Sunday, 19 September 2021

استمداد از غیر اللہ پر دیوبندی کتب سے دلائل کا مختصر اصولی جواب*

 *استمداد از غیر اللہ پر دیوبندی کتب سے دلائل کا مختصر اصولی جواب* 👇


بدعتی حضرات جب اپنے شرکیہ عقائد و نظریات کو قرآن و سنت ثابت نہیں کر پاتے تو علماء اہل سنت دیوبند کی کتابیں کھولتیں ہیں اور کہیں استعانت تصرف لفظ نداء یا کشف و کرامات معجزات والے واقعات

نظر آجائے یا مختار اختیار کا لفظ نظر آجائے فورا رقص شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھو ہم نے اپنا نظریہ اپنے عقائد کو تمہارے گھر سے ثابت کردیا 😋


ناظرین !!

اس تعلق سے ہم چند جوابی اصول بریلوی کتب سے نقل کرتے ہیں 

*سب سے پہلے اشعار کے متعلق اصول*👇


استمداد لغیر اللہ پر عموماً بدعتی اشعار پیش کرتے ہیں حاجی صاحب علامہ نانوتوی کے یا حکیم الامت حضرت تھانوی علیھم الرحمہ سے اور رقص شروع کہ دیکھو ہم نے اپنا عقیدہ تمہارے گھر سے ثابت کردیا 

تم شرک شرک کررہے تھے اب ان پر بھی شرک کے فتویٰ لگاؤ ❓😛😁


بدعتیوں کا اصول👇

حالانکہ خود بریلویوں کو مسلم ہے کہ  اشعار سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا بلکہ اسمیں مبھم و مجمل باتیں ہوتی ہے غلبہ شوق ذوق ہوتا ہے مبالغہ سے کام لیا جاتا 

حوالہ نمبر ایک 

بریلویوں کی معتبر کتاب 


📗رسائل میلاد حبیب  ہے ۔صفحہ نمبر 174ہے 

*اسمیں لکھتے ہیں کہ شاعرانہ مزاق الگ ہوتا ہے اسمیں حدود شرعیہ نگاہ میں نہیں رکھی جاتی کیونکہ یہ پہلے ہی فیصلہ ہوچکاہے کہ ان میں مبالغہ ہوتا ہے اور انمیں کسی کے عقائد کا سراغ نہیں لگ سکتا* 


حوالہ 2👇

بریلویوں کی ایک اور  کتاب 

📗عرفان رضا ۔صفحہ نمبر 19میں خود بریلوی علماء پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے 

*ہمارے علماء شعر کو بھی فقہ کے پیمانے پر ناپتے ہیں جبکہ شاعری میں بہت ساری رعایتیں اور سہولتیں ہوتی ہیں*


 

ایک اور حوالہ 3👇


بریلویوں کی مشہور احمد رضا بریلوی کی مصدقہ کتاب📗

 انوار ساطعہ ۔صفحہ 319

اسمیں لکھا ہے کہ

*پھر اسی طرح سمجھ لو کہ جو اشعار  شوقیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جناب میں بطور خطاب حاضر کیے ہیں  وہ اس لیے ہے کہ چونکہ آپکا تصور دل میں بندھا ہوا ہے غلبہ اشتیاق میں حاضرانہ خطاب  حضور فی الذہن کے باعث کرتے ہیں* ۔۔


حوالہ نمبر 4👇 


بریلوی کتاب 📗 اعانت واستعانت کی شرعی حیثیت ۔صفحہ 46پر لکھتے ہیں👇

*صوفیاء کی شعر و شاعری کو اگر شرعی درجہ دیا جائے تو  پھر صوفیہ کو چاہیے تھا کہ وہ مخالفین کے سوالات و اشکالات کے جواب میں اپنے اشعار پیش کرتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا  شعرو شاعری کا ذوق الگ چیز ہے* 


حوالہ نمبر 5👇


بریلویوں کے جید مفتی اشعار کے متعلق ایک اہم اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں 👇


*چونکہ یہ شعر کسی بیباک زبان دراز کا کلام نہیں جس کی عادت ہو جو جی میں آئے بک دے بلکہ ایک واقف شریعت کی طرف منسوب ہے لہذا تاحد امکان کلام کی تاویل کی جائیگی اور کلام کو ظاہر پر حمل نہیں کیا جا ئے گا*

