بشریت نبوی
پہلے انبیا کی طرح ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بشر تھے ، جب پہلی امتوں نے انبیائے علیہم السلام کو جھٹلایا، تو ان کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ آپ بشر ہیں، بشر منصب نبو ت و رسالت پر فائز نہیں ہو سکتا، اللہ رب العزت نے ان کے اس نظریہ کی تردید فرمائی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا، تو مشرکین مکہ نے بھی یہی اعتراض اٹھایا ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے
(وَ أَسَرُّوا النَّجْوَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ھَلْ ھٰذَآ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ أَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْن) (الـأنبیاء : ٣) ''ظالم گروہ سرگوشیاں کرنے لگا کہ یہ تو آپ کے جیسا ایک بشر ہی ہے، پھر کیا ہے کہ آنکھوں دیکھا جادو آپ پہ اثر کر جاتا ہے
اللہ نے ان کے جواب میں فرمایا : (وَمَآ أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ إِلَّا رِجَالًا نُّوْحِي إِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْا أَھْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ) (الـأنبیاء : ٧) ''آپ سے قبل جتنوں پر بھی ہم نے وحی کی، آدمی ہی تھے، اگر آپ کو نہیں معلوم تو اہل ذکر سے پوچھ لیجئے
قومِ نوح نے نوح
کی نبوت کا انکار بھی اسی وجہ سے کیا تھا۔ فرمانِ الٰہی ہے : (مَا نَرَاکَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا) (ہود : ٢٧) ''ہم تجھے بس اپنے ہی جیسابشر دیکھتے ہیں َ
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : وَجَحَدُوا نُبُوَّۃَ نَبِیِّہِمْ نُوْحٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ : مَا نَرَاکَ یَا نُوحُ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا، یَعْنُونَ بِذٰلِکَ أَنَّہ، آدَمِيٌّ مِثْلُہُمْ فِي الْخَلْقِ وَالصُّورَۃِ وَالْجِنْسِ، فَإِنَّہُمْ کَانُوا مُنْکِرِینَ أَنْ یَّکُونَ اللّٰہَ یُرْسِلَ مِنَ الْبَشَرِ رَسُولًا إِلٰی خَلْقِہٖ . ''انہوں نے اپنے نبی نوحuکی نبوت کا انکار کیا کہا : نوح! ہم تجھے اپنے جیسا بشر ہی دیکھتے ہیں۔ مراد یہ تھی کہ نوحuتخلیق، شکل و صورت اور جنس میں انہی کی طرح کے ایک آدمی ہیں۔ کفار کو یہ بات تسلیم نہیں کہ اللہ اپنی مخلوق کی طرف جنس بشر سے کوئی رسول بھیجے۔'' (تفسیر طبری : ١٢/٣٦)
فرعون اور اس کے حواریوں نے موسیٰ اور ہارون iکے بارے میں کہا تھا : (أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا) (المؤمنون : ٤٧) ''کیا ہم اپنے جیسے دو بشروں پر ایمان لائیں؟'' بیسیوں احادیث اور آیات قرآنیہ میں صراحت سے اس حقیقت کا بیان موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہی تھے، ذیل میں ان آیات کو ملاحظہ کیجئے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت پر دلالت کناں ہیں۔
بشریت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے دلیل نمبر ١: (قُلْ إِنَّمَآ أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰۤی إِلَيَّ أَنَّمَآ إِلٰھُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ) (الکھف : ١١٠، حمۤ السجدہ : ٦) ''کہئے کہ میں آپ ہی کے ایسا بشر ہوں، مجھ پر وحی کی جاتی ہے کہ آپ کا معبود ایک ہی ہے۔'' دلیل نمبر ٢: (قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي ھَلْ کُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلاً) (بني إسرائیل : ٩٣) ''کہئے کہ میں مبعوث کیا ہوابشر ہوں، پاک ہے میرا رب۔
دلیل نمبر ٣: (لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَئنْفُسِھِمْ) (آلِ عمران : ١٦٤) ''اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان انہی کی جنس سے ایک رسول بھیج کر کیا۔'' دلیل نمبر ٤: (لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ) (التوبۃ : ١٢٨) ''آپ کے ہم جنس آپ کے رسول بن کر آئے ہیں۔'' دلیل نمبر ٥: (وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ یُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَ ہُمُ الْہُدٰی إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُولًا ٭ قُلْ لَّوْ کَانَ فِي الْـأَرْضِ مَلَائِکَۃٌ یَّمْشُونَ مُطْمَئِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَّسُولًا) (بني إسرائیل : ٩٤، ٩٥) ''جب وحی کا نزول ہوا، تو اسی باعث لوگوں نے ایمان قبول نہیں کیا کہ وہ کہتے تھے کہ کیا اللہ نے بشر کو رسول بنا دیا ہے؟ کہئے کہ فرشتے اگر زمین میں مطمئن ہو کر چلا کرتے، توہم آسمانوں سے ایک فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے۔'' حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : أَيْ مِنْ جِنْسِہِمْ، وَلَمَّا کُنْتُمْ أَنْتُمْ بَشَرًا بَعَثْنَا فِیکُمْ رُسُلَنَا مِنْکُمْ لُطْفًا وَّرَحْمَۃً . ''مطلب یہ کہ فرشتوں کی جنس سے ایک رسول آتا، لیکن آپ بشر تھے، اس لئے اللہ نے اپنے فضل وکرم سے آپ کی طرف آپ کا ہم جنس رسول بھیج دیا۔ (تفسیر ابنِ کثیر : ٤/١٧٤)
دلیل نمبر ٦: فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (مَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُؤْتِیَہُ اللّٰہُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُونُوا عِبَادًا لِّي مِنْ دُونِ اللّٰہِ) (آل عمران : ٧٩) ''کسی بشر کو یہ زیبا نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب وحکمت اور نبوت دے، پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کوچھوڑ کر میری بندگی کرو۔'' دلیل نمبر ٧: فرمان باری تعالیٰ ہے : (قۤ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ ٭ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَ ہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ فَقَالَ الْکَافِرُونَ ہٰذَا شَيْءٌ عَجِیبٌ) (ق : ١، ٢) ''ق! قسم ہے قرآنِ مجید کی، بلکہ انھوں نے تعجب کیاکہ ان کے پاس انہیں کا ہم جنس ایک ڈرانے والا آیا، کافر کہنے لگے، یہ تو عجیب بات ہے۔
''انہی میں سے'' کے الفاظ سے ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے ، انہی کی جنس سے تھے۔ تبھی تو مشرکین کو تعجب ہوا کہ ہم میں سے ایک انسان نبوت کا دعویدار کیسے بن گیا؟ بشر کیسے اللہ کا رسول ہو سکتا ہے؟ دلیل نمبر ٨: فرمایا : (أَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَیْنَا إِلٰی رَجُلٍ مِّنْہُمْ) (یونس : ٢) ''یہ بات لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے کہ انہی کے ہم جنس کی طرف ہم نے وحی نازل کی؟
دلیل نمبر٩: مشرکین مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر رسول ہونے پر شک کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں سمجھایا : (وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَیْہِمْ فَاسْأَلُوا أَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ) (النحل : ٤٣، الأنبیاء : ٧) ''آپ سے قبل بھی تو ہم نے آدمی ہی رسول بنائے تھے، ہم ان کی طرف وحی کرتے تھے۔نہیں معلوم ، تو اہل ذکر سے پوچھ لیجئے۔'' دلیل نمبر١٠: دوسری بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیاo بشر ہی تھے۔ یہ اللہ کا قانون ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے انسان ہی نبی ہو سکتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیلاً) (الأحزاب : ٦٢) ''آپ اللہ کے قانون کو تبدیل ہوتا نہیں پائیں گے
لہٰذا بشر کا رسول ہونا، اللہ کا قانون ہے، یہی قانون نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی لاگو ہوا۔ دلیل نمبر١١: فرمان باری تعالیٰ ہے : (کَمَا أَرْسَلْنَا فِیکُمْ رَسُولًا مِّنْکُمْ یَتْلُوا عَلَیْکُمْ آیَاتِنَا) (التوبۃ : ١٥١) ''جیسے ہم نے آپ کے ہم جنس کو رسول بنا کر بھیجا، وہ آپ پر ہماری آیات تلاوت کرتا ہے۔'' دلیل نمبر ١٢: فرمان خداوندی ہے : (وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ إِذْ قَالُوا مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَيْئٍ) ''انہوں نے اللہ کی قدر اس طرح نہیں کی جس طرح اس کا حق تھا، کہتے رہے کہ اللہ نے بشر پر تو کوئی شے نازل ہی نہیں کی۔
پھر فرمایا : (قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْکِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِہٖ مُوسٰی نُورًا وَّہُدًی لِلنَّاسِ) (الأنعام : ٩١) ''کہئے کہ انسا نوں کے لئے ہدایت اور نور ، وہ کتاب کس نے نازل کی تھی، جو موسیuلے کر آئے تھے؟'' دلیل نمبر ١٣: اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ أَزْوَاجًا وَّذُرِّیَّۃً وَّمَا کَانَ لِرَسُولٍ أَنْ یَأْتِيَ بِآیَۃٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰہِ لِکُلِّ أَجَلٍ کِتَابٌ) (الرعد : ٣٨) ''آپ سے قبل ہم نے رسولوں کو بھیجا، انہیں بیوی بچوں والا بنایا، کسی رسول کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ اذن الٰہی کے بغیر کوئی نشانی لے آتا، ہر مقررہ وقت کے لئے ایک کتاب ہے۔''
امام طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں
یَقُولُ تَعَالٰی ذِکْرُہ، : وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا یَا مُحَمَّدُ! رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ إِلٰی أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِ أُمَّتِکَ، فَجَعَلْنَاہُمْ بَشَرًا مِّثْلَکَ، لَہُمْ أَزْوَاجٌ یَّنْکِحُونَ وَذُرِّیَّۃٌ أَنْسَلُوہُمْ، وَلَمْ نَجْعَلْہُمْ مَلَائِکَۃً لَّا یَأْکُلُونَ وَلَا یَشْرَبُونَ وَلَا یَنْکِحُونَ، فَنَجْعَلُ الرَّسُولَ إِلٰی قَوْمِکَ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مَثْلَہُمْ وَلٰکِنْ أَرْسَلْنَا إِلَیْہِمْ بَشَرًا مِّثْلَہُمْ، کَمَا أَرْسَلْنَا إِلٰی مَنْ قَبْلَہُمْ مِنْ سَائِرِ الْـأُمَمِ بَشَرًا مِّثْلَہُمْ . ''اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے محمد! یقینا ہم نے آپ سے قبل ان امتوں کی طرف رسول بھیجے تھے، جو آپ کی امت سے پہلے ہو گزری ہیں۔ ہم نے انہیں آپ کی طرح بشر ہی بنایا تھا، ان کی بیویاں تھیں جن سے انہوں نے نکاح کیے اور ان کی اولاد تھی جن سے ان کی نسل چلی۔ ہم نے انہیں فرشتے نہیں بنایا تھا کہ وہ نہ کھاتے پیتے اور نہ نکاح کرتے۔ ایسا اگر ہوتا تو ہم پہلی قوموں کی طرح آپ کی قوم کی طرف بھی فرشتوں میں سے رسول بھیجتے۔ لیکن ہم نے آپ کی قوم کی طرف ان جیسا ایک بشر بھیجا ہے جیسا کہ پہلی امتوں کی طرف ان کی طرح کے بشر ہی رسول بن کر آتے رہے۔'' (تفسیر الطبري : ١٣/٢١٦)
دلیل نمبر ١٣: اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکًا لَجَعَلْنَاہُ رَجُلًا وَّلَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَّا یَلْبِسُونَ) (الأنعام : ٩) ''اگر ہم نے نبوت کسی فرشتے کو دی ہوتی، تو اسے بھی آدمی ہی کی شکل میں بھیجتے، ہم ان پر یہ شبہ قائم رکھتے، جس میں وہ اب پڑے ہوئے ہیں۔
حدیثی دلائل
دلیل نمبر ١: سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کسرٰی کے ترجمان سے کہا : بَعَثَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْـأَرَضِینَ تَعَالٰی ذِکْرُہ، وَجَلَّتْ عَظَمَتُہ، إِلَیْنَا نَبِیًّا مِنْ أَنْفُسِنَا نَعْرِفُ أَبَاہُ وَأُمَّہ، . ''زمین و آسمان کے رب نے ہماری طرف ہماری جنس سے ایک نبی بھیجا ہے ، جن کے والدین کو ہم جانتے ہیں ۔'' (صحیح البخاري : ١/٤٤٧، ح : ٣١٥٩)
دلیل نمبر ٢: ابو جمرہ نصر بن عمران کہتے ہیں کہ سیدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ہمیں کہا ، میں آپ کو ابوذر رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کی خبر نہ دوں ؟ عرض کی ، ہاں ! کہا ، میں غفار قبیلے کا فرد تھا : فَبَلَغَنَا أَنَّ رَجُلاً قَدْ خَرَجَ بِمَکَّۃَ یَزْعُمُ أَنَّہ، نَبِيٌّ . ''ہمیں خبر پہنچی کہ مکہ میں ایک آدمی ظاہر ہوا ہے، جو نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے۔'' میں نے اپنے بھائی (انیس غفاری )سے کہا ، اس آدمی کے پاس جائیں اور اس سے بات چیت کریں ، اس کی خبر لائیں ، وہ چلا گیا اور آپ سے ملاقات کی ، پھر واپس آیا ، میں نے کہا ، کیا خبر ہے ؟ کہا: وَاللّٰہِ لَقَدْ رَأَیْتُ رَجَلاً یَّأْمُرُ بِالْخَیْرِ وَیَنْہٰی عَنِ الشَّرِّ . ''بخدا! ایک آدمی کو دیکھا ، جوخیر و بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتاہے۔'' (صحیح البخاري : ١/٤٩٩، ح : ٣٥٢٢، صحیح مسلم : ٢/٢٩٧، ح : ٢٤٧٤)
دلیل نمبر ٣: عروہ بن زبیر نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے اس مشرکین کے اس رویے بابت سوال کیا، جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روا رکھا تھا۔کہنے لگے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحن کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اوراپنا کپڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں ڈال کر سختی سے گلا دبانے لگا ، سیدنا ابو بکر تشریف لا ئے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور کر دیا اور یہ آیت تلاوت فرمائی : (أَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا أَنْ یَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰہُ وَقَدْ جَاءَ کُمْ بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ رَّبِّکُمْ) (المؤمن : ٢٨) ''اس آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو، جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے، وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانیاں لے کر آیا ہے۔'' (صحیح البخاري : ٢/٧١١۔٧١٢، ح : ٤٨١٥)
دلیل نمبر ٤: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سنا : اللّٰہُمَّ ! إِنَّ مُحَمَّدًا بَشَرٌ یَّغْضَبُ کَمَا یَغْضَبُ الْبَشَرُ . ''اللہ! (میں) محمد یقینا بشر ہوں، اسے بھی ایک بشر کی طرح غصہ آجاتا ہے۔'' (صحیح مسلم : ٢/٣٢٤، ح : ٢٦٠١)
دلیل نمبر ٥: سیدہ ام سلمہ rبیا ن کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''میں تو بس بشر ہوں ،آپ میرے پاس مقدمات لاتے ہو ، ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنے دلائل دعوی کے نشیب و فراز کو دوسرے کی نسبت زیادہ سمجھ داری سے پیش کرے، میں (بالفرض) دلائل سن کر اس کے حق میں فیصلہ سنا دوں، (یاد رکھو) جسے میں اس کے بھائی کا معمولی سا حق بھی دے دوں، وہ اسے نہ لے، یقینا میں نے اسے آگ کا ٹکڑا دیا ہے۔'' (صحیح البخاري : ٢/١٠٦٢، ح : ٧١٦٩، صحیح مسلم : ٢/٧٤، ح : ١٧١٣)
دلیل نمبر ٦: سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے اجتماع سے خطاب فرمایا : یَآ أَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَّرَسُولُ اللّٰہِ . ''لوگو! میں بشر ہوں اور اللہ کا رسول ہوں ۔'' (مسند الإمام أحمد : ٥/١٦، الطبرانی : ٦٧٩٧۔٦٧٩٩، المستدرک للحاکم : ١/٣٢٩۔٣٣٠ واخرجہ ابوداؤد : ١٨٤ والنسائی : ١٤٨٤والترمذی : ٥٦٢ مختصراً وقال : حسن صحیح، وسندہ حسن) اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ (١٣٩٧)، امام ابنِ حبان (٢٨٥٦)نے ''صحیح '' اور حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر '' صحیح '' کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔ ثعلبہ بن عباد عبدی '' موثق حسن الحدیث '' ہے ، امام ابنِ خزیمہ ، امام ترمذی ، امام ابنِ حبان اور حاکم نے اس کی حدیث کی تصحیح کر کے اس کی توثیق کی ہے
