Sunday, 15 March 2020

مولانا نانوتوی جسد عنصری ( یعنی جسم ظاہری ) کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے تھے

اعتراض

 مولانا نانوتوی جسد عنصری ( یعنی جسم ظاہری ) کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے تھے





#Asif_Asi

نامی بریلوی جاہل کو جواب

یہ اعتراض اکثر غیر مقلدین کرتے رہتے ہے اس لئے ہم دونوں احمقوں کو جواب ایک ہی پوسٹ میں دے گے اللّه تعالیٰ کے فضل سے




👈ال وکٹوریہ اپنے مقاصد کے لیے قران وحدیث کو کھلونہ
بناتے ہیں پر بریلوی بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتے ہے ان ہوں نے بھی غیر مقلدین سے یہی اعتراض چرا ہی لیا آخر

مرنے کے بعد کرامت اور خرق عادت کے طور پر متوفی کے دیکھے جانے اور نظر انے سے متعلق واقعات کو قران کے خلاف ثابت کرنے کے لیے ال وکٹوریہ یہ آیت بتاتے رہتے ہیں ..کہ

👈قال رب ارجعون لعلی اعمل صالحا فیما ترکت کلا انھا کلمۃ ھو قائلھا و من ورائھم برزخ الی یوم یبعثون ...

اس سے استدلال کرتے ہوئے اس جاہل نے کہا کہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ دنیا میں نہیں آسکتا ...چونکہ اس جملے سے ان کا غرض ہمیں معلوم.ہے تو ہم نے جوابا کہا کہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ جسے جب چاہے تو دنیا میں دوبارہ زندہ کرکے لانے پر قادر ہے اور اللہ نہ چاہے تو کوئی بھی مردہ دوبارہ واپس نہیں آسکتا تاکہ وہ عمل کرے بلکہ مردوں اوع زندوں کے بیچ قیامت تک پردہ ہے جیسا کہ اس ایت مبارکہ میں ہے

اس پر آل غیرمقلدین  کہتے ہے جب دوبارہ واپس نہیں آسکتا

تو ہم  نے پوچھا کہ فاماتہ اللہ مائۃ عام ثم بعثہ ...

دیکھو سو سال بعد واپس آیا یہ قران کہ رہا ہے اب تیری مانوں یا قرآن پاک کی مانوں؟ ؟؟

اگے چل کر آل لامذہب کہتے ہے کہ پہلے یہ ہوا کرتا تھا لیکن اس ایت کے بعد اللہ نے فیصلہ کرلیا اور اب نہیں ہوگا

مطلب یہ ہے کہ یہ اب منسوخ ہوگیا

حالانکہ ال وکٹوریہ کی پیدائش تک کوئی ایک مفسر یا محدث ایسا نہیں دکھا سکتے جس نے اس ایت کو دنیا میں دوبارہ کسی کے زندہ ہونے کو منسوخ کرنے کے لیے نازل ہونا یا اس معنی میں ہونا بتایا ہو

اب اس سے بار بار پوچھ رہا ہوں کہ کیا یہ اس آیت سے منسوخ ہوگیا تو ہاں یا نا کرنے سے موت آرہی ہے

حالانکہ اس بات پر ان  کو مزید بڑے بڑے جوتے پڑیں گے اگر ہاں کردے.....باذن اللہ.تعالی


واٹس ایپ پر بحث ہوئی تھی ۔ ہماری ایک محترم ساتھی کی

ایسے تو شاید کوئی تحریر محفوظ نہ ہو
۔۔۔البتہ اس بحث کے بعد الحمد للہ اس موضوع پر بہت اطمینان حاصل ہوا
۔۔۔
وکٹورین  نے یہی آیات پیش کی تھیں جو طالب زیدی اپنی ایک اس ویڈیو میں پیش کرتا  ہے
اس کے جواب میں ہم نے وہ آیات و احادیث پیش کیں نیز وہ صحیح سند سے ثابت شدہ واقعات پیش کیے جن کی خود انہی کے مولویوں زبیر علی زئی  و البانی وغیرہ نے تصحیح کی ہے

