*"المہند" کی اشاعت کے متعلق رضا خانی سعد حنفی کے ڈھول کا پول اور اتمام حجت*
✍️ ابو سعد لئیق رحمانی
قارئین کرام! ہم نے کل یا پرسوں "المہند" کی اشاعت کے متعلق سعد حنفی کے ایک جھوٹ کی قلعی کھولنے کے لیے موصوف کے سامنے آئینہ رکھا تھا۔ آج جناب نے بجائے اپنا منہ اس آئینے میں دیکھنے اور اپنی اصلاح کرنے کے، مماتیوں کے جھوٹے برتن میں منہ ڈال دیا ہے۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ عزت تو آتی جاتی ہے بس آدمی کو ڈھیٹ ہونا چاہئے، سعد حنفی نے اس بار ایسا ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کیا ہے کہ موصوف ہمارے نزدیک "نوبل پرائز براے ڈھیٹ پن" کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ آئیے موصوف کے اس کارنامۂ ڈھیٹ پن کا زرا تفصیل سے جائزہ لیں۔
موصوف کا جھوٹ یہ تھا کہ
"المہند" فاضل بریلوی کی وفات کے بعد شائع ہوئی... الخ"
ہم نے اس جھوٹ کی قلعی کھولنے کے لئے میثم عباس رضوی کا حوالہ دے کر ثابت کیا تھا کہ المہند فاضل بریلوی کی حیات میں ہی شائع ہوئی تھی، اب موصوف کو چاہئے تھا اپنے جھوٹ سے توبہ کرے، مگر بجائے توبہ کرنے کے موصوف نے اپنے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے کسی متعصب و بدبودار مماتی مولوی کا حوالہ پیش کردیا۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ محض اپنے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے موصوف نے انتہائی متعصب اور کذاب مماتی کا سہارا لیا اور یہ بھی تعجب ہے کہ محض اس مماتی کے کہنے پر اتنا اعتماد کرلیا کہ اپنے ہی علماء کو لات مارنے پر اتر آیا۔ توبہ توبہ
حالانکہ بریلوی علامہ پیر مظفر شاہ قادری کی جانب سے شائع کی گئی کتاب میں لکھا ہے کہ :
”حضور سیّد عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کا فرمان ہے
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ"
اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ ہر سنی سنائی بات بیان کرنے والا بھی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو سکتا اور اُسے جھوٹا قرار دیا گیا ہے ، حالانکہ وہ خود اپنی طرف سے کوئی بات بیان نہیں کررہا، بلکہ بلا تحقیق دوسروں کی باتیں نقل کر رہا ہے۔
ایک دوسری روایت میں تو صریحاً
"كفى به إنما أن يحدث بكل ما سمع "
کے الفاظ موجود ہیں، جس میں بلا تحقیق باتیں نقل کرنے والے کو گناہ گار ٹھہرایا گیا ہے“۔ (کشف القناع : ج ۱ ص ۲۳۷)
ہوسکتا ہے موصوف مزید ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ "ہم نے مماتی کا حوالہ الزامی طور پر پیش کیا تھا" تو نقد جواب عرض ہے کہ آپ کی جماعت کے مفتی عبدالمجید سعیدی فرماتے ہیں کہ:
”ہم پر اس کا قول حجت ہوسکتا ہے جو ہمارے مسلک کا ہو اس لیے قول آپ اسی کا لائیں جو ہمارے لئے حجت ہو“ (مناظرہ مسئلہ رفع یدین : ص ۲۳)
لہزا مماتی ہمارے مسلک کے نہیں تو ان کا قول ہم پر کیسے حجت ہوسکتا ہے؟ اور پھر یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ "المہند" کی اشاعت فاضل بریلوی کی حیات میں ہی ہوئی تھی پھر اصول بھی یہ ہے کہ حقیقت کے خلاف کسی کی بھی بات قبول نہیں کی جاتی خود فاضل بریلوی لکھتے ہیں کہ :