دلیل نمبر ٧: ابو رمثہ کہتے ہیں، میں اپنے والد گرامی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا ،میرے باپ نے کہا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے : وَکُنْتُ أَظُنُّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا لَّا یَشْبَہُ النَّاسَ، فَإِذَا بَشَرٌ . ''میں سمجھتا تھا کہ آپ عام لوگوں جیسے نہیںہوں گے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو بشر تھے۔'' آپ کے بال کانوں سے ملے ہوئے تھے ، ان پر مہندی لگی تھی ، دو سبز چادریں آپ کے بدن اطہر پر تھیں ، ابا جی نے آپ کو سلام کہا ، ہم بیٹھ گئے ، تھوڑی دیر باتیں کیں تو آپ نے پوچھا ، یہ آپ کا بیٹا ہے ؟ کہا ،جی ہاں ، کعبہ کے رب کی قسم ! یہ میر ا بیٹا ہے ،فرمایا ، واقعی آپ کا بیٹا ہے ـ؟تو میرے باپ نے کہا ، میں اس کی گواہی دیتا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری اپنے باپ کے ساتھ مشابہت دیکھی اور میرے باپ کی قسم دیکھی تو مسکر دئیے۔پھر یہ آیت پڑھی
(وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أُخْرٰی) (الأنعام : ١٦٤،الاسراء : ١٥، فاطر : ١٨، الزمر : ٧) ''کوئی جان دوسری جا ن کا بوجھ نہیں اٹھا تی ۔'' (مسند الإمام أحمد : ٢/٢٢٦،٢٢٨ زوائد مسند الإمام أحمد : ٢/٢٢٧،٢٢٨، وسندہ صحیحٌ) امام حاکم (٢/٤٢٥)نے اس کو ''صحیح الاسناد ''کہا ہے
دلیل نمبر ٨: سیدنا رافع بن خدیج انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، إِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَيْءٍ مِّنْ دِینِکُمْ فَخُذُوا بِہٖ وَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَيْءٍ مِّنْ رَأْیِي فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ . ''میں یقینا بشر ہوں، آپ کو دین کے کسی کا م کا حکم دوں، تو اسے مضبوطی سے تھام لیجئے اور جب اپنی رائے سے کوئی حکم دوں، تو میں ایک بشر ہوں۔'' (صحیح مسلم : ٢/٢٦٤، ح : ٢٣٦٢)
دلیل نمبر ٩
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بات سنتا، وہ حفظ و ضبط کے ارادے سے لکھ لیتا تھا ،مجھے تمام قریشیوں نے منع کیا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات نہ لکھا کیجئے، آپ بشر ہیں، کبھی غصہ میں ہوتے ہیں، کبھی خوش۔ میں نے حدیث کو لکھنا چھوڑ دیا، اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے انگلی سے منہ کی طرف اشارہ کیااور فرمانے لگے، لکھا کیجئے! قسم اس ذات کی!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس منہ سے صرف حق نکلتا ہے۔
(مسند الامام أحمد : ٢/١٦٢، سنن أبی داؤد : ٣٦٤٦، سنن الدارمي : ٤٩٠، المستدرک للحاکم : ١/١٠٥۔١٠٦، وسندہ صحیحٌ، وأخرجہ أحمد : ٢/٢٠٧، مسند البزار : ٢٤٧٠، تاریخ أبي زرعۃ الدمشقي : ١٥١٦، الصحابۃ لأبي القاسم البغوي : ١٤٧٢، جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر : ١/٨٤۔٨٥، وسندہ حسنٌ، التقیید للخطیب : ٨٠، وسندہ حسنٌ)
دلیل نمبر ١٠: قاسم بن محمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہr سے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امور ِ خانہ کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا : کَانَ بَشَرًا مِّنَ الْبَشَرِ، یَفْلِي ثَوْبَہ،، وَیَحْلِبُ شَاتَہ،، وَیَخْدِمُ نَفْسَہ، . ''آپ جنس بشر سے تھے، اپنے کپڑوں سے جوئیں تلاش کرتے، اپنی بکریوں کادودھ دوہتے اور اپنے کام خود کرتے تھے ۔'' (مسند الإمام أحمد : ٦/٢٥٦، وسندہ حسنٌ، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم : ٨/٣٣١ عن عمرۃ وسندہ حسنٌ، وصححہ ابن حبان : ٥٦٧٤، الشمائل للترمذي : ٣٤٣، الأدب المفرد للبخاري : ٥٤١، شرح السنۃ : ٣٦٧٦، وہو حسنٌ)
دلیل نمبر ١١: ابو رِمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ مَعَ أَبِي وَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِي ظِلِّ الْکَعْبَۃِ، قَالَ لِي : أَرَأَیْتَ الرَّجُلَ الَّذِي فِي ظِلِّ الْکَعْبَۃِ ؟ ذَاکَ رَسُولُ اللّٰہِ . ''میں اپنے والد کے ہمراہ مسجد ِ(حرام )میں داخل ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے، میرے والد نے کہا، وہ سائے میں بیٹھے شخص کو دیکھا ہے؟ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔'' (مسند الإمام أحمد : ٤/١٦٣، زوائد مسند الإمام أحمد : ٢/٢٢٧، المعجم الکبیر للطبراني : ٢٢/٢٨٢، وسندہ صحیحٌ)
دلیل نمبر ١٢: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللّٰہُمَّ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ فَأَیُّمَا رَجُلٍ مِّنَ الْمُسْلِمِینَ سَبَبْتُہ،، أَوْ لَعَنْتُہ،، أَوْ جَلَدتُّہ،، فَاجْعَلْہَا لَہ، زَکَاۃً وَّرَحْمَۃً . ''اللہ! یقینا میں ایک بشر ہوں، میں کسی مسلمان کو برا بھلا کہہ دوں، اس پرلعنت کروں یا کوڑے مار دوں، تو اس کے لئے پاکیزگی اور رحمت بنا دینا۔'' (صحیح مسلم : ٢/٣٢٤، ح : ٢٦٠١)
دلیل نمبر ١٣: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ یَکُونُ أَلْحَنَ بِحُجَّتِہٖ مِنْ بَعْضٍ، فَمَنْ قَضَیْتُ لَہ، مِنْ حَقِّ أَخِیہِ شَیْئًا، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَہ، قِطْعَۃً مِّنَ النَّارِ . ''بلاشبہ میں ایک بشر ہوں۔ ممکن کہ کوئی شخص فصاحت سے اپنا مقدمہ بیان کر لیتا ہو، چنانچہ میں اپنے فیصلے میں جسے اس کے بھائی کا حصہ دے دوں، تو یقینا میں اسے آگ کا ٹکڑا دوں گا۔'' (مصنف ابن أبي شیبۃ : ٧/٢٣٤، مسند الإمام أحمد : ٢/٢٣٢، سنن ابن ماجہ : ٢٣١٨، مسند أبي یعلی : ٥٩٢٠، وسندہ، حسنٌ) اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (٥٠٧١)ے ''صحیح'' کہا ہے ۔ بوصیری کہتے ہیں : ہٰذَا إِسْنَادٌ صَحِیحٌ . ''یہ سند صحیح ہے ۔'' (مصباح الزجاجۃ للبوصیري : ح :٨٢٠)
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) لکھتے ہیں : وَفِي ہٰذَا الْحَدِیثِ مِنَ الْفِقْہِ أَنَّ الْبَشَرَ لَا یَعْلَمُونَ مَا غُیِّبَ عَنْہُمْ وَسُتِرَ مِنَ الضَّمَائِرِ وَغَیْرِہَا لِأَنَّہ، قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي ہٰذَا الْحَدِیثِ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَي إِنِّي مِنَ الْبَشَرِ وَلَا أَدْرِي بَاطِنَ مَا تَتَحَاکَمُونَ فِیہِ عِنْدِي وَتَخْتَصِمُونَ فِیہِ إِلَيَّ وَإِنَّمَا أَقْضِي بَیْنَکُمْ عَلٰی ظَاہِرِ مَا تَقُولُونَ وَتُدْلُونَ بِہٖ مِنَ الْحِجَاجِ فَإِذَا کَانَ الْـأَنْبِیَاءُ لَا یَعْلَمُونَ ذٰلِکَ فَغَیْرُ جَائِزٍ أَنْ یَصِحَّ دَعْوٰی ذٰلِکَ لِأَحَدٍ غَیْرِہِمْ مِنْ کَاہِنٍ أَوْ مُنَجِّمٍ وَإِنَّمَا یَعْلَمُ الْـأَنْبِیَاءُ مِنَ الْغَیْبِ مَا أُعْلِمُوا بِہٖ بِوَجْہٍ مِنْ وُجُوہِ الْوَحْیِ . ''اس حدیث میں یہ فقاہت ہے کہ بشر غیب چیزوں اورمستور حقائق کو نہیں جانتے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ فرمایا ہے کہ میں جنس بشر میں سے ہوں ، میں ان جھگڑوں کی باطنی صورت ِ حال نہیں جانتا ، میں توظاہری بات چیت اور گفتگو کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں ۔ جب انبیاء غیب نہیں جانتے تو کسی اور انسان مثلاً کاہن ،نجومی ، وغیرہ کی طرف سے یہ غیب جاننے کا دعویٰ قطعاً درست نہیں ؟ انبیا صرف وہی غیب جانتے ہیں، جس کی انہیں وحی کے کسی طریقے سے خبر دے دی گئی ہو ۔۔۔
(التمہید لما في المؤطأ من المعاني والأسانید : ٢٢/٢١٢)
دلیل نمبر ١٤ : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہ وَسَلَّم یَطُوفُ فِي النَّخْلِ بِالْمَدِینَۃِ فَجَعَلَ النَّاسُ یَقُولُونَ : فِیہَا صَاعٌ وَفِیہَا وَسْقٌ، فَقال : رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہ وَسَلَّم فِیہَا کَذَا وَکَذَا قَالُوا : صَدَقَ اللّٰہِ وَرَسُولُہ،، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم : إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ فَمَا حَدَّثْتُکُمْ عَنِ اللّٰہِ فَہُوَ حَقٌّ وَمَا قُلْتُ فِیہِ مِنْ قِبَلِ نَفْسِي فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أُصِیبُ وَأُخْطِیءُ . ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے باغ میں چکر لگارہے تھے ۔ لوگ کہنے لگے کہ اس کھجور پر ایک صاع کھجوریں ہیں اوراس پر ایک وسق کھجوریں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس میں اتنی کھجوریں ہیں۔ وہ لوگ کہنے لگے : اللہ اور اس کے رسول نے بالکل سچ فرمایا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یقینا میں ایک بشرہوں ۔ جو چیز میں آپ کو اللہ کی طرف سے بتاؤں، وہ حق ہوتی ہے۔ اپنی طرف سے کہوں، تو میں بشر ہوں، غلطی بھی کرتاہوں اور درستی کو بھی پہنچتا ہوں۔'' (مسند البزار : ٤٧٢٦، وسندہ، حسنٌ)
امام بزار رحمہ اللہ کے استاذ اسماعیل بن عبداللہ الاصبہانی ثقہ ، حافظ ، ثبت ہیں (سیر أعلام النبلاء للذھبي : ١٣/١٠۔١١) جعفر بن ابی المغیرہ جمہور کے نزدیک ''حسن الحدیث'' ہے ۔ اس کی سعید بن جبیر سے روایت کو امام ترمذی رحمہ اللہ (٢٩٨٠)نے ''حسن''، امام ابن حبان (٤٢٠٢)، امام حاکم(٢/٤٥٣) ، امام ضیاء المقدسی(المختارۃ : ٤/٤٨٤) اورحافظ ذہبی وغیرہم نے ''صحیح'' کہا ہے ، لہٰذا امام ابن مندہ کی بات بالفرض ثابت بھی ہوجائے، تو اس کا جمہور کے مقابلہ میں کوئی اعتبار نہ ہوگا ۔
دلیل نمبر ١٥: سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَیُّہَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ یُوشِکُ أَنْ یَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِیبَ . ''اما بعد! لوگو! میں یقینا ایک بشر ہوں، جلد ہی میرے پاس میر ے رب کا ایلچی (فرشتہ اجل) آئے گا اور میں اس کے ساتھ چل دوں گا۔'' (صحیح مسلم : ٢/٢٧٩، ح : ٢٤٠٨)
دلیل نمبر ١٧: سیدنا محمود بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : انْکَسَفَتِ الشَّمْسُ یَوْمَ مَاتَ إِبْرَاہِیمُ ابْنُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّاسُ : انْکَسَفَتِ الشَّمْسُ لِمَوْتِ إِبْرَاہِیمَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ سَمِعَ ذَلِکَ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ، أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ لَا یَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاۃِ أَحَدٍ، فَإِذَا رَأَیْتُمْ ذٰلِکَ فَافْزَعُوا إِلَی الْمَسَاجِدِ وَدَمَعَتْ عَیْنَاہُ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ تَبْکِي وَأَنْتَ رَسُولُ اللّٰہِ؟ قَالَ : إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ تَدْمَعُ الْعَیْنُ وَیَخْشَعُ الْقَلْبُ وَلَا نَقُولُ مَا یُسْخِطُ الرَّبَّ، وَاللّٰہِ یَا إِبْرَاہِیمُ إِنَّا بِکَ لَمَحْزُونُونَ وَمَاتَ وَہُوَ ابْنُ ثَمَانِیَۃَ عَشَرَ شَہْرًا، وَقَالَ : إِنَّ لَہ، مُرْضِعًا فِي الْجَنَّۃِ . ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر ابراہیم فوت ہوئے، تو اس دن سورج گرہن ہو گیا، لوگ کہنے لگے کہ یہ گرہن ابراہیم کی موت کی وجہ سے ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا، توباہر تشریف لائے ، اللہ کی حمد وثناکی ، فرمایا : اما بعد! لوگو! سورج اورچاند اللہ کی دونشانیاں ہیں ۔ یہ کسی کی موت یازندگی کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے۔ انہیں جب گرہن دیکھو، تو مسجدوں کی طرف دوڑو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں بہہ پڑیں، صحابہ] نے عرض کیا : اللہ کے رسول! آپ اللہ کے رسول ہوکر روتے ہیں؟ فرمایا : یقینا میں ایک بشر ہوں، میری آنکھیں بہہ رہی ہیں، دل دہل رہا ہے، لیکن ہم ایسی بات نہیں کہیں گے، جو ربّ تعالیٰ کو ناراض کرے ۔ اللہ کی قسم !ابراہیم !ہم تیری وجہ سے غمگین ہیں۔ ابراہیم اٹھارہ ماہ کی عمر میں فوت ہوگئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت میں اس کے لیے دودھ پلانے والی عورت کا انتظام ہے۔'' (الطبقات الکبرٰی لابن سعد : ١/١٤٢۔١٤٣، وسندہ، حسنٌ)
ائمہ کی تصریحات
امام ابن حبان رحمہ اللہ (م ٣٥٤ھ) فرماتے ہیں : وَالْمُصْطَفٰی خَیْرُ الْبَشَرِ صَلّٰی، فَسَہَا . ''مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ خیر البشر تھے ، انہوں نے نماز پڑھی اور بھول گئے۔'' (صحیح ابن حبان : ٤٠٧٤)
قاضی عیاض رحمہ اللہ (م ٥٤٤ھ)لکھتے ہیں : مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَائِرُ الْـأَنْبِیَاءِ مِنَ الْبَشَرِ، أُرْسِلُوا إِلَی الْبَشَرِ . ''محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی تمام انبیا بشر تھے، انہیں بشروں کی طرف مبعوث کیاگیا ۔'' (الشفا بتعریف حقوق المصطفٰی للقاضي عیاض : ٢/٩٥)
علامہ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : قَوْلُہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ((إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ)) تَنْبِیہٌ عَلٰی أَنَّ أَصْلَ الْبَشْرِیَّۃِ عَدْمُ الْعِلْمِ بِالْغَیْبِ، وَبِمَا یَخْفٰی مِنَ الْبَوَاطِنِ إِلَّا مَنْ أَطْلَعَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی شَيْءٍ مِّنْ ذٰلِکَ . ''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ میں بشرہوں، اس بات پر تنبیہ ہے کہ بشریت میں اصل یہ ہے کہ بشر کو غیب اور باطن میں مخفی باتوں کا علم نہیں ہوتا، سوائے ان لوگوں کے، جنہیںاللہ کسی چیز کی اطلاع دے دے۔'' (المفہم : ١٦/٧١، المکتبۃ الشاملۃ)
حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں : وَقَوْلُہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ) مَعْنَاہُ التَّنْبِیہُ عَلٰی حَالَۃِ الْبَشَرِیَّۃِ وَأَنَّ الْبَشَرَ لَا یَعْلَمُونَ مِنَ الْغَیْبِ وَبَوَاطِنِ الْـأُمُورِ شَیْئًا إِلَّا أَنْ یُطْلِعَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی شَيْءٍ مِنْ ذٰلِکَ . ''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ میں بشر ہوں، اس سے مراد بشریت کی حالت پر تنبیہ ہے کہ بشر امور غیب اور باطن سے کچھ نہیں جانتے، سوائے اس صورت کے کہ اللہ انہیں کسی چیز پر مطلع کر دے۔'' (شرح النووي : ٢/٧٤)
علامہ عینی حنفی (٨٦٢۔٨٥٥ھ) لکھتے ہیں : قَوْلُہ، : (إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ) عَلٰی مَعْنَی الْإِقْرَارِ عَلٰی نَفْسِہٖ بِصِفَۃِ الْبَشْرِیَّۃِ مِنْ أَنَّہ، لَا یَعْلَمُ مِنَ الْغَیْبِ إِلَّا مَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ مِنْہُ . ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ میں بشر ہوں ، اس بات کا اقرار ہے کہ آپ صفت بشریت سے متصف ہیں اور بشر کچھ بھی غیب نہیں جانتے، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ انہیں بتادے ۔۔۔'' (عمدۃ القاري : ٢٤/٢٤٧) نیز لکھتے ہیں : قَوْلُہ، : إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ الْبَشَرُ یُطْلَقُ عَلَی الْجَمَاعَۃِ الْوَاحِدِ یَعْنِي : أَنَّہ، مِنْہُم، وَالْمُرَادُ أَنَّہ، مُشَارِکٌ لِّلْبَشَرِ فِي أَصْلِ الْخِلْقَۃِ وَلَو زَادَ عَلَیْہِمْ بِالْمَزَایَا الَّتِي اخْتَصَّ بِہَا فِي ذَاتِہٖ وَصِفَاتِہٖ، وَقَدْ ذَکَرْتُ فِي شَرْحِ مَعَانِي الْآثَارِ وَفِي قَوْلِہٖ : إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَي : مِنَ الْبَشَرِ وَلَا أَدْرِي بَاطِنَ مَا یَتَحَاکَمُونَ فِیہِ عِنْدِي وَیَخْتَصِمُونَ فِیہِ لَدَيَّ، وَإِنَّمَا أَقْْضِي بَیْنَکُمْ عَلٰی ظَاہِرِ مَا تَقُولُونَ، فَإِذَا کَانَ الْـأَنْبِیَائُ، عَلَیْہِمُ السَّلَامُ، لَا یَعْلَمُونَ ذٰلِک فَغَیْرُ جَائِزٍ أَنْ تَصِحَّ دَعْوَۃُ غَیْرِہِمْ مِنْ کَاہِنٍ أَوْ مُنَجِّمٍ الْعِلْمَ، وَإِنَّمَا یَعْلَمُ الْـأَنْبِیَاءُ مِنَ الْغَیْبِ مَا أَعْلَمُوا بِہٖ بِوَجْہٍ مِّنَ الْوَحْي . ''فرمانِ نبوی کہ میں بشر ہوں ، بشر کالفظ جماعت اور واحد دونوں پر بولا جاتا ہے ، مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنس بشر میں سے ایک فرد ہیں ، یعنی آپ اصل تخلیق میں بشر کے ساتھ مشترک ہیں ، اگرچہ ذات وصفات میں بہت سے خصائص کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام انسانوں سے بڑھ کرہیں ، یہ خصائص شرح معانی الآثار میں مذکور ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ میں بشرہوں ، اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں بشر میں سے ہوں آپ کے جھگڑوں کی اصل باطنی حقیقت نہیں جانتا، جن کے بارے میں آپ میرے پاس فیصلے کو آتے ہو، میں ظاہری اقوال کے مطابق فیصلہ کردیتا ہوں۔ انبیا غیب نہیں جانتے، تو کسی کاہن، نجومی وغیرہ کی طرف سے یہ دعویٰ درست ہونا ممکن ہی نہیں۔ انبیا غیب میں سے صرف وہی چیزیں جانتے ہیں، جن کی انہیں وحی کی کسی قسم کے ذریعے خبردے دی گئی ہو۔'' (عمدۃ القاري، تحت الحدیث : ٧١٨١)
