نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور علم غیب
علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ یہ اہل سنت و الجماعت کا اتفاقی و اجماعی عقیدہ ہے۔ اس اجماعی عقیدے کے خلاف نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کے نظریے کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ (6-الأنعام : 50)
آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب جانتا ہوں، نہ ہی میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔
علامہ عبدالرحمن بن عبداللہ ، سہیلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فَلِذٰلكَ كَانَ الْمسِيحُ عندھم يعلم الغيب، ويخبر بما فى غد، فلما كان ھٰذَا منْ مذھب النصاري الكذبة على الله، المدعين المحال
اسی لیے نصاریٰ کے ہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام عالم الغیب تھے اور آئندہ کی باتوں کی خبر دیتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور ناممکنات کا دعویٰ کرنے والے نصاریٰ کا یہ حال تھا، تو۔۔۔“ (الروض الأنف : 404/2، عمدة القاري للعيني الحنفي : 55/1)
اسی لیے نصاریٰ کے ہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام عالم الغیب تھے اور آئندہ کی باتوں کی خبر دیتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور ناممکنات کا دعویٰ کرنے والے نصاریٰ کا یہ حال تھا، تو۔۔۔“ (الروض الأنف : 404/2، عمدة القاري للعيني الحنفي : 55/1)
سیدنا نوح علیہ السلام کا اپنی قوم سے خطاب اللہ تعالیٰ نے یوں نقل فرمایا ہے :
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ (11-هود : 31)
”میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب جانتا ہوں، نہ ہی میں فرشتہ ہوں۔
اس آیت کی تفسیر میں امام ابوجعفر نحاس (م : 338 ھ) لکھتے ہیں :
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ، أَخْبَرَ بِتَوَاضُعِه وَتَذَلُّلِهٖ لله جلَّ وَ عَزَّ، وانه لا يدعي ما ليس له ؛ من خزائن الله جل و عز، وھي إنعامه عليٰ مَنْ يشاءُ من عباده، انه لا يعلم الغيب ؛ لان الغيب لا يعلمه إلا الله جل و عز .
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ، أَخْبَرَ بِتَوَاضُعِه وَتَذَلُّلِهٖ لله جلَّ وَ عَزَّ، وانه لا يدعي ما ليس له ؛ من خزائن الله جل و عز، وھي إنعامه عليٰ مَنْ يشاءُ من عباده، انه لا يعلم الغيب ؛ لان الغيب لا يعلمه إلا الله جل و عز .
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـه
میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔“ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے دربار میں اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار کیا ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے آپ کے پاس نہیں ہیں، آپ ایسا کوئی دعویٰ بھی نہیں کرتے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتا ہے، جس بندے پر چاہے کرے۔ یہ بھی بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے، کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔“ (إعراب القرآن : 167/2)
میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔“ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے دربار میں اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار کیا ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے آپ کے پاس نہیں ہیں، آپ ایسا کوئی دعویٰ بھی نہیں کرتے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتا ہے، جس بندے پر چاہے کرے۔ یہ بھی بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے، کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔“ (إعراب القرآن : 167/2)
علامہ ابواسحاق ابراہیم بن سری، زجاج رحمہ اللہ (241-311ھ) فرماتے ہیں :
فأعلمهم النبي – صلى الله عليه وسلم – أنه لا يملك خزائِنَ الله التِي بِهَا يَرزُق وُيعْطِي، وأنه لا يعلم الْغَيْبَ فيخبِرَهُمْ بِمَا غَابَ عَنْه مِمَّا مضَى، وما سَيَكُونُ إلا بِوَحْيٍ من اللَّهِ جلَّ وعزَّ.
”نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (مشرکین) کو بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رزق و بخشش والے خزانوں کے مالک نہیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ وحی کے بغیر انہیں ان واقعات کی خبر دیں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر موجودگی میں پیش آچکے تھے یا آئندہ رونما ہونے والے تھے۔“ (معاني القرآن و إعرابه : 250/2)
مشہور مفسر ، علامہ ، ابوعبداللہ ، محمد بن احمد ، قرطبی رحمہ فرماتے ہیں:
وَلا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ (أَخْبَرَ بِتَذَلُّلِهِ وَتَوَاضُعِهِ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَنَّهُ لَا يَدَّعِي مَا لَيْسَ لَهُ مِنْ خَزَائِنِ اللَّهِ، وهي إنعامه على من يشاء مِنْ عِبَادِهِ، وَأَنَّهُ لَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ، لِأَنَّ الْغَيْبَ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ) .
وَلا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ (أَخْبَرَ بِتَذَلُّلِهِ وَتَوَاضُعِهِ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَنَّهُ لَا يَدَّعِي مَا لَيْسَ لَهُ مِنْ خَزَائِنِ اللَّهِ، وهي إنعامه على من يشاء مِنْ عِبَادِهِ، وَأَنَّهُ لَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ، لِأَنَّ الْغَيْبَ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ) .
وَلا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ ”ميں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔“ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی اور بے بسی کا تذکرہ کیا ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا دعویٰ بھی نہیں کرتے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتا ہے، جس بندے پر چاہے کرے۔ یہ بھی بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے، کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔“ (الجامع لأحکام القرآن : 27، 26/9)
معلوم ہوا کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر جو یہ فرمایا تھا :
أَمَا إِنَّهَا سَتَهُبُّ اللَّيْلَةَ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَلَا يَقُومَنَّ أَحَدٌ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ بَعِيرٌ فَلْيَعْقِلْهُ
”خبردار ! آج رات سخت آندھی چلے گی، لہٰذا کوئی بھی کھڑا نہ ہو اور جس کے پاس اونٹ ہو، اسے باندھ لے۔“ (صحيح البخاري : 1481، صحيح مسلم : 1392)
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی وحی سے فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی باخبر کر دیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آندھی آنے سے قبل ہی اس کی خبر مل گئی تھی، لیکن کوئی بھی اس خبر ملنے کی بنا پر صحابہ کرام کو عالم الغیب ثابت نہیں کرتا، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ملنے پر عالم الغیب ثابت کرنا کیسے درست ہے ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اور خود نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامین میں جابجا اس بات کی صراحت فرمادی ہے کہ علم غیب اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ ہے، اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا
احاديثِ نبويه :
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَلَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ
”کل کیا ہونے والا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔“ ( صحيح البخاري : 7379)
وَلَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ
”کل کیا ہونے والا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔“ ( صحيح البخاري : 7379)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے :
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ جَرِيرٍ الصُّورِيُّ، نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، نَا أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِنِسَاءٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فِي عُرْسٍ لَهُنَّ يُغَنِّينَ : … وَيَعْلَمُ مَا فِي غَدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ
”نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر انصار کی کچھ عورتوں کے پاس سے ہوا، جو اپنی ایک شادی میں یہ گنگنارہی تھیں۔۔۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی بات کو جانتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کل کی بات کو سواے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔“ (المعجم الأوسط للطبراني : 3401، المعجم الصغیر للطبرانی : 343، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 185/2، السنن الكبريٰ للبيھقي : 289/7، و سندہٗ حسنٌ)
اس حدیث و امام حاکم رحمہ اللہ نے ”امام مسلم کی شرط پر صحیح“ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ جَرِيرٍ الصُّورِيُّ، نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، نَا أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِنِسَاءٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فِي عُرْسٍ لَهُنَّ يُغَنِّينَ : … وَيَعْلَمُ مَا فِي غَدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ
”نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر انصار کی کچھ عورتوں کے پاس سے ہوا، جو اپنی ایک شادی میں یہ گنگنارہی تھیں۔۔۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی بات کو جانتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کل کی بات کو سواے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔“ (المعجم الأوسط للطبراني : 3401، المعجم الصغیر للطبرانی : 343، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 185/2، السنن الكبريٰ للبيھقي : 289/7، و سندہٗ حسنٌ)
اس حدیث و امام حاکم رحمہ اللہ نے ”امام مسلم کی شرط پر صحیح“ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ہیثمی کہتے ہیں :
(وَرِجَالُهٗ رِجَالُ الصَّحِيحِ) ۔ ”اس حدیث کے راوی صحیح بخاری والے ہیں۔“ ( مجمع الزوائد : 290/4)
(وَرِجَالُهٗ رِجَالُ الصَّحِيحِ) ۔ ”اس حدیث کے راوی صحیح بخاری والے ہیں۔“ ( مجمع الزوائد : 290/4)
جبرئیل علیہ السلام نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کہ قیامت کب ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سبحان الله في خمس من الغيب لا يعلمهن إلا هو ﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾ (31-لقمان : 34)
سبحان اللہ ! قیامت کا علم تو ان پانچ چیزوں میں شامل ہے، جو غیب سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ ( پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ٱیت کریمہ تلاوت فرمائی : ) ﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾ ( بلاشبہ اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ارحام میں جو کچھ ہے، وہی اسے جانتا ہے۔ کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کل کو کیا کرے گی اور کسی کو معلوم نہیں کہ کسی زمین میں اسے موت آئے گی۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہی خوب علم والا، خبر رکھنے والا ہے ) “ (مسند الإمام أحمد : 318/1، وسندہٗ حسنٌ)۔
مؤمنوں کی ماں، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ
”جو آپ کو یہ بتائے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کل ہونے والے واقعات کو جانتے تھے، اس نے جھوٹ بولا: ہے۔“ (صحیح بخاری : 4855)۔
وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ
”جو آپ کو یہ بتائے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کل ہونے والے واقعات کو جانتے تھے، اس نے جھوٹ بولا: ہے۔“ (صحیح بخاری : 4855)۔
صحیح مسلم (177) کے یہ الفاظ ہیں : وَمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ يُخْبِرُ بِمَا يَكُونُ فِي غَدٍ، فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللهِ الْفِرْيَةَ، وَاللهُ يَقُولُ : قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللهُ(النمل : 65)۔
”جس کا یہ دعویٰ ہو کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ ہونے والی باتوں کی خبر دیتے تھے، اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللهُ (النمل : 65) ( اے نبی ! آپ کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی ہستی، سوائے اللہ تعالیٰ کے، غیب نہیں جانتی)۔
مشہور صوفی ابومحمد ابن ابوحمزہ (م : 699 ھ) لکھتے ہیں :
وَفِي قَوْلِهِ وَلَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ إِشَارَةٌ إِلَى أَنْوَاعِ الزَّمَانِ وَمَا فِيهَا مِنَ الْحَوَادِثِ وَعَبَّرَ بِلَفْظِ غَدٍ لِتَكُونَ حَقِيقَتُهُ أَقْرَبَ الْأَزْمِنَةِ وَإِذَا كَانَ مَعَ قُرْبِهِ لَا يَعْلَمُ حَقِيقَةَ مَا يَقَعُ فِيهِ مَعَ إِمْكَانِ الْأَمَارَةِ وَالْعَلَامَةِ فَمَا بَعُدَ عَنْهُ أَوْلَى وَفِي قَوْلِهِ وَلَا يَعْلَمُ مَتَى تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا اللَّهُ إِشَارَةٌ إِلَى عُلُومِ الْآخِرَةِ فَإِنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَوَّلُهَا وَإِذَا نَفَى عِلْمَ الْأَقْرَبِ انْتَفَى عِلْمُ مَا بَعْدِهِ فَجَمَعَتِ الْآيَةُ أَنْوَاعَ الْغُيُوبِ وَأَزَالَتْ جَمِيعَ الدَّعَاوِي الْفَاسِدَةِ
”نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں کہ (کل کی بات کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ) مختلف زمانوں اور ان میں پیش آنے والے واقعات کی طرف اشارہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیب کی نفی کو کل کے لفظ سے تعبیر کیا ہے تاکہ اس کا اثبات قریب ترین زمانہ میں ہو۔ جب کل کے قریب ہونے اور اس میں ہونے والے واقعات کی علامات بھی موجود ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں نہیں جانتے تھے، تو دور والے واقعات کا علم تو بالاولیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں تھا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کہ (قیامت کب قائم ہوگی، سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا) میں علوم آخرت کی طرف اشارہ ہے۔ قیامت کا دن آخرت کا آغاز ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلی چیز کے علم کی نفی کردی، تو اس کے بعد والے حالات کے علم کی نفی خود بخود ہوگئی۔ اس آیت کریمہ نے غیب کی تمام اقسام کو جمع کردیا ہے اور تمام غلط دعویٰ جات کی نفی کردی ہے۔“ (بھجة النفوس و تحلّيھا بمعرفة ما لھا وما عليھا : 272/4، ملخضا، فتح الباري لابن حجر : 365/13)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۰۱۔ ۷۷۴ھ ) فرماتے ہیں :
ولهذا قال تعالى : ﴿فأما الذين فى قلوبهم زيغ﴾ ، أى ضلال وخروج عن الحق إلى الباطل ﴿فيتبعون ما تشابه منه﴾ ، أى إنما يأخذون منه بالمتشابه الذى يمكنهم أن يحرفوه إلى مقاصدهم الفاسدة، وينزلوه عليها، لاحتمال لفظه لما يصرفونه، فأما المحكم فلا نصيب لهم فيه، لأنه دامغ لهم وحجة عليهم، ولهذا قال : ﴿ابتغاء الفتنة﴾ ، أى الإضلال لأتباعهم، إيهاما لهم أنهم يحتجون على بدعتهم بالقرآن، وهذا حجة عليهم لا لهم، كما لو احتج النصارى بأن القرآن قد نطق بأن عيسى هو روح الله وكلمته القاها إلى مريم، و تركوا الاحتجاج بقوله تعالي : ﴿إن هو إلا عبد أنعمنا عليه﴾ (الزخرف : 59) وبقوله : ﴿إن مثل عيسى عند الله كمثل آدم خلقه من تراب ثم قال له كن فيكون﴾ (آل عمران: 59)، وغير ذلك من الآيات المحكمة المصرّحة بأنه خلق من مخلوقات الله وعبد ورسول من رسل الله
’’اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ گمراہ اور حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف جانے والے لوگ قرآنِ کریم کے ان متشابہ مقامات سے دلیل لیتے ہیں جن میں اپنے فاسد مقاصد کے لیے تحریف کرنا ان کے لیے ممکن ہوتا ہے اور اس کے لفظوں میں ان کے مقاصدکا احتمال ہوتا ہے۔ محکم آیات میں ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ محکم آیات ان کا سخت ردّ کرتی ہیں اور ان کے خلاف دلیل بنتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کے لیے اور ان کو یہ دھوکا دینے کے لیے کہ وہ اپنی بدعت پر قرآنی دلائل رکھتے ہیں، متشابہ آیات سے دلیل لیتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے نصاریٰ یہ دلیل دینے لگیں کہ قرآنِ کریم نے عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ اور کلمہ اللہ کہا ہے لیکن وہ اس آیت کو چھوڑ دیں جس میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام تو محض اللہ کے ایک بندے ہیں جس پر ہم نے انعام کیا ہے۔ نیز فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اللہ کے ہاں آدم علیہ السلام جیسی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مٹی سے پیدا کیا، پھر ان سے کہا: ہو جا، تو وہ ہو گئے۔۔۔ اس طرح اور بھی بہت سی محکم اور صریح آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی مخلوق، اس کے بندے اور اس کے رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔۔۔“ (تفسیر ابن کثیر:7/2)
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ (27-النمل:65)
’’کہہ دیجیے : آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب (کی بات) نہیں جانتا۔“
کیا یہ سب آیات واضح طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کی نفی نہیں کر رہیں ؟ ان سے نظر کیوں چرائی جاتی ہے ؟
آئیے اب ان لوگوں کی پیش کی گئی قرآنی آیت کی طرف آتے ہیں کہ اس کا صحیح مطلب کیا ہے
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۰۱۔ ۷۷۴ھ ) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیںوقوله : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ﴾ (72-الجن:26) ھذه كقوله تعالى : ﴿وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ﴾ (2-البقرة:255) وهكذا قال هاهنا : إنه يعلم الغيب والشهادة، وإنه لا يطلع أحد من خلقه على شىء من علمه إلا ممّا أطلعه تعالى عليه، ولهذا قال : ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾ ، وهذا يعم الرسول الملكي و البشري
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان :
﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ ﴾ (72-الجن:26) ” (وہی) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔“ اس آیت کی طرح ہے : ﴿وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ﴾ (2-البقرة:255) ”اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کو اپنے احاطے میں نہیں لا سکتے، سوائے اس بات کے جو وہ چاہے۔“ اسی طرح یہاں فرمان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب اور ظاہر چیزوں کو جاننے والا ہے۔ اس کی مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے علم میں سے کسی بھی چیز پر اطلاع نہیں پا سکتا، سوائے اس چیز کے جس پر اللہ تعالیٰ خود کسی کو مطلع کر دے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ : ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾”وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔“ اور یہ بات فرشتے رسول اور بشر رسول دونوں کو شامل ہے۔“ (تفسير ابن كثير : 249/3)
مزید فرماتے ہیں :
ثم قال : ﴿وَمَا کان اللَّهُ لِيُطلعَکُمْ عَلَی الغیب﴾ أى أنتم لا تعلمون غيب الله فى خلقه حتى يميز لكم المؤمن من المنافق، لو لا ما يعقده من الأسباب الكاشفة عن ذلك، ثم قال : ﴿ولكن الله يَجْتبى من رسله من يشاء﴾ كقوله : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ …..
’’پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ : ﴿وَمَا کان اللَّهُ لِيُطلعَکُمْ عَلَی الغیب﴾ ”اور اللہ تعالیٰ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرنے والا“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں موجود اس کا غیب نہیں جان سکتے کہ تمہیں مؤمن اور منافق کی تمیز ہو جائے۔ ہاں اگر وہ اسباب موجود ہوں جو اس غیب سے پردہ اٹھا سکتے ہیں، پھر فرمایا : ﴿ولكن الله يَجْتبى من رسله من يشاء﴾ ”لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں جسے چاہتا ہے، (اس غیب سے پردہ اٹھانے کے لیے ) اس کا انتخاب کر لیتا ہے۔“ یہ فرمان اس آیت کی طرح ہی ہے کہ : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ ”(وہی ) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔“ (تفسیر ابن کثیر: 155/2، تحت آل عمران: 179)
اس کی تائید کے لیے ایک حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں :
عن محمود بن لبيد عن رجال من بني عبد الاشهل قالوا : فقال زيد بن اللصيت وهو فى رحل عمارة، وعمارة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم : أليس محمد يزعم أنه نبي و يخبر كم عن خبر السماء، و هو لايدرى أين ناقته ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمارة عنده أن رجلا قال : هذا محمّد يخبر كم أنه نبي ويزعم أنه يخبر كم بأمرالشماء و هو لايدري أين ناقته ؟ واني و الله ما أعلم ما علمني الله و قد دلنى الله عليها، و هي فى الوادي فى الشعب كذا و كذا، قد حبسها شجرة بز مامها، فانطلقوا حتي تأتوني بها، فذهبوا، فجاؤا بھا .
’’محمود بن لبید بنو عبدالاشہل کے لوگوں سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں : زید بن اللصیت نے کہا کہ وہ عمارہ کی رہائش گاہ پر تھا اور عمارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ اس نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہیں اور تمہیں آسمان کی خبریں بتاتے ہیں، حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جبکہ عمارہ آپ کے پاس تھے کہ ایک شخص نے کہا ہے : یہ محمد تمہیں خبر دیتا ہے کہ وہ نبی ہے اور کہتا ہے کہ وہ تمہیں آسمان کی خبر دیتا ہے، حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کی اونٹنی کہاں ہے ؟ اللہ کی قسم ! میرے پاس وہی علم ہے جو اللہ نے مجھے سکھایا ہے اور اس اونٹنی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے آگاہی دے دی ہے کہ وہ فلاں وادی کی فلاں گھاٹی میں ہے۔ اس کی لگام درخت کے ساتھ اٹکی ہوئی ہے۔ جاؤ، اسے میرے پاس لے آؤ ! وہ اسے لے کر آ گئے۔“ (المغازي لابن اسحاق كما في السيرة لابن هشام:523/2، وسنده حسن، وابن اسحاق وثقه الجمھور)
یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس علم غیب نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ما كان وما يكون کو نہیں جانتے تھے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو کسی معاملے کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتا تھا
﴿تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَـذَا . . . ﴾ (11-هود:49)
” (اے نبی ! ) یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں، ہم انہیں آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ انہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔“ مستقبل کی خبر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی دی گئی جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :
﴿لَقَدْ صَدَقَ اللَّـهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّـهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا﴾ (48-الفتح:27)
’’البتہ تحقیق اللہ نے اپنے رسول کو خواب میں حق کے ساتھ سچی خبر دی کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم اپنے سر منڈاتے اور بال کترواتے ہوئے مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے، تم (کسی سے )نہ ڈرتے ہو گے، چنانچہ اللہ وہ بات جانتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے، لہٰذا اس نے اس سے پہلے ایک فتح جلد ہی عطا کر دی
علامہ احمد قسطلانی (۸۵۱۔ ۹۲۳ھ ) کہتے ہیں :
عالم الغيب فلا يطلع على غيبه أحدا من خلقه إلا من ارتضي من رسول لاطلاعه على بعض الغيب، يكون إخباره عن الغيب معجزة له .
’’اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ وہ اپنی مخلوق میں کسی کو اپنے غیب کی اطلاع نہیں دیتا، مگر جس رسول کو چاہے کسی غیب کی بات پر مطلع کر دیتا ہے اور یہ اطلاع نبی کے لیے معجزہ ہوتی ہے۔“(ارشاد الساري لشرح صحيح بخاري : 363/10)
﴿ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ﴾ [12-يوسف:102]
یہ باتیں غیب کی خبروں میں سے ہیں جس کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ آپ ان کے پاس نہ تھے جب کہ انہوں نے اپنی بات ٹھان لی تھی اور وہ فریب کرنے لگے تھے
سنی امام و مفسر ابن جریر طبری رحمہ اللہ (224۔ 310 ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں
يقول : وما كنت حاضرا عند اخوة يوسف، اذا اجمعوا، واتفقت آراؤهم، وصحت عزائمه علي ان يلقوا يوسف في غيابة الجب
’’اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ (اے نبی !) آپ اس وقت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے پاس حاضر نہیں تھے جب انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو گہرے کنویں میں پھینکنے کا پورا ارادہ کر لیا تھا اور اس بارے میں ان کی آراء متفق ہو گئی تھی اور ان کے عزائم پختہ ہو گئے تھے۔“ [تفسير الطبري : 98/13]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں
ابطات على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بعد العشاء، ثم جئت، فقال: ”اين كنت؟“، قلت: كنت استمع قراءة رجل من اصحابك، لم اسمع مثل قراءته وصوته من احد، قالت: فقام، وقمت معه حتى استمع له، ثم التفت إلي، فقال: هذا سالم مولى ابي حذيفة، الحمد لله الذي جعل في امتي مثل هذا
’’میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک رات عشاء کے بعد دیر کر دی، پھر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم کہاں تھی ؟ میں نے عرض کیا : میں آپ کے ایک صحابی کی قرأت سن رہی تھی، میں نے نہ اس کی قرأت کی طرح کوئی قرأت سنی ہے نہ اس کی آواز کی مانند کوئی آواز۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ کھڑی ہو گئی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاری کی قرأت سنی، پھر میری طرف توجہ کی اور فرمایا : یہ ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم ہیں۔ تمام تعریفیں اس اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے میری امت میں اس طرح کے لوگ پیدا کیے ہیں۔“ [سنن ابن ماجه : 1338، مسند الإمام أحمد : 165/6، مسند البرّار: 2694، المستدرك على الصحيحين للحاكم :226,225/3، و سندهٔ صحيح]
غزوۂ احد کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
أين كنت اليوم يا سعد! ’’سعد ! آج تم کہاں تھے ؟“ [المستدرك على الصحيحين للحاكم :26/3، ح: 4314، و سندهٔ حسن]
تِلْکَ مِنْ أَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوحِیہَا إِلَیْکَ مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَا أَنْتَ وَلاَ قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِینَ) (ہود 11: 49)
یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔آپ اور آپ کی قوم اس سے پہلے ان کے بارے میں علم نہیں رکھتے تھے۔صبر سے کام لیں، بلاشبہ اچھا انجام متقین ہی کے لیے ہے
اس آیت کی تفسیر میں سنی امام ابوجعفر ابن جریر طبری(310-224ھ)فرماتے ہیں
یَقُولُ تَعَالٰی ذِکْرُہ، لِنَبِیِّہٖ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہٰذِہِ الْقِصَّۃُ الَّتِي أَنْبَأْتُکَ بِہَا مِنْ قِصَّۃِ نُوحٍ وَّخَبَرِہٖ وَخَبَرِ قَوْمِہٖ (مِنْ أَنْبَآءِ الْغَیْبِ) (آل عمران 3:44)، یَقُولُ : ہِيَ مِنْ أَخْبَارِ الْغَیْبِ الَّتِي لَمْ تَشْہَدْہَا فَتَعْلَمَہَا، (نُوحِیہَا إِلَیْکَ) (ہود 11: 49)، یَقُولُ : نُوحِیہَا إِلَیْکَ نَحْنُ، فَنُعَرِّفُکَہَا (مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا) (ہود 11: 49)، الْوَحْيِ الَّذِي نُوحِیہِ إِلَیْکَ
اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ نوح اور ان کی قوم کے جس واقعے کی میں نے آپ کو خبر دی ہے وہ غیب کی ایک خبر ہے، یعنی آپ وہاں موجود نہیں تھے کہ جانتے لیکن ہم نے وہ خبریں آپ کی طرف وحی کر کے آپ کو ان کی اطلاع دے دی ہے۔ آپ اور آپ کی قوم کو اس سے پہلے اس وحی کے بارے میں علم نہ تھاجو اب ہم نے آپ کی طرف کی ہے۔”(جامع البیان عن تأویل آي القرآن : 74/12)
حافظ ابن کثیر(774-701ھ)اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں
یَقُولُ تَعَالٰی لِنَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہٰذِہِ الْقِصَّۃُ وَأَشْبَاہُہَا (مِنْ أَنْباءِ الْغَیْبِ)، یَعْنِي مِنْ أَخْبَارِ الْغُیُوبِ السَّالِفَۃِ (نُوحِیہَا إِلَیْکَ) عَلٰی وَجْہِہَا کَأَنَّکَ شَاہِدُہَا، نُوحِیہَا إِلَیْکَ، أَيْ نُعْلِمُکَ بِہَا وَحْیًا مِّنَّا إِلَیْکَ، (مَا کُنْتَ تَعْلَمُہا أَنْتَ وَلاَ قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا)، أَيْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَکَ وَلَا عِنْدَ أَحَدٍ مِّنْ قَوْمِکَ عَلِمٌ بِہَا حَتَّی یَقُولَ مَنْ یُکَذِّبُکَ : إِنَّکَ تَعَلَّمْتَہَا مِنْہُ، بَلْ أَخْبَرَکَ اللّٰہُ بِہَا
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ یہ اور اس طرح کے دیگر واقعات سابقہ ادوار کی غیبی خبریں ہیں۔ ہم نے ان کو اسی طرح آپ کی طرف وحی کر دیا ہے، گویا کہ آپ ان کے چشم دید گواہ ہوں۔ ہم نے وحی کر کے آپ کو ان کی اطلاع دے دی ہے۔ آپ اور آپ کی قوم اس سے پہلے اس بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے، لہٰذا آپ کو جھٹلانے والے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ نے اپنی قوم کے کسی فرد سے یہ واقعات سنے ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خبر آپ کو دی ہے
(تفسیر القرآن العظیم : 540/3)
نیز ایک آیت کی تفسیر میںموصوف یوں رقمطراز ہیں
وَیُخْبِرُہُمْ أَنَّہ، لَا یَقدِرُ عَلَی التَّصَرُّفِ فِي خَزَائِنِ اللّٰہِ، وَلَا یَعْلَمُ مِنَ الْغَیْبِ إِلَّا مَا أَطْلَعَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ، وَلَیْسَ ہُوَ بِمَلِکٍ مِّنَ الْمَلَائِکَۃِ، بَلْ بَشَرٌ مُّرْسَلٌ، مُؤَیَّدٌ بِالْمُعْجِزَاتِ
بی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں یہ بتا رہے ہیںکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں تصرف پر قادر نہیں، نیز وہ غیب نہیں جانتے،ہاں جس بات کی اللہ تعالیٰ انہیں اطلاع دے دیتا ہے، اس کا علم انہیں ہو جاتا ہے، نیز وہ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ ایک بشر ہیں جنہیں مبعوث کیا گیا ہے اور معجزات کے ساتھ ان کی تائید کی گئی ہے۔”(تفسیر القرآن العظیم : 532/3)
علامہ ابن القیم(751-691ھ)فرماتے ہیں :
وَأَجْمَعَ الْمُفَسِّرُونَ عَلٰی أَنَّ الْغَیْبَ ہٰہُنَا الْقُرْآنُ وَالْوَحْيُ . ”مفسرین کرام کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ اس آیت ِکریمہ میں غیب سے مراد قرآنِ کریم اور وحیِ الٰہی ہی ہے۔ (التبیان في أقسام القرآن ، ص : 197)
(بِضَنِینٍ) کی ایک قراء ت (بِظَنِینٍ) بھی ہے۔ اس کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے مشہور مفسر سعید بن جبیر تابعیفرماتے ہیں : لَیْسَ بِمُتَّہَمٍ . ”آپ وحی کو چھپانے کے مرتکب نہیں۔” (جامع البیان عن تأویل آي القرآن للطبري : 103/30، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں
: أَيْ : وَمَا مُحَمَّدٌ عَلٰی مَا أَنْزَلَہُ اللّٰہُ إِلَیْہِ بِظَنِینٍ، أَيْ بِمُتَّہَمٍ، وَمِنْہُمْ مَّنْ قَرَأَ ذٰلِکَ بِالضَّادِ، أَيْ بِبَخِیلٍ، بَلْ یَبْذُلُہ، لِکُلِّ أَحَدٍ . ”یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کو چھپاتے نہیں۔ بعض قراء نے اسے ضاد کے ساتھ پڑھا ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کو آگے پہنچانے پر بخل سے کام نہیں لیتے بلکہ ہر ایک کو پہنچاتے ہیں۔”(تفسیر القرآن العظیم : 404/6)
امام ابوجعفر ابن جریر طبری(310-224ھ)فرماتے ہیں
وَمَا مُحَمَّدٌ عَلٰی مَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ مِنْ وَحْیِہٖ وَتَنْزِیلِہٖ بِبَخِیلٍ بِتَعْلِیمُکُمُوہُ أَیُّہَا النَّاسُ، بَلْ ہُوَ حَرِیصٌ عَلٰی أَنْ تُؤْمِنُوا بِہٖ وَتَتَعَلَّمُوہُ .
”اے لوگو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی وحی اور کتاب کو تمہیں سکھانے کے حوالے سے بخیل نہیں ہیں بلکہ وہ تو اس بات کے شیدائی ہیں کہ تم اس پر ایمان لاؤ اور اسے سیکھو۔”(جامع البیان عن تأویل آي القرآن : 104/30)
علامہ ابن القیمسی حوالے سے فرماتے ہیں
وَہٰذَا مَعْنًی حَسَنٌ جِدًّا، فَإِنَّ عَادَۃَ النُّفُوسِ الشُّحُّ بِالشَّيْءِ النَّفِیسِ، وَلَا سِیَّمَا عَمَّنْ لَّا یَعْرِفُ قَدْرَہ، وَیَذُمُّہ، وَیَذُمُّ مَنْ ہُوَ عِنْدَہ،، وَمَعَ ہٰذَا فَہٰذَا الرَّسُولُ لَا یَبْخَلُ عَلَیْکُمْ بِالْوَحْيِ الَّذِي ہُوَ أَنْفَسُ شَيْءٍ وَّأَجَلُّہ
اس آیت کا یہ معنیٰ بہت عمدہ ہے(کہ آپ وحی کو آگے پہنچانے میں بخل سے کام نہیں لیتے)،کیونکہ عادتاً لوگ قیمتی چیز کو چھپاتے ہیں، خصوصاً ان لوگوں سے جو اس کی قدرو قیمت سے واقف نہیں ہوتے یا جو اس چیز کی یا اس چیز کے حامل کی اہانت کرتے ہیں۔لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ رسول تم پر اس وحی کے حوالے سے بخیل نہیںجو دنیا جہان کی سب چیزوںسے قیمتی اور عمدہ چیز ہے۔”(التبیان في أقسام القرآن، ص : 197)
مشہور لغوی فراء (م : 207ھ)کہتے ہیں: یَقُولُ : یَأْتِیہِ غَیْبُ السَّمَائِ، وَہُوَ مَنْفُوسٌ فِیہِ، فَلَا یَضُنُّ بِہٖ عَنْکُمْ . ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے نبی کے پاس آسمان سے غیب کی خبریں آتی ہیں۔ یہ وحی انہیں بہت عزیز ہوتی ہے لیکن وہ اسے تم سے چھپاتے نہیں۔”(معاني القرآن للفراء : 242/3)
لغت ِعرب کے ماہر علامہ ابوعلی فارسی(377-288ھ)کہتے ہیں
اَلْمَعْنٰی : یَأْتِیہِ الْغَیْبُ فَیُبَیِّنُہ، وَیُخْبِرُ بِہٖ وَیُظْہِرُہ،، وََلَا یَکْتُمُہ، کَمَا یَکْتُمُ الْکَاہِنُ مَا عِنْدَہ،، وَیُخْفِیہِ حَتّٰی یَأْخُذَ عَلَیْہِ حُلْوَانًا .
