Thursday, 21 November 2024

انگلی پر نجاست لگ جائے تو تین دفعہ چاٹ کر پاک کیا جاسکتا ہے فتاوی رضویہ

 انگلی پر نجاست لگ جائے تو تین دفعہ چاٹ کر پاک کیا جاسکتا ہے فتاوی رضویہ قدیم۔جلد دوم ص 83 جدید جلد چہارم نواب احمد رضا خان بریلوی اعلی حضرت فاضل بریلوی ۔۔۔۔۔ مفتی عبد الواحد قریشی پر اعتراض کرنے والے ہمیشہ کی طرح اپنے گھر کا گند بھول گئے ۔۔۔۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔۔۔۔




Saturday, 12 October 2024

نذر و نیاز کیلئے کچھ نہیں تو اگر ہم میاں بیوی ایک دوسرے کا "بنیت صالحہ فرج ذکر " ٹٹولے بلکہ ٹٹولتے ہی رہیں اس کے بعد جو ڈھیروں اجر و ثواب ہمیں ملے گا کیا یہ ثواب ہم اعلی حضرت فاضل بریلوی کی روح پر فتوح کو "ایصال ثواب" کرسکتے ہیں؟

ایک غریب بریلوی بھائ کا سوال میرے پاس اعلی حضرت کی بارگاہ میں پیش کرنے کیلئے نذر و نیاز کیلئے کچھ نہیں تو اگر ہم میاں بیوی ایک دوسرے کا "بنیت صالحہ فرج ذکر " ٹٹولے بلکہ ٹٹولتے ہی رہیں اس کے بعد جو ڈھیروں اجر و ثواب ہمیں ملے گا کیا یہ ثواب ہم اعلی حضرت فاضل بریلوی کی روح پر فتوح کو "ایصال ثواب" کرسکتے ہیں؟

کیونکہ اعلی حضرت نے اپنی کتاب احکام شریعت حصہ دوم ص 245 پر ثواب کمانے کا ایک دعوت اسلامی کی اصطلاح میں "مدنی طریقہ " یہ بھی بتایا ہے ۔

نوٹ: ہم کوئ اعتراض نہیں کررہے ہیں اس لئے جواب میں یہ تقریر جھاڑنے کی ضرورت نہیں کہ فلاں فلاں کتاب میں بھی لکھا ہوا ہے کیونکہ خود خان صاحب کہتے ہیں کتاب کا مستند ہونا اور بات ہے اس کی ہر بات کا مستند ہونا اور بات ہے ۔۔۔ ہم تو اعلیٰ حضرت کے اس مسلئہ کو سامنے رکھ کر عاجزانہ سوال کررہے ہیں لہذا

جو سوال کیا گیا ہے بس اس کا جواب دیا جائے۔

طالب دعا ساجد خان نقشبندی



Monday, 2 September 2024

اشرف علی رسول اللہ کلمہ پر مولانا تھانوی رحمہ اللہ کی وضاحت


 🌹اشرف علی رسول اللہ کلمہ پر مولانا تھانوی رحمہ اللہ کی وضاحت🌹


💥قارئین کرام! انجینئر مرزا اور اس کے مقلدین آئے دن مولانا تھانوی رحمہ اللہ پر یہ اعتراض کر رہے ہوتے ہیں کہ " انکے مرید نے خواب اور حالت بیداری میں مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے نام کا کلمہ پڑھا جس پر مولانا نے اس مرید کی توبہ کروانے کی بجائے اسے تسلی دی اور اس کی تعبیر یہ بتائی کہ تمہارا پیر متبع سنت ہے۔"


💥یہ اعتراضات کوئی نئے نہیں بلکہ خود مولانا تھانوی رحمہ اللہ کی زندگی میں ہی لوگوں نے یہ اعتراضات اٹھائے تھے جس پر مولانا نے خود رسالہ الامداد میں اپنی وضاحت بھی پیش کردی تھی جسکا شاید ہی آپ حضرات کو علم ہو۔اب ہم ایک ایک اعتراض کا جواب خود مولانا تھانوی رحمہ اللہ سے ہی پیش کر دیتے ہیں۔


