفوظ ہونا ان کے آپ ﷺ کے بارے میں بری تدبیر کے ارادے کی نفی نہیں کرتا، صحیح بخاری ہی میں یہ بات بھی گزری ہے کہ ایک شیطان نے آپ ﷺ کی نماز خراب کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس پر قدرت دے دی، اسی طرح جادو کا معاملہ ہے، آپ ﷺ نے اس سے کوئی ایسا نقصان نہیں اٹھایا جو تبلیغ دین کے متعلق ہو، بلکہ آپ نے اس سے ویسی ہی تکلیف اٹھائی ہے، جیسی باقی امراض سے آپ کو ہو جاتی تھی، مثلاً بول چال سے عاجز آنا، بعض کاموں سے رک جانا یا عارضی طور پر کوئی خیال آ جانا، اللہ تعالیٰ آپ ﷺ سے شیاطین کی تدبیر باطل وزائل کر دیتا تھا۔ ’’
(فتح الباری: ۱۰؍۲۲۷)
عینی حنفی لکھتے ہیں:
ان ذالک السحر لم یضرہ، لأنہ لم یتغیر علیہ شیء من من الوحی ، ولا دخلت علیہ داخلۃ فی الشریعۃ، و انما اعتراہ شیء من التخیل و الوھم، ثم لم یترکہ اللہ علی ذالک، بل تدارکہ بعصمتہ و أعلمہ موضع السحر و أعلمہ استخراجہ و حلہ عنہ کما دفع اللہ عنہ السم بکلام الذراع الثالث أن ھذا السح انما تسلط علی ظاھرہ، لا علی قلبہ عقلہ و اعتقادہ و السحر مرض من الأمراض و عارض من العلل، یجوز علیہ کؤنواع الّأمراض، فلا یقدح فی نبوتہ، ویجوز طروہ علیہ فی أمر الدنیا، وھو فیھا عرضۃ للآفات کسائر البشر۔
‘‘ بلا شک و شبہ اس جادو نے نبی اکرم ﷺ کو ضرر پہنچایا، کیونکہ وحی میں سے کوئی چیز متغیر نہیں ہوئی، نہ ہی شریعت میں کوئی مداخلت ہوئی، پس تخیل ووہم میں سے ایک چیز رسول اللہ ﷺ کو لاحق ہوئی ، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اسی حالت پر نہیں چھوڑا، بلکہ اس کو اس سے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا تدارک بھی کیا، آپ کو جادو کی جگہ بھی بتائی ، اس کو نکالنے کا بھی پتا دیا اور آپ سے اس کو ختم کیا، جس طرح کہ بکری کے شانے کے گوشت کے بولنے کے ساتھ اس کے زہر کو آپ سے دور کیا تھا، تیسری بات یہ ہے کہ جادو آپ کے ظاہر پر ہوا تھا، دل و دماغ اور اعتقاد پر نہیں، جادو امراض میں سے ایک مرض ہے اور بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے، دوسری بیماریوں کی طرح آپ کو اس کا لاحق ہونا بھی ممکن ہے ، لہٰذا یہ بات آپ کی نبوت میں کوئی عیب پیدا نہیں کرتی، دنیاوی معاملات میں آپ پر اس کا اثر ممکن ہے، دوسرے انسانوں کی طرح دنیاوی معاملات میں آپ ﷺ پر بھی آفات آ سکتی ہیں۔ ’’
(عمدۃ القاری ازعینی:۱۶؍۹۸)

No comments:
Post a Comment