Thursday, 27 September 2018

وسیلہ اور قرآن* *

*وسیلہ اور قرآن*
*پہلی آیت:...............*

اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہود کے بارے میں فرمایا :

﴿وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾

(سورۃ البقرة:89)

ترجمہ: اور اس سے پہلے وہ اس نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے۔

*شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ(م 1239ھ) لکھتے ہیں:*

ابو نعیم اوربیہقی اورحاکم نےساتھ اسناد صحیحہ اورطرق متعددہ کے روایت کی ہے کہ یہودی مدینہ کے اوریہودی خیبر کے جس وقت ساتھ بت پرستوں عرب کے یعنی فرقہ بنی اسد اوربنی غطفان اورجہینہ اورغدرہ کے جنگ کرتے تھے، مغلوب ہوجاتے اورشکست کھاتے، لاچارہوکرطرف دانشمندوں اور کتاب اپنے کے رجوع کیا انہوں نے بعدتامل بسیار کے، یہ دعا اپنے سپاہیوں کو تعلیم کی کہ لڑائی کے وقت میں پڑھا کریں، پھرمغلوب نہ ہوئے اورفتح پاتے تھے، دعا یہ ہے:

اللھم ربنا انا نسالک بحق احمدَ النَّبِیِّ الامی الذی وعدتَّنا ان تخرجہ لنا فی آخرالزمان وبکتابک الذی تنزل علیہ آخرماینزل ان تنصرناعلی اعدائنا۔

(تفسیرعزیزی: ج2ص581)

ترجمہ: اے اللہ!ہم تجھ سے حضرت احمد صلی اللہ علیہ و سلم کے حق اور وسیلے سے جو نبی امی ہیں، جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اس کو تو آخری زمانہ میں بھیجے گا، اور اس کتاب کے وسیلہ سے جس کا تو نے آخری زمانہ میں نازل کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، سوال کرتے ہیں کہ آج کے دن تو ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرما۔

*علامہ محمود آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ [م1270ھ] لکھتے ہیں:*

وہ لوگ یہ دعا کرتے تھے:

اللهم إنا نسألك بحق نبيك الذي وعدتنا أن تبعثه في آخر الزمان أن تنصرنا اليوم على عدونا .

(روح المعانی:ج1ص320)

ترجمہ: اے اللہ!ہم تجھ سے تیرے اس رسول کے حق اور وسیلے سے جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اس کو تو آخری زمانہ میں بھیجے گا، سوال کرتے ہیں کہ آج کے دن تو ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرما۔

*شیخ ابو محمد عبد الحق حقانی دہلوی رحمہ اللہ(م1336 ھ) لکھتے ہیں:*

مدینہ کے یہود بنی اسد اوربنی غطفان وغیرہ قبائل عرب سے جب شکست کھاکرعاجز ہوئے تواپنے علماءکی تعلیم سے دعاکیاکرتے تھے:

اللھم ربنا انا نسالک بحق احمد النبی الامی الذی وعدتنا ان تخرجہ لنا فی آخرالزمان وبکتابک الذی تنزل علیہ آخرماینزل ان تنصرناعلی اعدائنا

کہ الٰہی ہم کو ببرکت نبی آخرالزمان محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اورببرکت قرآن مجید کے ہمارے دشمنوں پر فتح یاب کر۔

(تفسیرحقانی: ج1ص510)

*شیخ التفسیر مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ(م1394 ھ) اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:*

حالانکہ نزولِ قرآن اورآپ کی بعثت سے پہلے ہی لوگ کافراوربت پرستوں کے مقابلہ میں آپ کے نام کی برکت سے فتح ونصرت اللہ سے مانگا کرتے تھے۔ چنانچہ یہودمدینہ اوریہودخیبر کی جب عرب کےبت پرستوں سے لڑائی ہوتی تویہ دعا مانگتے:

اللھم ربنا انا نسالک بحق احمد النبی الامی الذی وعدتنا ان تخرجہ لنا فی آخرالزمان وبکتابک الذی تنزل علیہ آخرماتنزل ان تنصرناعلی اعدائنا۔

(تفسیرمعارف القرآن کاندھلوی: ج1ص233)

ترجمہ: اے اللہ!ہم تجھ سے حضرت احمد صلی اللہ علیہ و سلم کے حق اور وسیلے سے جو نبی امی ہیں، جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اس کو تو آخری زمانہ میں بھیجے گا، اور اس کتاب کے وسیلہ سے جس کا تو نے آخری زمانہ میں نازل کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، سوال کرتے ہیں کہ آج کے دن تو ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرما۔

ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ یہود مدینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل آپ کے وسیلہ سے دعا مانگتے تھے۔

*اعتراض:........*

اس آیت سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ توسل بالذات یہود کا طریقہ تھا اور یہی کچھ مماتی حضرات کہتے ہیں۔

