توحید کے بارے میں وضاحت
قاضی صاحب پانی پتی الحنفی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ
ہمارے لئے اللہ کافی ہے
اولیاء اللہ کو رزق اولاد نفع و نقصان دینے والا سمجھنا
قاضی صاحب کیا لکھتے ہیں
1
اگر کسے گوید کہ خدا و رسول برین عمل گواہ اند کافر شود اولیاء قادر نیستند بر ایجاد معدوم یا اعدام موجود پس نسبت کردن ایجاد و اعدام و اعطاء رزق یا اولاد و دفع بلا و مرض وغیر آن بسوئے شان کفر است قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ما شاء اللہ یعنی بگو اے محمد ﷺ مالک نیستم من برائے خویشتن نفع را و نہ ضرر را مگر آنچہ خدا خواہد و اگر نسبت بطریق بسببیت بود مضائقہ ندارد
(بستان السالکین ترجمہ ارشاد الطالبین ،ص47,48،)
(فارسی نسخہ ص ٢۸ ارشاد الطالبین )
ترجمہ
اگر کوئی کہے کہ خدا اور رسول اس عمل پر گواہ ہیں تو وہ کافر ہوجاتا ہے اولیاء کرام معدوم کو موجود کرنے یا موجود کو معدوم کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اس لئے پیدا کرنے رزق دینے بلا دور کرنے اور مرض سے شفاء دینے وغیرہ کی نسبت ان سے مدد طلب کرنا کفر ہے فرمان خداوندی ہے قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ما شاء اللہ یعنی اے محمد ﷺ کہہ دیجئے میں اپنے آپ کیلئے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر وہ جو کچھ اللہ چاہے اور اگر سبب کے لحاظ سے نسبت ہو تو کوئی حرج نہیں
وضاحت
اب قاضی صاحب تو فرمارہے ہیں کہ اولیاء اللہ کو رزق اولاد نفع و نقصان دینے والا سمجھنا اور اس نیت سے ان سے اپنی حاجات طلب کرنا کفر ہے کیونکہ خود قرآن نبی کریم ﷺ کے بارے میں کہہ رہا کہ آپ ﷺ اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ۔ہاں بعض اوقات اللہ انہیں سبب بنادیتا ہے مگر وہ محض واسطہ و سبب ہوتے ہیں
مزید قاضی صاحب سے ملاحظہ فرمالیں قاضی صاحب اسی سبب و واسطہ کی وضاحت کرتے ہیں
2
و خلق و تکوین صفتے است مختص بوئے تعالی ممکن چہ باشد کہ ممکن را پیدا می تواند کرد ممکنات بہ تمامہا چہ جوہر و چہ عرض و چہ افعا ل اختیاریہ بندگان ہمہ مخلوق او تعالی اند اسباب و وسائط را روپوش فعل خود ساختہ است بلکہ دلیل بر ثبوت فعل خود کردہ
( مالا بد منہ ،ص7)
ترجمہ
اور پیدا کرنا اور وجود میں لانا یہ بھی اسی ذات پاک کیلئے خاص صفت ہے ممکن جیسے حقیر کو کیا طاقت کہ دوسرے ممکن کو پیدا کرسکے تمام ممکنات جوہر ہوں یا عرض یا بندوں کے اختیاری کاروبار سب حق تعالی کے پیدا کئے ہوئے ہیں ظاہری سببوں اور وسیلوں کو (حکمت کی بناء پر) اپنے کام کا پردہ بنارکھا ہے بلکہ اپنے کام کے ثبوت کی دلیل بناد
3
ہمارے لئے اللہ کافی ہے
اولیاء اللہ کو رزق اولاد نفع و نقصان دینے والا سمجھنا
قاضی صاحب کیا لکھتے ہیں
1
اگر کسے گوید کہ خدا و رسول برین عمل گواہ اند کافر شود اولیاء قادر نیستند بر ایجاد معدوم یا اعدام موجود پس نسبت کردن ایجاد و اعدام و اعطاء رزق یا اولاد و دفع بلا و مرض وغیر آن بسوئے شان کفر است قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ما شاء اللہ یعنی بگو اے محمد ﷺ مالک نیستم من برائے خویشتن نفع را و نہ ضرر را مگر آنچہ خدا خواہد و اگر نسبت بطریق بسببیت بود مضائقہ ندارد
(بستان السالکین ترجمہ ارشاد الطالبین ،ص47,48،)
(فارسی نسخہ ص ٢۸ ارشاد الطالبین )
