الزام نمبر 3:
دعویٰ الوہیت والتصرت:
فنا فی اللہ کے مراتب بیان کرتے ہو ئے امداد اللہ صاحب فرماتے ہیں: اس مرتبہ پرخداکا خلیفہ ہوکر لوگوں کو اس تک پہنچاتا ہے اورظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ پر پہنچ کر عارف عالم پر متصرف ہو جاتا ہے ذی اختیار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی جس تجلی کوچاہتا ہے اپنے اوپر کرتا ہے چونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات پائی جاتی ہیں۔
کلیات امداد ص37، موازنہ کیجئے، صفحہ 21
جواب:
ملکہ جی نے حضرت امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت کونقل کرکے قاری کو مغالطہ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے اس عبارت کا تعلق وحدۃ الوجود سے ہے اور مسئلہ وحدۃ الوجودایک دقیق اور غامض مسئلہ ہے اور اس کے وہ معنی جو حضرت امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت سے شاہ صاحب نے لیے ہیں کہ خالق اور مخلوق دونوں ایک ہیں اوردونوں میں کوئی فرق نہیں یہ معنی مراد لینا ایک مغالطہ ہے۔ شاہ صاحب اگر آپ حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی اس عبارت کوبنیاد بنا کر ان کوگمراہ ثابت کرنے کی کوشس کی رہے ہیں تو پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ اس عقیدے کے بارے میں آپ کے اکابر کی کیا رائے ہے عبارت ملاحظہ فرمائیں۔
دعوی الوہیت وتصرف اور غیر مقلدین:
غیر مقلدین کے رئیس نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں:
شیخ عارف محی الدین ابن عربی صاحب فتوحات مکیہ نے ابن حزم کی تعریف کی ہے اور دوسو تینتیس باب میں ص674پر کہا ہے یہ وصال کی انتہاء ہوتی ہے کہ چیز اس چیز کاعین بن جائے جو ظاہر ہے اور معلوم نہ ہو کہ وہی چیز ہے (ایک چیز دوسری چیز میں اس طرح ظاہر ہوکہ پہلی چیز کابالکل پتہ نہ چلے )جیساکہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا آپ ابن حزم سے معانقہ فرمارہے ہیں اس طرح ایک جسم دوسر ے میں بالکل غائب ہے، نظر ایک ہی آرہا ہے اور وہ رسول ﷺ ہیں ان کی طرف سے آپﷺ ہی اس اتحاد اور وحدت کو ظاہر کررہے ہیں یعنی دو کا ایک ہونا اور وجود میں کسی امر زائد کا نہ ہونا اسی کو اتحاد سے تعبیرکیاجاتا ہے۔
التاج المکلل ص90
توہم واشیاء بلیل
فہم یسعی بیننا بالتباعد
فعانقۃ حتیٰ اتحدنا تعانقا
فلما اتانا ما رای غیر واحد
یعنی رات کے وقت رقیب نے ہمارے درمیان دوری پیدا کرنے کی کوشش کی تو میں نے اپنے محبوب کے ساتھ اس طرح معانقہ کیا کہ ہم بالکل ایک ہوگئے جب رقیب آیا تو اسے ایک کے علاوہ دوسرانظر نہیں آیا۔ اسی مضمون کاایک فارسی شعر نقل کرنے کے بعدنواب صاحب موصوف فرماتے ہیں اور عجب نہیں یہی لوگ (اہل حدیث) محبت اور اتحاد والے بلکہ حق وانصاف کی بات یہ ہے کہ یہی لوگ وحدت مطلقہ کے مالک ہیں۔
علامہ وحید الزمان کی رائے:
علامہ وحید الزمان اپنی کتا ب میں لکھتے ہیں:
فرقہ صوفیہ وجودیہ جس میں شیخ ابن عربی ہیں یہ لوگ حلول اور خالص اتحاد کے قائل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کوعرش پر تمام مخلوق سے الگ ثابت کرتے ہیں ، یہ لوگ کہتے ہیں حق تعالیٰ من وجہ عین مخلوق ہیں یعنی وجود کی جہت سے اس لیے کہ وجود صرف ایک ہے اور وہ حق تعالیٰ کاوجود ہے۔
حاشیہ[ (آگےاس عبارت پر حاشیہ لگا کر لکھا ہے
اسی لیے شیخ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ تمام آسمان اور زمینوں کانور ہے۔ اللہ تعالیٰ بذات خود عرش پر ہے۔ اور اسی کانور یعنی اس سے پھیلنے والا وجود تمام آسمانوں اور زمینوں کوشامل ہے پس تمام اشیاء اسی کے وجود سے موجود ہیں اور فصوص الحکم میں جو یہ کہا گیا ہے۔ الحمدللہ الذی خلق الاشیاء وھو عینا۔
