Friday, 27 November 2020

الله کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں

 

الله کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں

                                              الله کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں      
قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَما يَشعُرونَ أَيّانَ يُبعَثونَ {27:65} تو کہہ خبر نہیں رکھتا جو کوئی ہے آسمان اور زمین میں چھپی ہوئی چیز کی مگر اللہ اور ان کو خبر نہیں کب جی اٹھیں گے
يَومَ يَجمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقولُ ماذا أُجِبتُم ۖ قالوا لا عِلمَ لَنا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلّٰمُ الغُيوبِ {5:109} جس دن اللہ جمع کرے گا سب پیغمبروں کو پھر کہے گا تم کو کیا جواب ملا تھا، وہ کہیں گے ہم کوعلم نہیں، تو ہی ہے چھپی باتوں کو جاننے والا

وَعِندَهُ مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ ۚ وَيَعلَمُ ما فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۚ وَما تَسقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلّا يَعلَمُها وَلا حَبَّةٍ فى ظُلُمٰتِ الأَرضِ وَلا رَطبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى كِتٰبٍ مُبينٍ {6:59} اور اُسی کے پاس کنجیاں ہیں غیب کی کہ انکو کوئی نہیں جانتا اسکے سوا، اور وہ جانتا ہے جو کچھ جنگل اور دریا میں ہے اور نہیں جھڑتا کوئی پتا مگر وہ جانتا ہے اسکو اور نہیں گرتا کوئی دانہ زمین کے اندھیروں میں اور نہ کوئی ہری چیز اور نہ کوئی سوکھی چیز مگر وہ سب کتاب مبین میں ہے


کیونکہ غیب (یعنی پوشیدہ بات/چیز) کسی واسطہ سے معلوم ہوجانے کے بعد غیب (پوشیدہ) نہیں رہتی.

علم غیب : وہ چیزیں جو ابھی وجود میں نہیں آئیں یا آچکی ہیں لیکن ابھی تک کسی مخلوق پر ان کا ظہور نہیں ہوا، بدرجہ کسی رسول یا نبی کو بذریعہ وحی یا کسی ولی کو بذریعہ کشف و الہام کی باتوں کا علم دیا گیا ہے تو وہ غیب کی حدود سے نکل گیا، اسی طرح جن چیزوں کا علم اسباب و آلات کے ذریعہ بھی ہو تو اس کو بھی غیب نہیں کہیں گے۔