ترجمہ
اگر کوئی کہے کہ خدا اور رسول اس عمل پر گواہ ہیں تو وہ کافر ہوجاتا ہے اولیاء کرام معدوم کو موجود کرنے یا موجود کو معدوم کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اس لئے پیدا کرنے رزق دینے بلا دور کرنے اور مرض سے شفاء دینے وغیرہ کی نسبت ان سے مدد طلب کرنا کفر ہے فرمان خداوندی ہے قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ما شاء اللہ یعنی اے محمد ﷺ کہہ دیجئے میں اپنے آپ کیلئے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر وہ جو کچھ اللہ چاہے اور اگر سبب کے لحاظ سے نسبت ہو تو کوئی حرج نہیں
وضاحت
اب قاضی صاحب تو فرمارہے ہیں کہ اولیاء اللہ کو رزق اولاد نفع و نقصان دینے والا سمجھنا اور اس نیت سے ان سے اپنی حاجات طلب کرنا کفر ہے کیونکہ خود قرآن نبی کریم ﷺ کے بارے میں کہہ رہا کہ آپ ﷺ اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ۔ہاں بعض اوقات اللہ انہیں سبب بنادیتا ہے مگر وہ محض واسطہ و سبب ہوتے ہیں
مزید قاضی صاحب سے ملاحظہ فرمالیں قاضی صاحب اسی سبب و واسطہ کی وضاحت کرتے ہیں
2
و خلق و تکوین صفتے است مختص بوئے تعالی ممکن چہ باشد کہ ممکن را پیدا می تواند کرد ممکنات بہ تمامہا چہ جوہر و چہ عرض و چہ افعا ل اختیاریہ بندگان ہمہ مخلوق او تعالی اند اسباب و وسائط را روپوش فعل خود ساختہ است بلکہ دلیل بر ثبوت فعل خود کردہ
( مالا بد منہ ،ص7)
ترجمہ
اور پیدا کرنا اور وجود میں لانا یہ بھی اسی ذات پاک کیلئے خاص صفت ہے ممکن جیسے حقیر کو کیا طاقت کہ دوسرے ممکن کو پیدا کرسکے تمام ممکنات جوہر ہوں یا عرض یا بندوں کے اختیاری کاروبار سب حق تعالی کے پیدا کئے ہوئے ہیں ظاہری سببوں اور وسیلوں کو (حکمت کی بناء پر) اپنے کام کا پردہ بنارکھا ہے بلکہ اپنے کام کے ثبوت کی دلیل بناد
3
ایک اور جگہ اس سبب و واسطہ وسیلہ کی وضاحت یوں کرتے ہیں :
حق العباد میں ایک دوسری قسم ان لوگوں کے حقوق ہیں جو اللہ تعالی کے بعض حقوق کے مظہر ہوتے ہیں ایجاد (پیدا) کرنے ،پرورش کرنے ،روزی پہنچانے ،اور ا س طرح کے دیگر امور کا وہ ظاہر میں واسطہ ہوا کرتے ہیں جیسے ماں باپ دادے اور دادیاں وغیرہ جن لوگوں کے واسطہ اور ذریعہ سے اللہ تعالی رزق پہنچاتا ہے یا جن کے ذریعہ پرورش کرتا ہے یا مالی انعام کی کوئی قسم کی منفعت عطا فرماتا ہے تو ان حضرات کا شکر ادا کرنا بھی والدین کے شکر کی طرح واجب ہے
( مفید الانام ترجمہ حقیقت الاسلام ،ص37 مطبوعہ ،المدینہ دارالاشاعت لاہور)
4
اولیاء اللہ کی قبور سے مانگنے والے
قاضی صاحب ولایت کے متعلق غلط مشرکانہ عقیدہ کابیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’بعضے در اولیاء اللہ عصمت خیال می کنند و می دانند کہ اولیاء ہر چہ خواہند ہمان شود و ہر چہ نخواہند معدوم گردہ و ازقبور اولیاء باین خیال مرادات خود طلب می کنند و چون در اولیاء اللہ و مقربان درگاہ کہ زندہ این صفت نمی یابند از ولایت آنہا منکری شوند و از فیوض آنہا محروم می مانند
(بستان السالکین ترجمہ ارشاد الطالبین ،ص1,2)
ترجمہ
بعض اولیاء کے معصوم ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اولیاء جو کچھ چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتے وہ نہیں ہوتا اور اسی خیال سے اولیاء اللہ کی قبروں سے اپنی مرادیں طلب کرتے ہیں اور جو وہ زندہ اولیاء اللہ اور مقربان خداوندی میں یہ صفت نہ پاتے تو ان کی ولایت کا انکار کرکے ان کے فیوض سے محروم رہتے ہیں
