*مودودی صاحب کے غلط نظریات اور تفہیم القرآن*
*حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں*
مودودی صاحب لکھتے ہیں:
بس ایک فوری جذبے نے جو شیطانی تحریص کے زیر اثر ابھر آیا تھا ان پر ذہول طاری کردیا اور ضبطِ نفس کی گرفت ڈھیلی ہوتے ہی وہ طاعت کے مقام بلند سے معصیت کی پستی میں جا گرے۔
[تفہیم القرآن ص133 ج3]
یہ سب مودودی صاحب کی خوش فہمی ہے کیونکہ قرآن پاک نے ”بھول“ کہہ کر مودودی صاحب کی ساری بات کو رد کردیا ہے۔
*حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں*
بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ واشرف انسان بھی تھوڑی دیر کیلئے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے... لیکن جب اللہ تعالیٰ انہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اسکو محض اس لیے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محض ایک جاہلیت کا جذبہ ہے۔ تو وہ اپنے دل سے بے پرواہ ہو کر اس طرز ِ فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے۔
[تفہیم القرآن ج2 ص344 طبع سوم]
مودودی صاحب نے یہ غلط کہا کیونکہ ان کا بیٹے کی خاطر دعا کرنا خدا کے فرمان کی وجہ سے تھا جو ان سے کہا گیا تھا کہ تمہارے اہل کو بچائیں گے اس لیے دعا کو جاہلیت کا جذبہ کہنا بدترین جرم ہے۔
*حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں*
حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کچھ کوتاہیاں ہوگئیں تھیں غالباً انہوں نے بے صبر ہو کر قبل از وقت اپنا مستقر بھی چھوڑ دیا تھا۔
[تفہیم القرآن ج2 ص312، 313. طبع سوم ۱۹۶۴ء]
ایک نبی کو بے صبرا کہنا کیونکر روا ہوگا؟رہا آپ کا تشریف لے جانا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو خدا کی ذات پر یہ امید تھی کہ خدا مجھے اس پر داروگیر نہیں کرے گا۔ لہذا حضرت یونس علیہ السلام کے اس عمل کو بے صبری اور کوتاہی کہنا کسی طرح درست نہیں۔
*حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں*
مودودی صاحب لکھتے ہیں:
بس ایک فوری جذبے نے جو شیطانی تحریص کے زیر اثر ابھر آیا تھا ان پر ذہول طاری کردیا اور ضبطِ نفس کی گرفت ڈھیلی ہوتے ہی وہ طاعت کے مقام بلند سے معصیت کی پستی میں جا گرے۔
[تفہیم القرآن ص133 ج3]
یہ سب مودودی صاحب کی خوش فہمی ہے کیونکہ قرآن پاک نے ”بھول“ کہہ کر مودودی صاحب کی ساری بات کو رد کردیا ہے۔
*حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں*
بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ واشرف انسان بھی تھوڑی دیر کیلئے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے... لیکن جب اللہ تعالیٰ انہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اسکو محض اس لیے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محض ایک جاہلیت کا جذبہ ہے۔ تو وہ اپنے دل سے بے پرواہ ہو کر اس طرز ِ فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے۔
[تفہیم القرآن ج2 ص344 طبع سوم]
مودودی صاحب نے یہ غلط کہا کیونکہ ان کا بیٹے کی خاطر دعا کرنا خدا کے فرمان کی وجہ سے تھا جو ان سے کہا گیا تھا کہ تمہارے اہل کو بچائیں گے اس لیے دعا کو جاہلیت کا جذبہ کہنا بدترین جرم ہے۔
*حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں*
حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کچھ کوتاہیاں ہوگئیں تھیں غالباً انہوں نے بے صبر ہو کر قبل از وقت اپنا مستقر بھی چھوڑ دیا تھا۔
[تفہیم القرآن ج2 ص312، 313. طبع سوم ۱۹۶۴ء]
ایک نبی کو بے صبرا کہنا کیونکر روا ہوگا؟رہا آپ کا تشریف لے جانا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو خدا کی ذات پر یہ امید تھی کہ خدا مجھے اس پر داروگیر نہیں کرے گا۔ لہذا حضرت یونس علیہ السلام کے اس عمل کو بے صبری اور کوتاہی کہنا کسی طرح درست نہیں۔
No comments:
Post a Comment