🔴 *Part 7*
ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﮐﺮﻧﮯ پر غیر مقلدین کے دلائل کے جوابات
🌟 *ازﺍﻓﺎﺩﺍﺕ : ﻣﺘﮑﻠﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﮔﮭﻤﻦ حفظہ ﺍﻟﻠﮧ*
▪▪▪▪▪▪▪▪▪
🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸
💠 *دلیل*
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺤﺎﻓﻆ ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺼﻔﺎﺭ ﺍﻟﺰﺍﻫﺪ ﺇﻣﻼﺀ ﻣﻦ ﺃﺻﻞ ﻛﺘﺎﺑﻪ ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺍﻟﺴﻠﻤﻲ : ﺻﻠﻴﺖ ﺧﻠﻒ ﺃﺑﻲ ﺍﻟﻨﻌﻤﺎﻥ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﻔﻀﻞ ﻓﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺣﻴﻦ ﺍﻓﺘﺘﺢ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺣﻴﻦ ﺭﻛﻊ ﻭﺣﻴﻦ ﺭﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺮﻛﻮﻉ ﻓﺴﺄﻟﺘﻪ ﻋﻦ ﺫﻟﻚ ﻓﻘﺎﻝ ﺻﻠﻴﺖ ﺧﻠﻒ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ ﻓﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺣﻴﻦ ﺍﻓﺘﺘﺢ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺣﻴﻦ ﺭﻛﻊ ﻭﺣﻴﻦ ﺭﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺮﻛﻮﻉ ﻓﺴﺄﻟﺘﻪ ﻋﻦ ﺫﻟﻚ ﻓﻘﺎﻝ ﺻﻠﻴﺖ ﺧﻠﻒ ﺃﻳﻮﺏ ﺍﻟﺴﺨﺘﻴﺎﻧﻲ ﻓﻜﺎﻥ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺇﺫﺍ ﺍﻓﺘﺘﺢ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻛﻊ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺮﻛﻮﻉ ﻓﺴﺄﻟﺘﻪ ﻓﻘﺎﻝ ﺭﺃﻳﺖ ﻋﻄﺎﺀ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺭﺑﺎﺡ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺇﺫﺍ ﺍﻓﺘﺘﺢ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻛﻊ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺮﻛﻮﻉ ﻓﺴﺄﻟﺘﻪ ﻓﻘﺎﻝ ﺻﻠﻴﺖ ﺧﻠﻒ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺍﻟﺰﺑﻴﺮ ﻓﻜﺎﻥ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺇﺫﺍ ﺍﻓﺘﺘﺢ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻛﻊ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺮﻛﻮﻉ ﻓﺴﺄﻟﺘﻪ ﻓﻘﺎﻝ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺍﻟﺰﺑﻴﺮ ﺻﻠﻴﺖ ﺧﻠﻒ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ ﺍﻟﺼﺪﻳﻖ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﻜﺎﻥ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺇﺫﺍ ﺍﻓﺘﺘﺢ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻛﻊ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺮﻛﻮﻉ ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺻﻠﻴﺖ ﺧﻠﻒ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻓﻜﺎﻥ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺇﺫﺍ ﺍﻓﺘﺘﺢ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻛﻊ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺮﻛﻮﻉ
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج2 ص73)
🌻 *ترجمہ:* حضرتﺍﺑﻮ ﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﻋﻠﯽ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ، ﻭﮦ ﻧﻤﺎﺯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ، ﺭﮐﻮﻉ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ، ﺍﻭﺭ ﺭﮐﻮﻉ ﺳﮯ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯﺗﮭﮯ.