علامہ عبدالرؤف مناوی رحمہ اللہ (٩٥٢۔١٠٣١ھ)لکھتے ہیں : ((إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ))، أَيْ مَقْصُورٌ عَلَی الْوَصْفِ بِالْبَشَرِیَّۃِ بِالنِّسْبَۃِ إِلٰی عَدْمِ الِْاطِّلَاعِ عَلٰی بَوَاطِنِ الْخُصُومِ، ((وَإِنَّکُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ))، فِیمَا بَیْنَکُمْ، ثُمَّ تَرُدُّونَہ، إِلَيَّ، وَلَا أَعْلَمُ بَاطِنَ الْـأَمْرِ . ''میں بشر ہوں'' کا مطلب یہ ہے کہ جھگڑوں کی اصل حقیقت جاننے میں مَیں وصف بشریت پرمقصور ہوں، آپ جھگڑتے ہو، پھراپنے جھگڑے میرے پاس لاتے ہو اور میں معاملے کے باطن کو نہیں جانتا ۔۔۔'' (التیسیر بشرح الجامع الصغیر : ١/٧٢٩)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) فرمانِ باری تعالیٰ : (وَلَا أَقُولُ لَکُمْ إِنِّي مَلَکٌ) ''میں خود کو فرشتہ نہیں کہتا۔'' کی تفسیر میں فرماتے ہیں : أَيْ وَلَا أَدَّعِي أَنِّي مَلَکٌ، إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّنَ الْبَشَرِ، یُوحٰی إِلَيَّ مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، شَرَّفَنِي بِذٰلِکَ، وَأَنْعَمَ عَلَيَّ بِہٖ . ''یعنی میں خود کے فرشتہ ہونے کا دعوی نہیں کرتا، میں تو ایک بشر ہی ہوں، جس کی طرف اللہ کی وحی آتی ہے، اللہ نے یہی شرف مجھے بخشا ہے اور مجھ پہ خاص انعام کیا ہے۔'' (تفسیر ابن کثیر : ٦/٤١، مکتبۃ أولاد الشیخ للتراث)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) فرماتے ہیں : کُفَّارُ قُرَیْشٍ یَسْتَبْعَدُونَ کَوْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَسُولًا مِّنَ اللّٰہِ لِکَوْنِہٖ بَشَرًا مِّنَ الْبَشَرِ . ''کفار قریش، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کو اس لئے محال جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنس بشر میں سے ہیں۔'' (فتح الباري : ١٠/١٩١)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (٦٧٣۔٧٤٧ھ) لکھتے ہیں: النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیِّدُ الْبَشَرِ، وَہُوَ بَشَرٌ، یَأْکُلُ وَیَشْرَبُ وَیَنَامُ وَیَقْضِي حَاجَتَہ، وَیَمْرَضُ وَیَتَدَاوٰی وَیَتَسَوَّکُ، لِیُطَیِّبَ فَمَہ،، فَہُوَ فِي ہٰذَا کَسَائِرِ الْمُؤْمِنِینَ، فَلَمَّا مَاتَ بِأَبِي ہُوَ وَأُمِّي صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُمِلَ بِہٖ کَمَا یُعْمَلُ بِالْبَشَرِ، مِنَ الْغُسْلِ وَالتَّنْظِیفِ وَالْکَفْنِ وَاللَّحْدِ وَالدَّفْنِ . ''نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سید البشر تھے ، آپ بشر تھے ، کھاتے تھے ، پیتے تھے ، سوتے تھے ، قضائے حاجت کرتے تھے ، بیمار ہوتے تھے ، دوائی استعمال کرتے تھے اور اپنے منہ کوصاف کرنے کے لیے مسواک کرتے تھے ۔ ان سب کاموں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہی معاملہ کیا گیا، جو بشر کے ساتھ کیا جاتا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا گیا ، کفن دیا گیا ، لحد کھودی گئی اوردفن کیا گیا۔'' (میزان الاعتدال : ٢/٦٤٩، ت : ٥١٨٣)
ملا علی قاری (م ١٠١٤ھ) لکھتے ہیں : قَالَ الطِّیبِيُّ : ھُوَ کَقَوْلِہٖ تَعَالٰی : (قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ)، أَيْ کَوْنِي إِمْرَأً مِثْلَکُمْ عِلَّۃً لِّکَوْنِي مََََََََََََََََََََقْبُوضًا، لَا أَعِیشُ أَبَدًا . ''طیبی کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے ، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے : (قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ دیجیے کہ میں آپ ہی کے ایسا ایک بشر ہوں۔'' یعنی میرا آپ جیسا بشر ہونا میرے فوت ہونے کی علت ہے کہ میں ہمیشہ نہیں رہوں گا۔'' (مرقاۃ المفاتیح : ٢/١٩٩)
ایک اہم فتوی
ان دلائل کے بعد ایک انتہائی اہم فتوی ملاحظہ ہو : فَإِنْ قُلْتَ : ھَلِ الْعِلْمُ بِکَوْنِہٖٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَشَرًا، وَمِنَ الْعَرَبِ، شَرْطٌ فِي صِحَّۃِ الْإِیْمَانِ؟ قَالَ : أَوْ ھُوَ مِنْ فَرْضِ الْکِفَایَۃِ؟ أَجَابَ الشَّیْخُ وَلِيُّ الدِّینِ الْعِرَاقِيُّ بِأَنَّہ، شَرْطٌ فِي صِحَّۃِ الْإِیمَانِ، قَالَ : لَوْ قَالَ شَخْصٌ : أُوْمِنُ بِرِسَالَۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی جَمِیْعِ الْخَلْقِ، وَلٰکِنِّي لَا أَدْرِي ھَلْ ہُوَ مِنَ الْبَشَرِ أَوِ الْمَلَائِکَۃِ، أَوْ مِنَ الْجِنِّ، أَوْ لَا أَدْرِي أَھُوَ مِنَ الْعَرَبِ أَوِ الْعَجَمِ؟ فَلَا شَکَّ فِي کُفْرِہٖ، لِتَکْذِیبِہٖ لِلْقُرْآنِ وَجَحْدِہٖ مَا تَلَقَّتْہُ قُرُونُ الْإِسْلَامِ خَلَفًا عَنْ سَلَفٍ، وَصَارَ مَعْلُومًا بِالضُّرُورَۃِ عِنْدَ الْخَاصِّ وَالْعَامِّ، وَلَا أَعْلَمُ فِي ذٰلِکَ خِلَافًا، فَلَوْ کَانَ غَبِیًّا لَا یَعْرِفُ ذٰلِکَ وَجَبَ تَعْلِیمُہ، إِیَّاہُ، فَإِنْ جَحَدَہ، بَعْدَ ذٰلِکَ حَکَمْنَا بِکُفْرِہٖ . ''اگر آپ یہ کہیں کہ کیا اس بات کا جاننا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشرتھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق عرب سے ہے ، ایمان کی صحت کے لیے شرط ہے یا فرض کفایہ ہے؟ توشیخ ولی الدین العراقی رحمہ اللہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ ایمان کی صحت کے لیے شرط ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ میں ایمان رکھتا ہوںکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات کے لیے رسول بن کر آئے ہیں ، لیکن میں نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے ، فرشتہ تھے یا جن تھے یا یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق عرب سے ہے یا عجم سے؟ تو اس کے کفرمیں شبہ نہیں، کیونکہ اس نے قرآن کی تکذیب کی ہے اور ایسی چیز کا انکار کیا ہے، جو بعد والے اپنے اسلاف سے سیکھتے چلے آئے ہیں۔ یہ تو خاص وعام جانتے ہیں۔ مجھے اس کے بارے میں اختلاف کا علم نہیں۔ اگر کوئی غبی شخص ایسا کہے، تو اسے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عربی ہونے کی) تعلیم دینا واجب ہے اور اگر پھر بھی انکار کرے، توہم اس پر حکم لگائیں گے کہ وہ کافر ہے۔'' (المواہب اللدنیۃ لأحمد القسطلاني : ٣/١٥٤، تفسیر روح المعاني للآلوسي الحنفي : ٤/١١٣)
فتاوی عالمگیری وغیرہ میں لکھا ہے : وَلَوْ قَالَ : لَا أَدْرِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِنْسِیًّا أَوْ جِنِّیًّا یُکَفَّرُ . ''اگر کوئی کہے کہ میں نہیں جانتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انسان تھے یا جن؟ تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔'' (الفتاوی التاتارخانیۃ : ٥/٤٨٠، فتاوی عالمگیری : ٢/٢٦٣)
شبہات کا ازالہ
قُلْ کا لفظ تو (قُلْ إِنَّمَا إِلٰھُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ) ''کہئے کہ آپ کا الٰہ تو صرف ایک ہی ہے۔'' میں بھی ہے۔ کیا یہ کہنے کی اجازت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو نہیں ؟ امام ابوجعفر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں : یَقُولُ تَعَالٰی ذِکْرُہ، : قُلْ لِہٰؤُلَاءِ الْمُشْرِکِینَ یَا مُحَمَّدُ : إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ مِنْ بَنِي آدَمَ لَا عِلْمَ لِي إِلَّا مَا عَلَّمَنِيَ اللّٰہُ وَإِنَّ اللّٰہَ یُوحِي إِلَيَّ أَنَّ مَعْبُودَکُمُ الَّذِي یَجِبُ عَلَیْکُمْ أَنْ تَعْبُدُوہُ وَلَا تُشْرِکُوا بِہٖ شَیْئًا، مَعْبُودٌ وَاحِدٌ لَا ثَانِيَ لَہ، . ''اللہ فرماتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مشرکین سے کہہ دیجیے کہ میں بنی آدم میں سے ایک بشرہوں ۔ مجھے اللہ کی بتائی ہوئی باتوں کے سوا کوئی علم نہیں۔ اللہ میری طرف وحی فرماتا ہے کہ جس کی عبادت کرنا اور جس سے شرک نہ کرنا آپ پرواجب ہے ،وہ معبود ایک ہی ہے ، اس کا کوئی ثانی نہیں ۔'' (تفسیر الطبري : ١٨/١٣٥)
نیز لکھتے ہیں : یَقُولُ تَعَالٰی ذِکْرُہ، : قُلْ یَا مُحَمَّدُ لِہٰؤُلَاءِ الْمُعْرِضِینَ عَنْ آیَاتِ اللّٰہِ مِنْ قَوْمِکَ : أَیُّہَا الْقَوْمُ، مَا أَنَا إِلَّا بَشَرٌ مِنْ بَنِي آدَمَ . ''اللہ فرماتے ہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اللہ کی آیات سے اعراض کرنے والے اپنی قوم کے ان لوگوں سے کہہ دیجیے کہ اے قوم ! میں تو بس آدم کی اولاد میں سے ایک بشر ہی ہوں۔'' (تفسیر الطبری : ٢١/٤٢٩)
تبصرہ :
کیا مشرکین مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیرجنس سمجھ کر بھاگتے تھے؟
یہ بات تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیا نے بھی فرمائی تھی۔ کیا ان کا بھی یہی مقصد تھا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ] سے فرمایا: وَلٰکِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ، أَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِیتُ فَذَکِّرُونِي
لیکن میں آپ کا سا بشر ہوں، آپ کی طرح بھول جاتا ہوں، جب میں بھول جاؤں، تو مجھے یاد کروا دیا کریں۔'' (صحیح البخاري : ١/٥٨، ح : ٤٠١، صحیح مسلم : ١/٢١٢، ح : ٥٧٢)
یہاں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ ] سے فرمارہے ہیں کہ میں آپ جیسا بشر ہوں۔ کفار کا نظریہ تھاکہ بشریت رسالت کے منافی ہے ، دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ کفار کے بقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے اور ان کے نزدیک بشر رسالت کے منصب پرفائز نہیں ہوسکتا تھا ۔ اس کے جواب میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی تھی ، لیکن نعیمی صاحب نے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ۔ وائے حیرت! اس پر بھی غو ر کیجئے کہ کفا ر نے جب کہا کہ نبوت بشریت کے منافی ہے، تو اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بشریت کی نفی نہیں کی، بلکہ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبی بھی بشر تھے ۔ زمین پر انسان بستے ہیں ، لہٰذا انسانوں کی رہنمائی کے لیے انسان ہی مبلغ ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ نبوت سے بھی اسی حقیقت کا اعلان کروایا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگربشری لبادہ اوڑھ کر آئے اور جنس کے اعتبار سے نور تھے تو یہ حقیقت مخفی کیوں رکھی گئی، اس کے بیان کرنے میںآخر مانع کیا تھا ؟ پھر سیدنا ابراہیم u کی دعا : (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ) کا کیا مطلب ہے ؟ اور اللہ کے ارشاد : (لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِہِمْ) کا کیا معنی اور فرمانِ الٰہی : (لَقَدْ جَاءَ کُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ) کا کیا مفہوم
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نورتھے ، بشریت کے لبادے میں آئے ، اس پر دلیل کیا ہے ؟ خود نعیمی صاحب نے لکھا ہے کہ : ''عقائد میں تخمینے ، قیاس، اٹکل کافی نہیں، اس کے لیے یقینِ شرعی درکار ہے ۔'' (تفسیر نور العرفان : ٢٣٤، ٣٣٨، ٧٨٢)
مولانانعیمی لکھتے ہیں : ''إِنَّمَا کا حصر اضافی ہے، نہ کہ حقیقی ، یعنی میں نہ خداہوں، نہ خداکا بیٹا، بلکہ تمہاری طرح خالص بندہ ہوں۔'' (جاء الحق : ١/١٧٧)
جناب احمدیار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں : ''روزہئ وصال کے بارے میں حضور نے فرمایا : أَیُّکُمْ مِثْلِي تم میں ہم جیسا کون ہے؟'' (جاء الحق : ١/١٧٨) اس کاجواب یہ ہے کہ یہاں قوت وطاقت میں مماثلت کی نفی ہے کہ آپ طاقت میں میری مثل نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ بھی بیان کردی کہ میرا ربّ مجھے روزے کی حالت میں ہی کھلاتا پلاتا رہتا ہے ، اس سے جنسِ بشریت کی نفی کیسے ہوگئی ؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص کی بنیاد پر بشریت کی نفی کی جاتی ہے، یہ بھی غلط ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نبی کو خصائص عطا کر کے اس کی تائید کرتا ہے۔ پہلے انبیا کے بھی خصائص تھے، کیا وہ بھی بشریت سے خارج سمجھے جائیں گے ؟ کیا ان کے نزدیک نبی اورعام انسان میں کوئی فرق نہیں ؟ بعض خصائص کی بنا پر جنس مختلف نہیں ہوتی۔
نور سے مراد
اولا تویہاں نور سے مراد قرآنِ مجید ہے۔یہاں صفت کا عطف صفت پر ہے ، جیساکہ سورت نساء کی آیت نمبر ١٧٤ اورسورت تغابن کی آیت نمبر ٨ میں ہے ۔ ثانیا اگرنور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا : یَعْنِي بِالنُّورِ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِي أَنَارَ اللّٰہُ بِہِ الْحَقَّ، وَأَظْہَرَ بِہِ الْإِسْلَامَ، وَمُحِقٌّ بِہِ الشِّرْکَ . ''نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جن کے ذریعے اللہ نے حق کو روشن کیا ، اسلام کو غالب کیا اور شرک کو مٹایا۔'' (تفسیر ابن جریر : ١٠/١٤٣)
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ وَأَحْمَدُ بْنُ جَوَّاسٍ الْحَنْفِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَيْقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَی عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَيْنَمَا جِبْرِيلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ نَقِيضًا مِنْ فَوْقِهِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ هَذَا بَابٌ مِنْ السَّمَائِ فُتِحَ الْيَوْمَ لَمْ يُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَکٌ فَقَالَ هَذَا مَلَکٌ نَزَلَ إِلَی الْأَرْضِ لَمْ يَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ فَسَلَّمَ وَقَالَ أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَکَ فَاتِحَةُ الْکِتَابِ وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ
حسن بن ربیع، احمد بن جو اس حنفی، ابوالاحوص، عمار بن رزیق، عبداللہ بن عیسی، سعد بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ ہمارے درمیان حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک اوپر سے ایک آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ دروازہ آسمان کا ہے جسے صرف آج کے دن کھولا گیا اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا پھر اس سے ایک فرشتہ اترا حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ فرشتہ جو زمین کی طرف اترا ہے یہ آج سے پہلے کبھی نہیں اترا اس فرشتے نے سلام کیا اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان دو نوروں کی خوشخبری ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیئے گئے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے ایک سورت الفاتحہ اور دوسری سورت البقرہ کی آخری آیات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے جو حرف بھی پڑھیں گے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کے مطابق دیا جائے گا۔
مسلم1776
ثابت ہواکہ نور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاصفاتی نام ہے ، باعتبار ِ جنس آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہی ہیں ۔
یہ بے دلیل بات ہے ، جو قرآن وسنت اوراجماعِ امت کے سراسر خلاف ہے ۔ اہل سنت کے کسی ثقہ امام کا یہ عقیدہ نہیں تھا ۔ ایک روایت اس سلسلے میں یہ پیش کی جاتی ہے
أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُورِي . ''اللہ کی اولین تخلیق میرا نور ہے۔''یا؛ أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرُ نَبِیِّکَ یَا جَابِرُ
''سب سے پہلے اللہ نے تیرے نبی کا نور پیدا کیا، اے جابر!''