تو اس کے معنی ہیں کہ حق تعالیٰ کا وجود ہے نہ یہ کہ مخلوقات کادوسرا وجود ہے جیسا کہ متکلمین کا خیال ہے، شیخ نے ’’فتوحات‘‘ ص12 میں اس کی تصریح کی ہے۔ باقی تمام اشیاء اس ایک وجو د کی وجہ سے موجود ہیں ، ان کاکوئی مستقل وجود نہیں ہے جیسا کہ متکلمین کہتے ہیں کہ یہاں دووجود ہیں ایک وجودواجب اور دوسرا وجود ممکن۔ اور حق تعالیٰ غیر مخلوق ہے من وجہ یعنی ماہیت اور ذات کی جہت سے اس لیے کہ ممکن کی ذات اور اس کی ماہیت واجب کی ذات اور اس کی ماہیت سے متغایر ہے اور اس قول کے ذریعے سے عام لوگوں کے ذہن میں جو بات ہے کہ خالق اور مخلوق کے درمیان معمار اور عمارت کی نسبت ہے اس مفہوم سے وہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ بدیہی البطلان ہے کیونکہ حدوث عالم سے قبل حق تعالیٰ کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں تھا تو اب یہ اشیا کہاں سے وجود میں آئیں حضور اکرمﷺ نے ارشادفرمایا کان ﷲ ولم یکن معہ شیئ اللہ تعالیٰ (کائنات کی خلقت سے قبل) تھااور اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہ تھی۔
علامہ ابن اتیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے ابن عربی پر بڑا سخت رد کیا ہے، حافظ اور تفتازانی نے ان اتباع کی ہے۔ لیکن میر ے نزدیک حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات شیخ ابن عربی رحمہ اللہ تعالی کا مطلب نہیں سمجھے ان کی مرادسمجھنے میں انہوں نے غور نہیں کیا ’’فصوص ‘‘ میں شیخ کے ظاہری الفاظ ان کو نامانوس لگے اگر یہ حضرات ’’فتوحات ‘‘ میں غور کرتے تو جان لیتے کہ اصول اور فروع دونوں کے اعتبار سے شیخ اہل حدیث ہیں اور ارباب تقلید پر بڑا سخت رد کرنے والوں میں سے ہیں۔
ہدیۃ المہدی ص50، 51
ملکہ جی جو جواب آ پ کانواب صدیق حسن خان اور علامہ وحید الزمان کی رائے کے بارے میں ہوگا وہی جواب ہمارا حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی رائے کے بارے میں ہوگا۔
وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کے بارے میں ہماری کتب کا مطالعہ کریں اور اس کا صحیح مفہوم ہمارے علماء سے سمجھیں۔
دعویٰ الوہیت والتصرت:
فنا فی اللہ کے مراتب بیان کرتے ہو ئے امداد اللہ صاحب فرماتے ہیں: اس مرتبہ پرخداکا خلیفہ ہوکر لوگوں کو اس تک پہنچاتا ہے اورظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ پر پہنچ کر عارف عالم پر متصرف ہو جاتا ہے ذی اختیار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی جس تجلی کوچاہتا ہے اپنے اوپر کرتا ہے چونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات پائی جاتی ہیں۔
کلیات امداد ص37، موازنہ کیجئے، صفحہ 21
جواب:
ملکہ جی نے حضرت امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت کونقل کرکے قاری کو مغالطہ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے اس عبارت کا تعلق وحدۃ الوجود سے ہے اور مسئلہ وحدۃ الوجودایک دقیق اور غامض مسئلہ ہے اور اس کے وہ معنی جو حضرت امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت سے شاہ صاحب نے لیے ہیں کہ خالق اور مخلوق دونوں ایک ہیں اوردونوں میں کوئی فرق نہیں یہ معنی مراد لینا ایک مغالطہ ہے۔ شاہ صاحب اگر آپ حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی اس عبارت کوبنیاد بنا کر ان کوگمراہ ثابت کرنے کی کوشس کی رہے ہیں تو پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ اس عقیدے کے بارے میں آپ کے اکابر کی کیا رائے ہے عبارت ملاحظہ فرمائیں۔
دعوی الوہیت وتصرف اور غیر مقلدین:
غیر مقلدین کے رئیس نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں:
شیخ عارف محی الدین ابن عربی صاحب فتوحات مکیہ نے ابن حزم کی تعریف کی ہے اور دوسو تینتیس باب میں ص674پر کہا ہے یہ وصال کی انتہاء ہوتی ہے کہ چیز اس چیز کاعین بن جائے جو ظاہر ہے اور معلوم نہ ہو کہ وہی چیز ہے (ایک چیز دوسری چیز میں اس طرح ظاہر ہوکہ پہلی چیز کابالکل پتہ نہ چلے )جیساکہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا آپ ابن حزم سے معانقہ فرمارہے ہیں اس طرح ایک جسم دوسر ے میں بالکل غائب ہے، نظر ایک ہی آرہا ہے اور وہ رسول ﷺ ہیں ان کی طرف سے آپﷺ ہی اس اتحاد اور وحدت کو ظاہر کررہے ہیں یعنی دو کا ایک ہونا اور وجود میں کسی امر زائد کا نہ ہونا اسی کو اتحاد سے تعبیرکیاجاتا ہے۔
