Saturday, 29 February 2020

عیسائیت اور بریلویت کی مشترکہ قدریں۔

عیسائیت اور بریلویت کی مشترکہ قدریں۔۔۔۔۔۔۔۔

رضا خانیت وہ فرقہ ہے جس میں دنیا کے تمام باطل مذہب کے عقیدے آپ کو نظر آجائیں گے۔۔۔پھر چاہے وہ ہندو ہوں۔۔۔یہ عیسائی ہوں۔۔۔۔۔چاہئے رافضی ہوں۔۔۔۔۔

رضاخانی ٹولہ کس طرح سے عیسائیوں کے عقیدے کو اپنائے ہوئے ہے اس کا ایک مختصر سا جائزہ ہم دلیل کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔۔۔۔👇🏻

مسیحی پادری فنڈر اپنی کتاب " مفتاح الاسرار " میں لکھتا ہے۔۔🖋️
"مسیح نبی نوع انسان میں سے نہیں ہے بلکہ مرتبہ اس کا نشر سے اونچا ہے۔۔۔

جناب احمد رضا خان بریلوی بھی یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے لکھتے ہیں۔۔۔احمد رضا خان نے اپنے ترجمہ قرآن " کنز الایمان" میں قُلۡ اِنَّمَاۤ  اَنَا بَشَرٌ  مِّثۡلُکُمۡ کا ترجمہ اس طرح کیا ہے "  تم فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں " ۔۔۔۔

یعنی جس طرح عیسائیوں کا عقیدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ ہے کہ حقیقت اور ذات میں آپ ہرگز بشر نہیں ،" بشریت" آپ کا صرف ظاہری لباس ہے۔۔اندر سے آپ علیہ السلام وہی ہیں جس نے آپ کو یہاں دنیا میں بھیجا تھا۔۔ٹھیک وہی اقیده احمد رضا خان بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں رکھنے کی تلقین کر رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر صورت بشری میں تو انسان نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں آپ خود خدا ہیں اور میراج کی رات اصلیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے آپ سے ملنے ہی عرش پر گئے تھے۔۔۔۔۔۔

حدائق بخشش کا شعر ہے۔۔۔👇🏻👇🏻

"وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر۔
اسی کے جلوے اسی سے ملنے اسی سے اس کی طرف گئے تھے۔

عیسائی حضرات عیسیٰ علیہ السلام کو ذات واجب (یعنی واجب الوجود) سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے ذہن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا درجہ ذات واجب یعنی اللہ تعالیٰ سے کچھ نیچے ہے۔۔یعنی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ذات واجب سمجھتے ہوئے بھی بہرحال خدا کو باپ کا درجہ دیتے ہیں اور انہیں بیٹے کا۔۔۔۔

تاہم اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شریک سجتے ہیں باپ اور بیٹے کی یہ تفریق اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کی نگاہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام واجب الوجود اور ممکن الوجود (یعنی خدا اور مخلوق) کے درمیان ہے۔۔۔۔یعنی بظاھر وہ انسان دکھائی دیتے ہیں مگر اصلیت کے اعتبار سے وہ (نعوذ باللہ) خدا ہیں اور اس کے بیٹے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بانی بریلویت احمد رضا خان نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ظاہر صورت بشری کا دعویٰ کیا تھا تو پھر ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ بھی عیسائیوں کی طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم امکان سے ذرا اوپر لے جائیں اور آپ کی ذات گرامی میں کچھ واجب الوجود کا انہام پیدا کریں۔۔۔چنانچہ عیسائیوں کی تقلید میں خان صاحب بریلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی واجب الوجود (اللہ تعالیٰ) اور ممکن الوجود (مخلوق) کے مابین ایک مقام دیتے ہیں یعنی ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مخلوق ہونا کوئی قطعی بات نہیں بلکہ ایک امر موہوم ہے۔۔۔۔۔۔۔

خان صاحب کا ایک شعر ہے۔۔👇🏻👇🏻

(۱)"ممکن میں قدرت کہاں،واجب میں عبدیت کہاں۔
حیراں ہوں یہ بھی ہے خطا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں"

(۲) "معدن اسرار علام الغیوب برزخ بحرین امکان و وجود"

اسی طرح یہ اشعار بھی قابل غور ہیں 👀👀

"گمان امکان کے جھوٹے نقطو، تم اول آخر کے پھیر میں ہو۔
محیط کی چال سے تو پوچھو، کدھر سے آئے کدھر گئے تھے۔
وہی ہے اول وہی ہے آخر،وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر۔
اسی کے جلوے اسی سے ملنے،اسی سے اس کی طرف گئے تھی"