💠 *جواب نمبر1:*
🔻اولاً……… حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے با سندِ حسن ترک رفع یدین ثابت ہے۔
🔸ﺭﻭﯼ ﺍﻻﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻠﯽ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﺎﺣﺐﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﺻﺪﻭﻕ ﺛﺒﺖ ﻗﺎﻝ : ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺇﺑﺮﺍﻫﻴﻢ ﺍﻟْﻤَﺮْﻭَﺯِﻱُّ ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﺍﻟﺴُّﺤَﻴْﻤِﻰُّ ، ﻋﻦ ﺣﻤﺎﺩ ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮﺍﻫﻴﻢ ، ﻋﻦ ﻋﻠﻘﻤﺔ ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ، ﻗﺎﻝ : ﺻﻠﻴﺖ ﻣﻊ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ ﻭﻋﻤﺮ ، ﻓﻠﻢ ﻳﺮﻓﻌﻮﺍ ﺃﻳﺪﻳﻬﻢ ﺇﻻ ﻋﻨﺪ ﺍﻓﺘﺘﺎﺡ ﺍﻟﺼﻼﺓ۔
ﺍﺳﻨﺎﺩ ﺻﺤﯿﺢ ﻭﺭﻭﺍﺗﮧ ﺛﻘﺎﺕ •
( ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻤﻌﺠﻢ ﻻﺑﯽ ﺑﮑﺮ ﺍﻻﺳﻤﺎﻋﯿﻠﯽ ﺝ 2 ﺹ 692 ،693 ﺭﻗﻢ 154 ،ﻣﺴﻨﺪ ﺍﺑﯽ ﯾﻌﻠﯽ ﺹ 922 ﺭﻗﻢ 5037)
🔅 *ترﺟﻤﮧ:* ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ’’ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ،ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻤﺎ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﺗﺤﺮﯾﻤﮧ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﮐﯽ ۔
🔻 ثانیاً……… اس کی سند میں ایک راوی ابو النعمان محمد بن فضل سدوسی المعروف ’’عارم‘‘ہے۔ تقریباً 213ھ میں اس کا حافظہ متغیر ہوگیا تھا [المیزان للذہبی: ج4 ص7 وغیرہ] جس کی وجہ سے یہ اختلاط کا شکار ہو گیا تھا اور اس کی عقل زائل ہو گئی تھی۔ اس لیے اس راوی پر امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ سمیت دیگر بہت سے محدثین نے یہی جرح کی ہے۔ مثلاً:
🔸1: امام بخاری ؒم652:
محمد بن الفضل ابو النعمان السدوسی البصری یقال لہ عارم تغیر بآخرہ۔
(تاریخ الکبیرللبخاری ج1ص208رقم الترجمۃ 654)
🔸2: امام ابو داود م275 ھ
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ج4ص121،122)
🔸3: امام ابوحاتم الرازی م277ھ
(الجرح والتعدیل للرازی ج8ص69،70، سیراعلام النبلا ء للذھبی ج7ص464)
🔸4: امام موسی بن حماد
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ج4ص122،الکفایہ فی علم الروایہ للخطیب ص136)
🔸5: امام ابراھیم الحربی م285 ھ
(الکفایہ فی علم الروایہ للخطیب136،الکواکب النیرات لا بن الکیال ص99)
🔸6: امام عقیلی م322ھ
(الضعفا ء الکبیر للعقیلی ج4ص121وغیرہ)
🔸7: امام ابن ابی حاتم الرازی م327ھ
(الجرح والتعدیل للرازی ج8ص69)
🔸8: امام امیۃ الا ھوازی
(الضعفا ء الکبیر للعقیلی ج4ص123 وغیرہ)
🔸9: امام ابن حبان م354ھ
(تہذیب التہذیب لابن حجر ج5ص258، سیر اعلام النبلاء للذھبی ج7ص465، الضعفاء والمتروکین لابن جوزی ج2ص91-92)
🔸10: امام ابو الولید البا جی م474ھ
(التعدیل والتجریح للباجی ج2ص675،676)
🔸11: امام ابن الجوزی م598ھ
(الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج3ص91،92)
🔸12: امام ابن الصلاح م642ھ
(مقدمۃ ابن الصلاح ص368)
🔸13: امام نووی 676
(تقریب مع التدریب ج2ص323،329)
🔸14: امام ابو الحجاج المزی م742ھ
(تہذیب الکمال للمزی ج9ص272،273)
🔸15: امام ذھبی م748ھ
(العبر للذھبی ج1ص195،تذکرۃ الحفاظ للذھبی ج1ص301)
🔸16: امام ابن کثیر الدمشقی م774 ھ
(اختصار علوم الحدیث: ص239)
🔸17: امام عراقی م804ھ
(فتح المغیث للعراقی ص454،459،460)
🔸18: امام ابن حجر عسقلانی م852ھ
(تقریب لابن حجر ج2ص547، تہذیب لا بن حجر ج5ص258)
🔸19: امام ابوبکر سیوطی م911ھ
(تدریب الراوی للسیوطی ج2ص329،323)
🔸20: امام احمد بن عبداللہ الخزرجی م923ھ
(خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال للخزرجی ص356)
🔸21: امام محمد بن احمد الکیال م926ھ
(الکواکب النیرات فی معرفۃ من اختلط من الرواۃ الثقات لابن الکیال ص97،98)
🔸22: امام ابن العماد الحنبلی م1089ھ
(شذرات الذھب لابن العماد ج2ص159)
🌷 مندرجہ بالا ائمہ کے نزدیک محمد بن فضل سدوسی مختلط اور متغیر الحافظہ راوی ہے اور اس مخلتلط راوی [محمد بن فضل] کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ایک قاعدہ بیان کیا ہے:
اختلط فی آخر عمرہ حتی کان لا یدری مایحدث بہ فوقع فی حدیثہ المناکیر الکثیرۃ فیجب التنکب عن حدیثہ فیما رواہ المتأخرون فان لم یعلم ھذا من ھذا ترک الکل ولا یحتج بشئ منہا•
(تہذیب التہذیب لابن حجر ج5ص258)
🌺 *ترجمہ:* آخر عمر میں انہیں اشتباہ کا مرض ہوگیا تھا حدیث بیان کرتے وقت انہیں پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کیا بیان کر رہے ہیں. جس کی وجہ سے ان کی احادیث میں بہت سی منکر حدیثیں بھی داخل ہوگئیں. لہذا ان کی وہ حدیثیں جنہیں متاخرین نے بیان کیا ہے ان سے صرفِ نظر کرنا ضروری ہے. اور اگر یہ پتہ نہ چلے کہ ان کی کون سی حدیث اشتباہ کے زمانے سے پہلے کی ہے اور کون سی بعد کے. تو ایسی تمام حدیثوں کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان میں سے کسی حدیث سے کوئی استدلال نہیں کیا جائے گا.
✳ اس قاعدے سے معلوم ہوا کہ محمد بن فضل کا جو شاگرد قدماء [اول عمر کے شاگرد] میں سے نہ ہو بلکہ متاخرین شاگردوں میں سے ہو تو اس سے مروی روایت متروک قرار پائے گی۔ زیر بحث روایت میں ان سے روایت کرنے والے محمد بن اسماعیل السلمی قدماء شاگردوں میں سے نہیں ہیں بلکہ متاخرین شاگردوں میں سے ہیں۔
🔸چنانچہ مشہورمحدث علامہ نیموی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فیہ النعمان محمد بن فضل السدوسی و ھو ثقۃ تغیر بالآخرۃ رواہ عنہ ابو اسماعیل السلمی و ھو لیس من اصحابہ القدماء•
(التعلیق الحسن: ص114)
⚜ *ترجمہ:* اس روایت کی سند میں نعمان بن فضل سدوسی ہے، جو کہ پہلے ثقہ راویوں میں سے تهے، مگر آخر میں ان کے حالات بدل گئے تهے .اس سے ابو اسماعیل سلمی نے روایت کیا ہے اور یہ اس کے قدیم شاگردوں میں سے نہیں ہے.
