*زبان سے نیت کا مسئلہ*
اصل میں جو سب سے بڑی غلط فہمی ہے وہ ایک اصطلاح کے مشہور ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے اور وہ اصطلاح ہے زبان سے نیت
جبکہ حقیقت یہ ہیکہ فقہ کی جتنی بھی کتابیں ہیں جب آپ اس کو اٹھا کر دیکھیں گے تو ملے گا کہ نیت تو دل کے ارادے کا ہی نام ہے اور بس
🎗 تو پھر زبان سے نیت کا کیا معنی ہے
تو جناب در اصل بات یہ ہیکہ اہل سنت والجماعت کے یہاں زبان سے نیت ایک عرف اصطلاحی ہے
جسکا ظاہری مطلب ہے زبان سے نیت کرنا لیکن اس عرف اصطلاحی کا حقیقی معنی یہ نہیں ہے
دل میں کی گئی نیت کے الفاظ کو زبان سے دہرالینا اور بس
یعنی زبان سے نیت کا مطلب یہ نہیں ہیکہ نیت دو ہیں ایک دل سے اور ایک زبان سے بلکہ زبان سے نیت کا مطلب صرف اتنا ہے کہ نیت جو کہ دل کے ارادے کا نام ہے جب دل میں کی جائے تو اسکے الفاظ کو زبان سے بھی دھرالیا جائے اور بس
🎗اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان سے الفاظ دہرائے کیوں جاتے ہیں ؟
کیا محض دل میں ہی نیت کافی نہیں ہے
تو غور سے پڑھئے اور سنئے
زبان دل کی ترجمان ہوتی ہے. زبان سے الفاظ نیت دہرانے کا مقصد صرف دل کے ارادے کو مضبوط کرنا ہوتا ہے. یہی وجہ ہے کہ اھل سنت والجماعت کے نزدیک نیت کے الفاظ زبان سے دہرانا نہ فرض ہے نہ واجب ہے نہ سنت ہے بلکہ صرف مستحسن ہی ہے اور بس
🏵علامہ ابن قدامہ الحنبلی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جس چیز کی نیت کی ہے اگر اسکے الفاظ زبان سے دہرالے تو معاملہ پختہ ہوجائیگا
(دیکھیئے المغنی ج 1 ص 509)
دیکھو یہ حنبلی کی کتاب سے فتوی آگیا
🏵علامہ محمد بن عبدالرحمان الشافعی فرماتے ہیں:
کہ نیت کی جگہ تو قلب ہے لیکن کمال یہ ہیکہ جس چیز کی دل میں نیت کی ہے اسکا تلفظ کرلے
(دیکھئے الرحمة الامه ص 14)
یہ شافعی کی کتاب سے فتوی آگیا
🏵مالکیہ بھی دفع وسواس کیلئے زبان سے نیت کے الفاظ دہرانے کو محبوب مانتے ہیں
(دیکھئے الفقه المذاھب الاربعہ ج ا ص 195)
🏵دلیل نمبر:1
اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے:
اور لوگوں کو نہیں حکم دیا گیا مگر اسی بات کا کہ اللہ کی عبادت کریں اسکے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے
(سور ة البینه پارہ 30 آیت نمبر 5)
پتہ چلا اللہ کا حکم یہ ہیکہ اللہ کی عبادت کو خالص کرکے ادا کرنا چائیے لھذا جب دل میں کی گئی عبادت کی نیت کو زبان سے دہرا لیا جائیگا تو معاملہ پختہ ہوجائیگا کیونکہ زبان دل کی ترجمان ہے
🎗اسپر حدیث بھی آرہی ہے جس سے ثابت ہوگا کہ زبان دل کی ترجمان ہے
🏵دلیل نمبر :2
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
آدمی کا دل سیدھا نہیں ہوتا یہانتک کہ اس کی زبان سیدھی ہو
(مسنداحمد ج 3 ص 198)
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے معلوم ہوگیا کہ زبان سیدھی ہوتی ہے تو دل سیدھا ہوتا ہے بالفاظ دیگر زبان دل کی ترجمان ہے
یہی وجہ ہے کہ ہم دل کی نیت زبان سے دہراتے ہیں تاکہ دل سیدھا رہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول پر عمل ہوجائے
🏵دلیل نمبر: 3
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے الفاظ زبان سے کہے تھے
(صحیح مسلم اور مشکوة ص 223)
🏵دلیل نمبر: 4
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: علی جب تو نے حج فرض کیا تو کیا کہا تھا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں نےکہا تھا کہ اے اللہ میں نے اس چیز کا احرام باندھا جس کا تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا
(مشکوةص 244) بحوالہ تجلیات انور)
پتہ چلا زبان سے نیت کے الفاظ دہرانا یہ صحابہ کا عمل بھی ہے سبحان اللہ
نہ تم طعنے ہمیں دیتے نہ ہم جواب یوں دیتے
نہ کھلتے راز سر بستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتی
دوسری پوسٹ کی لنک
https://aalimuqamhaideobandwale.blogspot.com/2020/08/blog-post_1.html
No comments:
Post a Comment