مخلوق پر کوئی غیب کی بات کھلے تو کوئی عاقل اسے علم غیب نہیں کہتا، اسے اس کے سبب نسبت کرتے ہیں، ہرشخص یہی سمجھے گا کہ خدا کے بتلانے سے ایسا ہوا ہے، علم غیب اپنے علم کو کہتے ہیں جو بات عالم بالا سے لوح قلب پر اترے اسے علم غیب نہیں کہتے، وہ اس کا محض ایک عکس ہوتا ہے، حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
وجدان صریح بتلاتا ہے کہ بندہ کتنی روحانی ترقی کیوں نہ کرجائے بندہ ہی رہتا ہے اور رب اپنے بندوں کے کتنا قریب کیوں نہ ہوجائے وہ رب ہی رہے گا، بندہ واجب الوجود کی صفات یا وجوب کی صفات لازمہ سے کبھی متصف نہیں ہوتا، علم غیب وہ جانتا ہے جو از خود ہوکسی دوسرے کے بتلانے سے نہ ہو؛ ورنہ انبیاء واولیاء یقیناً ایسی بہت سی باتیں جانتے ہیں جو دوسرے عام لوگوں کی رسائی  میں نہ ہوں۔
(تفہیماتِ الہٰیہ:۱/۲۴۵)
پتہ چلا کہ غیب کی بات معلوم ہونے میں اگر کوئی اس کا بتلانے والا ہو تو اسے علم غیب نہیں کہتے نہ علم غیب کی کوئی عطائی قسم ہے؛ بلکہ اسے خبر غیب کہا جائے گا،اللہ تعالی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرکے ارشاد فرماتے ہیں:
"ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ  "۔               
(آل عمران:۴۴)
ترجمہ:یہ خبریں ہیں غیب کی ہم بھیجتے ہیں تیرے پاس۔
جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی صرف خبر غیب ہے علم غیب نہیں تو اور کون ہے جو علم غیب کا دعویٰ کرے،علم غیب صرف خدا کیلیےہے جو ہر بات کو خود جانے، اس تفصیل سے علم غیب کے معنی معلوم ہوگئے کہ وہ اپنے طور پر کسی غیب کی بات کو جانتا ہے؛ سو کسی مخلوق کے لیے خواہ پیغمبر ہو یا کوئی فرشتہ یا کوئی جن علم غیب کا دعویٰ بالکل غلط ہوگا، علم کا لفظ جب غیب کی طرف مضاف ہو تو یہ اسی علم کے لیے آتا ہے جو اپنا ہو کسی کا عطا کردہ نہ ہو، حضرت علامہ ابن عابدینؒ الشامی لکھتے ہیں:
بیشک انبیاء واولیا کا علم خدا تعالی کے بتلانے سے ہوتا ہے اورہمیں جو علم ہوتا ہے وہ انبیاء و اولیا کے بتلانے سے ہوتا ہے اور یہ علم اس علم خداوندی سے مختلف ہے جس کے ساتھ صرف ذات باری تعالی متصف ہے،خدا تعالی کا علم اس کی ان صفات قدیمہ ازلیہ دائمہ و ابدیہ میں سے ایک صفت ہے جو تغیر اور علامات حدوث سے منزہ ہے اورکسی کی شرکت اور نقصِ انقسام سے بھی پاک ہے وہ علم واحد ہے جس سے خدا تعالی تمام معلومات کلیہ و جزئیہ ماضیہ و مستقبلہ کو جانتا ہے، نہ وہ بدیہی ہے نہ نظری اورنہ حادث،بخلاف تمام مخلوق کے علم کے کہ وہ بدیہی و نظری اورحادث ہے، جب یہ بات ثابت ہوگئی تو خدا تعالی کا علم مذکور جس کے ساتھ وہ لائق ستائش ہے اور جس کی مذکورہ دو آیتوں میں خبر دی گئی ہے ایسا ہے کہ اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں،سو غیب صرف خدا تعالی ہی جانتا ہے، خدا تعالی کے علاوہ اگر بعض حضرات نے غیبی باتیں جانیں تو وہ خدا تعالی کے بتلانے اوراطلاع دینے سے جانیں۔
