آذان سے پہلے الصلاۃ والسلام
مثال کے طور پر
ایک مفتی صاحب (بکر ) نے ایک مرتبہ موذن بھائی ( زید) سے پوچھا کہ آپ آذان سے پہلے الصلاۃوالسلام علیک یارسول اللہ تو پڑھتے ہو تو آذان کہ آخر میں محمد رسول اللہ کیوں نہیں پڑھتے تو موذن بھائی نے جواب دیا کہ یہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے تو ہم اپنے آپ سے کیسے پڑھیں مفتی صاحب نے فرمایا کہ آذان کہ آخر میں جب محمد رسول اللہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں تو آپ پھر کیسے آذان سے پہلے الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ پڑھتے ہو کیا آپکا مرتبہ نعوذ باللہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے بھی بالا تر ہے کیا کیا آپ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ عاشق ہو اللہ تعالیٰ علماء حق کی مدد و نصرت اور ہر قسم کے اندرون و بیرون ملک غیر ملکی سازشوں سے اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین
بدقسمتی سے ہمارے درمیان ایک ایسا جاہل طبقہ بھی موجود ہے جو دعویٰ تو عشق رسول ﷺ کا کرکے دوسروں پر خوب گستاخِ رسول ﷺ کا فتویٰ لگاتا ہے۔جو اذان سے پہلے اور بعد میں درود و سلام نہیں پڑھتا اس پر یہ گستاخ اور منکرِ درود کا فتویٰ ٹھوک دیتا ہے۔
بلاشبہ جس طرح ذکر اور دُعا عبادت ہے۔اسی طرح درود شریف بھی ایک عمدہ ترین عبادت اور تقربِ خداوندی کا بہترین ذریعہ ہے۔احادیث شریف میں درود شریف کی جو شان اور درجہ بیان ہوا ہے وہ احصاء و شمار سے باہر ہے۔چناچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ:"جس نے مجھ پر ایک دفعہ درود شریف پڑھا تو اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں اس پر نازل ہوتی ہیں۔"(مسلم ج1ص175)اور ایک حدیث میں دس گناہ معاف ہونے کا بھی ذکر آیا ہے۔اسی طرح ایک حدیث شریف میں اس طرح آتا ہے کہ:"جو قوم اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے بیٹھی ہو اور اس نے آنحضرت ﷺ پر درود نہ پڑھا ہو تو وہ مجلس اس کے لئے باعثِ وبال ہوگی۔(مستدرک ج1ص550،صحیح و مشکوٰۃ ج1ص198)۔مزید فضائل کے لئے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی کتاب فضائلِ درود شریف کو ضرور پڑھیں۔
رہا اذان سے پہلے اور بعد میں بلند آواز درود و سلام پڑھنا تو یہ ایک بیّن حقیقت ہے کہ یہ رواج نہ تو نبی ﷺ کے عہدِ مبارک میں تھا نہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین،نہ خیر القرون،نہ ائمہ اربعہؒ میں سے کسی بزرگ نے یہ کاروائی کی اور نہ اس کا فتویٰ دیا،بلکہ سات سو نوے ہجری تک کسی بھی مقام پر یہ بدعت رائج نہ تھی۔اس بدعت کی ابتداء مصر میں 791ھ میں ہوئی اور اس وقت وہاں رافضیوں کی حکومت تھی۔چناچہ تاریخ الخلفاء سیوطیؒ ص498،دُرمختار ج1ص64 میں اس کی تصریح ہے کہ اس کی ایجاد 791ھ میں ہوئی۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ نفس درود شریف اور ذکر ایک بہترین عبادت ہے۔لیکن مطلق احکام میں قیود لگانا اپنی رائے کو دخل دینا ہے۔چناچہ علامہ ابو اسحاق الشاطبیؒ ایک خاص مقام پر لکھتے ہیں کہ:"ان مطلق احکام میں قید لگانا جن میں شریعت کی طرف سے کوئی قید لگانا ثابت نہ ہو۔شریعت میں اپنی رائے کو دخل دینا ہے۔پھر اسکا کیا اعتبار ہوسکتا ہے۔جبکہ اسکے مقابلہ میں دلیل موجود ہو۔مثلاً نفلوں کو مخفی کرکے ادا کرنا۔(الاعتصام ج1ص284 طبع مصر)
مجالس الابرار میں صاف لکھا ہے کہ اہل بدعت نے صرف اذان میں راگ ہی پر اکتفاء نہیں کیا:"بلکہ اسکے بعد آنحضرت ﷺ پر صلوٰۃ وسلام بھیجنے کے بعض کلمات بھی اضافہ کئے ہیں۔اگرچہ درود شریف قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور بڑی عمدہ عبادات میں سے ہے لیکن منارہ پر اذان کے بعد اسکے پڑھنے کی عادت اختیار کرلینا مشروع نہیں کیونکہ صحابہ کرام اور تابعین اور ائمہ دینؒ میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ عبادات کو ایسے مقامات پر ادا کرے جہاں شریعت نے نہیں بتایا اور جس پر سلف صالحینؒ نے عمل نہیں کیا۔(مجالس الابرار ص307 طبع کانپور)اور علامہ ابن امیر الحاجؒ فرماتے ہیں کہ
"ا(ہل بدعت نے) آنحضرت ﷺ پر چار مقامات پر صلوٰۃ پڑھنے کی بدعت ایجاد کی ہے جسکا وجود سلف صالحینؒ کے زمانہ میں نہ تھا اور خیر تو ان کی پیروی ہی میں ہے حالانکہ یہ بدعت تھوڑا ہی زمانہ گزرا ہے کہ ایجاد ہوئی ہے۔ان مقامات میں سے ایک طلوع فجر کے وقت روزانہ اور دوسرا جمعہ کی رات کو عشاء کی اذان کے بعد درود پڑھنا ہے۔(المدخل ج2ص249) اور شاہ عبد العزیز صاحبؒ لکھتے ہںا کہ:"جن پر صاحبِ شرع سے ترغب اور وقت کی تعین موجود نہ ہو وہ فعل عبث اور آنحضرت ﷺ کی سنت کے خلاف ہے،اور جو چیز آنحضرت ﷺ کی سنت کی مخالف ہو وہ حرام ہے،پس ہرگز وہ جائز نہں ۔(فتاوٰی عزیزی جلد1 صفحہ 94)ان دلائل و برائن سے یہ بات واضح تر ہوگئی ہے کہ اذان کے بعد درود و سلام پڑھنا،تدفن کے وقت اذان دینا اور نمازِ جنازہ کے بعد دعا مانگنا عین سنت کی مخالفت ہے۔
No comments:
Post a Comment