بعض اولیاء کے معصوم ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اولیاء جو کچھ چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتے وہ نہیں ہوتا اور اسی خیال سے اولیاء اللہ کی قبروں سے اپنی مرادیں طلب کرتے ہیں اور جو وہ زندہ اولیاء اللہ اور مقربان خداوندی میں یہ صفت نہ پاتے تو ان کی ولایت کا انکار کرکے ان کے فیوض سے محروم رہتے ہیں
5
علم غیب اور حاضر ناظر
اگر کسے گوید کہ خدا و رسول برین عمل گواہ اند کافر شود
(بستان السالکین ترجمہ ارشاد الطالبین ،ص47,48،)
( فارسی نسخہ ص ٢۸ ارشاد الطالبین)
( فارسی نسخہ ص ٢۸ ارشاد الطالبین)
ترجمہ
اگر کوئی کہے کہ خدا اور رسول اس عمل پر گواہ ہیں تو وہ کافر ہوجاتا ہے
اور اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں :
اگر کسے بدون شہود نکاح کرد و گفت کہ خدا و رسول خدا را گواہ کردم یا فرشتہ را گواہ کردم کافر شود
( مالا بد منہ ،ص146میرمحمد کتب خانہ کراچی)
( مالا بد منہ ،ص146میرمحمد کتب خانہ کراچی)
ترجمہ
اگر کوئی شخص بدون گواہ کے نکاح کرے اور کہے کہ میں نے خدا اور اس کے رسول کو یا فرشتہ کو گواہ کیا تو کافر ہوجائے گا
وضاحت
کیونکہ رسول خدا ﷺ اور ملائکہ کو عالم الغیب سمجھنا کفر ہے کہ یہ صفت خاصہ رب باری تعالی ہے
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں
بندگان خاص الٰہی را در صفات واجبی شریک داشتن یا آنہارا در عبادت شریک ساختن کفر است چنانچہ دیگر کفار بہ انکار انبیاء کافر شد ند ہمچناں نصاری عیسی را پسر خدا و مشرکان عرب ملائکہ را دختران خدا گفتند و علم غیب بآنہا مسلم داشتندکافر شدند
(مالا بد منہ،ص11,12،مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی)
ترجمہ
حق تعالی کے خاص بندوں کو اس کی صفات واجبی میں شریک ٹھرانا یا انکو بندگی میں شریک بنانا کفر ہے جس طرح دوسرے کفار نبیوں کے انکار سے کافر ہوئے اسی طرح نصاری عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا اور عرب کے مشرک فرشتوں کو خدا کی بیٹی کہہ کر اور فرشتوں کیلئے علم غیب کا عقیدہ مان کر کافر ہوگئے ( یہی عقیدہ مشرکین پاک و ہند کا بھی ہے)نبیوں اور فرشتوں کو خدا تعالی کی صفات میں شریک بنانا جائز نہیں
6
کیونکہ رسول خدا ﷺ اور ملائکہ کو عالم الغیب سمجھنا کفر ہے کہ یہ صفت خاصہ رب باری تعالی ہے
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں
بندگان خاص الٰہی را در صفات واجبی شریک داشتن یا آنہارا در عبادت شریک ساختن کفر است چنانچہ دیگر کفار بہ انکار انبیاء کافر شد ند ہمچناں نصاری عیسی را پسر خدا و مشرکان عرب ملائکہ را دختران خدا گفتند و علم غیب بآنہا مسلم داشتندکافر شدند
(مالا بد منہ،ص11,12،مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی)
ترجمہ
حق تعالی کے خاص بندوں کو اس کی صفات واجبی میں شریک ٹھرانا یا انکو بندگی میں شریک بنانا کفر ہے جس طرح دوسرے کفار نبیوں کے انکار سے کافر ہوئے اسی طرح نصاری عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا اور عرب کے مشرک فرشتوں کو خدا کی بیٹی کہہ کر اور فرشتوں کیلئے علم غیب کا عقیدہ مان کر کافر ہوگئے ( یہی عقیدہ مشرکین پاک و ہند کا بھی ہے)نبیوں اور فرشتوں کو خدا تعالی کی صفات میں شریک بنانا جائز نہیں
