🔴 *Part 8*
ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﮐﺮﻧﮯ پر غیر مقلدین کے دلائل کے جوابات
🌟 *ازﺍﻓﺎﺩﺍﺕ : ﻣﺘﮑﻠﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﮔﮭﻤﻦ حفظہ ﺍﻟﻠﮧ* ▪▪▪▪▪▪▪▪▪
🌸
🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸
💠 *دلیل--*
عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يرفع يديه إذا دخل في الصلاة وإذا ركع
(سنن ابن ماجۃ ج1ص62)
🛡 *ترجمہ:* حضرت ﺍﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﮏ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﻋﻠﯽ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﻤﺎﺯﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺭﮐﻮﻉ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ"
💠 *جواب نمبر1:*
اس کی سند میں ایک راوی ”حمید الطویل“ ہے جو کہ مدلس ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صیغہ ”عن“ سے روایت کر رہا ہے۔
🔸علامہ ابن حجر نے اس کو طبقہ ثالثہ میں شمار کیا ہے۔
(طبقات المدلسین لابن حجر ص86 رقم الترجمہ71)
اور مدلس کا عنعنہ غیر مقلدین کے نزدیک صحت حدیث کے منافی ہوتا ہے۔
💐 *جواب نمبر2:*
یہ روایتِ مدلس ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت انس پر موقوف ہے۔
🔸امام الدارقطنی لکھتے ہیں:
لم يروه عن حميد مرفوعا غير عبد الوهاب والصواب من فعل أنس
(سنن الدار قطنی ص290 باب ذكر التكبير و رفع اليدين عند الافتتاح والركوع والرفع منه)
🌸 *ترجمہ:* اس حدیث کو حمید سے سوائے عبد الوهاب کے کسی نے مرفوعا روایت نہیں کیا ہے، صحیح بات یہ ہے کہ یہ حضرت انس کا فعل ہے
🔸امام طحاوی لکھتے ہیں:
وأما حديث أنس بن مالك رضي الله عنه فهم يزعمون أنه خطأ وأنه لم يرفعه أحد إلا عبد الوهاب الثقفي خاصة والحفاظ يوقفونه على أنس رضي الله عنه
(سنن الطحاوی ج1 ص باب التكبير للركوع والتكبير للسجود )
❄ *ترجمہ:* بہرحال حضرت انس رض والی حدیث، تو محدثین کا خیال ہے کہ اس میں خطا واقع ہوئ ہے، (کیوں کہ) اس حدیث کو خاص طور پر عبد الوهاب ثقفی کے علاوہ کسی نے مرفوعا روایت نہیں کیا ہے، اور حفاظ حدیث نے اس روایت کو حضرت انس پر موقوف قرار دیا ہے-
💠 جبکہ غیر مقلدین کے نزدیک صحابی کا قول و عمل حجت نہیں ہے:
🔸1: افعال الصحابۃ رضی اللہ عنہم لا تنتہض للاحتجاج بھا۔
(فتاوی نذیریہ بحوالہ مظالم روپڑی: ص 58)
🔸2: صحابہ کا قول حجت نہیں۔
(عرف الجادی: ص 101)
🔸3: صحابی کا کردار کوئی دلیل نہیں اگرچہ وہ صحیح طور پر ثابت ہوں۔
(بدور الاہلہ: ج 1 ص 28)
🔸4:آثار صحابہ سے حجیت قائم نہیں ہوتی۔
(عرف الجادی: ص 80)
🔸5: خداوند تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے کسی کو صحابہ کرام کے آثار کا غلام نہیں بنایاہے۔
(عرف الجادی: ص 80)
🔸6: موقوفات صحابہ حجت نہیں۔
(بدورا لاہلہ: ص 129)
🔆 *جواب نمبر3:*
اس روایت کےدیگرطرق میں”اذا قام بین الرکعتین“ ،”کل خفض ورفع“، ”واذا سجد وفی السجود“ کے الفاظ موجود ہیں جن میں دو رکعتوں کے درمیان، ہر اٹھنے اور بیٹھنے کی حالت میں ، سجدوں میں جاتے اور سجدوں سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کرنے کا ذکر اورثبوت موجود ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص266 ،مسند ابی یعلی ج6 ص399 رقم3752 ،سنن دارقطنی ج1 ص292 رقم1104، معجم الشیوخ ابن الاعرابی ج2 ص326 رقم1997،المحلی بالآثار ج3 ص9، الاحادیث المختارہ لمقدسی ص51، 52 رقم2025 ،2026، معجم الاوسط للطبرانی ج1 ص19)
🌹 اور غیر مقلدین ان پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ لہذا جب یہ روایت ان کے ہاں بھی معمول بھا نہیں تو ہمارے لیے حجت کیوں بنا رہے ہیں؟
فما ہو جوابکم فہو جوابنا..
🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹
✍ *
🔸🔸🔸🔸🔸 🔸 🔸 🔸 🔸
ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﮐﺮﻧﮯ پر غیر مقلدین کے دلائل کے جوابات
🌟 *ازﺍﻓﺎﺩﺍﺕ : ﻣﺘﮑﻠﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﮔﮭﻤﻦ حفظہ ﺍﻟﻠﮧ* ▪▪▪▪▪▪▪▪▪
🌸
🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸
💠 *دلیل--*
عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يرفع يديه إذا دخل في الصلاة وإذا ركع
(سنن ابن ماجۃ ج1ص62)
🛡 *ترجمہ:* حضرت ﺍﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﮏ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﻋﻠﯽ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﻤﺎﺯﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺭﮐﻮﻉ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ"
💠 *جواب نمبر1:*
اس کی سند میں ایک راوی ”حمید الطویل“ ہے جو کہ مدلس ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صیغہ ”عن“ سے روایت کر رہا ہے۔
🔸علامہ ابن حجر نے اس کو طبقہ ثالثہ میں شمار کیا ہے۔
(طبقات المدلسین لابن حجر ص86 رقم الترجمہ71)
اور مدلس کا عنعنہ غیر مقلدین کے نزدیک صحت حدیث کے منافی ہوتا ہے۔
💐 *جواب نمبر2:*
یہ روایتِ مدلس ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت انس پر موقوف ہے۔
🔸امام الدارقطنی لکھتے ہیں:
لم يروه عن حميد مرفوعا غير عبد الوهاب والصواب من فعل أنس
(سنن الدار قطنی ص290 باب ذكر التكبير و رفع اليدين عند الافتتاح والركوع والرفع منه)
🌸 *ترجمہ:* اس حدیث کو حمید سے سوائے عبد الوهاب کے کسی نے مرفوعا روایت نہیں کیا ہے، صحیح بات یہ ہے کہ یہ حضرت انس کا فعل ہے
🔸امام طحاوی لکھتے ہیں:
وأما حديث أنس بن مالك رضي الله عنه فهم يزعمون أنه خطأ وأنه لم يرفعه أحد إلا عبد الوهاب الثقفي خاصة والحفاظ يوقفونه على أنس رضي الله عنه
(سنن الطحاوی ج1 ص باب التكبير للركوع والتكبير للسجود )
❄ *ترجمہ:* بہرحال حضرت انس رض والی حدیث، تو محدثین کا خیال ہے کہ اس میں خطا واقع ہوئ ہے، (کیوں کہ) اس حدیث کو خاص طور پر عبد الوهاب ثقفی کے علاوہ کسی نے مرفوعا روایت نہیں کیا ہے، اور حفاظ حدیث نے اس روایت کو حضرت انس پر موقوف قرار دیا ہے-
💠 جبکہ غیر مقلدین کے نزدیک صحابی کا قول و عمل حجت نہیں ہے:
🔸1: افعال الصحابۃ رضی اللہ عنہم لا تنتہض للاحتجاج بھا۔
(فتاوی نذیریہ بحوالہ مظالم روپڑی: ص 58)
🔸2: صحابہ کا قول حجت نہیں۔
(عرف الجادی: ص 101)
🔸3: صحابی کا کردار کوئی دلیل نہیں اگرچہ وہ صحیح طور پر ثابت ہوں۔
(بدور الاہلہ: ج 1 ص 28)
🔸4:آثار صحابہ سے حجیت قائم نہیں ہوتی۔
(عرف الجادی: ص 80)
🔸5: خداوند تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے کسی کو صحابہ کرام کے آثار کا غلام نہیں بنایاہے۔
(عرف الجادی: ص 80)
🔸6: موقوفات صحابہ حجت نہیں۔
(بدورا لاہلہ: ص 129)
🔆 *جواب نمبر3:*
اس روایت کےدیگرطرق میں”اذا قام بین الرکعتین“ ،”کل خفض ورفع“، ”واذا سجد وفی السجود“ کے الفاظ موجود ہیں جن میں دو رکعتوں کے درمیان، ہر اٹھنے اور بیٹھنے کی حالت میں ، سجدوں میں جاتے اور سجدوں سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کرنے کا ذکر اورثبوت موجود ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص266 ،مسند ابی یعلی ج6 ص399 رقم3752 ،سنن دارقطنی ج1 ص292 رقم1104، معجم الشیوخ ابن الاعرابی ج2 ص326 رقم1997،المحلی بالآثار ج3 ص9، الاحادیث المختارہ لمقدسی ص51، 52 رقم2025 ،2026، معجم الاوسط للطبرانی ج1 ص19)
🌹 اور غیر مقلدین ان پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ لہذا جب یہ روایت ان کے ہاں بھی معمول بھا نہیں تو ہمارے لیے حجت کیوں بنا رہے ہیں؟
فما ہو جوابکم فہو جوابنا..
🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹
✍ *
🔸🔸🔸🔸🔸 🔸 🔸 🔸 🔸
No comments:
Post a Comment