اس آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غیب کی خبر آتی ہے تو آپ اسے آگے بیان کر دیتے ہیں اور اس کو سب لوگوں کے سامنے ظاہر کر دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں کرتے جیسے کاہن اپنے پاس موجود خبر کو اس وقت تک چھپائے رکھتا ہے جب تک اسے اجرت نہ دے دی جائے۔”(التبیان في أقسام القرآن لابن القیّم، ص : 197)
اس آیت ِکریمہ سے واضح طور پر معلوم ہو گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب یعنی وحی پر بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔ وحی کو من وعن آگے پہنچاتے تھے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب ثابت کرنا لغوی و تفسیری ادب کے ساتھ ظلم ہے۔ صحابہ و تابعین اور ائمہ دین میں سے کسی نے اس آیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم غیب کا اثبات نہیں کیا، بلکہ پورا قرآنِ کریم پڑھنے کے باوجود اسلاف کا یہی عقیدہ رہا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ لیکن کیا کریں کہ مخلوق کے لیے علم غیب کے دعوے دار سینہ زوری سے کام لے کر ائمہ دین کے خلاف عقیدہ گھڑ لیتے ہیں اور قرآن و حدیث کی دور ازکار تاویلیں کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
یہ بات تو مسلّم ہے اور کوئی مسلمان اس سے انکاری نہیں ہو سکتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو بھی غیب کی خبر آئی وہ وحی الٰہی تھی اور وحی الٰہی کے ایک ایک لفظ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال دیانتداری سے امت تک پہنچا دیا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ایک بھی لفظ چھپانے کا الزام لگاتا ہے،وہ پکا بے ایمان اور کافر ہے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناطق بالوحی تھے تو عالم الغیب کیسے ہوئے؟ وحی ایک اطلاع ہے اور اطلاع ملنے پر غیب،غیب نہیں رہتا بلکہ خبر بن جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ سب سے علم غیب کی نفی کر دی ہے۔(النمل 27: 65)
اگر وحی الٰہی کو علم غیب قرار دینے پر اصرار ہے تو یہ وحی ہم تک بھی تو پہنچی ہے۔ ہر مسلمان اور ہر کافر یکساں اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔ کیا دنیا میں کوئی شخص ایسا رہ جائے گا جو عالم الغیب نہ ہو یا قرآن و سنت کا مطالعہ کر کے عالم الغیب بن نہ سکتا ہو؟
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں
ولا یعلم الغیب غیرہ
اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا
التمہید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید لابن عبد البر : ٢٤/١٩٥
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) یوں بیان فرماتے ہیں : وأظہر اللّٰہ من نور النبوّۃ شمسا طمست ضوء الکواکب ، وعاش السلف فیہا برہۃ طویلۃ ، ثمّ خفی بعض نور النبوّۃ ، فعرّب بعض کتب الأعاجم الفلاسفۃ من الروم والفرس والہند فی أثناء الدولۃ العبّاسیّۃ ، ثمّ طلبت کتبہم فی دولۃ المأمون من بلاد الروم ، فعرّبت ، ودرسہا الناس وظہر بسبب ذلک من البدع ما ظہر
اللہ تعالیٰ نے نبوت کے نور کا سورج ظاہر کیا جس کی روشنی سے ستاروں کی روشنی ماند پڑ گئی۔ سلف صالحین لمبا عرصہ اسی روشنی میں رہے ، پھر نور نبوت (سے لوگوں کااستفادہ)کچھ ماند پڑ گیا۔عباسی دور ِ حکومت میں روم ، فارس اور ہند کے عجمی فلاسفیوں کی کچھ کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا گیا، پھر مامون الرشید کے دور میں روم کے علاقوں سے ان عجمیوں کی کتابیں منگوا کر ان کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔لوگوں نے ان کتابوں کو پڑھا اور اسی وجہ سے وہ بدعتیں ظاہر ہوئیں جو اب لوگوں میں نظر آتی ہیں
مجموع الفتاوٰی لابن تیمیۃ : ٢/٨٤
فرمانِ باری تعالیٰ ہے
إِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ أَکَادُ أُخْفِیہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی
طٰہٰ : ١٥
لاشبہ قیامت آنے والی ہے ،میںاس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر نفس کو اس کا بدلہ دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے
فرمانِ الٰہی ہے
إِلَیْہِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِ
حم السجدۃ : ٤٧
قیامت کا علم اسی کے پاس ہے
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
إلی اللّٰہ یردّ العالمون بہ علم الساعۃ ، فإنّہ لا یعلم قیامہا غیرہ ۔
علم والے لوگ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے ہی سپرد کرتے ہیں کیونکہ قیامت کے قیام کا وقت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا
(تفسیر الطبری : ٢٥/٢)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اسی آیت کے تحت فرماتے ہیں
أی لا یعلم ذلک أحد سواہ ، کما قال محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وہو سیّد البشر لجبریل ، وہو من سادات الملائکۃ ، حین سألہ عن الساعۃ ، فقال : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) (صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) ، وکما قال تعالی : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) ، وقال جلّ جلالہ : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) ۔ ”یعنی اللہ کے سوا قیامت کا علم کسی کے پاس نہیں جیسا کہ سید الملائکہ جبریل نے سید البشر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) جس سے سوال کیا گیا ہے ، وہ اس بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔(صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) اس (کے علم)کی انتہا تو آپ کے رب کے پاس ہی ہے۔ نیز فرمایا ہے : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) وہی اسے اس کے وقت ہی پر ظاہر کرے گا۔”(تفسیر ابن کثیر : ٥/٤٨٥ )
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
وَعِنْدَہ، عِلْمُ السَّاعَۃِ
الزخرف : ٨٥
مشہور مفسر علامہ خازن (٦٧٨۔٧٤١ھ) لکھتے ہیں
ومعنی الآیۃ أنّ اللّٰہ عندہ، علم الساعۃ ، فلا یدری أحد من الناس متی تقوم الساعۃ ، فی أیّ سنۃ ، أو أیّ شہر ۔۔۔۔۔ ”اس آیت ِ کریمہ کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ قیامت کب ، کس سال یا کس مہینے میں قائم ہو گی
(لباب التاویل فی معانی التنزیل للخازن : ٥/٢٢٠)
یَسْأَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُونُ قَرِیبًا
الاحزاب : ٦٣
(اے نبی!) لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ بے شک اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ آپ کو کیا معلوم شاید کہ قیامت قریب ہو
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
یقول تعالی مخبرا لرسولہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أنّہ لا علم لہ بالساعۃ ، وإن سألہ الناس عن ذلک وأرشدہ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ عزّ وجلّ ، کما قال لہ فی سورۃ الأعراف ، وہی مکّیّۃ وہذہ مدنیّۃ ، فاستمرّ الحال فی ردّ علمہا إلی الذی یقیمہا ، لکن أخبرہ أنّہا قریبۃ ۔ ”اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے رہا ہے کہ آپ کو قیامت کا کوئی علم نہیں اگرچہ لوگ آپ سے اس بارے میں سوال کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی رہنمائی کی ہے کہ وہ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف میں یہ بات فرمائی ہے۔ وہ سورت مکی ہے اور یہ مدنی ہے ، چنانچہ قیامت کے علم کو اس کے قائم کرنے والے (اللہ)کے سپرد کرنے کا کام ہر دور میں جاری رہا ، البتہ اللہ نے یہ بتا دیا تھا کہ قیامت قریب ہے
(تفسیر ابن کثیر : ٥/٢٣٢)
اللہ رب العزت کا فرمان ہے
یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِیکُمْ إِلَّا بَغْتَۃً یَسْأَلُونَکَ کَأَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللَّہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ
الاعراف : ١٨٧
(اے نبی!) وہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کونسا ہے؟ کہہ دیجےے: اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی۔ وہ (قیامت) تمہارے پاس بس اچانک ہی آئے گی۔ وہ (لوگ) آپ سے سوال کرتے ہیں جیسے آپ اس (کے وقت) سے بخوبی واقف ہیں۔ کہہ دیجےے: اس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں
وأمّا قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، فإنّہ أمر من اللّٰہ نبیّہ محمّدا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بأن یجیب سائلیہ عن الساعۃ بأنّہ لا یعلم وقت قیامہا إلّا اللّٰہ الذی یعلم الغیب ، وأنّہ لا یظہرہا لوقتہا ، ولا یعلمہا غیرہ جلّ ذکرہ ۔ ”اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے ، وہی اس کو اس کے وقت پر ظاہر کرے گا) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ وہ قیامت کے بارے میں سوال کرنے والوں کو جواب یہ دیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، قیامت کو اس کے وقت پر ظاہر کرنے والا اور اس کا علم رکھنے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔”(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٥)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
أمر تعالی نبیّہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إذا سئل عن وقت الساعۃ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ تعالی ، فإنّہ ہو الذی یجلّیہا لوقتہا ، أی یعلم جلیّۃ أمرہا ، ومتی یکون علی التحدید ، لا یعلم ذلک إلّا ہو تعالی ، ولہذا قال : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) ۔ ”اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ جب آپ سے قیامت قائم ہونے کے وقت کے بارے میں سوال کیا جائے تو آپ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اسے اپنے وقت پر ظاہر کرے گا ، یعنی اللہ تعالیٰ ہی اس کے معاملے کی حقیقت کو اور اس بات کو کہ یہ کس معین وقت میں واقع ہو گی ، جانتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی
(تفسیر ابن کثیر : ٣/٢٤٥)
اللہ تعالیٰ کے فرمان
ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
وہ آسمان و زمین میں بھاری ہوگی۔
” کی تفسیر میں مشہور مفسر علامہ سدی رحمہ اللہ (م ١٢٧ھ)فرماتے ہیں
خفیت فی السماوات والأرض ، فلم یعلم قیامہا ، حتّی تقوم ، ملک مقرّب ولا نبیّ مرسل ۔ ”آسمانوں اور زمین میں قیامت مخفی رکھی ہے۔ کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی رسول نبی بھی اس کے قیام سے پہلے اس کے وقت ِ قیام کے بارے میں علم نہیں رکھتا۔(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٦، وسندہ، حسنٌ)
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں
وأولی ذلک عندی بالصواب قول من قال : معنی ذلک ثقلت الساعۃ فی السموات والأرض علی أہلہا أن یعرفوا وقتہا وقیامہا ، لأنّ اللّٰہ أخفی ذلک عن خلقہ ، فلم یطّلع علیہ منہم أحدًا ، وذلک أنّ اللّٰہ أخبرَ بذلک بعد قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، وأخبر بعدہ أنّہا لا تأتی إلّا بغتۃ ، فالذی ہو أولی أن یکون ما بین ذلک أیضًا خبرًا عن خفاء علمہا عن الخلق ، إذ کان ما قبلہ وما بعدہ کذلک ۔
”میرے خیال میں اس آیت کی زیادہ درست تفسیر اس شخص کی ہے جو اس کا معنیٰ یہ بیان کرتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں پر اس کے قیام کے وقت کی معرفت بھاری(مشکل) ہو گئی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی مخلوق سے مخفی رکھا ہے ، کسی کو اس پر مطلع نہیں کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ بلاشبہ قیامت کا علم میرے رب کے پاس ہے ، وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا)۔ پھر یہ خبر دی کہ قیامت اچانک ہی آئے گی۔ درست بات یہ ہے کہ اس فرمان میں قیامت کے علم کے مخلوق سے مخفی ہونے کا بھی ذکر موجود ہے کیونکہ اس کے ماقبل اور مابعد یہی ذکر ہے۔”(تفسیر الطبری : ٤/٥٨٧)
﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ ﴾ (72-الجن:26) ” (وہی) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔“ اس آیت کی طرح ہے : ﴿وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ﴾ (2-البقرة:255) ”اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کو اپنے احاطے میں نہیں لا سکتے، سوائے اس بات کے جو وہ چاہے۔“ اسی طرح یہاں فرمان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب اور ظاہر چیزوں کو جاننے والا ہے۔ اس کی مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے علم میں سے کسی بھی چیز پر اطلاع نہیں پا سکتا، سوائے اس چیز کے جس پر اللہ تعالیٰ خود کسی کو مطلع کر دے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ : ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾”وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔“ اور یہ بات فرشتے رسول اور بشر رسول دونوں کو شامل ہے۔“ (تفسير ابن كثير : 249/3)
نیز فرماتے ہیں :
أمره الله تعالى أن يفوّض الأمور إليه، وأن يخبر عن نفسه أنه لا يعلم الغيب المستقبل، ولا اطلاع له على شىء من ذلك إلا بما أطلعه الله عليه، كما قال تعالى:﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ آپ تمام امور اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں اور اپنے بارے میں خبر دے دیں کہ وہ مستقبل کے غیب کو نہیں جانتے، نہ آپ کو اس میں سے کسی چیز کی اطلاع ہے، سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دے دی ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ ” (وہی ) عالم : الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔“ (تفسير ابن كثير : 249/3)
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ آپ تمام امور اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں اور اپنے بارے میں خبر دے دیں کہ وہ مستقبل کے غیب کو نہیں جانتے، نہ آپ کو اس میں سے کسی چیز کی اطلاع ہے، سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دے دی ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ ” (وہی ) عالم : الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔“ (تفسير ابن كثير : 249/3)
مزید فرماتے ہیں :
ثم قال : ﴿وَمَا کان اللَّهُ لِيُطلعَکُمْ عَلَی الغیب﴾ أى أنتم لا تعلمون غيب الله فى خلقه حتى يميز لكم المؤمن من المنافق، لو لا ما يعقده من الأسباب الكاشفة عن ذلك، ثم قال : ﴿ولكن الله يَجْتبى من رسله من يشاء﴾ كقوله : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ …..
’’پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ : ﴿وَمَا کان اللَّهُ لِيُطلعَکُمْ عَلَی الغیب﴾ ”اور اللہ تعالیٰ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرنے والا“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں موجود اس کا غیب نہیں جان سکتے کہ تمہیں مؤمن اور منافق کی تمیز ہو جائے۔ ہاں اگر وہ اسباب موجود ہوں جو اس غیب سے پردہ اٹھا سکتے ہیں، پھر فرمایا : ﴿ولكن الله يَجْتبى من رسله من يشاء﴾ ”لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں جسے چاہتا ہے، (اس غیب سے پردہ اٹھانے کے لیے ) اس کا انتخاب کر لیتا ہے۔“ یہ فرمان اس آیت کی طرح ہی ہے کہ : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ ”(وہی ) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔“ (تفسیر ابن کثیر: 155/2، تحت آل عمران: 179)
اس کی تائید کے لیے ایک حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں :
عن محمود بن لبيد عن رجال من بني عبد الاشهل قالوا : فقال زيد بن اللصيت وهو فى رحل عمارة، وعمارة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم : أليس محمد يزعم أنه نبي و يخبر كم عن خبر السماء، و هو لايدرى أين ناقته ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمارة عنده أن رجلا قال : هذا محمّد يخبر كم أنه نبي ويزعم أنه يخبر كم بأمرالشماء و هو لايدري أين ناقته ؟ واني و الله ما أعلم ما علمني الله و قد دلنى الله عليها، و هي فى الوادي فى الشعب كذا و كذا، قد حبسها شجرة بز مامها، فانطلقوا حتي تأتوني بها، فذهبوا، فجاؤا بھا .
’’محمود بن لبید بنو عبدالاشہل کے لوگوں سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں : زید بن اللصیت نے کہا کہ وہ عمارہ کی رہائش گاہ پر تھا اور عمارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ اس نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہیں اور تمہیں آسمان کی خبریں بتاتے ہیں، حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جبکہ عمارہ آپ کے پاس تھے کہ ایک شخص نے کہا ہے : یہ محمد تمہیں خبر دیتا ہے کہ وہ نبی ہے اور کہتا ہے کہ وہ تمہیں آسمان کی خبر دیتا ہے، حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کی اونٹنی کہاں ہے ؟ اللہ کی قسم ! میرے پاس وہی علم ہے جو اللہ نے مجھے سکھایا ہے اور اس اونٹنی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے آگاہی دے دی ہے کہ وہ فلاں وادی کی فلاں گھاٹی میں ہے۔ اس کی لگام درخت کے ساتھ اٹکی ہوئی ہے۔ جاؤ، اسے میرے پاس لے آؤ ! وہ اسے لے کر آ گئے۔“ (المغازي لابن اسحاق كما في السيرة لابن هشام:523/2، وسنده حسن، وابن اسحاق وثقه الجمھور)
یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس علم غیب نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ما كان وما يكون کو نہیں جانتے تھے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو کسی معاملے کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتا تھا
﴿تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَـذَا . . . ﴾ (11-هود:49)
” (اے نبی ! ) یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں، ہم انہیں آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ انہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔“ مستقبل کی خبر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی دی گئی جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :
﴿لَقَدْ صَدَقَ اللَّـهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّـهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا﴾ (48-الفتح:27)
’’البتہ تحقیق اللہ نے اپنے رسول کو خواب میں حق کے ساتھ سچی خبر دی کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم اپنے سر منڈاتے اور بال کترواتے ہوئے مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے، تم (کسی سے )نہ ڈرتے ہو گے، چنانچہ اللہ وہ بات جانتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے، لہٰذا اس نے اس سے پہلے ایک فتح جلد ہی عطا کر دی
شارحِ صحیح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (۷۷۳۔ ۸۵۲ھ ) اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
فأعلم النبى صلى الله عليه وسلم أنه لا يعلم الغيب إلا ما علمه الله، وهو مطابق لقوله تعالى: ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾ ……
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے کہ وہ غیب نہیں جانتے، ہاں وہ بات جو اللہ تعالیٰ انہیں سکھا دے (اسے جان لیتے ہیں )۔ یہ حدیث اس فرمانِ باری تعالیٰ کی طرح ہے : ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾ ” (وہی ) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسندکرے۔“ (فتح الباري لابن حجر : 364/13)
فأعلم النبى صلى الله عليه وسلم أنه لا يعلم الغيب إلا ما علمه الله، وهو مطابق لقوله تعالى: ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾ ……
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے کہ وہ غیب نہیں جانتے، ہاں وہ بات جو اللہ تعالیٰ انہیں سکھا دے (اسے جان لیتے ہیں )۔ یہ حدیث اس فرمانِ باری تعالیٰ کی طرح ہے : ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾ ” (وہی ) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسندکرے۔“ (فتح الباري لابن حجر : 364/13)
علامہ احمد قسطلانی (۸۵۱۔ ۹۲۳ھ ) کہتے ہیں :
عالم الغيب فلا يطلع على غيبه أحدا من خلقه إلا من ارتضي من رسول لاطلاعه على بعض الغيب، يكون إخباره عن الغيب معجزة له .
’’اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ وہ اپنی مخلوق میں کسی کو اپنے غیب کی اطلاع نہیں دیتا، مگر جس رسول کو چاہے کسی غیب کی بات پر مطلع کر دیتا ہے اور یہ اطلاع نبی کے لیے معجزہ ہوتی ہے۔“(ارشاد الساري لشرح صحيح بخاري : 363/10)
﴿ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ﴾ [12-يوسف:102]
یہ باتیں غیب کی خبروں میں سے ہیں جس کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ آپ ان کے پاس نہ تھے جب کہ انہوں نے اپنی بات ٹھان لی تھی اور وہ فریب کرنے لگے تھے
سنی امام و مفسر ابن جریر طبری رحمہ اللہ (224۔ 310 ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں
يقول : وما كنت حاضرا عند اخوة يوسف، اذا اجمعوا، واتفقت آراؤهم، وصحت عزائمه علي ان يلقوا يوسف في غيابة الجب
’’اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ (اے نبی !) آپ اس وقت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے پاس حاضر نہیں تھے جب انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو گہرے کنویں میں پھینکنے کا پورا ارادہ کر لیا تھا اور اس بارے میں ان کی آراء متفق ہو گئی تھی اور ان کے عزائم پختہ ہو گئے تھے۔“ [تفسير الطبري : 98/13]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں
ابطات على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بعد العشاء، ثم جئت، فقال: ”اين كنت؟“، قلت: كنت استمع قراءة رجل من اصحابك، لم اسمع مثل قراءته وصوته من احد، قالت: فقام، وقمت معه حتى استمع له، ثم التفت إلي، فقال: هذا سالم مولى ابي حذيفة، الحمد لله الذي جعل في امتي مثل هذا
’’میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک رات عشاء کے بعد دیر کر دی، پھر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم کہاں تھی ؟ میں نے عرض کیا : میں آپ کے ایک صحابی کی قرأت سن رہی تھی، میں نے نہ اس کی قرأت کی طرح کوئی قرأت سنی ہے نہ اس کی آواز کی مانند کوئی آواز۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ کھڑی ہو گئی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاری کی قرأت سنی، پھر میری طرف توجہ کی اور فرمایا : یہ ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم ہیں۔ تمام تعریفیں اس اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے میری امت میں اس طرح کے لوگ پیدا کیے ہیں۔“ [سنن ابن ماجه : 1338، مسند الإمام أحمد : 165/6، مسند البرّار: 2694، المستدرك على الصحيحين للحاكم :226,225/3، و سندهٔ صحيح]
غزوۂ احد کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
أين كنت اليوم يا سعد! ’’سعد ! آج تم کہاں تھے ؟“ [المستدرك على الصحيحين للحاكم :26/3، ح: 4314، و سندهٔ حسن]
تِلْکَ مِنْ أَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوحِیہَا إِلَیْکَ مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَا أَنْتَ وَلاَ قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِینَ) (ہود 11: 49)
یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔آپ اور آپ کی قوم اس سے پہلے ان کے بارے میں علم نہیں رکھتے تھے۔صبر سے کام لیں، بلاشبہ اچھا انجام متقین ہی کے لیے ہے
اس آیت کی تفسیر میں سنی امام ابوجعفر ابن جریر طبری(310-224ھ)فرماتے ہیں
یَقُولُ تَعَالٰی ذِکْرُہ، لِنَبِیِّہٖ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہٰذِہِ الْقِصَّۃُ الَّتِي أَنْبَأْتُکَ بِہَا مِنْ قِصَّۃِ نُوحٍ وَّخَبَرِہٖ وَخَبَرِ قَوْمِہٖ (مِنْ أَنْبَآءِ الْغَیْبِ) (آل عمران 3:44)، یَقُولُ : ہِيَ مِنْ أَخْبَارِ الْغَیْبِ الَّتِي لَمْ تَشْہَدْہَا فَتَعْلَمَہَا، (نُوحِیہَا إِلَیْکَ) (ہود 11: 49)، یَقُولُ : نُوحِیہَا إِلَیْکَ نَحْنُ، فَنُعَرِّفُکَہَا (مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا) (ہود 11: 49)، الْوَحْيِ الَّذِي نُوحِیہِ إِلَیْکَ
اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ نوح اور ان کی قوم کے جس واقعے کی میں نے آپ کو خبر دی ہے وہ غیب کی ایک خبر ہے، یعنی آپ وہاں موجود نہیں تھے کہ جانتے لیکن ہم نے وہ خبریں آپ کی طرف وحی کر کے آپ کو ان کی اطلاع دے دی ہے۔ آپ اور آپ کی قوم کو اس سے پہلے اس وحی کے بارے میں علم نہ تھاجو اب ہم نے آپ کی طرف کی ہے۔”(جامع البیان عن تأویل آي القرآن : 74/12)
حافظ ابن کثیر(774-701ھ)اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں
یَقُولُ تَعَالٰی لِنَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہٰذِہِ الْقِصَّۃُ وَأَشْبَاہُہَا (مِنْ أَنْباءِ الْغَیْبِ)، یَعْنِي مِنْ أَخْبَارِ الْغُیُوبِ السَّالِفَۃِ (نُوحِیہَا إِلَیْکَ) عَلٰی وَجْہِہَا کَأَنَّکَ شَاہِدُہَا، نُوحِیہَا إِلَیْکَ، أَيْ نُعْلِمُکَ بِہَا وَحْیًا مِّنَّا إِلَیْکَ، (مَا کُنْتَ تَعْلَمُہا أَنْتَ وَلاَ قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا)، أَيْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَکَ وَلَا عِنْدَ أَحَدٍ مِّنْ قَوْمِکَ عَلِمٌ بِہَا حَتَّی یَقُولَ مَنْ یُکَذِّبُکَ : إِنَّکَ تَعَلَّمْتَہَا مِنْہُ، بَلْ أَخْبَرَکَ اللّٰہُ بِہَا
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ یہ اور اس طرح کے دیگر واقعات سابقہ ادوار کی غیبی خبریں ہیں۔ ہم نے ان کو اسی طرح آپ کی طرف وحی کر دیا ہے، گویا کہ آپ ان کے چشم دید گواہ ہوں۔ ہم نے وحی کر کے آپ کو ان کی اطلاع دے دی ہے۔ آپ اور آپ کی قوم اس سے پہلے اس بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے، لہٰذا آپ کو جھٹلانے والے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ نے اپنی قوم کے کسی فرد سے یہ واقعات سنے ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خبر آپ کو دی ہے
(تفسیر القرآن العظیم : 540/3)
نیز ایک آیت کی تفسیر میںموصوف یوں رقمطراز ہیں
وَیُخْبِرُہُمْ أَنَّہ، لَا یَقدِرُ عَلَی التَّصَرُّفِ فِي خَزَائِنِ اللّٰہِ، وَلَا یَعْلَمُ مِنَ الْغَیْبِ إِلَّا مَا أَطْلَعَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ، وَلَیْسَ ہُوَ بِمَلِکٍ مِّنَ الْمَلَائِکَۃِ، بَلْ بَشَرٌ مُّرْسَلٌ، مُؤَیَّدٌ بِالْمُعْجِزَاتِ
بی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں یہ بتا رہے ہیںکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں تصرف پر قادر نہیں، نیز وہ غیب نہیں جانتے،ہاں جس بات کی اللہ تعالیٰ انہیں اطلاع دے دیتا ہے، اس کا علم انہیں ہو جاتا ہے، نیز وہ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ ایک بشر ہیں جنہیں مبعوث کیا گیا ہے اور معجزات کے ساتھ ان کی تائید کی گئی ہے۔”(تفسیر القرآن العظیم : 532/3)
علامہ ابن القیم(751-691ھ)فرماتے ہیں :
وَأَجْمَعَ الْمُفَسِّرُونَ عَلٰی أَنَّ الْغَیْبَ ہٰہُنَا الْقُرْآنُ وَالْوَحْيُ . ”مفسرین کرام کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ اس آیت ِکریمہ میں غیب سے مراد قرآنِ کریم اور وحیِ الٰہی ہی ہے۔ (التبیان في أقسام القرآن ، ص : 197)
(بِضَنِینٍ) کی ایک قراء ت (بِظَنِینٍ) بھی ہے۔ اس کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے مشہور مفسر سعید بن جبیر تابعیفرماتے ہیں : لَیْسَ بِمُتَّہَمٍ . ”آپ وحی کو چھپانے کے مرتکب نہیں۔” (جامع البیان عن تأویل آي القرآن للطبري : 103/30، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں
: أَيْ : وَمَا مُحَمَّدٌ عَلٰی مَا أَنْزَلَہُ اللّٰہُ إِلَیْہِ بِظَنِینٍ، أَيْ بِمُتَّہَمٍ، وَمِنْہُمْ مَّنْ قَرَأَ ذٰلِکَ بِالضَّادِ، أَيْ بِبَخِیلٍ، بَلْ یَبْذُلُہ، لِکُلِّ أَحَدٍ . ”یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کو چھپاتے نہیں۔ بعض قراء نے اسے ضاد کے ساتھ پڑھا ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کو آگے پہنچانے پر بخل سے کام نہیں لیتے بلکہ ہر ایک کو پہنچاتے ہیں۔”(تفسیر القرآن العظیم : 404/6)
امام ابوجعفر ابن جریر طبری(310-224ھ)فرماتے ہیں
وَمَا مُحَمَّدٌ عَلٰی مَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ مِنْ وَحْیِہٖ وَتَنْزِیلِہٖ بِبَخِیلٍ بِتَعْلِیمُکُمُوہُ أَیُّہَا النَّاسُ، بَلْ ہُوَ حَرِیصٌ عَلٰی أَنْ تُؤْمِنُوا بِہٖ وَتَتَعَلَّمُوہُ .
”اے لوگو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی وحی اور کتاب کو تمہیں سکھانے کے حوالے سے بخیل نہیں ہیں بلکہ وہ تو اس بات کے شیدائی ہیں کہ تم اس پر ایمان لاؤ اور اسے سیکھو۔”(جامع البیان عن تأویل آي القرآن : 104/30)
علامہ ابن القیمسی حوالے سے فرماتے ہیں
وَہٰذَا مَعْنًی حَسَنٌ جِدًّا، فَإِنَّ عَادَۃَ النُّفُوسِ الشُّحُّ بِالشَّيْءِ النَّفِیسِ، وَلَا سِیَّمَا عَمَّنْ لَّا یَعْرِفُ قَدْرَہ، وَیَذُمُّہ، وَیَذُمُّ مَنْ ہُوَ عِنْدَہ،، وَمَعَ ہٰذَا فَہٰذَا الرَّسُولُ لَا یَبْخَلُ عَلَیْکُمْ بِالْوَحْيِ الَّذِي ہُوَ أَنْفَسُ شَيْءٍ وَّأَجَلُّہ
اس آیت کا یہ معنیٰ بہت عمدہ ہے(کہ آپ وحی کو آگے پہنچانے میں بخل سے کام نہیں لیتے)،کیونکہ عادتاً لوگ قیمتی چیز کو چھپاتے ہیں، خصوصاً ان لوگوں سے جو اس کی قدرو قیمت سے واقف نہیں ہوتے یا جو اس چیز کی یا اس چیز کے حامل کی اہانت کرتے ہیں۔لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ رسول تم پر اس وحی کے حوالے سے بخیل نہیںجو دنیا جہان کی سب چیزوںسے قیمتی اور عمدہ چیز ہے۔”(التبیان في أقسام القرآن، ص : 197)
مشہور لغوی فراء (م : 207ھ)کہتے ہیں: یَقُولُ : یَأْتِیہِ غَیْبُ السَّمَائِ، وَہُوَ مَنْفُوسٌ فِیہِ، فَلَا یَضُنُّ بِہٖ عَنْکُمْ . ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے نبی کے پاس آسمان سے غیب کی خبریں آتی ہیں۔ یہ وحی انہیں بہت عزیز ہوتی ہے لیکن وہ اسے تم سے چھپاتے نہیں۔”(معاني القرآن للفراء : 242/3)
لغت ِعرب کے ماہر علامہ ابوعلی فارسی(377-288ھ)کہتے ہیں
اَلْمَعْنٰی : یَأْتِیہِ الْغَیْبُ فَیُبَیِّنُہ، وَیُخْبِرُ بِہٖ وَیُظْہِرُہ،، وََلَا یَکْتُمُہ، کَمَا یَکْتُمُ الْکَاہِنُ مَا عِنْدَہ،، وَیُخْفِیہِ حَتّٰی یَأْخُذَ عَلَیْہِ حُلْوَانًا .
اس آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غیب کی خبر آتی ہے تو آپ اسے آگے بیان کر دیتے ہیں اور اس کو سب لوگوں کے سامنے ظاہر کر دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں کرتے جیسے کاہن اپنے پاس موجود خبر کو اس وقت تک چھپائے رکھتا ہے جب تک اسے اجرت نہ دے دی جائے۔”(التبیان في أقسام القرآن لابن القیّم، ص : 197)
اس آیت ِکریمہ سے واضح طور پر معلوم ہو گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب یعنی وحی پر بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔ وحی کو من وعن آگے پہنچاتے تھے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب ثابت کرنا لغوی و تفسیری ادب کے ساتھ ظلم ہے۔ صحابہ و تابعین اور ائمہ دین میں سے کسی نے اس آیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم غیب کا اثبات نہیں کیا، بلکہ پورا قرآنِ کریم پڑھنے کے باوجود اسلاف کا یہی عقیدہ رہا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ لیکن کیا کریں کہ مخلوق کے لیے علم غیب کے دعوے دار سینہ زوری سے کام لے کر ائمہ دین کے خلاف عقیدہ گھڑ لیتے ہیں اور قرآن و حدیث کی دور ازکار تاویلیں کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
یہ بات تو مسلّم ہے اور کوئی مسلمان اس سے انکاری نہیں ہو سکتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو بھی غیب کی خبر آئی وہ وحی الٰہی تھی اور وحی الٰہی کے ایک ایک لفظ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال دیانتداری سے امت تک پہنچا دیا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ایک بھی لفظ چھپانے کا الزام لگاتا ہے،وہ پکا بے ایمان اور کافر ہے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناطق بالوحی تھے تو عالم الغیب کیسے ہوئے؟ وحی ایک اطلاع ہے اور اطلاع ملنے پر غیب،غیب نہیں رہتا بلکہ خبر بن جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ سب سے علم غیب کی نفی کر دی ہے۔(النمل 27: 65)
اگر وحی الٰہی کو علم غیب قرار دینے پر اصرار ہے تو یہ وحی ہم تک بھی تو پہنچی ہے۔ ہر مسلمان اور ہر کافر یکساں اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔ کیا دنیا میں کوئی شخص ایسا رہ جائے گا جو عالم الغیب نہ ہو یا قرآن و سنت کا مطالعہ کر کے عالم الغیب بن نہ سکتا ہو؟
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں
ولا یعلم الغیب غیرہ
اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا
التمہید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید لابن عبد البر : ٢٤/١٩٥
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) یوں بیان فرماتے ہیں : وأظہر اللّٰہ من نور النبوّۃ شمسا طمست ضوء الکواکب ، وعاش السلف فیہا برہۃ طویلۃ ، ثمّ خفی بعض نور النبوّۃ ، فعرّب بعض کتب الأعاجم الفلاسفۃ من الروم والفرس والہند فی أثناء الدولۃ العبّاسیّۃ ، ثمّ طلبت کتبہم فی دولۃ المأمون من بلاد الروم ، فعرّبت ، ودرسہا الناس وظہر بسبب ذلک من البدع ما ظہر
اللہ تعالیٰ نے نبوت کے نور کا سورج ظاہر کیا جس کی روشنی سے ستاروں کی روشنی ماند پڑ گئی۔ سلف صالحین لمبا عرصہ اسی روشنی میں رہے ، پھر نور نبوت (سے لوگوں کااستفادہ)کچھ ماند پڑ گیا۔عباسی دور ِ حکومت میں روم ، فارس اور ہند کے عجمی فلاسفیوں کی کچھ کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا گیا، پھر مامون الرشید کے دور میں روم کے علاقوں سے ان عجمیوں کی کتابیں منگوا کر ان کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔لوگوں نے ان کتابوں کو پڑھا اور اسی وجہ سے وہ بدعتیں ظاہر ہوئیں جو اب لوگوں میں نظر آتی ہیں
مجموع الفتاوٰی لابن تیمیۃ : ٢/٨٤
فرمانِ باری تعالیٰ ہے
إِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ أَکَادُ أُخْفِیہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی
طٰہٰ : ١٥
لاشبہ قیامت آنے والی ہے ،میںاس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر نفس کو اس کا بدلہ دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے
فرمانِ الٰہی ہے
إِلَیْہِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِ
حم السجدۃ : ٤٧
قیامت کا علم اسی کے پاس ہے
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
إلی اللّٰہ یردّ العالمون بہ علم الساعۃ ، فإنّہ لا یعلم قیامہا غیرہ ۔
علم والے لوگ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے ہی سپرد کرتے ہیں کیونکہ قیامت کے قیام کا وقت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا
(تفسیر الطبری : ٢٥/٢)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اسی آیت کے تحت فرماتے ہیں
أی لا یعلم ذلک أحد سواہ ، کما قال محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وہو سیّد البشر لجبریل ، وہو من سادات الملائکۃ ، حین سألہ عن الساعۃ ، فقال : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) (صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) ، وکما قال تعالی : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) ، وقال جلّ جلالہ : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) ۔ ”یعنی اللہ کے سوا قیامت کا علم کسی کے پاس نہیں جیسا کہ سید الملائکہ جبریل نے سید البشر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) جس سے سوال کیا گیا ہے ، وہ اس بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔(صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) اس (کے علم)کی انتہا تو آپ کے رب کے پاس ہی ہے۔ نیز فرمایا ہے : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) وہی اسے اس کے وقت ہی پر ظاہر کرے گا۔”(تفسیر ابن کثیر : ٥/٤٨٥ )
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
وَعِنْدَہ، عِلْمُ السَّاعَۃِ
الزخرف : ٨٥
مشہور مفسر علامہ خازن (٦٧٨۔٧٤١ھ) لکھتے ہیں
ومعنی الآیۃ أنّ اللّٰہ عندہ، علم الساعۃ ، فلا یدری أحد من الناس متی تقوم الساعۃ ، فی أیّ سنۃ ، أو أیّ شہر ۔۔۔۔۔ ”اس آیت ِ کریمہ کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ قیامت کب ، کس سال یا کس مہینے میں قائم ہو گی
(لباب التاویل فی معانی التنزیل للخازن : ٥/٢٢٠)
یَسْأَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُونُ قَرِیبًا
الاحزاب : ٦٣
(اے نبی!) لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ بے شک اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ آپ کو کیا معلوم شاید کہ قیامت قریب ہو
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
یقول تعالی مخبرا لرسولہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أنّہ لا علم لہ بالساعۃ ، وإن سألہ الناس عن ذلک وأرشدہ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ عزّ وجلّ ، کما قال لہ فی سورۃ الأعراف ، وہی مکّیّۃ وہذہ مدنیّۃ ، فاستمرّ الحال فی ردّ علمہا إلی الذی یقیمہا ، لکن أخبرہ أنّہا قریبۃ ۔ ”اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے رہا ہے کہ آپ کو قیامت کا کوئی علم نہیں اگرچہ لوگ آپ سے اس بارے میں سوال کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی رہنمائی کی ہے کہ وہ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف میں یہ بات فرمائی ہے۔ وہ سورت مکی ہے اور یہ مدنی ہے ، چنانچہ قیامت کے علم کو اس کے قائم کرنے والے (اللہ)کے سپرد کرنے کا کام ہر دور میں جاری رہا ، البتہ اللہ نے یہ بتا دیا تھا کہ قیامت قریب ہے
(تفسیر ابن کثیر : ٥/٢٣٢)
اللہ رب العزت کا فرمان ہے
یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِیکُمْ إِلَّا بَغْتَۃً یَسْأَلُونَکَ کَأَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللَّہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ
الاعراف : ١٨٧
(اے نبی!) وہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کونسا ہے؟ کہہ دیجےے: اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی۔ وہ (قیامت) تمہارے پاس بس اچانک ہی آئے گی۔ وہ (لوگ) آپ سے سوال کرتے ہیں جیسے آپ اس (کے وقت) سے بخوبی واقف ہیں۔ کہہ دیجےے: اس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں
وأمّا قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، فإنّہ أمر من اللّٰہ نبیّہ محمّدا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بأن یجیب سائلیہ عن الساعۃ بأنّہ لا یعلم وقت قیامہا إلّا اللّٰہ الذی یعلم الغیب ، وأنّہ لا یظہرہا لوقتہا ، ولا یعلمہا غیرہ جلّ ذکرہ ۔ ”اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے ، وہی اس کو اس کے وقت پر ظاہر کرے گا) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ وہ قیامت کے بارے میں سوال کرنے والوں کو جواب یہ دیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، قیامت کو اس کے وقت پر ظاہر کرنے والا اور اس کا علم رکھنے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔”(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٥)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
أمر تعالی نبیّہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إذا سئل عن وقت الساعۃ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ تعالی ، فإنّہ ہو الذی یجلّیہا لوقتہا ، أی یعلم جلیّۃ أمرہا ، ومتی یکون علی التحدید ، لا یعلم ذلک إلّا ہو تعالی ، ولہذا قال : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) ۔ ”اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ جب آپ سے قیامت قائم ہونے کے وقت کے بارے میں سوال کیا جائے تو آپ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اسے اپنے وقت پر ظاہر کرے گا ، یعنی اللہ تعالیٰ ہی اس کے معاملے کی حقیقت کو اور اس بات کو کہ یہ کس معین وقت میں واقع ہو گی ، جانتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی
(تفسیر ابن کثیر : ٣/٢٤٥)
اللہ تعالیٰ کے فرمان
ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
وہ آسمان و زمین میں بھاری ہوگی۔
” کی تفسیر میں مشہور مفسر علامہ سدی رحمہ اللہ (م ١٢٧ھ)فرماتے ہیں
خفیت فی السماوات والأرض ، فلم یعلم قیامہا ، حتّی تقوم ، ملک مقرّب ولا نبیّ مرسل ۔ ”آسمانوں اور زمین میں قیامت مخفی رکھی ہے۔ کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی رسول نبی بھی اس کے قیام سے پہلے اس کے وقت ِ قیام کے بارے میں علم نہیں رکھتا۔(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٦، وسندہ، حسنٌ)
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں
وأولی ذلک عندی بالصواب قول من قال : معنی ذلک ثقلت الساعۃ فی السموات والأرض علی أہلہا أن یعرفوا وقتہا وقیامہا ، لأنّ اللّٰہ أخفی ذلک عن خلقہ ، فلم یطّلع علیہ منہم أحدًا ، وذلک أنّ اللّٰہ أخبرَ بذلک بعد قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، وأخبر بعدہ أنّہا لا تأتی إلّا بغتۃ ، فالذی ہو أولی أن یکون ما بین ذلک أیضًا خبرًا عن خفاء علمہا عن الخلق ، إذ کان ما قبلہ وما بعدہ کذلک ۔
”میرے خیال میں اس آیت کی زیادہ درست تفسیر اس شخص کی ہے جو اس کا معنیٰ یہ بیان کرتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں پر اس کے قیام کے وقت کی معرفت بھاری(مشکل) ہو گئی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی مخلوق سے مخفی رکھا ہے ، کسی کو اس پر مطلع نہیں کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ بلاشبہ قیامت کا علم میرے رب کے پاس ہے ، وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا)۔ پھر یہ خبر دی کہ قیامت اچانک ہی آئے گی۔ درست بات یہ ہے کہ اس فرمان میں قیامت کے علم کے مخلوق سے مخفی ہونے کا بھی ذکر موجود ہے کیونکہ اس کے ماقبل اور مابعد یہی ذکر ہے۔”(تفسیر الطبری : ٤/٥٨٧)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور علم غیب
علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ یہ اہل سنت و الجماعت کا اتفاقی و اجماعی عقیدہ ہے۔ اس اجماعی عقیدے کے خلاف نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کے نظریے کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ (6-الأنعام : 50)
آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب جانتا ہوں، نہ ہی میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔
علامہ عبدالرحمن بن عبداللہ ، سہیلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فَلِذٰلكَ كَانَ الْمسِيحُ عندھم يعلم الغيب، ويخبر بما فى غد، فلما كان ھٰذَا منْ مذھب النصاري الكذبة على الله، المدعين المحال
اسی لیے نصاریٰ کے ہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام عالم الغیب تھے اور آئندہ کی باتوں کی خبر دیتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور ناممکنات کا دعویٰ کرنے والے نصاریٰ کا یہ حال تھا، تو۔۔۔“ (الروض الأنف : 404/2، عمدة القاري للعيني الحنفي : 55/1)
اسی لیے نصاریٰ کے ہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام عالم الغیب تھے اور آئندہ کی باتوں کی خبر دیتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور ناممکنات کا دعویٰ کرنے والے نصاریٰ کا یہ حال تھا، تو۔۔۔“ (الروض الأنف : 404/2، عمدة القاري للعيني الحنفي : 55/1)
سیدنا نوح علیہ السلام کا اپنی قوم سے خطاب اللہ تعالیٰ نے یوں نقل فرمایا ہے :
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ (11-هود : 31)
”میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب جانتا ہوں، نہ ہی میں فرشتہ ہوں۔
اس آیت کی تفسیر میں امام ابوجعفر نحاس (م : 338 ھ) لکھتے ہیں :
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ، أَخْبَرَ بِتَوَاضُعِه وَتَذَلُّلِهٖ لله جلَّ وَ عَزَّ، وانه لا يدعي ما ليس له ؛ من خزائن الله جل و عز، وھي إنعامه عليٰ مَنْ يشاءُ من عباده، انه لا يعلم الغيب ؛ لان الغيب لا يعلمه إلا الله جل و عز .
