Friday, 23 October 2020

اعتراض: صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اس کو پاک کرنے کے لئے ساتھ مرتبہ دھویا جائے ۔ لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک برتن کو ۳ بار دھونا ہی کافی ہے؟

 اعتراض: صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اس کو پاک کرنے کے لئے ساتھ مرتبہ دھویا جائے ۔ لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک برتن کو ۳ بار دھونا ہی کافی ہے؟ 

حدیث میں ساتھ مرتبہ دھونے کا ذکر ہے اور ابوحنیفہ ۳ مرتبہ دھونے کو کافی کہہ رہے ہیں ، بولئے یہ حدیث کی مخالفت ہے یا نہیں ؟ 

جواب:۔ کتے کے جھوٹے برتن کو دھونے سے متعلق احادیث مختلف آئی ہیں ۔ بخاری و مسلم کی بعض احادیث میں ساتھ مرتبہ دھونے کا حکم ہے اور مٹی سے مانجھنے کا حکم نہیں۔ مسلم شریف حدیث نمبر ۵۵۹ میں ساتھ بار دھونے کا حکم ہے اور پہلی بار مٹی سے مانجھنے کا حکم بھی۔ ابوداؤد حدیث نمبر ۷۳ اور دارقطنی حدیث نمبر ۱۸۳ میں سات بار دھونے کا حکم ہے اور ساتویں بار مٹی سے مانجھنے کا حکم بھی۔ سات بار دھونے اور پہلی یا آخری بار مٹی سے مانجھنے سے متعلق احادیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ لیکن حضرت عبداللہ ابن مغفل رضی اللہ عنہ سے مسلم شریف میں حدیث نمبر ۵۶۱ میں آٹھ بار دھونے اور آٹھویں بار مٹی سے مانجھنے کا حکم بھی ہے۔ پھر حضرت ابوہریرہ کا اپنا موقف بھی یہ تھا کہ تین بار دھویا جائے ۔ جیسا کہ حافظ الحدیث ابن عدی نے الکامل ، میں حضرت ابوہریرہ سے یہ مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب کتا تمہارے برتن میں منہ ڈال دے تو اس میں جو کچھ ہے گرا دو اور برتن کو ۳ بار دھوؤ ۔ ابن عدی نے حدیث مذکور کو اس کے ایک راوی ’’ حسین بن علی الکرابیسی‘‘ کی وجہ سے ضعیف منکر کہا ہے ۔ لیکن ابن عدی کا ایسا کہنا درست نہیں ۔ کیوں کہ منکر حدیث وہ ہے جس میں کسی ضعیف راوی نے ثقہ راوی کی مخالفت کی ہو اور کرابیسی ضعیف راوی نہیں بلکہ ثقہ ہیں۔ سوائے امام احمد کے ان پر کسی نے جرح نہیں کی ہے ۔ کرابسیے امام بخاری کے اساتذہ میں تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے انہیں اپنی کتاب’’ تقریب ‘‘ میں صدوق (بہت سچے) اور فاضل لکھا ہے ۔اگر صرف امام احمد یا کسی نے ایک محدث کی جرح کی وجہ سے کسی راوی کو ضعیف یا متروک کہہ دیا جائے تو خود امام بخاری کی ذات حدیث کے معاملے میں مجروح و ضعیف ٹھہرے گی، کیوں کہ امام ’ ’زیلی‘‘ نے ان پر جرح کی ہے۔ زیادہ سے زیادہ کرابیسی کی روایت کو ’’ شاذ‘‘ کہہ سکتے ہیں لیکن محدثین کے نزدیک روایت شاذہ کی صحت پر دلائل معتبر ہونے کی دلیل یہ ہے کہ خود حضرت ابوہریرہ کی روایت سند حسن کے ساتھ مروی ہے ۔
(دارقطنی حدیث نمبر ۱۹۳، ۱۹۴) مصنف عبدالرزاق جلد ۲ صفحہ ۹۷ میں حضرت عطا بن یسار کا فتویٰ موجود ہے، انہوں نے بھی ۳ مرتبہ دھونے کی اجازت دی ہے۔ اگر ۳ مرتبہ دھونے کی حدیث موجود نہ ہوتی اور سات بار دھونے کی حدیث ہوتی تو معترض کا اعتراض کسی حد تک درست ہوتا کہ تین بار دھونے کی بات حدیث سے ٹکراتی ہے۔جب ۳ بار دھونے کی حدیث بھی موجود ہے بلکہ حضرت ابوہریرہ صجس سے سات بار دھونے کی حدیث مروی ہے خود انہیں سے تین بار دھونے کی حدیث بھی مروی ہے بلکہ خود انہیں کا فتویٰ تین بار دھونے کاہے تو پتہ چلا کہ ساتھ بار دھونے کا حکم اس وقت تھا جب کہ حضور اکرم ﷺ نے شروع  شروع میں کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا ۔ بعد میں جب شکاری اور حفاظت کے کتے رکھنے کی اجازت دی تو کتے کے لئے جھوٹے برتن کو دھونے کے مسئلے میں تین بار دھونے کا حکم دے کہ حکم میں آسانی پیدا فرمادی۔ ورنہ حضرت ابوہریرہ جیسے صحابی رسول سے یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ حضور کی حدیث میں سات بار دھونے کا حکم ہو اور وہ ازخود تین بار دھونے کو کافی سمجھیں۔ 