💥نوٹ : یہاں پر ایک بات اور واضح کردی جائے کہ مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے دیے گئے جوابات کافی تفصیل سے ہیں جن کو ہم اپنے الفاظ میں اختصار کیساتھ پیش کریں گے کیونکہ اگر بعینہٖ انکی تحریر کو نقل کیا گیا تو ممکن ہے کہ عام لوگوں کو سمجھنے میں مشکل ہو یا پھر سمجھ ہی نہ لگے اس لیے ہم اسے آسان فہم میں یہاں پر بیان کریں گے۔


💥یہ ساری وضاحت رسالہ الامداد کے شمارہ ماہ جمادی الثانی 1336 ہجری جلد 3 کے صفہ 17 تا 24 پر موجود ہے۔


🍁 اعتراض 1 : جس شخص نے خواب اور حالت بیداری میں کلمہ کفر پڑھا تھا تو مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے اسے توبہ کیوں نہ کروائی؟


💥جواب : صاحب واقعہ کو توبہ اس لیے نہیں کروائی گئی کیونکہ خواب والے معاملے میں بالاجماع وہ شخص مکلف نہیں کہ اس پر کوئی شرعی حکم لگتا تاہم پھر بھی اس میں فی نفسہ چند احتمالات ہیں اور وہ یہ ہے کہ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواب بہت برا ہے لیکن اسے برا اس لیے نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ صاحب رؤیا کو ہمیشہ خواب کی تعبیر میں دخل ہوتا ہے جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی ام الفضل بنت الحارث رضی اللہ عنہا نے ایک خواب دیکھا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ!آج رات میں نے ایک برا خواب دیکھا ہے ( حلما منکرا ) آپ نے فرمایا: وہ کیا خواب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ بہت ہی سخت ہے،آپ نے فرمایا: بتائیں تو سہی وہ کیا ہے؟ حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے ”گویا آپ کے جسمِ مبارک سے ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا ہے“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے(اس کی تعبیر یہ ہے کہ) ان شاءاللہ تعالی میری لخت جگر بیٹی( سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا)کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا جو تمہاری گود میں کھیلے گا،چنانچہ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے اور میری گود میں کھیلے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا۔


 مشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب اہل،ج۳،ص۱۷۴۱،ط؛المکتب الاسلامی۔


اب دیکھو کہ بظاہر تو یہ خواب بہت برا تھا اور اس میں بے ادبی بھی شامل تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسکی تعبیر تسلی بخش بتلائی۔


دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ خواب شیطانی ہو لیکن اسکی تعبیر اچھی ہو اس لیے احقر (( یعنی مولانا تھانوی رحمہ اللہ )) کا خیال پہلے احتمال کی طرف ہی گیا کہ اس کی تعبیر اچھی ہی ہوگی۔


دوسری بات یہ کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں نہ پہچانتا ہوں لیکن بعض قرائن نے مجھے اس شخص کے ہدایت پر ہونے کی گواہی دی جن میں بڑا قرینہ یہ ہے کہ خواب میں بھی غلط کلمات ادا ہونے کے باوجود جبکہ وہ شخص خواب کی وجہ سے مکلف بھی نہیں تھا پھر بھی وہ پریشان ہو رہا ہے اور اسکا تدارک کرنے کی کوشش کر رہا ہے اسکا یہ اہتمام اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسکا ایمان قوی و صالح ہے۔پس اسی بناء پر میں نے اسکی اچھی تعبیر لکھ دی۔


💥قارئین کرام! پہلے اعتراض کے جواب سے ہمیں معلوم ہوا کہ مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے اس شخص کو توبہ اس لیے نہیں کروائی کیونکہ ایک تو اس نے خواب کی حالت میں غلط کلمات پڑھے تھے جس کا وہ مکلف نہیں تھا اور رہی بات حالت بیداری کی تو اس میں بھی وہ شخص بے ساختہ ہو کر غلط کلمات پڑھ رہا تھا اور اسکے باوجود وہ پریشان تھا کہ اس کے منہ سے کفریہ کلمات نکلے۔اس شخص کا گھبرانا اور پریشان ہونا ہی اس کے ایمان کی نشانی تھی اور ساتھ یہ بھی واضح ہو گیا کہ وہ شخص کوئی جاہل نہیں بلکہ دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والا تھا۔یہ چند وجوہات تھیں جن کی بناء پر مولانا نے اسے توبہ کروانے کی بجائے اسکی تعبیر بیان کی۔