جن میں موت کے بعد دنیا میں دوبارہ زندگی پر دلیل موجود ہے

پس اگر کوئی وفات شدہ شخص دنیا میں واپس بطور خرق عادت آکر کوئی عمل نہیں کرسکتا ورنہ قرآن کے خلاف ہوجائے گا تو پھر یہ سب کیسے ہوا ؟
۔۔۔
میں ان شاء اللہ آپ کو بالتفصیل ایک ایک واقعہ یا وہ احادیث و آیات پیش کرتا ہوں جن میں موت کے بعد دوبارہ خرق عادت کے طور پر دنیا میں آنا اور کوئی عمل کرنا مذکور ہے

 👈دوسرا اعتراض
دوسرا اعتراض جو اکثر اسی کے ساتھ کیا جاتا ہے

🚫مولانا اشرف علی رح تھانوی کے  نانا مرنے کے بعد مٹھائی لایی اعتراض کا جواب


 اعتراض تو فقط مٹھائی لانے پر نہیں کہ مردہ صرف مٹھائی نہیں لا سکتا

بلکہ اعتراض تو اسی پر ہے نا کہ جب ایک دفعہ روح قبض ہوگئی تو واپس کیسے آگئی جبکہ قرآن میں ہے کہ موت والوں کی روح واپس نہیں لوٹائی جاتی
۔ ۔۔
حالانکہ جو موت کے بعد دوبارہ زندہ ہوئے ان تمام کی روحیں واپس لوٹا دی گئی ہیں

یا آل غیر مقلدیت اور رضا خانیت کو یہ ماننا ہوگا
کہ :
یا تو

1) وہ لوگ روح کے بغیر ہی زندہ ہوگئے 😀😁
یعنی زندہ تو تھے البتہ ان میں روح نہیں تھی

اور
یا
 خرق عادت ہے پس اعتراض ہی ختم

إجمالا تو میں عرض کروں

سورہ بقرہ میں ہے :
1) فقلنا اضربوہ ببعضھا  کذلک یحیی  اللہ الموتی و یریکم آیاتہ  الایة

 روح قبض ہونے کے بعد دوبارہ زندگی و گواہی دینے کا ثبوت
 ۔۔
2)  ألم تر الی الذین خرجوا من دیارھم  و ھم الوف حذر الموت فقال لھم اللہ ماتوا  ثم احیاھم
۔
یہاں بھی ثابت ہوا روح قبض ہونے کے بعد دوبارہ لوٹ آئی
۔۔۔
3) و إذ تخرج الموتی باذنی

۔۔۔۔
4) صحیح حدیث میں ہے :

حدثوا  عن بنی اسرائیل فانہ کانت فیھم اعاجیب
 ۔
بحوالہ کتاب الزھد للأمام احمد بن حنبل

اس حدیث میں آگے بیان ہے کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں نے اللہ سے دعا کی اور اللہ تعالٰی نے ان کے لیے ایک پرانے مردے کو زندہ کردیا

یہ حدیث سند کے لحاظ سے درست ہے
۔۔۔  ۔۔
اسی طرح حضرت زید بن خارجہ کا وفات کے بعد کلام کرنا امام بخاری سے لے کر امام ابن کثیر تک تمام کے تمام محدثین ہاں متفقہ طور پر ثابت ہے
۔۔۔
بلکہ علامہ ابن عبدالبر  کی عبارت تو اس طرح ہے جیسا کہ الاستیعاب میں ہے :

کہ و اسری بروحہ یعنی ان کی روح پرواز کر گئی ثم راجعتہ نفسہ پھر ان کی روح واپس لوٹ آئی
۔۔۔
اسی طرح حضرت ربعی  بن خراش کے بھائی کا وفات کے بعد باتیں کرنا صحیح سند سے ثابت ہے

امام ابن کثیر و حافظ بیہقی تو صحابہ کرام میں سے ایک بڑھیا عورت کے بیٹے کا ان کی دعا سے واپس زندہ ہوجانا  بھی مانتے ہیں
۔۔۔
غیرمقلدین کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی یہ مانتے ہیں کہ اس امت کے صالحین کے ہاتھوں بہت سے لوگ زندہ ہوئے ہیں بلکہ ایک گدھے کے زندہ ہوجانے کا واقع بھی لکھا ہے