6
عرس کرنا مزارا ت پر خرافات کرنا
لا یجوزما یفعلہ الجھال بقبور الاولیاء والشھدآء من السجود و الطواف حولھا واتخاذ السرج والمساجد علیھا و من الاجتماع بعد الحول کالاعیاد ویسمونہ عرسا عن عائشۃ و عن ابن عباس قالا لما نزل برسول اللہ ﷺ مرض طفق یطرح خمیصۃ لہ علی وجھہ فاذا اغتم کشفہا عن وجھہ ویقول ھو کذالک لعنۃ اللہ علی الیہود والنصاری اتخذوا قبور انبیاءھم مساجد قالت فحذر عن مثل ما صنعوا متفق علیہ و کذا روی احمد والطیالسی عن اسامۃ بن زید وروی الحاکم و صححہ عن ابن عباس لعن اللہ زائرات القبور والمتخذین علیہا المساجد والسرج و روی مسلم من حدیث جندب بن عبد الملک قال سمعت النبی ﷺ قبل ان یموت بخمس وھو یقول الا لا تتخذوا والقبور مساجد انی انھاکم عن ذالک
(تفسیر مظہری،ج2،ص68,69،دارالاحیاء التراث العربی)
ترجمہ
اولیاء اور شہداء کے مزارات پر سجدے کرنا ،طواف کرنا ،چراغ روشن کرنا ان پر مسجدیں قائم کرنا عید کی طرح مزارات پر عرس کے نام سے میلے لگانا جس طرح آج کل جاہل کرتے ہیں جائز نہیں ۔حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباسؓ راوی ہیں کہ مرض وفات میں رسول اللہ ﷺ نے دھاری دار کمبل سے چہرہ مبارک ڈھانک لیا اور دم گھٹا تو منہ سے ہٹا دیا ( اللہ اکبر ساری دنیا کے مشکل کشاء حاجت روا مختار کل کو اپنی سانس مبارک پر بھی اختیار نہیں از ناقل ) اور اسی حالت میں فرمایا یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا حضرت عائشہؓ کا بیان ہے حضور ﷺ نے اس ارشاد میں یہود و نصاری کے فعل سے مسلمانوں کو بازداشت کی ۔بخاری و مسلم امام احمد و ابو داؤد طیالسی نے بھی حضرت اسامہ بن زید کی روایت سے یہ حدیث نقل کی ۔حاکم نے ابن عباسؓ کی یہ روایت سے یہ حدیث نقل کی ہے اور اس کو صحیح بھی کہا ہے کہ قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پراور ان لوگوں پر جو قبروں کو سجدہ گاہ بناتے ہیں اور چراغ جلاتے ہیں اللہ کی لعنت ہو ۔مسلم نے حضرت جندب بن عبد المالک کا قول نقل کیا ہے جندبؓ کا بیان ہے کہ میں نے خود سناوفات سے پانچ راتیں پہلے حضور ﷺ فرمارہے تھے ہوشیار قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانامیں تاکید کے ساتھ تم کو اس کی ممانعت کرتا ہوں۔
7
بدعت حسنہ
حضرت خواجہ عالی شان خواجہ بہاء الدین نقشبند رضی اللہ عنہ وامثال شان حکم کردہ اند بدانکہ ہرعبادت کہ موافق سنت است آن عبادت مفید تر است برائے ازالہ رزائل نفس و تصفیہ عناصرو حصول قرب الٰہی لہذا از بدعت حسنہ مثل بدعت قبیحہ اجتناب می کنند کہ رسول اللہ ﷺ فرمودہ کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ پس نتیجہ این حدیث آنست کہ کل محدث ضلالۃ و بدیہی است کہ لا شیء من الضلالۃ بھدایۃ فلا شیء من المحدث بھدایۃ
( بستان السالکین ترجمہ ارشاد الطالبین ،ص69-72)
ترجمہ