اگر سات مرتبہ دھونا واجب ہو تو حضرت عبداللہ ابن مغفلص کی روایت کا کیا جواب ہوگا جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا لوگوں کو کتوں سے کیا لینا دینا ہے ؟ پھر بعد میں آپ نے شکاری اور حفاظتی کتے رکھنے کی اجازت د ے دی اور فرمایا : جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اس کو ساتھ بار دھوؤ اور آٹھویں بار مٹی سے مانجھوں (مسلم ج ۱ ص ۱۳۷) 
حضرت ابوہریرہ سے جو تین بار دھونے کی روایت ہے اس کے تعلق سے امام طحاوی متوفی ۳۲۱ ؁ھ تحریر فرماتے ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ ساتھ بار دھونے کی روایت منسوخ ہوگئی ہے کیوں کہ حضرت ابوہریرہ سے حسنِ ظن رکھنا ہمارے لئے ضرورت ہے ۔ ہم یہ وہم بھی نہیں کرسکتے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے سے حضور کی وہ حدیث چھوڑ دی جس میں سات بار دھونے کا ذکر ہے ۔ بلکہ یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت ابوہریرہ نے تین بار دھونے کی حدیث حضور سے سن کر تین بار دھونے کی اجازت دی ہے ۔ ورنہ تو ان کی عدالت ساقط ہوگی اور ان کی کوئی روایت وقول قابل قبول نہ ہوگا۔ 
علامہ ابن حجر مکی شافعی نے تحریر فرمایا : راوی کاابن روایت کے خلاف عمل کرنا اسکی روایت کے منسوخ ہونے پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ برتن میں کتے کہ منہ ڈالنے سے تین مرتبہ دھونے پر عمل کیا جاتا ہے جو کہ حضرت ابوہریرہص کا عمل ہے حالانکہ انہیں سے سات مرتبہ دھونے کی راویت موجود ہے ۔(الخیرات الحسان صفحہ ۲۶۱) 
اب اہل حدیث ( غیر مقلدین ) سے ایک سوال ہے کہ کتے کے جھوٹے برتن کو پاک کرنے کے لئے سات بار دھونے کا حکم قیاسی ہے یا غیر قیاسی اگر قیاسی ہے تو سوال یہ ہے کہ پیشاب اور خنزیر کا پیشاب و پاخانہ زیادہ ناپاک ہے یا کتے کا لعاب ۔ اگر کتے کا لعاب زیادہ ناپاک ہے تو اس کی کیا دلیل ہے؟ اور اگر کتے کا پیشاب و پاخانہ اور خنزیر کا پیشاب و پاخانہ کتے کے لعاب سے زیادہ نجس ہے تو بتائیے کہ کتے یا خنزیر پر کا پیشاب پاخانہ جس برتن میں گر جائے اس کو تین بار دھونے سے پاک ہوگا یا سات بار یا اس سے زیادہ ۔ اگر تین بار دھونے سے پاک ہوجائے گا تو کیوں ؟ جب کہ کتے کا لعاب اس سے کم درجے کا نجس ہے لیکن اس کو سات بار دھونا ضروری ہے اور اگر تین بار دھونے سے پاک نہیں ہوگا تو کتنی بار دھونا ہوگا اور اس کی دلیل کیا ہے ؟ اور اگر کتے کے جھوٹے برتن کو سات بار دھونے کا حکم غیر قیاسی (تعبدی) ہے تو پھر سات بار کی تخصیص کیوں؟ صحیح حدیث میں آٹھ بار دھونے اور آٹھویں بار مٹی سے مانجھنے کا حکم بھی تو ہے تو آٹھ بار دھونے اور آٹھویں بار مانجھنے کو واجب کیوں نہیں کہتے ۔ اگر کتے کے جھوٹے برتن کو تین بار دھونے کا حکم دے کر امام اعظم ابوحنیفہ نے صحیح حدیث کی مخالفت کی ہے تو صحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہل حدیث کے مولویوں کاکیا فتویٰ ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ۳ بار دھونے کو کافی قرار دیتے ہیں ؟ 
نیز حضرت عبداللہ بن مقفل رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ سے آٹھ بار دھونے کی حدیث روایت کی ہے ؟ 

No comments:

Post a Comment