نیز قبر سے لوگوں کے زندہ ہونے کے کئی واقعات ہیں جو زبیر علی زئی  و البانی کے ہاں درست ہیں
 ۔۔۔
ایک تحریر جو اس وقت میں نے اس وکٹورین مولوی کے جواب میں لکھی تھی محفوظ ہے اس کو بھی شئیر کرتا ہوں امید ہے اس سے کچھ فائدہ ہو


قرآن و حدیث کی دلیل پیش کرنے کے بجائے شیخ اور ان کے چمچوں اور رضا خانیوں کی پر زور کوشش ہے کہ موضوع بدل دیا جائے

پہلا موضوع یہ تھا کہ جی

 👈قاسم نانوتوی رح
وفات کے بعد دنیا میں آئے

شیخ نے کہا کہ قرآن  و حدیث کی رو سے مردے دنیا میں بالکل خرق عادت کے طور پر بھی نہیں آسکتے ۔ اور جو مرجائے وہ دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ نے کہا ہے کہ جس روح کا وقت پورا ہوجائے اسے اللہ تعالی واپس جانے سے روک لیتا ہے ( قیامت تک )

پس قیامت تک کوئی زندہ بھی نہیں ہوسکتا قبر سے بھی نہیں اٹھ سکتا   دنیا میں نہیں آسکتا ۔ دنیا والوں کے ساتھ باتیں نہیں کرسکتا ان سے مل نہیں سکتا

۔۔۔۔۔۔

جب ہم نے قرآن سے مردوں کا زندہ ہوجانا ۔۔ انبیاء کا دنیا میں حدیث معراج سے انبیاء کرام کا دنیا میں آنا ۔ حدیث دجال سے دنیا میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوجانا ۔ ابوجہل کا قبر سے نکل آنا اور حضرت عبداللہ بن عمر کا ان کو دیکھ لینا ان سے بات کرکے پانی مانگنا صحیح روایت سے جس کو ان کے اپنے مولوی زبیر علی زئی نے درست کہا ہے ۔ اور اسی طرح قبر سے نکل  آنا صحیح الترغیب سے شیخ البانی کی تصحیح کے ساتھ دکھایا

اور اسی طرح ہم نے حضرت زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ کے واقعے میں ابن عبدالبر رح کے یہ الفاظ بھئ دکھائے جن میں ہے کہ ان کی روح پرواز کر گئی پھر ان کی طرف روح واپس لوٹ آئی ۔

یا حضرت ربعی بن حراش کے بھائی کا واقعہ جس کے بارے میں امام بیہقی رح نے تو واضح لکھا ہے کہ کوئی بھی اہل حدیث( جو حقیقی اہل حدیث ہو ) اس کے سچے میں ہونے شک تک نہیں کرسکتا اور شیخ البانی نے بھی  لکھا کہ اس کی صحت میں کوئی شک ہی نہیں اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے اس واقعے میں حضرت ربعی کا بھائی موت کے بعد زندہ ہوا ۔ بھائی نے پوچھا کہ کیا موت کے بعد زندگی ۔ تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں ۔ پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا انتظار کررہے ہیں
ابن کثیر و امام بیہقی سے دکھایا کہ ان کے ہاں تو صحابہ کرام کے ہاں بھی موت کے بعد دعا کے ذریعے زندہ کیا گیا ہے اور ابن تیمیہ کا قول بھی دکھایا کہ موت کے بعد زندہ کرنا اس امت کے صالحین کے ہاتھوں بھی ہوا ہے
۔۔۔۔اللہ اکبر ۔۔۔
اور اسی طرح اور بھی کئی دلائل دیے