حضرت خواجہ عالی شان خواجہ بہاالدین نقشبند ؒ اور آپ جیسے دیگر بزرگان نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ عبادت جو سنت کے موافق ہے وہ رذائل نفس تصفیہ عناصر اور قرب الٰہی کے حصول کیلئے زیادہ مفید ہے۔اس لئے بدعت حسنہ سے بھی بدعت قبیحہ کی طرح بچتے ہیں کیونکہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا ہے کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ ہر نئی بات بدعت ہے اور تمام بدعتیں گمراہی ہیں پس اس حدیث کا نتیجہ یہ ہے کہ کل محدث بدعت اور ظاہر ہے کہ لا شیء من الضلالۃ بھدایۃ فلا شیء من المحدث بھدایۃ گمراہی کی کوئی چیز ہدایت نہیں ہے پس ہر نئی بات بھی ہدایت نہیں ہے ۔
8
تیجہ ،چالیسواں ،برسی
قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی وصیت میں لکھتے ہیں:
بعد مردن من رسوم دنیوی مثل دہم و بستم و چہلم و ششماہی و برسی ہیچ نکند
(مالا بد منہ ،ص161)
ترجمہ
میرے مرنے کے بعد دنیویرسمیں مثلا دسواں اور بیسواں اور چالیسواں اور ششماہی اور سالانہ برسی عرس کچھ بھی نہ کریں ۔
12 ◈
وفي جواهر الفتاوى: هل يجوز أن يقال: لولا نبينا محمد صلى الله تعالى عليه وسلم لما خلق الله آدم ؟ قال : هذا شيء يذكره الوعاظ على رءوس المنابر، يريدون به تعظيم نبينا محمد صلى الله تعالى عليه وسلم، والأولى أن يحترزوا عن مثال هذا، فإن النبي عليه الصلاة والسلام، وإن كان عظيم المنزلة والرتبة عند الله، فان لكل نبي من الأنبياء عليھ الصلاة والسلام منزلة ومرتبة، وخاصه ليست لغيره، فيكون كل نبي أصلا بنفسه.
فقہ حنفی کی ایک اور مشہور کتاب فتاویٰ قاضی خان میں ہے:
''رجل تزوج امرأة بغیر شهود فقال الرجل واطرأة خدائے راد پیغامبر را گواہ کردیم'' قالوا یکون کفرا لأنه اعتقد أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعلم الغیب وھوما کان یعلم الغیب حین کان في الأحیاء فکیف بعد الموت
مولانا عبدالحئ حنفی لکھوی لکھتے ہیں
وحضرت شیخ عبدالقادر اگرچہ از اجلہ اولیاء امت محمدیہ ہست اندو مناقب و فضائل شان لا تعدو لا تحضی اند لیکن چنین قدرت شاں کہ فریاد را از امکنہ بعیدہ بشنوندوبہ فریاد رسند ثابت نیست واعتقاد ایں کہ آنجناب ہر وقت حال مریدان کودمی و انند و ندائے شان می شوند اس عقائد شرک است
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سورہ مزمل کی تفسیر میں لکھتے ہیں
یہ شان صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے کہ جو اس کو جب او رجہاں سے یاد کرے، اللہ تعالیٰ کو اسکا علم ہوجائے۔ اور یہ بھی اسی کی شان ہے کہ وہ اس ذاکر بندے کی قوت مدرکہ میں آجائے جس کو شریعت کی خاص زبان میں دنو، تدلیٰ او رقرب و نزول کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں
فقہ حنفی اور حدیث لولاک
حنفی مذہب کی معتبر کتب میں لکھا ہے
جواہر الفتاویٰ میں سوال ہے : کیا یہ کہنا جائز ہے کہ اگر ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پیدا نہ کرتا ؟ جواب یہ دیا گیا : یہ ایسی چیز ہے جو واعظیں منبروں پر بیان کرتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنا ہوتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ایسی باتوں سے احتراز کیا جائے کیونکہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بلند مقام اور مرتبہ رکھتے تھے لیکن ہر نبی کو بھی ایک مقام اور مرتبہ حاصل تھا اور ہر نبی کے پاس کوئی نہ کوئی ایسی خصوصیت تھی جو دوسرے کسی کے پاس نہ تھی۔ لہٰذا ہر نبی کا اپنا ایک مستقل مقام ہے۔
(الفتاوي التاتار خانية:485/5)
(الفتاوي التاتار خانية:485/5)
فتاویٰ بزازیہ میں ہے:
''وقال علماء نا من قال ان ارواح المشائخ حاضرة تعلم یکفر''
یعنی ''ہمارے (حنفی ) فقہاء نے کہا ہے کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ بزرگوں کی روحیں حاضر ہوتی اور غیب جانتی ہیں، وہ کافر ہے۔''
بحوالہ فتاویٰ مولانا عبدالحئ ج2 ص34، بحوالہ فتاویٰ بزازیہ ص326 برحاشیہ فتاویٰ عالمگیری جلد 6
قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی فرماتے ہیں
آنچہ جہال می گویند یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ یا خواجہ شمس الدین پانی پتی شیئا للہ جائز نیست، شرک و کفر است
ارشاد الطالبین:ص18
فارسی نسخہ ص 29 ارشاد الطالبین
ثم اعلم أن الأنبیاء لم یعلموا المغیبات من الأشیاء إلا ما علمهم اللہ تعالیٰ أحیانا و ذکر الحنفیة تصریحا بالتکفیر باعتقاد أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعلم الغیب لمحارضة قوله تعالیٰ قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ٱلْغَيْبَ إِلَّا ٱللَّهُ'' کذا في المسامرة
''وقال علماء نا من قال ان ارواح المشائخ حاضرة تعلم یکفر''
یعنی ''ہمارے (حنفی ) فقہاء نے کہا ہے کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ بزرگوں کی روحیں حاضر ہوتی اور غیب جانتی ہیں، وہ کافر ہے۔''
بحوالہ فتاویٰ مولانا عبدالحئ ج2 ص34، بحوالہ فتاویٰ بزازیہ ص326 برحاشیہ فتاویٰ عالمگیری جلد 6
قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی فرماتے ہیں
آنچہ جہال می گویند یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ یا خواجہ شمس الدین پانی پتی شیئا للہ جائز نیست، شرک و کفر است
ارشاد الطالبین:ص18
فارسی نسخہ ص 29 ارشاد الطالبین
ثم اعلم أن الأنبیاء لم یعلموا المغیبات من الأشیاء إلا ما علمهم اللہ تعالیٰ أحیانا و ذکر الحنفیة تصریحا بالتکفیر باعتقاد أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعلم الغیب لمحارضة قوله تعالیٰ قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ٱلْغَيْبَ إِلَّا ٱللَّهُ'' کذا في المسامرة
یعنی '' معلوم ہونا چاہیے کہ انبیاء علیہم السلام غیب کی صرف انہی باتوں کو جانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً ان کو بتلا دے اور فقہائے حنفیہ نے اس عقیدے کو، کہ ''رسول اللہ ﷺ کو علم غیب تھا'' صراحة کفر قرار دیا ہے کیونکہ یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ''قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ٱلْغَيْبَ إِلَّا ٱللَّهُ'' کے معارض (مخالف) ہے۔ یہی بات (شیخ ابن الہمام نے) مسائرہ میں ذکر کی ہے
شرح فقہ اکبر ، صفحہ 182، طبع مجتبائی
فقہ حنفی کی ایک اور مشہور کتاب فتاویٰ قاضی خان میں ہے:
''رجل تزوج امرأة بغیر شهود فقال الرجل واطرأة خدائے راد پیغامبر را گواہ کردیم'' قالوا یکون کفرا لأنه اعتقد أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعلم الغیب وھوما کان یعلم الغیب حین کان في الأحیاء فکیف بعد الموت
کسی آدمی نے کسی عورت سے بغیر گواہوں کے نکاح کیا، البتہ مرد عورت نے یہ کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ او راس کے رسولؐ........ کو گواہ بناتے ہیں، فقہائے (حنفیہ)کہتے ہیں کہ ایسا کہنا کفر ہے اس لیے کہ اس کا اعتقاد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ غیب جانتے ہیں۔ حالانکہ آپؐ اپنی زندگی میں عالم الغیب نہ تھے، دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد آپؐ عالم الغیب کیوں کر ہوسکتے ہیں۔