*جواب:........*

اولاً۔۔۔۔ اصول الفقہ کی مشہور کتاب ”نور الانوار“ میں ملا جیون(م 1130ھ) فرماتے ہیں:

شرائع من قبلنا شریعتنا ما لم تنسخ

( نور الانوار: ص227 بحث الفرق بین الہام النبی صلی اللہ علیہ و سلم و غیرہ)

ترجمہ: ہم سے پہلی شریعتیں جب تک منسوخ نہ ہو جائیں توانہیں بھی ہماری شریعت سمجھا جائے گا۔

علامہ محمود آلوسی بغدادی رحمہ اللہ (م1270ھ) فرماتے ہیں:

مذهبنا في شرع من قبلنا وإن كان إنه يلزمنا على أنہ شريعتنا لكن لا مطلقا بل إن قصہ الله تعالى علينا بلا إنكار

(روح المعانى: ج8 ص239 تحت سورة كہف آیت21)

ترجمہ: پہلی شریعتوں کے بارے میں ہمارا مذہب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ بغیر انکار کے ہمیں بیان فرما دیں تو ہمارے لیے بھی ان کا حکم ثابت ہو گا۔

شریعت محمدیہ علی صاحبہا السلام میں توسل بالذات سےمنع نہیں آیا بلکہ اس کا اثبات منقول ہے جیسا کہ آگے دلائل میں آرہا ہے۔ لہذا اس آیت سے توسل کا جواز ثابت ہوا۔

ثانیاً۔۔۔ اگر اسی شبہ پر توسل بالذات کا انکار کر دیا جائے کہ یہ پہلی شریعتوں کا مسئلہ ہے تو ہم ان منکرین سے پوچھتے ہیں کہ توسل بالاعمال کے آپ بھی توقائل ہیں اور اس پر جو اصحاب الغار والا واقعہ پیش کرتے ہیں تو وہ بھی اس امت کے اولیاء نہیں تھے بRadde Batil:
لکہ بنی اسرائیل کے اولیاء تھے، تو پھر اس کا انکار کر دیا جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے توسل کا تذکرہ کیا اور تردید نہیں فرمائی تو وہ اب ہماری شریعت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اصحاب الغاروالی حدیث بیان فرمائی اور تردید نہیں فرمائی تو وہ بھی ہماری شریعت ہے۔


*دوسری آیت:......*


وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا

(سورۃ النساء:64)

ترجمہ: اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آ کر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑامہربان پاتے۔

اس آیت میں دو چیزیں ہیں:

1: ان لوگوں کا اپنا استغفار 2: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا استغفار

اللہ تعالیٰ نے صرف ان کے استغفار پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے استغفار کا بھی ذکر کیا۔ تو جس طرح ان کے اپنے استغفار کا ذکر کیا درمیان میں پیغمبر کی ذات کو بھی ذکر کیا۔ پیغمبر کو شامل کرنے پر دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿ جَاءُوكَ ﴾ ہے کہ وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں۔ اگر صرف استغفار ہی کافی تھا تو پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ معلوم ہوا کہ عام استغفار کے قبول ہونے میں ان لوگوں کی ذات کو دخل ہے لیکن وہ استغفار جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کے قریب آکر کیا جائے اس کی قبولیت میں ذاتِ نبوت کو دخل ہے ورنہ ﴿ جَاءُوكَ ﴾ ذکر نہ فرماتے۔

*امام مالک بن انس المدنی (م179ھ) اسی آیت سے جوازِ وسیلہ پر استدلال کرتے ہیں۔*

چنانچہ منقول ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ منصور مدینہ منورہ آیا اور اس نے امام مالک سے دریافت کیا :

استقبل القبلۃ و ادعو ام استقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ فقال: و لم تصرف وجہک عنہ و ہو وسیلتک و وسیلۃ ابیک آدم علیہ ا لسلام الی اللہ یوم القیامۃ؟ بل استقبلہ وا ستشفع بہ فیشفعہ اللہ۔ قال اللہ تعالیٰ: و لو انہم اذ ظلموا انفسہم الایۃ.

( الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ: ج2 ص26 الباب الثالث فی تعظیم امرہ و وجوب توقیرہ)

ترجمہ: میں قبر نبوی کی زیارت کرتے وقت دعا کرتے ہوئے قبلہ رخ ہوں یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کروں ؟ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: اے امیر! آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے منہ کیوں موڑتے ہیں حالانکہ وہ تمہارے لیے اور تمہارے جد اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے روزِ قیامت وسیلہ ہیں ، بلکہ اے امیر! آپ کو چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب متوجہ رہیے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت کے طلب گار رہیے، اللہ ان کی شفاعت قبول فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آ کر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑامہربان پاتے۔

*علامہ تقی الدین السبکی الشافعی (م756ھ ) اس آیت کو توسل بالذوات کی دلیل قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:*

والاحادیث و الآثار فی ذلک اکثر من ان تحصر، و لو تتبعتہا لوجدت منہا الوفاً، و نص قولہ تعالیٰ:﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ﴾ الآیۃ صریح فی ذلک.

