Thursday, 26 November 2020

مقالات صدی فيالتحقیق الرسائل

 مقالات صدی فيالتحقیق الرسائل 

الحمد للہ رب العالمین و الصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الأمین، أما بعد:


1
 
  علامہ شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں     ◈   

فاعلمو أن البدعة لا يقبل معهاعبادة من صلاة ولا صيام و لا صدقة ولا غيرها من القربات ومجالس صاحبها تنزع منه العصمة و يوكل إلي نفسه، والماشي إلي و موقوة معين على هدم الإسلام، فما الظن بصاحبها، وهو ملعون على لسان الشريعة، ويزداد من الله بعبادته بعدا، وهى المظنة إلقاء العداوة و البغضاء، ومانعة، من الشفاعة المحمدية، ورافعة للسنن التى تقابلها، وعلي مبتدعها إثم من عمل بها، وليس له توبة، وتلقي عليه الذلة والغضب من الله، ويبعد عن حوض رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويخاف عليه أن يكون معدودا فى الكفار الخار جين عن الملة، وسوء الخاتمة عند الخروج من الدنيا، ويسود وجهه فى الآخرة، يعذب بنار جهنم، وقد تبرأ منه رسول الله صلى الله عليه وسلم، و تبراٗمنه المسلمون، ويخاف عليه الفتنة فى الدنيا زياده إلي عذاب الآخرة  

  جان لو کہ بدعت کے ہوتے ہوئے نماز، روزہ اور صدقہ وغیرہ کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ بدعتی کی مجالس سے عصمت چھین لی جاتی ہے، وہ اپنے نفس کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ بدعت کی طرف چلنے والا اور اس کی توقیر کرنے والا اسلام کو منہدم کرنے پر تعاون کرنے والا ہے۔ اب بدعتی کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ وہ تو شریعت کی زبانی ملعون ہے، وہ اپنی عبادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے دور ہی ہوتا ہے۔ بدعت دشمنی و بغاوت ڈالنے کا سبب، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کو روکنے والی اور اپنے مقابلے میں آنے والی سنتوں کو ختم کرنے والی ہوتی ہے۔ اس کو ایجاد کرنے والے پر ان تمام لوگوں کا گناہ ہو گا، جو اس پر عمل کریں گے۔ اس کے لیے کوئی توبہ نہیں ہو گی۔ اس پر ذلت اور اللہ تعالیٰ کا غضب ڈال دیا جائے گا، وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض سے دور کر دیا جائے گا، اس کے بارے میں ڈر ہے کہ وہ اسلام سے خارج کفار میں شمار ہو جائے اور دنیا سے جاتے ہوئے سوئے خاتمہ کا شکار ہو جائے۔ آخرت میں اس کا چہرہ سیاہ ہو جائے گا اور اسے جنہم کا عذاب دیا جائے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیزاری کا اعلان کر دیا ہے، مسلمان بھی اس سے بری ہیں۔ ڈر ہے کہ آخرت کے عذاب کے ساتھ ساتھ اسے دنیا میں بھی کوئی بڑا فتنہ آن لے۔“ [الاعتصام للمشاطبي : 107-106/ 1]


ملاعلی قاری الحنفیؒ: مشکوۃ شریف کی پہلی حدیث انما الاعمال بانّیّات کی شرح میں یہ نقل کرتے ہیں:
"کہ متابعت جیسے فعل میں ہوتی ہے اسی طرح ترک میں بھی متابعت ہوتی ہے۔سو جس نے کسی کام پر مواظبت کی جو شارع نے نہیں کیا تو وہ بدعتی ہے۔(مرقات ج1 ص41)
 

اسی طرح حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بےشک اللہ تعالی کو اپنی رخصتوں پر بندوں کا عمل کرنا اتنا ہی پسند ہے جتنا کہ بندوں کا اسکی نافرمانی کرنا ناپسند ہے۔ (مسند أحمد 2/108) 
 
◈ 2
 
فقیہ الامت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إن أحسن الحديث كتاب الله، وأحسن الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم، وشر الأمور محدثاتها، وإن الشقي من شقي فى بطن امه، وإن السيعد من وعظ بغيره، فاتبعوا ولاتبتدعوا .
”بلاشبہ بہترین بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، بدترین کام بدعت کے کام ہیں۔ بدبخت وہی ہے، جو اپنے ماں کے پیٹ میں بدبخت ہو گیا تھا (تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا) اور نیک بخت وہ ہے، جو اپنے غیر کے ساتھ نصیحت کیا جائے، لہٰذا تم اتباع کرو، بدعت ایجاد نہ کرو۔“ [الاعتقاد للبيهقي : 306، وسندہ صحيح] 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، وعضوا عليها بالنواجذ، وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وإن كل بدعة ضلالة ”میری سنت اور میرے بعد خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اسے مضبوطی سے تھامنا اور بدعات سے بچنا۔۔۔۔“ ( مسند الامام احمد ۱۲۶/۴ : ۱۲۷، سنن ابی داؤد : ۴۶۰۷، سنن الترمذی : ۲۶۷۶، وقال : حسن صحیح، سنن ابن ماجه : ۴۲، و صححه ابن حبان : ۵) 

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۷۷۳۔ ۸۵۲ھ ) مشرکین مکہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
 كفار قريش يستبعدون كون محمد صلي الله عليه وسلم رسولا من الله لكونه بشرا من البشر
’’کفار قریش، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہونے کو اس لیے محال سمجھتے تھےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنس بشر میں سے ایک بشر تھے۔‘‘ (فتح الباري لابن حجر: 191/10)

 خافظ ابن حزم اندلسی (متوفی ۴۵۶؁ھ ) لکھتے ہیں : 
وأما الوضع فی الحدیث فباقٍ مادام إبلیس و أتباعہ فی الأرض  

  اس وقت تک وضعِ حدیث (کا فتنہ) باقی رہے گا جب تک ابلیس اور اس کے پیروکار روئے زمین پر موجود ہیں ۔  
 (المحلیٰ ۱۳/۹ مسألۃ: ۱۵۱۴)


3◈
   
        حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ ”کرم اللہ وجہہ“ کہنے کی وجہ


حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ ”کرم اللہ وجہہ“ کہنے کی وجہ علماء نے یہ تحریر فرمائی ہے کہ خوارج اپنی خباثت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سود اللہ وجہہ سے یاد کرتے تھے،اسی واسطے اہل سنت نے کرم اللہ وجہہ مقرر کیا (فتاوی رشیدیہ: ۱۰۹) علامہ سخاوی نے فتح المغیث میں ایک دوسری وجہ لکھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کبھی بت کو سجدہ نہیں کیا اس لیے ان کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجہہ لکھتے ہیں: وفی ”تاریخ إربل“ لابن المستوفی عن بعضہم أنہ کان یسأل عن تخصیصہم علیا ب " کرم اللہ وجہہ " فرأی فی المنام من قال لہ: لأنہ لم یسجد لصنم قط․ (فتح المغیث: ۲/۱۶۴ بحوالہ الیواقیت الغالیہ: ۲/ ۲۴۴)لیکن یہ توجیہ بظاہر ضعیف ہے؛ اس لیے کہ بہت سے صحابہ جیسے حضراتِ حسنین، ابن زبیر، نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم ہیں جنھوں نے اصنام کو سجدہ نہیں کیا؛ لہٰذا ان کے لیے بھی ”کرم اللہ وجہہ“ استعمال کرنا چاہیے، اقرب حضرت گنگوہی کی توجیہ معلوم ہوتی ہے، لیکن مجھے متقدمین میں سے کسی کے کلام میں یاد نہیں۔ (الیواقیت الغالیہ: ۲/ ۳۴۴)


علی کی ساری زندگی منافقت کی موت تھی                     
سمجھ میں جسکے آگیا علی کا طرز زندگی                     
  کرم الله وجھ الکریم                                  
4◈
آئمہ کو انبیاء سے افضل کہنے والا کافر ہے
وکذلك نقطع بتکفیر غلاة الرافضة في قولھم ان الائمة افضل من الانبیاء ھذا کفر صریح
کتاب شرح الشفا للقاضي عياض - الامام علي القاري - جلد ٢ - الصفحہ ٥٢٢

ترجمہ
  اور اسی طرح ہم یقینی کافر جانتے ہیں ان غالی رافضیوں کو 
جو ائمہ کو انبیاء سے افضل بتاتے ہیں یہ کھلا کفر ہے

 .......
النبی افضل من الولی وھوا مر مقطوع به والقائل بخلافه کافر لانه معلوم من الشرح بضرارة
کتاب إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري - الخطيب القسطلاني - جلد ١ - الصفحہ ٢١٤


  ترجمہ

نبی ولی سے افضل ہے اور یہ امر یقینی ہے اور اس کے 
خلاف کہنے والا کافر ہے کہ یہ ضروریات دین سے ہے



اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
لوگوں نے ۔۔ اماموں ۔۔ کا رتبہ نبی سے کیا الله تعالی سے بڑھا دیا ہے۔
امام کو وہ مقام محمود اور وہ بلند درجہ اور ایسی تکوینی حکومت حاصل ہوتی ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم و اقتدار کے سامنے سرنگوں وتابع فرمان ہوتا ہے۔ خمینی الحکومۃ اسلامیہ ص ۹۱امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد کہ تمام فرشتوں اور تمام پیغمبروں نے میرے لئے اسی طرح اقرار کیا جس طرح محمدﷺ کے لئے کیا تھا اور میں لوگوں کو جنت او ردوزخ میں بھیجنے والا ہوں ۔ اصو ل کافی ص ۱۱۷
ائمہ پر بھی بندوں کی دن رات کے اعمال پیش ہوتے ہیں ۔
اصول کافی ص ۱۴۲

ائمہ اپنی موت کا وقت بھی جانتے ہیں اور ان کی موت ان کے اختیار میں ہوتی ہے ۔
اصول کافی ص ۱۵۹

ائمہ دنیا اور آخرت کے مالک ہیں وہ جس کو چاہیں دے دیں اور بخش دیں ۔

اصول کافی ۲۵۹

امام کے بغیر یہ دنیا قائم نہیں رہ سکتی

اصول کافی ص ۱۰۴

ائمہ کو اختیار ہے جس چیز کو چاہیں حلال یا حرام قرار دیں ۔

صول کافی ص ۲۷۸

ائمہ کو ماکان وما یکون کا علم حاصل تھا

اصول کافی ص ۱۶۰

امام کو ماضی اور مستقبل کا پورا پورا علم ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی چیز امام سے مخفی نہیں ہوتی

اصول کافی ص ۱۴۰
 
5◈

  شیخین رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں گستاخی        
  

جو شخص حضرات شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں گستاخی کرے وہ کافر ہے
وکل مسلم ارتد فتوبته مقبولة الا الکافر بسب نبي (او) الکافر بسب (الشیخین او) بسب (احدھما) فی البحر عن الجوھرة معزیا للشھید من سب الشیخین او طعن فیھما کفر ولا تقبل توبته، وبه اخذ الدبوسي وابو اللیث، وھو المختار للفتوی انتھی وجزم به في الا شباہ واقرہ المصنف
کتاب الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار - الحنفي الحصكفي - صفحہ ٣٤٦،٣٤٥