تو انہوں نے اوٹ پٹانگ تاویلیں شروع کردیں کہ وہ تو معجزات تھے اور فلاں تھے ۔
حالانکہ آیت میں تو کہیں بھی نہیں کہ صرف معجزتا کوئی آسکتا ہے بلکہ قرآن و حدیث سے بغیر معجزے کے بھئ زندہ ہوجانا ثابت ہے یعنی صرف نبی کے ہاتھوں نہیں بلکہ غیر نبی کے  ہاں بھی ایسا ہوا ہے اور جتنا یاد ہے غالبا  علماء نے لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریین کے ہاتھوں بھی اللہ نے ایسا فرمایا ہے

اور کیا دجال جو کرے گا وہ معجزہ ہوگا دجال کا  ؟😄

ہوسکتا ہے غیرمقلدین ان کو اپنا نبی مان لیں کہ ایسا صرف نبی ہی کرسکتا ہے یا ایسا کرنے والا خدا ہی ہوسکتا ہے پس وہ اس کو اپنا خدا مان لیں معاذاللہ
۔۔۔۔
اور اسی طرح جو دیگر واقعات ہیں ان میں  بھی غیر انبیاء ہیں
۔۔۔۔۔
پھر اس نے حافظ ابن حجر سے اور ابن تیمیہ سے یہ دکھایا کہ انبیاء کرام علیہم السلام جو معراج کی شب آئے تھے وہ ان کے ارواح تھے اجسام نہیں

پہلی بات تو یہ ہے کہ آیت میں تو کہیں نہیں کہ ارواح آسکتے ہیں یا شیخ بتا دے کہ جو مرجائے اس کا روح آسکتا ہے

لیکن شیخ تو یہ بھی نہیں مانتا
اور  نہ آیت میں نبی کی کوئی تخصیص و استثناء کا ذکر ہے کہ صرف نبی کے ساتھ ایسا ممکن ہے

پھر شیخ نے اپنا فضول فارمولا استعمال کرنا شروع کردیا کہ کیا آپ کے بزرگ نبی تھے ؟

لیکن شیخ کو عقل نہیں کہ آپ کا اعتراض اس پر تھا کہ قرآن کے مطابق ایسا نہیں ہوسکتا اس لیے واقعے پر اعتراض کررہے تھے

تو قران میں تو ایسا نہ ہونے میں نبی و غیر نبی کی کوئی تخصیص نہیں تو پھر یہ فضول گانے گانا کہ آپ کے بزرگ کوئی نبی تھے ؟ وہ تو نبی تھے آپ کے بزرگ تو نہیں
حالانکہ اگر شیخ سے ہم کہ دیں کہ آپ کا کیا عقیدہ ہے کہ صرف غیر نبی نہیں آسکتے لیکن نبی آسکتے ہیں اب بھی دنیا میں وفات کے بعد تو شیخ یہ بھی ماننے سے 20000 کلومیٹر دور بھاگے گا