التاج المکلل ص90
توہم واشیاء بلیل
فہم یسعی بیننا بالتباعد
فعانقۃ حتیٰ اتحدنا تعانقا
فلما اتانا ما رای غیر واحد
یعنی رات کے وقت رقیب نے ہمارے درمیان دوری پیدا کرنے کی کوشش کی تو میں نے اپنے محبوب کے ساتھ اس طرح معانقہ کیا کہ ہم بالکل ایک ہوگئے جب رقیب آیا تو اسے ایک کے علاوہ دوسرانظر نہیں آیا۔ اسی مضمون کاایک فارسی شعر نقل کرنے کے بعدنواب صاحب موصوف فرماتے ہیں اور عجب نہیں یہی لوگ (اہل حدیث) محبت اور اتحاد والے بلکہ حق وانصاف کی بات یہ ہے کہ یہی لوگ وحدت مطلقہ کے مالک ہیں۔
علامہ وحید الزمان کی رائے:
علامہ وحید الزمان اپنی کتا ب میں لکھتے ہیں:
فرقہ صوفیہ وجودیہ جس میں شیخ ابن عربی ہیں یہ لوگ حلول اور خالص اتحاد کے قائل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کوعرش پر تمام مخلوق سے الگ ثابت کرتے ہیں ، یہ لوگ کہتے ہیں حق تعالیٰ من وجہ عین مخلوق ہیں یعنی وجود کی جہت سے اس لیے کہ وجود صرف ایک ہے اور وہ حق تعالیٰ کاوجود ہے۔
حاشیہ[ (آگےاس عبارت پر حاشیہ لگا کر لکھا ہے
اسی لیے شیخ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ تمام آسمان اور زمینوں کانور ہے۔ اللہ تعالیٰ بذات خود عرش پر ہے۔ اور اسی کانور یعنی اس سے پھیلنے والا وجود تمام آسمانوں اور زمینوں کوشامل ہے پس تمام اشیاء اسی کے وجود سے موجود ہیں اور فصوص الحکم میں جو یہ کہا گیا ہے۔ الحمدللہ الذی خلق الاشیاء وھو عینا۔
تو اس کے معنی ہیں کہ حق تعالیٰ کا وجود ہے نہ یہ کہ مخلوقات کادوسرا وجود ہے جیسا کہ متکلمین کا خیال ہے، شیخ نے ’’فتوحات‘‘ ص12 میں اس کی تصریح کی ہے۔ باقی تمام اشیاء اس ایک وجو د کی وجہ سے موجود ہیں ، ان کاکوئی مستقل وجود نہیں ہے جیسا کہ متکلمین کہتے ہیں کہ یہاں دووجود ہیں ایک وجودواجب اور دوسرا وجود ممکن۔ اور حق تعالیٰ غیر مخلوق ہے من وجہ یعنی ماہیت اور ذات کی جہت سے اس لیے کہ ممکن کی ذات اور اس کی ماہیت واجب کی ذات اور اس کی ماہیت سے متغایر ہے اور اس قول کے ذریعے سے عام لوگوں کے ذہن میں جو بات ہے کہ خالق اور مخلوق کے درمیان معمار اور عمارت کی نسبت ہے اس مفہوم سے وہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ بدیہی البطلان ہے کیونکہ حدوث عالم سے قبل حق تعالیٰ کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں تھا تو اب یہ اشیا کہاں سے وجود میں آئیں حضور اکرمﷺ نے ارشادفرمایا کان ﷲ ولم یکن معہ شیئ اللہ تعالیٰ (کائنات کی خلقت سے قبل) تھااور اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہ تھی۔
علامہ ابن اتیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے ابن عربی پر بڑا سخت رد کیا ہے، حافظ اور تفتازانی نے ان اتباع کی ہے۔ لیکن میر ے نزدیک حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات شیخ ابن عربی رحمہ اللہ تعالی کا مطلب نہیں سمجھے ان کی مرادسمجھنے میں انہوں نے غور نہیں کیا ’’فصوص ‘‘ میں شیخ کے ظاہری الفاظ ان کو نامانوس لگے اگر یہ حضرات ’’فتوحات ‘‘ میں غور کرتے تو جان لیتے کہ اصول اور فروع دونوں کے اعتبار سے شیخ اہل حدیث ہیں اور ارباب تقلید پر بڑا سخت رد کرنے والوں میں سے ہیں۔
ہدیۃ المہدی ص50، 51
ملکہ جی جو جواب آ پ کانواب صدیق حسن خان اور علامہ وحید الزمان کی رائے کے بارے میں ہوگا وہی جواب ہمارا حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی رائے کے بارے میں ہوگا۔
وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کے بارے میں ہماری کتب کا مطالعہ کریں اور اس کا صحیح مفہوم ہمارے علماء سے سمجھیں۔
No comments:
Post a Comment