ترجمہ
 ہر مرتد کی توبہ قبول ہے مگر وہ جو کسی نبی یا حضرات شیخین رضی اللہ تعالی عنہ یا ان میں ایک کی شان میں گستاخی سے کافر ہوا

یعنی بحر الرائق میں بحوالہ جوہرہ نیرہ شرح مختصر قدوری امام صدر شھید سے منقول ہے جو شخص حضرات شیخین رضی اللہ تعالی عنہ کو برا کہے یا ان پر طعن کرے وہ کافر ہے اس کی توبہ قبول نہیں اور اسی پر امام دبوسی و امام فقیہ ابو اللیث ثمر قندی نے فتوی دیا اور یہی قول فتوی کے لیے مختار ہے اسی پر اشباہ میں جزم کیا اور علامہ الشیخ الاسلام محمد بن عبدللہ غزی تمر تاشی نے اسے بر قرار رکھا

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کا قذف کفر خالص ہے صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی صحابیت کا انکار کفر خالص ہے
اگر کسی نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا پر تہمت زنا لگائی تو اس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا"

کتاب فتوی رضویہ -  مولوی احمد رضا بریلوی  - جلد ١٤ - صفحہ ٢٤٦،٢٤٥


صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دشمن دنیا کے کسی بھی کونے میں چھپ جائیں یا ظاہر رہیں ہمیشہ ان پر رب کی پھٹکار(لعنت) برستی رہے گی ان شاءاللہ ۔۔۔۔

امام ابو عبداﷲ شمس الدین الذہبی ؒ (المتوفی748ھ) فرماتے ہیں کہ 
فن کفرہما والعیاذ بااﷲ تعالیٰ جاز علےہ التکفیر واللعنة 
''اگر حضرات شیخین ؓ کی کوئی تکفیر کرے العیاذ باﷲ تعالیٰ تو اس کی تکفیر اوراس پر لعنت جائز ہے۔'
(تذکرة الحفاظ ج2ص304)  
6◈ 

  مسئلہ افضلیت                              


امام علی بن مدینی بصری علیہ الرحمتہ (متوفی٢٣٤ھ) فرماتے ہیں 





  خیر ھذہ الامتہ بعد نبیھا ابوبکر الصدیق ثم عمر ثم عثمان بن عفان نقدم ھؤلاء الثلاثہ کما قدمھم اصحاب رسول اللہﷺ ولم یختلفوا فی ذالک



شرح اصول اعتقاد اہل السنتہ والجماعتہ


المجلد الاول صفحہ ١٧٨ رقم٣١٨
  
 

 7◈

 آذان سے پہلے الصلاۃ والسلام                    

 مثال کے طور پر 

ایک مفتی صاحب (بکر ) نے ایک مرتبہ موذن بھائی ( زید) سے پوچھا کہ آپ آذان سے پہلے الصلاۃوالسلام علیک یارسول اللہ تو پڑھتے ہو تو آذان کہ آخر میں محمد رسول اللہ کیوں نہیں پڑھتے تو موذن بھائی نے جواب دیا کہ یہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے تو ہم اپنے آپ سے کیسے پڑھیں مفتی صاحب نے فرمایا کہ آذان کہ آخر میں جب محمد رسول اللہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں تو آپ پھر کیسے آذان سے پہلے الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ پڑھتے ہو کیا آپکا مرتبہ نعوذ باللہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے بھی بالا تر ہے کیا کیا آپ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ عاشق ہو اللہ تعالیٰ علماء حق کی مدد و نصرت اور ہر قسم کے اندرون و بیرون ملک غیر ملکی سازشوں سے اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین

بدقسمتی سے ہمارے درمیان ایک ایسا جاہل طبقہ بھی موجود ہے جو دعویٰ تو عشق رسول ﷺ کا کرکے دوسروں پر خوب گستاخِ رسول ﷺ کا فتویٰ لگاتا ہے۔جو اذان سے پہلے اور بعد میں درود و سلام نہیں پڑھتا اس پر یہ گستاخ اور منکرِ درود کا فتویٰ ٹھوک دیتا ہے۔
بلاشبہ جس طرح ذکر اور دُعا عبادت ہے۔اسی طرح درود شریف بھی ایک عمدہ ترین عبادت اور تقربِ خداوندی کا بہترین ذریعہ ہے۔احادیث شریف میں درود شریف کی جو شان اور درجہ بیان ہوا ہے وہ احصاء و شمار سے باہر ہے۔چناچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ:"جس نے مجھ پر ایک دفعہ درود شریف پڑھا تو اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں اس پر نازل ہوتی ہیں۔"(مسلم ج1ص175)اور ایک حدیث میں دس گناہ معاف ہونے کا بھی ذکر آیا ہے۔اسی طرح ایک حدیث شریف میں اس طرح آتا ہے کہ:"جو قوم اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے بیٹھی ہو اور اس نے آنحضرت ﷺ پر درود نہ پڑھا ہو تو وہ مجلس اس کے لئے باعثِ وبال ہوگی۔(مستدرک ج1ص550،صحیح و مشکوٰۃ ج1ص198)۔مزید فضائل کے لئے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی کتاب فضائلِ درود شریف کو ضرور پڑھیں۔
رہا اذان سے پہلے اور بعد میں بلند آواز درود و سلام پڑھنا تو یہ ایک بیّن حقیقت ہے کہ یہ رواج نہ تو نبی ﷺ کے عہدِ مبارک میں تھا نہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین،نہ خیر القرون،نہ ائمہ اربعہؒ میں سے کسی بزرگ نے یہ کاروائی کی اور نہ اس کا فتویٰ دیا،بلکہ سات سو نوے ہجری تک کسی بھی مقام پر یہ بدعت رائج نہ تھی۔اس بدعت کی ابتداء مصر میں 791ھ میں ہوئی اور اس وقت وہاں رافضیوں کی حکومت تھی۔چناچہ تاریخ الخلفاء سیوطیؒ ص498،دُرمختار ج1ص64 میں اس کی تصریح ہے کہ اس کی ایجاد 791ھ میں ہوئی۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ نفس درود شریف اور ذکر ایک بہترین عبادت ہے۔لیکن مطلق احکام میں قیود لگانا اپنی رائے کو دخل دینا ہے۔چناچہ علامہ ابو اسحاق الشاطبیؒ ایک خاص مقام پر لکھتے ہیں کہ:"ان مطلق احکام میں قید لگانا جن میں شریعت کی طرف سے کوئی قید لگانا ثابت نہ ہو۔شریعت میں اپنی رائے کو دخل دینا ہے۔پھر اسکا کیا اعتبار ہوسکتا ہے۔جبکہ اسکے مقابلہ میں دلیل موجود ہو۔مثلاً نفلوں کو مخفی کرکے ادا کرنا۔(الاعتصام ج1ص284 طبع مصر)
مجالس الابرار میں صاف لکھا ہے کہ اہل بدعت نے صرف اذان میں راگ ہی پر اکتفاء نہیں کیا:"بلکہ اسکے بعد آنحضرت ﷺ پر صلوٰۃ وسلام بھیجنے کے بعض کلمات بھی اضافہ کئے ہیں۔اگرچہ درود شریف قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور بڑی عمدہ عبادات میں سے ہے لیکن منارہ پر اذان کے بعد اسکے پڑھنے کی عادت اختیار کرلینا مشروع نہیں کیونکہ صحابہ کرام اور تابعین اور ائمہ دینؒ میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ عبادات کو ایسے مقامات پر ادا کرے جہاں شریعت نے نہیں بتایا اور جس پر سلف صالحینؒ نے عمل نہیں کیا۔(مجالس الابرار ص307 طبع کانپور)اور علامہ ابن امیر الحاجؒ فرماتے ہیں کہ

"ا(ہل بدعت نے) آنحضرت ﷺ پر چار مقامات پر صلوٰۃ پڑھنے کی بدعت ایجاد کی ہے جسکا وجود سلف صالحینؒ کے زمانہ میں نہ تھا اور خیر تو ان کی پیروی ہی میں ہے حالانکہ یہ بدعت تھوڑا ہی زمانہ گزرا ہے کہ ایجاد ہوئی ہے۔ان مقامات میں سے ایک طلوع فجر کے وقت روزانہ اور دوسرا جمعہ کی رات کو عشاء کی اذان کے بعد درود پڑھنا ہے۔(المدخل ج2ص249) اور شاہ عبد العزیز صاحبؒ لکھتے ہںا کہ:"جن پر صاحبِ شرع سے ترغب اور وقت کی تعین موجود نہ ہو وہ فعل عبث اور آنحضرت ﷺ کی سنت کے خلاف ہے،اور جو چیز آنحضرت ﷺ کی سنت کی مخالف ہو وہ حرام ہے،پس ہرگز وہ جائز نہں ۔(فتاوٰی عزیزی جلد1 صفحہ 94)ان دلائل و برائن سے یہ بات واضح تر ہوگئی ہے کہ اذان کے بعد درود و سلام پڑھنا،تدفن کے وقت اذان دینا اور نمازِ جنازہ کے بعد دعا مانگنا عین سنت کی مخالفت ہے۔


علم حدیث آخر زمانہ کے مطلق حضور سیدنا رسول الله ص کے فرمان مبارک




حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ وَالْقَاسِمُ بْنُ زَکَرِيَّائَ قَالَا حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ شَيْبَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ وَأَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ النُّعْمَانُ بْنُ قَوْقَلٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِمِثْلِهِ وَزَادَا فِيهِ وَلَمْ أَزِدْ عَلَی ذَلِکَ شَيْئًا
جابر سے روایت ہے کہ نعمان بن قوقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باقی روایت اسی طرح ہے جو اوپر گزری ہے اس میں صرف اتنا زیادہ ہے کہ اس پر میں کچھ بھی زیادہ نہیں کروں گا۔
ایمان کا بیان صحیح مسلم 17 

 حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو کُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي کُرَيْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النُّعْمَانُ بْنُ قَوْقَلٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِذَا صَلَّيْتُ الْمَکْتُوبَةَ وَحَرَّمْتُ الْحَرَامَ وَأَحْلَلْتُ الْحَلَالَ أَأَدْخُلُ الْجَنَّةَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نعمان بن قوقل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے پس عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں فرض نماز پڑھتا رہوں اور حرام کو حرام سمجھتے ہوئے اس سے بچتا رہوں اور حلال کو حلال سمجھوں تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رائے میں میں جنت میں داخل ہو جاؤں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہاں۔
16
ایمان کا بیان
صحیح مسلم

وَحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ
عبیداللہ بن معاذ بن عنبری اور عبد الرحمن بن مہدی دونوں نے کہا: ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے خبیب بن عبد الرحمن سے، انہوں نے حفص بن عاصم سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے۔‘‘