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ، أَخْبَرَ بِتَوَاضُعِه وَتَذَلُّلِهٖ لله جلَّ وَ عَزَّ، وانه لا يدعي ما ليس له ؛ من خزائن الله جل و عز، وھي إنعامه عليٰ مَنْ يشاءُ من عباده، انه لا يعلم الغيب ؛ لان الغيب لا يعلمه إلا الله جل و عز .
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـه
میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔“ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے دربار میں اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار کیا ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے آپ کے پاس نہیں ہیں، آپ ایسا کوئی دعویٰ بھی نہیں کرتے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتا ہے، جس بندے پر چاہے کرے۔ یہ بھی بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے، کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔“ (إعراب القرآن : 167/2)
میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔“ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے دربار میں اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار کیا ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے آپ کے پاس نہیں ہیں، آپ ایسا کوئی دعویٰ بھی نہیں کرتے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتا ہے، جس بندے پر چاہے کرے۔ یہ بھی بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے، کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔“ (إعراب القرآن : 167/2)
علامہ ابواسحاق ابراہیم بن سری، زجاج رحمہ اللہ (241-311ھ) فرماتے ہیں :
فأعلمهم النبي – صلى الله عليه وسلم – أنه لا يملك خزائِنَ الله التِي بِهَا يَرزُق وُيعْطِي، وأنه لا يعلم الْغَيْبَ فيخبِرَهُمْ بِمَا غَابَ عَنْه مِمَّا مضَى، وما سَيَكُونُ إلا بِوَحْيٍ من اللَّهِ جلَّ وعزَّ.
”نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (مشرکین) کو بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رزق و بخشش والے خزانوں کے مالک نہیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ وحی کے بغیر انہیں ان واقعات کی خبر دیں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر موجودگی میں پیش آچکے تھے یا آئندہ رونما ہونے والے تھے۔“ (معاني القرآن و إعرابه : 250/2)
مشہور مفسر ، علامہ ، ابوعبداللہ ، محمد بن احمد ، قرطبی رحمہ فرماتے ہیں:
وَلا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ (أَخْبَرَ بِتَذَلُّلِهِ وَتَوَاضُعِهِ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَنَّهُ لَا يَدَّعِي مَا لَيْسَ لَهُ مِنْ خَزَائِنِ اللَّهِ، وهي إنعامه على من يشاء مِنْ عِبَادِهِ، وَأَنَّهُ لَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ، لِأَنَّ الْغَيْبَ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ) .
وَلا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ (أَخْبَرَ بِتَذَلُّلِهِ وَتَوَاضُعِهِ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَنَّهُ لَا يَدَّعِي مَا لَيْسَ لَهُ مِنْ خَزَائِنِ اللَّهِ، وهي إنعامه على من يشاء مِنْ عِبَادِهِ، وَأَنَّهُ لَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ، لِأَنَّ الْغَيْبَ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ) .
وَلا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ ”ميں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔“ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی اور بے بسی کا تذکرہ کیا ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا دعویٰ بھی نہیں کرتے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتا ہے، جس بندے پر چاہے کرے۔ یہ بھی بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے، کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔“ (الجامع لأحکام القرآن : 27، 26/9)
معلوم ہوا کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر جو یہ فرمایا تھا :
أَمَا إِنَّهَا سَتَهُبُّ اللَّيْلَةَ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَلَا يَقُومَنَّ أَحَدٌ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ بَعِيرٌ فَلْيَعْقِلْهُ
”خبردار ! آج رات سخت آندھی چلے گی، لہٰذا کوئی بھی کھڑا نہ ہو اور جس کے پاس اونٹ ہو، اسے باندھ لے۔“ (صحيح البخاري : 1481، صحيح مسلم : 1392)
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی وحی سے فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی باخبر کر دیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آندھی آنے سے قبل ہی اس کی خبر مل گئی تھی، لیکن کوئی بھی اس خبر ملنے کی بنا پر صحابہ کرام کو عالم الغیب ثابت نہیں کرتا، تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ملنے پر عالم الغیب ثابت کرنا کیسے درست ہے ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اور خود نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامین میں جابجا اس بات کی صراحت فرمادی ہے کہ علم غیب اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ ہے، اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا
احاديثِ نبويه :
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَلَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ
”کل کیا ہونے والا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔“ ( صحيح البخاري : 7379)
وَلَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ
”کل کیا ہونے والا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔“ ( صحيح البخاري : 7379)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے :
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ جَرِيرٍ الصُّورِيُّ، نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، نَا أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِنِسَاءٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فِي عُرْسٍ لَهُنَّ يُغَنِّينَ : … وَيَعْلَمُ مَا فِي غَدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ
”نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر انصار کی کچھ عورتوں کے پاس سے ہوا، جو اپنی ایک شادی میں یہ گنگنارہی تھیں۔۔۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی بات کو جانتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کل کی بات کو سواے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔“ (المعجم الأوسط للطبراني : 3401، المعجم الصغیر للطبرانی : 343، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 185/2، السنن الكبريٰ للبيھقي : 289/7، و سندہٗ حسنٌ)
اس حدیث و امام حاکم رحمہ اللہ نے ”امام مسلم کی شرط پر صحیح“ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ جَرِيرٍ الصُّورِيُّ، نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، نَا أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِنِسَاءٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فِي عُرْسٍ لَهُنَّ يُغَنِّينَ : … وَيَعْلَمُ مَا فِي غَدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ
”نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر انصار کی کچھ عورتوں کے پاس سے ہوا، جو اپنی ایک شادی میں یہ گنگنارہی تھیں۔۔۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی بات کو جانتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کل کی بات کو سواے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔“ (المعجم الأوسط للطبراني : 3401، المعجم الصغیر للطبرانی : 343، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 185/2، السنن الكبريٰ للبيھقي : 289/7، و سندہٗ حسنٌ)
اس حدیث و امام حاکم رحمہ اللہ نے ”امام مسلم کی شرط پر صحیح“ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ہیثمی کہتے ہیں :
(وَرِجَالُهٗ رِجَالُ الصَّحِيحِ) ۔ ”اس حدیث کے راوی صحیح بخاری والے ہیں۔“ ( مجمع الزوائد : 290/4)
(وَرِجَالُهٗ رِجَالُ الصَّحِيحِ) ۔ ”اس حدیث کے راوی صحیح بخاری والے ہیں۔“ ( مجمع الزوائد : 290/4)
جبرئیل علیہ السلام نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کہ قیامت کب ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سبحان الله في خمس من الغيب لا يعلمهن إلا هو ﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾ (31-لقمان : 34)
سبحان اللہ ! قیامت کا علم تو ان پانچ چیزوں میں شامل ہے، جو غیب سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ ( پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ٱیت کریمہ تلاوت فرمائی : ) ﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾ ( بلاشبہ اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ارحام میں جو کچھ ہے، وہی اسے جانتا ہے۔ کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کل کو کیا کرے گی اور کسی کو معلوم نہیں کہ کسی زمین میں اسے موت آئے گی۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہی خوب علم والا، خبر رکھنے والا ہے ) “ (مسند الإمام أحمد : 318/1، وسندہٗ حسنٌ)۔
مؤمنوں کی ماں، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ
”جو آپ کو یہ بتائے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کل ہونے والے واقعات کو جانتے تھے، اس نے جھوٹ بولا: ہے۔“ (صحیح بخاری : 4855)۔
وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ
”جو آپ کو یہ بتائے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کل ہونے والے واقعات کو جانتے تھے، اس نے جھوٹ بولا: ہے۔“ (صحیح بخاری : 4855)۔
صحیح مسلم (177) کے یہ الفاظ ہیں : وَمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ يُخْبِرُ بِمَا يَكُونُ فِي غَدٍ، فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللهِ الْفِرْيَةَ، وَاللهُ يَقُولُ : قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللهُ(النمل : 65)۔
”جس کا یہ دعویٰ ہو کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ ہونے والی باتوں کی خبر دیتے تھے، اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللهُ (النمل : 65) ( اے نبی ! آپ کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی ہستی، سوائے اللہ تعالیٰ کے، غیب نہیں جانتی)۔
مشہور صوفی ابومحمد ابن ابوحمزہ (م : 699 ھ) لکھتے ہیں :
وَفِي قَوْلِهِ وَلَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ إِشَارَةٌ إِلَى أَنْوَاعِ الزَّمَانِ وَمَا فِيهَا مِنَ الْحَوَادِثِ وَعَبَّرَ بِلَفْظِ غَدٍ لِتَكُونَ حَقِيقَتُهُ أَقْرَبَ الْأَزْمِنَةِ وَإِذَا كَانَ مَعَ قُرْبِهِ لَا يَعْلَمُ حَقِيقَةَ مَا يَقَعُ فِيهِ مَعَ إِمْكَانِ الْأَمَارَةِ وَالْعَلَامَةِ فَمَا بَعُدَ عَنْهُ أَوْلَى وَفِي قَوْلِهِ وَلَا يَعْلَمُ مَتَى تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا اللَّهُ إِشَارَةٌ إِلَى عُلُومِ الْآخِرَةِ فَإِنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَوَّلُهَا وَإِذَا نَفَى عِلْمَ الْأَقْرَبِ انْتَفَى عِلْمُ مَا بَعْدِهِ فَجَمَعَتِ الْآيَةُ أَنْوَاعَ الْغُيُوبِ وَأَزَالَتْ جَمِيعَ الدَّعَاوِي الْفَاسِدَةِ
”نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں کہ (کل کی بات کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ) مختلف زمانوں اور ان میں پیش آنے والے واقعات کی طرف اشارہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیب کی نفی کو کل کے لفظ سے تعبیر کیا ہے تاکہ اس کا اثبات قریب ترین زمانہ میں ہو۔ جب کل کے قریب ہونے اور اس میں ہونے والے واقعات کی علامات بھی موجود ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں نہیں جانتے تھے، تو دور والے واقعات کا علم تو بالاولیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں تھا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کہ (قیامت کب قائم ہوگی، سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا) میں علوم آخرت کی طرف اشارہ ہے۔ قیامت کا دن آخرت کا آغاز ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلی چیز کے علم کی نفی کردی، تو اس کے بعد والے حالات کے علم کی نفی خود بخود ہوگئی۔ اس آیت کریمہ نے غیب کی تمام اقسام کو جمع کردیا ہے اور تمام غلط دعویٰ جات کی نفی کردی ہے۔“ (بھجة النفوس و تحلّيھا بمعرفة ما لھا وما عليھا : 272/4، ملخضا، فتح الباري لابن حجر : 365/13)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۰۱۔ ۷۷۴ھ ) فرماتے ہیں :
ولهذا قال تعالى : ﴿فأما الذين فى قلوبهم زيغ﴾ ، أى ضلال وخروج عن الحق إلى الباطل ﴿فيتبعون ما تشابه منه﴾ ، أى إنما يأخذون منه بالمتشابه الذى يمكنهم أن يحرفوه إلى مقاصدهم الفاسدة، وينزلوه عليها، لاحتمال لفظه لما يصرفونه، فأما المحكم فلا نصيب لهم فيه، لأنه دامغ لهم وحجة عليهم، ولهذا قال : ﴿ابتغاء الفتنة﴾ ، أى الإضلال لأتباعهم، إيهاما لهم أنهم يحتجون على بدعتهم بالقرآن، وهذا حجة عليهم لا لهم، كما لو احتج النصارى بأن القرآن قد نطق بأن عيسى هو روح الله وكلمته القاها إلى مريم، و تركوا الاحتجاج بقوله تعالي : ﴿إن هو إلا عبد أنعمنا عليه﴾ (الزخرف : 59) وبقوله : ﴿إن مثل عيسى عند الله كمثل آدم خلقه من تراب ثم قال له كن فيكون﴾ (آل عمران: 59)، وغير ذلك من الآيات المحكمة المصرّحة بأنه خلق من مخلوقات الله وعبد ورسول من رسل الله
’’اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ گمراہ اور حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف جانے والے لوگ قرآنِ کریم کے ان متشابہ مقامات سے دلیل لیتے ہیں جن میں اپنے فاسد مقاصد کے لیے تحریف کرنا ان کے لیے ممکن ہوتا ہے اور اس کے لفظوں میں ان کے مقاصدکا احتمال ہوتا ہے۔ محکم آیات میں ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ محکم آیات ان کا سخت ردّ کرتی ہیں اور ان کے خلاف دلیل بنتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کے لیے اور ان کو یہ دھوکا دینے کے لیے کہ وہ اپنی بدعت پر قرآنی دلائل رکھتے ہیں، متشابہ آیات سے دلیل لیتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے نصاریٰ یہ دلیل دینے لگیں کہ قرآنِ کریم نے عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ اور کلمہ اللہ کہا ہے لیکن وہ اس آیت کو چھوڑ دیں جس میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام تو محض اللہ کے ایک بندے ہیں جس پر ہم نے انعام کیا ہے۔ نیز فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اللہ کے ہاں آدم علیہ السلام جیسی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مٹی سے پیدا کیا، پھر ان سے کہا: ہو جا، تو وہ ہو گئے۔۔۔ اس طرح اور بھی بہت سی محکم اور صریح آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی مخلوق، اس کے بندے اور اس کے رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔۔۔“ (تفسیر ابن کثیر:7/2)
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ (27-النمل:65)
’’کہہ دیجیے : آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب (کی بات) نہیں جانتا۔“
کیا یہ سب آیات واضح طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کی نفی نہیں کر رہیں ؟ ان سے نظر کیوں چرائی جاتی ہے ؟
آئیے اب ان لوگوں کی پیش کی گئی قرآنی آیت کی طرف آتے ہیں کہ اس کا صحیح مطلب کیا ہے
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۰۱۔ ۷۷۴ھ ) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیںوقوله : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ﴾ (72-الجن:26) ھذه كقوله تعالى : ﴿وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ﴾ (2-البقرة:255) وهكذا قال هاهنا : إنه يعلم الغيب والشهادة، وإنه لا يطلع أحد من خلقه على شىء من علمه إلا ممّا أطلعه تعالى عليه، ولهذا قال : ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾ ، وهذا يعم الرسول الملكي و البشري
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان :
﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ ﴾ (72-الجن:26) ” (وہی) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔“ اس آیت کی طرح ہے : ﴿وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ﴾ (2-البقرة:255) ”اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کو اپنے احاطے میں نہیں لا سکتے، سوائے اس بات کے جو وہ چاہے۔“ اسی طرح یہاں فرمان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب اور ظاہر چیزوں کو جاننے والا ہے۔ اس کی مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے علم میں سے کسی بھی چیز پر اطلاع نہیں پا سکتا، سوائے اس چیز کے جس پر اللہ تعالیٰ خود کسی کو مطلع کر دے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ : ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾”وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔“ اور یہ بات فرشتے رسول اور بشر رسول دونوں کو شامل ہے۔“ (تفسير ابن كثير : 249/3)
مزید فرماتے ہیں :
ثم قال : ﴿وَمَا کان اللَّهُ لِيُطلعَکُمْ عَلَی الغیب﴾ أى أنتم لا تعلمون غيب الله فى خلقه حتى يميز لكم المؤمن من المنافق، لو لا ما يعقده من الأسباب الكاشفة عن ذلك، ثم قال : ﴿ولكن الله يَجْتبى من رسله من يشاء﴾ كقوله : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ …..
’’پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ : ﴿وَمَا کان اللَّهُ لِيُطلعَکُمْ عَلَی الغیب﴾ ”اور اللہ تعالیٰ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرنے والا“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں موجود اس کا غیب نہیں جان سکتے کہ تمہیں مؤمن اور منافق کی تمیز ہو جائے۔ ہاں اگر وہ اسباب موجود ہوں جو اس غیب سے پردہ اٹھا سکتے ہیں، پھر فرمایا : ﴿ولكن الله يَجْتبى من رسله من يشاء﴾ ”لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں جسے چاہتا ہے، (اس غیب سے پردہ اٹھانے کے لیے ) اس کا انتخاب کر لیتا ہے۔“ یہ فرمان اس آیت کی طرح ہی ہے کہ : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ ”(وہی ) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔“ (تفسیر ابن کثیر: 155/2، تحت آل عمران: 179)
اس کی تائید کے لیے ایک حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں :
عن محمود بن لبيد عن رجال من بني عبد الاشهل قالوا : فقال زيد بن اللصيت وهو فى رحل عمارة، وعمارة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم : أليس محمد يزعم أنه نبي و يخبر كم عن خبر السماء، و هو لايدرى أين ناقته ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمارة عنده أن رجلا قال : هذا محمّد يخبر كم أنه نبي ويزعم أنه يخبر كم بأمرالشماء و هو لايدري أين ناقته ؟ واني و الله ما أعلم ما علمني الله و قد دلنى الله عليها، و هي فى الوادي فى الشعب كذا و كذا، قد حبسها شجرة بز مامها، فانطلقوا حتي تأتوني بها، فذهبوا، فجاؤا بھا .
’’محمود بن لبید بنو عبدالاشہل کے لوگوں سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں : زید بن اللصیت نے کہا کہ وہ عمارہ کی رہائش گاہ پر تھا اور عمارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ اس نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہیں اور تمہیں آسمان کی خبریں بتاتے ہیں، حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جبکہ عمارہ آپ کے پاس تھے کہ ایک شخص نے کہا ہے : یہ محمد تمہیں خبر دیتا ہے کہ وہ نبی ہے اور کہتا ہے کہ وہ تمہیں آسمان کی خبر دیتا ہے، حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کی اونٹنی کہاں ہے ؟ اللہ کی قسم ! میرے پاس وہی علم ہے جو اللہ نے مجھے سکھایا ہے اور اس اونٹنی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے آگاہی دے دی ہے کہ وہ فلاں وادی کی فلاں گھاٹی میں ہے۔ اس کی لگام درخت کے ساتھ اٹکی ہوئی ہے۔ جاؤ، اسے میرے پاس لے آؤ ! وہ اسے لے کر آ گئے۔“ (المغازي لابن اسحاق كما في السيرة لابن هشام:523/2، وسنده حسن، وابن اسحاق وثقه الجمھور)
یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس علم غیب نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ما كان وما يكون کو نہیں جانتے تھے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو کسی معاملے کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتا تھا
﴿تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَـذَا . . . ﴾ (11-هود:49)
” (اے نبی ! ) یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں، ہم انہیں آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ انہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔“ مستقبل کی خبر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی دی گئی جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :
﴿لَقَدْ صَدَقَ اللَّـهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّـهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا﴾ (48-الفتح:27)
’’البتہ تحقیق اللہ نے اپنے رسول کو خواب میں حق کے ساتھ سچی خبر دی کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم اپنے سر منڈاتے اور بال کترواتے ہوئے مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے، تم (کسی سے )نہ ڈرتے ہو گے، چنانچہ اللہ وہ بات جانتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے، لہٰذا اس نے اس سے پہلے ایک فتح جلد ہی عطا کر دی
علامہ احمد قسطلانی (۸۵۱۔ ۹۲۳ھ ) کہتے ہیں :
عالم الغيب فلا يطلع على غيبه أحدا من خلقه إلا من ارتضي من رسول لاطلاعه على بعض الغيب، يكون إخباره عن الغيب معجزة له .
’’اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ وہ اپنی مخلوق میں کسی کو اپنے غیب کی اطلاع نہیں دیتا، مگر جس رسول کو چاہے کسی غیب کی بات پر مطلع کر دیتا ہے اور یہ اطلاع نبی کے لیے معجزہ ہوتی ہے۔“(ارشاد الساري لشرح صحيح بخاري : 363/10)
﴿ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ﴾ [12-يوسف:102]
یہ باتیں غیب کی خبروں میں سے ہیں جس کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ آپ ان کے پاس نہ تھے جب کہ انہوں نے اپنی بات ٹھان لی تھی اور وہ فریب کرنے لگے تھے
سنی امام و مفسر ابن جریر طبری رحمہ اللہ (224۔ 310 ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں
يقول : وما كنت حاضرا عند اخوة يوسف، اذا اجمعوا، واتفقت آراؤهم، وصحت عزائمه علي ان يلقوا يوسف في غيابة الجب
’’اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ (اے نبی !) آپ اس وقت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے پاس حاضر نہیں تھے جب انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو گہرے کنویں میں پھینکنے کا پورا ارادہ کر لیا تھا اور اس بارے میں ان کی آراء متفق ہو گئی تھی اور ان کے عزائم پختہ ہو گئے تھے۔“ [تفسير الطبري : 98/13]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں
ابطات على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بعد العشاء، ثم جئت، فقال: ”اين كنت؟“، قلت: كنت استمع قراءة رجل من اصحابك، لم اسمع مثل قراءته وصوته من احد، قالت: فقام، وقمت معه حتى استمع له، ثم التفت إلي، فقال: هذا سالم مولى ابي حذيفة، الحمد لله الذي جعل في امتي مثل هذا
’’میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک رات عشاء کے بعد دیر کر دی، پھر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم کہاں تھی ؟ میں نے عرض کیا : میں آپ کے ایک صحابی کی قرأت سن رہی تھی، میں نے نہ اس کی قرأت کی طرح کوئی قرأت سنی ہے نہ اس کی آواز کی مانند کوئی آواز۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ کھڑی ہو گئی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاری کی قرأت سنی، پھر میری طرف توجہ کی اور فرمایا : یہ ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم ہیں۔ تمام تعریفیں اس اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے میری امت میں اس طرح کے لوگ پیدا کیے ہیں۔“ [سنن ابن ماجه : 1338، مسند الإمام أحمد : 165/6، مسند البرّار: 2694، المستدرك على الصحيحين للحاكم :226,225/3، و سندهٔ صحيح]
غزوۂ احد کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
أين كنت اليوم يا سعد! ’’سعد ! آج تم کہاں تھے ؟“ [المستدرك على الصحيحين للحاكم :26/3، ح: 4314، و سندهٔ حسن]
تِلْکَ مِنْ أَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوحِیہَا إِلَیْکَ مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَا أَنْتَ وَلاَ قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِینَ) (ہود 11: 49)
یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔آپ اور آپ کی قوم اس سے پہلے ان کے بارے میں علم نہیں رکھتے تھے۔صبر سے کام لیں، بلاشبہ اچھا انجام متقین ہی کے لیے ہے
اس آیت کی تفسیر میں سنی امام ابوجعفر ابن جریر طبری(310-224ھ)فرماتے ہیں
یَقُولُ تَعَالٰی ذِکْرُہ، لِنَبِیِّہٖ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہٰذِہِ الْقِصَّۃُ الَّتِي أَنْبَأْتُکَ بِہَا مِنْ قِصَّۃِ نُوحٍ وَّخَبَرِہٖ وَخَبَرِ قَوْمِہٖ (مِنْ أَنْبَآءِ الْغَیْبِ) (آل عمران 3:44)، یَقُولُ : ہِيَ مِنْ أَخْبَارِ الْغَیْبِ الَّتِي لَمْ تَشْہَدْہَا فَتَعْلَمَہَا، (نُوحِیہَا إِلَیْکَ) (ہود 11: 49)، یَقُولُ : نُوحِیہَا إِلَیْکَ نَحْنُ، فَنُعَرِّفُکَہَا (مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا) (ہود 11: 49)، الْوَحْيِ الَّذِي نُوحِیہِ إِلَیْکَ
اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ نوح اور ان کی قوم کے جس واقعے کی میں نے آپ کو خبر دی ہے وہ غیب کی ایک خبر ہے، یعنی آپ وہاں موجود نہیں تھے کہ جانتے لیکن ہم نے وہ خبریں آپ کی طرف وحی کر کے آپ کو ان کی اطلاع دے دی ہے۔ آپ اور آپ کی قوم کو اس سے پہلے اس وحی کے بارے میں علم نہ تھاجو اب ہم نے آپ کی طرف کی ہے۔”(جامع البیان عن تأویل آي القرآن : 74/12)
حافظ ابن کثیر(774-701ھ)اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں
یَقُولُ تَعَالٰی لِنَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہٰذِہِ الْقِصَّۃُ وَأَشْبَاہُہَا (مِنْ أَنْباءِ الْغَیْبِ)، یَعْنِي مِنْ أَخْبَارِ الْغُیُوبِ السَّالِفَۃِ (نُوحِیہَا إِلَیْکَ) عَلٰی وَجْہِہَا کَأَنَّکَ شَاہِدُہَا، نُوحِیہَا إِلَیْکَ، أَيْ نُعْلِمُکَ بِہَا وَحْیًا مِّنَّا إِلَیْکَ، (مَا کُنْتَ تَعْلَمُہا أَنْتَ وَلاَ قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا)، أَيْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَکَ وَلَا عِنْدَ أَحَدٍ مِّنْ قَوْمِکَ عَلِمٌ بِہَا حَتَّی یَقُولَ مَنْ یُکَذِّبُکَ : إِنَّکَ تَعَلَّمْتَہَا مِنْہُ، بَلْ أَخْبَرَکَ اللّٰہُ بِہَا
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ یہ اور اس طرح کے دیگر واقعات سابقہ ادوار کی غیبی خبریں ہیں۔ ہم نے ان کو اسی طرح آپ کی طرف وحی کر دیا ہے، گویا کہ آپ ان کے چشم دید گواہ ہوں۔ ہم نے وحی کر کے آپ کو ان کی اطلاع دے دی ہے۔ آپ اور آپ کی قوم اس سے پہلے اس بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے، لہٰذا آپ کو جھٹلانے والے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ نے اپنی قوم کے کسی فرد سے یہ واقعات سنے ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خبر آپ کو دی ہے
(تفسیر القرآن العظیم : 540/3)
نیز ایک آیت کی تفسیر میںموصوف یوں رقمطراز ہیں
وَیُخْبِرُہُمْ أَنَّہ، لَا یَقدِرُ عَلَی التَّصَرُّفِ فِي خَزَائِنِ اللّٰہِ، وَلَا یَعْلَمُ مِنَ الْغَیْبِ إِلَّا مَا أَطْلَعَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ، وَلَیْسَ ہُوَ بِمَلِکٍ مِّنَ الْمَلَائِکَۃِ، بَلْ بَشَرٌ مُّرْسَلٌ، مُؤَیَّدٌ بِالْمُعْجِزَاتِ
بی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں یہ بتا رہے ہیںکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں تصرف پر قادر نہیں، نیز وہ غیب نہیں جانتے،ہاں جس بات کی اللہ تعالیٰ انہیں اطلاع دے دیتا ہے، اس کا علم انہیں ہو جاتا ہے، نیز وہ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ ایک بشر ہیں جنہیں مبعوث کیا گیا ہے اور معجزات کے ساتھ ان کی تائید کی گئی ہے۔”(تفسیر القرآن العظیم : 532/3)
علامہ ابن القیم(751-691ھ)فرماتے ہیں :
وَأَجْمَعَ الْمُفَسِّرُونَ عَلٰی أَنَّ الْغَیْبَ ہٰہُنَا الْقُرْآنُ وَالْوَحْيُ . ”مفسرین کرام کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ اس آیت ِکریمہ میں غیب سے مراد قرآنِ کریم اور وحیِ الٰہی ہی ہے۔ (التبیان في أقسام القرآن ، ص : 197)
(بِضَنِینٍ) کی ایک قراء ت (بِظَنِینٍ) بھی ہے۔ اس کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے مشہور مفسر سعید بن جبیر تابعیفرماتے ہیں : لَیْسَ بِمُتَّہَمٍ . ”آپ وحی کو چھپانے کے مرتکب نہیں۔” (جامع البیان عن تأویل آي القرآن للطبري : 103/30، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں
: أَيْ : وَمَا مُحَمَّدٌ عَلٰی مَا أَنْزَلَہُ اللّٰہُ إِلَیْہِ بِظَنِینٍ، أَيْ بِمُتَّہَمٍ، وَمِنْہُمْ مَّنْ قَرَأَ ذٰلِکَ بِالضَّادِ، أَيْ بِبَخِیلٍ، بَلْ یَبْذُلُہ، لِکُلِّ أَحَدٍ . ”یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کو چھپاتے نہیں۔ بعض قراء نے اسے ضاد کے ساتھ پڑھا ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کو آگے پہنچانے پر بخل سے کام نہیں لیتے بلکہ ہر ایک کو پہنچاتے ہیں۔”(تفسیر القرآن العظیم : 404/6)
امام ابوجعفر ابن جریر طبری(310-224ھ)فرماتے ہیں
وَمَا مُحَمَّدٌ عَلٰی مَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ مِنْ وَحْیِہٖ وَتَنْزِیلِہٖ بِبَخِیلٍ بِتَعْلِیمُکُمُوہُ أَیُّہَا النَّاسُ، بَلْ ہُوَ حَرِیصٌ عَلٰی أَنْ تُؤْمِنُوا بِہٖ وَتَتَعَلَّمُوہُ .
”اے لوگو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی وحی اور کتاب کو تمہیں سکھانے کے حوالے سے بخیل نہیں ہیں بلکہ وہ تو اس بات کے شیدائی ہیں کہ تم اس پر ایمان لاؤ اور اسے سیکھو۔”(جامع البیان عن تأویل آي القرآن : 104/30)
علامہ ابن القیمسی حوالے سے فرماتے ہیں
وَہٰذَا مَعْنًی حَسَنٌ جِدًّا، فَإِنَّ عَادَۃَ النُّفُوسِ الشُّحُّ بِالشَّيْءِ النَّفِیسِ، وَلَا سِیَّمَا عَمَّنْ لَّا یَعْرِفُ قَدْرَہ، وَیَذُمُّہ، وَیَذُمُّ مَنْ ہُوَ عِنْدَہ،، وَمَعَ ہٰذَا فَہٰذَا الرَّسُولُ لَا یَبْخَلُ عَلَیْکُمْ بِالْوَحْيِ الَّذِي ہُوَ أَنْفَسُ شَيْءٍ وَّأَجَلُّہ
اس آیت کا یہ معنیٰ بہت عمدہ ہے(کہ آپ وحی کو آگے پہنچانے میں بخل سے کام نہیں لیتے)،کیونکہ عادتاً لوگ قیمتی چیز کو چھپاتے ہیں، خصوصاً ان لوگوں سے جو اس کی قدرو قیمت سے واقف نہیں ہوتے یا جو اس چیز کی یا اس چیز کے حامل کی اہانت کرتے ہیں۔لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ رسول تم پر اس وحی کے حوالے سے بخیل نہیںجو دنیا جہان کی سب چیزوںسے قیمتی اور عمدہ چیز ہے۔”(التبیان في أقسام القرآن، ص : 197)
مشہور لغوی فراء (م : 207ھ)کہتے ہیں: یَقُولُ : یَأْتِیہِ غَیْبُ السَّمَائِ، وَہُوَ مَنْفُوسٌ فِیہِ، فَلَا یَضُنُّ بِہٖ عَنْکُمْ . ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے نبی کے پاس آسمان سے غیب کی خبریں آتی ہیں۔ یہ وحی انہیں بہت عزیز ہوتی ہے لیکن وہ اسے تم سے چھپاتے نہیں۔”(معاني القرآن للفراء : 242/3)
لغت ِعرب کے ماہر علامہ ابوعلی فارسی(377-288ھ)کہتے ہیں
اَلْمَعْنٰی : یَأْتِیہِ الْغَیْبُ فَیُبَیِّنُہ، وَیُخْبِرُ بِہٖ وَیُظْہِرُہ،، وََلَا یَکْتُمُہ، کَمَا یَکْتُمُ الْکَاہِنُ مَا عِنْدَہ،، وَیُخْفِیہِ حَتّٰی یَأْخُذَ عَلَیْہِ حُلْوَانًا .