📗فتاویٰ امجدیہ  ۔صفحہ 279


اس سے واضح ہوگیا غلط بولنے کی جسکی عادت نہ ہو واقف شریعت ہو اسکے کلام میں تاویل کی جائیگی ظاہر پر حمل نہیں کیا جائے گا لہذا اکابرین علماء اہل سنت چونکہ  واقف شریعت تھے لہذا انکے اشعار کی تاویل ہوگی ظاہر پر حمل نہیں ہوگا👆


ان تمام حوالہ جات سے یہ ثابت ہواکہ شعر و شاعری سے نہ تو عقیدہ ثابت ہوگا نہ ہی  عقائد میں یہ حجت بن سکتے ہیں ۔

نوٹ ۔ہماری کتب میں جس جگہ اشعار میں غیراللہ کے لیے حاجت روا مشکل کشا جیسے الفاظ آئے ہیں وہ لغوی وار مجازی طور پر ہے 

اشعار کا معاملہ ختم 👆👀🤔


اب آتے ہیں عبارات پر 


بدعتی حضرات اپنے شرکیہ عقائد کے اثبات کے لیے ہماری کتب سے وہ عبارات پیش کرتے ہیں جسمیں کشف و کرامات معجزات کا ذکر ہوتا ہے 


 اور کرامات کے بارے  علماۓ حق کا عقیدہ اظہر من الشمس ہے کہ کرامت یہ اللہ کا فعل ہوتا ہے جس کا ظہور ولی کے ہاتھ پہ ہوتا ہے

*موت کے بعد کسی کا کہیں تشریف لانا یا کوئی ولی موت کے بعد کسی کو نظر آ جاۓ تو یہ کسی قسم کا تصرف یامدد کرنا بھی کرامت ہے*👀👇

 اس کی وضاحت بھی سمجھ لیجیے

موت کے بعد کسی ولی کا کسی کو نظر آنا اور کسی قسم کا تصرف کرنا یا مدد کرنا جسم مثالی کے ساتھ ہوتا ہے

حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں کہ بعض اوقات اللہ کسی مقرب فوتشدہ کی روح کا تعلق قبر میں موجود جسم کے ساتھ ساتھ جسم مثالی سے بھی قائم کر دیتا ہے۔اور اس جسم مثالی سے کام لیتا ہے جسے تصرف کہتے ہیں۔اور اکثر اوقات اصل جسم کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ میری روح کا تعلق جسم مثالی سے جوڑا گیا ہے

      روح کا جسم مثالی سے تعلق اور اس کا تصرف خالص اللہ کا فعل ہوتا ہے جس کا ولی کے اپنے اختیار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔اور یہ معاملہ کرامات کی ذیل میں آتا ہے۔

شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی فیوض حرمین پڑھیں۔کتنی ہی بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جسم مثالی کے ساتھ دیکھا اور ان سے شرعی سوال کئے

یہ جسم مثالی دکھنے میں باکل جسد عنصری جیسا ہوتا ہے اسلئے دیکھنے والوں کو لگتا ہے کہ سامنے حقیقی وجود کے ساتھ اللہ کا ولی کھڑا ہے

یہ میں نے مختصرا وضاحت کردی ہے ۔

*اولیاء سے استعانت ظاہری اور واسطہ رحمت الٰہی وغیرہ کے الفاظ سے  بریلوی استدلال کا جواب*


 بریلوی حضرات ایک دھوکہ یہ دیتے ہیں کہ ہماری کتاب میں جہاں  استعانت کا لفظ دیکھتے بس رقص شروع کر دیتے ہیں اور اسکو بھی اپنی شرکیہ عقائد غیراللہ سے بلا واسطہ (ڈائریکٹ)مافوق الاسباب  مدد کے اثبات پر پیش کرتے ہیں 

جیساکہ علامہ شبیر احمد عثمانی کی تفسیر سے پہلے ہم وہ عبارت نقل کرتے ہیں پھر مختصرا جواب عرض کیے دیتے ہیں 

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اس ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت الٰہی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو  یہ جائز ہے اور یہ استعانت درحقیقت حق تعالٰی ہی سے استعانت ہے ۔

📗تفسیر عثمانی آیت ایاک نعبد و ایا نستعین ۔

الجواب 👇

پہلی بات غور کریں تو یہاں بھی غیراللہ سے مدد مانگنے کو صراحتا ناجائز کہا گیاہے 

دوسری بات یہاں وسیلہ کا ذکر ہے جیساکہ عبارت کے اندر خود استعانت ظاہری اور لفظ واسطہ موجود ہے اور ظاہر ہے کہ وسیلہ میں انسان بزرگوں کے واسطہ سے ہی اللہ سے دعاء کرتا ہے کہ  اپنے نیک بندے کے وسیلہ  سے ہماری فلاں دعا قبول کرلے استعانت ظاہری سے یہی مراد ہے