❇ لہذا یہ روایت ضعیف اور ناقابلِ حجت ہے۔
☀ *جواب نمبر2:*
غیر مقلد تیسری رکعت کے شروع میں بھی رفع یدین کرتے ہیں۔
[نماز نبوی ص206، آپ کے مسائل اور ان کا حل از مبشر ربانی غیر مقلد:ص120]
🔰 اور اس ضعیف روایت کا متن دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تین مقام کی رفع یدین تو موجود ہے، چوتھے مقام (تیسری رکعت کے شروع میں) کی رفع یدین کا نام و نشان تک نہیں۔
🌀 معلوم ہوا یہ روایت خود غیر مقلدین کے ’’عمل‘‘ کو بھی ثابت نہیں کرتی۔ پس اسے پیش کرنا اپنے موقف اور عمل سے جہالت کی دلیل ہے۔
🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹
✍ *
ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﮐﺮﻧﮯ پر غیر مقلدین کے دلائل کے جوابات
🌟 *ازﺍﻓﺎﺩﺍﺕ : ﻣﺘﮑﻠﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﮔﮭﻤﻦ حفظہ ﺍﻟﻠﮧ*
▪▪▪▪▪▪▪▪▪
🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸
💠 *دلیل*
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺤﺎﻓﻆ ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺼﻔﺎﺭ ﺍﻟﺰﺍﻫﺪ ﺇﻣﻼﺀ ﻣﻦ ﺃﺻﻞ ﻛﺘﺎﺑﻪ ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺍﻟﺴﻠﻤﻲ : ﺻﻠﻴﺖ ﺧﻠﻒ ﺃﺑﻲ ﺍﻟﻨﻌﻤﺎﻥ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﻔﻀﻞ ﻓﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺣﻴﻦ ﺍﻓﺘﺘﺢ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺣﻴﻦ ﺭﻛﻊ ﻭﺣﻴﻦ ﺭﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺮﻛﻮﻉ ﻓﺴﺄﻟﺘﻪ ﻋﻦ ﺫﻟﻚ ﻓﻘﺎﻝ ﺻﻠﻴﺖ ﺧﻠﻒ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ ﻓﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺣﻴﻦ ﺍﻓﺘﺘﺢ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺣﻴﻦ ﺭﻛﻊ ﻭﺣﻴﻦ ﺭﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺮﻛﻮﻉ ﻓﺴﺄﻟﺘﻪ ﻋﻦ ﺫﻟﻚ ﻓﻘﺎﻝ ﺻﻠﻴﺖ ﺧﻠﻒ ﺃﻳﻮﺏ ﺍﻟﺴﺨﺘﻴﺎﻧﻲ ﻓﻜﺎﻥ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺇﺫﺍ ﺍﻓﺘﺘﺢ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻛﻊ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺮﻛﻮﻉ ﻓﺴﺄﻟﺘﻪ ﻓﻘﺎﻝ ﺭﺃﻳﺖ ﻋﻄﺎﺀ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺭﺑﺎﺡ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺇﺫﺍ ﺍﻓﺘﺘﺢ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻛﻊ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺮﻛﻮﻉ ﻓﺴﺄﻟﺘﻪ ﻓﻘﺎﻝ ﺻﻠﻴﺖ ﺧﻠﻒ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺍﻟﺰﺑﻴﺮ ﻓﻜﺎﻥ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺇﺫﺍ ﺍﻓﺘﺘﺢ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻛﻊ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺮﻛﻮﻉ ﻓﺴﺄﻟﺘﻪ ﻓﻘﺎﻝ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺍﻟﺰﺑﻴﺮ ﺻﻠﻴﺖ ﺧﻠﻒ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ ﺍﻟﺼﺪﻳﻖ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﻜﺎﻥ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺇﺫﺍ ﺍﻓﺘﺘﺢ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻛﻊ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺮﻛﻮﻉ ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺻﻠﻴﺖ ﺧﻠﻒ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻓﻜﺎﻥ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺇﺫﺍ ﺍﻓﺘﺘﺢ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻛﻊ ﻭﺇﺫﺍ ﺭﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺮﻛﻮﻉ
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج2 ص73)
🌻 *ترجمہ:* حضرتﺍﺑﻮ ﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﻋﻠﯽ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ، ﻭﮦ ﻧﻤﺎﺯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ، ﺭﮐﻮﻉ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ، ﺍﻭﺭ ﺭﮐﻮﻉ ﺳﮯ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯﺗﮭﮯ.