فتاویٰ قاضی خاں برحاشیہ فتاویٰ عالمگیری، ج3 ص576، طبع بولاق 1310ھ فتاویٰ بزازیہ ص325، برحاشیہ فتاویٰ عالمگیری ص325 ج6
اور فتاویٰ بزازیہ میں ہے
وقال علماء نا من قال إن أرواح المشائخ حاضرة تعلم یکفر
یعنی ''ہمارے (حنفی ) فقہاء نے کہا ہے کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ بزرگوں کی روحیں حاضر ہوتی اور غیب جانتی ہیں، وہ کافر ہے
بحوالہ فتاویٰ مولانا عبدالحئ ج2 ص34، بحوالہ فتاویٰ بزازیہ ص326 برحاشیہ فتاویٰ عالمگیری جلد6
اور مولانا عبدالحئ حنفی لکھوی لکھتے ہیں کہ اس وظیفے سے احتراز لازم و واجب ہے، بعض فقہاء نے اس پرکفر تک کا اطلاق کیا ہے، نیز اس وظیفہ کے پڑھنے والے کے دل میں یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ وہ مردہ بزرگ عالم الغیب اور صاحب اختیار ہے او ریہ عقیدہ شرک ہے۔ ان کی اصل عبارت یہ ہے:
''ازیں چنیں وظیفہ احتراز لازم وواجب ۔ اولاً ازیں جہت کہ ایں وظیفہ متضمن شیئا للہ است و بعض فقہاء از ماہمچو لفط حکم کفر کردہ اند چنانکہ در درمختار می نویسد کذا قول شئ للہ قیل یکفر انتہیٰ۔ ثانیاً ازیں جہت کہ ایں وظیفہ متضمن است ندائے اموات را ازا مکنہ بعیدہ و شرعاً ثابت نیست کہ اولیاء راقدر تے حاصل است کہ از مکنہ بعیدہ و ندارا بشنوند۔ البتہ سماع اموات سلام زائر قبر را ثابت است بلکہ اعتقاد ایں کہ کسے غیر حق سبحانہ حاضر و ناضر و عالم خفی و جلی در ہر وقت و ہر ان است اعتقاد شرک است۔ درفتاویٰ بزازیہ می نویسد تزوج بلا شہود و قال خدائے و رسول خدا و فرشتگان را گواہ کردہ ام یکفر لأنه اعتقد أن الرسول والملك یعلمان الغیب وقال علما ء نا من قال إن أرواج المشائخ حاضرة تعلم یکفر
وقال علماء نا من قال إن أرواح المشائخ حاضرة تعلم یکفر
یعنی ''ہمارے (حنفی ) فقہاء نے کہا ہے کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ بزرگوں کی روحیں حاضر ہوتی اور غیب جانتی ہیں، وہ کافر ہے
بحوالہ فتاویٰ مولانا عبدالحئ ج2 ص34، بحوالہ فتاویٰ بزازیہ ص326 برحاشیہ فتاویٰ عالمگیری جلد6
اور مولانا عبدالحئ حنفی لکھوی لکھتے ہیں کہ اس وظیفے سے احتراز لازم و واجب ہے، بعض فقہاء نے اس پرکفر تک کا اطلاق کیا ہے، نیز اس وظیفہ کے پڑھنے والے کے دل میں یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ وہ مردہ بزرگ عالم الغیب اور صاحب اختیار ہے او ریہ عقیدہ شرک ہے۔ ان کی اصل عبارت یہ ہے:
''ازیں چنیں وظیفہ احتراز لازم وواجب ۔ اولاً ازیں جہت کہ ایں وظیفہ متضمن شیئا للہ است و بعض فقہاء از ماہمچو لفط حکم کفر کردہ اند چنانکہ در درمختار می نویسد کذا قول شئ للہ قیل یکفر انتہیٰ۔ ثانیاً ازیں جہت کہ ایں وظیفہ متضمن است ندائے اموات را ازا مکنہ بعیدہ و شرعاً ثابت نیست کہ اولیاء راقدر تے حاصل است کہ از مکنہ بعیدہ و ندارا بشنوند۔ البتہ سماع اموات سلام زائر قبر را ثابت است بلکہ اعتقاد ایں کہ کسے غیر حق سبحانہ حاضر و ناضر و عالم خفی و جلی در ہر وقت و ہر ان است اعتقاد شرک است۔ درفتاویٰ بزازیہ می نویسد تزوج بلا شہود و قال خدائے و رسول خدا و فرشتگان را گواہ کردہ ام یکفر لأنه اعتقد أن الرسول والملك یعلمان الغیب وقال علما ء نا من قال إن أرواج المشائخ حاضرة تعلم یکفر