اس آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غیب کی خبر آتی ہے تو آپ اسے آگے بیان کر دیتے ہیں اور اس کو سب لوگوں کے سامنے ظاہر کر دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں کرتے جیسے کاہن اپنے پاس موجود خبر کو اس وقت تک چھپائے رکھتا ہے جب تک اسے اجرت نہ دے دی جائے۔”(التبیان في أقسام القرآن لابن القیّم، ص : 197)
اس آیت ِکریمہ سے واضح طور پر معلوم ہو گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب یعنی وحی پر بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔ وحی کو من وعن آگے پہنچاتے تھے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب ثابت کرنا لغوی و تفسیری ادب کے ساتھ ظلم ہے۔ صحابہ و تابعین اور ائمہ دین میں سے کسی نے اس آیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم غیب کا اثبات نہیں کیا، بلکہ پورا قرآنِ کریم پڑھنے کے باوجود اسلاف کا یہی عقیدہ رہا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ لیکن کیا کریں کہ مخلوق کے لیے علم غیب کے دعوے دار سینہ زوری سے کام لے کر ائمہ دین کے خلاف عقیدہ گھڑ لیتے ہیں اور قرآن و حدیث کی دور ازکار تاویلیں کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
یہ بات تو مسلّم ہے اور کوئی مسلمان اس سے انکاری نہیں ہو سکتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو بھی غیب کی خبر آئی وہ وحی الٰہی تھی اور وحی الٰہی کے ایک ایک لفظ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال دیانتداری سے امت تک پہنچا دیا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ایک بھی لفظ چھپانے کا الزام لگاتا ہے،وہ پکا بے ایمان اور کافر ہے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناطق بالوحی تھے تو عالم الغیب کیسے ہوئے؟ وحی ایک اطلاع ہے اور اطلاع ملنے پر غیب،غیب نہیں رہتا بلکہ خبر بن جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ سب سے علم غیب کی نفی کر دی ہے۔(النمل 27: 65)
اگر وحی الٰہی کو علم غیب قرار دینے پر اصرار ہے تو یہ وحی ہم تک بھی تو پہنچی ہے۔ ہر مسلمان اور ہر کافر یکساں اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔ کیا دنیا میں کوئی شخص ایسا رہ جائے گا جو عالم الغیب نہ ہو یا قرآن و سنت کا مطالعہ کر کے عالم الغیب بن نہ سکتا ہو؟
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں
ولا یعلم الغیب غیرہ
اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا
التمہید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید لابن عبد البر : ٢٤/١٩٥
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) یوں بیان فرماتے ہیں : وأظہر اللّٰہ من نور النبوّۃ شمسا طمست ضوء الکواکب ، وعاش السلف فیہا برہۃ طویلۃ ، ثمّ خفی بعض نور النبوّۃ ، فعرّب بعض کتب الأعاجم الفلاسفۃ من الروم والفرس والہند فی أثناء الدولۃ العبّاسیّۃ ، ثمّ طلبت کتبہم فی دولۃ المأمون من بلاد الروم ، فعرّبت ، ودرسہا الناس وظہر بسبب ذلک من البدع ما ظہر
اللہ تعالیٰ نے نبوت کے نور کا سورج ظاہر کیا جس کی روشنی سے ستاروں کی روشنی ماند پڑ گئی۔ سلف صالحین لمبا عرصہ اسی روشنی میں رہے ، پھر نور نبوت (سے لوگوں کااستفادہ)کچھ ماند پڑ گیا۔عباسی دور ِ حکومت میں روم ، فارس اور ہند کے عجمی فلاسفیوں کی کچھ کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا گیا، پھر مامون الرشید کے دور میں روم کے علاقوں سے ان عجمیوں کی کتابیں منگوا کر ان کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔لوگوں نے ان کتابوں کو پڑھا اور اسی وجہ سے وہ بدعتیں ظاہر ہوئیں جو اب لوگوں میں نظر آتی ہیں
مجموع الفتاوٰی لابن تیمیۃ : ٢/٨٤
فرمانِ باری تعالیٰ ہے
إِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ أَکَادُ أُخْفِیہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی
طٰہٰ : ١٥
لاشبہ قیامت آنے والی ہے ،میںاس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر نفس کو اس کا بدلہ دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے
فرمانِ الٰہی ہے
إِلَیْہِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِ
حم السجدۃ : ٤٧
قیامت کا علم اسی کے پاس ہے
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
إلی اللّٰہ یردّ العالمون بہ علم الساعۃ ، فإنّہ لا یعلم قیامہا غیرہ ۔
علم والے لوگ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے ہی سپرد کرتے ہیں کیونکہ قیامت کے قیام کا وقت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا
(تفسیر الطبری : ٢٥/٢)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اسی آیت کے تحت فرماتے ہیں
أی لا یعلم ذلک أحد سواہ ، کما قال محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وہو سیّد البشر لجبریل ، وہو من سادات الملائکۃ ، حین سألہ عن الساعۃ ، فقال : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) (صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) ، وکما قال تعالی : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) ، وقال جلّ جلالہ : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) ۔ ”یعنی اللہ کے سوا قیامت کا علم کسی کے پاس نہیں جیسا کہ سید الملائکہ جبریل نے سید البشر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) جس سے سوال کیا گیا ہے ، وہ اس بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔(صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) اس (کے علم)کی انتہا تو آپ کے رب کے پاس ہی ہے۔ نیز فرمایا ہے : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) وہی اسے اس کے وقت ہی پر ظاہر کرے گا۔”(تفسیر ابن کثیر : ٥/٤٨٥ )
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
وَعِنْدَہ، عِلْمُ السَّاعَۃِ
الزخرف : ٨٥
مشہور مفسر علامہ خازن (٦٧٨۔٧٤١ھ) لکھتے ہیں
ومعنی الآیۃ أنّ اللّٰہ عندہ، علم الساعۃ ، فلا یدری أحد من الناس متی تقوم الساعۃ ، فی أیّ سنۃ ، أو أیّ شہر ۔۔۔۔۔ ”اس آیت ِ کریمہ کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ قیامت کب ، کس سال یا کس مہینے میں قائم ہو گی
(لباب التاویل فی معانی التنزیل للخازن : ٥/٢٢٠)
یَسْأَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُونُ قَرِیبًا
الاحزاب : ٦٣
(اے نبی!) لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ بے شک اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ آپ کو کیا معلوم شاید کہ قیامت قریب ہو
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
یقول تعالی مخبرا لرسولہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أنّہ لا علم لہ بالساعۃ ، وإن سألہ الناس عن ذلک وأرشدہ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ عزّ وجلّ ، کما قال لہ فی سورۃ الأعراف ، وہی مکّیّۃ وہذہ مدنیّۃ ، فاستمرّ الحال فی ردّ علمہا إلی الذی یقیمہا ، لکن أخبرہ أنّہا قریبۃ ۔ ”اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے رہا ہے کہ آپ کو قیامت کا کوئی علم نہیں اگرچہ لوگ آپ سے اس بارے میں سوال کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی رہنمائی کی ہے کہ وہ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف میں یہ بات فرمائی ہے۔ وہ سورت مکی ہے اور یہ مدنی ہے ، چنانچہ قیامت کے علم کو اس کے قائم کرنے والے (اللہ)کے سپرد کرنے کا کام ہر دور میں جاری رہا ، البتہ اللہ نے یہ بتا دیا تھا کہ قیامت قریب ہے
(تفسیر ابن کثیر : ٥/٢٣٢)
اللہ رب العزت کا فرمان ہے
یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِیکُمْ إِلَّا بَغْتَۃً یَسْأَلُونَکَ کَأَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللَّہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ
الاعراف : ١٨٧
(اے نبی!) وہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کونسا ہے؟ کہہ دیجےے: اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی۔ وہ (قیامت) تمہارے پاس بس اچانک ہی آئے گی۔ وہ (لوگ) آپ سے سوال کرتے ہیں جیسے آپ اس (کے وقت) سے بخوبی واقف ہیں۔ کہہ دیجےے: اس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں
وأمّا قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، فإنّہ أمر من اللّٰہ نبیّہ محمّدا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بأن یجیب سائلیہ عن الساعۃ بأنّہ لا یعلم وقت قیامہا إلّا اللّٰہ الذی یعلم الغیب ، وأنّہ لا یظہرہا لوقتہا ، ولا یعلمہا غیرہ جلّ ذکرہ ۔ ”اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے ، وہی اس کو اس کے وقت پر ظاہر کرے گا) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ وہ قیامت کے بارے میں سوال کرنے والوں کو جواب یہ دیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، قیامت کو اس کے وقت پر ظاہر کرنے والا اور اس کا علم رکھنے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔”(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٥)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
أمر تعالی نبیّہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إذا سئل عن وقت الساعۃ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ تعالی ، فإنّہ ہو الذی یجلّیہا لوقتہا ، أی یعلم جلیّۃ أمرہا ، ومتی یکون علی التحدید ، لا یعلم ذلک إلّا ہو تعالی ، ولہذا قال : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) ۔ ”اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ جب آپ سے قیامت قائم ہونے کے وقت کے بارے میں سوال کیا جائے تو آپ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اسے اپنے وقت پر ظاہر کرے گا ، یعنی اللہ تعالیٰ ہی اس کے معاملے کی حقیقت کو اور اس بات کو کہ یہ کس معین وقت میں واقع ہو گی ، جانتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی
(تفسیر ابن کثیر : ٣/٢٤٥)
اللہ تعالیٰ کے فرمان
ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
وہ آسمان و زمین میں بھاری ہوگی۔
” کی تفسیر میں مشہور مفسر علامہ سدی رحمہ اللہ (م ١٢٧ھ)فرماتے ہیں
خفیت فی السماوات والأرض ، فلم یعلم قیامہا ، حتّی تقوم ، ملک مقرّب ولا نبیّ مرسل ۔ ”آسمانوں اور زمین میں قیامت مخفی رکھی ہے۔ کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی رسول نبی بھی اس کے قیام سے پہلے اس کے وقت ِ قیام کے بارے میں علم نہیں رکھتا۔(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٦، وسندہ، حسنٌ)
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں
وأولی ذلک عندی بالصواب قول من قال : معنی ذلک ثقلت الساعۃ فی السموات والأرض علی أہلہا أن یعرفوا وقتہا وقیامہا ، لأنّ اللّٰہ أخفی ذلک عن خلقہ ، فلم یطّلع علیہ منہم أحدًا ، وذلک أنّ اللّٰہ أخبرَ بذلک بعد قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، وأخبر بعدہ أنّہا لا تأتی إلّا بغتۃ ، فالذی ہو أولی أن یکون ما بین ذلک أیضًا خبرًا عن خفاء علمہا عن الخلق ، إذ کان ما قبلہ وما بعدہ کذلک ۔
”میرے خیال میں اس آیت کی زیادہ درست تفسیر اس شخص کی ہے جو اس کا معنیٰ یہ بیان کرتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں پر اس کے قیام کے وقت کی معرفت بھاری(مشکل) ہو گئی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی مخلوق سے مخفی رکھا ہے ، کسی کو اس پر مطلع نہیں کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ بلاشبہ قیامت کا علم میرے رب کے پاس ہے ، وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا)۔ پھر یہ خبر دی کہ قیامت اچانک ہی آئے گی۔ درست بات یہ ہے کہ اس فرمان میں قیامت کے علم کے مخلوق سے مخفی ہونے کا بھی ذکر موجود ہے کیونکہ اس کے ماقبل اور مابعد یہی ذکر ہے۔”(تفسیر الطبری : ٤/٥٨٧)
﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ ﴾ (72-الجن:26) ” (وہی) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔“ اس آیت کی طرح ہے : ﴿وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ﴾ (2-البقرة:255) ”اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کو اپنے احاطے میں نہیں لا سکتے، سوائے اس بات کے جو وہ چاہے۔“ اسی طرح یہاں فرمان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب اور ظاہر چیزوں کو جاننے والا ہے۔ اس کی مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے علم میں سے کسی بھی چیز پر اطلاع نہیں پا سکتا، سوائے اس چیز کے جس پر اللہ تعالیٰ خود کسی کو مطلع کر دے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ : ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾”وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔“ اور یہ بات فرشتے رسول اور بشر رسول دونوں کو شامل ہے۔“ (تفسير ابن كثير : 249/3)
نیز فرماتے ہیں :
أمره الله تعالى أن يفوّض الأمور إليه، وأن يخبر عن نفسه أنه لا يعلم الغيب المستقبل، ولا اطلاع له على شىء من ذلك إلا بما أطلعه الله عليه، كما قال تعالى:﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ آپ تمام امور اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں اور اپنے بارے میں خبر دے دیں کہ وہ مستقبل کے غیب کو نہیں جانتے، نہ آپ کو اس میں سے کسی چیز کی اطلاع ہے، سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دے دی ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ ” (وہی ) عالم : الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔“ (تفسير ابن كثير : 249/3)
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ آپ تمام امور اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں اور اپنے بارے میں خبر دے دیں کہ وہ مستقبل کے غیب کو نہیں جانتے، نہ آپ کو اس میں سے کسی چیز کی اطلاع ہے، سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دے دی ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ ” (وہی ) عالم : الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔“ (تفسير ابن كثير : 249/3)
مزید فرماتے ہیں :
ثم قال : ﴿وَمَا کان اللَّهُ لِيُطلعَکُمْ عَلَی الغیب﴾ أى أنتم لا تعلمون غيب الله فى خلقه حتى يميز لكم المؤمن من المنافق، لو لا ما يعقده من الأسباب الكاشفة عن ذلك، ثم قال : ﴿ولكن الله يَجْتبى من رسله من يشاء﴾ كقوله : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ …..
’’پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ : ﴿وَمَا کان اللَّهُ لِيُطلعَکُمْ عَلَی الغیب﴾ ”اور اللہ تعالیٰ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرنے والا“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں موجود اس کا غیب نہیں جان سکتے کہ تمہیں مؤمن اور منافق کی تمیز ہو جائے۔ ہاں اگر وہ اسباب موجود ہوں جو اس غیب سے پردہ اٹھا سکتے ہیں، پھر فرمایا : ﴿ولكن الله يَجْتبى من رسله من يشاء﴾ ”لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں جسے چاہتا ہے، (اس غیب سے پردہ اٹھانے کے لیے ) اس کا انتخاب کر لیتا ہے۔“ یہ فرمان اس آیت کی طرح ہی ہے کہ : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ ”(وہی ) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔“ (تفسیر ابن کثیر: 155/2، تحت آل عمران: 179)
اس کی تائید کے لیے ایک حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں :
عن محمود بن لبيد عن رجال من بني عبد الاشهل قالوا : فقال زيد بن اللصيت وهو فى رحل عمارة، وعمارة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم : أليس محمد يزعم أنه نبي و يخبر كم عن خبر السماء، و هو لايدرى أين ناقته ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمارة عنده أن رجلا قال : هذا محمّد يخبر كم أنه نبي ويزعم أنه يخبر كم بأمرالشماء و هو لايدري أين ناقته ؟ واني و الله ما أعلم ما علمني الله و قد دلنى الله عليها، و هي فى الوادي فى الشعب كذا و كذا، قد حبسها شجرة بز مامها، فانطلقوا حتي تأتوني بها، فذهبوا، فجاؤا بھا .
’’محمود بن لبید بنو عبدالاشہل کے لوگوں سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں : زید بن اللصیت نے کہا کہ وہ عمارہ کی رہائش گاہ پر تھا اور عمارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ اس نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہیں اور تمہیں آسمان کی خبریں بتاتے ہیں، حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جبکہ عمارہ آپ کے پاس تھے کہ ایک شخص نے کہا ہے : یہ محمد تمہیں خبر دیتا ہے کہ وہ نبی ہے اور کہتا ہے کہ وہ تمہیں آسمان کی خبر دیتا ہے، حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کی اونٹنی کہاں ہے ؟ اللہ کی قسم ! میرے پاس وہی علم ہے جو اللہ نے مجھے سکھایا ہے اور اس اونٹنی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے آگاہی دے دی ہے کہ وہ فلاں وادی کی فلاں گھاٹی میں ہے۔ اس کی لگام درخت کے ساتھ اٹکی ہوئی ہے۔ جاؤ، اسے میرے پاس لے آؤ ! وہ اسے لے کر آ گئے۔“ (المغازي لابن اسحاق كما في السيرة لابن هشام:523/2، وسنده حسن، وابن اسحاق وثقه الجمھور)
یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس علم غیب نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ما كان وما يكون کو نہیں جانتے تھے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو کسی معاملے کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتا تھا
﴿تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَـذَا . . . ﴾ (11-هود:49)
” (اے نبی ! ) یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں، ہم انہیں آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ انہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔“ مستقبل کی خبر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی دی گئی جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :
﴿لَقَدْ صَدَقَ اللَّـهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّـهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا﴾ (48-الفتح:27)
’’البتہ تحقیق اللہ نے اپنے رسول کو خواب میں حق کے ساتھ سچی خبر دی کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم اپنے سر منڈاتے اور بال کترواتے ہوئے مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے، تم (کسی سے )نہ ڈرتے ہو گے، چنانچہ اللہ وہ بات جانتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے، لہٰذا اس نے اس سے پہلے ایک فتح جلد ہی عطا کر دی
شارحِ صحیح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (۷۷۳۔ ۸۵۲ھ ) اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
فأعلم النبى صلى الله عليه وسلم أنه لا يعلم الغيب إلا ما علمه الله، وهو مطابق لقوله تعالى: ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾ ……
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے کہ وہ غیب نہیں جانتے، ہاں وہ بات جو اللہ تعالیٰ انہیں سکھا دے (اسے جان لیتے ہیں )۔ یہ حدیث اس فرمانِ باری تعالیٰ کی طرح ہے : ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾ ” (وہی ) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسندکرے۔“ (فتح الباري لابن حجر : 364/13)
فأعلم النبى صلى الله عليه وسلم أنه لا يعلم الغيب إلا ما علمه الله، وهو مطابق لقوله تعالى: ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾ ……
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے کہ وہ غیب نہیں جانتے، ہاں وہ بات جو اللہ تعالیٰ انہیں سکھا دے (اسے جان لیتے ہیں )۔ یہ حدیث اس فرمانِ باری تعالیٰ کی طرح ہے : ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾ ” (وہی ) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسندکرے۔“ (فتح الباري لابن حجر : 364/13)
علامہ احمد قسطلانی (۸۵۱۔ ۹۲۳ھ ) کہتے ہیں :
عالم الغيب فلا يطلع على غيبه أحدا من خلقه إلا من ارتضي من رسول لاطلاعه على بعض الغيب، يكون إخباره عن الغيب معجزة له .
’’اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ وہ اپنی مخلوق میں کسی کو اپنے غیب کی اطلاع نہیں دیتا، مگر جس رسول کو چاہے کسی غیب کی بات پر مطلع کر دیتا ہے اور یہ اطلاع نبی کے لیے معجزہ ہوتی ہے۔“(ارشاد الساري لشرح صحيح بخاري : 363/10)
﴿ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ﴾ [12-يوسف:102]
یہ باتیں غیب کی خبروں میں سے ہیں جس کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ آپ ان کے پاس نہ تھے جب کہ انہوں نے اپنی بات ٹھان لی تھی اور وہ فریب کرنے لگے تھے
سنی امام و مفسر ابن جریر طبری رحمہ اللہ (224۔ 310 ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں
يقول : وما كنت حاضرا عند اخوة يوسف، اذا اجمعوا، واتفقت آراؤهم، وصحت عزائمه علي ان يلقوا يوسف في غيابة الجب
’’اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ (اے نبی !) آپ اس وقت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے پاس حاضر نہیں تھے جب انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو گہرے کنویں میں پھینکنے کا پورا ارادہ کر لیا تھا اور اس بارے میں ان کی آراء متفق ہو گئی تھی اور ان کے عزائم پختہ ہو گئے تھے۔“ [تفسير الطبري : 98/13]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں
ابطات على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بعد العشاء، ثم جئت، فقال: ”اين كنت؟“، قلت: كنت استمع قراءة رجل من اصحابك، لم اسمع مثل قراءته وصوته من احد، قالت: فقام، وقمت معه حتى استمع له، ثم التفت إلي، فقال: هذا سالم مولى ابي حذيفة، الحمد لله الذي جعل في امتي مثل هذا
’’میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک رات عشاء کے بعد دیر کر دی، پھر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم کہاں تھی ؟ میں نے عرض کیا : میں آپ کے ایک صحابی کی قرأت سن رہی تھی، میں نے نہ اس کی قرأت کی طرح کوئی قرأت سنی ہے نہ اس کی آواز کی مانند کوئی آواز۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ کھڑی ہو گئی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاری کی قرأت سنی، پھر میری طرف توجہ کی اور فرمایا : یہ ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم ہیں۔ تمام تعریفیں اس اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے میری امت میں اس طرح کے لوگ پیدا کیے ہیں۔“ [سنن ابن ماجه : 1338، مسند الإمام أحمد : 165/6، مسند البرّار: 2694، المستدرك على الصحيحين للحاكم :226,225/3، و سندهٔ صحيح]
غزوۂ احد کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
أين كنت اليوم يا سعد! ’’سعد ! آج تم کہاں تھے ؟“ [المستدرك على الصحيحين للحاكم :26/3، ح: 4314، و سندهٔ حسن]
تِلْکَ مِنْ أَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوحِیہَا إِلَیْکَ مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَا أَنْتَ وَلاَ قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِینَ) (ہود 11: 49)
یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔آپ اور آپ کی قوم اس سے پہلے ان کے بارے میں علم نہیں رکھتے تھے۔صبر سے کام لیں، بلاشبہ اچھا انجام متقین ہی کے لیے ہے
اس آیت کی تفسیر میں سنی امام ابوجعفر ابن جریر طبری(310-224ھ)فرماتے ہیں
یَقُولُ تَعَالٰی ذِکْرُہ، لِنَبِیِّہٖ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہٰذِہِ الْقِصَّۃُ الَّتِي أَنْبَأْتُکَ بِہَا مِنْ قِصَّۃِ نُوحٍ وَّخَبَرِہٖ وَخَبَرِ قَوْمِہٖ (مِنْ أَنْبَآءِ الْغَیْبِ) (آل عمران 3:44)، یَقُولُ : ہِيَ مِنْ أَخْبَارِ الْغَیْبِ الَّتِي لَمْ تَشْہَدْہَا فَتَعْلَمَہَا، (نُوحِیہَا إِلَیْکَ) (ہود 11: 49)، یَقُولُ : نُوحِیہَا إِلَیْکَ نَحْنُ، فَنُعَرِّفُکَہَا (مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا) (ہود 11: 49)، الْوَحْيِ الَّذِي نُوحِیہِ إِلَیْکَ
اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ نوح اور ان کی قوم کے جس واقعے کی میں نے آپ کو خبر دی ہے وہ غیب کی ایک خبر ہے، یعنی آپ وہاں موجود نہیں تھے کہ جانتے لیکن ہم نے وہ خبریں آپ کی طرف وحی کر کے آپ کو ان کی اطلاع دے دی ہے۔ آپ اور آپ کی قوم کو اس سے پہلے اس وحی کے بارے میں علم نہ تھاجو اب ہم نے آپ کی طرف کی ہے۔”(جامع البیان عن تأویل آي القرآن : 74/12)
حافظ ابن کثیر(774-701ھ)اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں
یَقُولُ تَعَالٰی لِنَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہٰذِہِ الْقِصَّۃُ وَأَشْبَاہُہَا (مِنْ أَنْباءِ الْغَیْبِ)، یَعْنِي مِنْ أَخْبَارِ الْغُیُوبِ السَّالِفَۃِ (نُوحِیہَا إِلَیْکَ) عَلٰی وَجْہِہَا کَأَنَّکَ شَاہِدُہَا، نُوحِیہَا إِلَیْکَ، أَيْ نُعْلِمُکَ بِہَا وَحْیًا مِّنَّا إِلَیْکَ، (مَا کُنْتَ تَعْلَمُہا أَنْتَ وَلاَ قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا)، أَيْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَکَ وَلَا عِنْدَ أَحَدٍ مِّنْ قَوْمِکَ عَلِمٌ بِہَا حَتَّی یَقُولَ مَنْ یُکَذِّبُکَ : إِنَّکَ تَعَلَّمْتَہَا مِنْہُ، بَلْ أَخْبَرَکَ اللّٰہُ بِہَا
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ یہ اور اس طرح کے دیگر واقعات سابقہ ادوار کی غیبی خبریں ہیں۔ ہم نے ان کو اسی طرح آپ کی طرف وحی کر دیا ہے، گویا کہ آپ ان کے چشم دید گواہ ہوں۔ ہم نے وحی کر کے آپ کو ان کی اطلاع دے دی ہے۔ آپ اور آپ کی قوم اس سے پہلے اس بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے، لہٰذا آپ کو جھٹلانے والے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ نے اپنی قوم کے کسی فرد سے یہ واقعات سنے ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خبر آپ کو دی ہے
(تفسیر القرآن العظیم : 540/3)
نیز ایک آیت کی تفسیر میںموصوف یوں رقمطراز ہیں
وَیُخْبِرُہُمْ أَنَّہ، لَا یَقدِرُ عَلَی التَّصَرُّفِ فِي خَزَائِنِ اللّٰہِ، وَلَا یَعْلَمُ مِنَ الْغَیْبِ إِلَّا مَا أَطْلَعَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ، وَلَیْسَ ہُوَ بِمَلِکٍ مِّنَ الْمَلَائِکَۃِ، بَلْ بَشَرٌ مُّرْسَلٌ، مُؤَیَّدٌ بِالْمُعْجِزَاتِ
بی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں یہ بتا رہے ہیںکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں تصرف پر قادر نہیں، نیز وہ غیب نہیں جانتے،ہاں جس بات کی اللہ تعالیٰ انہیں اطلاع دے دیتا ہے، اس کا علم انہیں ہو جاتا ہے، نیز وہ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ ایک بشر ہیں جنہیں مبعوث کیا گیا ہے اور معجزات کے ساتھ ان کی تائید کی گئی ہے۔”(تفسیر القرآن العظیم : 532/3)
علامہ ابن القیم(751-691ھ)فرماتے ہیں :
وَأَجْمَعَ الْمُفَسِّرُونَ عَلٰی أَنَّ الْغَیْبَ ہٰہُنَا الْقُرْآنُ وَالْوَحْيُ . ”مفسرین کرام کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ اس آیت ِکریمہ میں غیب سے مراد قرآنِ کریم اور وحیِ الٰہی ہی ہے۔ (التبیان في أقسام القرآن ، ص : 197)
(بِضَنِینٍ) کی ایک قراء ت (بِظَنِینٍ) بھی ہے۔ اس کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے مشہور مفسر سعید بن جبیر تابعیفرماتے ہیں : لَیْسَ بِمُتَّہَمٍ . ”آپ وحی کو چھپانے کے مرتکب نہیں۔” (جامع البیان عن تأویل آي القرآن للطبري : 103/30، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں
: أَيْ : وَمَا مُحَمَّدٌ عَلٰی مَا أَنْزَلَہُ اللّٰہُ إِلَیْہِ بِظَنِینٍ، أَيْ بِمُتَّہَمٍ، وَمِنْہُمْ مَّنْ قَرَأَ ذٰلِکَ بِالضَّادِ، أَيْ بِبَخِیلٍ، بَلْ یَبْذُلُہ، لِکُلِّ أَحَدٍ . ”یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کو چھپاتے نہیں۔ بعض قراء نے اسے ضاد کے ساتھ پڑھا ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کو آگے پہنچانے پر بخل سے کام نہیں لیتے بلکہ ہر ایک کو پہنچاتے ہیں۔”(تفسیر القرآن العظیم : 404/6)
امام ابوجعفر ابن جریر طبری(310-224ھ)فرماتے ہیں
وَمَا مُحَمَّدٌ عَلٰی مَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ مِنْ وَحْیِہٖ وَتَنْزِیلِہٖ بِبَخِیلٍ بِتَعْلِیمُکُمُوہُ أَیُّہَا النَّاسُ، بَلْ ہُوَ حَرِیصٌ عَلٰی أَنْ تُؤْمِنُوا بِہٖ وَتَتَعَلَّمُوہُ .
”اے لوگو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی وحی اور کتاب کو تمہیں سکھانے کے حوالے سے بخیل نہیں ہیں بلکہ وہ تو اس بات کے شیدائی ہیں کہ تم اس پر ایمان لاؤ اور اسے سیکھو۔”(جامع البیان عن تأویل آي القرآن : 104/30)
علامہ ابن القیمسی حوالے سے فرماتے ہیں
وَہٰذَا مَعْنًی حَسَنٌ جِدًّا، فَإِنَّ عَادَۃَ النُّفُوسِ الشُّحُّ بِالشَّيْءِ النَّفِیسِ، وَلَا سِیَّمَا عَمَّنْ لَّا یَعْرِفُ قَدْرَہ، وَیَذُمُّہ، وَیَذُمُّ مَنْ ہُوَ عِنْدَہ،، وَمَعَ ہٰذَا فَہٰذَا الرَّسُولُ لَا یَبْخَلُ عَلَیْکُمْ بِالْوَحْيِ الَّذِي ہُوَ أَنْفَسُ شَيْءٍ وَّأَجَلُّہ
اس آیت کا یہ معنیٰ بہت عمدہ ہے(کہ آپ وحی کو آگے پہنچانے میں بخل سے کام نہیں لیتے)،کیونکہ عادتاً لوگ قیمتی چیز کو چھپاتے ہیں، خصوصاً ان لوگوں سے جو اس کی قدرو قیمت سے واقف نہیں ہوتے یا جو اس چیز کی یا اس چیز کے حامل کی اہانت کرتے ہیں۔لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ رسول تم پر اس وحی کے حوالے سے بخیل نہیںجو دنیا جہان کی سب چیزوںسے قیمتی اور عمدہ چیز ہے۔”(التبیان في أقسام القرآن، ص : 197)
مشہور لغوی فراء (م : 207ھ)کہتے ہیں: یَقُولُ : یَأْتِیہِ غَیْبُ السَّمَائِ، وَہُوَ مَنْفُوسٌ فِیہِ، فَلَا یَضُنُّ بِہٖ عَنْکُمْ . ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے نبی کے پاس آسمان سے غیب کی خبریں آتی ہیں۔ یہ وحی انہیں بہت عزیز ہوتی ہے لیکن وہ اسے تم سے چھپاتے نہیں۔”(معاني القرآن للفراء : 242/3)
لغت ِعرب کے ماہر علامہ ابوعلی فارسی(377-288ھ)کہتے ہیں
اَلْمَعْنٰی : یَأْتِیہِ الْغَیْبُ فَیُبَیِّنُہ، وَیُخْبِرُ بِہٖ وَیُظْہِرُہ،، وََلَا یَکْتُمُہ، کَمَا یَکْتُمُ الْکَاہِنُ مَا عِنْدَہ،، وَیُخْفِیہِ حَتّٰی یَأْخُذَ عَلَیْہِ حُلْوَانًا .
اس آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غیب کی خبر آتی ہے تو آپ اسے آگے بیان کر دیتے ہیں اور اس کو سب لوگوں کے سامنے ظاہر کر دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں کرتے جیسے کاہن اپنے پاس موجود خبر کو اس وقت تک چھپائے رکھتا ہے جب تک اسے اجرت نہ دے دی جائے۔”(التبیان في أقسام القرآن لابن القیّم، ص : 197)
اس آیت ِکریمہ سے واضح طور پر معلوم ہو گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب یعنی وحی پر بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔ وحی کو من وعن آگے پہنچاتے تھے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب ثابت کرنا لغوی و تفسیری ادب کے ساتھ ظلم ہے۔ صحابہ و تابعین اور ائمہ دین میں سے کسی نے اس آیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم غیب کا اثبات نہیں کیا، بلکہ پورا قرآنِ کریم پڑھنے کے باوجود اسلاف کا یہی عقیدہ رہا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ لیکن کیا کریں کہ مخلوق کے لیے علم غیب کے دعوے دار سینہ زوری سے کام لے کر ائمہ دین کے خلاف عقیدہ گھڑ لیتے ہیں اور قرآن و حدیث کی دور ازکار تاویلیں کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
یہ بات تو مسلّم ہے اور کوئی مسلمان اس سے انکاری نہیں ہو سکتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو بھی غیب کی خبر آئی وہ وحی الٰہی تھی اور وحی الٰہی کے ایک ایک لفظ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال دیانتداری سے امت تک پہنچا دیا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ایک بھی لفظ چھپانے کا الزام لگاتا ہے،وہ پکا بے ایمان اور کافر ہے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناطق بالوحی تھے تو عالم الغیب کیسے ہوئے؟ وحی ایک اطلاع ہے اور اطلاع ملنے پر غیب،غیب نہیں رہتا بلکہ خبر بن جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ سب سے علم غیب کی نفی کر دی ہے۔(النمل 27: 65)
اگر وحی الٰہی کو علم غیب قرار دینے پر اصرار ہے تو یہ وحی ہم تک بھی تو پہنچی ہے۔ ہر مسلمان اور ہر کافر یکساں اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔ کیا دنیا میں کوئی شخص ایسا رہ جائے گا جو عالم الغیب نہ ہو یا قرآن و سنت کا مطالعہ کر کے عالم الغیب بن نہ سکتا ہو؟
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں
ولا یعلم الغیب غیرہ
اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا
التمہید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید لابن عبد البر : ٢٤/١٩٥
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) یوں بیان فرماتے ہیں : وأظہر اللّٰہ من نور النبوّۃ شمسا طمست ضوء الکواکب ، وعاش السلف فیہا برہۃ طویلۃ ، ثمّ خفی بعض نور النبوّۃ ، فعرّب بعض کتب الأعاجم الفلاسفۃ من الروم والفرس والہند فی أثناء الدولۃ العبّاسیّۃ ، ثمّ طلبت کتبہم فی دولۃ المأمون من بلاد الروم ، فعرّبت ، ودرسہا الناس وظہر بسبب ذلک من البدع ما ظہر
اللہ تعالیٰ نے نبوت کے نور کا سورج ظاہر کیا جس کی روشنی سے ستاروں کی روشنی ماند پڑ گئی۔ سلف صالحین لمبا عرصہ اسی روشنی میں رہے ، پھر نور نبوت (سے لوگوں کااستفادہ)کچھ ماند پڑ گیا۔عباسی دور ِ حکومت میں روم ، فارس اور ہند کے عجمی فلاسفیوں کی کچھ کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا گیا، پھر مامون الرشید کے دور میں روم کے علاقوں سے ان عجمیوں کی کتابیں منگوا کر ان کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔لوگوں نے ان کتابوں کو پڑھا اور اسی وجہ سے وہ بدعتیں ظاہر ہوئیں جو اب لوگوں میں نظر آتی ہیں
مجموع الفتاوٰی لابن تیمیۃ : ٢/٨٤
فرمانِ باری تعالیٰ ہے
إِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ أَکَادُ أُخْفِیہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی
طٰہٰ : ١٥
لاشبہ قیامت آنے والی ہے ،میںاس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر نفس کو اس کا بدلہ دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے
فرمانِ الٰہی ہے
إِلَیْہِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِ
حم السجدۃ : ٤٧
قیامت کا علم اسی کے پاس ہے
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
إلی اللّٰہ یردّ العالمون بہ علم الساعۃ ، فإنّہ لا یعلم قیامہا غیرہ ۔
علم والے لوگ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے ہی سپرد کرتے ہیں کیونکہ قیامت کے قیام کا وقت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا
(تفسیر الطبری : ٢٥/٢)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اسی آیت کے تحت فرماتے ہیں
أی لا یعلم ذلک أحد سواہ ، کما قال محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وہو سیّد البشر لجبریل ، وہو من سادات الملائکۃ ، حین سألہ عن الساعۃ ، فقال : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) (صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) ، وکما قال تعالی : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) ، وقال جلّ جلالہ : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) ۔ ”یعنی اللہ کے سوا قیامت کا علم کسی کے پاس نہیں جیسا کہ سید الملائکہ جبریل نے سید البشر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) جس سے سوال کیا گیا ہے ، وہ اس بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔(صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) اس (کے علم)کی انتہا تو آپ کے رب کے پاس ہی ہے۔ نیز فرمایا ہے : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) وہی اسے اس کے وقت ہی پر ظاہر کرے گا۔”(تفسیر ابن کثیر : ٥/٤٨٥ )
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
وَعِنْدَہ، عِلْمُ السَّاعَۃِ
الزخرف : ٨٥
مشہور مفسر علامہ خازن (٦٧٨۔٧٤١ھ) لکھتے ہیں
ومعنی الآیۃ أنّ اللّٰہ عندہ، علم الساعۃ ، فلا یدری أحد من الناس متی تقوم الساعۃ ، فی أیّ سنۃ ، أو أیّ شہر ۔۔۔۔۔ ”اس آیت ِ کریمہ کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ قیامت کب ، کس سال یا کس مہینے میں قائم ہو گی
(لباب التاویل فی معانی التنزیل للخازن : ٥/٢٢٠)
یَسْأَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُونُ قَرِیبًا
الاحزاب : ٦٣
(اے نبی!) لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ بے شک اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ آپ کو کیا معلوم شاید کہ قیامت قریب ہو
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
یقول تعالی مخبرا لرسولہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أنّہ لا علم لہ بالساعۃ ، وإن سألہ الناس عن ذلک وأرشدہ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ عزّ وجلّ ، کما قال لہ فی سورۃ الأعراف ، وہی مکّیّۃ وہذہ مدنیّۃ ، فاستمرّ الحال فی ردّ علمہا إلی الذی یقیمہا ، لکن أخبرہ أنّہا قریبۃ ۔ ”اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے رہا ہے کہ آپ کو قیامت کا کوئی علم نہیں اگرچہ لوگ آپ سے اس بارے میں سوال کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی رہنمائی کی ہے کہ وہ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف میں یہ بات فرمائی ہے۔ وہ سورت مکی ہے اور یہ مدنی ہے ، چنانچہ قیامت کے علم کو اس کے قائم کرنے والے (اللہ)کے سپرد کرنے کا کام ہر دور میں جاری رہا ، البتہ اللہ نے یہ بتا دیا تھا کہ قیامت قریب ہے
(تفسیر ابن کثیر : ٥/٢٣٢)
اللہ رب العزت کا فرمان ہے
یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِیکُمْ إِلَّا بَغْتَۃً یَسْأَلُونَکَ کَأَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللَّہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ
الاعراف : ١٨٧
(اے نبی!) وہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کونسا ہے؟ کہہ دیجےے: اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی۔ وہ (قیامت) تمہارے پاس بس اچانک ہی آئے گی۔ وہ (لوگ) آپ سے سوال کرتے ہیں جیسے آپ اس (کے وقت) سے بخوبی واقف ہیں۔ کہہ دیجےے: اس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں
وأمّا قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، فإنّہ أمر من اللّٰہ نبیّہ محمّدا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بأن یجیب سائلیہ عن الساعۃ بأنّہ لا یعلم وقت قیامہا إلّا اللّٰہ الذی یعلم الغیب ، وأنّہ لا یظہرہا لوقتہا ، ولا یعلمہا غیرہ جلّ ذکرہ ۔ ”اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے ، وہی اس کو اس کے وقت پر ظاہر کرے گا) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ وہ قیامت کے بارے میں سوال کرنے والوں کو جواب یہ دیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، قیامت کو اس کے وقت پر ظاہر کرنے والا اور اس کا علم رکھنے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔”(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٥)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
أمر تعالی نبیّہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إذا سئل عن وقت الساعۃ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ تعالی ، فإنّہ ہو الذی یجلّیہا لوقتہا ، أی یعلم جلیّۃ أمرہا ، ومتی یکون علی التحدید ، لا یعلم ذلک إلّا ہو تعالی ، ولہذا قال : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) ۔ ”اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ جب آپ سے قیامت قائم ہونے کے وقت کے بارے میں سوال کیا جائے تو آپ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اسے اپنے وقت پر ظاہر کرے گا ، یعنی اللہ تعالیٰ ہی اس کے معاملے کی حقیقت کو اور اس بات کو کہ یہ کس معین وقت میں واقع ہو گی ، جانتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی
(تفسیر ابن کثیر : ٣/٢٤٥)
اللہ تعالیٰ کے فرمان
ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
وہ آسمان و زمین میں بھاری ہوگی۔
” کی تفسیر میں مشہور مفسر علامہ سدی رحمہ اللہ (م ١٢٧ھ)فرماتے ہیں
خفیت فی السماوات والأرض ، فلم یعلم قیامہا ، حتّی تقوم ، ملک مقرّب ولا نبیّ مرسل ۔ ”آسمانوں اور زمین میں قیامت مخفی رکھی ہے۔ کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی رسول نبی بھی اس کے قیام سے پہلے اس کے وقت ِ قیام کے بارے میں علم نہیں رکھتا۔(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٦، وسندہ، حسنٌ)
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں
وأولی ذلک عندی بالصواب قول من قال : معنی ذلک ثقلت الساعۃ فی السموات والأرض علی أہلہا أن یعرفوا وقتہا وقیامہا ، لأنّ اللّٰہ أخفی ذلک عن خلقہ ، فلم یطّلع علیہ منہم أحدًا ، وذلک أنّ اللّٰہ أخبرَ بذلک بعد قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، وأخبر بعدہ أنّہا لا تأتی إلّا بغتۃ ، فالذی ہو أولی أن یکون ما بین ذلک أیضًا خبرًا عن خفاء علمہا عن الخلق ، إذ کان ما قبلہ وما بعدہ کذلک ۔
”میرے خیال میں اس آیت کی زیادہ درست تفسیر اس شخص کی ہے جو اس کا معنیٰ یہ بیان کرتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں پر اس کے قیام کے وقت کی معرفت بھاری(مشکل) ہو گئی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی مخلوق سے مخفی رکھا ہے ، کسی کو اس پر مطلع نہیں کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ بلاشبہ قیامت کا علم میرے رب کے پاس ہے ، وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا)۔ پھر یہ خبر دی کہ قیامت اچانک ہی آئے گی۔ درست بات یہ ہے کہ اس فرمان میں قیامت کے علم کے مخلوق سے مخفی ہونے کا بھی ذکر موجود ہے کیونکہ اس کے ماقبل اور مابعد یہی ذکر ہے۔”(تفسیر الطبری : ٤/٥٨٧)
حنفیوں کی عقیدہ کی کتاب،ﻋﻠﻢ ﻏﯿﺐ ﭘﺮ ﺑﺤﺚ
1
1
بالجملة، العلم الغيب أمر تفرد به سبحانه ولا سبيل للعباد إليه إلا بإعلام منه و إلهام بطريق المعجزة أو الكرامة أو إرشاد إلی الإستدلال بالأمارات فيما يمكن فيه ذلك، ولهذا ذكر في الفتاوی أن قول القائل عند رؤية هالة القمر، أي دائرته يكون مطر: مدعيا علم الغيب لا بعلامة كفر. ومن اللطائف ما حكاه بعض أرباب الظرائف أن منجما صلب فقيل له: هل رأيت هذا في نجمك؟ فقال: رأيت رفعة ولکن ما عرفت أنها فوق خشبة.
ثم اعلم أن الأنبياء عليهم الصلاة والسلام لم يعلموا المغيبات من الأشياء إلا ما أعلمهم الله تعالی أحيانا.