 اور وسیلہ ہم اہل سنت کے نزدیک بالکل درست ہے تفصیل کے لیے📗 المہند علی المفند دیکھیں۔

*ہماری کتب سے تصرف اور اختیارات وغیرہ کے الفاظ سے اثبات امداد مافوق الاسباب  کا جواب*


کائنات میں تصرف کا اختیار ہے وغیرہ ۔

اس سے مراد یہ ہے کہ اولیاء محبوب اللہ  ہوتے ہیں ان کا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور عام لوگوں کے مقابلے میں اللہ کی ذات پر یقین بھی خوب کامل ہوتا ہے کہ ہم اپنے رب سے جو بھی دعاء مانگیں گے وہ قبول فرمائے گا۔ 

جیساکہ قرآن کریم میں 28,ویں پارہ میں حضرت خولہ کا واقعہ اس بات پردال ہے اور 

حدیث قدسی  میں ہے اللہ اپنے محبوب بندوں کے متعلق فرماتا ہے 

*۔۔۔۔میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں* 

فتح الباری حدیث نمبر (6502) اس حدیث کو امام بخاری اور امام احمد بن حنبل اور بیہقی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے۔۔


لہذا ان حضرات کو جب بھی کوئی حاجت ہوتی اللہ سے دعاء کرتے ہیں اللہ انکی حاجتیں پورا کردیتا ہے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا جس بنا پر مجازا تصرف یا اختیار وغیرہ  کی نسبت یہ اپنی طرف کرتے ہیں یا انکی طرف کی جاتی ہیں۔

اور حقیقت تو یہ ہے کہ 👇

من کان للہ کان اللہ لہ۔ جو اللہ کا ہوجاتا ہے اللہ اسکا ہوجاتا ہے ۔


*قبر سے دستگیری*   👀👇


*بریلویوں کا امدادالمشتاق کی ایک عبارت سے مافوق الاسباب امداد  کے اثبات کا جواب*


ا رضاخانی ایک عبارت پیش کرتے ہیں جو کچھ یوں ہے :

حضرت کا ایک جولاہا مرید تھا بعد انتقال حضرت مزار شریف پر عرض کیا کہ حضرت میں بہت پریشان اور روٹیوں کومحتاج ہوں کچھ دستگیری فرمائے حکم ہوا کہ تم کو ہمارے مزار سے دو آنےیا آدھ آنہ روز ملا کرے گا ‘‘۔

(امداد المشتاق ،ص۱۲۳)


الجواب👇

 امداد المشتاق کا مذکورہ بالا واقعہ بھی توسل و دعاء اور کرامت پر محمول ہے 

کیو نکہ اس مرید  کو اس وقت کشف قبور ہوگیا ہو اور ہم چونکہ قبر میں حیات بھی مانتے ہیں اور سماع کے بھی قائل ہیں تو اس مرید نے بطور توسل اور دعا اپنے پیر سے کہہ دیا ہو  ۔پیر صاحب نے اللہ کی بارگاہ میں دعا مانگی ہوگی اور اللہ نے کرامۃ اس مزار سے اس کرامت کا ظہور کردیا

جس پر  خود یہ واقعہ دلالت کرتا ہے 

*غور سے پڑھیں اسی واقعہ میں مرید کا مزار شریف پر جاکر اپنے  پیر سے  عرض کرنا لکھا* 

اگر مافوق الاسباب مدد لینا ہوتا تو مزار پر حاضری کی ضرورت کیا تھی 

 لہذا اس واقعہ میں بھی ظاہری استعانت مراد ہے یعنی  توسل دعاء کے ذریعہ نہ کہ مافوق الاسباب۔


*قبر کی مٹی سے شفاء پر بریلوی اعتراض کا جواب*👇


مٹی سے  شفاء یہ بطور کرامت ہے اور 

قبر کی مٹی  سے برکت حاصل کی گئی نہ کہ اسے مشکل کشاء یا مافوق الاسباب مدد پر قادر مان کر  مدد طلب کی گئی

تفصیل کے لیے احباب اس مسئلہ پر امام اہل السنہ کی کتاب اتمام البرھان کا ضرور مطالعہ کریں 


✍️از قلم ریان ندوی حنفی چشتی 🌹

No comments:

Post a Comment