تبصرہ : باطل اور موضوع روایت ہے،دنیا جہان میں اس کی کوئی سند نہیں۔
حافظ سیوطی رحمہ اللہ (911ھ)لکھتے ہیں:
لَیْسَ لَہ، إِسْنَادٌ یُعْتَمَدُ عَلَیْہِ . ''اس کی کوئی سند نہیں جس پر اعتماد کیا جاسکے
(الحاوي للفتاوی : 325/1)
نیز لکھتے ہیں: قُلْتُ : حَدِیثُ الْعَقْلِ مَوْضُوعٌ، وَالثَّلَاثَۃُ الْـأُخَرُ لَمْ تَرِدْ بِہٰذَا اللَّفْظِ فَاسْتَغْنٰی عَنِ التَّأْوِیلِ . ''میں کہتا ہوں کہ حدیث عقل تو موضوع ہے،اور دوسری تین احادیث (جن میں أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُورِي بھی ہے) ان الفاظ کے ساتھ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں،تو تاویل کی ضرورت کہا ں رہی۔'' (قوت المغتذي علی جامع الترمذي : 516/1)
مشہور صوفی ابن عربی(638ھ)نے اسے گھڑ کر امام عبدالرزاق کی طرف منسوب کر دیا ہے اوربعد والو ں نے بغیر تحقیق کے امام عبدالرزاق کی طرف اس کا انتساب کر دیا ہے،یہ ان کی واضح خطا ہے،ہمارے دور میں بعض نے مصنف عبدالرزاق کا ایک جھوٹاجزء مفقود دریافت کیاہے،اس میں یہ روایت موجود ہے اور جن لوگوں نے یہ روایت امام عبدالرزاق کی طرف منسوب کی ان کے بیان کردہ الفاظ اور جزء مفقود نامی کتاب کے الفاظ ایک دوسرے سے مماثل نہیں ہیں ،بلکہ ان میں فرق ہے،یہ روایت مصنف عبدالرزاق تو کجا متقدمین ائمہ دین کی کسی کتا ب میں نہیںہے۔جزء مفقود کی سند میں عبدالرزاق کی تدلیس موجود ہے،لہٰذا اس بنیاد پر یہ سند بھی ''ضعیف ''ہے
حافظ سیوطی جیسا معروف ناقل حدیث بھی اس کی سند سے واقف نہیں ہو سکا،بلکہ واشگاف الفاظ میں معترف ہے کہ یہ روایت سرے سے موجود ہی نہیں،بعض الناس کے مطابق سیوطی حالت بیداری میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث کا حکم معلوم کر لیتے تھے ،تو کیا سیوطی کایہ حکم درست ہے؟اگر یہ روایت مصنف عبدالرزاق میں ہوتی تواہل علم ضرور اسے ذکر کرتے۔
امام اوزاعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے : عَلَیْکَ بِآثَارِ مَنْ سَلَفَ، وَإِنْ رَفَضَکَ النَّاسُ، وَإِیَّاکَ وَرَأْیَ الرِّجَالِ، وَإِنْ زَخْرَفُوہُ بِالْقَوْلِ، فَإِنَّ الْـأَمْرَ یَنْجَلِي، وَأَنْتَ عَلٰی طَرِیقٍ مُسْتَقِیمٍ . ''لوگ آپ کا بائیکاٹ کر دیں، تب بھی سلف کے عقائد واعمال سے جڑے رہیں، ارباب بدعت کی آرا نظر بھاتی ہوں، تب بھی ان سے کنارہ کشی اختیار کریں، کیوں کہ حق واضح ہو چکا ہے اور آپ صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔'' (شرف أصحاب الحدیث للخطیب : 6، الشریعۃ للآجري :127، وسندہ صحیحٌ)
علامہ ابو المظفر سمعانی رحمہ اللہ (426۔489ھ)فرماتے ہیں؛ شِعَارُ أَہْلِ السُّنَّۃِ اتِّبَاعُہُمُ السَّلَفَ الصَّالِحَ، وَتَرْکُہُمْ کَلَّ مَا ہُوَ مُبْتَدَعٌ مُحْدَثٌ . ''اہل سنت کا شعار سلف صالحین کی پیروی اور ہر نئی بدعت سے فرار ہے۔'' (الحجۃ في بیان المحجۃ : 395/1) سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: یَکُونُ بَعْدِي أَئِمَّۃٌ لَا یَہْتَدُونَ بِہُدَايَ، وَلَا یَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَیَقُومُ فِیہِمْ رِجَالٌ قُلُوبُہُمْ قُلُوبُ الشَّیَاطِینِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ . ''میرے بعد وحی الٰہی کے باغی اور میری سنت سے منحرف بدعات کے سرغنے پیدا ہوں گے،یہ لوگ انسان کے روپ میںہوں گے اوراپنے سینے میں شیطان کا دل رکھتے ہوں گے۔'' (صحیح مسلم : 1847)
بریلوی علما کی تفسیر
یہ نظریہ بے حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور کا حصہ ہیں، انسانی شکل میں متشکل ہو کر آئے ، جنس بشر سے آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ کیوں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں، توسیدہ عائشہr اور دیگر ازواجِ مطہرات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح کیسا؟ مولانا نعیمی نے لکھا ہے کہ : ''دنیا میں نکا ح کے لیے جنسیت ضروری ہے ۔'' (تفسیر نور العرفان، ص ٧٩٤)
''ہاروت ، ماروت دوفرشتے ہیں ، جو تمام فرشتوں سے زیادہ عابد وزاہد تھے ۔ ایک دفعہ بشکل انسانی دنیا میں قاضی وحاکم بنا کر بھیجے گئے ۔ ایک عورت زہرہ کا مقدمہ پیش ہوا ، جس پر یہ عاشق ہوگئے اور اس کے عشق میں بہت گناہ کر بیٹھے۔ ادریس u کا زمانہ تھا ۔ ان کے وسیلے سے توبہ توقبول ہوئی ، مگر بابل کے کنوئیں میں قید کردئیے گئے اورانہیں جادو کی تعلیم کے لیے مقرر کردیا گیا ۔ پتا لگا کہ نورانی فرشتے جب شکل انسانی میں آئیں تو ان میں کھانے پینے ، بلکہ جماع کرنے کی قوتیں پیدا ہوسکتی ہیں ۔۔۔ لہٰذا حضور بھی اللہ کے نور ہیں ، مگر بشری لباس میں آئے تو کھاتے ، پیتے ، سوتے ، جاگتے تھے۔'' (تفسیر نور العرفان، ص ٢٤) یہ اسرائیلی روایات ہیں نصوص شریعت کے خلاف ہیں ، لہٰذا ہم ان کی تکذیب کرتے ہیں ۔ قرآن میں تو ہے کہ فرشتے سیدنا ابراہیم کے مہمان ہوئے۔
ابراہیم ان کے لیے بچھڑا بھون کر لائے تو انہوں نے کھانے سے انکار کردیا ۔ جب آپ اس بات سے پریشان ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ ہم اللہ کے فرشتے ہیں ۔ (ہود : ٦٩۔٧٠)
مولانا نعیمی کہتے ہیں : ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور سے ہیں اورساری مخلوق آپ کے نور سے ہے ۔'' (مواعظ نعیمیہ از احمد یار خان، ص ١٤، تفسیر نور العرفان، ص ٧٣٢) آپ ہی اپنی اداوں پہ ذرا غور کریں، کسی نبی کو اللہ کا بیٹا کہنے اور کسی کو اللہ کے نور کا حصہ کہنے میں کتنا فر ق ہے؟ فرمان باری تعالیٰ ہے: (وَجَعَلُوْا لَہ، مِنْ عِبَادِہٖ جُزْئً ا) (الزخرف : ١٥) ''انہوں نے اس کے بندوںکا اس کا جزء کہہ دیا۔'
مولانا احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں : ''یعنی سب انسانوں کی اصل آدم وحوا ہیں اور ان کی اصل مٹی ہے توتم سب کی اصل مٹی ہوئی ۔۔۔'' (تفسیر نور العرفان، ص ٨٢٥)
مزید لکھتے ہیں : ''اس سے معلوم ہوا کہ نبی ہمیشہ انسان اورمرد ہوئے ۔ کوئی عورت یا جن یا فرشتہ وغیرہ نبی نہیں ۔ بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ہمیشہ حسب ونسب میں اونچے اور اعلیٰ خاندان میں ہوئے ۔''(تفسیر نور العرفان : ص ٥١٤) نیز لکھتے ہیں
یعنی اگر ربّ تعالیٰ کسی کونبی بناتا تو فرشتے کو بناتا ، نہ کہ ہم جیسے انسانوں کو ، کیونکہ نبوت انسانی قابلیت سے اعلیٰ درجہ ہے ۔ یہ لوگ (کفار) لکڑی پتھر کو خدامان لیتے تھے ، مگر انسان کو نبی ماننے میں تامل کرتے تھے ۔'' (تفسیر نور العرفان، ص ٧٦٢) ہم کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ِ ہدایت ہونے میں شک کرنے والا مسلمان ہی نہیں ہوسکتا، مگر اس سے بشریت کی نفی قطعاً نہیں ہوتی
نور سے مراد
یَوۡمَ تَرَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ یَسۡعٰی نُوۡرُہُمۡ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ بُشۡرٰىکُمُ الۡیَوۡمَ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ
۔ ( قیامت کے ) دن تو دیکھے گا کہ مومن مردوں اور عورتوں کا نور انکے آگے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا آج تمہیں ان جنتوں کی خوشخبری ہے جنکے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں ہمیشہ کی رہائش ہے ۔ یہ ہے بڑی کامیابی ۔
سورة الحديد12
أم سلمة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه و سلم أخبرتها: عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه سمع خصومة بباب حجرته فخرج إليهم فقال ( إنما أنا بشر وإنه يأتيني الخصم فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض فأحسب أنه صدق فأقضي له بذلك فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من النار فليأخذها أو فليتركها ) – بخاری کتاب المظالم
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ رضی الله عنہا نے خبر دی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے کے سامنے جھگڑے کی آواز سنی اور جھگڑا کرنے والوں کے پاس تشریف لائے. آپ نے ان سے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں اس لیے جب میرے یہاں کوئی جگھڑا لے کر آتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ (فریقین میں سے) ایک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ فصیح و بلیغ ہو اور میں (اس کی زور تقریر اور مقدمہ کو پیش کرنے کے سلسلے میں موزوں ترتیب کی وجہ سے )یہ سمجھ لوں کہ سچ وہی کہہ رہا ہے اور اس طرح اس کے حق میں فیصلہ کردوں.اس لیے میں جس شخص کے لئے بھی کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کردوں(غلطی سے)تو دوزخ کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے ،چاہے تو وہ اسے لے لے ورنہ چھوڑ دے
قال قدم نبي الله صلى الله عليه و سلم المدينة وهم يأبرون النخل يقولون يلقحون النخل فقال ما تصنعون ؟ قالوا كنا نصنعه قال لعلكم لو لم تفعلوا كان خيرا فتركوه فنفضت أو فنقصت قال فذكروا ذلك له فقال إنما أنا بشر إذا أمرتكم بشيء من دينكم فخذوا به وإذا أمرتكم بشيء من رأي فإنما أن بشر قال عكرمة أو نحو هذا قال المعقري فنفضت ولم يشك — مسلم
رافع بن خدیج رضی الله تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے .اور لوگ کھجوروں کا قلم لگارہے تھے یعنی گابہ کررہے تھے آپ نے فرمایا تم کیا کرتے ہو. انھوں نے کہا ہم ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں، آپ نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرو تو شاید اچھا ہو گا. لوگو نے پیوند کاری کرنا ترک کردیا.تو کھجوریں گھٹ گئیں.تو صحابہ کرم نے آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا.آپ نے فرمایا میں تو بشر ہوں جب میں تمہیں دین کی بات بتاؤں تو اس پر کاربند ہو جاؤ.اور جب کوئی بات میں اپنی رائے سے بتاؤں تو میں بھی تو انسان ہوں.عکرمہ بیان کرتے ہیں، یا اس کے مثل اور کچھ فرمایا اور معقری نے فنفضت بغیر شک کے کہا ہے
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم اللهم إنما أنا بشر فأيما رجل من المسلمين سببته أو لعنته أو جلدته فاجعلها له زكاة ورحمة . -مسلم کتاب البر والصلة
ابوھریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه و سلم نے فرمایا اے الله میں انسان ہوں تو جس مسلمان کو میں برا کہوں یا لعنت کروں یا اسے سزا دوں تو یہ اس کے لیے باعث پاکی اور رحمت بنا دے
یہ زبان نبوت سے نکلے ہوے الفاظ ہیں جس میں آپ نے اپنی بشریت کو لوگوں کے سامنے بیان کر دیا ہے اس سلسلہ میں احادیث اور بھی پیش کی جا سکتی ہیں مگر ماننے والے کے لیے تو قرآن کی ایک آیت بھی کافی ہے اور نہ ماننے والے کیلئے پورا قرآن پورا سرمایہ حدیث بھی نہ کافی ہے الله تعالی فرماتا ہے اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ الحج ٧٥ الله تعالی فرشتوں میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی وہ سمیع و بصیر ہے
وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسُولًا قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا بنی اسرئیل ٩٤،٩٥
اور لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے ان کو کسی چیز نے نہیں روکا مگر ان کے اسی قول نے کہ ” کیا الله نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا ؟ ان سے اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لئے پیغمبر بناکر بھیجتے
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آَدَمَ بنی اسرئیل ٧٠ یعنی یقینا ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی
قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ المائدہ ١٥ تمہارے پاس الله کی طرف سے نور اور واضع کتاب آچکی ہے
ان کا اس آیت سے استدلال یہ ہے کہ اس آیت میں نور سے اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم مراد ہیں
اس آیت کا مطالعہ کرنے والا دیکھ سکتا ہے کہ اس میں اللہ کے نبی کے نور ہونے کی کوئی صراحت نہیں ہے جس طرح آیت قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ میں الله کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق صاف و صریح بیان ہوا ہے اس آیت کے مقابلہ میں اپنے خیالی استدلال کو لانا حد درجہ کی جہالت یا ہٹ دھرمی ہے قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ اس سے جب کوئی غلط یا باطل استدلال کرتا ہے تو قرآن کی دیگر آیات اس کا راستہ مسدود کردیتی ہیں بریلویت کے اس استدلال کا دیگر آیات سے محاسبہ سے قبل اس آیت کو سیاق و سباق کے ساتھ زیر مطالعہ لائیں تو بھی اس کا غلط ہونا ظاہر ہوجاتا ہے
جسم کا سایہ
صحیح ابن خزیمہ کی صحیح سند سے روایت ہے
نا بَحْرُ بْنُ نَصْرِ بْنِ سَابَقٍ الْخَوْلَانِيُّ، نا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ قَالَ: فَبَيْنَمَا هُوَ فِي الصَّلَاةِ مَدَّ يَدَهُ، ثُمَّ أَخَّرَهَا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَنَعْتَ فِي صَلَاتِكَ هَذِهِ مَا لَمْ تَصْنَعْ فِي صَلَاةٍ قَبْلَهَا قَالَ: «إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ قَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ، وَرَأَيْتُ فِيهَا. . . . قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ، حَبُّهَا كَالدُّبَّاءِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَنَاوَلَ مِنْهَا، فَأُوحِيَ إِلَيْهَا أَنِ اسْتَأْخِرِي، فَاسْتَأْخَرَتْ، ثُمَّ عُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ حَتَّى رَأَيْتُ ظِلِّيَ وَظِلَّكُمْ، فَأَوْمَأْتُ إِلَيْكُمْ أَنِ اسْتَأْخَرُوا، فَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنْ أَقِرَّهُمْ، فَإِنَّكَ أَسْلَمْتَ وَأَسْلَمُوا، وَهَاجَرْتَ وَهَاجَرُوا، وَجَاهَدْتَ وَجَاهَدُوا، فَلَمْ أَرَ لِي عَلَيْكُمْ فَضْلًا إِلَّا بِالنُّبُوَّةِ»
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے صبح کی نماز پڑھی پھر نماز کے دوران انہوں نے باتھ کو آگے کیا پھر پیچھے پس ہم نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کہ آپ نے نماز میں کیا کیا جو اس سے پہلے نہیں کیا – فرمایا میں نے جنت دیکھی اور اس میں لٹکتے پھل دیکھے … پس ارادہ کیا کہ اس کو لوں تو وحی کی گئی کہ چھوڑ کروں لہٰذا چھوڑ دیا پھر جہنم پیش کی گئی یہاں تک (روشنی میں) میں نے اپنآ سایہ اور تمھارے سائے تک دیکھے
