اعتراض بریلوی بدعتی داؤدی کے چہلے کا
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو ۶۰۰ روپے انگریز سے ملتے تھے ملاحظۃ مکالمۃ الصدرین اس امر کی تردید خود حضرت تھانوی صاحب بھی نہ کرسکے ملاحظہ ہوالاضافات الیومیہ ص ۶۹ ج۶۔
#hilal_raza_exposing
#جواب:یہ حوالہ بھی فریق مخالف کیلئے سود مند نہیں اس لئے کہ
(اولا) مکالمۃ الصدرین کی حقیقت واضح کی جاچکی ہے ایسی غیر مستند کتاب پر کسی دعوے کی بنیاد رکھنا ہی جہالت ہے۔
(ثانیا): اگر بالفرض اس مکالمہ کو مصدقہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی بریلوی حضرات کا یہ دعوی کے مکالمہ الصدرین میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مولانا تھانوی ؒ انگریز سے چھ سو روپے ماہوار لیا کرتے تھے سراسر دجل اور صریح افتراء ہے کیونکہ مکالمہ میں حضرت علامہ عثمانی ؒ کی اصل عبارت اس طرح منقول ہے فرماتے ہیں کہ:
عام دستور ہے کہ جب کوئی شخص کسی سیاسی جماعت یا تحریک کا مخالف ہو تو اس قسم کی باتیں اس کے حق میں مشتہر کی جاتی ہیں۔دیکھئے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ہمارے اور آپ کے مسلم بزرگ پیشوا تھے۔ان کے متعلق بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ان کو چھ سو روپے ماہوار حکومت کی جانب سے دئے جاتے تھے۔(مکالمۃ الصدرین ص ۹)
اس عبارت میں حضرت عثمانی ؒ صاف لفظوں میں اس الزام کو مخالفین کا سیاسی پروپگینڈا قرار دے رہے ہیں لیکن بریلوی حضرات کا دجل ملاحظہ فرمائیں کہ وہ پوری عبارت نقل کرنے کے بجائے صفحہ کو ایک مخصوص جگہ سے کاٹ کر پیش کرتے ہیں۔فالی اللہ المشتکی۔
(ثالثا): اگر مکالمہ کے حوالے بالفرض سے اس الزام کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی اس کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔کیونکہ خود حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے اس الزام کی تردید موجود ہے ۔چنانچہ جب حکیم الامت ؒ کو جب اس الزام کا علم ہوا تو بڑا حکیمانہ جواب دیافرمایا:
اگر چھ سو روپے گورنمنٹ سے پاتا ہوں تو طمع ہے خوف نہیں اور اگر طمع کا یہ عالم ہے تو تم نو سو روپے دے کر اپنے موافق کرلو۔اگر قبول کرلوں تو صحیح وگرنہ غلط۔(الاضافات الیومیہ ص ۶۹۸ ج ۴،بحوالہ مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک آزادی ص۵۴)۔
جبکہ اس کے مقابلے میں فریق مخالف کے اعلحضرت کی حکومت انگریز کیلئے وفاداری کا اقرار خود انگریزوں نے کیا ہے ملاحظ ہو:
The mashrik of gorakhpor and albashir usually took note the pro-government fatwas of Ahmed raza Khan.(Separatism among india Muslims,page 268(.