💠 *جواب نمبر1:*
🔻اولاً……… حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے با سندِ حسن ترک رفع یدین ثابت ہے۔
🔸ﺭﻭﯼ ﺍﻻﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻠﯽ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﺎﺣﺐﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﺻﺪﻭﻕ ﺛﺒﺖ ﻗﺎﻝ : ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺇﺑﺮﺍﻫﻴﻢ ﺍﻟْﻤَﺮْﻭَﺯِﻱُّ ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﺍﻟﺴُّﺤَﻴْﻤِﻰُّ ، ﻋﻦ ﺣﻤﺎﺩ ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮﺍﻫﻴﻢ ، ﻋﻦ ﻋﻠﻘﻤﺔ ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ، ﻗﺎﻝ : ﺻﻠﻴﺖ ﻣﻊ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ ﻭﻋﻤﺮ ، ﻓﻠﻢ ﻳﺮﻓﻌﻮﺍ ﺃﻳﺪﻳﻬﻢ ﺇﻻ ﻋﻨﺪ ﺍﻓﺘﺘﺎﺡ ﺍﻟﺼﻼﺓ۔
ﺍﺳﻨﺎﺩ ﺻﺤﯿﺢ ﻭﺭﻭﺍﺗﮧ ﺛﻘﺎﺕ •
( ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻤﻌﺠﻢ ﻻﺑﯽ ﺑﮑﺮ ﺍﻻﺳﻤﺎﻋﯿﻠﯽ ﺝ 2 ﺹ 692 ،693 ﺭﻗﻢ 154 ،ﻣﺴﻨﺪ ﺍﺑﯽ ﯾﻌﻠﯽ ﺹ 922 ﺭﻗﻢ 5037)
🔅 *ترﺟﻤﮧ:* ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ’’ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ،ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻤﺎ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﺗﺤﺮﯾﻤﮧ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﮐﯽ ۔
🔻 ثانیاً……… اس کی سند میں ایک راوی ابو النعمان محمد بن فضل سدوسی المعروف ’’عارم‘‘ہے۔ تقریباً 213ھ میں اس کا حافظہ متغیر ہوگیا تھا [المیزان للذہبی: ج4 ص7 وغیرہ] جس کی وجہ سے یہ اختلاط کا شکار ہو گیا تھا اور اس کی عقل زائل ہو گئی تھی۔ اس لیے اس راوی پر امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ سمیت دیگر بہت سے محدثین نے یہی جرح کی ہے۔ مثلاً:
🔸1: امام بخاری ؒم652:
محمد بن الفضل ابو النعمان السدوسی البصری یقال لہ عارم تغیر بآخرہ۔
(تاریخ الکبیرللبخاری ج1ص208رقم الترجمۃ 654)
🔸2: امام ابو داود م275 ھ
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ج4ص121،122)
🔸3: امام ابوحاتم الرازی م277ھ
(الجرح والتعدیل للرازی ج8ص69،70، سیراعلام النبلا ء للذھبی ج7ص464)
🔸4: امام موسی بن حماد
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ج4ص122،الکفایہ فی علم الروایہ للخطیب ص136)
🔸5: امام ابراھیم الحربی م285 ھ
(الکفایہ فی علم الروایہ للخطیب136،الکواکب النیرات لا بن الکیال ص99)
🔸6: امام عقیلی م322ھ
(الضعفا ء الکبیر للعقیلی ج4ص121وغیرہ)
🔸7: امام ابن ابی حاتم الرازی م327ھ
(الجرح والتعدیل للرازی ج8ص69)
🔸8: امام امیۃ الا ھوازی
(الضعفا ء الکبیر للعقیلی ج4ص123 وغیرہ)
🔸9: امام ابن حبان م354ھ
(تہذیب التہذیب لابن حجر ج5ص258، سیر اعلام النبلاء للذھبی ج7ص465، الضعفاء والمتروکین لابن جوزی ج2ص91-92)
🔸10: امام ابو الولید البا جی م474ھ
(التعدیل والتجریح للباجی ج2ص675،676)
🔸11: امام ابن الجوزی م598ھ
(الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج3ص91،92)
🔸12: امام ابن الصلاح م642ھ
(مقدمۃ ابن الصلاح ص368)
🔸13: امام نووی 676
(تقریب مع التدریب ج2ص323،329)
🔸14: امام ابو الحجاج المزی م742ھ
(تہذیب الکمال للمزی ج9ص272،273)
🔸15: امام ذھبی م748ھ
(العبر للذھبی ج1ص195،تذکرۃ الحفاظ للذھبی ج1ص301)