الذھبی نے اسکو صحیح کہا ہے روایت دلیل ہے کہ رسول الله کا سایہ تھا
صحیح مسلم کی روایت ہے کہ نور سے فرشتوں کو تخلیق کیا گیا صحیح بخاری میں فرشتوں کے سایہ کا ذکر ہے
عن جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ أَبِي جَعَلْتُ أَبْكِي، وَأَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، فَجَعَلَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَوْنِي وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنْهَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لاَ تَبْكِيهِ – أَوْ: مَا تَبْكِيهِ – مَا زَالَتِ المَلاَئِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ “[صحيح البخاري 5/ 102 رقم 4080 ]۔
جابر بن عبد الله رضی الله عنہ کہتے ہیں میرے والد کا قتل شہادت ہوئی میں رونے لگا اور ان کے چہرے پر سے کپڑا ہٹاتا پس اصحاب رسول نے منع کیا لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع نہ کیا اور کہا مت رو فرشتوں نے ان پراپنے پروں سایہ کرنا نہ چھوڑا یہاں تک کہ بلند ہوئے
قرآن حکیم میں اللہ پاک نے فرمایا ھے کہ ھم نے نازل کیا ھے تورات کو اس میں ھدایت اور نور ہے اور موعظت ھے اور یہ فرقان ھے ، یہی چار صفات اللہ پاک قرآن کی بھی بیان کرتا ھے
إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ - المائدة 44
ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت ونور ہے، یہودیوں میں اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے انبیا (علیہم السلام) اور اہل اللہ اور علما فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاﻇت کا حکم دیا گیا تھا۔ اور وه اس پر اقراری گواه تھے اب تمہیں چاہیئے کہ لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو، میری آیتوں کو تھوڑے تھوڑے مول پر نہ بیچو، جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وه (پورے اور پختہ) کافر ہیں
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
سورۃ التوبہ آیت نمبر 128
تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف ﻻئے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں
مشہور مفسر امام ابن کثیر رحمہ اللہ، سورۃ الجن آیت نمبر 21کی تشریح کرکے فرماتے ہیں
اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یُوْحَی اِلَیَّ ، وَعَبْدٌ مَنْ عِبَادِ اللہِ لَیْسَ اِلَیَّ مِنْ الْاَمْرِ شَیْءٍ فِیْ ھِدَایَتِکُمْ وَلَاغَوَایَتِکُمْیعنی میں تو تم جیسا ہی بشر ہوں ہاں میری طرف وحی آتی ہے، اور میں اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں، تمہاری ہدایت و ضلالت کا مختار و محتاج نہیں ہوں
احادیث سے دلیل
جُبیر بن حَیہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ: سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کسریٰ کی فوج کے سامنے یہ اعلان کردیا
بَعَثَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْاَرْضِیْنَ تَعَالٰی ذِکْرُہٗ وَجَلَّتْ عَظَمَتُہٗ اِلَیْنَانَبِیًّا مِنْ اَنْفُسِنَا نَعْرِفُ اَبَاہُ وَاُمَّہُ
آسمانوں اور زمینوں کے رب نے ، جس کا ذِکر اپنی تمام عظمت و جلال کے ساتھ بلند ہے،ہماری طرف ہم ہی میں سے ایک نبی بھیجاہم ان کے ماں باپ کو جانتے ہیں
صحیح بخاری شریف، کتاب الجزیۃ و الموادعۃ حدیث نمبر
3159
............................................................
ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا
اَللّٰھُمَّ اِنَّمَااَنَا مُحَمَّدٌ بَشَرٌ یَغْضَبُ کَمَا یَغْضَبُ الْبَشَرُ
اے اللہ! بیشک محمدایک بشر ہے ، اس کو غصہ آجاتا ہے ، جس طرح ایک بشر کو غصہ آجاتا ہےﷺ
صحیح مسلم ،کتاب البروالصلۃ والادب حدیث نمبر6622 اور مسند امام احمد حدیث نمبر7309
.......................................
صحیح بخاری شریف ،کتاب الصلوٰۃ حدیث نمبر401 اور مسند امام احمد حدیث نمبر 3983میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔ سلام پھیرنے کے بعد ہم نے عرض کی۔ یا رسول اللہ! [صلی اللہ علیہ وسلم]کیا نماز میں کوئی نیا حکم آیا ہے۔ آپ نے اس پر دو سجدئے سہو کئے اور سلام پھیر دی اور فرمایا : اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ اَنْسَی کَمَا تَنْسَوْنَ (بیشک میں تمہاری طرح بشر ہوں۔ میں بھی اسی طرح بھول جاتا ہوں جیسے تم بھُولتے ہو) اسلئے مجھے یاد دلایا کرو
..............................................................
سنن ابی داؤد، کتاب الطھارہ حدیث نمبر 234 ،صحیح ابن خزیمۃ حدیث نمبر 1629اور مسند امام احمد حدیث نمبر 20691 میں سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا آغاز کیا اور تکبیر کہنی چاہی کہ صحابہ کو اشارہ سے فرمایا کہ اپنی جگہ رہو ، پھر گھر تشریف لے گئے ، جب باہر آئے تو سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ، پھر نماز پڑھائی اور فرمایا
اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ وَاِنِّیْ کُنْتُ جُنُبًابیشک میں بشر ہوں اور میں حالتِ جنابت میں تھا
اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ وَاِنِّیْ کُنْتُ جُنُبًابیشک میں بشر ہوں اور میں حالتِ جنابت میں تھا
الفاظ مسند امام احمد کے ہیں
....................................................
سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
بلاشُبہ میں ایک بشر ہوں ، تم میرے پاس اپنے جھگڑے لاتے ہو۔ ممکن ہے تم میں سے بعض اپنے مقدمہ کو پیش کرنے میں فریق ثانی کے مقابلہ میں زیادہ چرب زبان ہو اور میں تمہاری بات سن کر فیصلہ کردوں تو جس شخص کے لئے میں اس کے بھائی کا کوئی حق دلادوں ۔ چاہیئے کہ وہ اسے نہ لے کیونکہ یہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں اسے دیتا ہوں
بلاشُبہ میں ایک بشر ہوں ، تم میرے پاس اپنے جھگڑے لاتے ہو۔ ممکن ہے تم میں سے بعض اپنے مقدمہ کو پیش کرنے میں فریق ثانی کے مقابلہ میں زیادہ چرب زبان ہو اور میں تمہاری بات سن کر فیصلہ کردوں تو جس شخص کے لئے میں اس کے بھائی کا کوئی حق دلادوں ۔ چاہیئے کہ وہ اسے نہ لے کیونکہ یہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں اسے دیتا ہوں
صحیح بخاری شریف ، کتاب الاحکام حدیث نمبر 7169 اور صحیح مسلم ، کتاب الاقضیۃ حدیث نمبر4475
.........................................................
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے اجتماع سے خطاب کرکے فرمایا
اَلَا اَیُّھَاالنَّاسُ فَاِنَّمَآ اَنَابَشَرٌ یُّوْشِکُ اَنْ یَاْتِیَ رَسُوْلُ رَبِّیْ فَاُجِیْبُ
خبردار! اے لوگو! میں بھی بشر ہوں ۔ قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا[موت کا فرشتہ] آئے اور میں اسکی دعوت قبول کروں
صحیح مسلم شریف، کتاب الفضائل حدیث نمبر 6225،مسندامام احمد حدیث نمبر 19479اور صحیح ابن خزیمۃ حدیث نمبر2357
...............................................
ابو رِمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میری نظر جب ان پر پڑی تووالد صاحب نے پوچھا کیا تم جانتے ہو یہ کون ہیں؟ میں نے کہا نہیں، والد صاحب نے بتایا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔فَاقْشَعْرَرْتُ حِیْنَ قَالَ ذَاکَ وَکُنْتُ أَظُنُّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا لَا یَشْبِہُ النَّاسَ فَاِذَا بَشَرٌ…الخ
(یعنی یہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ایسی چیز سمجھتا تھا جو انسانوں کے مشابہہ نہ ہو ، لیکن وہ تو ایک بشر تھے
(یعنی یہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ایسی چیز سمجھتا تھا جو انسانوں کے مشابہہ نہ ہو ، لیکن وہ تو ایک بشر تھے
مسند امام احمد حدیث نمبر 7109
................................................................
رافع بن خَدِیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور لوگ کھجور کے درختوں کی پیوند کاری کرتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم کیا کرتے ہو؟ لوگوں نے کہا : ہم اسی طرح کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا : اگر تم ایسا نہ کرو تو شاید بہتر ہو! لوگوں نے پیوند کاری چھوڑدی تو اس سال [کھجور کی ] فصل تھوڑی ہوئی ۔ لوگوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا : اَنَا بَشَرٌ اِذَا اَمَرَکُمْ بِشَیْءٍ مِّنْ أَمْرِ دِیْنِکُمْ فَخُذُوْا بِہٖ وَاِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیئٍ مِنْ رَأْیٍِ فَاِنَّمَاأَنَا بَشَرٌ (یعنی میں تو ایک بشر ہوں ، اگر میں تمہیں دین کا کوئی حکم دوں تو اسے لے لو اور اگر اپنی رائے سے کوئی بات کروں تو میں ایک بشر ہوں
صحیح مسلم شریف کتاب الفضائل ،حدیث نمبر 6127اور صحیح ابن حِبَّان ،حدیث نمبر 23
.......................................................
عمرہ بنتِ عبدالرحمن رحمہا اللہ سے روایت ہے کہ میں نے اُمی جان سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہاسے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیا کام کرتے تھے؟انہوں نے فرمایا: کَانَ بَشَرًا مِنْ الْبَشَرِ یَفْلِیْ ثَوْبَہُ وَیَحْلُبُ شَاتَہُ وَیَخْدُمُ نَفْسَہُ(یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی انسانوں میں ایک انسان تھے ،آپ اپنے کپڑوں میں خود جوئیں تلاش کرتے، بکری کا دودھ دوہتے اور اپنے کام خود کرتے)
مسند امام احمد، حدیث نمبر 26724اور شمائل ترمذی شریف ، باب تواضع
نوٹ: آپ نہایت پاکیزہ تھے اسکے باوجود جوئیں دیکھنا اس وجہ سے تھا کہ کہیں سے لگ نہ گئی ہو۔ جویں تو بدبودار پسینے کی وجہ سے لگتی ہیں، لیکن میرے محبوب کا پسینہ مبارک تو گلاب سے بھی زیادہ خشبودار تھا
..............................
قاضی عیاض [۵۴۴ھ]کتاب الشفاء صفحہ486[مترجم] پر لکھتے ہیں:
’’ پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی انبیاء علیہم السلام انسان ہیںوہ لوگوں کی طرف بھیجے گئے تھے اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو لوگ ان کے مقابلہ و لڑائی کی طاقت نہ رکھتے۔نہ ان کی باتیں قبول کرتے نہ ان سے ملتے۔
’’ پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی انبیاء علیہم السلام انسان ہیںوہ لوگوں کی طرف بھیجے گئے تھے اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو لوگ ان کے مقابلہ و لڑائی کی طاقت نہ رکھتے۔نہ ان کی باتیں قبول کرتے نہ ان سے ملتے۔
............................
حافظ ذہبی[۷۴۷ھ]میزان الاعتدال ،جلدنمبر2صفحہ 649ترجمہ نمبر 5183 پر لکھتے ہیں:
’’بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدالبشر تھے، آپ بشر تھے، کھاتے تھے، پیتے تھے، سوتے تھے، قضایئے حاجت کرتے تھے، بیمار ہوتے تھے، دوائی استعمال کرتے تھے اور اپنے منہ کو صاف کرنے کے لئے مسواک استعمال کرتے تھے۔ان سب کاموں میں آپ بشر تھے۔میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! جب آپ فوت ہوئے تو آپ کے ساتھ وہی معاملہ کیا گیا ، جو بشر کے ساتھ کیا جاتا ہے، یعنی آپ کو غسل دیا گیا ، کفن دیا گیا ، لحد کھودی گئی اور دفن کیا گیا…
’’بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدالبشر تھے، آپ بشر تھے، کھاتے تھے، پیتے تھے، سوتے تھے، قضایئے حاجت کرتے تھے، بیمار ہوتے تھے، دوائی استعمال کرتے تھے اور اپنے منہ کو صاف کرنے کے لئے مسواک استعمال کرتے تھے۔ان سب کاموں میں آپ بشر تھے۔میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! جب آپ فوت ہوئے تو آپ کے ساتھ وہی معاملہ کیا گیا ، جو بشر کے ساتھ کیا جاتا ہے، یعنی آپ کو غسل دیا گیا ، کفن دیا گیا ، لحد کھودی گئی اور دفن کیا گیا…
.................................................
ملا علی القاری حنفی[۱۰۱۴ھ] مرقاۃ المفاتیح، جلد 1صفحہ 485تحت حدیث 279 لکھتے ہیں:
’’طیبی کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: قُلْ اِنَّمَا اَنَّابَشَرٌ مِّثْلُکُمْ [اے نبی! کہہ دیجئے کہ میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں]یعنی میرا تمہاری طرح بشر ہونا میرے فوت ہونے کی علت ہے کہ میں ہمیشہ نہیں رہوں گا
’’طیبی کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: قُلْ اِنَّمَا اَنَّابَشَرٌ مِّثْلُکُمْ [اے نبی! کہہ دیجئے کہ میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں]یعنی میرا تمہاری طرح بشر ہونا میرے فوت ہونے کی علت ہے کہ میں ہمیشہ نہیں رہوں گا
..............................................
علامہ قسطلانی [۹۲۳ھ]کا کمر توڑ فتویٰ
اگر آپ یہ کہیں کہ کیا اس بات کا جاننا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے اور آپ کا تعلق عرب سے ہے، ایمان کی صحت کے لئے شرط ہے یا فرض کفایہ ہے؟ تو شیخ ولی الدین العراقی اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ ایمان کی صحت کے لئے شرط ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اس بات پر ایمان رکھتا ہوںکہ سیدنا محمد صلی ا للہ علیہ وسلم تمام مخلوقات کے لئے رسول بن کر آئے ہیں، لیکن میں یہ نہیں جانتا آپ بشر تھے، فرشتہ تھے یا جن تھے یا یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ آپ کا تعلق عرب سے ہے یا عجم سے؟ تو اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں رہا، کیونکہ اس نے قرآنِ مجید کی تکذیب کی ہے اور ایسی چیزوں کا انکار کیا ہے، جو بعد والے اپنے اسلاف سے سیکھتے چلے آئے ہیں۔ یہ بات تو خاص و عام کے نزدیک یقینی طور پر معلوم ہوچکی ہے۔ مجھے اس کے اختلاف کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ اگر کوئی غبی شخص ایسا کہے تو اس کو اس بات (آپ کی بشریت اور آپ کے عربی ہونے ) کی تعلیم دینا واجب ہے اور اس نے پھر بھی اس کا انکار کردیا تو ہم اس پر کافر ہونے کا حکم لگائیں گے…‘‘ (المواہب اللدنیہ ،جلد 2 صفحہ533/ روح المعانی، جلد 2صفحہ325،تحت سورۃآل عمران164)
........................................................