(مجموعہ رسالہ ابن عابدین شامیؒ،۲، ۳۱۳، ان اللہ سبحانہ تعالی منفرد بعلم الغیب المطلق وانما یطلع رسلہ علی بعض غیبہ المتعلقۃ بالرسالۃ اطلا عاجلیا واضحالاشک فیہ بالوحی الصریح:۳۱۴)
اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ علم غیب رکھتے ہیں؛ کیونکہ یہ ان کی کوئی ایسی صفت نہیں جس سے وہ مستقل طور پر کسی چیز کوجان لیا کریں اور یہ بات بھی ہے کہ انہوں نے اسے خود نہیں جانا؛ بلکہ انہیں یہ باتیں بتلائی گئی ہیں۔
علامہ شامی کے اس بیان کے بعد کسی اور وضاحت کی ضرورت نہیں رہ جاتی، فقہاء کی بات آپ کے سامنے آچکی، اب آئیے کتب عقائد میں دیکھئے: "شرح عقائد نسفی" کی مشہور شرح "النبر اس" میں ہے:
اورتحقیق یہ ہے کہ غیب وہ ہے جو ہمارے حواس اورعلم بدیہی اورنظری سے غائب ہو،بیشک قرآن نے اللہ تعالی کے علاوہ سب سے اس علم غیب کی نفی کی ہے، پس جو دعویٰ کرے کہ وہ علم غیب رکھتا ہے تو وہ کافر ہوجائیگا اور جوایسے شخص کی تصدیق کرے وہ بھی کافر ہوجائے گا باقی جو علم حواس خمسہ میں سے کسی حاسہ (دیکھ کر یا سن کر یا چھو کر یا سونگھ کر یا چکھ کر) یا ہدایت سے یا کسی دلیل سے حاصل ہو وہ غیب نہیں کہلاتا اور نہ محققین کے نزدیک ایسے علم کا دعویٰ کرنا کفر ہے اور نہ ایسے دعویٰ کی (یقینی امور میں یقین کے ساتھ اورظنی امور میں ظن کے ساتھ) تصدیق کرنا کفر ہے، اس تحقیق سے ان امور سے متعلق اشکال رفع ہوگیا جن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ علم غیب میں سے ہیں؛ حالانکہ وہ علم غیب میں سے نہیں، اس لیے کہ وہ سمع وبصر یا دلیل سے حاصل ہوئے ہیں،انہی امور میں سے اخبار انبیاء بھی ہیں، انبیاء علیہم السلام کی خبر یں وحی سے مستفاد ہوتی ہیں یا نبیوں میں علم ضروری پیدا کردیا جاتا ہے یا ان کے حواس پر حقائق کائنات کا انکشاف ہوتا ہے۔    
(النبراس علی شرح العقائد:۵۷۴)
معلوم ہوا کہ انبیاء کرام اور اولیاء عظام سے جو بھی خبریں منقول ہیں وہ سب اللہ کے بتلانے سے تھیں اور یہ بھی نہ تھا کہ اللہ تعالی اپنے کسی مقرب بندے پر ایک ہی دفعہ غیب کے جملہ دروازے کھول دے کہ آئندہ اسے غیب کی بات جاننے میں کسی ذریعہ علم کا احتیاج نہ رہے ؛بلکہ مختلف موقعوں پرحسب ضرورت اور بتقاضائے مصلحت انہیں کچھ نہ کچھ اطلاع بخشی جاتی تھی،خود حضور   ہی کودیکھئے تئیس ۲۳/ سال میں وحی قرآن "نجماً نجماً" اترتی رہی اوراس طرح وحی قرآنی کی تکمیل فرمائی گئی بالتدریج یہ سلسلہ وحی جاری رہا۔