پھر مولانا نے یہ بھی واضح کر دیا کہ بظاہر تو یہ خواب برا لگتا ہے لیکن بعض دفعہ خواب برا ہونے کے باوجود اسکی تعبیر اچھی ہوا کرتی ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت بھی کیا گیا۔


🍁 اعتراض 2 : مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے کفریہ کلمات کی تعبیر یہ کیوں کی کہ تمہارا پیر متبع سنت ہے؟ کیا ایسے کفریہ کلمے کی یہ تعبیر ہوتی ہے؟


💥جواب : متبع سنت کہنے سے یہ واضح کرنا تھا کہ تم تو میرے نام کا کلمہ پڑھ رہے ہو جبکہ میں تو خود رسول اللہ کا غلام ہوں لہٰذا متبع سنت بتانا رسول اللہ کی طرف غلامی کی نسبت کرنا ہے۔اگر یہی واقعہ اس زمانہ کے مشہور مدعی نبوت کے سامنے پیش کیا جاتا تو کیا وہ اسکا یہی جواب دیتا جو میں نے دیا ہے؟ ہرگز نہیں۔


💥دوسری بات بعض اوقات خواب میں معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے اور دل بھی گواہی دیتا ہے کہ حضور ہی ہیں لیکن زیارت کے وقت معلوم ہوتا ہے کہ شکل کسی اور شخص کی ہے تو وہاں اہل تعبیر یہی کہتے ہیں کہ یہ اشارہ ہے اس شخص کے متبع سنت ہونے کا۔پس جس طرح وہاں صورت نبوی کی جگہ کسی اور شکل ہونے کو اتباع سے تعبیر کی گیا ٹھیک اسی طرح یہاں پر نام ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی جگہ دوسرا نام بیان کیا گیا جسکو اتباع سے تعبیر کیا گیا تو اس سے کونسی شرعی قباحت لازم آ گئی؟


 قارئین کرام! دیکھا آپ نے کہ مولانا نے کس قدر حکمت سے کام لیتے ہوئے " متبع سنت " کی تعبیر بیان فرمائی جس سے یہ بھی واضح کر دیا کہ بیشک تم نے میرے نام کا کلمہ پڑھا ہے لیکن اس سے میرے متعلق کسی غلط فہمی میں نہ رہنا بلکہ میں تو خود رسول اللہ کا غلام ہوں۔


🍁 اعتراض 3 : اگر یہ واقعہ پیش آہی گیا تھا تو اسے یوں رسالے میں شائع کرنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ پتا بھی تھا کہ اس میں کفریہ کلمات موجود ہیں!


جواب : میرے نزدیک یہ واقعہ اتنا ظاہر تھا کہ اس میں کسی ایسے شبہ کی گنجائش میرے ذہن میں نہ تھی اور ایسے کسی شبہ کے نہ ہونے کے سبب میں نے اسکے مجمل جواب کو کافی سمجھا تفصیل کی حاجت نہ سمجھی۔


میں اسکی اشاعت میں یہ فائدہ بھی سمجھتا تھا کہ اگر کسی کو ایسی حالت پیش آجائے تو وہ تلبیس سے محفوظ رہ کر اپنے جان و ایمان کو بچا سکے اور ایسا ہی شخص اس فائدہ کی قدر بھی کر سکتا ہے۔


💥 قارئین کرام! انجینئر مرزا جو یہ ہر وقت یہ کہتا رہتا ہے کہ اس واقعہ کی اشاعت پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی اس کا جواب بھی مولانا نے اپنی زندگی میں دےدیا تھا جسکا مقصد صرف لوگوں کے ایمان کو محفوظ رکھنا تھا۔

 یہاں پر ایک اور شبہ کا جواب ہم اپنی طرف سے عرض کرتے چلیں اور وہ یہ ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ اس شخص پر کوئی شیطانی حملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے اسے توبہ کروانی چاہیے تھی۔۔۔