امام ابن القیم رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’یہود ونصاریٰ تاریخ کے آئینے میں ‘‘ کے صفحہ ۳۵۸ پر رقم طراز ہیں : (یہ کتاب دراصل عربی میں ’’ھدایۃ الحیاری فی اجوبۃ الیھود والنصارٰی کے نام سے چھپی ہے
غرضیکہ ان (نصاریٰ)کا کہنا ہے کہ جو آسمان وزمین کا خالق ہے اسی کو مریم نے جَنا اور نوماہ پیٹ میں رکھا پھر اس نے دودھ پیا اور چھوڑا، کھانا کھایا، پانی پیا، پیشاب پاـئخانہ کیا ۔ پھر گرفتار کیا گیا، سولی دیا گیا، رسی سے باندھا گیا، اور اس کے ہاتھوں پر کیلیں نصب کی گئیں، یہی اللہ، ابن اللہ اور کلمۃُ اللہ ہے جس کو تمام لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ‘‘۔ (نعوذ باللہ)
.............................................
وہی جو مستویٔ عرش تھا خدا ہو کر
اُتر پڑا مدینے میں مصطفی ہو کر
اُتر پڑا مدینے میں مصطفی ہو کر
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت نمبر 91 میں ’’توراۃ‘‘ کو بھی ’’نور‘‘ کہا ہے۔
قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَآءَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّھُدًی لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَھَا وَتُخْفُوْنَ کَثِیْرًا…الخ
( آپ یہ کہیے کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ علیہ السلام لائے تھے۔ جس کی کیفیت یہ ہے کہ ’’وہ نور ہے‘‘اور لوگوں کے لئے وہ ہدایت جس کو تم نے متفرق اور اق میں رکھ چھوڑا ہے جن کو ظاہر کر دیتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو)
( آپ یہ کہیے کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ علیہ السلام لائے تھے۔ جس کی کیفیت یہ ہے کہ ’’وہ نور ہے‘‘اور لوگوں کے لئے وہ ہدایت جس کو تم نے متفرق اور اق میں رکھ چھوڑا ہے جن کو ظاہر کر دیتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو)
سورۃ الزخرف آیت نمبر 15 میں ارشاد فرماتا ہے:
وَجَعَلُوْالَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْءً ا اِنَّ الاِْ نْسَانَ لَکَفُوْرٌمُّبِیْنٌ o
{اور انہوں نے اللہ کے بندوں میں سے اسکا حصَّہ (ٹکڑا ) قرار دیا ۔ بیشک یہ انسان کھلم کُھلا کافر ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الطَّيِّبِ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ سَلَّامٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ، ثُمَّ قَرَأَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ سورة الحجر آية 75 ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَفْسِيرِ هَذِهِ الْآيَةِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ سورة الحجر آية 75، قَالَ: لِلْمُتَفَرِّسِينَ
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے“، پھر آپ نے آیت «إن في ذلك لآيات للمتوسمين» ”بیشک اس میں نشانیاں ہیں سمجھ داروں کے لیے ہے“ ( الحجر: ۷۵ ) ، تلاوت فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، بعض اہل علم نے اس آیت «إن في ذلك لآيات للمتوسمين» کی تفسیر یہ کی ہے کہ اس میں نشانیاں ہیں اصحاب فراست کے لیے۔
کتاب؛ جامع الترمذي
جلد؛ جلد سوم
مضامیں: کتاب: تفسیر قرآن کریم
باب؛ باب: سورۃ الحجر سے بعض آیات کی تفسیر
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ نَهَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَتْفِ الشَّيْبِ وَقَالَ هُوَ نُورُ الْمُؤْمِنِ
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، محمد بن اسحاق ، حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفید بال اکھیڑ نے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا یہ مومن کا نور ہے
3725آداب کا بیان۔ سنن ابن ماجہ
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے“، پھر آپ نے آیت «إن في ذلك لآيات للمتوسمين» ”بیشک اس میں نشانیاں ہیں سمجھ داروں کے لیے ہے“ ( الحجر: ۷۵ ) ، تلاوت فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، بعض اہل علم نے اس آیت «إن في ذلك لآيات للمتوسمين» کی تفسیر یہ کی ہے کہ اس میں نشانیاں ہیں اصحاب فراست کے لیے۔
کتاب؛ جامع الترمذي
جلد؛ جلد سوم
مضامیں: کتاب: تفسیر قرآن کریم
باب؛ باب: سورۃ الحجر سے بعض آیات کی تفسیر
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ نَهَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَتْفِ الشَّيْبِ وَقَالَ هُوَ نُورُ الْمُؤْمِنِ
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، محمد بن اسحاق ، حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفید بال اکھیڑ نے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا یہ مومن کا نور ہے
3725آداب کا بیان۔ سنن ابن ماجہ
امام ابن حبان رحمہ اللہ (م ۳۵۴ھ ) ایک حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
والمصطفيٰ خير البشر صلي، فسها .
’’مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ خیر البشر تھے، انہوں نے نماز پڑھی اور بھول گئے۔“ (صحیح ابن حبان، ح:4074)
والمصطفيٰ خير البشر صلي، فسها .
’’مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ خیر البشر تھے، انہوں نے نماز پڑھی اور بھول گئے۔“ (صحیح ابن حبان، ح:4074)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۰۱۔ ۷۷۴ھ ) فرمانِ باری تعالیٰ : ﴿ولا أقول لكم إني ملك﴾ ”میں تمہیں یہ نہیں کہتاکہ میں فرشتہ ہوں“ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
أي ولا أدعي أني ملك، إنما أنا بشر من البشر، يوحي إلي من الله عزوجل، شرفني بذلك، وأنعم على به .
’’یعنی میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو ایک بشر ہی ہوں۔ میری طرف اللہ عزوجل کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے مجھے شرف عطا کیا ہے اور مجھ پر خاص انعام کیا ہے۔“ (تفسير ابن كثير:41/6، مكتبة أولاد الشيخ للتراث)
أي ولا أدعي أني ملك، إنما أنا بشر من البشر، يوحي إلي من الله عزوجل، شرفني بذلك، وأنعم على به .
’’یعنی میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو ایک بشر ہی ہوں۔ میری طرف اللہ عزوجل کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے مجھے شرف عطا کیا ہے اور مجھ پر خاص انعام کیا ہے۔“ (تفسير ابن كثير:41/6، مكتبة أولاد الشيخ للتراث)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۷۷۳۔ ۸۵۲ھ ) مشرکین مکہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
كفار قريش يستبعدون كون محمد صلي الله عليه وسلم رسولا من الله لكونه بشرا من البشر
’’کفار قریش، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہونے کو اس لیے محال سمجھتے تھےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنس بشر میں سے ایک بشر تھے۔‘‘
(فتح الباري لابن حجر: 191/10)
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اعْتَکَفَ يُدْنِي إِلَيَّ رَأْسَهُ فَأُرَجِّلُهُ وَکَانَ لَا يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اعتکاف بیٹھتے تو اپنا سر مبارک میرے قریب کر دیتے اور میں اس میں کنگھی کرتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بشری حاجت کے علاوہ گھر میں داخل نہ ہوتے تھے۔
حیض کا بیان 588مسلم
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُغِيثٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَکَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ کُنْتُ أَکْتُبُ کُلَّ شَيْئٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ وَقَالُوا أَتَکْتُبُ کُلَّ شَيْئٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَکَلَّمُ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا فَأَمْسَکْتُ عَنْ الْکِتَابِ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَی فِيهِ فَقَالَ اکْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ
ابوداؤد 3629 علم کا بیان
عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو باتیں سنا کرتا تھا انہیں لکھا کرتا تھا یاد کرنے لئے ۔ لیکن مجھے قریش نے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو جو سنتے ہو لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں (اور بشری تقاضا کی وجہ سے آپ کو غصہ بھی آتا ہے، خوشی کی حالت بھی ہوتی ہے) اور آپ کبھی غصہ میں اور کبھی خوشی کی حالت میں گفتگو کرتے ہیں لہذا میں نے کتابت سے ہاتھ روک لیا اور اس کا تذکرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا، حضور نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق بات کے اور کچھ نہیں نکلتی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم، رَجُلا مَرْبُوعًا، بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، عَظِيمَ الْجُمَّةِ إِلَى شَحْمَةِ أُذُنَيْهِ الْيُسْرَى، عَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، مَا رَأَيْتُ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ
Book 1, Hadith 3
الشمائل المحمدية
كفار قريش يستبعدون كون محمد صلي الله عليه وسلم رسولا من الله لكونه بشرا من البشر
’’کفار قریش، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہونے کو اس لیے محال سمجھتے تھےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنس بشر میں سے ایک بشر تھے۔‘‘
(فتح الباري لابن حجر: 191/10)
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اعْتَکَفَ يُدْنِي إِلَيَّ رَأْسَهُ فَأُرَجِّلُهُ وَکَانَ لَا يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اعتکاف بیٹھتے تو اپنا سر مبارک میرے قریب کر دیتے اور میں اس میں کنگھی کرتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بشری حاجت کے علاوہ گھر میں داخل نہ ہوتے تھے۔
حیض کا بیان 588مسلم
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُغِيثٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَکَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ کُنْتُ أَکْتُبُ کُلَّ شَيْئٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ وَقَالُوا أَتَکْتُبُ کُلَّ شَيْئٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَکَلَّمُ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا فَأَمْسَکْتُ عَنْ الْکِتَابِ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَی فِيهِ فَقَالَ اکْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ
ابوداؤد 3629 علم کا بیان
عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو باتیں سنا کرتا تھا انہیں لکھا کرتا تھا یاد کرنے لئے ۔ لیکن مجھے قریش نے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو جو سنتے ہو لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں (اور بشری تقاضا کی وجہ سے آپ کو غصہ بھی آتا ہے، خوشی کی حالت بھی ہوتی ہے) اور آپ کبھی غصہ میں اور کبھی خوشی کی حالت میں گفتگو کرتے ہیں لہذا میں نے کتابت سے ہاتھ روک لیا اور اس کا تذکرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا، حضور نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق بات کے اور کچھ نہیں نکلتی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم، رَجُلا مَرْبُوعًا، بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، عَظِيمَ الْجُمَّةِ إِلَى شَحْمَةِ أُذُنَيْهِ الْيُسْرَى، عَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، مَا رَأَيْتُ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ
Book 1, Hadith 3
الشمائل المحمدية
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، قَالَتْ: قِيلَ لِعَائِشَةَ: مَاذَا كَانَ يَعْمَلُ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَيْتِهِ؟ قَالَتْ: كَانَ بَشَرًا مِنَ الْبَشَرِ، يَفْلِي ثَوْبَهُ، وَيَحْلُبُ شَاتَهُ، وَيَخْدُمُ نَفْسَهُ.
شمائل ترمذی ص 23 باب ماجاء ک فی تواضع رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی آخری حدیث
حدثنا عمرو بن عثمان، حدثنا محمد بن حرب، عن الزبيدي، عن ابن شهاب، عن عمرو بن ابان بن عثمان، عن جابر بن عبد الله، انه كان يحدث، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "اري الليلة رجل صالح ان ابا بكر نيط برسول الله صلى الله عليه وسلم، ونيط عمر بابي بكر، ونيط عثمان بعمر، قال جابر: فلما قمنا من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلنا: اما الرجل الصالح فرسول الله صلى الله عليه وسلم، واما تنوط بعضهم ببعض فهم ولاة هذا الامر الذي بعث الله به نبيه صلى الله عليه وسلم"،
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کی رات ایک صالح شخص کو خواب میں دکھایا گیا کہ ابوبکر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑ دیا گیا ہے، اور عمر کو ابوبکر سے اور عثمان کو عمر سے“۔ جابر کہتے ہیں: جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر آئے تو ہم نے کہا: مرد صالح سے مراد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اور بعض کا بعض سے جوڑے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہی لوگ اس امر (دین) کے والی ہوں گے جس کے ساتھ اللہ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے
أبوداود باب فِي الْخُلَفَاءِ 4636
مسند احمد (۳/۳۵۵)
مشکوٰۃ ج 2 ص 563
حدثني محمد بن يزيد الكوفي حدثنا الوليد عن الاوزاعي عن يحيى بن ابي كثير عن محمد بن إبراهيم عن عروة بن الزبير قال: سالت عبد الله بن عمروعن اشد ما صنع المشركون برسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " رايت عقبة بن ابي معيط جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي ، فوضع رداءه في عنقه فخنقه به خنقا شديدا ، فجاء ابو بكر حتى دفعه عنه فقال: اتقتلون رجلا ان يقول: ربي الله وقد جاءكم بالبينات من ربكم ". حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، عَنْ أَشَدِّ مَا صَنَعَ الْمُشْرِكُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"رَأَيْتُ عُقْبَةَ بْنَ أَبِي مُعَيْطٍ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَوَضَعَ رِدَاءَهُ فِي عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ بِهِ خَنْقًا شَدِيدًا ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى دَفَعَهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ: رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ". مجھ سے محمد بن یزید کوفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، ان سے اوزاعی نے، ان سے یحییٰ ابن ابی کثیر نے، ان سے محمد بن ابراہیم نے اور ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مشرکین مکہ کی سب سے بڑی ظالمانہ حرکت کے بارے میں پوچھا جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی تھی تو انہوں نے بتلایا کہ میں نے دیکھا کہ عقبہ بن ابی معیط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، اس بدبخت نے اپنی چادر آپ کی گردن مبارک میں ڈال کر کھینچی جس سے آپ کا گلا بڑی سختی کے ساتھ پھنس گیا۔ اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور اس بدبخت کو دفع کیا اور کہا کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے اور وہ تمہارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے۔
باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: «لو كنت متخذا خليلا»: باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا
كتاب فضائل الصحابة
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرما :
إتقتلون رجلا إن یقول ربی الله
صحیح البخاری: ج 1 ص 519 ، 520
ترجمہ: کیا تم اس آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ۔
انطلقت مع أبي نحو رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رأيته قال لي أبي : هل تدري من هذا قلت لا فقال لي أبي هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقشعررت حين قال ذاك وكنت أظن رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لا يشبه الناس فإذا بشر له وفرة قال عفان في حديثه : ذو وفرة وبها ردع من حناء عليه ثوبان أخضران فسلم عليه أبي ثم جلسنا فتحدثنا ساعة ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لأبي : ابنك هذا ؟ قال : إي ورب الكعبة قال : حقا ؟ قال : أشهد به فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ضاحكا من ثبت شبهي بأبي ومن حلف أبي علي ثم قال أما إنه لا يجني عليك ولا تجني عليه قال وقرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم { ولا تزر وازرة وزر أخرى } قال ثم نظر إلى مثل السلعة بين كتفيه فقال : يا رسول الله إني لأطب الرجال ألا أعالجها لك ؟ قال : لا طبيبها الذي خلقها .
الراوي: أبو رمثة
المحدث: أحمد شاكر
المصدر: مسند أحمد
الصفحة أو الرقم: 12/65
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
- انطلَقْتُ مع أبي إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فلمَّا رأَيْتُه قال أبي : مَن هذا ؟ قُلْتُ : لا أدري قال : هذا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فاقشعرَرْتُ حينَ قال ذلكَ وكُنْتُ أظُنُّ أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم لا يُشبِهُ النَّاسَ فإذا له وَفْرةٌ بها رَدْعٌ مِن حِنَّاءٍ وعليه بُردانِ أخضرانِ فسلَّم عليه أبي ثمَّ أخَذ يُحدِّثُنا ساعةً قال : ( ابنُكَ هذا ) ؟ قال : إي وربِّ الكعبةِ أشهَدُ به قال : ( أمَا إنَّ ابنَك هذا لا يجني عليك ولا تجني عليه ) ثمَّ قرَأ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : { لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى }، ثمَّ نظَر إلى السِّلعةِ الَّتي بيْنَ كتِفَيْه فقال : يا رسولَ اللهِ إنِّي كأطبِّ الرِّجالِ ألا أُعالِجُها ؟ قال : ( طبيبُها الَّذي خلَقها ).