”آپ کو معلوم ہے کہ یہ بات نقل کے خلاف ہے اور منقول کے خلاف کوئی بحث قابل قبول نہیں ہوتی خصوصاً جبکہ وہ بحث خود بھی درست نہ ہو“ (فتاویٰ رضویہ : ج ۷ ص ۵۵۱)
منقول کے خلاف کوئی بحث قابل قبول نہیں، اور منقول تو یہی ہے کہ "المہند" فاضل بریلوی کی حیات میں شائع ہوئی پھر اس منقول کے خلاف بحث کیونکر قابل قبول ہوسکتی ہے۔؟ اگر پھر بھی موصوف بضد ہو اور ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرے اور کہے کہ میں نے مماتی کا حوالہ الزاماً پیش کیا ہے، تو مزید عرض ہے کہ آپ کے گھر کی کتاب میں لکھا ہے کہ :
”تحقیق کے میدان میں الزامی حوالہ جات مردود اور فضول ہیں“۔ (ترک رفع الیدین علمی و تحقیقی دستاویز : ص ۱۶۲)
تو موصوف کا حوالہ فضول و مردود قرار پایا لہزا موصوف سے گزارش ہے کہ ایسے مردود اور فضول کام سے باز آئیں اور "المہند" کی اشاعت کے متعلق اپنے بڑے بھائی جناب میثم عباس رضوی کا یہ طویل اقتباس ایک مرتبہ اور ملاحظہ فرمائیں، موصوف لکھتے ہیں کہ :
"(1) خلیفہ اعلیٰ حضرت صدرالافاضل فخرالاماثل حضرت علامہ مولانا سیدمحمد نعیم الدین مرادآبادی نے (المهند“ کی اشاعت کے بعد تیسرے سال یعنی ۱۳۳۲ھ میں) ”التحقيقات لدفع التلبيسات“ کے نام سے المہند کا ر لکھ دیا تھا۔
(۲) خلیفہ اعلیٰ حضرت مولانا حاجی لعل خان نے بھی ۱۳۳۴ھ میں شائع ہونے والی اپنی کتاب تاریخ وہابیہ و دیوبندیہ میں المھند کا رد کیا تھا۔
(۳) اعلیٰ حضرت کے ایک اور خلیفہ، محدث عظم ہند، حضرت علامہ مولانا سید محمد اشرفی الجیلانی کچھوچھوی نے بھی اعلیٰ حضرت کی حیات مبارکہ میں ”اتمام حجت“ کے نام سے المهند‘ کا رد لکھ کر ۱۹۲۰ ء میں شائع کر دیا تھا۔
(۴) اسی طرح حضرت علامہ مولانا مولوی ریاست علی خان شاہجہانپوری نے بھی اعلی حضرت کی حیات مبارکہ میں ”المہند“ کے رد میں التحقيقات لدفع التحریفات کے نام سے کتاب لکھی تھی، یہ کتاب ۱۹۱۹ء میں شائع ہو گئی تھی ۔
(۵) انوار آفتاب صداقت پر اعلیٰ حضرت کی تقریظ موجود ہے۔ اس کتاب میں بھی المهند“ کا رد کیا گیا ہے۔ جس کا عنوان "رسالہ التَّصْدِيقَاتُ لِدَفْعِ التَّلْبِيسَات المعروف بمهند مؤلفہ مولوی خلیل احمد صاحب کی حقیقت اور اُس کے فرضی و جعلی ہونے کی کیفیت ہے۔ س وضاحت سے معلوم ہوا کہ سیدی اعلی حضرت کی حیاتِ مبارکہ میں ہی آپ کے متعلقین میں ۵ شخصیات (جن میں تین آپ کے خلفا تھے) نے المہند کا رد لکھ دیا تھا“ (المہند اور اعلی حضرت: ص 242-243)"
اس طویل اقتباس میں میثم عباس صاحب یہ ثابت کررہے ہیں کہ "المہند" کا رد اعلی حضرت کی حیات میں ہی کیا جا چکا تھا، جبکہ سعد حنفی اس پر مصر ہے کہ "المہند" اعلی حضرت کے مرنے کے بعد شائع ہوئی، اب ہمارا سوال یہ ہے کہ جب "المہند" اعلی حضرت کی حیات میں شائع نہیں ہوئی تو اس وقت اس کا رد کیسے لکھا گیا۔؟ اگر سعد حنفی سچا ہے تو کیا ہم یہ مان لیں کہ میثم عباس اور دیگر بریلوی علماء جھوٹے، کذاب، مکار ہیں۔؟؟؟
*آخری گزارش:*
ہم سعد حنفی کو انتہائی لاڈ اور سنجیدگی سے سمجھا رہے ہیں کہ وہ ایسے بے تکے اور جھوٹے حوالے دینے سے باز آجائے، ورنہ پھر *"حسام الحرمین"* کے خلاف مفتی خلیل بدایونی، ڈاکٹر طاہرالقادری و علماء جامعہ اشرفیہ مبارکپور سمیت سینکڑوں حوالے پیش کرنے کے ہم بھی مجاز ہوں گے۔!!!
No comments:
Post a Comment