تو اس پر ہم عرض کر دیں کہ اسکی کیا دلیل ہے کہ اس شخص پر شیطان کا حملہ ہوا تھا؟ آخر شیطان کو سوئے ہوئے شخص پر حملہ کر کے کونسا فائدہ ملتا کیونکہ نیند کی حالت میں تو اس پر کوئی بھی گناہ لازم نہیں آنا تھا جبکہ شیطان ہمیشہ اس شخص پر حملہ کرتا ہے جس پر گناہ کا وبال بھی پڑتا ہو۔بھلا کیا کبھی ایسا ہوا کہ کسی پاگل شخص پر بھی شیطان نے حملہ کیا ہو؟؟؟


💥 خلاصہ کلام یہ ہوا کہ صاحب واقعہ نے خواب اور بیداری کی حالت میں جو کچھ بھی غلط کلمات ادا کیے وہ ان سب کا مکلف نہ تھا کیونکہ اس وقت کچھ بھی اس کے اختیار میں نہ تھا لہٰذا ایسا شخص شریعت کی نظر میں معذور کہلاتا ہے جس پر کوئی حکم نہیں لگتا۔تو جب اس پر کوئی حکم نہیں لگتا تھا تو اسی لیے مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے بھی اسے توبہ نہیں کروائی بلکہ وہ ایک صالح و متقی شخص تھا جو خود سے توبہ استغفار کرنے والا تھا۔

Saturday, 31 August 2024

حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی وہ سب کا سب صدقہ ہوتا ہے کیا یہ حدیث اکیلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ روایت کرتے ہیں

 ♦️ *فدک کے بارے ایک مشہور سوال کا جواب* ♦️


*السوال*

حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی وہ سب کا سب صدقہ ہوتا ہے کیا یہ حدیث اکیلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ روایت کرتے ہیں.؟ 

*الجواب*

اس حدیث کے راوی اکیلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ نہیں، یہ بات اور بھی کئی صحابہؓ سے مروی ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ روایت صرف سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہی سے مروی ہے اگر یہ ان کی جہالت نہیں تو وہ پھر جھوٹ بول رہے ہیں۔

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ (728ھ) لکھتے ہیں:

ان قول النبی ﷺ لانورث ماترکنا فھو صدقة رواہ عنه أبوبكرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و طلحۃؓ و الزبیرؓ و سعدؓ و عبدالرحمن بن عوفؓ والعباسؓ بن عبدالمطلب و ازواج النبی ﷺ و ابوھریرةؓ والروایة عن ھؤلاء ثابتة فی الصحاح والمسانید مشھورة یعلمھا أھل العلم بالحديث فقول القائل أن أبابکرؓ إنفرد بالروایة یدل علی فرط جھله او تعمدہ الکذب

✍️(منہاج السنۃ جلد 4 صفحہ 196) 

حضور اکرمﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ ہم وراثت نہیں چھوڑتے جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے یہ حدیث حضرت ابوبکرؓ صدیق، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعیدؓ، حضرت عبدالرحمنؓ، حضرت عباسؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور آپ ﷺ کی ازواج مطہراتؓ نے بھی روایت کی ہے، نیز یہ حدیث صحاح، مسانید، کتب حدیث میں مشہور ہے جسے محدثین بخوبی جانتے ہیں۔ اب شیعہ علماء کا یہ کہنا کہ یہ روایت منفرد ہے اس کی انتہائی جہالت ہے یا پھر عمداً جھوٹ بولنے پر دلالت کرتا ہے۔

آپ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ یہ حدیث دیگر صحابۂ کرامؓ سے بھی مروی ہے اور صحابہؓ میں سے کوئی ایک صحابیؓ بھی ایسے نہیں ہیں جنہوں نے اس حدیث پر انگلی اٹھائی ہو حتیٰ کہ حضور ﷺ کی ازواجؓ اور آپﷺ کے چچا جو آپﷺ کی وراثت کے حقدار ہوتے انہوں نے بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اور نہ اس حدیث کو کبھی اور کہیں چیلنج کیا تھا اور اسی پر حضرات خلفاء راشدینؓ (جن میں حضرت علی المرتضیؓ بھی شامل ہیں) کا عمل اور فیصلہ رہا۔ حضرت علیؓ نے نہ تو کبھی اس فیصلہ کو تبدیل کیا اور نہ کبھی آپؓ کے دور میں تقسیم وراثت کی کہیں بحث چلی۔