وذكر الحنفية تصريحا بالتكفير بإعتقاد ان النبي عليه الصلاة والسلام يعلم الغيب لمعارضة قوله تعالي: «قل لا يعلم من في السماوات والارض الغيب إلا الله» كذا في المسائرة
صفحه 422 جلد 01 شرح الفقه الأكبر - ملا علی القاري الحنفي - دار البشاءر الاسلامية للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت
2
وكذا علم المغيبات) أي وكعدم علم بعض المسائل عدم علم المغيبات فلا يعلم النبي منها (الا ما أعلمه الله تعالی به أحيانا وذكر الحنفية) في فروعهم (تصريحا بالتكفير باعتقاد أن النبي يعلم الغيب لمعارضة قوله تعالی «قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ» والله اعلم
صفحه 202 جلد 01 المسامرة شرح المسايرة في العقائد المنجية في الآخرة -أبو المعالي المقدسي - كمال الدين ابن الهمام - مطبعة الكبری الاميرية ببولاق - مصر
ﻗﺎﺿﯽ ﺛﻨﺎ ﺀﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﺤﻨﻔﯽ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ :
ﺍﮮ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽٰ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺁﭖ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺠﯿﮯ ﮐﮧ ﻏﯿﺐ ﺑﺠﺰ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﻭﮦ ﺟﻮ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﯾﻌﻨﯽ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﯾﻌﻨﯽ ﺟﻦ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯽ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺍﻧﺒﯿﺎ ﺀﮐﺮﺍﻡ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﻟﺼﻠﻮﺓﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ
( ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻣﻈﮩﺮﯼ ﺟﻠﺪ 7 ﺻﻔﺤﮧ 126 )
ﻏﯿﺐ ﭘﺮ ﻣﻄﻠﻊ ﮨﻮﻧﺎ ، ﺍﻧﺒﺎﺀ ﻏﯿﺐ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺐ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﺮﻕ
ﻓﺮﯾﻖ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ” ﻣﺨﺎﻟﻔﯿﻦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻏﯿﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ،ﯾﺎ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽٰ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻏﯿﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ،ﯾﺎ ﻓﻘﮩﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻏﯿﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻏﯿﺐ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﻣﺎﻧﮯ ﻭﮦ ﮐﺎﻓﺮ ﮨﮯ
ﻓﺮﯾﻖ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺩﻻﺋﻞ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﻣﺨﺎﻟﻔﯿﻦ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺑﻌﺾ ﻏﯿﺐ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ،ﺍﻭﺭ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﺗﻮ ﺟﻤﯿﻊ ﮐﺎﻥ ﻭﻣﺎ ﯾﮑﻮﻥ ( ﯾﻌﻨﯽ ﺟﻮ ﮨﻮﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ) “ ﭘﺮ ﮨﮯ ۔ﺗﻮ ﯾﮧ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻓﺘﻮﯼ ﮐﯽ ﺯﺩ ﺳﮯ ﺗﻮ ﻣﺨﺎﻟﻔﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭻ ﺳﮑﺘﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﻋﻠﻢ ﻣﺎﻧﺎ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻻﺋﻞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﻮﺍ
ﯾﮩﺎﮞ ﮨﻢ ﻓﺮﯾﻖ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯽ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺣﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ۔
ﯾﮩﺎﮞ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ” ﺑﻌﺾ ﻏﯿﺐ “ ﮐﺎ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ۔ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ﮐﮧ ” ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺑﻌﺾ ﻏﯿﺐ ﭘﺮ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽٰ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﻣﻄﻠﻊ ﮐﯿﺎ “ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﮯ؟
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ""مَفَاتِيحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللَّهُ: لَا يَعْلَمُ مَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا يَعْلَمُ مَتَى يَأْتِي الْمَطَرُ أَحَدٌ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا يَعْلَمُ مَتَى تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا اللَّهُ"".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”غیب کی پانچ کنجیاں ہیں، جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ رحم مادر میں کیا ہے، اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا، اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب آئے گی، اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ کس جگہ کوئی مرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہو گی۔“
صحیح حدیث Sahih Bukhari Hadees # 7379
”سبحان اللہ ! قیامت کا علم تو ان پانچ چیزوں میں شامل ہے، جو غیب سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ ( پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ٱیت کریمہ تلاوت فرمائی : ) إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
بلاشبہ اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ارحام میں جو کچھ ہے، وہی اسے جانتا ہے۔ کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کل کو کیا کرے گی اور کسی کو معلوم نہیں کہ کسی زمین میں اسے موت آئے گی۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہی خوب علم والا، خبر رکھنے والا ہے “ (مسند الإمام أحمد : 318/1، وسندہٗ حسنٌ)۔
ابن حجر کهتے هیں:
"وهذاو ان کان مشعرا بالتساوی فی العلم لکن المراد التساوی فی العلم بان الله تعالی استاثر بعلمھا لقوله بعد خمس لا یعلمھا الا الله."
(فتح الباری ج ۱ ص ۱۲۱.)
"یعنی که قیامت کے معاملے میں سوال کرنے والے اور جواب دینے والے کا علم برابر هے, اس لئے که حدیث میں لفظ "السائل" اور "السؤول" آیا هے تو ان دونوں لفظوں میں جو الف لام شروع میں هے اس میں دو احتمال هیں. اول تو یه که اس الف لام سے مراد حضرت جبرائیل علیه السلام اور آپ صلی الله علیه وسلم مراد هوں, تو اس صورت میں سوال پوحپهنے والے (یعنی حضرت جبرائیل) اور جواب دینے والے دونوں علم میں برابر هوں گے یعنی معنی یه هوں گے که دونوں هی اس کے بارے میں کپھ نهیں جانتے
حافظ ابن حجر کهتے هیں: اس حدیث کے دو معنی هیں
اول: یه که سائل اور مسئول عنه دونوں نفی علم میں مساوی هیں چنانجه کهتے هیں
"فان المرادایضا: التساوی فی عدم العلم به."
(فتح الباری ج ۱ ص ۱۲۱.)
اس سے مراد یه بهی هے که وه دونوں نفی علم میں برابر هیں
اور قسطلانی کهتے هیں
"والمراد نفی علم وقتها لا علم جبیئھا مقطوع به فهوعلم مشترک وهذا وان اشعربالتساوی فی العلم الا ان المراد التساوی فی العلم بان الله استاثر بعلم وقت مجیئھا لقوله بعد فی خمس لا یعلمن الا الله."
(ارشاد الساری ج ۱ ص ۱۴۰.)
"کهتے هیں اس سے مراد وقت قیامت کے علم کی نفی کرنا هے کیونکه اس کے آنے کا علم قطعی هے لهذا وه مشترک هے اور اگرچه بظاهر اس علم میں مساوات مفهوم هوتی هے لیکن دراصل مراد یه هے که اس بات کے جاننے میں برابری جتلانا هے که الله تعالی نے اس کے خاص وقت کا علم اپنے ساتھ مخصوص کر لیا کیونکه اس کے بعد یه قول موجود هے که قیامت ان پانچ چیزوں میں سے هے جن کا علم الله تعالی کے سوا کسی اور کو نهیں هے."
اس هی لئے جناب علامه طیبی لکهتے هیں:
"انا متساویان فی انا نعلم ان للساعه مجیئا فی وقت ما من الاوقات وذلک هو العلم المشترک بیننا ولا مزید للمسئول علی هذا العلم یتعین عند المسئول عنه وهو الوقت المتعین الذی یتحقق فیه مجیئ الساعه."
(الکاشف عن حقائق السنن ج ۲ ص ۴۳۳.)
ابن رجب کهتے هیں:
"قیامت کے وقت کے بارے میں تمام مخلوقات کا علم برابر هے اور یه اشاره هے که قیامت کے علم الله نے صرف اپنے پاس هی رکها هے.
(جامع العلوم والحکم ج ۱ ص ۱۳۵.)
حافظ ابن القیم کهتے هیں
همارے زمانه کے بعض مدعیان علم نے جو درحقیقت علم سے متصف نهیں بلکه نرے جعل ساز هیں یه کھلا هوا جهوٹ کها هے که رسول الله صلی علیه وسلم کو وقت قیامت ساعت معلوم تها, جب اسکو کها گیا که حدیث جبرئیل میں تو مذکور هے که مسئول عنه سائل سے زیاده علم نهیں رکھتا تو اس محرف نے اس حدیث کے معنی میں یوں تحریف کی که اس کا معنی یه هے که میں اور تم دونوں قیامت کا علم رکھتے هیں اور یه عظیم ترین جهل اور قبیح ترین تحریف هے اور نبی الله تعالی کی شان کو سب سے زیاده جانتے هیں, وه بھلا ایسے شخص کو جسکو وه دیهاتی اور اعرابی سمجھتے تهے یه کیسے کهه سکتے تهے که میں اور تم قیامت کا علم رکهتے هیں الا یه که یه جاهل دعوی کرے که نبی اس وقب جبرئیل کو جانتے تهے مگر اس کا کیا کریں که رسول الله جو اپنے اس قول میں بالکل سچے هیں که الله کی قسم جبرئیل جب بهی میرے پاس آئے میں کو پهچان لیتا رها مگر میں اب کی بار اس صورت میں اسکو نه پهچان سکا اور ایک روایت میں هے که جبرئیل مجھ پر کبهی مشتبه نه هوئے مگر اس مرتبه اور ایک روایت میں هے که اس اعرابی کو واپس بلا لاو جب صحابه گئے تو وهاں کپھ بهی نه تها. رسول الله صلی الله علیه وسلم کو کپھ عرصه کے بعد اسکا علم هوا تها که یه تو جبرائیل تهے. چنانچه آپ نے سیدنا عمر سے کپھ عرصه بعد فرمایا که اے عمر تم جانتے هو که سائل کون تها اور یه محرف کهتا هے که آپ سوال کے وقت هی جانتے تهے که سوال پوحپهنے والا جبرائیل هے حالانکه آپ نے صحابه کرام کو ایک عرصه کے بعد بتادیا تها که سائل کون تها. پهر ما المسئول ومسئول عنها باعلم من السائل کا عنوان اختیار کرنے میں یه فائده هے که قیامت کے بارے میں هر سائل ومسئول کا یهی حکم هے که اس کا علم بجز الله کے کسی اور کو نهیں."
(المنار المنیف ۸۲, ۸۱.)
اور
اس هی بات کو ملا علی قاری حنفی نے اپنی کتاب میں بغیر کسی چوں چراں ابن القیم کی عبارت کو من وعن نقل هی نهیں کیا بلکه اس پر مهر تصدیق ثبت کی هے.
(الاسرار المرفوعه فی الاخبار الموضوعه ۴۳۱ فصل ۱۵ منهیه ۱۳.)
قیامت کب آئے گی
علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ اہل سنت والجماعت کا یہ اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا جیسا کہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں : ولا یعلم الغیب غیرہ ۔ ”اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔”
(التمہید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید لابن عبد البر : ٢٤/١٩٥)
فرمانِ باری تعالیٰ ہے
1
(إِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ أَکَادُ أُخْفِیہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی)
(طٰہٰ : ١٥)
بلاشبہ قیامت آنے والی ہے ،میںاس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر نفس کو اس کا بدلہ دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے
2
فرمانِ الٰہی ہے
(إِلَیْہِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِ)
(حم السجدۃ : ٤٧)
”قیامت کا علم اسی کے پاس ہے
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
إلی اللّٰہ یردّ العالمون بہ علم الساعۃ ، فإنّہ لا یعلم قیامہا غیرہ ۔
علم والے لوگ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے ہی سپرد کرتے ہیں کیونکہ قیامت کے قیام کا وقت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا
(تفسیر الطبری : ٢٥/٢)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اسی آیت کے تحت فرماتے ہیں
أی لا یعلم ذلک أحد سواہ ، کما قال محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وہو سیّد البشر لجبریل ، وہو من سادات الملائکۃ ، حین سألہ عن الساعۃ ، فقال : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) (صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) ، وکما قال تعالی : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) ، وقال جلّ جلالہ : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧)
یعنی اللہ کے سوا قیامت کا علم کسی کے پاس نہیں جیسا کہ سید الملائکہ جبریل نے سید البشر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) جس سے سوال کیا گیا ہے ، وہ اس بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔(صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) اس (کے علم)کی انتہا تو آپ کے رب کے پاس ہی ہے۔ نیز فرمایا ہے : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) وہی اسے اس کے وقت ہی پر ظاہر کرے گا۔”(تفسیر ابن کثیر : ٥/٤٨٥ بتحقیق عبد الرزاق المہدی)
3
فرمانِ باری تعالیٰ ہے
(فَہَلْ یَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَۃَ أَنْ تَأْتِیَہُمْ بَغْتَۃً فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُہَا فَأَنّٰی لَہُمْ إِذَا جَاءَ تْہُمْ ذِکْرٰہُمْ)
(محمّد : ١٨)
”چنانچہ یہ لوگ تو بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ ان کے پاس اچانک آجائے، یقینًااس کی نشانیاں آچکی ہیں، تو جب قیامت ان کے پاس آپہنچے گی تو ان کے لیے کہاں ہوگا نصیحت حاصل کرنا۔”
قیامت اچانگ آئے گی۔ معلوم ہوا کہ کسی کے پاس قیامت کا علم نہیں
4
رشادِ باری تعالیٰ ہے
(وَعِنْدَہ، عِلْمُ السَّاعَۃِ)
(الزخرف : ٨٥)
اسی کے پاس قیامت کا علم ہے
مشہور مفسر علامہ خازن (٦٧٨۔٧٤١ھ) لکھتے ہیں : ومعنی الآیۃ أنّ اللّٰہ عندہ، علم الساعۃ ، فلا یدری أحد من الناس متی تقوم الساعۃ ، فی أیّ سنۃ ، أو أیّ شہر ۔۔۔۔۔ ”اس آیت ِ کریمہ کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ قیامت کب ، کس سال یا کس مہینے میں قائم ہو گی
(لباب التاویل فی معانی التنزیل للخازن : ٥/٢٢٠)
5
: (یَسْأَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُونُ قَرِیبًا)
(الاحزاب : ٦٣)
(اے نبی!) لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ بے شک اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ آپ کو کیا معلوم شاید کہ قیامت قریب ہو
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
یقول تعالی مخبرا لرسولہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أنّہ لا علم لہ بالساعۃ ، وإن سألہ الناس عن ذلک وأرشدہ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ عزّ وجلّ ، کما قال لہ فی سورۃ الأعراف ، وہی مکّیّۃ وہذہ مدنیّۃ ، فاستمرّ الحال فی ردّ علمہا إلی الذی یقیمہا ، لکن أخبرہ أنّہا قریبۃ
اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے رہا ہے کہ آپ کو قیامت کا کوئی علم نہیں اگرچہ لوگ آپ سے اس بارے میں سوال کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی رہنمائی کی ہے کہ وہ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ ئ اعراف میں یہ بات فرمائی ہے۔ وہ سورت مکی ہے اور یہ مدنی ہے ، چنانچہ قیامت کے علم کو اس کے قائم کرنے والے (اللہ)کے سپرد کرنے کا کام ہر دور میں جاری رہا ، البتہ اللہ نے یہ بتا دیا تھا کہ قیامت قریب ہے
(تفسیر ابن کثیر : ٥/٢٣٢)
6
اللہ رب العزت کا فرمان ہے
یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِیکُمْ إِلَّا بَغْتَۃً یَسْأَلُونَکَ کَأَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللَّہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ
(الاعراف : ١٨٧)
(اے نبی!) وہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کونسا ہے؟ کہہ دیجےے: اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی۔ وہ (قیامت) تمہارے پاس بس اچانک ہی آئے گی۔ وہ (لوگ) آپ سے سوال کرتے ہیں جیسے آپ اس (کے وقت) سے بخوبی واقف ہیں۔ کہہ دیجےے: اس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں :
وأمّا قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، فإنّہ أمر من اللّٰہ نبیّہ محمّدا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بأن یجیب سائلیہ عن الساعۃ بأنّہ لا یعلم وقت قیامہا إلّا اللّٰہ الذی یعلم الغیب ، وأنّہ لا یظہرہا لوقتہا ، ولا یعلمہا غیرہ جلّ ذکرہ ۔ ”اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ)
کہہ دیجیے کہ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے ، وہی اس کو اس کے وقت پر ظاہر کرے گا) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ وہ قیامت کے بارے میں سوال کرنے والوں کو جواب یہ دیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، قیامت کو اس کے وقت پر ظاہر کرنے والا اور اس کا علم رکھنے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں
(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٥)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں
أمر تعالی نبیّہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إذا سئل عن وقت الساعۃ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ تعالی ، فإنّہ ہو الذی یجلّیہا لوقتہا ، أی یعلم جلیّۃ أمرہا ، ومتی یکون علی التحدید ، لا یعلم ذلک إلّا ہو تعالی ، ولہذا قال : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ)
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ جب آپ سے قیامت قائم ہونے کے وقت کے بارے میں سوال کیا جائے تو آپ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اسے اپنے وقت پر ظاہر کرے گا ، یعنی اللہ تعالیٰ ہی اس کے معاملے کی حقیقت کو اور اس بات کو کہ یہ کس معین وقت میں واقع ہو گی ، جانتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی
(تفسیر ابن کثیر : ٣/٢٤٥)
اللہ تعالیٰ کے فرمان : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) ”وہ آسمان و زمین میں بھاری ہوگی۔” کی تفسیر میں مشہور مفسر علامہ سدی رحمہ اللہ (م ١٢٧ھ)فرماتے ہیں
خفیت فی السماوات والأرض ، فلم یعلم قیامہا ، حتّی تقوم ، ملک مقرّب ولا نبیّ مرسل
آسمانوں اور زمین میں قیامت مخفی رکھی ہے۔ کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی رسول نبی بھی اس کے قیام سے پہلے اس کے وقت ِ قیام کے بارے میں علم نہیں رکھتا
(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٦، وسندہ، حسنٌ)
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں
وأولی ذلک عندی بالصواب قول من قال : معنی ذلک ثقلت الساعۃ فی السموات والأرض علی أہلہا أن یعرفوا وقتہا وقیامہا ، لأنّ اللّٰہ أخفی ذلک عن خلقہ ، فلم یطّلع علیہ منہم أحدًا ، وذلک أنّ اللّٰہ أخبرَ بذلک بعد قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، وأخبر بعدہ أنّہا لا تأتی إلّا بغتۃ ، فالذی ہو أولی أن یکون ما بین ذلک أیضًا خبرًا عن خفاء علمہا عن الخلق ، إذ کان ما قبلہ وما بعدہ کذلک
میرے خیال میں اس آیت کی زیادہ درست تفسیر اس شخص کی ہے جو اس کا معنیٰ یہ بیان کرتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں پر اس کے قیام کے وقت کی معرفت بھاری(مشکل) ہو گئی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی مخلوق سے مخفی رکھا ہے ، کسی کو اس پر مطلع نہیں کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ بلاشبہ قیامت کا علم میرے رب کے پاس ہے ، وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا)۔ پھر یہ خبر دی کہ قیامت اچانک ہی آئے گی۔ درست بات یہ ہے کہ اس فرمان میں قیامت کے علم کے مخلوق سے مخفی ہونے کا بھی ذکر موجود ہے کیونکہ اس کے ماقبل اور مابعد یہی ذکر ہے
(تفسیر الطبری : ٤/٥٨٧)
7
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
(قُلْ إِنْ أَدْرِی أَقَرِیبٌ مَّا تُوعَدُونَ )
(الجن : ٢٥)
(اے نبی!) کہہ دیجیے : میں نہیں جانتا کہ جس (قیامت ) کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا (دور)
مشہور مفسر علامہ قرطبی رحمہ اللہ (٦٠٠۔٦٧١ھ) فرماتے ہیں
أی لا یعرف وقت نزول العذاب ووقت قیام الساعۃ إلّا اللّٰہ ، فہو غیب لا أعلم منہ إلّا ما یعرفنیہ اللّٰہ
یعنی عذاب کے نازل ہونے اور قیامت کے قائم ہونے کا وقت سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ یہ غیب کی بات ہے ۔ میں اس میں سے صرف وہی جانتا ہوں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ مجھے بتا دیتا ہے
(تفسیر القرطبی : ١٩/٢٧)
8
اللہ رب العزت فرماتا ہے
(وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیبٌ)
(الشورٰی : ١٧)
اور(اے نبی!)آپ کو کیا معلوم کہ شاید قیامت قریب ہو
یہ آیت ِ کریمہ اس بات پر صریح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو قیامت کے بارے میں خبر نہیں دی تھی
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (١٠٧۔١٩٨ھ) فرماتے ہیں
ما کان فی القرآن (وَمَا أَدْرٰکَ) فقد أعلمہ ، وما قال : (وَمَا یُدْرِیکَ) فإنّہ لم یعلمہ
قرآنِ کریم میں جن چیزوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (وَمَا أَدْرٰکَ) (آپ کو کیا معلوم ہے؟)کہا ہے، ان چیزوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی اور جن چیزوں کے بارے میں (وَمَا یُدْرِیکَ)(آپ کیا معلوم کریں گے؟)کہا ہے ، ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر نہیں دی
(صحیح البخاری : ١/٢٧٠، قبل الحدیث : ٢٠١٤، تغلیق التعلیق لابن حجر : ٣/٢٠٥، وسندہ، صحیحٌ)
یہی بات شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ (م ٥٦١ھ) نے فرمائی ہے۔
(غنیۃ الطالبین للجیلانی : ص ٥٥، طبع لاہور)
9
فرمانِ ربانی ہے
(إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہ، عِلْمُ السَّاعَۃِ)
(لقمان : ٣٤)
بلاشبہ اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے
10
باری تعالیٰ ہے
یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسٰہَا ٭ فِیمَ أَنْتَ مِنْ ذِکْرٰہَا ٭ إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہٰہَا
(النازعات : ٤٢، ٤٣)
”(اے نبی!) وہ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ وہ کب واقع ہو گی؟ آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا غرض ؟ اس (کے علم) کی انتہا تو تیرے رب کے پاس ہے
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اسی آیت کی تفسیر میں اہل سنت و اہل حق کا عقیدہ یوں بیان کرتے ہیں
أی لیس علمہا إلیک ولا إلی أحد من الخلق ، بل مردّہا ومرجعہا إلی اللّٰہ عزّ وجلّ ، فہو الذی یعلم وقتہا علی الیقین
یعنی آپ کو یا مخلوق میں سے کسی کو بھی اس کا علم نہیں بلکہ اس کا مرجع و منبع اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔وہی یقینی طور پر اس کے قائم ہونے کا وقت جانتا ہے
(تفسیر ابن کثیر : ٦/٣٨٥)
11
وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَا تَأْتِینَا السَّاعَۃُ قُلْ بَلٰی وَرَبِّی لَتَأْتِیَنَّکُمْ عَالِمِ الْغَیْبِ لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلَا فِی الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِکَ وَلَا أَکْبَرُ إِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِینٍ
(سبا : ٣)
اور کافروں نے کہا : ہم پر قیامت نہیں آئے گی، کہہ دیجیے : کیوں نہیں ! میرے عالم الغیب رب کی قسم ! بلاشبہ وہ ضرور آئے گی، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ذرہ برابر کوئی چیز بھی اس سے چھپی نہیں رہ سکتی اور اس (ذرے) سے کوئی چھوٹی اور بڑی چیز ایسی نہیں جو واضح کتاب (لوح محفوظ) میں (درج) نہ ہو
اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں
اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو علم غیب کی صفت سے موصوف بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ قیامت اگرچہ آنے والی ہے لیکن اس کے آنے کا وقت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ کافروں سے کہہ دو کہ قیامت ضرور بالضرور آئے گی لیکن اس کے آنے کا وقت اس علام الغیوب کے سوا کوئی نہیں جانتاجس سے ایک ذرے کے برابر چیز بھی چھپ نہیں سکتی
(تفسیر الطبری : ٢٢/٧٥)
علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ اہل سنت والجماعت کا یہ اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا
جیسا کہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں : ولا یعلم الغیب غیرہ ۔ ”اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔”
(التمہید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید لابن عبد البر : ٢٤/١٩٥)
اس کے برعکس صحابہ کرام اور ائمہ سلف صالحین کے باغی قرآن و حدیث کے خلاف یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب دان ہیں، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم ہے کہ قیامت کب آئے گی۔ یہ انتہائی باطل اور گمراہ کن عقیدہ ہے۔ اس قسم کے گمراہی پر مبنی عقائد مسلمانوں میں کیسے گھس آئے ؟ اس کی ایک وجہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) یوں بیان فرماتے ہیں : وأظہر اللّٰہ من نور النبوّۃ شمسا طمست ضوء الکواکب ، وعاش السلف فیہا برہۃ طویلۃ ، ثمّ خفی بعض نور النبوّۃ ، فعرّب بعض کتب الأعاجم الفلاسفۃ من الروم والفرس والہند فی أثناء الدولۃ العبّاسیّۃ ، ثمّ طلبت کتبہم فی دولۃ المأمون من بلاد الروم ، فعرّبت ، ودرسہا الناس وظہر بسبب ذلک من البدع ما ظہر ۔
”اللہ تعالیٰ نے نبوت کے نور کا سورج ظاہر کیا جس کی روشنی سے ستاروں کی روشنی ماند پڑ گئی۔ سلف صالحین لمبا عرصہ اسی روشنی میں رہے ، پھر نور نبوت (سے لوگوں کااستفادہ)کچھ ماند پڑ گیا۔عباسی دور ِ حکومت میں روم ، فارس اور ہند کے عجمی فلاسفیوں کی کچھ کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا گیا، پھر مامون الرشید کے دور میں روم کے علاقوں سے ان عجمیوں کی کتابیں منگوا کر ان کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔لوگوں نے ان کتابوں کو پڑھا اور اسی وجہ سے وہ بدعتیں ظاہر ہوئیں جو اب لوگوں میں نظر آتی ہیں۔”(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیۃ : ٢/٨٤)
بعض وجوہات کی طرف شیخ الاسلام ثانی علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ) اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ذکر الطواغیت الأربعۃ التی ہدم بہا أصحاب التأویل الباطل معاقل الدین ، وانتہکوا بہا حرمۃ القرآن ، ومحوا بہا رسوم الإیمان ، وہی قولہم : إنّ کلام اللّٰہ وکلام رسولہ أدلّۃ لفظیّۃ ، لا تفید علما ولا یحصل منہا یقین ۔ وقولہم : إنّ آیات الصفات وأحادیث الصفات مجازات لا حقیقۃ لہا ، فہذہ الطواغیت الأربع ہی التی فعلت بالإسلام ما فعلت ، وہی التی محت رسومہ ، وأزالت معالمہ ، وہدمت قواعدہ ، وأسقطت حرمۃ النصوص من القلوب ، ونہجت طریق الطعن فیہا لکلّ زندیق وملحد فلا یحتج علیہ المحتجّ بحجّۃ من کتاب اللّٰہ أو سنّۃ رسولہ إلّا لجأ إلی طاغوت من ہذہ الطواغیت واعتصم بہ واتخذہ جُنَّۃ یصدّ بہ عن سبیل اللّٰہ ، واللّٰہ تعالی بحولہ وقوّتہ ومنّہ وفضلہ قد کسر ہذہ الطواغیت طاغوتا طاغوتا علی ألسنۃ خلفاء رسلہ وورثۃ أنبیائہ ، فلم یزل أنصار اللّٰہ ورسولہ یصیحون بأہلہا من أقطار الأرض ویرجمونہم بشہب الوحی وأدلۃ المعقول ۔
”ان طاغوتوں کا ذکر جن کے ذریعے باطل تاویلات کرنے والے لوگوں نے دین کے معالم کو ڈھایا ، قرآن کی حرمت کو پامال کیا اور ایمان کے نشانات کو مٹایا۔وہ طاغوت ان کے یہ اقوال ہیں : وہ کہتے ہیں کہ کلام اللہ اور کلام رسول لفظی دلائل ہیں ، یہ علم کا فائدہ نہیں دیتے نہ ان سے یقین کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ نیز کہتے ہیں کہ صفاتِ باری تعالیٰ والی آیات و احادیث مجازی ہیں ، حقیقی نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عادل راویوںکی بیان کردہ صحیح احادیث ِ رسول جن کو امت نے تلقی بالقبول کیا ہے ، وہ بھی علم کا فائدہ نہیں دیتیں ، زیادہ سے زیادہ ظن کا فائدہ دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب عقل اور وحی میں تعارض آ جائے تو عقل کو لیا جائے گا ، وحی کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔ یہ وہ چار طاغوت ہیں جنہوں نے اسلام کے ساتھ یہ ظلم کیا ہے۔ انہی طاغوتوں نے اسلام کے نشانات کو مٹایا ، اس کے معالم کو دھندلا کیا ، اس کی بنیادوں کو منہدم کیا ، وحی کی حرمت کو دلوں سے نکالا اور ہر زندیق و ملحد کو نصوصِ وحی میں طعن کرنے کا راستہ دیا ہے۔ جب کوئی شخص کتاب اللہ یا سنت ِ رسول کے ذریعے ایسے لوگوں کے خلاف دلائل ذکر کرنے لگتا ہے تو وہ اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے انہی طاغوتوں میں سے کسی طاغوت کا سہارا لیتے ، اسے لازم پکڑتے اور اسے ڈھال بناتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قوت و طاقت اور اپنے فضل و کرم سے اپنے رسولوں کے نائبوں اور اپنے انبیاء کے ورثاء کی زبانی ان طاغوتوں کو ایک ایک کرکے توڑا۔اللہ اور اس کے رسول کے جانثارہر دور میںاورزمین کے ہر کونے میں ان طاغوتوں کے پچاریوں کو للکارتے رہے اور ان کو وحی کے انگاروں اور عقل کے دلائل کے ذریعے رجم کرتے رہے۔”
(الصواعق المرسلۃ علی الطائفۃ الجہمیۃ والمعطلۃ لابن القیم : ٢/٣٧٩، ٣٨٠)
قیامت کب آئے گی؟ یہ غیب کی بات ہے اور غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ کہنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ قیامت کب آئے گی ، قرآن و حدیث اور اجماعِ امت کی مخالفت اور صریح جھوٹ ہے۔
قیامت کا علم مخفی ہے اور اللہ تعالیٰ نے کسی پر ظاہر نہیں کیا جیسا کہ :
1 فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(إِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ أَکَادُ أُخْفِیہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی) (طٰہٰ : ١٥)
”بلاشبہ قیامت آنے والی ہے ،میںاس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر نفس کو اس کا بدلہ دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے۔”
فرمانِ الٰہی ہے : (إِلَیْہِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِ) (حم السجدۃ : ٤٧)
”قیامت کا علم اسی کے پاس ہے۔”
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
إلی اللّٰہ یردّ العالمون بہ علم الساعۃ ، فإنّہ لا یعلم قیامہا غیرہ ۔
”علم والے لوگ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے ہی سپرد کرتے ہیں کیونکہ قیامت کے قیام کا وقت اس کے سوا کوئی نہیں
جانتا۔”(تفسیر الطبری : ٢٥/٢)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اسی آیت کے تحت فرماتے ہیں
أی لا یعلم ذلک أحد سواہ ، کما قال محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وہو سیّد البشر لجبریل ، وہو من سادات الملائکۃ ، حین سألہ عن الساعۃ ، فقال : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) (صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) ، وکما قال تعالی : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) ، وقال جلّ جلالہ : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) ۔ ”یعنی اللہ کے سوا قیامت کا علم کسی کے پاس نہیں جیسا کہ سید الملائکہ جبریل نے سید البشر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) جس سے سوال کیا گیا ہے ، وہ اس بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔(صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) اس (کے علم)کی انتہا تو آپ کے رب کے پاس ہی ہے۔ نیز فرمایا ہے : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) وہی اسے اس کے وقت ہی پر ظاہر کرے گا۔”(تفسیر ابن کثیر : ٥/٤٨٥ بتحقیق عبد الرزاق المہدی)
فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (فَہَلْ یَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَۃَ أَنْ تَأْتِیَہُمْ بَغْتَۃً فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُہَا فَأَنّٰی لَہُمْ إِذَا جَاءَ تْہُمْ ذِکْرٰہُمْ) (محمّد : ١٨)
”چنانچہ یہ لوگ تو بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ ان کے پاس اچانک آجائے، یقینًااس کی نشانیاں آچکی ہیں، تو جب قیامت ان کے پاس آپہنچے گی تو ان کے لیے کہاں ہوگا نصیحت حاصل کرنا۔”
قیامت اچانگ آئے گی۔ معلوم ہوا کہ کسی کے پاس قیامت کا علم نہیں۔
4 ارشادِ باری تعالیٰ ہے : (وَعِنْدَہ، عِلْمُ السَّاعَۃِ) (الزخرف : ٨٥)
”اسی کے پاس قیامت کا علم ہے۔”
مشہور مفسر علامہ خازن (٦٧٨۔٧٤١ھ) لکھتے ہیں : ومعنی الآیۃ أنّ اللّٰہ عندہ، علم الساعۃ ، فلا یدری أحد من الناس متی تقوم الساعۃ ، فی أیّ سنۃ ، أو أیّ شہر ۔۔۔۔۔ ”اس آیت ِ کریمہ کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ قیامت کب ، کس سال یا کس مہینے میں قائم ہو گی؟”(لباب التاویل فی معانی التنزیل للخازن : ٥/٢٢٠)
5 نیز فرمایا : (یَسْأَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُونُ قَرِیبًا) (الاحزاب : ٦٣)
”(اے نبی!) لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ بے شک اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ آپ کو کیا معلوم شاید کہ قیامت قریب ہو۔
”
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
یقول تعالی مخبرا لرسولہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أنّہ لا علم لہ بالساعۃ ، وإن سألہ الناس عن ذلک وأرشدہ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ عزّ وجلّ ، کما قال لہ فی سورۃ الأعراف ، وہی مکّیّۃ وہذہ مدنیّۃ ، فاستمرّ الحال فی ردّ علمہا إلی الذی یقیمہا ، لکن أخبرہ أنّہا قریبۃ ۔ ”اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے رہا ہے کہ آپ کو قیامت کا کوئی علم نہیں اگرچہ لوگ آپ سے اس بارے میں سوال کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی رہنمائی کی ہے کہ وہ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ ئ اعراف میں یہ بات فرمائی ہے۔ وہ سورت مکی ہے اور یہ مدنی ہے ، چنانچہ قیامت کے علم کو اس کے قائم کرنے والے (اللہ)کے سپرد کرنے کا کام ہر دور میں جاری رہا ، البتہ اللہ نے یہ بتا دیا تھا کہ قیامت قریب ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٥/٢٣٢)
اللہ رب العزت کا فرمان ہے : (یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِیکُمْ إِلَّا بَغْتَۃً یَسْأَلُونَکَ کَأَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللَّہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ ) (الاعراف : ١٨٧)
” (اے نبی!) وہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کونسا ہے؟ کہہ دیجےے: اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی۔ وہ (قیامت) تمہارے پاس بس اچانک ہی آئے گی۔ وہ (لوگ) آپ سے سوال کرتے ہیں جیسے آپ اس (کے وقت) سے بخوبی واقف ہیں۔ کہہ دیجےے: اس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
”
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں
وأمّا قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، فإنّہ أمر من اللّٰہ نبیّہ محمّدا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بأن یجیب سائلیہ عن الساعۃ بأنّہ لا یعلم وقت قیامہا إلّا اللّٰہ الذی یعلم الغیب ، وأنّہ لا یظہرہا لوقتہا ، ولا یعلمہا غیرہ جلّ ذکرہ ۔ ”اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے ، وہی اس کو اس کے وقت پر ظاہر کرے گا) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ وہ قیامت کے بارے میں سوال کرنے والوں کو جواب یہ دیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، قیامت کو اس کے وقت پر ظاہر کرنے والا اور اس کا علم رکھنے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔”(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٥)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
أمر تعالی نبیّہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إذا سئل عن وقت الساعۃ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ تعالی ، فإنّہ ہو الذی یجلّیہا لوقتہا ، أی یعلم جلیّۃ أمرہا ، ومتی یکون علی التحدید ، لا یعلم ذلک إلّا ہو تعالی ، ولہذا قال : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) ۔ ”اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ جب آپ سے قیامت قائم ہونے کے وقت کے بارے میں سوال کیا جائے تو آپ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اسے اپنے وقت پر ظاہر کرے گا ، یعنی اللہ تعالیٰ ہی اس کے معاملے کی حقیقت کو اور اس بات کو کہ یہ کس معین وقت میں واقع ہو گی ، جانتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی۔ ”
