Thursday, 26 November 2020

دین میں غلو کرنے سے بچو

 

دین میں غلو کرنے سے بچو  

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! بچو تم دین میں غلو کرنے سے کیونکہ تم سے پہلے لوگ (قومیں) دین میں اسی غلو کیوجہ سے تباہ وبرباد ہوئے ۔ -- سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 1189 حدیث مرفوع۔ مزید دیکھئے؛ سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 969 حدیث مرفوع اور اور یہی کتاب حدیث 971 اور مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 14 حدیث مرفوع اور یہی کتاب حدیث 1138 

  قُلْ يٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِکُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا کَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ (المائدۃ:۷۷)

  کہو کہ اے اہل کتاب ! اپنے دین (کی بات) میں ناحق مبالغہ نہ کرو، اور ایسے لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلو جو (خود بھی) پہلے گمراہ ہوئے اوردیگر لوگوں کو گمراہ کر گئے اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے ۔

غلو کی صراحت کے ساتھ ممانعت تو انہی دو آیات کریمہ میں ہے لیکن اس مفہوم کی قرآن مجید میں آیات کریمہ بہت کثرت کے ساتھ ہیں جن میں دین میں غلو سے منع کردیا گیا ہے۔ مثلاً : ملاحظہ فرمائیں ، سورۃ المائدۃ : ۷۲،۷۳ ، سورۃ التوبۃ : ۳۰ ، سورۃ الکھف : ۲۸ ، اور دیگر بہت سی آیات لیکن سوال یہ ہے کہ دین میں یہ غلو ہے کیا جس سے اس قدر سختی کے ساتھ منع کر دیا گیا ہے۔

علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ '' دین میںغلو کے معنی افراط وتفریط کے ہیں ، جیسا کہ یہودیوں نے اور عیسائیوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے بارے میں افراط وتفریط سے کام لیا۔ یہودیوں نے ان کی شان اس قدر گھٹا دی کہ وہ انہیں ایک شریف انسان بھی نہیں سمجھتے تھے اور عیسائیوں نے ان کی شان اس قدر بڑھا دی کہ انہیں انسان کی بجائے اللہ سمجھنا شروع کر دیا ۔

(تفسیرالقرطبی ۶/۷۷)

 

غلو کی انواع واقسام :
غلو کے بارے میں وارد آیات واحادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ دین میں غلو کی کئی قسمیں ہیں ۔ ان میں سے چند اقسام کی طرف اشارہ کیا جاتاہے

عقائد میں غلو :


عقائد میں غلو سے مراد یہ ہے کہ قرآن وسنت میں ہمیں جن عقائد کی تعلیم دی گئی ہے ان کو چھوڑ کر ہم خود ساختہ عقائد کو اختیار کرلیں۔ خود ساختہ یا انسانوں کے بنائے ہوئے عقائد پر کتنا ہی خوشنما لیبل کیوں نہ لگا دیا جائے ، دین وشریعت کے نقطہ نظر سے وہ عقائد بہر حال باطل قرار پائیں گے ۔ جیسا کہ اہل کتاب نے ازراہِ کذب وافتراء اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ کہا  


اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ (المائدۃ:۷۳)

اللہ تین کا تیسرا ہے

یا جیسے عیسائیوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ اللہ یا اللہ کے بیٹے ہیں، یا یہودیوں نے اس بات کو عقیدہ کے طور پر اختیار کر لیا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام تو ایک شریف انسان بھی نہیں ہیں ( معاذ اللہ) یا جیسے بعض نام کےمسلمانوں نے بھی بعض عظیم شخصیتوں کے بارے میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ ان کو بھی ان تمام صفات سے موصوف قرار دے دیا جو صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ذات گرامی کے ساتھ مخصوص ہیں۔

 