مقدمہ صحیح مسلم ہر سنی سنائی بات بیان کرنے کی ممانعت 

وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُودٍ، قَالَ: مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِيثًا لَا تَبْلُغُهُ عُقُولُهُمْ، إِلَّا كَانَ لِبَعْضِهِمْ فِتْنَةً
ضرت عبد اللہ بن مسعود رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: تم کسی قوم کے سامنے ایسی حدیث بیان نہیں کرتے جس ( کے صحیح 
مفہوم ) تک ان کی عقلیں نہیں پہنچ سکتیں مگر وہ ان میں سے بعض کے لیے فتنے ( کا موجب ) بن جاتی ہیں
مقدمہ صحیح مسلم
 ہر سنی سنائی بات بیان کرنے کی ممانعت
 وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «سَيَكُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِي أُنَاسٌ 

يُحَدِّثُونَكُمْ مَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ
ابوہریرہ رضی ‌اللہ ‌عنہ سے، انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: ’’میری امت کے آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو تمہارے سامنے ایسی حدیثیں بیان کریں گے جو تم نے سنی ہوں گی نہ تمہارے آباء نے، تم اس قماش کے لوگوں سے دور رہنا
مقدمہ صحیح مسلم
باب؛ ضعیف راویوں سے روایت کی ممانعت اور روایت کی (حفاظت اور بیان کی) ذمہ داری اٹھاتے ہوئے احتیاط
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ التُّجِيبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو شُرَيْحٍ أَنَّهُ سَمِعَ شَرَاحِيلَ بْنَ يَزِيدَ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي مُسْلِمُ بْنُ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، يَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِيثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ، لَا يُضِلُّونَكُمْ، وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ
۔ حرملہ بن یحییٰ‘عبد اللہ بن حرملہ بن عمران تجیبی‘ابن وہب‘ شراحیل بن یزید کہتے ہیں: مجھے مسلم بن یسار نے بتایا کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ کہتے ہوئے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ’’آخری زمانے میں ( ایسے ) دجال ( فریب کار ) کذاب ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی احادیث لائیں گے جو تم نے سنی ہوں گی نہ تمہارے آباء نے۔ تم ان سے دور رہنا ( کہیں ) وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔‘‘
مقدمہ صحیح مسلم
باب؛ ضعیف راویوں سے روایت کی ممانعت اور روایت کی (حفاظت اور بیان کی) ذمہ داری اٹھاتے ہوئے احتیاط
وحَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللهِ: إِنَّ الشَّيْطَانَ لِيَتَمَثَّلُ فِي صُورَةِ الرَّجُلِ، فَيَأْتِي الْقَوْمَ، فَيُحَدِّثُهُمْ بِالْحَدِيثِ مِنَ الْكَذِبِ، فَيَتَفَرَّقُونَ، فَيَقُولُ الرَّجُلُ مِنْهُمْ: سَمِعْتُ رَجُلًا أَعْرِفُ وَجْهَهُ، وَلَا أَدْرِي مَا اسْمُهُ يُحَدِّثُ
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: بلاشبہ شیطان کسی آدمی کی شکل اختیار کرتا ہے، پھر لوگوں کے پاس آتا ہے اور انہیں جھوٹ ( پر مبنی ) کوئی حدیث سناتا ہے، پھر وہ بکھر جاتے ہیں، ان میں سے کوئی آدمی کہتا ہے: میں نے ایک آدمی سے ( حدیث ) سنی ہے، میں اس کا چہرہ تو پہنچانتا ہوں پر اس کا نام نہیں جانتا، وہ حدیث سنا رہا تھا

مقدمہ صحیح مسلم

باب؛ ضعیف راویوں سے روایت کی ممانعت اور روایت کی (حفاظت اور بیان کی) ذمہ داری اٹھاتے ہوئے احتیاط



حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَسْأَلُهُ أَنْ يَكْتُبَ لِي كِتَابًا، وَيُخْفِي عَنِّي، فَقَالَ: «وَلَدٌ نَاصِحٌ أَنَا أَخْتَارُ لَهُ الْأُمُورَ اخْتِيَارًا، وَأُخْفِي عَنْهُ»، قَالَ: فَدَعَا بِقَضَاءِ عَلِيٍّ، فَجَعَلَ يَكْتُبُ مِنْهُ أَشْيَاءَ، وَيَمُرُّ بِهِ الشَّيْءُ، فَيَقُولُ: «وَاللهِ مَا قَضَى بِهَذَا عَلِيٌّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ ضَلَّ 


ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، کہا: میں نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی طرف لکھا اور ان سے درخواست کی کہ وہ میرے لیے ایک کتاب لکھیں اور ( جن باتوں کی صحت میں مقال ہو یا جو نہ لکھنے کی ہوں وہ ) باتیں مجھ سے چھپا لیں۔ انہوں نے فرمایا: لڑکا خالص احادیث کا طلبگار ہے، میں اس کے لیے ( حدیث سے متعلق ) تمام معاملات میں ( صحیح کا ) انتخاب کروں گا اور ( موضوع اور گھڑی ہوئی احادیث کو ) ہٹا دوں گا ( کہا: انہوں نے حضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ کے فیصلے منگوائے ) اور ان میں سے چیزیں لکھنی شروع کیں اور ( یہ ہوا کہ ) کوئی چیز گزرتی تو فرماتے: بخدا! یہ فیصلہ حضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نہیں کیا، سوائے اس کے کہ ( خدانخواستہ ) وہ گمراہ ہو گئے ہوں ( جب کہ ایسا نہیں ہوا۔ ) 

مقدمہ صحیح مسلم22
ضعیف راویوں سے روایت کی ممانعت اور روایت کی (حفاظت اور بیان کی) ذمہ داری اٹھاتے ہوئے احتیاط  

حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: «أُتِيَ ابْنُ عَبَّاسٍ بِكِتَابٍ فِيهِ قَضَاءُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَمَحَاهُ إِلَّا قَدْرَ»، وَأَشَارَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ بِذِرَاعِهِ

حضرت ابن عباس رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس ایک کتاب لائی گئی جس میں حضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ کے فیصلے ( لکھے ہوئے ) تھے تو انہوں نے اس قدر چھوڑ کر باقی ( سب کچھ ) مٹا دیا اور سفیان بن عیینہ نے ہاتھ ( جتنی لمبائی ) کا اشارہ کیا

مقدمہ صحیح مسلم23


حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: لَمَّا أَحْدَثُوا تِلْكَ الْأَشْيَاءَ بَعْدَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ: قَاتَلَهُمُ اللهُ، أَيَّ عِلْمٍ أَفْسَدُوا

بو اسحاق سے روایت ہے، کہا: جب ( بظاہر حضرت علی کا نام لینے والے ) لوگوں نے حضرت علی رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بعد ( ان کے نام پر ) یہ چیزیں ایجاد کر لیں تو ان کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے کہا: اللہ ان ( لوگوں ) کو قتل کرے! انہوں 
نے کیسا ( عظیم الشان ) علم بگاڑ دیا
24مقدمہ صحیح مسلم


حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: لَمْ يَكُونُوا يَسْأَلُونَ عَنِ الْإِسْنَادِ، فَلَمَّا وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ، قَالُوا: سَمُّوا لَنَا رِجَالَكُمْ، فَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ السُّنَّةِ فَيُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ، وَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ الْبِدَعِ فَلَا يُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ

عاصم احول نے ابن سیرین سے روایت کی، کہا: ( ابتدائی دور میں عالمان حدیث ) اسناد کے بارے میں کوئی سوال نہ کرتے تھے، جب فتنہ پڑ گیا تو انہوں نے کہا: ہمارے سامنے اپنے رجال ( حدیث ) کے نام لو تاکہ اہل سنت کو دیکھ کر ان سے حدیث لی جائے اور اہل بدعت کو دیکھ کر ان کی حدیت قبول نہ کی جائے 
 مقدمہ صحیح مسلم27

وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ قُهْزَاذَ مِنْ أَهْلِ مَرْوَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَانَ بْنَ عُثْمَانَ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ الْمُبَارَكِ، يَقُولُ: «الْإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ، وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ‘وقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ: حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ، يَقُولُ: «بَيْنَنَا وَبَيْنَ [ص:16] الْقَوْمِ الْقَوَائِمُ» يَعْنِي الْإِسْنَادَ‘وقَالَ مُحَمَّدٌ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمَ بْنَ عِيسَى الطَّالْقَانِيَّ قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: الْحَدِيثُ الَّذِي جَاءَ «إِنَّ مِنَ الْبِرِّ بَعْدَ الْبِرِّ أَنْ تُصَلِّيَ لِأَبَوَيْكَ مَعَ صَلَاتِكَ، وَتَصُومَ لَهُمَا مَعَ صَوْمِكَ». قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، عَمَّنْ هَذَا؟ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: هَذَا مِنْ حَدِيثِ شِهَابِ بْنِ خِرَاشٍ فَقَالَ: ثِقَةٌ، عَمَّنْ قَالَ؟ قُلْتُ: عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: ثِقَةٌ، عَمَّنْ قَالَ؟ قُلْتُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، إِنَّ بَيْنَ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَفَاوِزَ تَنْقَطِعُ فِيهَا أَعْنَاقُ الْمَطِيِّ، وَلَكِنْ لَيْسَ فِي الصَّدَقَةِ اخْتِلَافٌ‘وَقَالَ مُحَمَّدٌ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ شَقِيقٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهُ بْنَ الْمُبَارَكِ، يَقُولُ عَلَى رُءُوسِ النَّاسِ: «دَعُوا حَدِيثَ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ فَإِنَّهُ كَانَ يَسُبَّ السَّلَفَ

محمد بن عبد اللہ بن قہزاد نے ( جو مرو کے باشندوں میں سے ہیں ) کہا: میں نے عبدان بن عثمان سے سنا، کہہ رہے تھے: میں نے عبد اللہ بن مبارک رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: اسناد ( سلسلہ سند سے حدیث روایت کرنا ) دین میں سے ہے۔ اگر اسناد نہ ہوتا تو جو کوئی جو کچھ چاہتا، کہہ دیتا۔ ( امام مسلم رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ) کہا: اور محمد بن عبد اللہ نے کہا: مجھے عباس بن ابی رزمہ نے حدیث سنائی، کہا: میں نے عبد اللہ ( بن مبارک ) کو یہ کہتے ہوئے سنا: ہمارے اور لوگوں کے درمیان ( فیصلہ کن چیز، بیان کی جانے والی خبروں کے ) پاؤں، یعنی سندیں ہیں ( جن پر روایات اس طرح کھڑی ہوتی ہیں جس طرح جاندار اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ )

 32 مقدمہ صحیح مسلم


حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ رَقَبَةَ، «أَنَّ أَبَا جَعْفَرٍ الْهَاشِمِيَّ الْمَدَنِيَّ، كَانَ يَضَعُ أَحَادِيثَ كَلَامَ حَقٍّ، وَلَيْسَتْ مِنْ أَحَادِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ يَرْوِيهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم

جریر نے رقبہ ( بن مسقلہ بن عبد اللہ عبدی کوفی رضی ‌اللہ ‌عنہ جلیل القدر تابعی ) سے روایت کی کہ ابو جعفر ( عبد اللہ بن مسعود بن عون بن جعفر بن ابی طالب ) ہاشمی مدائنی احادیث گھڑا کرتا تھا، سچائی ( یا حکمت ) پر مبنی کلام ( پیش کرتا ) وہ کلام رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ کے فرامین میں سے نہ ہوتا تھا لیکن اسے وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ سے روایت کرتا تھا 

باب؛ ۔ اسناد دین میں سے ہے، (حدیث کی) روایت صرف ثقہ راویوں سے ہو سکتی ہے۔ راویوں میں پائی جانے والی بعض کمزوریوں، کوتاہیوں کی وجہ سے ان پر جرح جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے، یہ غیبت میں شامل نہیں جو حرام ہے بلکہ یہ تو شریعت مکرمہ کا دفاع ہے


65مقدمہ صحیح مسلم 

سند دین ہے

 اہل باطل ہر دور میں اس نعمت سے محروم رہے ہیں۔ان کی کتابیں اس سے خالی ہیں۔ وہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بغیر کسی سند اور حوالے کے قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں

 

 شارحِ صحیح مسلم علامہ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)فرماتے ہیں

 : وَمَعْنٰی ہٰذَا الْکَلَامِ أَنَّ مَنْ جَاءَ بِإِسْنَادٍ صَحِیحٍ، قَبِلْنَا حَدِیثَہ،، وَإِلَّا تَرَکْنَاہُ، فَجَعَلَ الْحَدِیثَ کَالْحَیَوَانِ، لَا یَقُومُ بِغَیْرِ إِسْنَادٍ، کَمَا لَا یَقُومُ الْحَیَوَانُ بِغَیْرِ قَوَائِمٍ . ”اس کلام کا معنیٰ یہ ہے کہ جو صحیح سند لائے گا،ہم اس کی حدیث قبول کر لیں گے ، ورنہ چھوڑ دیں گے۔امام صاحب نے حدیث کو ایک جانور سے تشبیہ دی ہے، یعنی حدیث سند کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی جیسا کہ جانور پائیوں کے بغیر کھڑا نہیں رہ سکتا۔”(شرح مسلم للنووي، ص : 12)

  امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ (م : 125ھ)کے پاس بغیر سند کے احادیث پڑھ رہا تھا۔ اُس کے اِس اقدام پر امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا :
قَاتَلَکَ اللّٰہُ یَا ابْنَ أَبِي فَرْوَۃَ ! مَا أَجْرَأَکَ عَلَی اللّٰہِ، لَا تُسْنِدُ حَدِیثَکَ ؟ تُحَدِّثُنَا بِأَحَادِیثَ لَیْسَ لَہَا خُطَمٌ وَّلَا أَزِمَّۃٌ . ”ابن ابی فروہ!اللہ تعالیٰ تجھے برباد کرے، تجھے اللہ تعالیٰ کے خلاف کتنی جرأت ہے کہ تو حدیث کی سند بیان نہیں کر رہا۔ تُو ہمیں ایسی احادیث سنا رہا ہے جن کی کوئی نکیل یا لگام نہیں۔”(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص : 6، الکفایۃ في علم الروایۃ للخطیب البغدادي، ص : 391، وسندہ، حسنٌ)

 

 اہل باطل بعض عقائد واعمال پر باسند تو درکنار کوئی موضوع و من گھڑت روایت بھی پیش نہیں کر پاتے

 

افظ ابن حجر رحمہ اللہ (م : 852ھ)کی اس بات پر اس بحث کا اختتام کرتے ہیں کہ :
مُدَارُ الْحَدِیثِ الصَّحِیحِ عَلَی الِاتِّصَالِ وَإِتْقَانِ الرِّجَالِ وَعَدَمِ الْعِلَلِ .
”حدیث کے صحیح ہونے کا دارو مدار سند کے اتصال ، راویوں کے اتقان اور مخفی علتوں کے معدوم ہونے پر ہوتاہے۔”(ہدی الساري في مقدمۃ فتح الباري، ص : 11)

 



9◈



٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قلعہ خیبر کا دروازہ اٹھا کر پھینکا




امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے منسوب ہے، وہ اپنے آبا سے بیان کرتے ہیں کہ امیر المومنین، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سہل بن حینف کو خط لکھا:

واللہ، ما قلعت باب خیبر، و رمیت بہ خلف ظھري أربعین ذراعا بقوۃ جسدیۃ ولا حرکۃ غذائیۃ، لٰکني أبدت بقوۃ ملکوتیۃ نفس بنور ربھا مضیۃ، و أنا من أحمد کالضوء من الضوء۔
"اللہ کی قسم! میں نے جو خیبر کے دروازے کو اکھیڑا اور اپنے پیچھے کی طرف چالیس گز کے فاصلے پر پھینک دیا، یہ نہ جسمانی قوت تھی اور نہ خوراک کی طاقت، بلکہ یہ ایک ملکوتی و نورانی قوت تھی، جو میرے رب نے مجھے عطا کی تھی۔ میری احمد ﷺ سے وہی نسبت ہے، جو روشنی کو روشنی سے ہوتی ہے۔"

(بحار الأنور للمجلسی الرافضی:26/21) موضوع (من گھڑت)​
موضوع (من گھڑت) : یہ جھوٹ کا پلندہ ہے، کیونکہ:



1: امام جعفر کے آبا نامعلوم و "مجہول" ہیں۔

2:محمد بن محصن اسدی عکاشی باتفاق محدثین غیر ثقہ، منکر الحدیث، متروک، کذاب اور وضاع ہے۔

3:یونس بن ظبیان کے حالات اہل سنت کی کتب سے نہیں مل سکے۔ اور کتبِ رجالِ شیعہ میں بھی اس پر جرح موجود ہے۔

4:علی بن احمد بن موسیٰ بن عمران دقاق کی اہل سنت اور شیعہ کتبِ رجال میں کہیں بھی توثیق نہیں مل سکی۔

5: محمد بن ہارون مدنی بھی "مجہول" ہے


6:ابوبکرعبید اللہ بن موسیٰ خباز حبال طبری کی اہل سنت اور شیعہ کتبِ رجال میں 
توثیق مذکور نہیں، لہٰذا یہ "مجہول" ہے۔

 ٭مؤرّخِ دیار مصر، علامہ مقریزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"بعض محدثین تو کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قلعہ خیبر کا دروازہ اٹھانے کے واقعہ کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔" (إمتاع الأسماع:310/1)


 علامہ سخاوی لکھتے ہیں:

"اس کے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں اس لئے بعض علما نے اس واقعے کو منکر قرار دیا ہے۔" (المقاصد الحسنۃ:313)





اہل سنت کی کتب میں موجود روایات کی مختصر تحقیق:

روایت نمبر1:

مسند الإ مام أحمد:8/6، دلائل النبوّۃ للبیھقی:212/4، سیرۃ ابن ھشام:349،350/6، تاریخ دمشق لابن عساکر:111/42


 
تحقیق: یہ سند ضعیف ہے، کیونکہ اس میں بَعضُ أَھلِہ "مبہم" اور "مجہول" لوگ ہیں۔ شریعت ہمیں نامعلوم افراد سے دین اخذ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔

٭دلائل النبوۃ کی سند میں عبد اللہ بن حسن کا واسطہ گرگیا ہے، اسی لئے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:


 س روایت میں جہالت اور واضح انقطاع موجود ہے۔" (البدایۃ و النھایۃ:191/4)

روایت نمبر 2:

مصنف ابن أبی شیبۃ:84/12، تاریخ بغداد للخطیب:324/1، تاریخ دمشق لابن عساکر:111/42

تحقیق: اس کی سند "ضعیف " ہے، کیونکہ اس میں لیث بن ابی سلیم جمہور محدثین کے نزدیک "ضعیف" خراب حافظے والا موجود ہے۔

٭ حافظ عراقی، حافظ ہیثمی، حافظ ابن ملقن، حافظ نووی، حافظ بوصیری، علامہ سندھی، حافظ سیوطی رحمہم اللہ نے اسے جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف قرار دیا ہے۔

٭اسے امام یحییٰ بن معین، امام احمد بن حنبل، امام ابو زرعہ رازی، امام ابو حاتم رازی، امام عمرو بن علی فلاس، امام دارقطنی، امام نسائی، امام ابن عدی، امام ابن خزیمہ، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام بزار، امام ابن سعد رحمہم اللہ اور جمہور محدثین کرام نے "ضعیف"قرار دیا ہے۔

٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"میرے علم کے مطابق کسی نے اس کے ثقہ ہونے کی صراحت نہیں کی۔" (زوائد مسند البزار:403/2)

٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کو "منکر" قرار دیا ہے۔ (میزان الاعتدال:113/3)

٭حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اس (روایت) میں بھی کمزوری ہے۔" (البدایۃ والنھایۃ: 191/4)

روایت نمبر3:

دلائل النبوّۃ للبیھقی:212/4 ، المقاصد الحسنۃ للسخاوی:313

تحقیق: اس کی سند سخت ترین "ضعیف" ہے، کیونکہ اس کا راوی حرام بن عثمان سخت ترین"ضعیف" اور مجروح ہے۔
٭اسے امام یحییٰ بن معین، امام احمد بن حنبل، ، امام دارقطنی،امام ابن حبان، امام بخاری، امام یعقوب بن سفیان فسوی، امام ابن سعد اور علامہ جوزجانی رحمہم اللہ نے "ضعیف" کہا ہے۔

الحاصل: یہ واقعہ معتبر سندوں سے ثابت نہیں، فضیلت وہی ہے جو قابل اعتبار سندوں سے ثابت ہو۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت و بسالت کا انکار کوئی کافر ہی کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہترین قوت بھی عطا فرمائی تھی۔ وہ بلاشبہ شیر اللہ تھے۔

حقیقی ہیرو کو کسی جھوٹی فضیلت و منقبت کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن ہمیشہ سے لوگوں کا یہ چلن رہا ہے کہ وہ اپنی من پسند شخصیت کے بارے میں جھوٹی باتیں مشہور کردیتے ہیں،جو اکثر اوقات اس شخصیت کی سیرت کو نکھارنے کی بجائے لوگوں کے ذہنوں میں اس کا غلط تصور بٹھاتی ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی ایک ایسی ہی بات قلعہ خیبر کا دروازہ اکھاڑ پھینکنے والی روایت تھی، یہ واقعہ غیر ثابت اور غیر معتبر ہونے کے ساتھ ساتھ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک مافوق الفطرت مخلوق ہونے کا 

 تصور پیدا کرتا ہے

 10
 علامہ ابن  القيم الحنبلی لکھتے ہیں
 ومنها : مشابهة عبادة الأصنام بما يفعل عندها من العكوف عليها والمجاورة عندها وتعليق الستور عليها وسدانتها وعبادها يرجحون المجاورة عندها على المجاورة عند المسجد الحرام، ويرون سدنتها أفضل من خدمة المساجد .
  قبروں پر ہونے والی خرافات میں سے یہ بھی ہے کہ قبروں کے پاس وہ کام کیے جائیں جو بت پرستی سے مشابہ ہیں، مثلاً ان پر اعتکاف کرنا، ان کے پاس مجاور بن کر بیٹھنا، ان پر پردے لٹکانا، ان کی خدمت کے لیے وقف ہونا وغیرہ۔ قبر پرست لوگ قبروں کی مجاور ی کو بیت اللہ کی مجاوری پر بھی ترجیح دیتے ہیں اور ان کا یہ نظریہ ہے کہ قبروں کی خدمت بیت اللہ کی خدمت سے بھی افضل ہے۔“ [إغاثة اللهفان لابن القيم :197/1]
11 
 توحید کے بارے میں وضاحت 
قاضی صاحب پانی پتی الحنفی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ
  