الراوي: أبو رمثة التيمي
صحيح ابن حبان الصفحة أو الرقم: 5995
حدثنا عمرو بن عثمان، حدثنا محمد بن حرب، عن الزبيدي، عن ابن شهاب، عن عمرو بن ابان بن عثمان، عن جابر بن عبد الله، انه كان يحدث، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "اري الليلة رجل صالح ان ابا بكر نيط برسول الله صلى الله عليه وسلم، ونيط عمر بابي بكر، ونيط عثمان بعمر، قال جابر: فلما قمنا من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلنا: اما الرجل الصالح فرسول الله صلى الله عليه وسلم، واما تنوط بعضهم ببعض فهم ولاة هذا الامر الذي بعث الله به نبيه صلى الله عليه وسلم"،
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کی رات ایک صالح شخص کو خواب میں دکھایا گیا کہ ابوبکر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑ دیا گیا ہے، اور عمر کو ابوبکر سے اور عثمان کو عمر سے“۔ جابر کہتے ہیں: جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر آئے تو ہم نے کہا: مرد صالح سے مراد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اور بعض کا بعض سے جوڑے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہی لوگ اس امر (دین) کے والی ہوں گے جس کے ساتھ اللہ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے
أبوداود باب فِي الْخُلَفَاءِ 4636
مسند احمد (۳/۳۵۵)
مشکوٰۃ ج 2 ص 563
سیدنا جابر فرماتے ہیں :
قلنا إما إلرجل إلصالح فرسول اللّ صلی اللّ عليه و سلم
ترجمہ: ہم نے کہا: ”رجل صالح“ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں
حدثني محمد بن يزيد الكوفي حدثنا الوليد عن الاوزاعي عن يحيى بن ابي كثير عن محمد بن إبراهيم عن عروة بن الزبير قال: سالت عبد الله بن عمروعن اشد ما صنع المشركون برسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " رايت عقبة بن ابي معيط جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي ، فوضع رداءه في عنقه فخنقه به خنقا شديدا ، فجاء ابو بكر حتى دفعه عنه فقال: اتقتلون رجلا ان يقول: ربي الله وقد جاءكم بالبينات من ربكم ". حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، عَنْ أَشَدِّ مَا صَنَعَ الْمُشْرِكُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"رَأَيْتُ عُقْبَةَ بْنَ أَبِي مُعَيْطٍ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَوَضَعَ رِدَاءَهُ فِي عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ بِهِ خَنْقًا شَدِيدًا ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى دَفَعَهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ: رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ". مجھ سے محمد بن یزید کوفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، ان سے اوزاعی نے، ان سے یحییٰ ابن ابی کثیر نے، ان سے محمد بن ابراہیم نے اور ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مشرکین مکہ کی سب سے بڑی ظالمانہ حرکت کے بارے میں پوچھا جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی تھی تو انہوں نے بتلایا کہ میں نے دیکھا کہ عقبہ بن ابی معیط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، اس بدبخت نے اپنی چادر آپ کی گردن مبارک میں ڈال کر کھینچی جس سے آپ کا گلا بڑی سختی کے ساتھ پھنس گیا۔ اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور اس بدبخت کو دفع کیا اور کہا کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے اور وہ تمہارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے۔
باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: «لو كنت متخذا خليلا»: باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا
كتاب فضائل الصحابة
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرما :
إتقتلون رجلا إن یقول ربی الله
صحیح البخاری: ج 1 ص 519 ، 520
ترجمہ: کیا تم اس آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ۔
انطلقت مع أبي نحو رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رأيته قال لي أبي : هل تدري من هذا قلت لا فقال لي أبي هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقشعررت حين قال ذاك وكنت أظن رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لا يشبه الناس فإذا بشر له وفرة قال عفان في حديثه : ذو وفرة وبها ردع من حناء عليه ثوبان أخضران فسلم عليه أبي ثم جلسنا فتحدثنا ساعة ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لأبي : ابنك هذا ؟ قال : إي ورب الكعبة قال : حقا ؟ قال : أشهد به فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ضاحكا من ثبت شبهي بأبي ومن حلف أبي علي ثم قال أما إنه لا يجني عليك ولا تجني عليه قال وقرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم { ولا تزر وازرة وزر أخرى } قال ثم نظر إلى مثل السلعة بين كتفيه فقال : يا رسول الله إني لأطب الرجال ألا أعالجها لك ؟ قال : لا طبيبها الذي خلقها .
الراوي: أبو رمثة
المحدث: أحمد شاكر
المصدر: مسند أحمد
الصفحة أو الرقم: 12/65
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
- انطلَقْتُ مع أبي إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فلمَّا رأَيْتُه قال أبي : مَن هذا ؟ قُلْتُ : لا أدري قال : هذا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فاقشعرَرْتُ حينَ قال ذلكَ وكُنْتُ أظُنُّ أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم لا يُشبِهُ النَّاسَ فإذا له وَفْرةٌ بها رَدْعٌ مِن حِنَّاءٍ وعليه بُردانِ أخضرانِ فسلَّم عليه أبي ثمَّ أخَذ يُحدِّثُنا ساعةً قال : ( ابنُكَ هذا ) ؟ قال : إي وربِّ الكعبةِ أشهَدُ به قال : ( أمَا إنَّ ابنَك هذا لا يجني عليك ولا تجني عليه ) ثمَّ قرَأ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : { لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى }، ثمَّ نظَر إلى السِّلعةِ الَّتي بيْنَ كتِفَيْه فقال : يا رسولَ اللهِ إنِّي كأطبِّ الرِّجالِ ألا أُعالِجُها ؟ قال : ( طبيبُها الَّذي خلَقها ).
الراوي: أبو رمثة التيمي
صحيح ابن حبان الصفحة أو الرقم: 5995
انطلقت مع أبي نحو رسول الله - صلى الله عليه وعلى اله وسلم - فلما رأيته قال لي أبي : هل تدري من هذا ؟ قلت : لا ، فقال لي أبي : هذا رسول الله - صلى الله عليه وعلى آله وسلم - فاقشعررت حين قال ذاك ، وكنت أظن رسول الله - صلى الله عليه وعلى آله وسلم - شيئا لا يشبه الناس ، فإذا بشر له وفرة ، قال عفان في حديثه ، ذو وفرة وبها ردع من حناء عليه ثوبان أخضران ، فسلم عليه أبي ، ثم جلسنا وتحدثنا ساعة . ثم إن رسول الله - صلى الله عليه وعلى آله وسلم - قال لأبي : ابنك هذا ؟ قال : إي ورب الكعبة فتبسم رسول الله - صلى الله غليه وعلى آله وسلم - ضاحكا من ثبت شبهي بأبي ، ومن حلف أبي علي ، ثم قال : أما إنه لا يجني عليك ولا تجني عليه ، قال : وقرأ رسول الله - صلى الله عليه وعلى آله وسلم - : { ولا تزر وازرة وزر أخرى } . ثم نظر إلي مثل السلعة بين كتفيه ، فقال : يا رسول الله ، إني لأطب الرجال ألا أعالجها لك ؟ قال : لا ، طبيبها الذي خلقها .
. الراوي: أبو رمثة المحدث: الصحيح المسند الصفحة أو الرقم: 1238 خلاصة حكم المحدث: صحيح ، رجاله رجال الصحيح
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ، ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﻋﻦ ﻋﻜﺮﻣﺔ، ﻗﺎﻝ: «ﺗﻮﻓﻲ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻮﻡ اﻻﺛﻨﻴﻦ ﻓﺤﺒﺲ ﺑﻘﻴﺔ ﻳﻮﻣﻪ ﻭﻟﻴﻠﺘﻪ ﻭاﻟﻐﺪ ﺣﺘﻰ ﺩﻓﻦ ﻟﻴﻠﺔ اﻷﺭﺑﻌﺎء» ﻭﻗﺎﻟﻮا: ﺇﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻢ ﻳﻤﺖ، ﻭﻟﻜﻦ ﻋﺮﺝ ﺑﺮﻭﺣﻪ ﻛﻤﺎ ﻋﺮﺝ ﺑﺮﻭﺡ ﻣﻮﺳﻰ ﻓﻘﺎﻡ ﻋﻤﺮ ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻢ ﻳﻤﺖ ﻭﻟﻜﻦ ﻋﺮﺝ ﺑﺮﻭﺣﻪ ﻛﻤﺎ ﻋﺮﺝ ﺑﺮﻭﺡ ﻣﻮﺳﻰ، ﻭاﻟﻠﻪ - ﻻ ﻳﻤﻮﺕ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺣﺘﻰ ﻳﻘﻄﻊ ﺃﻳﺪﻱ ﺃﻗﻮاﻡ ﻭﺃﻟﺴﻨﺘﻬﻢ، ﻓﻠﻢ ﻳﺰﻝ ﻋﻤﺮ ﻳﺘﻜﻠﻢ ﺣﺘﻰ ﺃﺯﺑﺪ ﺷﺪﻗﺎﻩ ﻣﻤﺎ ﻳﻮﻋﺪ ﻭﻳﻘﻮﻝ. ﻓﻘﺎﻡ اﻟﻌﺒﺎﺱ ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺪ ﻣﺎﺕ، ﻭﺇﻧﻪ ﻟﺒﺸﺮ ﻭﺇﻧﻪ ﻳﺄﺳﻦ ﻛﻤﺎ ﻳﺄﺳﻦ اﻟﺒﺸﺮ، ﺃﻱ ﻗﻮﻡ ﻓﺎﺩﻓﻨﻮا ﺻﺎﺣﺒﻜﻢ. ﻓﺈﻧﻪ ﺃﻛﺮﻡ ﻋﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﺃﻥ ﻳﻤﻴﺘﻪ ﺇﻣﺎﺗﺘﻴﻦ. ﺃﻳﻤﻴﺖ ﺃﺣﺪﻛﻢ ﺇﻣﺎﺗﺔ ﻭﻳﻤﻴﺘﻪ ﺇﻣﺎﺗﺘﻴﻦ ﻭﻫﻮ ﺃﻛﺮﻡ ﻋﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﺫﻟﻚ؟. ﺃﻱ ﻗﻮﻡ، ﻓﺎﺩﻓﻨﻮا ﺻﺎﺣﺒﻜﻢ، ﻓﺈﻥ ﻳﻚ ﻛﻤﺎ ﺗﻘﻮﻟﻮﻥ ﻓﻠﻴﺲ ﺑﻌﺰﻳﺰ ﻋﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﺃﻥ ﻳﺒﺤﺚ ﻋﻨﻪ اﻟﺘﺮاﺏ، ﺇﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭاﻟﻠﻪ ﻣﺎ ﻣﺎﺕ ﺣﺘﻰ ﺗﺮﻙ اﻟﺴﺒﻴﻞ ﻧﻬﺠﺎ ﻭاﺿﺤﺎ، ﻓﺄﺣﻞ اﻟﺤﻼﻝ، ﻭﺣﺮﻡ اﻟﺤﺮاﻡ، ﻭﻧﻜﺢ ﻭﻃﻠﻖ، ﻭﺣﺎﺭﺏ ﻭﺳﺎﻟﻢ، ﻣﺎ ﻛﺎﻥ ﺭاﻋﻲ ﻏﻨﻢ ﻳﺘﺒﻊ ﺑﻬﺎ ﺻﺎﺣﺒﻬﺎ ﺭءﻭﺱ اﻟﺠﺒﺎﻝ ﻳﺨﺒﻂ ﻋﻠﻴﻬﺎ اﻟﻌﻀﺎﺓ ﺑﻤﺨﺒﻄﻪ ﻭﻳﻤﺪﺭ ﺣﻮﺿﻬﺎ ﺑﻴﺪﻩ ﺑﺄﻧﺼﺐ ﻭﻻ ﺃﺩﺃﺏ ﻣﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ. ﻛﺎﻥ ﻓﻴﻜﻢ. ﺃﻱ ﻗﻮﻡ، ﻓﺎﺩﻓﻨﻮا ﺻﺎﺣﺒﻜﻢ. ﻗﺎﻝ: ﻭﺟﻌﻠﺖ ﺃﻡ ﺃﻳﻤﻦ ﺗﺒﻜﻲ، ﻓﻘﻴﻞ ﻟﻬﺎ: ﻳﺎ ﺃﻡ ﺃﻳﻤﻦ ﺗﺒﻜﻴﻦ ﻋﻠﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ؟ ﻗﺎﻟﺖ: ﺇﻧﻲ ﻭاﻟﻠﻪ ﻣﺎ ﺃﺑﻜﻲ ﻋﻠﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻥ ﻻ ﺃﻛﻮﻥ ﺃﻋﻠﻢ - - ﺃﻧﻪ ﻗﺪ ﺫﻫﺐ ﺇﻟﻰ ﻣﺎ ﻫﻮ ﺧﻴﺮ ﻟﻪ ﻣﻦ اﻟﺪﻧﻴﺎ، ﻭﻟﻜﻨﻲ ﺃﺑﻜﻲ ﻋﻠﻰ ﺧﺒﺮ اﻟﺴﻤﺎء اﻧﻘﻄﻊ ﻗﺎﻝ ﺣﻤﺎﺩ: ﺧﻨﻘﺖ اﻟﻌﺒﺮﺓ ﺃﻳﻮﺏ ﺣﻴﻦ ﺑﻠﻎ ﻫﺎﻫﻨﺎﺭﺟﺎﻟﻪ ﺛﻘﺎﺕ ﻏﻴﺮ ﺃﻧﻪ ﻣﺮﺳﻞ
مسند دارمی
باب وفات نبی علیہ السلام حدیث نمبر 84
حدثنا الحسن قثنا أحمد بن المقدام العجلي قثنا الفضيل بن عياض قثنا ثور بن يزيد عن خالد بن معدان عن زاذان عن سلمان قال سمعت حبيبي رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : كنت انا وعلي نورا بين يدي الله عز و جل قبل ان يخلق آدم بأربعة عشر ألف عام فلما خلق الله آدم قسم ذلك النور جزءين فجزء أنا وجزء علي فضائل الصحابة نویسنده : أحمد بن حنبل
“Hazrat Salman said: I heard ALLAH’s beloved Messenger(SAWW) state: Ali (AS) and I (SAWW) were a light between AlLLAH’s hands fourteen thousand years prior the creation of Adam(AS), and when ALLAH created Adam(AS) He divided that light into two parts, one part is Me and the other part is Ali”
[Recorded by Imam Ahmad ibn Hanbal in his Fadail
حدثنا الحسن قثنا أحمد بن المقدام العجلي قثنا الفضيل بن عياض قثنا ثور بن يزيد عن خالد بن معدان عن زاذان عن سلمان قال سمعت حبيبي رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : كنت انا وعلي نورا بين يدي الله عز و جل قبل ان يخلق آدم بأربعة عشر ألف عام فلما خلق الله آدم قسم ذلك النور جزءين فجزء أنا وجزء علي فضائل الصحابة نویسنده : أحمد بن حنبل
“Hazrat Salman said: I heard ALLAH’s beloved Messenger(SAWW) state: Ali (AS) and I (SAWW) were a light between AlLLAH’s hands fourteen thousand years prior the creation of Adam(AS), and when ALLAH created Adam(AS) He divided that light into two parts, one part is Me and the other part is Ali”
[Recorded by Imam Ahmad ibn Hanbal in his Fadail
حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’اِتَّقُوْا فَرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللہِ‘‘ مومن کی فراست و دانائی سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
معجم الاوسط، باب البائ، من اسمہ بکر، ۲/۲۷۱، الحدیث: ۳۲۵۴
لاالہ الااﷲ وانہ عبداﷲ ورسولہ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگوں! میں تو رسول ہوں اوربشر ہوں
قال الامام احمد بن حنبل : ثنا ابوکامل ثنا زھیر ثنا الاسود بن قیس ثنا ثعلبۃ بن عباد العبدی من اھل البصرة. قال ابوداؤد : اخبرنا ابو خلیفة حدثنا خلف بن ھشام البزار حدثنا ابوعوانة عن الاسود بن قیس عن ثعلبة بن عباد عن سمرة بن جندب قال.قال ابوحاتم ابن حبان :واخبرنا الحسن بن سفیان حدثنا ابوبکر بن ابی شیبة حدثنا الفضل بن دکین حدثنا زھیر بن معاویة عن الاسود بن قیس. فذکر نحو سطر. قال الحاکم : حدثنا ابوالعباس محمد بن یعقوب ثنا الحسن بن مکرم ثنا ابوالنضر ثنا زھیر وثنا علی بن حمشاد العدل ثنا علی بن عبدالعزیز ثنا ابو نعیم ثنا زھیر عن الاسود بن قیس حدثنی ثعلبة بن عباد العبدی من اھل البصرة : ”انہ شھد خطبة یومًا لسمرة بن جندب رضی اﷲ عنہ قال قال سمرة وغلام من الانصار نرمی غرضنا لنا علی عھد رسول اﷲﷺ حتّٰی اذا طلعت الشمس فکانت فی عین الناظر قید رمح او رمحین اسودت قال احدنا لصاحبہ انطلق بنا الٰی مسجد رسول اﷲﷺ فواﷲ لتحدثن ھذہ الشمس الیوم لرسول اﷲﷺ فی امتہ حدثا قال فدفعنا الٰی المسجد فواقفنا رسول اﷲﷺ حین خرج فاستقام فصلّٰی فقام بنا کاطول ما قام فی صلاۃ قط لا نسمع لہ صوتا ثم قام ففعل مثل ذلک بالرکعة الثانیة ثم جلس فوافق جلوسہ تجلی الشمس فسلم والنصرف فحمداﷲ واثنٰی علیہ واشھدان لاالہ الااﷲ وانہ عبداﷲ ورسولہ ثم قال : ایھاالناس انما انا بشر رسول اذکرکم اﷲ ان کنتم تعلمون انی قصرت عن شئ من تبلیغ رسالات ربی لما اخبرتمونی فقال الناس : نشہد انک بلغت رسالات ربک ونصحت لامتک وقضیت الذی علیک ثم قال : اما بعد! فان رجالا یزعمون ان کشف ھذہ الشمس وکسوف ھذا القمر وزال ھذہ النجوم عن مطالعھا لموت رجال عظمآء من اھل الارض وانھم کذبوا ولکنھا آیات اﷲ یعتبر بھا عبادہ لینظر من یحدث لہ منھم توبة وانی واﷲ لقد رایت ما انتم لاقون من امر دنیاکم وآخرتکم مذ قمت اصلی وانہ ما تقوم الساعة حتی یخرج ثلاثون کذابا احدھم الاعور الدجال ممسوہ عین الیسریٰ کانھا عین ابی تحیا شیخ من الانصار بینہ وبین حجرة عائشة خشبة وانہ متی یخرج فانہ سوف یزعم انہ اﷲ فمن آمن بہ وصدقہ واتبعہ فلیس ینفعہ عمل صالح من عمل سلف وانہ سیظہر علی الارض کلھا الا الحرم وبیت المقدس وانہ یسوق المسلمین الٰی بیت المقدس فیحصرون حصارا شدیدا ،وفی روایة الحاکم : وانہ یحصرالمومنین فی بیت المقدس فیتزلزلون زلزالا شدیدا فیصبح فیھم عیسٰی ابن مریم فیھزمہ اﷲ وجنودہ حتی ان اجدم الحائط واصل الشجرة لینادی بالمومن ھذا کافر یستتر بی فتعال اقتلہ“