اللہ کے علاوہ  علم غیب کی نفی کا ثبوت قرآن کریم سے
قرآن مجید میں ارشاد خداوندی میں ماسوی اللہ سے علم غیب کی نفی۔
۱۔       قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللہ ۔
(نمل:۶۵)
ترجمہ:   آپ کہدیجئے کہ جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں موجود ہیں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب کی باتیں نہیں جانتا۔
۲۔      وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۔
(انعام:۵۹)
ترجمہ:   غیب کی کنجیاں اللہ کے پاس ہیں، اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
۳۔      قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللہ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ  o 
(اعراف:۱۸۸)
ترجمہ:   آپ کہدیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے بھی نفع و ضرر کا اختیار نہیں رکھتا، مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا تو میں سب سے منافع حاصل کرلیتا اور کوئی مضرت مجھے نہ چھوتی، میں تو محض اہل ایمان کو ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔
۴۔      إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌo
(لقمان:۳۴)
ترجمہ:   بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ ماں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس جگہ مرے گا، اللہ سب باتوں کا جاننے والا سب خبر رکھنے والا ہےؤ
۵۔      يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا o
(طٰہٰ:۱۱۰)
ترجمہ:   اللہ تعالیٰ ان سب کے اگلے پچھلے احوال کو جانتا ہے اور اس کو ان کا علم احاطہ نہیں کرسکتا۔
ماسوا اللہ سے علم غیب کی نفی کا ثبوت احادیث سے
احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ علم غیب یہ اللہ کا خاصہ ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
ذخیرہ احادیث میں سے چند احادیث یہ ہیں:
۱۔       حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا ایک راستہ سے گذرے تو آپﷺ کو ایک کھجور پڑی ہوئی ملی، تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
لولا انی اخاف ان تکون من الصدقہ لاکلتھا۔
(بخاری و مسلم و کذا مشکوٰۃ:۱۶۱)
ترجمہ:   اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کی کھجور ہوگی تو میں اُسےکھالیتا۔
۲۔      ایک موقع پر رسول اللہ ﷺربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کی شادی میں حاضر ہوئے تو وہاں پر انصار کی بچیاں اپنے آباء و اجداد کے مناقب بیان کررہی تھیں جو بدر میں شہید ہوگئے، ان بچیوں میں سے ایک نے یہ کہا: وفینا نبی یعلم ما فی غد۔ کہ ہم میں ایک نبی موجود ہیں جو کل کی باتیں جانتے ہیں، تو آپﷺ نے فرمایا:
دعی ھذہ و قولی بالذی کنت تقولین۔
(مشکوٰۃ:۲۷۱)
ترجمہ:   اس بات کو چھوڑدو وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں۔
۳۔      حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اریتُ ھذہ اللیلۃ ثم انسیتُھا فاتمسوھا فی العشر الاواخر و التمسوھا فی کل وتر۔
(بخاری و مسلم و کذا مشکوٰۃ:۱۸۲)
ترجمہ:   مجھے یہ رات بتلائی گئی تھی، پھر میں بھول گیا ، پس تم آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
علماءِ عقائد کا متفقہ فیصلہ
ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ (شارح مشکوٰۃ) فرماتے ہیں:
۱۔       اعلم ان الانبیاء علیھم السلام لم یعلموا المغیبات من الاشھار الانبیاء علیھم الللہ تعالیٰ احیاناً و ذکر الحنفیۃ تصریحاً بالتکفیر باعتقاد ان النبی ﷺ الغیب لمعارضتہ قولہ تعالیٰ: قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا لِلَّهُ ۔  
 (شرح فقہ اکبر)
ترجمہ:   جان لو کہ بالیقین حضرات انبیاء علیہم السلام غیب کی چیزوں کا علم نہیں رکھتے سوائے اس کے جو علم اللہ تعالیٰ انہیں دیدیں اور احناف نے صراحت کے ساتھ اس کی تکفیر کی ہے کہ جو یہ کہے کہ نبی کریم ﷺ غیب جانتے ہیں کیونکہ یہ اعتقاد اللہ تعالیٰ کے قول: قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ.....کے مقابل میں ہے۔
۲۔      لو تزوج بشھادۃ اللہ و رسولہ لا ینعقد النکاح و کفر  لاعتقاد انہﷺ یعلم الغیب۔
(بحر الرائق:۱/۶)
ترجمہ:   اگر کوئی شخص شادی کرے اور اس میں اللہ اور اس کے رسول کو گواہ بنائے تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوتا، اس کا یہ اعتقاد کفریہ ہے کہ نبی کریم ﷺ غیب جاننے والے ہیں۔
شرح عقائد نسفی میں ہے:
۳۔      وبالجملۃ العلم بالغیب ھو تفرِّد بہ اللہ تعالیٰ لا سبیل الیہ للعباد الا باعلام منہ او الھام۔
(شرح عقائد نسفی:۱۲۳)
ترجمہ:   خلاصہ یہ ہے کہ علم غیب یہ ایسی چیز ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، بندوں کی رسائی وہاں نہیں ہے، صرف اس طور پر کہ اللہ تعالیٰ وحی یا الہام سے بتادیں۔
فتاویٰ قاضی خان (متوفی۵۹۲ھ) میں ہے:
۴۔      و بعضھم جعلوا ذالک کفراً لانہ یعتقد ان رسول اللہ ﷺیعلم الغیب وھو کفر۔
(فتاویٰ قاضی خان، کتاب النکاح)
ترجمہ:   اور بعض نے اس کو کفر قرار دیا ہے، کیونکہ یہ اعتقاد رکھنا کہ نبی کریم ﷺ غیب جانتے ہیں اور یہ بات کفر کی ہے۔
ان کے علاوہ مزید محدثین فقہاءکی عبارتیں طوالت کے خوف سے حذف کردی ہیں، صرف حوالوں پر اکتفاء کیا جارہا ہے:فتاویٰ عالمگیری:۲/۴۱۲۔ خلاصۃ الفتاویٰ:۴/۳۵۴۔ فصول عمادیہ:۶۴۔ فتاویٰ بزازیہ:۳۲۵۔ عمدۃ القاری شرح بخاری:۱/۵۲۰۔ ایے شامی:۳۰۶۔ مالابدّ منہ:۱۷۶۔ وغیرہ