🔸16: امام ابن کثیر الدمشقی م774 ھ
(اختصار علوم الحدیث: ص239)
🔸17: امام عراقی م804ھ
(فتح المغیث للعراقی ص454،459،460)
🔸18: امام ابن حجر عسقلانی م852ھ
(تقریب لابن حجر ج2ص547، تہذیب لا بن حجر ج5ص258)
🔸19: امام ابوبکر سیوطی م911ھ
(تدریب الراوی للسیوطی ج2ص329،323)
🔸20: امام احمد بن عبداللہ الخزرجی م923ھ
(خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال للخزرجی ص356)
🔸21: امام محمد بن احمد الکیال م926ھ
(الکواکب النیرات فی معرفۃ من اختلط من الرواۃ الثقات لابن الکیال ص97،98)
🔸22: امام ابن العماد الحنبلی م1089ھ
(شذرات الذھب لابن العماد ج2ص159)
🌷 مندرجہ بالا ائمہ کے نزدیک محمد بن فضل سدوسی مختلط اور متغیر الحافظہ راوی ہے اور اس مخلتلط راوی [محمد بن فضل] کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ایک قاعدہ بیان کیا ہے:
اختلط فی آخر عمرہ حتی کان لا یدری مایحدث بہ فوقع فی حدیثہ المناکیر الکثیرۃ فیجب التنکب عن حدیثہ فیما رواہ المتأخرون فان لم یعلم ھذا من ھذا ترک الکل ولا یحتج بشئ منہا•
(تہذیب التہذیب لابن حجر ج5ص258)
🌺 *ترجمہ:* آخر عمر میں انہیں اشتباہ کا مرض ہوگیا تھا حدیث بیان کرتے وقت انہیں پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کیا بیان کر رہے ہیں. جس کی وجہ سے ان کی احادیث میں بہت سی منکر حدیثیں بھی داخل ہوگئیں. لہذا ان کی وہ حدیثیں جنہیں متاخرین نے بیان کیا ہے ان سے صرفِ نظر کرنا ضروری ہے. اور اگر یہ پتہ نہ چلے کہ ان کی کون سی حدیث اشتباہ کے زمانے سے پہلے کی ہے اور کون سی بعد کے. تو ایسی تمام حدیثوں کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان میں سے کسی حدیث سے کوئی استدلال نہیں کیا جائے گا.
✳ اس قاعدے سے معلوم ہوا کہ محمد بن فضل کا جو شاگرد قدماء [اول عمر کے شاگرد] میں سے نہ ہو بلکہ متاخرین شاگردوں میں سے ہو تو اس سے مروی روایت متروک قرار پائے گی۔ زیر بحث روایت میں ان سے روایت کرنے والے محمد بن اسماعیل السلمی قدماء شاگردوں میں سے نہیں ہیں بلکہ متاخرین شاگردوں میں سے ہیں۔
🔸چنانچہ مشہورمحدث علامہ نیموی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فیہ النعمان محمد بن فضل السدوسی و ھو ثقۃ تغیر بالآخرۃ رواہ عنہ ابو اسماعیل السلمی و ھو لیس من اصحابہ القدماء•
(التعلیق الحسن: ص114)
⚜ *ترجمہ:* اس روایت کی سند میں نعمان بن فضل سدوسی ہے، جو کہ پہلے ثقہ راویوں میں سے تهے، مگر آخر میں ان کے حالات بدل گئے تهے .اس سے ابو اسماعیل سلمی نے روایت کیا ہے اور یہ اس کے قدیم شاگردوں میں سے نہیں ہے.
❇ لہذا یہ روایت ضعیف اور ناقابلِ حجت ہے۔
☀ *جواب نمبر2:*
غیر مقلد تیسری رکعت کے شروع میں بھی رفع یدین کرتے ہیں۔
[نماز نبوی ص206، آپ کے مسائل اور ان کا حل از مبشر ربانی غیر مقلد:ص120]
🔰 اور اس ضعیف روایت کا متن دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تین مقام کی رفع یدین تو موجود ہے، چوتھے مقام (تیسری رکعت کے شروع میں) کی رفع یدین کا نام و نشان تک نہیں۔
🌀 معلوم ہوا یہ روایت خود غیر مقلدین کے ’’عمل‘‘ کو بھی ثابت نہیں کرتی۔ پس اسے پیش کرنا اپنے موقف اور عمل سے جہالت کی دلیل ہے۔
🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹
✍ *
No comments:
Post a Comment