مسند احمد بن حنبل:۶۴۵/۱۹۶۶۵/۵،سنن ابوداؤد: ۴۴۵-۴۴۴/۱۱۷۱/۱،مواردالظمآن الیٰ زوائد ابن حبان:۱۵۹-۱۵۸/۵۸۷-۵۸۶،مستدرک حاکم : ۴۴۹-۴۴۸/۱/۱۱۲۸/۱/۱،امام حاکم فرماتے ہیں : یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے ،امام ذہبی فرماتے ہیں : یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
ثعلبہ بن اسود رحمہ اﷲ سے روایت ہے جو بصرے کا رہنے والا ہے اس نے ایک خطبہ سنا سمرۃ بن جندب رضی اﷲ عنہ سے انہوں نے فرمایا : میں اور ایک لڑکا انصار میں سے تیر اندازی کررہے تھے ،رسول اﷲﷺ کے عہد میں جب آفتاب دو یا ایک نیزے کے برابر بلند ہوا دیکھنے والے کو نزدیک افق سے (افق آسمان کے کنارے کو کہتے ہیں )دفعتًا سورج سیاہ ہوگیا ہم دونوں نے ایک دوسرے سے کہا چلو رسول اﷲﷺ کی مسجد کو اﷲ کی قسم یہ سورج کا سیاہ ہونا رسول اﷲﷺکی امت میں کوئی حادثہ لائے گا پھر فرمایا ہم مسجد کی طرف چلے ہم مسجد اس وقت پہنچے جب رسول اﷲﷺ مسجد کے لئے نکل رہے تھے پس آپ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی اوربہت دیر تک قیام کیا لمبے سے لمبا لیکن ہم نے آپ ﷺ کی آواز بالکل نہیں سنی پھر آپ کھڑے ہوئے اسی طرح دوسری رکعت میں کیا سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا : جب آپ ﷺدوسری رکعت پڑھ کر بیٹھے تو سورج روشن ہوگیا ُپھر آپﷺنے سلام پھیرا اور نماز سے فارغ ہوئے اﷲعزوجل کی تعریف کی اور شکر ادا کیا اور کہا اشہد ان لاالہ الااﷲ وانہ عبداﷲ ورسولہ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگوں! میں تو رسول ہوں اوربشر ہوں تمہیں اﷲ کی خوبیاں بیان کرتا ہوں کیا تم اس بات کو جانتے ہو کہ میں نے اﷲ کا پیغام تم تک پہنچانے میں کسی چیز کی کمی کی ہے؟لوگوں نے کہا : ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اپنے رب کا پورا پورا پیغام پہنچادیا اور امت کے لئے خیر خواہی بھی پوری پوری کی ہے اور جو فریضہ اﷲنے آپ کو سونپا تھا اسے آپ ﷺ نے پورا کا پورا انجام دیا ہے پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے کہا امابعد!کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سورج کو گہن لگنا اور چاند کا گہنانا اور تاروں کا زمین پر گرنا زمین پر رہنے والے بڑے لوگوں کی موت کی وجہ سے ہوتا ہے ان لوگوں کی یہ بات جھوٹ ہے یہ اﷲ کی نشانیاں ہیں ان کے ذریعے وہ لوگوں کو آزماتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ اس نشانی کو دیکھنے کے بعد ان میں سے کون اﷲ کی طرف رجوع ہوتا ہے اور تحقیق اﷲ کی قسم میں نے وہ دیکھا ہے جس کی تم دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے تمہارے دنیاوی اور اخروی امور جب سے میں نماز پڑھنے کھڑا ہوا ،اور بے شک یہ حقیقت ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس عدد جھوٹے کذاب نہ نکلیں ان میں ایک کانا دجال ہوگا جس کی بائیں آنکھ مٹی کی بنی ہوئی ہوگی جیسے کہ ابو تحیاء کی آنکھ ہے جب وہ نکلے گا وہ یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اﷲ ہے(اعوذباﷲ) پس جو اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی اور اس کے پیچھے چلا تو اس کے پچھلے اعمال صالح اس کو کوئی نفع نہ دیں گے وہ پوری زمین پر غلبہ پالے گا سوائے مکہ مدینہ اور بیت المقدس کے دجال مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف بھگائے گا اور ان کا سخت محاصرہ کرلے گا پس مسلمین شدید طور پر جھنجھوڑے جائیں گے پس صبح کے وقت عیسٰی ابن مریم علیہما السلام موجود ہونگے پس اﷲتعالیٰ دجال اور اس لشکر کو شکست دے گا حتی کہ اگر دجال کے لشکر والا دیوار کے پیچھے یا درخت کی جڑ میں پناہ لئے ہوئے ہوگا تو وہ مومن کو آواز دے گا یہاں یہ کافر چھپا ہوا ہے ادھر آ اور اسے قتل کردے۔
في أخبار داود عليه السلام إن الله تعالى قال يا داود فإني خلقت طينة أحبائي من طينة إبراهيم خليلي وموسى نجي ومحمد صفي وخلقت قلوب المشتاقين من نوري ونعمتها بجلالي۔
حضرۃ داؤدؑ کی روایات میں ہےاللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا:اے داؤدؑ میں نے اپنے دوستوں کا خمیر اپنے خلیل ابراہیمؑ،اپنے کلیم موسیٰؑ اور اپنے صفی محمدؐ کے خمیر سے بنایا ہے اور اپنے مشتاقین کے دل اپنے نور سے پیدا کئے اور اپنے جلال سے ان کی پرورش کی ہے۔
إحياء علوم الدين /جزء ۴/ كتاب المحبة والشوق والأنس والرضا/بيان معنى الشوق إلى الله تعالى/رقم الصفحۃ۳۲۴
الامام أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الطوسيؒ المتوفی۵۰۵ ہجری
عن انس قال کانت الحبشۃ یزفنون بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویرقصون و یقولون: ’’محمد عبد صالح‘‘ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مایقولون؟ قالوا یقولون: ’’محمد عبد صالح‘‘.( احمد بن حنبل ، رقم ۱۲۵۶۲)
’’انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حبشہ کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ناچ رہے تھے اور یہ گا رہے تھے : محمدصالح انسان ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ کہہ رہے ہیں: محمدصالح انسان ہیں۔‘
فمبلغ العلم فيه انه بشر
وانه خير خلق الله كلهم
قصيدة البردة
معجم الاوسط، باب البائ، من اسمہ بکر، ۲/۲۷۱، الحدیث: ۳۲۵۴
لاالہ الااﷲ وانہ عبداﷲ ورسولہ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگوں! میں تو رسول ہوں اوربشر ہوں
قال الامام احمد بن حنبل : ثنا ابوکامل ثنا زھیر ثنا الاسود بن قیس ثنا ثعلبۃ بن عباد العبدی من اھل البصرة. قال ابوداؤد : اخبرنا ابو خلیفة حدثنا خلف بن ھشام البزار حدثنا ابوعوانة عن الاسود بن قیس عن ثعلبة بن عباد عن سمرة بن جندب قال.قال ابوحاتم ابن حبان :واخبرنا الحسن بن سفیان حدثنا ابوبکر بن ابی شیبة حدثنا الفضل بن دکین حدثنا زھیر بن معاویة عن الاسود بن قیس. فذکر نحو سطر. قال الحاکم : حدثنا ابوالعباس محمد بن یعقوب ثنا الحسن بن مکرم ثنا ابوالنضر ثنا زھیر وثنا علی بن حمشاد العدل ثنا علی بن عبدالعزیز ثنا ابو نعیم ثنا زھیر عن الاسود بن قیس حدثنی ثعلبة بن عباد العبدی من اھل البصرة : ”انہ شھد خطبة یومًا لسمرة بن جندب رضی اﷲ عنہ قال قال سمرة وغلام من الانصار نرمی غرضنا لنا علی عھد رسول اﷲﷺ حتّٰی اذا طلعت الشمس فکانت فی عین الناظر قید رمح او رمحین اسودت قال احدنا لصاحبہ انطلق بنا الٰی مسجد رسول اﷲﷺ فواﷲ لتحدثن ھذہ الشمس الیوم لرسول اﷲﷺ فی امتہ حدثا قال فدفعنا الٰی المسجد فواقفنا رسول اﷲﷺ حین خرج فاستقام فصلّٰی فقام بنا کاطول ما قام فی صلاۃ قط لا نسمع لہ صوتا ثم قام ففعل مثل ذلک بالرکعة الثانیة ثم جلس فوافق جلوسہ تجلی الشمس فسلم والنصرف فحمداﷲ واثنٰی علیہ واشھدان لاالہ الااﷲ وانہ عبداﷲ ورسولہ ثم قال : ایھاالناس انما انا بشر رسول اذکرکم اﷲ ان کنتم تعلمون انی قصرت عن شئ من تبلیغ رسالات ربی لما اخبرتمونی فقال الناس : نشہد انک بلغت رسالات ربک ونصحت لامتک وقضیت الذی علیک ثم قال : اما بعد! فان رجالا یزعمون ان کشف ھذہ الشمس وکسوف ھذا القمر وزال ھذہ النجوم عن مطالعھا لموت رجال عظمآء من اھل الارض وانھم کذبوا ولکنھا آیات اﷲ یعتبر بھا عبادہ لینظر من یحدث لہ منھم توبة وانی واﷲ لقد رایت ما انتم لاقون من امر دنیاکم وآخرتکم مذ قمت اصلی وانہ ما تقوم الساعة حتی یخرج ثلاثون کذابا احدھم الاعور الدجال ممسوہ عین الیسریٰ کانھا عین ابی تحیا شیخ من الانصار بینہ وبین حجرة عائشة خشبة وانہ متی یخرج فانہ سوف یزعم انہ اﷲ فمن آمن بہ وصدقہ واتبعہ فلیس ینفعہ عمل صالح من عمل سلف وانہ سیظہر علی الارض کلھا الا الحرم وبیت المقدس وانہ یسوق المسلمین الٰی بیت المقدس فیحصرون حصارا شدیدا ،وفی روایة الحاکم : وانہ یحصرالمومنین فی بیت المقدس فیتزلزلون زلزالا شدیدا فیصبح فیھم عیسٰی ابن مریم فیھزمہ اﷲ وجنودہ حتی ان اجدم الحائط واصل الشجرة لینادی بالمومن ھذا کافر یستتر بی فتعال اقتلہ“
مسند احمد بن حنبل:۶۴۵/۱۹۶۶۵/۵،سنن ابوداؤد: ۴۴۵-۴۴۴/۱۱۷۱/۱،مواردالظمآن الیٰ زوائد ابن حبان:۱۵۹-۱۵۸/۵۸۷-۵۸۶،مستدرک حاکم : ۴۴۹-۴۴۸/۱/۱۱۲۸/۱/۱،امام حاکم فرماتے ہیں : یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے ،امام ذہبی فرماتے ہیں : یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
ثعلبہ بن اسود رحمہ اﷲ سے روایت ہے جو بصرے کا رہنے والا ہے اس نے ایک خطبہ سنا سمرۃ بن جندب رضی اﷲ عنہ سے انہوں نے فرمایا : میں اور ایک لڑکا انصار میں سے تیر اندازی کررہے تھے ،رسول اﷲﷺ کے عہد میں جب آفتاب دو یا ایک نیزے کے برابر بلند ہوا دیکھنے والے کو نزدیک افق سے (افق آسمان کے کنارے کو کہتے ہیں )دفعتًا سورج سیاہ ہوگیا ہم دونوں نے ایک دوسرے سے کہا چلو رسول اﷲﷺ کی مسجد کو اﷲ کی قسم یہ سورج کا سیاہ ہونا رسول اﷲﷺکی امت میں کوئی حادثہ لائے گا پھر فرمایا ہم مسجد کی طرف چلے ہم مسجد اس وقت پہنچے جب رسول اﷲﷺ مسجد کے لئے نکل رہے تھے پس آپ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی اوربہت دیر تک قیام کیا لمبے سے لمبا لیکن ہم نے آپ ﷺ کی آواز بالکل نہیں سنی پھر آپ کھڑے ہوئے اسی طرح دوسری رکعت میں کیا سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا : جب آپ ﷺدوسری رکعت پڑھ کر بیٹھے تو سورج روشن ہوگیا ُپھر آپﷺنے سلام پھیرا اور نماز سے فارغ ہوئے اﷲعزوجل کی تعریف کی اور شکر ادا کیا اور کہا اشہد ان لاالہ الااﷲ وانہ عبداﷲ ورسولہ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگوں! میں تو رسول ہوں اوربشر ہوں تمہیں اﷲ کی خوبیاں بیان کرتا ہوں کیا تم اس بات کو جانتے ہو کہ میں نے اﷲ کا پیغام تم تک پہنچانے میں کسی چیز کی کمی کی ہے؟لوگوں نے کہا : ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اپنے رب کا پورا پورا پیغام پہنچادیا اور امت کے لئے خیر خواہی بھی پوری پوری کی ہے اور جو فریضہ اﷲنے آپ کو سونپا تھا اسے آپ ﷺ نے پورا کا پورا انجام دیا ہے پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے کہا امابعد!کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سورج کو گہن لگنا اور چاند کا گہنانا اور تاروں کا زمین پر گرنا زمین پر رہنے والے بڑے لوگوں کی موت کی وجہ سے ہوتا ہے ان لوگوں کی یہ بات جھوٹ ہے یہ اﷲ کی نشانیاں ہیں ان کے ذریعے وہ لوگوں کو آزماتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ اس نشانی کو دیکھنے کے بعد ان میں سے کون اﷲ کی طرف رجوع ہوتا ہے اور تحقیق اﷲ کی قسم میں نے وہ دیکھا ہے جس کی تم دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے تمہارے دنیاوی اور اخروی امور جب سے میں نماز پڑھنے کھڑا ہوا ،اور بے شک یہ حقیقت ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس عدد جھوٹے کذاب نہ نکلیں ان میں ایک کانا دجال ہوگا جس کی بائیں آنکھ مٹی کی بنی ہوئی ہوگی جیسے کہ ابو تحیاء کی آنکھ ہے جب وہ نکلے گا وہ یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اﷲ ہے(اعوذباﷲ) پس جو اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی اور اس کے پیچھے چلا تو اس کے پچھلے اعمال صالح اس کو کوئی نفع نہ دیں گے وہ پوری زمین پر غلبہ پالے گا سوائے مکہ مدینہ اور بیت المقدس کے دجال مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف بھگائے گا اور ان کا سخت محاصرہ کرلے گا پس مسلمین شدید طور پر جھنجھوڑے جائیں گے پس صبح کے وقت عیسٰی ابن مریم علیہما السلام موجود ہونگے پس اﷲتعالیٰ دجال اور اس لشکر کو شکست دے گا حتی کہ اگر دجال کے لشکر والا دیوار کے پیچھے یا درخت کی جڑ میں پناہ لئے ہوئے ہوگا تو وہ مومن کو آواز دے گا یہاں یہ کافر چھپا ہوا ہے ادھر آ اور اسے قتل کردے۔
في أخبار داود عليه السلام إن الله تعالى قال يا داود فإني خلقت طينة أحبائي من طينة إبراهيم خليلي وموسى نجي ومحمد صفي وخلقت قلوب المشتاقين من نوري ونعمتها بجلالي۔
حضرۃ داؤدؑ کی روایات میں ہےاللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا:اے داؤدؑ میں نے اپنے دوستوں کا خمیر اپنے خلیل ابراہیمؑ،اپنے کلیم موسیٰؑ اور اپنے صفی محمدؐ کے خمیر سے بنایا ہے اور اپنے مشتاقین کے دل اپنے نور سے پیدا کئے اور اپنے جلال سے ان کی پرورش کی ہے۔
إحياء علوم الدين /جزء ۴/ كتاب المحبة والشوق والأنس والرضا/بيان معنى الشوق إلى الله تعالى/رقم الصفحۃ۳۲۴
الامام أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الطوسيؒ المتوفی۵۰۵ ہجری
عن انس قال کانت الحبشۃ یزفنون بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویرقصون و یقولون: ’’محمد عبد صالح‘‘ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مایقولون؟ قالوا یقولون: ’’محمد عبد صالح‘‘.( احمد بن حنبل ، رقم ۱۲۵۶۲)
’’انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حبشہ کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ناچ رہے تھے اور یہ گا رہے تھے : محمدصالح انسان ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ کہہ رہے ہیں: محمدصالح انسان ہیں۔‘
فمبلغ العلم فيه انه بشر
وانه خير خلق الله كلهم
قصيدة البردة
No comments:
Post a Comment