مشکل کشا اور حاجت روا صرف اللہ کی ذات ہے ، نفع ونقصان صرف اسی کے قبضہ اختیار میں ہے۔ دعائیں اور فریادیں صرف وہی سنتا ہے اولاد دینا یا نہ دینا صرف اسی کی مرضی ومشیئت پر منحصر ہے ۔ الغرض یہ تمام صفات جو اللہ کی ذات پاک سے مخصوص ہیں انہیں غیر اللہ میںتسلیم کیاجائے تو یہ دین میں غلو کی بدترین شکل ہے، جسے شرک کے نام سے بھی موسوم کیاجاتاہے اور شرک اللہ تعالیٰ کے ہاں ناقابل معافی گناہ ہے۔
 

  اِنَّ اللّٰہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَکَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ يُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا (النساء:۴۸)

 
اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کر دے اور جس نے اللہ کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا

 

دین میں غلو سے سختی کے ساتھ ممانعت کے باوجود افسوس کہ بہت سے مسلمانوں نے بھی دین میں غلو کو اختیار کرلیا، مولانا حالی نے ایسے ہی غالی مسلمانوں کا شکوہ کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
  

کرے گر غیر بت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
کہے آگ کو اپنا قبلہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے

 

  غلو کی ایک صورت تو یہ اختیار کی گئی کہ بعض لوگوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ اس کا ترجمہ کرنا گناہ ہے بلکہ اسے کفر قرار دیا گیا اور اس سے درحقیقت وہ اپنی ان خرافات اور بدعات پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں جسے انہوں نے دین کے نام سے ایجاد کر رکھا ہے۔ جبکہ دین میں اس کا نہ صرف یہ کہ قطعا کوئی حکم نہیں بلکہ قرآن وسنت میں ان سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے۔

 

  يُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ (المائدۃ:۴۱)
باتوں کو ان کے مقامات (میں ثابت ہونے) کے بعد بدل دیتے ہیں

 

دین میں کمی و بیشی ممنوع ہے :
 حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : '' شریعت میں جو بات مقرر کردی گئی ہے اس پر اپنی طرف سے اضافہ کرنے سے نبی اکرم ﷺ نے منع فرمادیا ہے ۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ بندہ اگر از خود اپنے آپ پر سختی کا سبب بنے گا مثلا جو لوگ وضو یا غسل کے مسئلہ میں وسوسوں کا شکار رہتے ہیں اور اس سلسلہ میں بے پناہ تکلیف اٹھاتے ہیں اور وضو وغسل میں اس طرح مبالغہ سے کام لیتے ہیں کہ ان کا وضو اورغسل کبھی مکمل ہوتاہی نہیں ۔ شرعی طور پر سختی کی مثال انسان کاکسی کام کے لئے نذر ماننا ہے ، نذر مان کر انسان خود اپنے آپ ہی کو سختی میں مبتلا کرلیتا ہے کہ شرعا نذر کا پورا کرنا ضروری ہوجاتاہے ۔ ( إغاثۃ اللہفان ۱/۱۳۲)

 

غلو باعث ہلاکت ہے :
 

تشدد اور غلو کے ذریعہ انسان اپنے آپ کو بے جا طور پر سختی اور مصیبت میں ڈال لیتاہے۔ اسی وجہ سے شریعت میں غلو سے منع کر دیاگیا ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے تو اسے سابقہ قوموں کی ہلاکتوں کا سبب بھی قرار دیا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حج میں رمی جمار کے لئے رسول اللہ ﷺ نے مجھے کنکریاں لانے کا حکم دیا تو میں چھوٹی چھوٹی سی کنکریاں چن کر لایا اور جب میں نے انہیں آپ کے دست مبارک پر رکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا  

بِأَمْثَالِ ہَؤُلَاءِ وَإِيَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ فَإِنَّمَا أَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ( النسائی ، حدیث: ۲۸۶۳ ، سنن ابن ماجہ : ۳۰۲۹)
 
اس طرح کی کنکریاں ہونی چاہئیں توتم دین میں غلو کرنے سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو ہی نے ہلاک کردیا تھا۔ 


صنفان من أمتي لن تنالہما شفاعتي ولن أشفع لہما ولن يدخلا في شفاعتي: سلطان غشوم عسوف، وغال مارق في الدين(الترغیب والترہیب لقوام السنۃ :۳/۷۶)


میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں ، جن کو میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔ ظالم اور غاصب بادشاہ اور دین میں غلو کرنے والے لوگ

 

دین تو آسان ہے :
انسان اپنی مرضی سے دین کو ہوا بنا لے تو الگ بات ہے ورنہ اللہ رب ذوالجلال نے اپنے دین کو بہت آسان بنایا ہے

 

 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلاَّ غَلَبَہُ (صحیح البخاری مع الفتح ۳۹/۱ ) 

بے شک دین آسان ہے اور جوشخص دین میں سختی کرے گا تو دین اس پر غالب آجائے گا۔

  غلو شرک تک پہنچا دیتاہے :

قرآن مجید کےمطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ غلو انسان کو شرک جیسی مہلک بیماری میں مبتلا کردیتاہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے انبیاء کرام کی شان میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ انہوں نے سیدناعزیر اور سیدنا عیسی علیہما السلام کو اللہ کے بیٹے قرار دے دیا ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی جو لم یلد ولم یولد کے اوصاف سے اتصاف پذیر ہے ، کوئی انسان خواہ وہ مقام ومرتبہ کے اعتبار سے کتنے ہی اونچے مقام پر کیوں فائز نہ ہو' اس کا بیٹا کیسے ہوسکتاہے مگر غلو کی کرشمہ سازی ملاحظہ کیجئے کہ اس نے انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیا ہے اور خالق ومخلوق کے درمیان فرق کو ملحوظ نہ رہنے دیا ۔ قوموں کو تباہ وبرباد کرنے والا یہ ایسا شدید مرض ہے کہ رحمۃ للعالمین ، سرور دنیا ودین ﷺ فکر مند رہے کہ سابقہ امتوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آپ کی امت بھی کہیں اس میں مبتلا نہ ہوجائے۔

 

  آخر وقت تک آپ ﷺ کو یہ فکر دامن گیر رہا حتی کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت بالکل آخری لمحات میں آپ ﷺنے ارشاد فرمایا :
لَعْنَۃُ اللہِ عَلَى الْيَہُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِہِمْ مَسَاجِدَ (البخاری ، حدیث : ۴۳۵ ، ومسلم ، حدیث : ۵۳۱)

یہود ونصاریٰ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا۔

اس حدیث کے راوی ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : یحذر ما صنعوا '' کہ رسول اللہ ﷺ اپنی امت کو یہود ونصاریٰ کے ان جیسے افعال کے ارتکاب سے ڈرارہے تھے کیونکہ انبیاء واولیاء کی شان میں غلو ان کی عبادت کا سبب بن جاتاہے اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا  

لاَ تُطْرُونِي کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ فَقُولُوا عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُہ(صحیح البخاری ، حدیث : ۳۴۴۵)
''میری شان میں اس طرح مبالغہ نہ کرنا جیسے عیسائیوں نے ابن مریم کی شان میں مبالغہ سے کام لیا تھا۔ میں تو اللہ کا بندہ ہوں لہذا مجھے عبد اللہ اور رسول اللہ کہو۔
 

آپ ﷺ نے اپنی امت کو بڑی سختی کے ساتھ غلو سے منع فرمایا ہے ۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور تین بار ارشاد فرمایا :
ہلک المتنطعون (صحیح مسلم ، حدیث : ۲۶۷)
''غلو کرنے والے ہلاک ہوگئے۔''

 

  امام جعفر طحاوی رحمہ اللہ نے اسلام کا تعارف کرواتے ہوئے لکھا ہے 
  ارض وسماء میں اللہ کا دین ایک ہی ہے اور وہ ہے دین اسلام ، جو غلو وتقصیر ، تشبیہ وتعطیل، جبر وقدر اور امن ومایوسی (امید وخوف) کے درمیان ہے ۔  ( شرح عقیدۃ طحاویہ ص : ۵۸۵)

 

 

نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں

اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں

 


No comments:

Post a Comment