آل غیر مقلدیت اور اب رضاخانیت بھی موت کے بعد کلام کرنے پر بھی بھونک رہا ہے
کہ *آپ کے بزرگ* ۔۔۔۔ ایسا کیسے کرتے ہیں ؟
۔۔۔۔۔
جی بالکل ہمارے ہی بزرگوں کے ساتھ ایسا ہوا ہے
اور چونکہ اس وقت وکٹوریہ کا کوئی بچہ زندہ نہیں تھا اس لیے کوئی اعتراض کسی نے نہیں  کیا نہ اس کو ایمان کی خرابی اور عقیدے کی گندگی جانا تم جیسے خبیثوں کی طرح:
چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی تاریخ میں صحابی رسول حضرت زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
زيد بن خارجة بن أبي زهير الخزرجي الأنصاري، شهد بدرا، توفي زمان عثمان، هو الذي تكلم بعد الموت(التاريخ الكبير ص.383)
...
یعنی زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جنہوں نے موت کے بعد باتیں کیں
۔۔۔
اسی طرح اس صحابی رسول رض کا قصہ امام ذہبی نے تاریخ الاسلام میں نقل کیا ہے اور وہاں جو باتیں انہوں نے فرمائی ہیں وہ بھی نقل کیا ہے
اس کے بعد حضرت سعید بن المسيب سے  بنو خطمہ قبیلے کے  ایک شخص کا کلام کرنا بھی نقل کیا ہے
علامہ ابن عبدالبر رح نے بھی اسے الاستيعاب میں زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ کے قصے میں ایک میت کا بعد الموت زندوں کے ساتھ کلام کرنا نقل کیا ہے جس کی سند کی بارے میں امام بیہقی رح نے فرمایا کہ اس کی سند کی صحت میں کوئی اہل حدیث شک نہیں کرتا (مطلب جو صحیح اہل حدیث ہے محدثین کے جماعت سے ۔۔ وکٹورین تو فورا انکار کرتا ہے)
۔۔۔
امام طبرانی نے بھی نقل کرکے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں
۔۔۔
امام بیہقی رح فرماتے ہیں:
وقد روى في التَّكلم بعد الموت عن جماعة بأسانيد صحيحة
یعنی موت کے بعد کلام کرنا ایک جماعت سے صحیح اسانید کے ساتھ منقول ہوا ہے
(یعنی یہ اعجوبہ صرف کسی ایک یا دو کے ساتھ واقع نہیں ہوا)
امام ابن ابی الدنیا رح نے اس موضوع پر مستقل کتاب لکھی جس کا نام ہے
من عاش بعد الموت
جو شخص موت کے بعد زندہ رہا
یعنی ایک دفعہ مر کر پھر زندہ ہوا
ظاہر ہے جب دوبارہ زندہ ہوکر جینا ممکن ہے اس سے عقیدے میں کوئی خرابی نہیں تو بعد الموت تکلم کرنے میں کیا خرابی ہے
یہ سب اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس وقت آل غیر مقلدیت  اینڈ ٹولہ والے لوگوں کا سرے سے کوئی وجود نہیں تھا
ورنہ ان سب پر کفر و عقیدے کی خرابی فتوے لگاتے

🚫ASHRAF ALI SHB : NANA MARNY K BD MITHEY LAE WALY ATRAZ KA JAWAB.🚫
👈
اعتراض کا جواب ثانی
اس لنک سے پڑھے
https://supply-truck-4.blogspot.com/2011/06/blog-post.html?m=1

قرآن میں خود اسکے نظائر موجود ہیں، چنانچہ مقتول بنی اسرائیل کا زندہ ہوکر قاتل کا پتہ بتلادینا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باذنہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنا وغیرہ اور وفات کے بعد مردوں سے ہم کلامی کے واقعات اس قدر کثیر ہیں کہ ان کو جھٹلانا تاریخ سے اعتماد ہٹانا ہے، خصوصاً جب کہ ان کے راوی علمائے کبار ہوں چنانچہ حضرت زید بن خارجہ کے بعد الموت تکلم کرنے کا واقعہ ان سب کتابوں میں مروی ہے جو صحابہٴ کرام کے احوال میں لکھی گئی ہیں اور ائمہ حدیث و روایت نے اس کو قبول کیا ہے۔ امام بخاری تک نے اس کو ذکر کیا ہے کما في الإصابة تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ?اہل قبور کی زندوں سے ہم کلامی? از مولانا محمد منظور 
نعمانی رحمة اللہ علیہ، وفتوحات صدر وغیرہ۔

جب قرآن میں اس کے نظائر موجود ہے صحابہ رض میں احوال موجود ہے امام بخاری رح نے ذکر کئے تو آل غیرمقلدیت و بریلویت کی زبانیں یہاں کیوں گونگی ہے

اور اعلیٰ حضرت احمد رضا خان نے اس موضوع پر ’اِتْیَانُ الْاَرْوَاح لِدِیَارِهَمْ بَعْدَ الرَّوَاح‘ (روحوں کا بعد وفات اپنے گھر آنا) کے عنوان سے ایک رسالہ تحریر کیا ہے
تو آل بریلویت کو چاہے رضا پر کفر کا فتویٰ لگا دے وہ تو روحوں کا بعد وفات اپنے گھر آنا کا قائل ہے

اللّه تعالیٰ ان جیسے دھونکھے بازوں اور ایمان کے لٹیروں
سے امت کی حفاظت فرمایے آمین

جواب ثانی فوٹو کی شکل

No comments:

Post a Comment