(تفسیر ابن کثیر : ٣/٢٤٥)
اللہ تعالیٰ کے فرمان : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) ”وہ آسمان و زمین میں بھاری ہوگی۔” کی تفسیر میں مشہور مفسر علامہ سدی رحمہ اللہ (م ١٢٧ھ)فرماتے ہیں
خفیت فی السماوات والأرض ، فلم یعلم قیامہا ، حتّی تقوم ، ملک مقرّب ولا نبیّ مرسل ۔ ”آسمانوں اور زمین میں قیامت مخفی رکھی ہے۔ کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی رسول نبی بھی اس کے قیام سے پہلے اس کے وقت ِ قیام کے بارے میں علم نہیں رکھتا۔”(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٦، وسندہ، حسنٌ)
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں
وأولی ذلک عندی بالصواب قول من قال : معنی ذلک ثقلت الساعۃ فی السموات والأرض علی أہلہا أن یعرفوا وقتہا وقیامہا ، لأنّ اللّٰہ أخفی ذلک عن خلقہ ، فلم یطّلع علیہ منہم أحدًا ، وذلک أنّ اللّٰہ أخبرَ بذلک بعد قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، وأخبر بعدہ أنّہا لا تأتی إلّا بغتۃ ، فالذی ہو أولی أن یکون ما بین ذلک أیضًا خبرًا عن خفاء علمہا عن الخلق ، إذ کان ما قبلہ وما بعدہ کذلک ۔
”میرے خیال میں اس آیت کی زیادہ درست تفسیر اس شخص کی ہے جو اس کا معنیٰ یہ بیان کرتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں پر اس کے قیام کے وقت کی معرفت بھاری(مشکل) ہو گئی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی مخلوق سے مخفی رکھا ہے ، کسی کو اس پر مطلع نہیں کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ بلاشبہ قیامت کا علم میرے رب کے پاس ہے ، وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا)۔ پھر یہ خبر دی کہ قیامت اچانک ہی آئے گی۔ درست بات یہ ہے کہ اس فرمان میں قیامت کے علم کے مخلوق سے مخفی ہونے کا بھی ذکر موجود ہے کیونکہ اس کے ماقبل اور مابعد یہی ذکر ہے۔”(تفسیر الطبری : ٤/٥٨٧)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (قُلْ إِنْ أَدْرِی أَقَرِیبٌ مَّا تُوعَدُونَ ) (الجن : ٢٥)
(اے نبی!) کہہ دیجیے : میں نہیں جانتا کہ جس (قیامت ) کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا (دور)۔
علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ اہل سنت والجماعت کا یہ اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا جیسا کہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں : ولا یعلم الغیب غیرہ ۔ ”اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔”
(التمہید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید لابن عبد البر : ٢٤/١٩٥)
فرمانِ باری تعالیٰ ہے
1
(إِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ أَکَادُ أُخْفِیہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی)
(طٰہٰ : ١٥)
بلاشبہ قیامت آنے والی ہے ،میںاس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر نفس کو اس کا بدلہ دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے
2
فرمانِ الٰہی ہے
(إِلَیْہِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِ)
(حم السجدۃ : ٤٧)
”قیامت کا علم اسی کے پاس ہے
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
إلی اللّٰہ یردّ العالمون بہ علم الساعۃ ، فإنّہ لا یعلم قیامہا غیرہ ۔
علم والے لوگ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے ہی سپرد کرتے ہیں کیونکہ قیامت کے قیام کا وقت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا
(تفسیر الطبری : ٢٥/٢)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اسی آیت کے تحت فرماتے ہیں
أی لا یعلم ذلک أحد سواہ ، کما قال محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وہو سیّد البشر لجبریل ، وہو من سادات الملائکۃ ، حین سألہ عن الساعۃ ، فقال : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) (صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) ، وکما قال تعالی : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) ، وقال جلّ جلالہ : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧)
یعنی اللہ کے سوا قیامت کا علم کسی کے پاس نہیں جیسا کہ سید الملائکہ جبریل نے سید البشر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) جس سے سوال کیا گیا ہے ، وہ اس بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔(صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) اس (کے علم)کی انتہا تو آپ کے رب کے پاس ہی ہے۔ نیز فرمایا ہے : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) وہی اسے اس کے وقت ہی پر ظاہر کرے گا۔”(تفسیر ابن کثیر : ٥/٤٨٥ بتحقیق عبد الرزاق المہدی)
3
فرمانِ باری تعالیٰ ہے
(فَہَلْ یَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَۃَ أَنْ تَأْتِیَہُمْ بَغْتَۃً فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُہَا فَأَنّٰی لَہُمْ إِذَا جَاءَ تْہُمْ ذِکْرٰہُمْ)
(محمّد : ١٨)
”چنانچہ یہ لوگ تو بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ ان کے پاس اچانک آجائے، یقینًااس کی نشانیاں آچکی ہیں، تو جب قیامت ان کے پاس آپہنچے گی تو ان کے لیے کہاں ہوگا نصیحت حاصل کرنا۔”
قیامت اچانگ آئے گی۔ معلوم ہوا کہ کسی کے پاس قیامت کا علم نہیں
4
رشادِ باری تعالیٰ ہے
(وَعِنْدَہ، عِلْمُ السَّاعَۃِ)
(الزخرف : ٨٥)
اسی کے پاس قیامت کا علم ہے
مشہور مفسر علامہ خازن (٦٧٨۔٧٤١ھ) لکھتے ہیں : ومعنی الآیۃ أنّ اللّٰہ عندہ، علم الساعۃ ، فلا یدری أحد من الناس متی تقوم الساعۃ ، فی أیّ سنۃ ، أو أیّ شہر ۔۔۔۔۔ ”اس آیت ِ کریمہ کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ قیامت کب ، کس سال یا کس مہینے میں قائم ہو گی
(لباب التاویل فی معانی التنزیل للخازن : ٥/٢٢٠)
5
: (یَسْأَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُونُ قَرِیبًا)
(الاحزاب : ٦٣)
(اے نبی!) لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ بے شک اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ آپ کو کیا معلوم شاید کہ قیامت قریب ہو
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
یقول تعالی مخبرا لرسولہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أنّہ لا علم لہ بالساعۃ ، وإن سألہ الناس عن ذلک وأرشدہ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ عزّ وجلّ ، کما قال لہ فی سورۃ الأعراف ، وہی مکّیّۃ وہذہ مدنیّۃ ، فاستمرّ الحال فی ردّ علمہا إلی الذی یقیمہا ، لکن أخبرہ أنّہا قریبۃ
اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے رہا ہے کہ آپ کو قیامت کا کوئی علم نہیں اگرچہ لوگ آپ سے اس بارے میں سوال کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی رہنمائی کی ہے کہ وہ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ ئ اعراف میں یہ بات فرمائی ہے۔ وہ سورت مکی ہے اور یہ مدنی ہے ، چنانچہ قیامت کے علم کو اس کے قائم کرنے والے (اللہ)کے سپرد کرنے کا کام ہر دور میں جاری رہا ، البتہ اللہ نے یہ بتا دیا تھا کہ قیامت قریب ہے
(تفسیر ابن کثیر : ٥/٢٣٢)
6
اللہ رب العزت کا فرمان ہے
یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِیکُمْ إِلَّا بَغْتَۃً یَسْأَلُونَکَ کَأَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللَّہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ
(الاعراف : ١٨٧)
(اے نبی!) وہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کونسا ہے؟ کہہ دیجےے: اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی۔ وہ (قیامت) تمہارے پاس بس اچانک ہی آئے گی۔ وہ (لوگ) آپ سے سوال کرتے ہیں جیسے آپ اس (کے وقت) سے بخوبی واقف ہیں۔ کہہ دیجےے: اس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں :
وأمّا قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، فإنّہ أمر من اللّٰہ نبیّہ محمّدا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بأن یجیب سائلیہ عن الساعۃ بأنّہ لا یعلم وقت قیامہا إلّا اللّٰہ الذی یعلم الغیب ، وأنّہ لا یظہرہا لوقتہا ، ولا یعلمہا غیرہ جلّ ذکرہ ۔ ”اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ)
کہہ دیجیے کہ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے ، وہی اس کو اس کے وقت پر ظاہر کرے گا) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ وہ قیامت کے بارے میں سوال کرنے والوں کو جواب یہ دیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، قیامت کو اس کے وقت پر ظاہر کرنے والا اور اس کا علم رکھنے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں
(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٥)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں
أمر تعالی نبیّہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إذا سئل عن وقت الساعۃ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ تعالی ، فإنّہ ہو الذی یجلّیہا لوقتہا ، أی یعلم جلیّۃ أمرہا ، ومتی یکون علی التحدید ، لا یعلم ذلک إلّا ہو تعالی ، ولہذا قال : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ)
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ جب آپ سے قیامت قائم ہونے کے وقت کے بارے میں سوال کیا جائے تو آپ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اسے اپنے وقت پر ظاہر کرے گا ، یعنی اللہ تعالیٰ ہی اس کے معاملے کی حقیقت کو اور اس بات کو کہ یہ کس معین وقت میں واقع ہو گی ، جانتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی
(تفسیر ابن کثیر : ٣/٢٤٥)
اللہ تعالیٰ کے فرمان : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) ”وہ آسمان و زمین میں بھاری ہوگی۔” کی تفسیر میں مشہور مفسر علامہ سدی رحمہ اللہ (م ١٢٧ھ)فرماتے ہیں
خفیت فی السماوات والأرض ، فلم یعلم قیامہا ، حتّی تقوم ، ملک مقرّب ولا نبیّ مرسل
آسمانوں اور زمین میں قیامت مخفی رکھی ہے۔ کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی رسول نبی بھی اس کے قیام سے پہلے اس کے وقت ِ قیام کے بارے میں علم نہیں رکھتا
(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٦، وسندہ، حسنٌ)
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں
وأولی ذلک عندی بالصواب قول من قال : معنی ذلک ثقلت الساعۃ فی السموات والأرض علی أہلہا أن یعرفوا وقتہا وقیامہا ، لأنّ اللّٰہ أخفی ذلک عن خلقہ ، فلم یطّلع علیہ منہم أحدًا ، وذلک أنّ اللّٰہ أخبرَ بذلک بعد قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، وأخبر بعدہ أنّہا لا تأتی إلّا بغتۃ ، فالذی ہو أولی أن یکون ما بین ذلک أیضًا خبرًا عن خفاء علمہا عن الخلق ، إذ کان ما قبلہ وما بعدہ کذلک
میرے خیال میں اس آیت کی زیادہ درست تفسیر اس شخص کی ہے جو اس کا معنیٰ یہ بیان کرتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں پر اس کے قیام کے وقت کی معرفت بھاری(مشکل) ہو گئی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی مخلوق سے مخفی رکھا ہے ، کسی کو اس پر مطلع نہیں کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ بلاشبہ قیامت کا علم میرے رب کے پاس ہے ، وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا)۔ پھر یہ خبر دی کہ قیامت اچانک ہی آئے گی۔ درست بات یہ ہے کہ اس فرمان میں قیامت کے علم کے مخلوق سے مخفی ہونے کا بھی ذکر موجود ہے کیونکہ اس کے ماقبل اور مابعد یہی ذکر ہے
(تفسیر الطبری : ٤/٥٨٧)
7
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
(قُلْ إِنْ أَدْرِی أَقَرِیبٌ مَّا تُوعَدُونَ )
(الجن : ٢٥)
(اے نبی!) کہہ دیجیے : میں نہیں جانتا کہ جس (قیامت ) کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا (دور)
مشہور مفسر علامہ قرطبی رحمہ اللہ (٦٠٠۔٦٧١ھ) فرماتے ہیں
أی لا یعرف وقت نزول العذاب ووقت قیام الساعۃ إلّا اللّٰہ ، فہو غیب لا أعلم منہ إلّا ما یعرفنیہ اللّٰہ
یعنی عذاب کے نازل ہونے اور قیامت کے قائم ہونے کا وقت سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ یہ غیب کی بات ہے ۔ میں اس میں سے صرف وہی جانتا ہوں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ مجھے بتا دیتا ہے
(تفسیر القرطبی : ١٩/٢٧)
8
اللہ رب العزت فرماتا ہے
(وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیبٌ)
(الشورٰی : ١٧)
اور(اے نبی!)آپ کو کیا معلوم کہ شاید قیامت قریب ہو
یہ آیت ِ کریمہ اس بات پر صریح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو قیامت کے بارے میں خبر نہیں دی تھی
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (١٠٧۔١٩٨ھ) فرماتے ہیں
ما کان فی القرآن (وَمَا أَدْرٰکَ) فقد أعلمہ ، وما قال : (وَمَا یُدْرِیکَ) فإنّہ لم یعلمہ
قرآنِ کریم میں جن چیزوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (وَمَا أَدْرٰکَ) (آپ کو کیا معلوم ہے؟)کہا ہے، ان چیزوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی اور جن چیزوں کے بارے میں (وَمَا یُدْرِیکَ)(آپ کیا معلوم کریں گے؟)کہا ہے ، ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر نہیں دی
(صحیح البخاری : ١/٢٧٠، قبل الحدیث : ٢٠١٤، تغلیق التعلیق لابن حجر : ٣/٢٠٥، وسندہ، صحیحٌ)
یہی بات شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ (م ٥٦١ھ) نے فرمائی ہے۔
(غنیۃ الطالبین للجیلانی : ص ٥٥، طبع لاہور)
9
فرمانِ ربانی ہے
(إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہ، عِلْمُ السَّاعَۃِ)
(لقمان : ٣٤)
بلاشبہ اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے
10
باری تعالیٰ ہے
یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسٰہَا ٭ فِیمَ أَنْتَ مِنْ ذِکْرٰہَا ٭ إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہٰہَا
(النازعات : ٤٢، ٤٣)
”(اے نبی!) وہ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ وہ کب واقع ہو گی؟ آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا غرض ؟ اس (کے علم) کی انتہا تو تیرے رب کے پاس ہے
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اسی آیت کی تفسیر میں اہل سنت و اہل حق کا عقیدہ یوں بیان کرتے ہیں
أی لیس علمہا إلیک ولا إلی أحد من الخلق ، بل مردّہا ومرجعہا إلی اللّٰہ عزّ وجلّ ، فہو الذی یعلم وقتہا علی الیقین
یعنی آپ کو یا مخلوق میں سے کسی کو بھی اس کا علم نہیں بلکہ اس کا مرجع و منبع اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔وہی یقینی طور پر اس کے قائم ہونے کا وقت جانتا ہے
(تفسیر ابن کثیر : ٦/٣٨٥)
11
وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَا تَأْتِینَا السَّاعَۃُ قُلْ بَلٰی وَرَبِّی لَتَأْتِیَنَّکُمْ عَالِمِ الْغَیْبِ لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلَا فِی الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِکَ وَلَا أَکْبَرُ إِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِینٍ
(سبا : ٣)
اور کافروں نے کہا : ہم پر قیامت نہیں آئے گی، کہہ دیجیے : کیوں نہیں ! میرے عالم الغیب رب کی قسم ! بلاشبہ وہ ضرور آئے گی، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ذرہ برابر کوئی چیز بھی اس سے چھپی نہیں رہ سکتی اور اس (ذرے) سے کوئی چھوٹی اور بڑی چیز ایسی نہیں جو واضح کتاب (لوح محفوظ) میں (درج) نہ ہو
اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں
اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو علم غیب کی صفت سے موصوف بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ قیامت اگرچہ آنے والی ہے لیکن اس کے آنے کا وقت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ کافروں سے کہہ دو کہ قیامت ضرور بالضرور آئے گی لیکن اس کے آنے کا وقت اس علام الغیوب کے سوا کوئی نہیں جانتاجس سے ایک ذرے کے برابر چیز بھی چھپ نہیں سکتی
(تفسیر الطبری : ٢٢/٧٥)
علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ اہل سنت والجماعت کا یہ اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا
جیسا کہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں : ولا یعلم الغیب غیرہ ۔ ”اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔”
(التمہید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید لابن عبد البر : ٢٤/١٩٥)
اس کے برعکس صحابہ کرام اور ائمہ سلف صالحین کے باغی قرآن و حدیث کے خلاف یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب دان ہیں، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم ہے کہ قیامت کب آئے گی۔ یہ انتہائی باطل اور گمراہ کن عقیدہ ہے۔ اس قسم کے گمراہی پر مبنی عقائد مسلمانوں میں کیسے گھس آئے ؟ اس کی ایک وجہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) یوں بیان فرماتے ہیں : وأظہر اللّٰہ من نور النبوّۃ شمسا طمست ضوء الکواکب ، وعاش السلف فیہا برہۃ طویلۃ ، ثمّ خفی بعض نور النبوّۃ ، فعرّب بعض کتب الأعاجم الفلاسفۃ من الروم والفرس والہند فی أثناء الدولۃ العبّاسیّۃ ، ثمّ طلبت کتبہم فی دولۃ المأمون من بلاد الروم ، فعرّبت ، ودرسہا الناس وظہر بسبب ذلک من البدع ما ظہر ۔
”اللہ تعالیٰ نے نبوت کے نور کا سورج ظاہر کیا جس کی روشنی سے ستاروں کی روشنی ماند پڑ گئی۔ سلف صالحین لمبا عرصہ اسی روشنی میں رہے ، پھر نور نبوت (سے لوگوں کااستفادہ)کچھ ماند پڑ گیا۔عباسی دور ِ حکومت میں روم ، فارس اور ہند کے عجمی فلاسفیوں کی کچھ کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا گیا، پھر مامون الرشید کے دور میں روم کے علاقوں سے ان عجمیوں کی کتابیں منگوا کر ان کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔لوگوں نے ان کتابوں کو پڑھا اور اسی وجہ سے وہ بدعتیں ظاہر ہوئیں جو اب لوگوں میں نظر آتی ہیں۔”(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیۃ : ٢/٨٤)
بعض وجوہات کی طرف شیخ الاسلام ثانی علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ) اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ذکر الطواغیت الأربعۃ التی ہدم بہا أصحاب التأویل الباطل معاقل الدین ، وانتہکوا بہا حرمۃ القرآن ، ومحوا بہا رسوم الإیمان ، وہی قولہم : إنّ کلام اللّٰہ وکلام رسولہ أدلّۃ لفظیّۃ ، لا تفید علما ولا یحصل منہا یقین ۔ وقولہم : إنّ آیات الصفات وأحادیث الصفات مجازات لا حقیقۃ لہا ، فہذہ الطواغیت الأربع ہی التی فعلت بالإسلام ما فعلت ، وہی التی محت رسومہ ، وأزالت معالمہ ، وہدمت قواعدہ ، وأسقطت حرمۃ النصوص من القلوب ، ونہجت طریق الطعن فیہا لکلّ زندیق وملحد فلا یحتج علیہ المحتجّ بحجّۃ من کتاب اللّٰہ أو سنّۃ رسولہ إلّا لجأ إلی طاغوت من ہذہ الطواغیت واعتصم بہ واتخذہ جُنَّۃ یصدّ بہ عن سبیل اللّٰہ ، واللّٰہ تعالی بحولہ وقوّتہ ومنّہ وفضلہ قد کسر ہذہ الطواغیت طاغوتا طاغوتا علی ألسنۃ خلفاء رسلہ وورثۃ أنبیائہ ، فلم یزل أنصار اللّٰہ ورسولہ یصیحون بأہلہا من أقطار الأرض ویرجمونہم بشہب الوحی وأدلۃ المعقول ۔
”ان طاغوتوں کا ذکر جن کے ذریعے باطل تاویلات کرنے والے لوگوں نے دین کے معالم کو ڈھایا ، قرآن کی حرمت کو پامال کیا اور ایمان کے نشانات کو مٹایا۔وہ طاغوت ان کے یہ اقوال ہیں : وہ کہتے ہیں کہ کلام اللہ اور کلام رسول لفظی دلائل ہیں ، یہ علم کا فائدہ نہیں دیتے نہ ان سے یقین کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ نیز کہتے ہیں کہ صفاتِ باری تعالیٰ والی آیات و احادیث مجازی ہیں ، حقیقی نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عادل راویوںکی بیان کردہ صحیح احادیث ِ رسول جن کو امت نے تلقی بالقبول کیا ہے ، وہ بھی علم کا فائدہ نہیں دیتیں ، زیادہ سے زیادہ ظن کا فائدہ دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب عقل اور وحی میں تعارض آ جائے تو عقل کو لیا جائے گا ، وحی کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔ یہ وہ چار طاغوت ہیں جنہوں نے اسلام کے ساتھ یہ ظلم کیا ہے۔ انہی طاغوتوں نے اسلام کے نشانات کو مٹایا ، اس کے معالم کو دھندلا کیا ، اس کی بنیادوں کو منہدم کیا ، وحی کی حرمت کو دلوں سے نکالا اور ہر زندیق و ملحد کو نصوصِ وحی میں طعن کرنے کا راستہ دیا ہے۔ جب کوئی شخص کتاب اللہ یا سنت ِ رسول کے ذریعے ایسے لوگوں کے خلاف دلائل ذکر کرنے لگتا ہے تو وہ اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے انہی طاغوتوں میں سے کسی طاغوت کا سہارا لیتے ، اسے لازم پکڑتے اور اسے ڈھال بناتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قوت و طاقت اور اپنے فضل و کرم سے اپنے رسولوں کے نائبوں اور اپنے انبیاء کے ورثاء کی زبانی ان طاغوتوں کو ایک ایک کرکے توڑا۔اللہ اور اس کے رسول کے جانثارہر دور میںاورزمین کے ہر کونے میں ان طاغوتوں کے پچاریوں کو للکارتے رہے اور ان کو وحی کے انگاروں اور عقل کے دلائل کے ذریعے رجم کرتے رہے۔”
(الصواعق المرسلۃ علی الطائفۃ الجہمیۃ والمعطلۃ لابن القیم : ٢/٣٧٩، ٣٨٠)
قیامت کب آئے گی؟ یہ غیب کی بات ہے اور غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ کہنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ قیامت کب آئے گی ، قرآن و حدیث اور اجماعِ امت کی مخالفت اور صریح جھوٹ ہے۔
قیامت کا علم مخفی ہے اور اللہ تعالیٰ نے کسی پر ظاہر نہیں کیا جیسا کہ :
1 فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(إِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ أَکَادُ أُخْفِیہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی) (طٰہٰ : ١٥)
”بلاشبہ قیامت آنے والی ہے ،میںاس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر نفس کو اس کا بدلہ دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے۔”
فرمانِ الٰہی ہے : (إِلَیْہِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِ) (حم السجدۃ : ٤٧)
”قیامت کا علم اسی کے پاس ہے۔”
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
إلی اللّٰہ یردّ العالمون بہ علم الساعۃ ، فإنّہ لا یعلم قیامہا غیرہ ۔
”علم والے لوگ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے ہی سپرد کرتے ہیں کیونکہ قیامت کے قیام کا وقت اس کے سوا کوئی نہیں
جانتا۔”(تفسیر الطبری : ٢٥/٢)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اسی آیت کے تحت فرماتے ہیں
أی لا یعلم ذلک أحد سواہ ، کما قال محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وہو سیّد البشر لجبریل ، وہو من سادات الملائکۃ ، حین سألہ عن الساعۃ ، فقال : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) (صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) ، وکما قال تعالی : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) ، وقال جلّ جلالہ : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) ۔ ”یعنی اللہ کے سوا قیامت کا علم کسی کے پاس نہیں جیسا کہ سید الملائکہ جبریل نے سید البشر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((ما المسؤول عنہا بأعلم من السائل )) جس سے سوال کیا گیا ہے ، وہ اس بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔(صحیح البخاری : ٥٠، صحیح مسلم : ١٠٠٩) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہَاہَا) (النازعات : ٤٤) اس (کے علم)کی انتہا تو آپ کے رب کے پاس ہی ہے۔ نیز فرمایا ہے : (لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (الاعراف : ١٨٧) وہی اسے اس کے وقت ہی پر ظاہر کرے گا۔”(تفسیر ابن کثیر : ٥/٤٨٥ بتحقیق عبد الرزاق المہدی)
فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (فَہَلْ یَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَۃَ أَنْ تَأْتِیَہُمْ بَغْتَۃً فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُہَا فَأَنّٰی لَہُمْ إِذَا جَاءَ تْہُمْ ذِکْرٰہُمْ) (محمّد : ١٨)
”چنانچہ یہ لوگ تو بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ ان کے پاس اچانک آجائے، یقینًااس کی نشانیاں آچکی ہیں، تو جب قیامت ان کے پاس آپہنچے گی تو ان کے لیے کہاں ہوگا نصیحت حاصل کرنا۔”
قیامت اچانگ آئے گی۔ معلوم ہوا کہ کسی کے پاس قیامت کا علم نہیں۔
4 ارشادِ باری تعالیٰ ہے : (وَعِنْدَہ، عِلْمُ السَّاعَۃِ) (الزخرف : ٨٥)
”اسی کے پاس قیامت کا علم ہے۔”
مشہور مفسر علامہ خازن (٦٧٨۔٧٤١ھ) لکھتے ہیں : ومعنی الآیۃ أنّ اللّٰہ عندہ، علم الساعۃ ، فلا یدری أحد من الناس متی تقوم الساعۃ ، فی أیّ سنۃ ، أو أیّ شہر ۔۔۔۔۔ ”اس آیت ِ کریمہ کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ قیامت کب ، کس سال یا کس مہینے میں قائم ہو گی؟”(لباب التاویل فی معانی التنزیل للخازن : ٥/٢٢٠)
5 نیز فرمایا : (یَسْأَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُونُ قَرِیبًا) (الاحزاب : ٦٣)
”(اے نبی!) لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ بے شک اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ آپ کو کیا معلوم شاید کہ قیامت قریب ہو۔
”
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
یقول تعالی مخبرا لرسولہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أنّہ لا علم لہ بالساعۃ ، وإن سألہ الناس عن ذلک وأرشدہ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ عزّ وجلّ ، کما قال لہ فی سورۃ الأعراف ، وہی مکّیّۃ وہذہ مدنیّۃ ، فاستمرّ الحال فی ردّ علمہا إلی الذی یقیمہا ، لکن أخبرہ أنّہا قریبۃ ۔ ”اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے رہا ہے کہ آپ کو قیامت کا کوئی علم نہیں اگرچہ لوگ آپ سے اس بارے میں سوال کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی رہنمائی کی ہے کہ وہ قیامت کے علم کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ ئ اعراف میں یہ بات فرمائی ہے۔ وہ سورت مکی ہے اور یہ مدنی ہے ، چنانچہ قیامت کے علم کو اس کے قائم کرنے والے (اللہ)کے سپرد کرنے کا کام ہر دور میں جاری رہا ، البتہ اللہ نے یہ بتا دیا تھا کہ قیامت قریب ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٥/٢٣٢)
اللہ رب العزت کا فرمان ہے : (یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِیکُمْ إِلَّا بَغْتَۃً یَسْأَلُونَکَ کَأَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللَّہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ ) (الاعراف : ١٨٧)
” (اے نبی!) وہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کونسا ہے؟ کہہ دیجےے: اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی۔ وہ (قیامت) تمہارے پاس بس اچانک ہی آئے گی۔ وہ (لوگ) آپ سے سوال کرتے ہیں جیسے آپ اس (کے وقت) سے بخوبی واقف ہیں۔ کہہ دیجےے: اس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
”
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں
وأمّا قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، فإنّہ أمر من اللّٰہ نبیّہ محمّدا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بأن یجیب سائلیہ عن الساعۃ بأنّہ لا یعلم وقت قیامہا إلّا اللّٰہ الذی یعلم الغیب ، وأنّہ لا یظہرہا لوقتہا ، ولا یعلمہا غیرہ جلّ ذکرہ ۔ ”اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے ، وہی اس کو اس کے وقت پر ظاہر کرے گا) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ وہ قیامت کے بارے میں سوال کرنے والوں کو جواب یہ دیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، قیامت کو اس کے وقت پر ظاہر کرنے والا اور اس کا علم رکھنے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔”(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٥)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
أمر تعالی نبیّہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إذا سئل عن وقت الساعۃ أن یردّ علمہا إلی اللّٰہ تعالی ، فإنّہ ہو الذی یجلّیہا لوقتہا ، أی یعلم جلیّۃ أمرہا ، ومتی یکون علی التحدید ، لا یعلم ذلک إلّا ہو تعالی ، ولہذا قال : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) ۔ ”اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ جب آپ سے قیامت قائم ہونے کے وقت کے بارے میں سوال کیا جائے تو آپ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اسے اپنے وقت پر ظاہر کرے گا ، یعنی اللہ تعالیٰ ہی اس کے معاملے کی حقیقت کو اور اس بات کو کہ یہ کس معین وقت میں واقع ہو گی ، جانتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) وہ آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوگی۔ ”
(تفسیر ابن کثیر : ٣/٢٤٥)
اللہ تعالیٰ کے فرمان : (ثَقُلَتْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) ”وہ آسمان و زمین میں بھاری ہوگی۔” کی تفسیر میں مشہور مفسر علامہ سدی رحمہ اللہ (م ١٢٧ھ)فرماتے ہیں
خفیت فی السماوات والأرض ، فلم یعلم قیامہا ، حتّی تقوم ، ملک مقرّب ولا نبیّ مرسل ۔ ”آسمانوں اور زمین میں قیامت مخفی رکھی ہے۔ کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی رسول نبی بھی اس کے قیام سے پہلے اس کے وقت ِ قیام کے بارے میں علم نہیں رکھتا۔”(تفسیر الطبری : ٥/٥٨٦، وسندہ، حسنٌ)
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں
وأولی ذلک عندی بالصواب قول من قال : معنی ذلک ثقلت الساعۃ فی السموات والأرض علی أہلہا أن یعرفوا وقتہا وقیامہا ، لأنّ اللّٰہ أخفی ذلک عن خلقہ ، فلم یطّلع علیہ منہم أحدًا ، وذلک أنّ اللّٰہ أخبرَ بذلک بعد قولہ : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) ، وأخبر بعدہ أنّہا لا تأتی إلّا بغتۃ ، فالذی ہو أولی أن یکون ما بین ذلک أیضًا خبرًا عن خفاء علمہا عن الخلق ، إذ کان ما قبلہ وما بعدہ کذلک ۔
”میرے خیال میں اس آیت کی زیادہ درست تفسیر اس شخص کی ہے جو اس کا معنیٰ یہ بیان کرتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں پر اس کے قیام کے وقت کی معرفت بھاری(مشکل) ہو گئی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی مخلوق سے مخفی رکھا ہے ، کسی کو اس پر مطلع نہیں کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : (قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیہَا لِوَقْتِہَا إِلَّا ہُوَ) (کہہ دیجیے کہ بلاشبہ قیامت کا علم میرے رب کے پاس ہے ، وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا)۔ پھر یہ خبر دی کہ قیامت اچانک ہی آئے گی۔ درست بات یہ ہے کہ اس فرمان میں قیامت کے علم کے مخلوق سے مخفی ہونے کا بھی ذکر موجود ہے کیونکہ اس کے ماقبل اور مابعد یہی ذکر ہے۔”(تفسیر الطبری : ٤/٥٨٧)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (قُلْ إِنْ أَدْرِی أَقَرِیبٌ مَّا تُوعَدُونَ ) (الجن : ٢٥)
(اے نبی!) کہہ دیجیے : میں نہیں جانتا کہ جس (قیامت ) کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا (دور)۔
مشہور مفسر علامہ قرطبی رحمہ اللہ (٦٠٠۔٦٧١ھ) فرماتے ہیں
أی لا یعرف وقت نزول العذاب ووقت قیام الساعۃ إلّا اللّٰہ ، فہو غیب لا أعلم منہ إلّا ما یعرفنیہ اللّٰہ ۔ ”یعنی عذاب کے نازل ہونے اور قیامت کے قائم ہونے کا وقت سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ یہ غیب کی بات ہے ۔ میں اس میں سے صرف وہی جانتا ہوں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ مجھے بتا دیتا ہے۔(تفسیر القرطبی : ١٩/٢٧)
اللہ رب العزت فرماتا ہے : (وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیبٌ) (الشورٰی : ١٧) ”اور(اے نبی!)آپ کو کیا معلوم کہ شاید قیامت قریب ہو۔”
یہ آیت ِ کریمہ اس بات پر صریح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو قیامت کے بارے میں خبر نہیں دی تھی۔
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (١٠٧۔١٩٨ھ) فرماتے ہیں : ما کان فی القرآن (وَمَا أَدْرٰکَ) فقد أعلمہ ، وما قال : (وَمَا یُدْرِیکَ) فإنّہ لم یعلمہ ۔
”قرآنِ کریم میں جن چیزوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (وَمَا أَدْرٰکَ) (آپ کو کیا معلوم ہے؟)کہا ہے، ان چیزوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی اور جن چیزوں کے بارے میں (وَمَا یُدْرِیکَ)(آپ کیا معلوم کریں گے؟)کہا ہے ، ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر نہیں دی۔”
(صحیح البخاری : ١/٢٧٠، قبل الحدیث : ٢٠١٤، تغلیق التعلیق لابن حجر : ٣/٢٠٥، وسندہ، صحیحٌ)
یہی بات شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ (م ٥٦١ھ) نے فرمائی ہے۔
(غنیۃ الطالبین للجیلانی : ص ٥٥، طبع لاہور)
9 فرمانِ ربانی ہے : (إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہ، عِلْمُ السَّاعَۃِ) (لقمان : ٣٤)
”بلاشبہ اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔”
0 فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسٰہَا ٭ فِیمَ أَنْتَ مِنْ ذِکْرٰہَا ٭ إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہٰہَا ٭) (النازعات : ٤٢، ٤٣)
”(اے نبی!) وہ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ وہ کب واقع ہو گی؟ آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا غرض ؟ اس (کے علم) کی انتہا تو تیرے رب کے پاس ہے۔”
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اسی آیت کی تفسیر میں اہل سنت و اہل حق کا عقیدہ یوں بیان کرتے ہیں : أی لیس علمہا إلیک ولا إلی أحد من الخلق ، بل مردّہا ومرجعہا إلی اللّٰہ عزّ وجلّ ، فہو الذی یعلم وقتہا علی الیقین ۔
”یعنی آپ کو یا مخلوق میں سے کسی کو بھی اس کا علم نہیں بلکہ اس کا مرجع و منبع اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔وہی یقینی طور پر اس کے قائم ہونے کا وقت جانتا ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٦/٣٨٥)
فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَا تَأْتِینَا السَّاعَۃُ قُلْ بَلٰی وَرَبِّی لَتَأْتِیَنَّکُمْ عَالِمِ الْغَیْبِ لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلَا فِی الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِکَ وَلَا أَکْبَرُ إِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِینٍ) (سبا : ٣)
اور کافروں نے کہا : ہم پر قیامت نہیں آئے گی، کہہ دیجیے : کیوں نہیں ! میرے عالم الغیب رب کی قسم ! بلاشبہ وہ ضرور آئے گی، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ذرہ برابر کوئی چیز بھی اس سے چھپی نہیں رہ سکتی اور اس (ذرے) سے کوئی چھوٹی اور بڑی چیز ایسی نہیں جو واضح کتاب (لوح محفوظ) میں (درج) نہ ہو۔
”
اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو علم غیب کی صفت سے موصوف بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ قیامت اگرچہ آنے والی ہے لیکن اس کے آنے کا وقت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ کافروں سے کہہ دو کہ قیامت ضرور بالضرور آئے گی لیکن اس کے آنے کا وقت اس علام الغیوب کے سوا کوئی نہیں جانتاجس سے ایک ذرے کے برابر چیز بھی چھپ نہیں سکتی۔”(تفسیر الطبری : ٢٢/٧٥)
أی لا یعرف وقت نزول العذاب ووقت قیام الساعۃ إلّا اللّٰہ ، فہو غیب لا أعلم منہ إلّا ما یعرفنیہ اللّٰہ ۔ ”یعنی عذاب کے نازل ہونے اور قیامت کے قائم ہونے کا وقت سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ یہ غیب کی بات ہے ۔ میں اس میں سے صرف وہی جانتا ہوں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ مجھے بتا دیتا ہے۔(تفسیر القرطبی : ١٩/٢٧)
اللہ رب العزت فرماتا ہے : (وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیبٌ) (الشورٰی : ١٧) ”اور(اے نبی!)آپ کو کیا معلوم کہ شاید قیامت قریب ہو۔”
یہ آیت ِ کریمہ اس بات پر صریح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو قیامت کے بارے میں خبر نہیں دی تھی۔
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (١٠٧۔١٩٨ھ) فرماتے ہیں : ما کان فی القرآن (وَمَا أَدْرٰکَ) فقد أعلمہ ، وما قال : (وَمَا یُدْرِیکَ) فإنّہ لم یعلمہ ۔
”قرآنِ کریم میں جن چیزوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (وَمَا أَدْرٰکَ) (آپ کو کیا معلوم ہے؟)کہا ہے، ان چیزوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی اور جن چیزوں کے بارے میں (وَمَا یُدْرِیکَ)(آپ کیا معلوم کریں گے؟)کہا ہے ، ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر نہیں دی۔”