بانی بریلویت احمد رضا خان کے اس قسم کے اشعار اور خیالات سے شہ پاکر ہی شاید ان کے معتقدین بریلوی شعراء کو ایسے صریح شرکیہ اشعار لکھنے کی ہمت ہوئی ہے۔۔۔👇🏻👇🏻

"وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر، اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفیٰ ہو کر"

احمد رضا خان کے والد ماجد نقی علی خان فرماتے ہیں۔۔۔👇🏻👇🏻👇🏻

" محمد سر قدرت ہے کوئی رمز اس کی کیا جانے، شریعت میں تو بندہ ہے حقیقت میں خدا جانے"

حامد رضا خان بریلوی کے صاحب زادے بھی زندگی بھر اسی ورطہ' حیرت سے نہ نکل سکے کہ آپ آخر کیا ہیں۔۔۔؟ خدا ہیں یا خدا کے علاوہ کچھ اور ہیں۔۔۔۔؟
 ان کے ایک شعر ہے۔۔۔۔👇🏻👇🏻👇🏻

"خدا کہتے نہیں بنتی خدا کہتے نہیں بنتی۔
خدا پر اس کو چھوڑا ہے، وہی جانے کہ کیا تم ہو"۔۔۔۔۔۔

اس سے واضح ہو گیا کہ بریلوی حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تشکیک اور سفسطہ میں مبتلا ہیں۔۔۔۔
وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ممکن الوجود (مخلوق) نہیں مانتے اور کھل کر خدا بھی نہیں کہتے۔۔۔۔۔
ان کے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالق ہیں نہ مخلوق۔۔۔۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو واجب الوجود اور ممکن الوجود کے مابین برزخ ماننے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ واجب الوجود کا مفہوم اصولی طور پر اللہ کے لئے ہو اور ضمنی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی صادق آئے۔۔۔۔عیسائیوں کا نکتہ نظر اور عقیدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے یہی ہے کہ وہ ان کے ندیک خدا بھی ہیں اور اس کے بیٹے بھی۔۔۔وہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو "بظاھر بشر" مانتے ہیں اور حقیقت میں کچھ اور، بریلوی بھی حضور صلی االلہ علیہ وسلم کے لئے یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ ظاہر صورت بشری میں انسان نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں خدا جانے کیا ہیں۔۔۔۔۔۔؟
واضح رہے کہ "واجب الوجود" اس ذات کی کہا جاتا ہے جس کا ہمیشہ سے موجود ہونا واجب یعنی ضروری ہو اور اس پر کوئی عدم نہ پہلے کبھی گزرا ہو اور نہ آئندہ کبھی آئے۔۔
اس طرح واجب الوجود یعنی ازلی وابدی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ذات واجب الوجود نہیں ہو سکتی، جو بھی ہے وہ حادث یعنی فنا ہونے والا اور مخلوق ہے ( قرآن مجید کے علاوہ جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں بلکہ اس کی صفت ازلی ہے) اور ممکن الوجود، یعنی نہ اس کا ہونا ضروری تھا اور نہ اس کا عدم یعنی نہ ہونا ضروری ہے۔ تمام مخلوق کو کہا جاتا ہے۔۔عقلاء کے نزدیک وہ فرضی وجود جس کے " نہ ہونے" پر ایمان لانا ضروری ہو اس کو " ممتنع الوجود" کہا جاتا ہے۔اس اعتبار سے وجود صرف تین ہیں۔۔واجب الوجود، ممکن الوجود، اور ممتنع الوجود۔۔۔!
اللہ تعالیٰ "واجب الوجود" ہے اور شریک باری جس کا ہونا محال ہے اسے ممتنع الوجود کہیں گے۔۔اور باقی سب مخلوق "ممکن الوجود" ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واجب الوجود اور ممکن الوجود کے درمیان کوئی برزخ یعنی درمیانہ درجہ نہیں۔۔اگر کسی چیز کو کسی پہلو سے "برزخی درجے" میں سمجھا جا سکتا ہے تو وہ قرآن مجید ہے جو واجب الوجود کی صفت ہونے کے لحاظ سے مخلوق نہیں اس کا کلام ہے اور ہمارے تلفظ کے لحاظ سے اس میں ایک گونہ عالم امکان کی جھلک نظر آتی ہے۔۔۔تاہم با اتفاق اہل سنت والجماعت قرآن مجید کو مخلوق نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کوئی بھی صفت باری تعالیٰ اس کی ذات سے علحدہ شمار نہیں کی جاسکتی، جو شے ذات باری سے علحدہ ہو اسی کا نام مخلوق ہے اور ممکن الوجود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس عقیدے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی "ممکن الوجود" تھے۔
امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ میر محمد نعمان کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں۔۔👇🏻👇🏻