 اگرآیت وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ سے مراد علم غیب ہے تو آپ ان آیات کے بارے میں کیا کہیں گے:
وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ [البقرۃ: 151]
وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ [الأنعام: 91]
پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان چیزوں کی خبر دی جن کا تمھیں علم نہیں تھا۔
دوسری آیت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل یہود و نصاریٰ کو ان امور کی تعلیم دی جو انھیں معلوم نہیں تھیں۔
تو اب مجھے بتائیے کہ کیا پوری امت محمدیہ اور بنو اسرائیل کے جملہ افراد عالم الغیب ہیں؟؟

جس طرح یہ آیات امت محمدیہ اور بنو اسرائیل کے غیب جاننے پر دلالت نہیں کرتیں بالکل اسی طرح نبی کریمﷺ کے غیب جاننے پر مذکور آیت کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ اس آیت میں آپﷺ کو اللہ کی طرف سے علم غیب دئیے جانے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ لیکن آپﷺ کو تعلیم کردہ جس علم کا ذکر اس آیت میں ہے، اس میں اس بعض علم غیب کو شامل کرنے سے کوئی مانع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے تعلیم کے ذریعے آپﷺ کو حاصل ہوا۔

آپ جس رسول سے علم غیب منسوب کر رہے ہیں ان کے اپنے الفاظ تو ملاحظہ کیجئے۔ معجم الاوسط میں ہے:
أن النبي صلى الله عليه و سلم مر بنساء من الأنصار في عرس لهن يغنين ... وأهدى لها كبشا ... ... تنحنح في المربد ... ... وزوجك في النادي ... ... ويعلم ما في غد ... ... فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم لا يعلم ما في غد إلا الله[المعجم الاوسط : 3401]


یعنی نبی کریمﷺ انصاری خواتین کی ایک شادی میں گئے، جہاں یہ خواتین گانے گا رہی تھیں،گانے کے دوران ایک مصرع میں یہ مضمون بھی تھا کہ نبی کریمﷺ واقف ہیں کہ کل کیا ہوگا یعنی غیب کی باتیں جانتے ہیں۔ یہ سن کر نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ غیب کا علم اللہ کے علاہ کوئی نہیں جانتا۔

وجدان صریح بتلاتا ہے کہ بندہ کتنی روحانی ترقی کیوں نہ کرجائے بندہ ہی رہتا ہے اور رب اپنے بندوں کے کتنا قریب کیوں نہ ہوجائے وہ رب ہی رہے گا، بندہ واجب الوجود کی صفات یا وجوب کی صفات لازمہ سے کبھی متصف نہیں ہوتا، علم غیب وہ جانتا ہے جو از خود ہوکسی دوسرے کے بتلانے سے نہ ہو؛ ورنہ انبیاء واولیاء یقیناً ایسی بہت سی باتیں جانتے ہیں جو دوسرے عام لوگوں کی رسائی  میں نہ ہوں۔
(تفہیماتِ الہٰیہ:۱/۲۴۵)

No comments:

Post a Comment