(صحیح البخاری : ١/٢٧٠، قبل الحدیث : ٢٠١٤، تغلیق التعلیق لابن حجر : ٣/٢٠٥، وسندہ، صحیحٌ)
یہی بات شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ (م ٥٦١ھ) نے فرمائی ہے۔
(غنیۃ الطالبین للجیلانی : ص ٥٥، طبع لاہور)
9 فرمانِ ربانی ہے : (إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہ، عِلْمُ السَّاعَۃِ) (لقمان : ٣٤)
”بلاشبہ اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔”
0 فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسٰہَا ٭ فِیمَ أَنْتَ مِنْ ذِکْرٰہَا ٭ إِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہٰہَا ٭) (النازعات : ٤٢، ٤٣)
”(اے نبی!) وہ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ وہ کب واقع ہو گی؟ آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا غرض ؟ اس (کے علم) کی انتہا تو تیرے رب کے پاس ہے۔”
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) اسی آیت کی تفسیر میں اہل سنت و اہل حق کا عقیدہ یوں بیان کرتے ہیں : أی لیس علمہا إلیک ولا إلی أحد من الخلق ، بل مردّہا ومرجعہا إلی اللّٰہ عزّ وجلّ ، فہو الذی یعلم وقتہا علی الیقین ۔
”یعنی آپ کو یا مخلوق میں سے کسی کو بھی اس کا علم نہیں بلکہ اس کا مرجع و منبع اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔وہی یقینی طور پر اس کے قائم ہونے کا وقت جانتا ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٦/٣٨٥)
فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَا تَأْتِینَا السَّاعَۃُ قُلْ بَلٰی وَرَبِّی لَتَأْتِیَنَّکُمْ عَالِمِ الْغَیْبِ لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلَا فِی الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِکَ وَلَا أَکْبَرُ إِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِینٍ) (سبا : ٣)
اور کافروں نے کہا : ہم پر قیامت نہیں آئے گی، کہہ دیجیے : کیوں نہیں ! میرے عالم الغیب رب کی قسم ! بلاشبہ وہ ضرور آئے گی، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ذرہ برابر کوئی چیز بھی اس سے چھپی نہیں رہ سکتی اور اس (ذرے) سے کوئی چھوٹی اور بڑی چیز ایسی نہیں جو واضح کتاب (لوح محفوظ) میں (درج) نہ ہو۔
”
اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو علم غیب کی صفت سے موصوف بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ قیامت اگرچہ آنے والی ہے لیکن اس کے آنے کا وقت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ کافروں سے کہہ دو کہ قیامت ضرور بالضرور آئے گی لیکن اس کے آنے کا وقت اس علام الغیوب کے سوا کوئی نہیں جانتاجس سے ایک ذرے کے برابر چیز بھی چھپ نہیں سکتی۔”(تفسیر الطبری : ٢٢/٧٥)
یہ گیارہ قرآنی آیات بینات ہیں۔ ان آیات سے اور ان کی تفسیر و تشریح میں ائمہ اہل سنت و محدثین عظام کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ قیامت کا وقت اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ مخلوق میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں کہ قیامت کب واقع ہو گی کیونکہ یہ غیب کی بات ہے اور غیب صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر اس نے اپنی صفت علّام الغیوب (غیب جاننے والا) بیان کی ہے۔(المائدۃ : ١٠٩، ١١٦، التوبۃ : ٧٨، سبا : ٤٨)
علامہ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ (٧٠٤۔٧٤٤ھ) شرک کے بیان میں لکھتے ہیں
وقولہ : إنّ المبالغۃ فی تعظیمہ واجبۃ ، أیرید بہا المبالغۃ بحسب ما یراہ کلّ أحد تعظیماً حتّی الحجّ إلی قبرہ والسجود لہ والطواف بہ ، واعتقاد أنّہ یعلم الغیب ، وأنّہ یعطی ویمنع ، ویملک لمن استغاث بہ من دون اللّٰہ الضرّ والنفع ، وأنّہ یقضی حوائج السائلین ویفرّج کربات المکروبین ، وأنّہ یشفع فیمن یشاء ویدخل الجنّۃ من یشاء ، فدعوی وجوب المبالغۃ فی ہذا التعظیم مبالغۃ فی الشرک وانسلاخ من جملۃ الدین
سُبکی کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں مبالغہ کرنا واجب ہے۔ کیا ان کی مبالغہ سے مراد وہ تعظیم ہے جسے کوئی شخص اپنے خیال میں تعظیم سمجھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کا حج ، اس پر سجدہ ، اس کا طواف اور یہ اعتقاد کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب دان ہیں ، آپ دیتے بھی ہیں اور روک بھی لیتے ہیں، جو اللہ کو چھوڑ کر آپ سے مانگتا ہے ، اس کے لیے نفع ونقصان کے مالک ہیں ، سوال کرنے والوں کی حاجات آپ پوری کرتے ہیں اور غم زدہ لوگوں کی مشکلات رفع کرتے ہیں ، نیز آپ جس کی چاہیں گے سفارش کریں گے اور جسے چاہیں گے جنت میں داخل کر دیں گے۔۔۔ اگر یہ مراد ہے تو تعظیم میں مبالغہ دراصل شرک میں مبالغہ اور دین سے مکمل طور پر نکل جانا ہے۔”(الصارم المنکی فی الرد علی السبکی لابن عبد الہادی : ٣٤٦)
ماہ صفر 4ھ میں بئرمعونہ کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ ایک نجدی عامر بن مالک کلابی نام کا ایک نجدی ، مدینہ منورہ آیا، وہ مسلماں تو نہ ہوا، لیکن اس نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخواست کی کہ، کچھ لوگ اس کے ساتھ بھیج دیئے جائیں تاکہ اس کے قبیلہ میں وہ تبلیغ کریں، امید ہے وہ لوگ مسلمان ہوجائیں۔ اس پر 70 صحابہ کی جماعت اس کے ساتھ بھیج دی گئی۔ بئر معونہ کے کنواں کے پاس تمام صحابہ کو شہید کر دیا گيا، صرف تین لوگ ہی زندہ بچ سکے
جب مدینہ پہنچ کر انہوں نے سارا حال دربار رسالت میں بیان کیاتو اصحاب بئرمعونہ کی شہادت کی خبر سن کر سرکار رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اتنا عظیم صدمہ پہنچا کہ تمام عمر شریف میں کبھی بھی اتنا رنج و صدمہ نہیں پہنچا تھا۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مہینہ بھر تک قبائل رعل و ذکوان اور عصیہ و بنو لحیان پر نماز فجر میں لعنت بھیجتے رہے اورعمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جن دو شخصوں کو قتل کر دیا تھا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کے خون بہا ادا کرنے کا اعلان فرمایا۔
مواہب اللدنیۃ، باب بئر معونۃ ، ج2،ص503
انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ آنحضرتﷺ تیس دن تک ان لوگوں کے لئے جنہوں نے بئرمعونہ پر آپ ﷺ کے اصحاب کو شہید کیا تھا یعنی رعل، ذکوان اور بنی لحیان کے لئے بد دعا فرماتے رہے اور فرمایا کہ عصیہ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، انس کہتے ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺپر ان شہداء بئرمعونہ کے حق میں آیات نازل فرمائی مگر بعد کو ان کا پڑھنا موقوف ہوگیا وہ آیات یہ ہیں۔ بَلِّغُوا قَوْمَنَا فَقَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَرَضِينَا عَنْهُ۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1318
عاصم بن سلیمان روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے انس سے دریافت کیا کہ نماز میں قنوت پڑھنا کیسا ہے؟ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ میں نے کہا : رکوع سے پہلے یا بعد، انہوں نے کہا : رکوع سے پہلے، میں نے کہا : فلاں صاحب (محمد بن سیرین یا کوئی اور) تو آپ کے حوالہ سے کہتے ہیں کہ آپ نے کہا کہ رکوع کے بعد انس نے کہا وہ غلط کہتے ہیں رکوع کے بعد آنحضرت ﷺ نے صرف ایک ماہ تک قنوت پڑھی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ نے ستر قاریوں کو مشرکوں کی طرف بھیجا تھا کیونکہ ان سے اور آپ ﷺ سے عہد تھا ان معاندین کفار نے عہد توڑ دیا اور دھوکا سے ان قاریوں کو شہید کر ڈالا چنانچہ اس وقت رسول اللہ ﷺ ایک ماہ تک رکوع کے بعد قنوت پڑھتے رہے اور ان کے لئے بد دعا فرماتے رہے
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1319
قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام رحمہم اللہ کہتے ہیں: جس وقت اللہ تعالی نے اپنی صفت یہ بیان کی کہ صرف وہی علم غیب جانتا ہے، مخلوقات میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے سوا کسی کے پاس بھی علم غیب نہیں ہے، پھر اس میں سے اللہ تعالی نے اپنے پسندیدہ رسولوں کو مستثنی کیا چنانچہ انہیں وحی کے ذریعے صرف اتنی ہی غیب کی خبریں دیں جتنی اللہ تعالی نے چاہی، اور عطا شدہ ان خبروں کو انبیائے کرام کیلئے معجزہ اور سچی نبوت کی دلیل بنایا " انتہی
"تفسیر قرطبی" (19/ 28)
علامہ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ (٧٠٤۔٧٤٤ھ) شرک کے بیان میں لکھتے ہیں
وقولہ : إنّ المبالغۃ فی تعظیمہ واجبۃ ، أیرید بہا المبالغۃ بحسب ما یراہ کلّ أحد تعظیماً حتّی الحجّ إلی قبرہ والسجود لہ والطواف بہ ، واعتقاد أنّہ یعلم الغیب ، وأنّہ یعطی ویمنع ، ویملک لمن استغاث بہ من دون اللّٰہ الضرّ والنفع ، وأنّہ یقضی حوائج السائلین ویفرّج کربات المکروبین ، وأنّہ یشفع فیمن یشاء ویدخل الجنّۃ من یشاء ، فدعوی وجوب المبالغۃ فی ہذا التعظیم مبالغۃ فی الشرک وانسلاخ من جملۃ الدین
سُبکی کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں مبالغہ کرنا واجب ہے۔ کیا ان کی مبالغہ سے مراد وہ تعظیم ہے جسے کوئی شخص اپنے خیال میں تعظیم سمجھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کا حج ، اس پر سجدہ ، اس کا طواف اور یہ اعتقاد کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب دان ہیں ، آپ دیتے بھی ہیں اور روک بھی لیتے ہیں، جو اللہ کو چھوڑ کر آپ سے مانگتا ہے ، اس کے لیے نفع ونقصان کے مالک ہیں ، سوال کرنے والوں کی حاجات آپ پوری کرتے ہیں اور غم زدہ لوگوں کی مشکلات رفع کرتے ہیں ، نیز آپ جس کی چاہیں گے سفارش کریں گے اور جسے چاہیں گے جنت میں داخل کر دیں گے۔۔۔ اگر یہ مراد ہے تو تعظیم میں مبالغہ دراصل شرک میں مبالغہ اور دین سے مکمل طور پر نکل جانا ہے۔”(الصارم المنکی فی الرد علی السبکی لابن عبد الہادی : ٣٤٦)
ماہ صفر 4ھ میں بئرمعونہ کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ ایک نجدی عامر بن مالک کلابی نام کا ایک نجدی ، مدینہ منورہ آیا، وہ مسلماں تو نہ ہوا، لیکن اس نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخواست کی کہ، کچھ لوگ اس کے ساتھ بھیج دیئے جائیں تاکہ اس کے قبیلہ میں وہ تبلیغ کریں، امید ہے وہ لوگ مسلمان ہوجائیں۔ اس پر 70 صحابہ کی جماعت اس کے ساتھ بھیج دی گئی۔ بئر معونہ کے کنواں کے پاس تمام صحابہ کو شہید کر دیا گيا، صرف تین لوگ ہی زندہ بچ سکے
جب مدینہ پہنچ کر انہوں نے سارا حال دربار رسالت میں بیان کیاتو اصحاب بئرمعونہ کی شہادت کی خبر سن کر سرکار رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اتنا عظیم صدمہ پہنچا کہ تمام عمر شریف میں کبھی بھی اتنا رنج و صدمہ نہیں پہنچا تھا۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مہینہ بھر تک قبائل رعل و ذکوان اور عصیہ و بنو لحیان پر نماز فجر میں لعنت بھیجتے رہے اورعمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جن دو شخصوں کو قتل کر دیا تھا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کے خون بہا ادا کرنے کا اعلان فرمایا۔
مواہب اللدنیۃ، باب بئر معونۃ ، ج2،ص503
انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ آنحضرتﷺ تیس دن تک ان لوگوں کے لئے جنہوں نے بئرمعونہ پر آپ ﷺ کے اصحاب کو شہید کیا تھا یعنی رعل، ذکوان اور بنی لحیان کے لئے بد دعا فرماتے رہے اور فرمایا کہ عصیہ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، انس کہتے ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺپر ان شہداء بئرمعونہ کے حق میں آیات نازل فرمائی مگر بعد کو ان کا پڑھنا موقوف ہوگیا وہ آیات یہ ہیں۔ بَلِّغُوا قَوْمَنَا فَقَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَرَضِينَا عَنْهُ۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1318
عاصم بن سلیمان روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے انس سے دریافت کیا کہ نماز میں قنوت پڑھنا کیسا ہے؟ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ میں نے کہا : رکوع سے پہلے یا بعد، انہوں نے کہا : رکوع سے پہلے، میں نے کہا : فلاں صاحب (محمد بن سیرین یا کوئی اور) تو آپ کے حوالہ سے کہتے ہیں کہ آپ نے کہا کہ رکوع کے بعد انس نے کہا وہ غلط کہتے ہیں رکوع کے بعد آنحضرت ﷺ نے صرف ایک ماہ تک قنوت پڑھی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ نے ستر قاریوں کو مشرکوں کی طرف بھیجا تھا کیونکہ ان سے اور آپ ﷺ سے عہد تھا ان معاندین کفار نے عہد توڑ دیا اور دھوکا سے ان قاریوں کو شہید کر ڈالا چنانچہ اس وقت رسول اللہ ﷺ ایک ماہ تک رکوع کے بعد قنوت پڑھتے رہے اور ان کے لئے بد دعا فرماتے رہے
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1319
قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام رحمہم اللہ کہتے ہیں: جس وقت اللہ تعالی نے اپنی صفت یہ بیان کی کہ صرف وہی علم غیب جانتا ہے، مخلوقات میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے سوا کسی کے پاس بھی علم غیب نہیں ہے، پھر اس میں سے اللہ تعالی نے اپنے پسندیدہ رسولوں کو مستثنی کیا چنانچہ انہیں وحی کے ذریعے صرف اتنی ہی غیب کی خبریں دیں جتنی اللہ تعالی نے چاہی، اور عطا شدہ ان خبروں کو انبیائے کرام کیلئے معجزہ اور سچی نبوت کی دلیل بنایا " انتہی
"تفسیر قرطبی" (19/ 28)
بریلوی اعتراضات اور تاویل کا جواب حضرات مفسرین کرام سے
اعتراض1
احمد رضا صاحب اور ان کی جماعت کے نزدیک ”تبیانا لکل شئی “ کی آیت سے ہر ہر ذرہ کا اور ہر ہر رطب ویابس کا علم ثابت ہوتا ہے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ قرآن کریم میں ہر ہر چیز کا علم ہے اور محض بیان ہی نہیں بلکہ روشن بیان اور صرف مجمل ہی نہیں بلکہ مفصل ۔۔۔چناچہ احمد رضا صاحب لکھتے ہیں کہ ” جب فرقان مجید ہر شے کا بیان ہے اور بیان بھی کیسا روشن اور روشن بھی کس درجے کا مفصل “ (انباءالمصطفےٰ ص 3)
اب ملاحظہ فرمائیں کہ حضرات مفسرین کرام رحمھم اللہ نے ”تبیانا لکل شئی “ اور اسی مضمون کی دوسری آیات کا کیا مطلب بیان فرمایا ہے
1
علامہ بغوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
تبیانا لکل شئی یحتاج الیہ من الامر و النھی والحلال و الحرام والحدود والاحکام
یعنی ہر وہ چیز جس کی امر و نہی اورحلال حرام اور حدود و احکام میں جس کی ضرورت پڑتی ہو
(معالم التنزیل ج 2 ص 212)
2
علامہ ابو البرکات نسفی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
تبیانا لکل شئی من امور الدین امافی الاحکام المنصوصة فظاھر وکذا فیما ثبت بالسنة او بالا جماع او بقول الصحابی او بالقیاس لان مرجع الکل الیٰ الکتاب حیث امرنا فیہ باتباع رسولہ وطاعتہ
یعنی تبیانا لکل شئی سے امور دین کا بیان مراد ہے احکام منصوصہ میں تو بالکل ظاہر ہے اور اسی طرح جو احکام سنت یا اجماع یا قول صحابی یا قیاس سے ثابت ہیں کیوں کہ ان سب کا مرجع کتاب اللہ ہی ہے کہ اس میں ہمیں آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور طاعت کا حکم دیا گیا ہے
(المدارک ج 1 ص 442)
3
علامہ معین بن صفی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
تبیانا لکل شئی بیانابلیغا لکل شئی یحتاجون الیہ من امور دین
یعنی تبیانا لکل شئی کا مطلب یہ ہے کہ اقرآن میں امور دین کی ہر ایسی چیز کا بیان بلیغ موجود ہے جس کی لوگوں کو حاجت پڑتی ہے
(جامع البیان ج 1 ص 232)
4
علامہ خازن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
قال مجاھد یعنی لما امر بہ وما نھی عنہ وقال اھل المعانی تبیانا لکل شئی یعنی من امور الدین اما بالنص علیہ او بالاحالة علیٰ ما یوجب العلم بہ من بیان النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم لان النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم بین مافی القراٰن من الاحکام والحدود والحلال والحرام و جمیع الما مورات والمنھیات و اجماع الامت فھو ایضا اصل و مفتاح لعلوم الدین
یعنی حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تبیانا لکل شئی سے مامور بہ اور منہی عنہ مراد ہے اور اہل معانی فرماتے ہیں کہ تبیانا لکل شئی سے امور دین مراد ہیں یا تو نصوص کی وجہ سے اور یا اس لئے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے اس کا ثبوت ملتا ہے کیوں کہ آپ نے قرآن کریم کے پیش کردہ احکام اور حدود اور حلال و حرام اور تمام مامورات اور منہیات بیان فرمائے ہیں اور اجماع امت کے ساتھ جو کچھ ثابت ہے وہ بھی اس میں داخل ہے کیوں کہ اجماع بھی علوم دین کی ایک اصل اور مفتاح ہے۔
(تفسیر خازن ج 4 ص 90)
نیز وہ لکھتے ہیں کہ
بین فی ھذہ الایة الما مور بہ و المنھی عنہ علیٰ سبیل الاجمال فما من شئی یحتاج الیہ الناس فی امر دینھم مما یجب ان یوتی بہ او یترک الا وقد اشتملت علیہ ھذہ الایة
یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مامور بہ و منہی عنہ کو علیٰ سبیل الاجمال بیان فرمایا ہے سو کوئی ایسی چیز نہیں جس کی ھاجت لوگوں کو امور دین میں پیش آئے جس کا ذکر کرنا یا چھوڑنا واجب ہے مگر اس کا بیان اس آیت میں کردیا گیا ہے
(خازن ج 4 ص 91)
5
قاضی بیضاوی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
تبیانا لکل شئی من امور الدین
یعنی امور دین کی واضح تشریح اس میں موجود ہے (تفسیر بیضاوی ج 1 ص 450)
6
علامہ جلال الدین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
تبیانا لکل شئی یحتاج الناس الیہ من امر الشریعة
یعنی ہر وہ چیز مراد ہے جس کی لوگوں کو امر شریعت میں حاجت ہوسکتی ہے
یعنی ہر وہ چیز مراد ہے جس کی لوگوں کو امر شریعت میں حاجت ہوسکتی ہے
(جلالین ص224)
اور امام رازی رحمتہ اللہ علیہ نے اسی کے قریب (تفسیر کبیر ج 20 ص 99) لکھا ہے ۔
7
بلکہ امام رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
اما العلوم التی لیست دینیة فلا تعلق لھا بھذہ الایة
یعنی بہر حال وہ علوم جو دینی نہیں تو ان کا آیت سے کوئی تعلق نہیں
(تفسیر کبیر ج 20 ص 99)
8
اور ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
تبیانا لکل شئی قال ابن مسعود بین لنا فی ھذا القراٰن کل علم و کل شئی وقال مجاھد کل حرام و حرام و قول ابن مسعود اعم و اشمل فان القراٰن اشمل علیٰ کل علم نافع من خبر ماسبق وعلم ما سیاتی وکل حلال و حرام وما الناس الیہ محتاجون فی امر دنیا ھم و دینھم و معاشھم و معادھم
یعنی ”تبیانا لکل شئی “کا مطلب حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کریم میں ہر علم اور ہر شئے بیان کی ہے ۔۔۔اور حضرت مجاہدرحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہر حلال اور حرام بیان کیا گیا ہے اور حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کا قول اعم اور اشمل ہے کیوں کہ قرآن کریم ہر نافع علم پر مشتمل ہے جس میں پہلے کے لوگوں کی خبریں ہیں ،اور آئیندہ آنے والے واقعات کا علم ہے اور ہر حلال حر ام کا ،اور اسی طرح لوگ اپنے دین و دنیا اور معاش معاد میں جس چیز کے محتاج ہیں اس میں یہ سب کچھ بیان کیا گیا ہے
(تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 582)
9
علامہ السید محمود آلوسی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
والمراد من کل شئی علیٰ مذھب الیہ جمع مایتعلق بامور الدین ای بیانا بلیغا لکل شئی یتعلق بذٰلک ومن جملتہ احوال الامم مع انبیائھم علیھم السلام وکذا ما اخبرت بہ ھذا الاٰیة من بعث الشھداءوبعثہ علیہ الصلوة والسلام فانتظام الاٰیة بما قبلھا ظاھر والدلیل علیٰ تقدیر الوصف المخصص للشئی المقام وان بعثة الانبیاءعلیھم الصلوة والسلام انما ھی لبیان الدین
یعنی کل شئی سے مراد جیسا کہ حضرات مفسرین کرام کی ایک بڑجماعت اس طرف گئی ہے وہ امور ہیں جو دین سے متعلق ہوں یعنی امو دین کی پوری تشریح اس میں مذکور ہے اور منجملہ ان کے وہ حالات بھی اس میں مندرج ہیں جو امم سابقہ کو حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کے ساتھ پیش آئے اوراسی طرح اس آیت میں اس کا بیان بھی ہے کہ قیامت کے دن دیگر گواہوں کی شہادتیں اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی گواہی کیسے ہوگی ؟اس اعتبار سے آیت کا ماسبق کے ساتھ ربط بھی بالکل ظاہر ہے اور کل شئی سے امور دین کے وصف مخصص کی ضرورت بحسب مقام ضروری ہے علاہ بریں حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کی دنیا میں بعث ہی بیان دین کے لئے ہوتی ہے لہٰذا امو دین کی قید لگائی گئی ہے(روح المعانی ج 14 ص 214)
یہ جتنے بھی حضرات مفسرین کرام ہیں تمام معتبر اور مستند ہیں اور اہل سنت والجماعت کے مسلم مفسر ہیں
اعتراض2
فلم یدع شیئا“کی شرح
فلم یدع شیئا“کی شرح میں حضرت ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں
ای مما یتعلق بالدین مما لا بد منہ
یعنی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں دین کی ہر ضروری بات کو بیان فرمایا
(مرقات ج 5 ص8 )
شیخ عبد الحق رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں
ای مما یتعلق بالدین ای کلیاتہ اوھومبالغة اقامة للاکثر مقام الکل
یعنی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں دین کی ہر ضروری بات کو بیان فرمایا یا مبالغہ کے طور پر اکثرچیزوں کو ”کل“ کہا گیا
(لمعات ہامش مشکوٰة ج2 ص437 )
نیز لکھتے ہیں
فلم یدع شیئا پس نگذاشت چیز یرااز قواعد مہمات دین کہ واقع میشود تاقیامت مگر آنکہ ذکر کرد آنرایا ایں مبالغہ است بگر دانیدن اکثر درحکم کل
سو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے لئے قواعد اور مہمات دین میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑی جو بیان نہ فرمادی اور یا یہ مبالغہ ہے جس میں” اکثر“کو” کل“ کے معنی میں کر دیا گیا ہے
(اشعتہ اللمعات ج 4 ص181 )
ں۔مگر یہاں شیخ عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ نے خود بیان فرمادیا کہ ایسے عام لفظ کو کبھی مبالغتہ”ً اکثر“ کے معنی میں لیا جاتا ہے ،اس سے ہر مقام پر ”کل حقیقی“ اور”عموم استغراقی“ ہی مراد نہیں ہوتی اور جس جس مقام پر ایسے عام لفظ آتے ہیں ان کو دیگر دلائل کی رو سے یہی مطلب اور معنی لیا جائے گا کہ مبالغتہً ”اکثر“ کو” کل“ کے معنی میں لیا گیا ہے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا (المتوفاة 59 ھ)سے روایت ہے
وہ فرماتی ہیں کہ دو فریق اپنا ایک مقدمہ لے کر جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ،آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فریقین کو مخاطب کرکے یوں ارشاد فرمایا
انما انا بشر وانہ یاتینی الخصم فلعل بعضکم ان یکون ابلغ من بعض فا حسب انہ صادق فا قضی لہ بذالک فمن قضیت لہ بحق مسلم فانما ھی قطعة من النار فلیا ءخذ ھا او لیترک
یعنی سنو میں انسان ہوں جو سنتا ہوں اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں،بہت ممکن ہے کہ ایک شخص زیادہ حجت بازاور چرب زبان ہواور میں اس کی باتوں کو صحیح جان کراس کے حق میں فیصلہ کردوں اور فی الواقع وہ حقدار نہ ہوتو وہ سمجھ لے کہ وہ اس کے لئے جہنم کا ٹکڑا ہے اب اسے اختیار ہے کہ اسے لے لے یا چھوڑ دے
(بخاری ج 2 ص 1065 )(مسلم ج 2 ص 74 ) (موطا امام مالک ص 299 )(نسائی ج 2 ص 261 )(ابو داود ج 2 ص 148 )(ابن ماجہ ص 168 )(طحاوی ج 2 ص 284 )(سنن الکبریٰ ج 10 ص 143 )
یہ روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔(بخاری کتاب الاحکام:باب من قضی لہ بحق اخیہ فلا یا خذہ ۔۔۔۔ح :7181)(مسلم کتاب الاقضیة :باب بیان ان حکم الحاکم لا بغیر باطن،ح:1713 )(ابن ماجہ ص 168 )(مسند احمد ج 2 ص 332 )
ابو داؤد میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ(میں تمہارے درمیان اپنی سمجھ سے ان امور میں فیصلہ کرتا ہوں جن میں کوئی وحی مجھ پر نازل شدہ نہیں ہوتی) ابو داؤدکتاب القضاہ:باب فی القضا ءالقاضی اذا خطاء۔ح:3585(صحیح)
حضرت امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی الشافعی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 676 ھ ) اسی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
معناہ التنبیہ علیٰ حالة البشریة وان البشر لایعلمون من الغیب وبواطن الامور شیئا الاان یطلعھم اللہ تعالیٰ علیٰ شئی من ذٰلک وانہ یجوز علیہ فی امور الاحکام مایجوز علیھم وانہ یحکم بین الناس بالظاھر واللہ یتولی السرائر فیحکم بالبینة وبالیمین ونحو ذٰلک من احکام الظاھر مع امکان کونہ فی الباطن خلاف ذٰلک (شرح مسلم ج 2 ص 74 )
یعنی اس کا منشا یہ ہے کہ حالت بشریت پر تنبیہ کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ بشر کو غیب اور باطنی امور کا علم نہیں ہوتا بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز پر ان کو مطلع کردے اور اس سے یہ بھی بتانا ہے کہ فصل خصومات میں جس طرح دوسروں سے خلاف واقع فیصلہ کرنا ممکن ہے اسی طرح آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے بھی ممکن ہے اور آپ بھی لوگوں کے درمیان ظاہری حال پر فیصلہ کرتے ہیں اور اندرونی رازوں کا معاملہ خدا سے ہے سو آپ شہادت اور قسم وغیرہ ظاہری قرائن کے ذریعہ ہی فیصلہ صادر فرماتے ہیں اور اس کا امکان ہے کہ واقع میں معاملہ اس کے خلاف ہو
معناہ التنبیہ علیٰ حالة البشریة وان البشر لایعلمون من الغیب وبواطن الامور شیئا الاان یطلعھم اللہ تعالیٰ علیٰ شئی من ذٰلک وانہ یجوز علیہ فی امور الاحکام مایجوز علیھم وانہ یحکم بین الناس بالظاھر واللہ یتولی السرائر فیحکم بالبینة وبالیمین ونحو ذٰلک من احکام الظاھر مع امکان کونہ فی الباطن خلاف ذٰلک (شرح مسلم ج 2 ص 74 )
یعنی اس کا منشا یہ ہے کہ حالت بشریت پر تنبیہ کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ بشر کو غیب اور باطنی امور کا علم نہیں ہوتا بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز پر ان کو مطلع کردے اور اس سے یہ بھی بتانا ہے کہ فصل خصومات میں جس طرح دوسروں سے خلاف واقع فیصلہ کرنا ممکن ہے اسی طرح آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے بھی ممکن ہے اور آپ بھی لوگوں کے درمیان ظاہری حال پر فیصلہ کرتے ہیں اور اندرونی رازوں کا معاملہ خدا سے ہے سو آپ شہادت اور قسم وغیرہ ظاہری قرائن کے ذریعہ ہی فیصلہ صادر فرماتے ہیں اور اس کا امکان ہے کہ واقع میں معاملہ اس کے خلاف ہو
ابن حجر العسقلانی الشافعی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 852 ھ) فرماتے ہیں:
قولہ انماانا بشر ،ای کواحد من البشر فی عدم علم الغیب
”میں بشر ہوں یعنی علم غیب نہ ہونے میں دوسرے انسانی افراد کی طرح ہوں
قولہ انماانا بشر ،ای کواحد من البشر فی عدم علم الغیب
”میں بشر ہوں یعنی علم غیب نہ ہونے میں دوسرے انسانی افراد کی طرح ہوں
(فتح الباری ج3 ص 139 )
اور دوسرے مقام پر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں
اتی بہ رداعلیٰ من زعم ان من کان رسولا فانہ یعلم کل غیب
انما ان بشر“کا جملہ خاص طور پر ان لوگوں کے باطل خیال کی تردید کے لئے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول کو کلی علم غیب ہوتا ہے
(فتح الباری ج 13 ص151 )
علامہ بدر الدین العینی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 855ھ )لکھتے ہیں
انما انا بشر ۔یعنی کواحد منکم ولا اعلم الغیب و بواطن الامور کما ھو مقتضی الحالة البشریة وانا حکم بالظاھر
میں تمہاری طرح ایک بشر ہی ہوں اور میں غیب کا علم نہیں رکھتا اور تمہارے معاملات کے اندرونی احوال کو میں نہیں جانتا جیسا کہ بشریت کا تقاضا ہوتا ہے اور میں تو صرف ظاہری حال پر ہی فیصلہ دیتا ہوں
(عمدة القاری ج 11 ص271 )
اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے دوسرے مقام پر یوں رقمطراز ہیں
انما انا بشر ۔ای من البشر ولا ادری باطن ماتتحا کمون فیہ عندی وتختصمون فیہ لدی وانما اقضی بینکم علیٰ ظاھر ماتقولون فاذا کان الانبیاءعلیھم الصلوة والسلام لایعلمون ذٰلک فغیرجائزان یصح دعویٰ غیرھم من کاھن او منجم العلم وانما یعلم الانبیاءمن الغیب ما اعلمو بہ بوجہ من الوحی
یعنی میں انسانوں میں سے ایک بشر ہوں اور جو مقدمات تم میرے پاس لاتے ہو تو ان کے باطن کو میں نہیں جانتا اور میں تو تمہاری ظاہری باتوں کو سن کر ہی فیصلہ کرتا ہوں ۔(علامہ عینی فرماتے ہیں ) جب حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام غیب اور باطنی امور نہیں جانتے تو نجومی اور کاہن وغیرہ کا غیب اور باطنی امور کے علم کا دعوی کیسے جائز اور صحیح ہوسکتا ہے ؟اور حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام بھی غیب کی صرف وہی باتیں جانتے ہیں جن کا بذریعہ وحی ان کو علم عطاءکیا گیا ہو
(عمدة القاری ج 11 ص 411)
قسطلانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں
انما انا بشر ۔مشارک لکم فی البشریة بالنسبہ لعلم الغیب الذی لم یطلعنی اللہ علیہ وقال ذالک توطئة لقولہ وانہ یاتینی الخصم الخ فلا اعلم باطن امرہ
یعنی آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ”انما انا بشر “ اُن لوگوں کی تردید کے لئے ارشاد فرمایا جو یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول کو کل غیب کا علم ہوتا ہے حتی کہ اس پر مظلوم اور ظالم مخفی نہیں رہتے
(ارشاد الساری ج 10ص 204 )
یہی علامہ قسطلانی رحمتہ اللہ علیہ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں
اتی بہ علی الرد علیٰ من زعم ان من کان رسولا یعلم الغیب فیطلع علی البواطن ولا یخفی علیہ المظلوم و نحو ذٰلک فا شاران الوضع البشری یقتضی ان لاید رک من الامور الاظواھر ھا فانہ خلق خلقا لا یسلم من قضا یا تحجبہ عن حقائق الاشیاءفاذا ترک علیٰ ماجبل علیہ من القضایا البشریة ولم یوید بالوحی السماوی طراءعلیہ ماطراءعلی سائرالبشر
یعنی انماانا بشر ۔آپ نے ان لوگوں کی تردید کے لئے ارشاد فرمایا جو یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول کو غیب کا علم ہوتا ہے اور وہ باطن پر مطلع ہوتا ہے اور اس پر مظلوم وغیرہ مخفی نہیں رہتا ،آپ نے اس ارشاد میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وضع بشری اس کا مقتضی ہے کہ وہ صرف ظاہری امور کا ادارک کرے کیوں کہ بشر ایک ایسی مخلوق ہے کہ اس کے اور حقائق اشیاءکے ادارک کے درمیان پردے حائل ہوجاتے ہیں ۔جب اس کی جبلت بشری تقاضوں پر چھوڑ دیا جائے اور وحی سماوی سے تائید نہ ہو تو اس پر باوجود رسول ہونے کے وہی کچھ طاری ہوتا ہے جو تمام انسانوں پر طاری ہوتا ہے ۔
(ارشاد الساری ج ۴ ص ۲۱۴)
علامہ علی بن احمد العزیزی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 1070 ھ) لکھتے ہیں
انما انا بشر ۔ای من البشر والمراد انہ مشارک البشر فی اصل الخلفة وان زاد علیھم بالزایا التی اختص بھا فی ذاتہ قالہ ردا علی من زعم ان من کان رسولا فانہ یعلم کل غیب حتی لایخفی علیہ المظلوم
میں انسانوں میں سے ایک انسان ہوں اور بشر ہوں مراد یہ ہے کہ آپ اصل خلقت میں انسانوں کے ساتھ شریک ہیں اگر چہ دیگر فضائل مختصہ میں وہ دوسرے انسانوں سے برتر ہیں ،اس ارشاد میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی تردید فرمائی جو یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول کل غیب جانتے ہیں حتی کہ اُن پر مظلوم مخفی نہیں رہ سکتا
(السراج المنیر ج2 ص43 )
علامہ شہاب الدین احمد الخفاجی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 1069 ھ) لکھتے ہیں
وانما انا بشر ۔لااعلم الغیب وانکم تختصمون الی
یعنی میں تو بشر ہی ہوں ،میں غیب نہیں جانتا اور تم اپنے جھگڑے میرے پاس لاتے ہو
(نسیم الریاض ج 4 ص 261 )
علامہ الحسین بن عبد اللہ بن محمد الطیبی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 743ھ ) لکھتے ہیں
انما انا بشر۔ان الوضع البشری یقتضی ان لایدرک من الامور الاظاہر ھا وعصمتہ انما ھو عن الذنوب فانہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم لم یکلف فیما لم ینزل فیہ الا ما کلف غیرہ وھو الاجتھاد
میں تو بشر ہی ہوں اور وضع بشری اس کو نہیں چاہتی کہ وہ امور ظاہرہ کے علاوہ امور باطنہ کا بھی ادراک کرے ۔رہا آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا معصوم ہونا ،تو وہ گناہوں سے ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اُن احکام میں جن میں وحی نازل نہیں ہوئی تھی،اُسی چیز کا مکلف قرار دیا ہے جس کا دوسروں کو مکلف بنایا اور وہ اجتہاد ہے
(بحوالہ انجاح الحاجہ ص 169 )
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
ثم لیعلم انہ یحب ان ینفی ٰعنھم صفات الواجب جل مجدہ من العلم بالغیب و القدرة علیٰ خلق العالم الیٰ غیر ذٰلک ولیس ذٰلک بنقص (الیٰ ان قال بعد عدة السطر)و ان استدل بقولہ علیہ الصلوة والسلام فتجلی لی کل شئی قلنا ھو بمنزلة قولہ تعالیٰ فی التوراة تفصیلا لکل شئی والا صل فی العمومات التخصیص بما یناسب المقام ولو سلم فھذا عند وضع اللہ یدہ بین کتفیہ ثم لما سری عنہ ذٰلک فلا بُعد من ان یکون تعلیم تلک المور ثانیا فی حالة اُخری
یعنی پھر جاننا چاہیے کہ واجب ہے کہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام سے باری تعالیٰ کی صفات کی نفی جائے مثلاً علم غیب اور جہان کے پیدا کرنے کی قدرت وغیرہ اور اس میں کوئی تنقیص نہیں ہے (پھر کئی سطور کے بعد فرمایاکہ)اور اگر کوئی شخص آپ کے علم غیب پر ”فتجلی کل شئی “(کی حدیث )سے استدلال کرے تو ہم اس کو یوں جواب دیں گے کہ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ تورات کے بارے میں تفصیلا ً لکل شئی آیا ہے اور اصل عمومات میں مقام کے مناسب تخصیص کرنا ہے اور اگر یہ تجلی ہر ایک چیز لے لئے بھی تسلیم بھی کرلی جائے تو یہ صرف اس وقت کے لئے تھی جب کہ اللہ تعالیٰ نے دست قدرت آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی پشت پر رکھا تھا پھر جب اللہ تعالیٰ نے دست قدرت اٹھالیا تو یہ تجلی اور انکشاف بھی جاتا رہا سو اس میں کوئی بُعد نہیں کہ اس کے بعد دوسری حالت میں آپ کو دوبارہ ان امور کی تعلیم دی گئی ہو
(تفہیمات الٰہیہ جلد 1 صفحہ 24،25 )
چناچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ،علامہ بغوی رحمہ اللہ،علامہ عینی رحمہ اللہ،علامہ سیوطی رحمہ اللہ،علامہ آلوسی رحمہ اللہ،ملااحمد جیون الحنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
نقل فی نزولھا ان حارث بن عمر جاءالیٰ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم وقال اخبرنی عن الساعة ایان مرسھا وقد زرعت بذافاخبرنی متی ینزل الغیث وامراءتی حاملة فاخبرنی عما فی بطنھا ذکرام انثیٰ واعلم ماوقع امس واخبرنی عما یقع غدا وعلمت ارضا ولدت فیھا اخبرنی عما ادفن فیہ فنزلت الآیة المذکورة فی جوابہ یعنی ان ھذا الخمسة فی خزانة غیب اللہ لایطلع علیہ احد من البشر والملک والجن
(ابن کثیر جلد3 صفحہ 455)(معالم التنزیل،جلد 3 صفحہ 156)(عمدة القاری جلد 11 صفحہ 519)(درمنشور جلد5 صفحہ170) (روح المعانی جلد21 صفحہ97) (تفسیر احمدی صفحہ 396)
یعنی اس کا شان نزول یہ نقل کیا گیا ہے کہ حارث بن عمررضی اللہ عنہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے سوال کیا مجھے بتائےے کہ قیامت کب آئے گی اور کب اس کا قیام ہوگا،اور میں نے کھیتی بو کر اس میں بیج ڈالا ہے بتائیے بارش کب ہوگی،اور میری بیوی حاملہ ہے فرمائےے کہ اس کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی،مجھے تو یہ علم ہے کہ گذشتہ کل میں کیا ہوا ،آپ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم مجھے بتائےے کہ آنے والے کل میں کیا کچھ ہوگا ؟اور مجھے علم ہے کہ میں کس زمین میں پیدا ہوا آپ مجھے یہ بتائیں کہ میں کہاں دفن کہاں ہوں گا۔آپ کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئیں کہ یہ پانچ چیزیں اللہ تعالیٰ کے خزانہ غیب میں ہیں ان پر نہ تو کوئی بشر اور فرشتہ مطلع نہ ہوسکا ہے اور نہ جن
امام رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
”اس آیت مبارک کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ بس انہی پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے کیوں کہ اُ س کا ذرہ بے مقدار کا علم بھی اللہ ہی کو ہے جو مثلاطوفان نوح کے زمانے میں ریت کے کسی ٹیلے میں تھا اور بعد میں ہوا نے اُس کو بار ہا مشرق سے مغرب کی طرف منتقل کیا“(تفسیر کبیر،جلد 6 صفحہ503)
”اس آیت مبارک کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ بس انہی پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے کیوں کہ اُ س کا ذرہ بے مقدار کا علم بھی اللہ ہی کو ہے جو مثلاطوفان نوح کے زمانے میں ریت کے کسی ٹیلے میں تھا اور بعد میں ہوا نے اُس کو بار ہا مشرق سے مغرب کی طرف منتقل کیا“(تفسیر کبیر،جلد 6 صفحہ503)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم قال مفاتح الغیب خمس لایعلمھا الااللہ لایعلم مافی غدا لااللہ ولا یعلم ماتغیض الارحام الااللہ ولا یعلم متی یاءتی المطراحد الااللہ ولاتدری نفس بای ارض تموت ولایعلم متی تقوم الساعة الااللہ “ (بخاری ج 1ص 141۔و ۔ج 2ص 681۔۔و ۔۔ج2 ص 1097)واللفظہ لہ مسلم و مسند احمد ج 2 ص 24۔۔و ج 2 ص 52۔۔و ۔۔ج 2ص 58 ) (درمنشور ج 3 ص15۔۔و۔۔ج 5 ص170)(مواردالظمآن ص434)