انگریز مورخ سر فرانسس رابنسن کی کتاب علماء فرنگی محل اینڈ اسلامی کلچر میں مندرجہ ذیل الفاظ میں احمد رضاخان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے:
The actions of One learned man ,the very influentional Ahmed Rada Khan (1855,1921) of barielly,present our conlusion yet more Clearly....at the same time he Support the colonial Government loudly and vigorousily through world warI,and through the khilafat Movement when he opposed mahatma Gnadhi allaince with tha nationalist movement and and non-Cooperation with the british.(ulam farange Mehal and Islamic culture page )
Khan ahmed rada of bareilly 37,37 & 47,58,67 and Support for the British 196(Index ,ulma farangi mehal and Islamic Culture page 263(
جبکہ اس کے برخلاف خود انگریز مورخین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ہمارے راستے میں سب سے سخت رکاوٹ دارالعلوم دیوبند تھا ملاحظہ ہو:
The most Vital School of Ulma in india is the second Half of the initeenth Century was that centerd upon Deoband,the Darul Uloom.(The Muslims or british India,byP.Hardy page 170(
اعلی حضرت اعلی سیرت کے صفحہ ۳۳ اور اسی طرح حیات اعلی حضرت میں یہ بات موجود ہے کہ مولوی احمد رضاخان کے دادا نے گورنمنٹ کی پولیٹیکل خدمات انجام دی جس کے عوض ان کو آٹھ گاؤں جاگیر میں ملے اور ان کے ساتھ آٹھ سو فوجیوں کی بٹالین ہواکرتی تھی۔
شاہ عبد العزیز ؒ کے فتوے کے خلاف کے ہندوستان دارالحرب ہے اعلی حضرت نے ہندوستان کے دارلسلام ہونے کا فتوی دیا اس لئے کہ دارالسلام میں ج_هاد جائز نہیں۔اس کے علاوہ اس مکتبہ فکر نے آزادی کے ہر متوالے پر کفر کے فتوے لگا کر عوام کوان سے بد ظن کرنے کی کوشش کی۔۱۹۱۴ میں الدلائل القاہرہ علی الکفرۃ النیاشرہ کے نام سے فتوی شائع ہوا جس میں خان صاحب کے علاوہ کئی بریلوی علمائے کے تصدیقات موجود تھے جس میں قائد اعظم کو کاف ر کہا گیا اور مسلم لیگ سے ہر قسم کے تعاون کو حرام قرار دیا گیا۔ان کے مولوی حشمت علی نے مسلم لیگ کی زریں بخیہ دری کے نام سے کتاب لکھی جس میں قائد اعظم کو کافر قرار دیا گیا۔مولوی مصطفی رضاخان نے اس زمانے میں مسلمانوں کے دلوں سے کعبہ و مدینہ کی محبت نکالنے کیلئے حج کے ساقط ہونے کا فتوی دیا اور آج بھی بریلوی برملا امام کعبہ اور مدینہ کو کافر لکھتے اور کہتے ہیں ٭مصطفی رضاخان نے ایک کتاب لکھی اس زمانہ میں جو اب نایاب ہے رسالۃ الامارہ والجہاد جس میں انگریز سے جہاد کو حرام قرار دیا گیا تھا۔ یہ چند مثالیں میں نے دے دی ہے ورنہ ان کی غداریوں سے تاریخ کے صفحات آج بھی بھرے پڑے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے تاریخ آزادی میں کہیں بھی اس گروہ کا نام و نشان نہیں جس کا اعتراف خود مولوی احمد رضاخان کے سوانح نگار کرتے ہیں کہ اور اس کا الزام مورخین پر ڈالتے ہیں کہ انھوں نے محض تعصب کی وجہ سے ہمارے اعلحضرت کا ذکر کہیں نہیں کیا اور وہابی (یعنی دیوبند) کی خدمات سے ساری تاریخ کو بھر دیا۔
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات کے حوالے سے بھی آپ نے اپنی ’’مخصوص رضاخانیت‘‘ کامظاہرہ کیا ہے پوری عبارت اس طرح ہے :
ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ تحریکات کے زمانہ میں میرے متعلق یہ مشہور کیا گیا تھا کہ چھ سو روپیہ ماہانہ گورنمنٹ سے پاتا ہے ایک شخص نے ایک ایسے ہی مدعی سے کہا کہ اس سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ یہ خوف سے متاثر نہیں لیکن طمع سے متاثر ہے بلکہ خوف سے تو گورنمنٹ ہی متاثر ہوئی چنانچہ تمھیں اور ہمیں سو روپیہ نہیں دیتی تو اب اس کا امتحان یہ ہے کہ تم نو سو روپے دیکر اپنی موافق فتوی لے لو اگر وہ قبول کرلے تو وہ بات صحیح ہے ورنہ وہ بھی جھوٹ ۔(الاضافات الیومیہ،ج۶،ص۱۰۳،ملفوظ نمبر،۸۸)
غور فرمائیں کس حکیمانہ اور بلیغ انداز میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس الزام کی تردید کررہے ہیں مگر خلیل رانا صاحب کہتے ہیں کہ نہیں وہ تو تردید نہیں بلکہ تصدیق کررہے ہیں۔۔تف ہے ایسی تحقیق پر اور ایسی دیانت پر...ہم بار بار خلیل رانا صاحب کو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ حوالہ دیتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان حوالہ جات کو کل کو کوئی چیک بھی کرسکتا ہے ۔۔
اعتراض: تھا کون جو انگریز کو کہتا رحمت؟ کس نے کیا گوروں کے وظیفے پر گزارا
جواب: ارے وہی جس کی وفاداری کے گن گاتے انگریز بھی بھائی وہی جن کو سیر کرائی جاتی ہے پینٹاگون کی آج بھی
(روزنامہ وقت لاہور ۱۰ مئی ۲۰۱۰ ء کی خبر کے مطابق بریلوی علماء و مشائخ کو انتہا ء پسندی کے خلاف پینٹاگون میں تربیت دی جائے گی۔)
No comments:
Post a Comment