مولانا عبدالحئ حنفی لکھوی لکھتے ہیں
وحضرت شیخ عبدالقادر اگرچہ از اجلہ اولیاء امت محمدیہ ہست اندو مناقب و فضائل شان لا تعدو لا تحضی اند لیکن چنین قدرت شاں کہ فریاد را از امکنہ بعیدہ بشنوندوبہ فریاد رسند ثابت نیست واعتقاد ایں کہ آنجناب ہر وقت حال مریدان کودمی و انند و ندائے شان می شوند اس عقائد شرک است
مجموعہ فتاویٰ مولانا عبدالحئ لکھنوی حنفی۔ ج2 ص34
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سورہ مزمل کی تفسیر میں لکھتے ہیں
یہ شان صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے کہ جو اس کو جب او رجہاں سے یاد کرے، اللہ تعالیٰ کو اسکا علم ہوجائے۔ اور یہ بھی اسی کی شان ہے کہ وہ اس ذاکر بندے کی قوت مدرکہ میں آجائے جس کو شریعت کی خاص زبان میں دنو، تدلیٰ او رقرب و نزول کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں
یں ہر دو صفت خاصہ ذات پاک او تعالیٰ است۔ ہیچ مخلوق را حاصل نیست۔ ارے بعضے کفرہ درحق بعضے از معبودان خود و بعضے پیر پرستان از زمرہ مسلمین در حق پیران خود امر اول راثابت می کنندو دروقت احتیاج بہ ہمیں اعتقاد بآنہا استعانت می نمایند
اور یہ دونوں صفتیں اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا خاصہ ہیں، یہ کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہیں۔ ہاں بعضے کفار اپنے بعض معبودوں اور دیوتاؤں کے بارے میں اور مسلمانوں میں سے بعض پیر پرست اپنے پیروں کے بارے میں ان میں سے پہلی چیز ثابت کرتے ہیں او رپنی حاجتوں کے وقت اسی اعتقاد کی بنا پر ان سے مدد چاہتے ہیں اور مدد کے لیے ان کو پکارتے ہیں
تفسیر عزیزی۔ پارہ تبارک الذی۔ سورہ مزمل۔ صفحہ 181
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اپنے فتاویٰ میں ایک سوال کے جواب میں ہندوستان کے ہندؤوں کے شرک کا حال بیان کرکے آخر میں فرماتے ہیں:
و ہمیں است حال فرقہ ہائے بسیار از مسلمیں مثل تعزیہ سازان و مجاوران قبور و جلالیان و مداریان
یہی حال ہے بہت سے مسلمان فرقوں کا مثلاً تعزیہ بنانے والوں، قبروں کے مجاوروں اور جلالیوں مداریوں کا۔
فتاویٰ عزیزی۔ ج1 ص134، طبع مجتبائی دہلی
اور یہ دونوں صفتیں اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا خاصہ ہیں، یہ کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہیں۔ ہاں بعضے کفار اپنے بعض معبودوں اور دیوتاؤں کے بارے میں اور مسلمانوں میں سے بعض پیر پرست اپنے پیروں کے بارے میں ان میں سے پہلی چیز ثابت کرتے ہیں او رپنی حاجتوں کے وقت اسی اعتقاد کی بنا پر ان سے مدد چاہتے ہیں اور مدد کے لیے ان کو پکارتے ہیں
تفسیر عزیزی۔ پارہ تبارک الذی۔ سورہ مزمل۔ صفحہ 181
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اپنے فتاویٰ میں ایک سوال کے جواب میں ہندوستان کے ہندؤوں کے شرک کا حال بیان کرکے آخر میں فرماتے ہیں:
و ہمیں است حال فرقہ ہائے بسیار از مسلمیں مثل تعزیہ سازان و مجاوران قبور و جلالیان و مداریان
یہی حال ہے بہت سے مسلمان فرقوں کا مثلاً تعزیہ بنانے والوں، قبروں کے مجاوروں اور جلالیوں مداریوں کا۔
فتاویٰ عزیزی۔ ج1 ص134، طبع مجتبائی دہلی
No comments:
Post a Comment