Sunday, 2 September 2018

مسئلہ فاتحہ پر اہلحدیث طبقہ سے دس سوال ۱

مسئلہ فاتحہ پر اہلحدیث طبقہ سے دس سوال
۱
۔ بخاری شریف کی فاتحہ لازم کرنے والی روایت غیر صریح ہے اس میں احتمال ہے کہ یہ منفرد کے لہے ہے یا مقتدی کے لئے۔ اصول فقہ ہے اذا جا الاحتمال بطل الاستدلال کہ احتمال والی چیز سے استدلال نہیں لیا جا سکتا۔ آپ کے پاس اس میں مقتدی کو داخل کرنے کی کیا دلیل ہے؟

۲
۔  بخاری ۷۸۳ میں رکوع پانے پر رکعت لوٹانے کو نہیں کہا گیا لیکن جس طریقے سے رکوع پایا گیا اس سے منع کیا گیا۔ اس کے علاوہ ترمذی ۳۱۳ میں جابر رضی اللہ عنہ اس حدیث کے بعد “الا ان یکون ورا الامام” کے اضافے سے نقل کر کے اس کو منفرد کے لئے خاص کرتے ہیں۔ صحابی کی صراحت آجانے کے بعد بخاری کی روایت میں قیاس کرنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟

۳
۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی “اقرا بھا فی نفسک” سے آہستہ پڑھنا بھی ہو سکتا ہے اور دل ہی دل میں اس کے الفاظ کا خیال کرنا بھی۔ اس میں بھی احتمال آگیا اس لئے اس سے بھی استدلال نہیں لیا جا سکتا آپ کے پاس ایک ہی معنی خاص کرنے کی کیا دلیل ہے؟

۴
۔ مسلم ۹۰۴ اور ۹۰۵ میں صاف ذکر ہے کہ امام کے ساتھ تکبیر کہو اور قرات پر خاموش ہو جاو اور ولاالضالین پر آمین کہو۔ اسکو آپ کیوں نہیں مانتے؟

۵
۔ مسلم ۱۲۹۸ کی زید بن ثابت کی حدیث ہے ( لَا، قِرَاءَةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَيْءٍ) (بخاری ۷۴۴ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  نے فاتحہ کو قرات میں شامل کیا) یہ حددیث فاتحہ کی کوئی تخصیص نہیں کرتی بلکہ فی شئی میں امام کے پیچھے ہر طرح کی قرات کی نفی کرتی ہے۔ ۔ اس حدیث کو نا ماننے کی آپ کے پاس کیا وجہ ہے؟ مسند احمد۱۱۸۰۸ میں اعبداللہ بن عمر رض کا فتوی بھی یہی ہے کہ امام کی قرأت تمہارے لیے کافی ہے۔

۶
۔ترمذی ۳۱۱ “الا بام القرآن” والی روائت کو آپکے اپنے محقق البانی نے ضعیف کہا ہے۔ امام ترمذی اس کو حسن کہتے ہیں مگر ساتھ ہی ۳۱۳ میں جابر رضی اللہ عنہ کا قول “الا ان یکون ورا الامام” لا کر گویا اسے منسوخ قرار دیتے ہیں۔ آپ ایسی کمزور روایت سے جائز ناجائز میں استدلال کیسے لے سکتے ہیں؟

۷
۔ابوداود ۸۲۴ “الا بام القرآن” والی  بھی خود امام ابوداود اور آپ  کے اپنے محقق البانی کے نزدیک ضعیف ہے۔ اور اس کے مقابلے میں  ابوداود ۸۲۳ واضح اور صحیح ہے۔  (لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ.)، آپ واضح اور صحیح کو چھوڑ کر ضعیف روایت کی اتباع کیوں کرتے ہیں حالانکہ آپ کا دعوی صحیح حدیث پر عمل کرنے کا ہے۔

۸
۔ نسائی ۹۳۳ کی “الا بام القرآن” والی روایت بھی خود امام نسائی اور آپکے اپنے محقق البانی کے نزدیک ضعیف ہے۔ اس کے مقابلے میں نسائی ۹۳۴ صحیح بھی ہے اور صریح بھی۔ (فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا)۔ یہاں بھی صحیح اور واضح کو چھوڑ کر ضعیف پر عمل کیوں کرتے ہیں؟

۹
۔  ابن ماجہ ۸۴۶ بھی صاف صریح اور واضح ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی تکبیر کہے گا قرات نہیں کرے گا آمین کہے گا۔ اس حدیث کو آپ کیوں نہیں مانتے؟

۱۰
۔ قرآن پاک کی آیت الاعراف۲۰۴  اور جب قرآن پڑھا جائے اسے سنو اور چپ رہو کو سورہ مکی کہہ کر نظرانداز کیوں کر دیتے ہیں ہے جبکہ کسی مکی سورت میں موجود تمام آیات کا مکی ہونا ضروری نہیں۔ جیسے کہ یہ آیت بھی الاعراف مئں ہے مگر اس میں یہود کو خطاب کیا گیا ہے جو مکہ میں نہیں مدینہ میں تھے۔ وَاِذْ اَنْجَيْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ ۚ يُقَتِّلُوْنَ اَبْنَاۗءَكُمْ وَ يَسْتَحْيُوْنَ نِسَاۗءَكُمْ ۭوَفِيْ ذٰلِكُمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ
اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے بچالیا جو تم کو بڑی سخت تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی بھاری آزمائش تھی۔۱۴۱ 

No comments:

Post a Comment