ہمارے لئے اللہ کافی ہے
اولیاء اللہ کو رزق اولاد نفع و نقصان دینے والا سمجھنا  
  قاضی صاحب کیا لکھتے ہیں
 1
اگر کسے گوید کہ خدا و رسول برین عمل گواہ اند کافر شود اولیاء قادر نیستند بر ایجاد معدوم یا اعدام موجود پس نسبت کردن ایجاد و اعدام و اعطاء رزق یا اولاد و دفع بلا و مرض وغیر آن بسوئے شان کفر است قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ما شاء اللہ یعنی بگو اے محمد ﷺ مالک نیستم من برائے خویشتن نفع را و نہ ضرر را مگر آنچہ خدا خواہد و اگر نسبت بطریق بسببیت بود مضائقہ ندارد
(بستان السالکین ترجمہ ارشاد الطالبین ،ص47,48،)
 (فارسی نسخہ ص ٢۸  ارشاد الطالبین )
ترجمہ  
اگر کوئی کہے کہ خدا اور رسول اس عمل پر گواہ ہیں تو وہ کافر ہوجاتا ہے اولیاء کرام معدوم کو موجود کرنے یا موجود کو معدوم کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اس لئے پیدا کرنے رزق دینے بلا دور کرنے اور مرض سے شفاء دینے وغیرہ کی نسبت ان سے مدد طلب کرنا کفر ہے فرمان خداوندی ہے قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ما شاء اللہ یعنی اے محمد ﷺ کہہ دیجئے میں اپنے آپ کیلئے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر وہ جو کچھ اللہ چاہے اور اگر سبب کے لحاظ سے نسبت ہو تو کوئی حرج نہیں
 

 وضاحت
اب قاضی صاحب تو فرمارہے ہیں کہ اولیاء اللہ کو رزق اولاد نفع و نقصان دینے والا سمجھنا اور اس نیت سے ان سے اپنی حاجات طلب کرنا کفر ہے کیونکہ خود قرآن نبی کریم ﷺ کے بارے میں کہہ رہا کہ آپ ﷺ اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ۔ہاں بعض اوقات اللہ انہیں سبب بنادیتا ہے مگر وہ محض واسطہ و سبب ہوتے ہیں


مزید قاضی صاحب سے ملاحظہ فرمالیں قاضی صاحب اسی سبب و واسطہ کی وضاحت کرتے ہیں

 2
و خلق و تکوین صفتے است مختص بوئے تعالی ممکن چہ باشد کہ ممکن را پیدا می تواند کرد ممکنات بہ تمامہا چہ جوہر و چہ عرض و چہ افعا ل اختیاریہ بندگان ہمہ مخلوق او تعالی اند اسباب و وسائط را روپوش فعل خود ساختہ است بلکہ دلیل بر ثبوت فعل خود کردہ 
( مالا بد منہ ،ص7)
ترجمہ  

اور پیدا کرنا اور وجود میں لانا یہ بھی اسی ذات پاک کیلئے خاص صفت ہے ممکن جیسے حقیر کو کیا طاقت کہ دوسرے ممکن کو پیدا کرسکے تمام ممکنات جوہر ہوں یا عرض یا بندوں کے اختیاری کاروبار سب حق تعالی کے پیدا کئے ہوئے ہیں ظاہری سببوں اور وسیلوں کو (حکمت کی بناء پر) اپنے کام کا پردہ بنارکھا ہے بلکہ اپنے کام کے ثبوت کی دلیل بناد
 
3
ایک اور جگہ اس سبب و واسطہ وسیلہ کی وضاحت یوں کرتے ہیں :

حق العباد میں ایک دوسری قسم ان لوگوں کے حقوق ہیں جو اللہ تعالی کے بعض حقوق کے مظہر ہوتے ہیں ایجاد (پیدا) کرنے ،پرورش کرنے ،روزی پہنچانے ،اور ا س طرح کے دیگر امور کا وہ ظاہر میں واسطہ ہوا کرتے ہیں جیسے ماں باپ دادے اور دادیاں وغیرہ جن لوگوں کے واسطہ اور ذریعہ سے اللہ تعالی رزق پہنچاتا ہے یا جن کے ذریعہ پرورش کرتا ہے یا مالی انعام کی کوئی قسم کی منفعت عطا فرماتا ہے تو ان حضرات کا شکر ادا کرنا بھی والدین کے شکر کی طرح واجب ہے
 ( مفید الانام ترجمہ حقیقت الاسلام ،ص37  مطبوعہ ،المدینہ دارالاشاعت لاہور)

 4
اولیاء اللہ کی قبور سے مانگنے والے


قاضی صاحب ولایت کے متعلق غلط مشرکانہ  عقیدہ کابیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں 

’بعضے در اولیاء اللہ عصمت خیال می کنند و می دانند کہ اولیاء ہر چہ خواہند ہمان شود و ہر چہ نخواہند معدوم گردہ و ازقبور اولیاء باین خیال مرادات خود طلب می کنند و چون در اولیاء اللہ و مقربان درگاہ کہ زندہ این صفت نمی یابند از ولایت آنہا منکری شوند و از فیوض آنہا محروم می مانند
(بستان السالکین ترجمہ ارشاد الطالبین ،ص1,2)
 ترجمہ 
بعض اولیاء کے معصوم ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اولیاء جو کچھ چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتے وہ نہیں ہوتا اور اسی خیال سے اولیاء اللہ کی قبروں سے اپنی مرادیں طلب کرتے ہیں اور جو وہ زندہ اولیاء اللہ اور مقربان خداوندی میں یہ صفت نہ پاتے تو ان کی ولایت کا انکار کرکے ان کے فیوض سے محروم رہتے ہیں 

5
علم غیب اور حاضر ناظر

اگر کسے گوید کہ خدا و رسول برین عمل گواہ اند کافر شود
  (بستان السالکین ترجمہ ارشاد الطالبین ،ص47,48،)
 ( فارسی نسخہ ص ٢۸  ارشاد الطالبین)
  ترجمہ  
اگر کوئی کہے کہ خدا اور رسول اس عمل پر گواہ ہیں تو وہ کافر ہوجاتا ہے

اور اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں :

اگر کسے بدون شہود نکاح کرد و گفت کہ خدا و رسول خدا را گواہ کردم یا فرشتہ را گواہ کردم کافر شود
( مالا بد منہ ،ص146میرمحمد کتب خانہ کراچی)
ترجمہ    
اگر کوئی شخص بدون گواہ کے نکاح کرے اور کہے کہ میں نے خدا اور اس کے رسول کو یا فرشتہ کو گواہ کیا تو کافر ہوجائے گا


 وضاحت
 کیونکہ رسول خدا ﷺ اور ملائکہ کو عالم الغیب سمجھنا کفر ہے کہ یہ صفت خاصہ رب باری تعالی ہے

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں

بندگان خاص الٰہی را در صفات واجبی شریک داشتن یا آنہارا در عبادت شریک ساختن کفر است چنانچہ دیگر کفار بہ انکار انبیاء کافر شد ند ہمچناں نصاری عیسی را پسر خدا و مشرکان عرب ملائکہ را دختران خدا گفتند و علم غیب بآنہا مسلم داشتندکافر شدند
(مالا بد منہ،ص11,12،مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی)

 ترجمہ     
حق تعالی کے خاص بندوں کو اس کی صفات واجبی میں شریک ٹھرانا یا انکو بندگی میں شریک بنانا کفر ہے جس طرح دوسرے کفار نبیوں کے انکار سے کافر ہوئے اسی طرح نصاری عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا اور عرب کے مشرک فرشتوں کو خدا کی بیٹی کہہ کر اور فرشتوں کیلئے علم غیب کا عقیدہ مان کر کافر ہوگئے ( یہی عقیدہ مشرکین پاک و ہند کا بھی ہے)نبیوں اور فرشتوں کو خدا تعالی کی صفات میں شریک بنانا جائز نہیں

6
عرس کرنا مزارا ت پر خرافات کرنا  

  لا یجوزما یفعلہ الجھال بقبور الاولیاء والشھدآء من السجود و الطواف حولھا واتخاذ السرج والمساجد علیھا و من الاجتماع بعد الحول کالاعیاد ویسمونہ عرسا عن عائشۃ و عن ابن عباس قالا لما نزل برسول اللہ ﷺ مرض طفق یطرح خمیصۃ لہ علی وجھہ فاذا اغتم کشفہا عن وجھہ ویقول ھو کذالک لعنۃ اللہ علی الیہود والنصاری اتخذوا قبور انبیاءھم مساجد قالت فحذر عن مثل ما صنعوا متفق علیہ و کذا روی احمد والطیالسی عن اسامۃ بن زید وروی الحاکم و صححہ عن ابن عباس لعن اللہ زائرات القبور والمتخذین علیہا المساجد والسرج و روی مسلم من حدیث جندب بن عبد الملک قال سمعت النبی ﷺ قبل ان یموت بخمس وھو یقول الا لا تتخذوا والقبور مساجد انی انھاکم عن ذالک

  (تفسیر مظہری،ج2،ص68,69،دارالاحیاء التراث العربی)
 ترجمہ    
اولیاء اور شہداء کے مزارات پر سجدے کرنا ،طواف کرنا ،چراغ روشن کرنا ان پر مسجدیں قائم کرنا عید کی طرح مزارات پر عرس کے نام سے میلے لگانا جس طرح آج کل جاہل کرتے ہیں جائز نہیں ۔حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباسؓ راوی ہیں کہ مرض وفات میں رسول اللہ ﷺ نے دھاری دار کمبل سے چہرہ مبارک ڈھانک لیا اور دم گھٹا تو منہ سے ہٹا دیا ( اللہ اکبر ساری دنیا کے مشکل کشاء حاجت روا مختار کل کو اپنی سانس مبارک پر بھی اختیار نہیں از ناقل ) اور اسی حالت میں فرمایا یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا حضرت عائشہؓ کا بیان ہے حضور ﷺ نے اس ارشاد میں یہود و نصاری کے فعل سے مسلمانوں کو بازداشت کی ۔بخاری و مسلم امام احمد و ابو داؤد طیالسی نے بھی حضرت اسامہ بن زید کی روایت سے یہ حدیث نقل کی ۔حاکم نے ابن عباسؓ کی یہ روایت سے یہ حدیث نقل کی ہے اور اس کو صحیح بھی کہا ہے کہ قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پراور ان لوگوں پر جو قبروں کو سجدہ گاہ بناتے ہیں اور چراغ جلاتے ہیں اللہ کی لعنت ہو ۔مسلم نے حضرت جندب بن عبد المالک کا قول نقل کیا ہے جندبؓ کا بیان ہے کہ میں نے خود سناوفات سے پانچ راتیں پہلے حضور ﷺ فرمارہے تھے ہوشیار قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانامیں تاکید کے ساتھ تم کو اس کی ممانعت کرتا ہوں۔