(شفاء السقام: ص376 الباب الثامن فی التوسل وا لاستغاثہ و التشفع بالنبی صلی اللہ علیہ و سلم)

ترجمہ: توسل بالذوات کے بارے میں احادیث و آثار شمار سے باہر ہیں، اگر آپ ان کو جمع کریں تو ان کی تعداد ہزاروں میں پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان

﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ﴾

توسل بالذوات کے جواز میں نصِ صریح ہے۔


*تیسری آیت:.......*


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ الایۃ

(سورۃ المائدۃ:35)

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔

*امام ابو عبد اللہ الحاکم رحمۃ اللہ علیہ (م405ھ) نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہم سے اللہ تعالیٰ کے فرمان:*

 ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ (اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو) کے بارے میں یہ بات بیان کی ہے:

لقد علم المحفوظون من أصحاب محمد صلى الله عليه و سلم أن ابن أم عبد الله من أقربهم إلى الله وسيلة

(المستدرک علی الصحیحین: ج3ص37 کتاب التفسیر تحت سورۃ المائدۃ)

ترجمہ: بے شک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب میں سے محفوظ حضرات نے جان لیا کہ ابن ام عبد اللہ (حضرت عبد اللہ بن مسعود) وسیلہ کے طور پر اللہ تعالیٰ کی جانب ان حضرات میں سے اقرب اشخاص میں ہیں۔

*شیخ الاسلام علامہ زاہد بن الحسن الکوثری ر

حمہ اللہ (م1371ھ) لکھتے ہیں:*

والوسيلة بعمومہا تَشْمَل التوسل بالاشخاص، و التوسل بالاعمال۔۔۔ اما شمول الوسیلۃ فی الآیۃ المذکورۃ للتوسل بالاشخاص فلیس برای مجرد و لا ہو بماخوذ من العموم اللغوی فحسب بل ہو الماثور عن عمر الفاروق رضی اللہ عنہ الخ

(مقالات الکوثری: ص286)

ترجمہ: اس آیت میں لفظ ”الوسیلۃ“ عموم کے پیشِ نظر ذاتوں کے وسیلہ کو بھی شامل ہے اور اعمال کے وسیلہ کو بھی۔۔۔ آیت مذکورہ میں وسیلہ کا توسل بالاشخاص کو شامل ہونا محض رائے سے نہیں اور نہ ہی لفظ کے عمومِ لغوی کا نتیجہ ہے بلکہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے منقول ہے الخ۔

آگے علامہ کوثری رحمہ اللہ نے کئی ایک آثار ذکر فرمائے ہیں جن سے توسل بالاشخاص ثابت ہوتا ہے۔

وسیلہ ذوات واعمال دونوں کو اس لئے شامل ہے کہ وسیلہ سے مراد ”قربت“ ہے، جیسا کہ عامہ مفسرین نے فرمایا ہے۔

(دیکھیے تفسیر الدر المنثور، تفسیر ابن کثیر، تفسیر جلالین وغیرہ)


*چوتھی آیت:.......*


وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ

(سورۃ الانفال:33)

ترجمہ: اور (اے پیغمبر!) اللہ ایسا نہیں ہے کہ اِن کو اِس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو اور اللہ انہیں عذاب دینے والا نہیں ہے جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔

*امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ(م279 ھ)نے ایک حدیث روایت کی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:*

 اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری اُمت کے لئے دو امانتیں نازل فرمائیں:

{وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ } {وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ} إذا مضيت تركت فيهم الاستغفار إلى يوم القيامة.

(جامع الترمذی: ج2 ص139 ابواب التفسیر، تحت تفسیر سورۃ الانفال)

ترجمہ: ایک امانت یہ آیت: ”اور اللہ ایسا نہ کرے گا کہ انہیں تیرے ہوتے ہوئے عذاب دے“اور دوسری یہ آیت: ” اللہ انہیں عذاب دینے والا نہیں ہے جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں“۔ پس جب میں (دنیا) سے چلا جاؤں گا تو ان میں استغفار کو قیامت تک کے لئے چھوڑ جاؤں گا۔

عذاب سے بچنے کے دو سبب اس آیت میں ذکر کیے گئے ہیں۔ایک سبب پہلے حصہ میں وارد الفاظ: ﴿وَأَنْتَ فِيهِمْ﴾ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان میں تشریف فرما ہوں اس وقت تک عذاب نہ آئے گا اور دوسرا سبب ان الفاظ: ﴿وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾ سے معلوم ہو رہا ہے۔ تو یہاں پہلا جملہ ﴿وَأَنْتَ فِيهِمْ﴾ ذوات کے بیان کے لئے ہے اور دوسرا جملہ ﴿وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾ اعمال کے بیان کے لئے ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ ذوات کا وسیلہ بھی جائز ہے اور اعمال کا بھی جائز ہے۔

No comments:

Post a Comment