"اے برادر ! محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتنی اونچی شان کے باوجود بشر تھے اور حادث ہونے اور ممکن الوجود ہونے کے نشان سے نشاندار تھے۔ بشر ،خالق بشر سے کیا کچھ پا سکتا ہے اور ممکن الوجود، واجب الوجود کو کہاں گرفت میں لے سکتا ہے اور پیدا ہونے والا ذات قدیم کا اس کی عظمت بہت اونچی ہے کیسے احاطہ کر سکتی ہے اسکے علم کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا یہ قرآن پاک کی نص قطعی ہے"۔۔(مکتوبات امام ربانی)

عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے مافوق المکان قدرت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور تمام صفات  خداوندی سے متصف۔۔دفع بلاء ، تقسیم رزق، استعانت مخلوق، اور تملیک جنت و نار آپ سے ہی مطلق سمجھتے ہیں۔۔
احمد رضا خان بریلوی اور ان کے متبعین بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایسی تمام صفات الٰہی کے قائل ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے " ممکن الوجود" یعنی مخلوق ہونے کی نفی کرتی ہوں جیسے ہر جگہ حاضر ناظر ہونا، سمعی و بصری، علیم و خبیر، رازق یعنی بندوں کو رزق پھوچانے والا ہونا وغیرہ۔۔۔۔۔۔

عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہر چیز پر قادر مانتے ہیں ساتھ ہی انہیں قیامت کے دن اللہ کے حضور شفاعت کرنے والا بھی۔۔۔۔بریلوی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے "مختار کل" کا عقیدہ رکھتے ہیں، جنت و نار کا مالک کہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ آپ کی شفاعت کا بھی اقرار کرتے ہیں۔۔حالانکہ جو "ملک جنت" اور "مختار کل" ہو اس کو شفاعت کی کوئی حاجت ہی نہیں ہے مختار کل کا عقیدہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے عقیدے سے بالواسطہ انکار ہے۔۔

عیسائی، انبیاء علیہم السلام کو غیب بین کہتے ہیں۔۔یعنی غیب کا ایسا ملکہ اور صفت رکھنے والے کہ جب چاہیں پردہ غیب کی بات معلوم کرلیں۔۔یا یہ کہ خدا نے ان کو ایسی قدرت عطا کردی ہے کہ خدا کے بتائے بغیر جب چاہیں غیب کے اسرار بتاتے جائیں اور ان سے غیب و شہادت کی کوئی بات پوشیدہ نہ ہو۔۔۔۔۔۔

موجودہ انجیل یا "بائبل"  کا پہلا حصہ جو ان عیسائیوں کے نزدیک آج کل "عہدنامہ قدیم" (Old Testament) کہلاتا ہے ۔اس میں "سموئیل پیغمبر کی کتاب" کے عنوان کے تحت نویں باب میں جو درس نمبر ۱۹ اور نمبر ۱۰ ہے اس میں واضح طور پر یہ بات تحریر کی گئی ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔👇🏻👇🏻
" اگلے زمانے میں اسرائیلیوں میں جب کوئی خدا سے مشورہ کرنے جاتا تو یہ کہتا تھا کہ آو غیب بین (seer)   کے پاس چلیں۔۔۔۔کیونکہ جس کو اب نبی کھا جاتا ہے اس کو پہلے غیب بین (غیب کی باتوں کا ماہر) کہتے ہیں۔۔تب ساؤل نے اپنے نوکر سے کہا، تونے کیا خوب کہا۔۔۔آہم چلیں پھر اس شہر کو جہاں وہ " مرد خدا" تھا وہ دونوں روانہ ہوگئے۔۔اس شہر کی طرف ٹیلے پر چڑھتے ہوئے ان کو کئی جوان لڑکیاں ملیں جو پانی بھرنے جاتی تھیں انہوں نے ان سے پوچھا کیا "غیب بین" یہاں ہے۔۔۔؟ اُنھوں نے ان کو جواب دیا۔۔۔ہاں ہے"۔۔۔۔۔۔۔