7

بدعت حسنہ
حضرت خواجہ عالی شان خواجہ بہاء الدین نقشبند رضی اللہ عنہ وامثال شان حکم کردہ اند بدانکہ ہرعبادت کہ موافق سنت است آن عبادت مفید تر است برائے ازالہ رزائل نفس و تصفیہ عناصرو حصول قرب الٰہی لہذا از بدعت حسنہ مثل بدعت قبیحہ اجتناب می کنند کہ رسول اللہ ﷺ فرمودہ کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ پس نتیجہ این حدیث آنست کہ کل محدث ضلالۃ و بدیہی است کہ لا شیء من الضلالۃ بھدایۃ فلا شیء من المحدث بھدایۃ
( بستان السالکین ترجمہ ارشاد الطالبین ،ص69-72)

ترجمہ     
حضرت خواجہ عالی شان خواجہ بہاالدین نقشبند ؒ اور آپ جیسے دیگر بزرگان نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ عبادت جو سنت کے موافق ہے وہ رذائل نفس تصفیہ عناصر اور قرب الٰہی کے حصول کیلئے زیادہ مفید ہے۔اس لئے بدعت حسنہ سے بھی بدعت قبیحہ کی طرح بچتے ہیں کیونکہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا ہے کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ ہر نئی بات بدعت ہے اور تمام بدعتیں گمراہی ہیں پس اس حدیث کا نتیجہ یہ ہے کہ کل محدث بدعت اور ظاہر ہے کہ لا شیء من الضلالۃ بھدایۃ فلا شیء من المحدث بھدایۃ گمراہی کی کوئی چیز ہدایت نہیں ہے پس ہر نئی بات بھی ہدایت نہیں ہے ۔

8
تیجہ ،چالیسواں ،برسی

قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی وصیت میں لکھتے ہیں:

بعد مردن من رسوم دنیوی مثل دہم و بستم و چہلم و ششماہی و برسی ہیچ نکند
(مالا بد منہ ،ص161)
 ترجمہ    
   میرے مرنے کے بعد دنیویرسمیں مثلا دسواں اور بیسواں اور چالیسواں اور ششماہی اور سالانہ برسی عرس کچھ بھی نہ کریں ۔





12 

 فقہ حنفی اور حدیث   لولاک 

حنفی مذہب کی معتبر کتب میں لکھا ہے


وفي جواهر الفتاوى: هل يجوز أن يقال: لولا نبينا محمد صلى الله تعالى عليه وسلم لما خلق الله آدم ؟ قال : هذا شيء يذكره الوعاظ على رءوس المنابر، يريدون به تعظيم نبينا محمد صلى الله تعالى عليه وسلم، والأولى أن يحترزوا عن مثال هذا، فإن النبي عليه الصلاة والسلام، وإن كان عظيم المنزلة والرتبة عند الله، فان لكل نبي من الأنبياء عليھ الصلاة والسلام منزلة ومرتبة، وخاصه ليست لغيره، فيكون كل نبي أصلا بنفسه.
    جواہر الفتاویٰ میں سوال ہے : کیا یہ کہنا جائز ہے کہ اگر ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پیدا نہ کرتا ؟ جواب یہ دیا گیا : یہ ایسی چیز ہے جو واعظیں منبروں پر بیان کرتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنا ہوتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ایسی باتوں سے احتراز کیا جائے کیونکہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بلند مقام اور مرتبہ رکھتے تھے لیکن ہر نبی کو بھی ایک مقام اور مرتبہ حاصل تھا اور ہر نبی کے پاس کوئی نہ کوئی ایسی خصوصیت تھی جو دوسرے کسی کے پاس نہ تھی۔ لہٰذا ہر نبی کا اپنا ایک مستقل مقام ہے۔  
  (الفتاوي التاتار خانية:485/5) 



فتاویٰ بزازیہ میں ہے:
''وقال علماء نا من قال ان ارواح المشائخ حاضرة تعلم یکفر''
یعنی ''ہمارے (حنفی ) فقہاء نے کہا ہے کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ بزرگوں کی روحیں حاضر ہوتی اور غیب جانتی ہیں، وہ کافر ہے۔''

بحوالہ فتاویٰ مولانا عبدالحئ ج2 ص34، بحوالہ فتاویٰ بزازیہ ص326 برحاشیہ  فتاویٰ عالمگیری جلد 6

قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی فرماتے ہیں
 آنچہ جہال می گویند یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ یا خواجہ شمس الدین پانی پتی شیئا للہ جائز نیست، شرک و کفر است
  ارشاد الطالبین:ص18
فارسی نسخہ ص  29  ارشاد الطالبین


 ثم اعلم أن الأنبیاء لم یعلموا المغیبات من الأشیاء إلا ما علمهم اللہ تعالیٰ أحیانا و ذکر الحنفیة تصریحا بالتکفیر باعتقاد أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعلم الغیب لمحارضة قوله تعالیٰ قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضِ ٱلْغَيْبَ إِلَّا ٱللَّهُ'' کذا في المسامرة
 یعنی '' معلوم ہونا چاہیے کہ انبیاء علیہم السلام غیب کی صرف انہی باتوں کو جانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً ان کو بتلا دے اور فقہائے حنفیہ نے اس عقیدے کو، کہ ''رسول اللہ ﷺ کو علم غیب تھا'' صراحة کفر قرار دیا ہے کیونکہ یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ''قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضِ ٱلْغَيْبَ إِلَّا ٱللَّهُ'' کے معارض (مخالف) ہے۔ یہی بات (شیخ ابن الہمام نے) مسائرہ میں ذکر کی ہے
 شرح فقہ اکبر ، صفحہ 182، طبع مجتبائی

  فقہ حنفی کی ایک اور مشہور کتاب فتاویٰ قاضی خان میں ہے:
''رجل تزوج امرأة بغیر شهود فقال الرجل واطرأة خدائے راد پیغامبر را گواہ کردیم'' قالوا یکون کفرا  لأنه اعتقد أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعلم الغیب وھوما کان یعلم الغیب حین کان في الأحیاء فکیف بعد الموت
 کسی آدمی نے کسی عورت سے بغیر گواہوں کے نکاح کیا، البتہ مرد عورت نے یہ کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ او راس کے رسولؐ........ کو گواہ بناتے ہیں، فقہائے (حنفیہ)کہتے ہیں کہ ایسا کہنا کفر ہے اس لیے کہ اس کا اعتقاد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ غیب جانتے ہیں۔ حالانکہ آپؐ اپنی زندگی میں عالم الغیب نہ تھے، دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد آپؐ عالم الغیب کیوں کر ہوسکتے ہیں۔
فتاویٰ قاضی خاں برحاشیہ فتاویٰ عالمگیری، ج3 ص576، طبع بولاق 1310ھ فتاویٰ بزازیہ ص325، برحاشیہ فتاویٰ عالمگیری ص325 ج6
 اور فتاویٰ بزازیہ میں ہے
وقال علماء نا من قال إن أرواح المشائخ حاضرة تعلم یکفر
 یعنی ''ہمارے (حنفی ) فقہاء نے کہا ہے کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ بزرگوں کی روحیں حاضر ہوتی اور غیب جانتی ہیں، وہ کافر ہے
 بحوالہ فتاویٰ مولانا عبدالحئ ج2 ص34، بحوالہ فتاویٰ بزازیہ ص326 برحاشیہ فتاویٰ عالمگیری جلد6

اور مولانا عبدالحئ حنفی لکھوی لکھتے ہیں کہ اس وظیفے سے احتراز لازم و واجب ہے، بعض فقہاء نے اس پرکفر تک کا اطلاق کیا ہے، نیز اس وظیفہ کے پڑھنے والے کے دل میں یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ وہ مردہ بزرگ عالم الغیب اور صاحب اختیار ہے او ریہ عقیدہ شرک ہے۔ ان کی اصل عبارت یہ ہے:
''ازیں چنیں وظیفہ احتراز لازم وواجب ۔ اولاً ازیں جہت کہ ایں وظیفہ متضمن شیئا للہ است و بعض فقہاء از ماہمچو لفط حکم کفر کردہ اند چنانکہ در درمختار می نویسد کذا قول شئ للہ قیل یکفر انتہیٰ۔ ثانیاً ازیں جہت کہ ایں وظیفہ متضمن است ندائے اموات را ازا مکنہ بعیدہ و شرعاً ثابت نیست کہ اولیاء راقدر تے حاصل است کہ از مکنہ بعیدہ و ندارا بشنوند۔ البتہ سماع اموات سلام زائر قبر را ثابت است بلکہ اعتقاد ایں کہ کسے غیر حق سبحانہ حاضر و ناضر و عالم خفی و جلی در ہر وقت و ہر ان است اعتقاد شرک است۔ درفتاویٰ بزازیہ می نویسد تزوج بلا شہود و قال خدائے و رسول خدا و فرشتگان را گواہ کردہ ام یکفر لأنه اعتقد أن الرسول والملك یعلمان الغیب وقال علما ء نا من قال إن أرواج المشائخ حاضرة تعلم یکفر

مولانا عبدالحئ حنفی لکھوی لکھتے ہیں
 وحضرت شیخ عبدالقادر اگرچہ از اجلہ اولیاء امت محمدیہ ہست اندو مناقب و فضائل شان لا تعدو لا تحضی اند لیکن چنین قدرت شاں کہ فریاد را از امکنہ بعیدہ بشنوندوبہ فریاد رسند ثابت نیست واعتقاد ایں کہ آنجناب ہر وقت حال مریدان کودمی و انند و ندائے شان می شوند اس عقائد شرک است
  مجموعہ فتاویٰ مولانا عبدالحئ لکھنوی حنفی۔ ج2 ص34


 شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سورہ مزمل کی تفسیر میں لکھتے ہیں
 یہ شان صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے کہ جو اس کو جب او رجہاں سے یاد کرے، اللہ تعالیٰ کو اسکا علم ہوجائے۔ اور یہ بھی اسی کی شان ہے کہ وہ اس ذاکر بندے کی قوت مدرکہ میں آجائے جس کو شریعت کی خاص زبان میں دنو، تدلیٰ او رقرب و نزول کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں
 یں ہر دو صفت خاصہ ذات پاک او تعالیٰ است۔ ہیچ مخلوق را حاصل نیست۔ ارے بعضے کفرہ درحق بعضے از معبودان خود و بعضے پیر پرستان از زمرہ مسلمین در حق پیران خود امر اول راثابت می کنندو دروقت احتیاج بہ ہمیں اعتقاد بآنہا استعانت می نمایند
 اور یہ دونوں صفتیں اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا خاصہ ہیں، یہ کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہیں۔ ہاں بعضے کفار اپنے بعض معبودوں اور دیوتاؤں کے بارے میں اور مسلمانوں میں سے بعض پیر پرست اپنے پیروں کے بارے میں ان میں سے پہلی چیز ثابت کرتے ہیں او رپنی حاجتوں کے وقت اسی اعتقاد کی بنا پر ان سے مدد چاہتے ہیں اور مدد کے لیے ان کو پکارتے ہیں
  تفسیر عزیزی۔ پارہ تبارک الذی۔ سورہ مزمل۔ صفحہ 181

 شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اپنے فتاویٰ میں ایک سوال کے جواب میں ہندوستان کے ہندؤوں کے شرک کا حال بیان کرکے آخر میں فرماتے ہیں:
و ہمیں است حال فرقہ ہائے بسیار از مسلمیں مثل تعزیہ سازان و مجاوران قبور و جلالیان و مداریان
یہی حال ہے بہت سے مسلمان فرقوں کا مثلاً تعزیہ بنانے والوں، قبروں کے مجاوروں اور جلالیوں مداریوں کا۔
فتاویٰ عزیزی۔ ج1 ص134، طبع مجتبائی دہلی

◈13

  نادعلی رضی اللہ عنہ  رافضیوں کا جھوٹ

ملا علی قاری علیہ الرحمہ اپنی کتاب الموضوعات الکبیر میں لکھتے ہیں۔

حَدِيثُ
لَا فَتَى إِلَّا عَليّ لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفِقَارِ 
لَا أَصْلَ لَهُ مِمَّا يُعْتَمَدُ عَلَيْهِ نَعَمْ يُرْوَى فِي أَثَرٍ وَاهٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَرَفَةَ الْعَبْدِيِّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْبَاقِرِ قَالَ نَادَى مَلَكٌ مِنَ السَّمَاءِ يَوْمَ بَدْرٍ يُقَالُ لَهُ رَضْوَانُ لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفِقَارِ لَا فَتَى إِلًا عَلَيٌّ وَذَكَرَهُ كَذَا فِي الرِّيَاضِ النَّضِرَةِ وَقَالَ ذُو الْفِقَارِ اسْمُ سَيْفِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسُمِّيَ بِذَلِكَ لِأَنَّهُ كَانَتْ فِيهِ حُفَرٌ صِغَارٌ
أَقُولُ وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى بُطْلَانِهِ أَنَّهُ لَوْ نُودِيَ بِهَذَا مِنَ السَّمَاءِ
فِي بَدْرٍ لَسَمِعَهُ الصَّحَابَةِ الْكِرَامِ وَنَقَلَ عَنْهُمُ الْأَئِمَّةُ الْفِخَامُ وَهَذَا شَبِيهُ مَا يُنْقَلُ مِنْ ضَرْبِ النُّقَارَةِ حَوَالِيَ بَدْرٍ وَيَنْسُبُونَهُ إِلَى الْمَلَائِكَةِ عَلَى وَجْهِ الِاسْتِمْرَارِ مِنْ زَمَنِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ إِلَى يَوْمِنَا هَذَا وَهُوَ بَاطِلٌ عَقْلًا وَنَقْلًا وَإِنْ كَانَ ذَكَرَهُ ابْنُ مَرْزُوقٍ وَتَبِعَهُ الْقَسْطَلَّانِيُّ فِي مَوَاهِبِهِ
وَكَذَا مِنْ مُفْتَرَيَاتِ الشِّيعَةِ الشَّنِيعَةِ حَدِيثُ
نَادِ عَلِيًّا مُظْهِرَ الْعَجَائِبَ تَجِدْهُ عَوْنًا لَكَ فِي النَّوَائِبِ بِنُبُوَّتِكَ يَا مُحَمَّدُ بُوِلَايَتِكَ يَا عَلِيُّ


الموضوعات الکبریٰ
صفحہ 386، رقم 595

post-18262-0-90198800-1491468945_thumb.jpg
◈14
 شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حضرت عباسؓ سے بارش کی دعاء کرانے کی حدیث ذکر کرکے فرماتے ہیں:
''ازیں جا ثابت شد کہ توسل بہ گزشتگان و غائبان جائزنہ و اشتندو گرنہ عباسؓ از سرور عالمؐ بہتر نہ بود چرا نہ گفت کہ توسل می کردیم بہ پیغمبرؐ تو والحال توسل می کنیم بہ روح پیغمبرؐ تو!''
یعنی ''اس واقعے سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ گزرے ہوئے (فوت شدگان) اور غائب لوگوں کا وسیلہ پکڑنا جائز نہیں سمجھتے تھے ورنہ حضرت عباسؓ ، رسول اللہ ﷺ سے بہتر نہ تھے( اگر و فات شدہ سے دعاء کرانا جائز ہوتا) تو انہوں نے کیوں نہ کہا کہ یا اللہ پہلے ہم تیرے نبی کے ساتھ وسیلہ پکڑتے تھے، اب ہم تیرے نبیؐ کی روح کے ساتھ وسیلہ پکڑتے ہیں
 فقہ کی ایک کتاب ''غرائب فی تحقیق المذاہب'' کے حوالہ سے لکھا ہے:
''رأی الإمام أبوحنیفة من یأتي القبور لأھل الصلاح فلیسلم و یخاطب و یتکلم و یقول یاأھل القبور ھل لکم من خبر وھل عندکم من أثر انی أتیتکم من شهور و ولیس سؤالي إلا الدعاء فھل دریتم أم غفلتم فسمع أبوحنیفة بقول یخاطب بھم فقال ھل أجابوالك؟ قال لا فقال له سحقا لك و تربت یداك کیف تکلم أجسادا لا یستطیعون جوابا ولا یملکون شیئا ولا یسمعون صوتا و قرأ ''وما أنت بمسمع من في القبور''
''امام ابوحنیفہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کچھ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس آکر سلام کرکے ان سے کہہ رہا ہے، ''اے قبر والو! کیا تمہیں کچھ خبر بھی ہے اور کیا تمہیں کچھ اثر بھی ہے، میں تمہارے پاس کئی مہینوں سے آرہا ہوں اور تمہیں پکار رہا ہوں۔ تم سے میرا سوال بجز دعاء کرانے کے اور کچھ نہیں۔ تم میرے حال کو جانتے ہو یا میرے حال سے بے خبر ہو؟'' امام ابوحنیفہ نے اس کی یہ بات سن کر اس سے پوچھا، ''کیا (ان قبر والوں نے) تیری بات کا جواب دیا؟'' وہ کہنے لگا ''نہیں'' آپ نے فرمایا ''تجھ پر پھٹکار ہو، تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں، تو ایسے (مُردہ) جسموں سے بات کرتا ہے جو نہ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں نہ کسی چیز کا اختیار رکھتے ہیں او رنہ کسی کی آواز (فریاد) ہی سن سکتے ہیں۔'' پھرامام صاحب نے قرآن کی یہ آیت پڑھی ''وما انت بمسمع من فی القبور'' (سورة الفاطر) ''اے پیغمبرؐ! تو اُن کو نہیں سنا سکتا جو قبروں میں ہیں


◈15

  غنیۃ الطالبین کس کی تصنیف ہے
 قدیم دور سے ہی یہ چیز زیر بحث رہی ہے کہ ’’غنیۃ الطالبین‘‘کا مصنف کون ہے ؟ بعض حضرات اسے سیدنا غوث اعظم پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تصنیف قرار دیتے رہے ہی

شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : ہرگز نہ ثابت شدہ کہ ایں تصنیف آنجناب است اگرچہ انتساب باآنحضرت دارد۔(حاشیہ نبراس ص۴۷۵)
یہ ہر گز ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ کتاب (غنیۃ الطالبین)آپ کی تصنیف ہے اگرچہ اس کی نسبت ان کی طرف کی جاتی ہے


علامہ عبدالعزیز پرہاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں : ولا یغرنک وقوعہ فی غنیۃ الطالبین منسوبۃ الی الغوث الاعظم عبدالقادر الجیلانی قدس سرہ العزیز غیر صحیحۃ والا حادیث الموضوعۃ فیھا وافرۃ۔(النبراس ص۴۵۵)
 اس حدیث کے غنیۃ الطالبین میں واقع ہونے سے تجھے دھوکہ نہ ہو ،جو کہ حضرت غوث اعظم عبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ العزیز کی طرف منسوب ہے ،کیونکہ یہ نسبت صحیح نہیں اور اس میں موضوع احادیث وافر مقدار میں موجود ہیں

امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تصریح فرمائی ہے کہ اس کتاب میں بعض مستحقین عذاب نے الحاق کردیا ہے۔فتاویٰ حدیثیہ میں فرماتے ہیں:
وایّاک ان تغتر بما وقع فی الغنیۃ لامام العارفین وقطب الاسلام والمسلمین الاستاذ عبدالقادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فانہ دسہ علیہ فیھا من نیتقم اللہ منہ والا فھو برئی من ذلک
(الفتاویٰ الحدیثیہ،مطلب أن مافی الغنیۃ للشیخ عبدالقادر،مطبعۃ الجمالیۃ مصر ص۱۴۸)
یعنی خبردار دھوکا نہ کھانا اس سے جو امام الاولیاء سردار اسلام ومسلمین حضور سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی ص کی غنیۃمیں واقع ہوا کہ اس کتاب میں اسے حضور پر افتراء کر کے ایسے شخص نے بڑھا دیا ہے کہ عنقریب اللہ عزوجل اس سے بدلہ لے گا حضرت شیخ ص اس سے بری ہیں

 :اسی کتاب میں تمام اشعریہ یعنی اہلسنّت وجماعت کو بدعتی ،گمراہ،گمراہ گر لکھا ہے کہ:…خلاف ماقالت الاشعریۃ من ان کلام اللہ معنًی قائم بنفسہٖ واللہ حسیب کل مبتدع ضال مضل۔(الغنیۃ الطالبی طریق الحق،بیروت ج۱ص۱ ۹ )

بخلاف اس کے جو اشاعرہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا معنیٰ ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اللہ تعالیٰ ہر بدعتی،گمراہ وگمراہ گر کے لیے کافی ہے(ت)
کیا کوئی ذی انصاف کہہ سکتا ہے کہ معاذاللہ یہ سرکار غوثیت کا ارشاد ہے جس کتاب میں تمام اہلسنّت کو بدعتی ،گمراہ ،گمراہ گر لکھا ہے اس میں حنفیہ کی نسبت کچھ ہو تو کیا جائے شکایت ہے،لہٰذا کوئی محل تشویش نہیں…الخ ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید ج۲۹ص۲۲۳،رضا فاؤنڈیشن لاہور) علامہ ملتانی اور فاضل بریلوی علیہما الرّحمہ کی عبارات سے واضح ہوا کہ : بڑے بڑے علماء ومؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ کتاب حضرت غوث پاک کی نہیں

حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے استاذ جلیل علامہ مرابن حجر مکی لکھتے ہیں : وایّاک أن تغتر أیضاً بما وقع فی’’الغنیۃ‘‘لامام العارفین وقطب الاسلام والمسلمین الاستاذ عبدالقادر الجیلانی،فانہ دسہ علیہ فیھا من سینتقم اللہ منہ والا فھو برئی من ذلک وکیف تروج علیہ ہذہ المسألۃ الواھیۃ مع تضلعہٖ من الکتاب والسنۃ وفقہ الشافعیۃ والحنابلۃ حتی کان یفتی علی المذہین ھذاماانضم لذک من أن اللہ من علیہ من المعارف والخوارق الظاہرۃ والباطنۃ وماأنبا عنہ ماظہر علیہ وتواتر من احوالہٖ…الخ۔(الفتاویٰ الحدیثیہ ۲۷۱،مطلب:أن مافی(الغنیۃ)للشیخ عبدالقادر قدس سرہٗ مدسوسۃ علیہ من بعض الممقوتین)

ترجمہ : امام العارفین،قطب الاسلام والمسلمین،استاذ عبدالقادر جیلانی کی تصنیف غنیہ میں جو کچھ مذکور ہے وہ تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے،کیوں کہ یہ بات کسی نے بطور سازش کتاب میں شامل کردی ہے اور اللہ تعالیٰ اس شخص سے انتقام لے گا،ورنہ حضرت شیخ اس سے بری ہیں،یہ بے بنیاد مسئلہ ان کی طرف کس طرح منسوب کیا جاسکتا ہے جبکہ وہ کتاب وسنت اور فقہ شافعیہ اور حنابلہ میں کامل دسترس رکھتے تھے، حتی کہ دونوں مذہبوں پر فتویٰ دیتے تھے۔اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ظاہری اور باطنی معارف وخوارق سے نوازرکھاتھا اور ان کے احوال تواتر کے ساتھ منقول ہیں

  مولانا عبدالحی لکھنوی لکھتے ہیں : ان الغنیۃ الیس من تصانیف الشیخ محی الدّین رضی اللہ عنہ انہ لم یثبت ان الغنیۃ من تصانیفہٖ و ان اشتھر انتسابھا الیہ۔
(الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل )
ترجمہ : بے شک غنیۃ الطالبین حضرت شیخ محی الدین جیلانی علیہ الرحمۃ کی نہیں ہے کیو نکہ آج تک ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ آپ کی تصانیف میں سے ہے اگرچہ اس کی نسبت آپ کی طرف بہت مشہور ہو چکی ہے






(٢٩٨۔٢٩٩ شرح العقيدة الطحاوية)



کاسانی حنفی ممنوع وسیلہ پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں
وَيُكْرَهُ لِلرَّجُلِ أَنْ يَقُولَ فِي دُعَائِهِ أَسْأَلُك بِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك وَبِحَقِّ فُلَانٍ لِأَنَّهُ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ عَلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى جَلَّ شَأْنُهُ وَكَذَا يُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ فِي دُعَائِهِ أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 504/6


نافع رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ایک شخص کو جو ابن عمر رضی اللہ عنھماکے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ چھینک آئی۔ اس شخص نے کہا الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ‘‘ہر تعریف اللہ کے لئے ہے اور رسول اللہ پر سلام ہو ۔
یہ سن کر ابن عمر رضی اللہ عنھما نے فرمایا : وانا اقول الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ ولیس ھکذا علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علمنا ان نقول الحمد للہ علی کل حال۔
( الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 2738 خلاصة حكم المحدث: حسن)’’
میں بھی کہتا ہوں الحمدللہ اور السلام علی رسول اللہ لیکن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح تعلیم نہیں دی بلکہ ہمیں تو یہ تعلیم دی ہے کہ ہم ہر حال میں الحمدللہ کہیں ‘‘۔
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جسے چھینک آئے وہ الحمد للّٰہ کہے مگر اس موقع پر والسلام علی رسول اللہ کے الفاظ کی نبی کریم نے کوئی تعلیم نہ فرمائی تھی۔ اس لئے ابن عمر رضی اللہ عنھما نے اس پر انکار کیا۔


 ◈16

 الإمام سلطان سيد علي بن موسى الرضا  قدس الله سره

امام علی رضا قدس الله سره  نیشاپور میں تشریف لائے، چہرہ مبارک کے سامنے ایک پردہ تھا. ساتھ بیشمار طالبانِ علم وحدیث حاضرِ خدمتِ انور ہوئے اور گڑگڑا کر عرض کیا اپنا جمالِ مبارک ہمیں دکھائیے اور اپنے آبائے کرام سے ایک حدیث ہمارے سامنے روایت فرمائیے،
امام علی رضا قدس الله سره نے سواری روکی اور غلاموں کو حکم فرمایا پردہ ہٹالیں خلقِ خدا کی آنکھیں جمال مبارک کے دیدار سے ٹھنڈی ہوئیں۔ دو گیسو شانہ مبارک پر لٹک رہے تھے۔ پردہ ہٹتے ہی خلق خدا کی وہ حالت ہوئی کہ کوئی چلّاتاہے، کوئی روتا ہے، کوئی خاک پر لوٹتا ہے، کوئی سواری مقدس کا سُم چومتا ہے۔ اتنے میں علماء نے آواز دی :خاموش سب لوگ خاموش ہورہے۔ دونوں امام مذکور نے حضور سے کوئی حدیث روایت کرنے کو عرض کی حضور نے فرمایا:

حدثنی ابوموسی الکاظم عن ابیہ جعفر الصادق عن ابیہ محمدن الباقرعن ابیہ زین العابدین عن ابیہ الحسین عن ابیہ علی ابن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنھم قال حدثنی حبیبی وقرۃ عینی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال حدثنی جبریل قال سمعت رب العزۃ یقول لا الٰہ الااﷲ حصنی فمن قال دخل حصنی امن من عذابی
یعنی امام علی رضا امام موسٰی کاظم وہ امام جعفر صادق وہ امام محمدباقر وہ امام زین العابدین وہ امام حسین وہ علی المرتضٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے روایت فرماتے ہیں کہ میرے پیارے میری آنکھوں کی ٹھنڈک رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھ سے حدیث بیان فرمائی کہ ان سےجبریل نے عرض کی کہ میں نے اﷲ عزوجل کو فرماتے سنا کہ لا الٰہ الااﷲ میراقلعہ ہے تو جس نے اسے کہا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوا، میرے عذاب سے امان میں رہا۔
(2؎ الصواعق المحرقہ الفصل الثالث مطبوعہ مکتبہ مجیدیہ ملتان ص۲۰۵)

 🌷 امام احمد بن حنبل رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا :
لو قرأت ھذا الاسناد علی مجنون لبرئ من جننه
یہ مبارک سند اگر مجنون پر پڑھوں تو ضرور اسے جنون سے شفا ہو۔
(الصواعق المحرقہ، الفصل الثالث، ص ۲۰۵)

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ كُوفِيٌّ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَجُلًا يَسْتَغْفِرُ لِأَبَوَيْهِ وَهُمَا مُشْرِكَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ أَتَسْتَغْفِرُ لِأَبَوَيْكَ وَهُمَا مُشْرِكَانِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَوَلَيْسَ اسْتَغْفَرَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَهُوَ مُشْرِكٌ ؟ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ سورة التوبة آية 113 ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ.
میں نے ایک شخص کو اپنے مشرک ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہوئے سنا تو میں نے اس سے کہا: کیا اپنے مشرک ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہو؟ اس نے کہا: کیا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت طلب نہیں کی تھی؟ پھر میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ پر یہ آیت نازل ہوئی «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين» ”نبی اور مومنین کے لیے زیبا نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت طلب کریں“ ( التوبہ: ۱۱۳ ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں سعید بن مسیب سے بھی روایت ہے اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں
جامع الترمذي
: کتاب: تفسیر قرآن کریم
تخریج؛ تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجنائز ۱۰۲ (۲۰۳۸) (تحفة الأشراف : ۱۰۱۸۱)، و مسند احمد (۱/۱۳۰، ۱۳۱)
Hadith #3101



ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’جو بلا اکراہ کلمۂ کفر بکے بلا فرقِ نیت مطلقاً قطعا ًیقینا اجماعاً کافر ہے ۔پھر اس پر فقہائے کرام کے جزئیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : فتاویٰ امام قاضی خاں وفتاویٰ عالمگیری میں ہے ’’رجل کفر بلسانہ طائعا وقلبہ مطمئن بالایمان یکون کافرا و لایکون عند اﷲ تعالٰی مومنا ‘‘ ایک شخص نے زبان سے حالت ِخوشی میں کفر کا اظہار کیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مومن نہیں ہے۔(فتاوی عالمگیری،کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، ۲/۲۸۳۔ فتاوی عالمگیری،کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، ۲/۲۸۳)
حاوی میں ہے ’’من کفر باللسان و قلبہ مطمئن بالایمانفھوکافر و لیس بمومن عنداﷲ تعالٰی‘‘ جس نے زبان سے کفرکیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مومن نہیں۔
جواہر الاخلاطی اور مجمع الانہر میں ہے ’’من کفر بلسانہطائعا و قلبہ مطمئن بالایمان کان کافرا عندنا و عند اﷲ تعالٰی ‘‘ جس نے زبان سے حالتِ خوشی میں کفر کااظہا ر کیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ ہمارے نزدیک کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مومن نہیں۔ (مجمع الانہر، کتاب السیر والجہاد، باب المرتد، ۲/۵۰۲، جواہر الاخلاطی، کتاب السیر، ص۶۸، مثلہ)
شرح فقہ اکبر میں ہے ’’ اللسان ترجمان الجنان فیکوندلیل التصدیق وجودا و عدما فاذا بدلہ بغیرہ فی وقت یکون متمکنا من اظہارہ کان کافرا و اما اذا زال تمکنہ من الاظہار بالاکراہ لم یصر کافرا ‘‘زبان دل کی ترجمان ہے تو یہ دل کی تصدیق یا عدمِ تصدیق پر دلیل ہوگی تو جب وہ اظہارِ ایمان پر قدرت کے باوجود عدمِ تصدیق کااظہار کرتاہے تو وہ کافر ہوگیا البتہ جب کسی جبر کی وجہ سے اظہار پر قدرت نہ ہو تو اب کافر نہ ہوگا۔ (منح الروض الازہر شرح فقہ الاکبر، الایمان ہو التصدیق والاقرار، ص۸۶)
طریقہ محمدیہ وحدیقہ ندیہ میں ہے ’’(حکمہ) ای التکلمبکلمۃ الکفر( ان کان طوعا) ای لم یکرھہ احد( من غیر سبق لسان) الیہ(احباط العمل وانفساخ النکاح) ‘اگر کلمۂ کفر کا تکلم خوشی سے ہے یعنی کسی چیز کا اکراہ و جبر نہیں جبکہ سبقت ِلسانی نہ ہو، تو اس کا حکم یہ ہے کہ عمل ضائع اور نکاح ختم ہوجائے گا(الحدیقۃ الندیہ، القسم الثانی، المبحث الاول، النوع الاول من الستین کلمۃ الکفر العیاذ باللہ، ۲/۱۹۷-۱۹۸)۔(فتاوی رضویہ ، کتاب السیر، ۱۴/۶۰۰-۶۰۱)

No comments:

Post a Comment