یعنی حضور سرور عالم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مفاتح الغیب یہ پانچ چیزیں ہیں جن کو بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا واقعات رونما ہوں گے ،اور سوا اللہ کے کوئی نہیں جانتا کہ ارحام(بچہ دانیوں ) میں کیا ہے (مثلا نر یا مادہ ایک یا زیادہ وغیرہ) اور اس کے سوا کسی کوخبر نہیں کہ بارش کب ہوگی ؟اور کسی نفس کو معلوم نہیں کہ اس کی موت کس سرزمین میں واقع ہوگی اور خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب ہوگی
ان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم قال مفاتح الغیب خمس لایعلمھا الااللہ لایعلم مافی غدا لااللہ ولا یعلم ماتغیض الارحام الااللہ ولا یعلم متی یاءتی المطراحد الااللہ ولاتدری نفس بای ارض تموت ولایعلم متی تقوم الساعة الااللہ “ (بخاری ج 1ص 141۔و ۔ج 2ص 681۔۔و ۔۔ج2 ص 1097)واللفظہ لہ مسلم و مسند احمد ج 2 ص 24۔۔و ج 2 ص 52۔۔و ۔۔ج 2ص 58 ) (درمنشور ج 3 ص15۔۔و۔۔ج 5 ص170)(مواردالظمآن ص434)
یعنی حضور سرور عالم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مفاتح الغیب یہ پانچ چیزیں ہیں جن کو بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا واقعات رونما ہوں گے ،اور سوا اللہ کے کوئی نہیں جانتا کہ ارحام(بچہ دانیوں ) میں کیا ہے (مثلا نر یا مادہ ایک یا زیادہ وغیرہ) اور اس کے سوا کسی کوخبر نہیں کہ بارش کب ہوگی ؟اور کسی نفس کو معلوم نہیں کہ اس کی موت کس سرزمین میں واقع ہوگی اور خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب ہوگی
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (المتوفی32 ھ) فرماتے ہیں:
اعطی نبیکم صلیٰ اللہ علیہ وسلم مفاتح الغیب الاالخمس ان اللہ عندہ علم الساعة (الیٰ اٰخر السورة)
(طیالسی ص 51)(فتح الباری ج 8 ص395)(مسند احمد ج 4 ص 438 )
”یعنی تمہارے نبی حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب کے خزانے عطا کئے گئے ہیں مگر یہ پانچ امورعطا نہیں کئے گئے جو سورہ لقمان کی آخر میں ہیں
اعطی نبیکم صلیٰ اللہ علیہ وسلم مفاتح الغیب الاالخمس ان اللہ عندہ علم الساعة (الیٰ اٰخر السورة)
(طیالسی ص 51)(فتح الباری ج 8 ص395)(مسند احمد ج 4 ص 438 )
”یعنی تمہارے نبی حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب کے خزانے عطا کئے گئے ہیں مگر یہ پانچ امورعطا نہیں کئے گئے جو سورہ لقمان کی آخر میں ہیں
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ(المتوفی 62 ھ)فرماتے ہیں
سمعت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم یقول خمس لایعلمن الااللہ ان اللہ عندہ علم الساعة وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام وما تدری نفس ماذا تکسب غدا وما تدری نفس بای ارض تموت ان اللہ علیم خبیر
(مسند احمد ج :5 ص:353)(داروہ الضیاءالمقدسی سند صحیح ،در منشور ج 5 ص170)وقال ابن حجر صحیح ،ابن حبان و الحاکم ،(فتح الباری ج10 ص 132)(حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں ھذا حدیث صحیح الاسناد ،تفسیرج3 ص454 )
یعنی میں نے جناب نبی کریم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ چیزیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ،بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے علم قیامت کا ،اور وہی (اپنے علم کے مطابق )اتارتا ہے بارش اور وہی جانتا ہے جو کچھ ارحام میں ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کل کیا کرے گا،اور کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کس زمین میں مرے گا ،یقینا اللہ تعالیٰ ہی ان چیزوں کا جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے
حضرت ایاس بن سلمہ رحمہ اللہ(المتوفی 119ھ) اپنے والد حضر ت سلمہ رضی اللہ عنہ(المتوفی 74 ھ) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور اس نے حضور حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے چند سوالات کئے ،ایک یہ بھی تھا:
قال متی تقوم الساعة فقال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب ولا یعلم الغیب الااللہ )
”یعنی قیامت کب آئے گی ؟تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کا علم) غیب ہے اور غیب کو اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جانت
قال متی تقوم الساعة فقال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب ولا یعلم الغیب الااللہ )
”یعنی قیامت کب آئے گی ؟تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کا علم) غیب ہے اور غیب کو اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جانت
(مستدرک ج1 ص7) قال احاکم و الذہبی علیٰ شرط مسلم
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ھذا الخمسۃ لایعلمھا ملک مقرب ولا نبی مصطفیٰ فمن ادعی انہ یعلم شیئا من ھذا فقد کفر بالقراٰن لانہ خالفہ
یعنی یہ پانچ چیزیں وہ ہیں کہ ان کا علم نہ تو کسی مقرب فرشتہ کو ہے اور نہ جناب نبی کریم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ،تو جو کوئی ان میں سے کسی چیز کے علم کا دعوی کرے تو اس نے قرآن کریم کا انکار کیا ،کیوں کہ اس نے اس کی مخالفت کی ہے
(تفسیر خازن ج 5ص183)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
لم یعلم علیٰ نبیکم صلیٰ اللہ علیہ وسلم الا الخمس من سرائر الغیب ھذہ الآیة فی اٰخر لقمان الیٰ اٰخر الاٰیة
یعنی تمہارے نبی حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر اسرار غیب سے بس یہی پانچ چیزیں مخفی رکھیں گئیں ہیں جو سورہ لقمان کی آخری آیت میں مذکور ہیں
(درمنشور ج 5ص 170)
ابو امامہ رضی اللہ عنہ (المتوفی 86 ھ ) سے روایت ہے
ان اعرابیا وقف علیٰ النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم یوم بدر علیٰ ناقة لہ عشراءفقال یا محمد مافی بطن ناقتی ھذہ فقال لہ رجل من الانصار دع عنک رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم وھلم الی حتی اُخبرک وقعت انت علیھا وفی بطنھا ولد منک فاعرض عنہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ثم قال ان اللہ یحب کل حیی کریم متکرہ ویبغض کل لیئم متفحش ثم اقبل علیٰ الاعرابی فقال خمس لا یعلمھن الااللہ ان اللہ عندہ علم الساعة الآیة
یعنی غزﺅہ بدر کے دن ایک اعرابی اپنے دن مہینے کی گابھن اوٹنی پر سوار ہوکر جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے محمدصلیٰ اللہ علیہ وسلم بتائیے میری اس اوٹنی کے پیٹ میں کیا ہے ؟ایک انصاری نے( طیش میں آکر)اُس سے کہا کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر میرے پاس آ تاکہ میں تجھے بتلاﺅں تونے اس اوٹنی سے مجامعت کی ہے اور اس کے پیٹ میں تیرا بچہ ہے ،آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس انصاری کی طرف سے منہ پھیر لیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر صاحب حیا اور صاحب وقار کوجو گندی باتوں سے کنارہ کشی کرتا ہو پسند کرتا ہے اور ہر کمینہ اور بدزبان کو مبعوض رکھتا ہے ،پھر حضور اقدس صلیٰ اللہ علیہ وسلم اُس اعرابی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا پانچ چیزیں وہ ہیں جن کا علم بجز اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں پھر آپ نے سورہ لقمان کی یہ آخری آیت پڑھی ”ان اللہ عندہ علم الساعة “الآیة
(درمنشور ج 5ص 170)
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ (المتوفی 74 ھ ) سے روایت ہے
کان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم فی قبة حمراءاذ جاءرجل علیٰ فرس فقال من انت قال انا رسول اللہ،قال متی الساعة ؟قال غیب وما یعلم الغیب الااللہ قال مافی بطن فرسی ؟قال غیب وما یعلم الغیب الااللہ قال فمتی یمطر ؟قال غیب وما یعلم الغیب الااللہ
یعنی جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ایک سرخ رنگ کے خیمہ میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص گھوڑی پر سوار ہوکر آیا اور دریافت کیا کہ آپ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کا رسول ہوں ،اس نے دریافت کیا قیامت کب آئے گی ؟آپ نے فرمایا یہ غیب کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اس کو کوئی نہیں جانتا ،پھر اس نے سوال کیا میری گھوڑی کی پیٹ میں کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ غیب ہے اور غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ،پھر اس نے کہا کہ بارش کب ہوگی ؟آپ نے فرمایا کہ یہ بھی غیب ہے اور اس کو خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا
(درمنشور ج5 ص170)
حضرت لقیط بن عامر رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میں آتا ہے
قلت یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم عن حاجتی فلا تعجلن علی قال سل عما شئت قلت یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ھل عندک من علم الغیب فضحک لعمراللہ وھزواءسہ وعلم انی ابتغی بسقطہ فقال ضن ربک بمفاتح خمس من الغیب لایعلمن الا اللہ و اشارہ بیدہ
یعنی میں نے کہا یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں آپ سے اپنی ایک حاجت کے بارے میں سوال کرتا ہوں سو آپ مجھ پر جلدی نہ کریں ،آپ نے فرمایا جو چاہتا ہے پوچھ ؟میں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کیا آپ کے پاس علم غیب ہے ؟ بخدا آپ زور سے ہنسے اور سر مبارک کو حرکت دی اور آپ کو خیال گذرا کہ شاید میں نے آپ کی منزلت کو گرانے کے درپے ہوں تو آپ نے فرمایا کہ مفاتح الغیب کو بتانے میں اللہ تعالیٰ نے رازداری سے کام لیا ہے ان کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ،پھر اپنے ہاتھ سے ان مفاتح الغیب کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ پانچ ہیں
(مستدرک ج 4ص 561 قال الحاکم صحیح الاسناد والبدایہ والنہایہ ج5 ص80)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تصریح فرمائی ہے کہ لقیط بن عامر ابو رزین العقیلی کا یہ سوال رجب9 ھ کو پیش آیا تھا (دیکھئے البدایہ والنہایہ ج5 ص 40,80
حضرت ربعی بن خراش (المتوفی 100ھ)سے روایت ہے
حدثنی رجل من بنی عامر انہ قال یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ھل بقی من العلم شیئی لا تعلمہ قال قد علمنی اللہ عزوجل الخمس ان اللہ عند ہ علم الساعة وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام الآیة
یعنی مجھ سے بنی عامر کے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ علم میں سے کوئی ایسی چیز بھی باقی ہے جس کو آپ نہ جانتے ہوں ،حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سی خیر کی تعلیم دی ہے اور بے شک علوم میں سے وہ بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا چناچہ پانچ باتیں جو سورہ لقمان کی آخری آیت میں مذکور ہیں ،ان کا پورا علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کسی دوسرے کو نہیں
(راوہ احمد فی مسند )(وقال ابن کثیر ج 3 ص 455ہذا اسناد صحیح) (در منشور ج 5ص 170)
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ(المتوفی 256ھ ) کی روایت میں یوں آتا ہے کہ
بے شک اللہ تعالیٰ نے خیر کی تعلیم دی ہے لیکن ایسا علم بھی جس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں “(جیسا کہ سورہ لقمان کی آخری آیت میں ہے)
(ادب المفرد ص 159
(ادب المفرد ص 159
حضرت مجاہد رحمہ اللہ(المتوفی 102 ھ) فرماتے ہیں
’وھی مفاتح الغیب التی قال اللہ تعالیٰ وعندہ مفاتح الغیب لایعلمھا الاھو
یہ پانچ چیزیں وہی مفاتح الغیب ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مفاتح الغیب کا علم صرف اللہ کو ہے اس کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا
(ابن کثیر ج3 ص455)
علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے
انہ یجوازن یطلع اللہ تعالیٰ بعض اصفیاءہ علیٰ احدی ھذہ الخمس ویرزقہ عزوجل العلم بذلک فی الجملة وعلمھا الخاص بہ جل وعلا ماکان علیٰ وجہ الاحاطة والشمول لاحوال کل منھا وتفصیلہ علیٰ الوجہ الاتم وفی شرح المناوی للجامع الصغیر فی الکلام علیٰ حدیث بریدة السابق خمس لا یعلمھن الا اللہ علیٰ وجہ الاحاطة والشمول کلیا وجزئیا فلا نیا فیہ اطلاع اللہ تعالیٰ بعض خواصہ علیٰ بعض المغیبات حتی من ھذہ الخمس لانھا جزئیات معدودة
یعنی یہ جائز کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض برگزیدہ بندوں کو ان پانچ امور میں سے کسی چیز پر مطلع کردے اور اللہ تعالیٰ ان کو فی الجملہ ان کا علم عطا فرمادے ان علوم خمسہ میں سے جو علم اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے وہ ایسا علم ہے جو علےٰ وجہ الاحاطہ اور علی سبیل الشموں ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا علیٰ وجہ الاتم تفصیلی علم اس پر مشتمل ہو،جامعہ صغیر کی شرح میں علامہ مناوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ ان پانچ چیزوں کا علم سوائے باری تعالیٰ کے کسی اور کو نہیں ،اس سے مراد یہ ہے کہ ان تمام کلیات اور جزئیات کا علیٰ سبیل الاحاطة والشمول علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض خاص خاص بندوں کو ان پانچ میں سے بعض مغیبات پر مطلع کردے ،کیوں کہ یہ تو چند گنے چنے واقعات اور معدودے چند جزئیات ہیں
(تفسیر روح المعانی،جلد 21،صفحہ:100)
حضرت قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ مشہور تابعی اس آیت(لقمان34) کی تفسیر میں فرماتے ہیں
اشیاءمن الغیب استاثر اللہ بھن فلم یطلع علیھن ملکا مقربا ولا نبیا مرسلا ان اللہ عندہ علم الساعة فلا یدری احد من الناس متی تقوم الساعة فی ای سنة اوفی ای شھر او لیل او نھار وینزل الغیث فلا یعلم احد متی ینزل الغیث لیلا او نھارا ینزل ویعلم مافی الارحام اذکراوانثی احمراواسودا وما ھو وما تدری یا ابن اٰدم متی تموت لعلک المیت غدا المصاب غدا وما تدری نفس بای ارض تموت لیس احدمن الناس یدری این مضجعہ من الارض فی بحر وبراو سھل اوجبل
یعنی کئی چیزیں غیب میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے مختص کرلیا ہے اُس نے ان پر نہ تو کسی فرشتہ مقرب کو اطلاع دی ہے اور نہ کسی نبی مر سل کو ،بے شک قیامت کا علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ،پس کوئی بھی انسانوں میں سے نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی ؟کس سال اور کس مہینہ میں رات میں یا دن میں ؟اور وہی نازل کرتا ہے بارش کو سو کسی کو خبر نہیں کہ کب بارش نازل ہوگی رات کو یا دن کو ،وہی جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے سو کسی کو علم نہیں کہ نر ہے یا مادہ ؟سرخ ہے یاسیاہ ؟اور پھر وہ کیا ہے ؟(سعید ہے یا شقی وغیرہ )اور کسی کو نہیں پتہ کہ کل وہ کیا کرے گا اچھا کرے گا یا برا ،اور اے فرزند آدم تو کیا جانتا ہے کہ شائد تو کل مرنے والا ہو اور شاید کہ کل ہی تجھ پر کوئی مصیبت نازل ہو اور کوئی نفس خبردار نہیں کہ کس زمین میں اس کو موت آئے گی ،یعنی کسی انسان کو پتہ نہیں کہ زمین کے کس حصے میں اس کی قبر ہوگی آیا دریا میں یا خشکی میں نرم زمین میں یا پہاڑ اور سخت جگہ میں (بس اللہ تعالیٰ ہی ان باتوں کا جاننے والا اور خبردار ہے)
(ابن جریرج 21 ص 88واللفظ لہ ،ابن کثیر ج 3 ص455،درمنشور ج 5 ص170،السراج المنیر ج3 ص200،روح المعانی ج 21 ص99 )
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ کی صریح عبارت
ولا یعلم متی تقوم الساعة الا اللہ فلم یعلم ذالک نبی مرسل ولا ملک مقرب
(قسطلانی شرح بخاری ج10 ص 296)
یعنی کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی بجز اللہ تعالیٰ کے نہ تو قیام ساعت کا وقت کسی نبی مرسل کو معلوم ہے اور نہ فرشتہ مقرب کو
ایک حدیث پاک کی شرح میں شیخ رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں
”حضرت جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک ماہ قبل سنا ،حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تم مجھ سے قیامت کے آنے کا وقت دریافت کرتے ہو حالانکہ اس کے وقت معین کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں یعنی قیامت کبریٰ آنے کا وقت خود مجھ کو معلوم نہیں اور اس کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا “(اشعتہ اللمعات ج 4ص 377)
چناچہ امام رازی رحمہ اللہ اور خطیب شربیننی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ فان قیل الیس انہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم قال بعث انا والساعة کھاتین فکان عالما بقرب وقوع القیٰمة فکیف قال ھٰھنا لاادری اقریب ام بعید اجیب بان المراد بقرب وقوعہ ھو ان ما بقی من الدنیا اقل مما انقضٰی فھٰذہ القدر من القرب معلوم فاما معرفة مقدار القرب فغیر معلوم الخ (تفسیر کبیر ج 8ص 343)( سراج المنیر ج 4ص 408)
یعنی اگر یہ کہا جائے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ میری بعث اور قیامت میں اتنا قرب ہے جتنا انگشت شہادت اور اُسکی قریب والی انگلی میں تو اس معلوم ہوا کہ آپ کو قرب قیامت کا علم تھا پھر آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ مجھے اس قرب و بعد کی خبرنہیں ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے قریب ہونے کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ دنیا کی باقی ماندہ عمر اُس کی گذشتہ عمر سے کم ہے ۔پس اتنا قرب تو معلوم ہے لیکن اس قرب کی ٹھیک مقدار معلوم نہیں
’’ فان قیل الیس انہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم قال بعث انا والساعة کھاتین فکان عالما بقرب وقوع القیٰمة فکیف قال ھٰھنا لاادری اقریب ام بعید اجیب بان المراد بقرب وقوعہ ھو ان ما بقی من الدنیا اقل مما انقضٰی فھٰذہ القدر من القرب معلوم فاما معرفة مقدار القرب فغیر معلوم الخ (تفسیر کبیر ج 8ص 343)( سراج المنیر ج 4ص 408)
یعنی اگر یہ کہا جائے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ میری بعث اور قیامت میں اتنا قرب ہے جتنا انگشت شہادت اور اُسکی قریب والی انگلی میں تو اس معلوم ہوا کہ آپ کو قرب قیامت کا علم تھا پھر آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ مجھے اس قرب و بعد کی خبرنہیں ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے قریب ہونے کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ دنیا کی باقی ماندہ عمر اُس کی گذشتہ عمر سے کم ہے ۔پس اتنا قرب تو معلوم ہے لیکن اس قرب کی ٹھیک مقدار معلوم نہیں
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم واضح کرچکے ہیں کہ ہمارا فریق مخالف سے اختلاف علوم خمسہ کے جزئیات میں نہیں ہے ۔وہ تو باذن اللہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کو بذریعہ وحی اور حضرات اولیائے عظام ؒ کو کشف اور الہام کے طور پر معلوم ہوسکتے ہیں۔۔۔ اختلاف کلیات میں ہے جس کی فریق مخالف کے پاس ایک بھی دلیل نہیں ۔۔۔
آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے جب بدر کے مقتولوں کے سرغنہ ابو جہل کے قتل کی سرسری خبر سنی تو:
’’قال النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم یوم بدر من ینظر ما فعل ابو جھل فا نطلق ابن مسعود فوجدہ قد ضربہ ابنا عفرآء(بخاری ج 2 ص 565)(مسلم ج 2 ص 110)
یعنی جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے بدر والے دن فرمایا کون ہے جو جاکر دیکھے کہ ابو جہل اس وقت کس حال میں ہے اور کیا کررہا ہے ؟تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے اور جاکر دیکھا کہ اُ س کو عفراءرضی اللہ عنہ کے دو بیٹوں نے مارا ہے ۔
اگر جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ان مقتولوں کے اور خصوصیت سے ان کے سرکردہ سردار ابوجہل کے قتل کے مکمل تفصیلی حالات معلوم ہوتے تو آپ یہ کیوں فرماتے کہ وہ اس وقت کیا کر رہا ہے ؟؟؟
ثم انصرنا الیٰ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم فا خبراہ فقال ایکما قتلہ فقال کل واحد منھما انا قتلتہ فقال ھل مستحما سیفیکما فقالا لا فنظر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم الی السیفین فقال کلا کما قتلہ وقضی رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم لبلبہ لمعاذ بن عمرو رضی اللہ عنہ بن الجموح والرجلان معاذ بن عمرو بن الجموح و معاذ بن عفراء(بخاری ج 1 ص 444) (مسلم ج 2 ص 88 )(مشکوة ج 2 ص 352)
یعنی پھر وہ دونوں آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں نے ابو جہل کے قتل کی خبر آپ کو سنا ئی آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کس نے اس کو قتل کیا ہے ؟ ان دونوں میں سے ہر ایک نے کہا کہ میں نے اس کو قتل کیا ہے ۔آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے اپنی تلواریں پونچھیں ہیں ؟دونوں بولے نہیں ۔جب آپ نے دیکھا تو دونوں کی تلواریں خون آلود تھیں ۔آپ نے فرمایا کہ تم دونوں نے ہی اس کو قتل کیا ہے مگرآپ نے ابوجہل کا سلب کا کل سامان معاذ بن عمرو بن الجموح رضی اللہ عنہ کو دیا اور یہ دونوں آدمی معاذ بن عمرو اور دوسرا معاذ بن عفراءتھے۔
یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ھذا عدو اللہ ابو جھل قد قتل فقال النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم لقد قتل قلت اللہ لقد قتل فانطلق بنا فا رینا ہ فجاءہ فنظر الیہ فقال ھذا کان فرعون ھذہ الامة ( ابو داﺅ طیالسی ص 42)
یعنی یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ،یہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ابو جہل قتل کردیا گیا ہے آپ نے ارشاد فرمایا بخدا ابو جہل قتل ہوچکا ہے ؟ میں نے کہا ہاں حضرت خدا کی قسم وہ قتل ہوچکا ہے ۔پس آپ ہمارے ساتھ تشریف لے گئے اور ہم نے ابو جہل آپ کو دکھایا اور آپ نے دیکھ کر فرمایا کہ یہ اس امت کا فرعون تھا۔
یہ روایت بھی اس بات کی صریح دلیل ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ابو جہل کے قتل کے تفصیلی حالات اور جملہ کیفیات معلوم نہ تھیں ۔
امام نووی رحمہ اللہ اور علامہ طیبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
’’قالو ا وانما اخذالسیفین لیستدل بھما علی حقیقة کیفیة قتلھما فعلم ان ابن الجموح اثخنہ ثم شارکہ الثانی بعد ذلک و بعد استحاق السلب فلم یکن لہ حق فی السلب
(نووی ج 2 ص 88 )(ہامش مشکوة ج 2 ص 352)
یعنی حضرات علماءکرام نے فرمایا کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے دودونوں کی تلواریں اس لئے لیں اور دیکھیں تھیں تاکہ ان کے ذریعہ سے ان دونوں کے قتل کی کیفیت کی حقیقت کو معلوم کرسکیں جب آپ نے تلواریں دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوا کہ ابن جموح کے زخم کاری ہیں اس کے بعد دوسرا قاتل اس کے ساتھ شریک ہوا ہے اور چونکہ ابن جموح اپنے کاری زخموں کی وجہ سے سلب کا مستحق ہوچکا تھا اس لئے دوسرے کو سلب سے کچھ نہ مل سکا (مگر تطییب خاطر کے لئے آپ نے دونوں کو قاتل فرمایا)
معزز قارئین کرام !
کوئی پوچھے جا کر مولوی عمر اور مفتی احمد یار نعیمی صاحب کے چاہنے والوں سے کہ ”مافی غد“ کے اندر جو کھرب ہا کھرب حوادث اور واقعات شامل ہیں ۔۔۔۔ان کا تو قصہ چھوڑئیے ۔۔۔جن مقتولین بدر کے قتل کی خبر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ایک دن پہلے سنائی تھی ،ان کے قتل کی کیفیات ،قاتلوں کا صحیح علم ،اور یہ کہ کس کی تلوار سے وہ قتل ہوں گے وغیرہ یہ بھی معلوم نہ تھا ۔۔۔۔لیکن فریق مخالف تو رائی کا پہاڑ بنانا جانتا ہے ۔۔۔۔نصوص قطعیہ اور صریح روایات کو چھوڑ کر صرف ادھورے جملوں پر اپنے عقائد کی بنیاد رکھتے ہیں ۔
اسی طرح فریق مخالف کے وکیل مولوی عمر ”علم ما غد “پر چند اور روایات بھی پیش کیں ہیں ۔۔۔مثلا یہ کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام زمین پر نازل ہوں گے اور شادی کریں گے ان کی اولاد ہوگی اور کم و بیش پینتالیس سال حکومت کریں گے ،پھر ان کی وفات ہوگی اور میری قبر کے پاس ہی دفن ہوں گے۔۔۔۔۔ اسی طرح یہ روایت کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام باب لُد کے پاس دجال کو قتل کریں گے وغیرہ وغیرہ (دیکھئے مقیاس حنفیت ص 329،330)
مگر ان روایات سے استدلال باطل ہے کیوں کہ یہ اشراعت ساعت اور علامات قیامت سے ہیں اور ان کے بارے میں کسی مسلمان کو ذرہ برابر بھی شک نہیں ہوسکتا ان سے ”علم جمیع مافی غد“ ثابت کرنا دوراز کار بات ہے ۔۔۔۔اگر فریق مخالف خود ہی اپنے دعوی اور دلیل پر غور کرلیں تو ہمارے خیال میں اس کو خود ہی با آسانی سمجھ آجانا چاہیے کہ دعوی اور دلیل میں کوئی مطابقت نہیں۔
باقی اسی طرح مفتی احمد یار نعیمی صاحب لکھتے ہیں کہ :
”مشکوة باب مناقب علی رضی اللہ عنہ میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے خیبر کے دن فرمایا کہ ہم کل یہ جھنڈااس کو دیں گے جس کے ہاتھ پر اللہ خیبر فتح فرمائے گا ۔اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے “(جاءالحق ص65)
اگر اس سے یہ مراد ہو کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کل کے واقعات میں سے ایک واقع کی اطلاع دی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر قلع فتح ہوگا تو بالکل صحیح ہے اس میں کسی کو کلام نہیں ہے ۔
اوراگر مراد یہ ہو کہ کل کے اندر رونما ہونے والا ہرہر واقعہ آپ کو معلوم تھا اور یہ حدیث اس کی دلیل ہے تو یہ قطعا غلط ہے ۔ کیوں کہ اس ارشاد کے بعد ہی خیبر میں زنیب نامی ایک یہودیہ عورت نے بکری کے گوشت میں زہر ڈال کر آپ کو اور آپ کے چند ساتھیوں کو کھلایا جس کی وجہ سے حضرت بشیر رضی اللہ عنہ بن براءبن معرور کی شہادت ہوگئی (دیکھئے ابو داﺅد ج 2 ص 264 )(مستدرک ج 3 ص 219 )
بلکہ یہ روایت بھی آتی ہے کہ :
”وتوفی اصحابہ الذین اکلو امن الشاة الخ (مشکوة ج 2 ص 542)اور (ابو داﺅد ج 2 ص 264) میں ”وتوفی بعض اصحابہ “(الحدیث) ہے ۔کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے وہ صحابہ کرام جنہوں نے وہ زہر آلود بکری کھائی تھی وفات پاگئے ۔۔۔۔اس سے معلوم ہوا کہ وفات پانے والے متعدد صحابہ کرام تھے ۔
لہذا ثابت ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو کل کے ہر ہر واقعہ کی خبر نہ تھی ۔۔۔ ورنہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو وہ زہر آلود گوشت ہرگز کھانے نہ دیتے
مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ:
”خیال رہے کہ جہنمی یا جنتی ہونا علوم خمسہ میں سے ہے کہ سعید یا شقی اسی طرح کون کس کا بیٹا ہے ؟یہ ایسی بات ہے کہ جس کا علم سوائے اس کی ماں کے اور کسی کو نہیں ہوسکتا ۔قربان جاﺅں ان نگاہوں کے جو کہ اندھیرے اُجالے دنیا و آخرت سب کو دیکھتی ہیں “انتہیٰ بلفظہ (جاءالحق ص 64)(مقیاس حنفیت ص462)
الجواب:
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم واضح کرچکے ہیں کہ ہمارا فریق مخالف سے اختلاف علوم خمسہ کے جزئیات میں نہیں ہے ۔وہ تو باذن اللہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کو بذریعہ وحی اور حضرات اولیائے عظام ؒ کو کشف اور الہام کے طور پر معلوم ہوسکتے ہیں۔۔
اس روایت سے فریق مخالف کا علم غیب کلی پر استدلال اس لئے بھی باطل ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ”سلونی“کہ مجھ سے سوال کرو،اظہار ناراضگی کی وجہ سے تھا ۔۔۔۔۔کیوں کہ لوگوں نے دور ازکار اور لایعنی سوالات کرنے شروع کردیئے تھے اس لئے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے بطور ناراضگی کے یہ فرمایا۔۔۔۔چناچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی تصریح موجود ہے کہ:
’’قال سئل رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم عن اشیاءکرھھا فلما اکثر و اعلیہ المساءلة غضب وقال سلونی (الحدیث)(بخاری ج2 ص1083) (مسلم ج 2ص264)
”یعنی آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ایسی اشیاءکے بارے میں سوال کیا گیا جن کو آپ پسند نہیں فرماتے تھے جب لوگوں کے سوالات بڑھ گئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے طیش میں آکر فرمایا پوچھو مجھ سے الخ“
جب بعض لوگوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی منشاءکو نہ سمجھا اور سوالات شروع کردئیے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی ان کے جوابات آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو بتلائے جاتے رہے
امام نووی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
قال العلماءھٰذا القول منہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم محمول علیٰ انہ اوحی الیہ والا فلا یعلم کل مایساءل عنہ من المغیبات الا باعلام اللہ تعالیٰ قال القاضی وظاھر الحدیث ان قولہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سلونی انما کان غضبا کما فی الروایة الاخریٰ سئل النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم عن اشیاءکرھھا فلما اکثر علیہ غضب ثم قال للناس سلونی وکان اختیارہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ترک تلک المسائل لکن وافقھم فی جوابھا لانہ لایمکن رد السوال لما راءمن حرصھم علیھا واللہ اعلم (شرح مسلم ج 2 ص263)
حضرات علماءکرام کا کہنا ہے کہ یہ قول جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا س بات پر محمول ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اس کی وحی ہوئی تھی ورنہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو تمام مغیبات کا جن کے بارے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سوالات ہوتے تھے کوئی علم نہ تھا ہاں مگر جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا تھا اطلاع دے دیتا تھا ۔حضرت قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث کے ظاہری الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا سلونی فرمانا اظہار ناراضگی پر مبنی تھا کیوں کہ دوسری روایت میں موجود ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے جب بکثرت ایسی چیزی پوچھی گئیں جن کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پسند نہیں کرتے تھے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے غصہ میں آکر لوگوں سے فرمایا مجھ سے پوچھو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم صرف اسی امر کو پسند کرتے تھے کہ یہ سوالات نہ ہوں لیکن جب لوگوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے پوچھنا شروع کیا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کو جواب دینے میں (نظر با خلاق کریمہ )موافقت کی کیوں کہ لوگ جب پوچھنے میں حریص واقع ہوئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے ممکن نہ تھا کہ ان کو بے نیل مرام واپس کردیتے
اور شیخ السلام علامہ بدرالدین عینی الحنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
فان قلت من این عرف رسول اللہ علیہ الصلوة والسلام انہ ،ابنہ قلت اما بالوحی وھو الظاھر او بحکم الفراسة او بالقیاس او بالاستلحاق الخ (عمدة القاری ج 9ص 509)
”سو اگر تو یہ کہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ خذافہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں ؟تو میں جواب میں کہوں گا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ سے یہ معلوم
ہوا تھا اور یہی ظاہر ہے یا فراست یا قیاس یا استلحاق کے حکم سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاتھا
اوراسی طرح ملا علی قاری رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’فان قلت قد اخبر الانبیاءوالاولیاءبشیئی کثیر من ذٰلک فکیف الحصر قلت الحصر باعتبار کلیا تھا دون جزئیتھاالخ (مرقات ج 1ص 66) (فتح الملہم ج1 ص 172)
”اگر تو یہ کہے کہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام اور اولیاءعظام نے ان پانچ میں سے بہت سی چیزوں کے بارے میں خبر دی ہے تو یہ حصر کیسے صحیح ہے کہ اللہ ہی کے پاس اس کا علم ہے؟تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ حصر کلیات کے اعتبار سے ہے جزئیات کے اعتبار سے نہیں
انبا الغیب اطلاع الغیب
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمًا مِنْ جُهَيْنَةَ فَقَاتَلُونَا قِتَالًا شَدِيدًا فَلَمَّا صَلَّيْنَا الظُّهْرَ قَالَ الْمُشْرِکُونَ لَوْ مِلْنَا عَلَيْهِمْ مَيْلَةً لَاقْتَطَعْنَاهُمْ فَأَخْبَرَ جِبْرِيلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِکَ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَقَالُوا إِنَّهُ سَتَأْتِيهِمْ صَلَاةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ الْأَوْلَادِ فَلَمَّا حَضَرَتْ الْعَصْرُ قَالَ صَفَّنَا صَفَّيْنِ وَالْمُشْرِکُونَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ قَالَ فَکَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَبَّرْنَا وَرَکَعَ فَرَکَعْنَا ثُمَّ سَجَدَ وَسَجَدَ مَعَهُ الصَّفُّ الْأَوَّلُ فَلَمَّا قَامُوا سَجَدَ الصَّفُّ الثَّانِي ثُمَّ تَأَخَّرَ الصَّفُّ الْأَوَّلُ وَتَقَدَّمَ الصَّفُّ الثَّانِي فَقَامُوا مَقَامَ الْأَوَّلِ فَکَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَبَّرْنَا وَرَکَعَ فَرَکَعْنَا ثُمَّ سَجَدَ مَعَهُ الصَّفُّ الْأَوَّلُ وَقَامَ الثَّانِي فَلَمَّا سَجَدَ الصَّفُّ الثَّانِي ثُمَّ جَلَسُوا جَمِيعًا سَلَّمَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ ثُمَّ خَصَّ جَابِرٌ أَنْ قَالَ کَمَا يُصَلِّي أُمَرَاؤُکُمْ هَؤُلَائِ
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قبیلہ جہینہ کی ایک قوم کے ساتھ جہاد کیا انہوں نے ہم سے بہت سخت جنگ کی جب ہم نے ظہر کی نماز پڑھی لی مشرکوں نے کہا کاش ہم ان پر ایک دم حملہ آور ہوتے تو انہیں کاٹ کر رکھ دیتے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سے باخبر کیا اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کیا اور فرمایا کہ مشرکوں نے کہا کہ ان کی ایک اور نماز آئے گی جو ان کو اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہے تو جب عصر کی نماز کا وقت آیا تو ہم نے دو صفیں بنالیں اور مشرک ہمارے اور قبلہ کے درمیان میں تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر کہی اور ہم نے بھی تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع فرمایا تو ہم نے بھی رکوع کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پہلی صف والوں نے سجدہ کیا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پہلی صف والے کھڑے ہو گئے تو دوسری صف والوں نے سجدہ کیا اور پہلی صف والے پیچھے اور دوسری صف والے آگے ہو گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکیبر کہی اور ہم نے بھی تکبیر کہی پھر آپ نے رکوع فرمایا ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رکوع کیا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا اور دوسری صف والوں نے سجدہ کیا پھر سب بیٹھ گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کے ساتھ سلام پھیرا حضرت ابوالزبیر فرماتے ہیں کہ پھر حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جس طرح آج کل تمہارے یہ حکمران نماز پڑھتے ہیں۔
1845
فضائل قرآن کا بیان
مسلم
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چابیوں سے مراد خزانہِ غیب ہے، وہ لکھتے ہیں
فاﷲ تعالی عنده الغيب، و بيده الطرق الموصلة إليه، لا يملکها إلا هو فمن شاء إطلاعه عليها إطلعه، وَمن شاء حجبه عنها حجبه
’’اﷲ تعالیٰ کے پاس علم الغیب ہے اور اسی کے ہاتھ میں وہ راستے اور ذریعے بھی ہیں (جن کو چابیاں کہا گیا ہے) جن کے ذریعے سے اس خزانہِ غیب تک پہنچا جا سکتاہے۔ ان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے پس وہ جسے اس پر اطلاع کرنا چاہے تو اسے اس پر مطلع کر دیتا ہے اور جسے محروم رکھنا چاہے محروم رکھتا ہے۔‘‘
(قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 7 : 2)
قرآن مجید میں غیب کی تقسیم دو طرح بیان کی گئی ہے خبر غیب اور علم غیب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذاتی و عطائی کا تصور غیر اسلامی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خبر غیب خاصہ نبوت ہے جبکہ علم غیب خاصہ خداوندی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں غیب کو علم سے جوڑا گیا ہے وہاں اللہ کا ذکر آیا ہے اور جہاں جہاں ، خبر ، اطلاع یا مطلع کے الفاظ آ استعمال ہوئے ہیں وہاں نبی رحمت کا ذکر موجود ہے
No comments:
Post a Comment