اہل کتاب یہود و نصاری کے نزدیک "نبوت ایک ایسا فن" تھا  جس کا ماہر، نجوم و کہانت اور جفر کے علوم پر دسترس رکھنے کی وجہ سے غیبی امور کو باسانی جان لیتا تھا۔۔ایسے ماہر فن کو یہ لوگ "مرد خدا" اور " غیب جانے والا" غیب کی باتیں بتانے والا اور حاضر و ناظر کہتے تھے، seer کی اصطلاح ان تینوں خصوصیات پر محیط ہے۔۔اور یہ سب باتیں اس مرد خدا کی صفات سمجھی جاتی تھیں۔۔

موجودہ "بائبل" کے نئے "عہد نامے" (new testament) سے اس کا ثبوت ملتا ہے ملائزہ ہو -:
" دوسرے دن ہم روانہ ہو کر قيسریہ میں آئے اور فلپس مبشر کے گھر جو ان ساتوں میں سے تھا، اتر کر اس کے ساتھ رہے۔۔اس کی چار کنواری بیٹیاں تھیں جو نبوت کرتی تھیں۔۔(سموئیل باب ۹ درس ۹،۱۰)

ظاہر سی بات ہے کہ" نبوت" عورتوں کو کبھی نہیں ملی، کموبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام میں ایک بھی عورت نہیں، سب کے سب مرد تھے۔۔ایسی صورت میں "بائبل" میں مذکورہ فلپس کی ان چاروں کواری بیٹیوں کی نبوت کرنے کی بات کا مطلب نجوم، کہانت اور علم جفر کے ذریعہ غیب کی خبریں بتانا ہی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب احمد رضا خان بریلوی بھی "کنز الایمان" میں "نبی" کا ترجمہ "اے غیب کی خبریں دینے والے" کرتے ہیں۔۔۔وہ آپ کے لئے ماکان ومایکوں کے علم کے قائل تھے۔۔۔ان کے نزدیک بھی تمام امور غیب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمہ وقت منکشف ہیں۔۔۔

حالانکہ انبیاء علیہم السلام کی طرف غیب دانی کی نسبت اسلام کی تعلیم نہیں بلکہ یہود و نصاری کی میراث ہے۔۔۔۔
فقہ حنفی کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیب جاننے کا عقیدہ رکھنا کفر ہے ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔👇🏻👇🏻👇🏻

حنفیہ نے صراحت کے ساتھ اس شخص کو کافر کہا ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے تھے۔۔۔کیونکہ یہ قرآن کی آیت "قل لایعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ" کے خلاف ہے یہ بات مسایرہ ابن ہمام میں مذکور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے آپ کو حنفی سنی بتانے والے بریلوی حضرات ذرا سنجیدگی سے اس پر غور کریں۔۔۔۔!!۔۔👀

عیسائی عقائد کے خصوصیات میں ایک اہم عقیدہ "ثالث ثلاثہ" بھی ہے یعنی "اللہ تعالیٰ کو ذات واحد جانتے ہوئے بھی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور روح القدس" یعنی جبرائیل علیہ السلام کو بھی خدائی ذات و صفات میں شریک کرنا اور انہیں بھی " عین خدا سمجھنا۔۔عیسائیوں کا "تین میں ایک اور ایک میں تین خدا یا قرآن کے الفاظ میں "ثالث ثلاثہ" کا باطل عقیدہ اہل تشیع نے اللہ تعالیٰ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی باہم "عینیت" اور متحدة الزات و الصفات ہونے کی صورت میں قبول کیا تھا اور بریلویت کو کہ شیعت ہی کی ایک "تقیہ صفت" شاخ ہے اس نے بھی عیسائیوں کے عقیدہ "ثالث ثلاثہ" کو پوری طرح خوش آمدید کہا ہے۔۔البتہ یہاں خدائی صفات اور نور ذات باری میں شرکت اللہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ میں نہ رہ کر اللہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور غوث میں تسلیم کی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔

" مصطفیٰ رامرتضی دان، مرتضی رامصطفیٰ" اور علی با مصطفیٰ ہر دو خدایند" میں تو شیعت اور بریلویت متحد الخیال ہیں ہی، کیونکہ "لى خمسة اطفى بھا"  یا "عقیدہ پنج تن پاک" دونوں میں مشترک ہے۔۔حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو تیرے خدا کا درجہ دینے میں احمد رضا خان بریلوی نے جس قدر محنت کی ہے اور انہیں بالاظلاق  خدا کی صفات میں شریک و سہیم ہی نہیں بلکہ معبود اور قاضی الحاجات گردانا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ تمام عالم اسلام کی رضاخانی فتنے سے حفاظت فرمائے۔۔۔۔آمین۔۔۔۔
طالبِ دعا۔۔۔محمد ساجد صدیقی







No comments:

Post a Comment