Thursday, 26 November 2020

نادعلی رضی اللہ عنہ رافضیوں کا جھوٹ



  نادعلی رضی اللہ عنہ  رافضیوں کا جھوٹ

ملا علی قاری علیہ الرحمہ اپنی کتاب الموضوعات الکبیر میں لکھتے ہیں۔

حَدِيثُ
لَا فَتَى إِلَّا عَليّ لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفِقَارِ 
لَا أَصْلَ لَهُ مِمَّا يُعْتَمَدُ عَلَيْهِ نَعَمْ يُرْوَى فِي أَثَرٍ وَاهٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَرَفَةَ الْعَبْدِيِّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْبَاقِرِ قَالَ نَادَى مَلَكٌ مِنَ السَّمَاءِ يَوْمَ بَدْرٍ يُقَالُ لَهُ رَضْوَانُ لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفِقَارِ لَا فَتَى إِلًا عَلَيٌّ وَذَكَرَهُ كَذَا فِي الرِّيَاضِ النَّضِرَةِ وَقَالَ ذُو الْفِقَارِ اسْمُ سَيْفِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسُمِّيَ بِذَلِكَ لِأَنَّهُ كَانَتْ فِيهِ حُفَرٌ صِغَارٌ
أَقُولُ وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى بُطْلَانِهِ أَنَّهُ لَوْ نُودِيَ بِهَذَا مِنَ السَّمَاءِ
فِي بَدْرٍ لَسَمِعَهُ الصَّحَابَةِ الْكِرَامِ وَنَقَلَ عَنْهُمُ الْأَئِمَّةُ الْفِخَامُ وَهَذَا شَبِيهُ مَا يُنْقَلُ مِنْ ضَرْبِ النُّقَارَةِ حَوَالِيَ بَدْرٍ وَيَنْسُبُونَهُ إِلَى الْمَلَائِكَةِ عَلَى وَجْهِ الِاسْتِمْرَارِ مِنْ زَمَنِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ إِلَى يَوْمِنَا هَذَا وَهُوَ بَاطِلٌ عَقْلًا وَنَقْلًا وَإِنْ كَانَ ذَكَرَهُ ابْنُ مَرْزُوقٍ وَتَبِعَهُ الْقَسْطَلَّانِيُّ فِي مَوَاهِبِهِ
وَكَذَا مِنْ مُفْتَرَيَاتِ الشِّيعَةِ الشَّنِيعَةِ حَدِيثُ
نَادِ عَلِيًّا مُظْهِرَ الْعَجَائِبَ تَجِدْهُ عَوْنًا لَكَ فِي النَّوَائِبِ بِنُبُوَّتِكَ يَا مُحَمَّدُ بُوِلَايَتِكَ يَا عَلِيُّ


الموضوعات الکبریٰ
صفحہ 386، رقم 595

post-18262-0-90198800-1491468945_thumb.jpg
◈14
 شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حضرت عباسؓ سے بارش کی دعاء کرانے کی حدیث ذکر کرکے فرماتے ہیں:
''ازیں جا ثابت شد کہ توسل بہ گزشتگان و غائبان جائزنہ و اشتندو گرنہ عباسؓ از سرور عالمؐ بہتر نہ بود چرا نہ گفت کہ توسل می کردیم بہ پیغمبرؐ تو والحال توسل می کنیم بہ روح پیغمبرؐ تو!''
یعنی ''اس واقعے سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ گزرے ہوئے (فوت شدگان) اور غائب لوگوں کا وسیلہ پکڑنا جائز نہیں سمجھتے تھے ورنہ حضرت عباسؓ ، رسول اللہ ﷺ سے بہتر نہ تھے( اگر و فات شدہ سے دعاء کرانا جائز ہوتا) تو انہوں نے کیوں نہ کہا کہ یا اللہ پہلے ہم تیرے نبی کے ساتھ وسیلہ پکڑتے تھے، اب ہم تیرے نبیؐ کی روح کے ساتھ وسیلہ پکڑتے ہیں
 فقہ کی ایک کتاب ''غرائب فی تحقیق المذاہب'' کے حوالہ سے لکھا ہے:
''رأی الإمام أبوحنیفة من یأتي القبور لأھل الصلاح فلیسلم و یخاطب و یتکلم و یقول یاأھل القبور ھل لکم من خبر وھل عندکم من أثر انی أتیتکم من شهور و ولیس سؤالي إلا الدعاء فھل دریتم أم غفلتم فسمع أبوحنیفة بقول یخاطب بھم فقال ھل أجابوالك؟ قال لا فقال له سحقا لك و تربت یداك کیف تکلم أجسادا لا یستطیعون جوابا ولا یملکون شیئا ولا یسمعون صوتا و قرأ ''وما أنت بمسمع من في القبور''
''امام ابوحنیفہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کچھ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس آکر سلام کرکے ان سے کہہ رہا ہے، ''اے قبر والو! کیا تمہیں کچھ خبر بھی ہے اور کیا تمہیں کچھ اثر بھی ہے، میں تمہارے پاس کئی مہینوں سے آرہا ہوں اور تمہیں پکار رہا ہوں۔ تم سے میرا سوال بجز دعاء کرانے کے اور کچھ نہیں۔ تم میرے حال کو جانتے ہو یا میرے حال سے بے خبر ہو؟'' امام ابوحنیفہ نے اس کی یہ بات سن کر اس سے پوچھا، ''کیا (ان قبر والوں نے) تیری بات کا جواب دیا؟'' وہ کہنے لگا ''نہیں'' آپ نے فرمایا ''تجھ پر پھٹکار ہو، تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں، تو ایسے (مُردہ) جسموں سے بات کرتا ہے جو نہ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں نہ کسی چیز کا اختیار رکھتے ہیں او رنہ کسی کی آواز (فریاد) ہی سن سکتے ہیں۔'' پھرامام صاحب نے قرآن کی یہ آیت پڑھی ''وما انت بمسمع من فی القبور'' (سورة الفاطر) ''اے پیغمبرؐ! تو اُن کو نہیں سنا سکتا جو قبروں میں ہیں

No comments:

Post a Comment