ان ھذا الخبر رواہ غیر واحد من الصحابةؓ فی اوقات ومجالس ولیس فیھم من ینکرہ بل کلھم تلقاہ بالقبول والتصديق ولھذا لم یصر أحد من ازواجه علی طلب المیراث ولاأصر العم علی طلب المیراث بل من طلب من ذلك شیئا فاخبر بقول النبی ﷺ رجع عن طلبه واستمر الأمر علی ذلك علی عھد الخلفاء الراشدينؓ الی علیؓ فلم یغیر شیئا من ذلك ولا قسم لا ترکة

✍️ (منہاج السنہ جلد 4 صفحہ 220) 

اس روایت کو کئی صحابہؓ نے مختلف اوقات اور مجلسوں میں روایت کیا ہے ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے اس روایت کا انکار کیا ہو بلکہ ہر ایک نے اسے قبول کیا اور اس کی تصدیق کی اسی لیے حضورﷺ  کی ازواجؓ میں سے کسی نے بھی اور نہ آپ ﷺ کے چچا نے میراث کے لیے اصرار کیا بلکہ ان میں سے اگر کسی نے میراث مانگی تو اسے جب حضور ﷺ کے اس ارشاد کی خبر دی گئی تو انہوں نے بھی اپنا مطالبہ ترک کر دیا۔ یہ معاملہ خلفائے راشدینؓ کے عہد سے حضرت علیؓ کے دور خلافت تک ایسا ہی رہا اس میں سے کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ کی گئی اور نہ ہی آپ کا ترکہ تقسیم کیا گیا۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے (دیکھیے صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 996) حافظ نورالدین علی بن ابی بکر ہیثمی رحمہ اللہ (ھ807) نے مجمع الزوائد میں حضرت حذیفہؓ سے بھی بیان کی ہے

✍️ (دیکھیے جلد 4 صفحہ 224) 

اور امام ابو نعیم اصفہانی نے مسند ابی حنیفہ میں حضرت ابوالدردءؓ سے (دیکھئےصفحہ 57) روایت کی ہے۔ ہم آگے چل کر بتائیں گے کہ یہ بات علماء شیعہ نے حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ سے بھی بیان کی ہے یہاں یہ بھی پیش نظر رہے کہ شیعہ علماء کے نزدیک حضرت حذیفہؓ سے مروی روایت قابل قبول ہوتی ہے شیعہ عالم عبداللہ مشہدی اپنی کتاب "اظہار الحق" میں لکھتا ہے

(*ماحدثتکم به حذیفة فصدقوہ*)

حضرت حذیفہؓ تم سے جو حدیث بیان کریں تم اس کو سچ جانو۔

*ہم شیعہ علماء کے اس بیان سے ہرگز متفق نہیں کہ حضرت فاطمہؓ نے اپنے مطالبے کے سلسلے میں حضرت علیؓ سے کہا کہ وہ ان کی مدد کریں مگر حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کا ساتھ نہ دیا اور گھر کے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئے اس پر حضرت فاطمہؓ نے حضرت علیؓ سے سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا*

*** مانند جنین در رحم پردہ نشین شدہ ومثل خائباں در خانہ گریختہ 

✍️(حق الیقین جلد 2 صفحہ 125 احتجاج طبرسی ناسخ التواریخ جلد 4 صفحہ 131)

اے علیؓ تم ماں کے رحم کے بچے کی طرح چھپ گئے ہو اور ذلیلوں کی طرح گھر میں گھس آئے ہو

استغفرﷲ العظیم. 

ہم اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتے کہ حضرت فاطمۃ الزہراءؓ جیسی وفاشعار اور دیندار خاتون کی زبان کبھی اس قسم کے گھٹیا الفاظ سے آلودہ ہوئی ہو اور خاتون جنت نے اپنے شوہر کو اس طرح طعن و تشنیع کیا ہو۔

♦️شیعہ علماء خاندان نبوت پر کس قسم کے رکیک اور گھٹیا حملے کرتے ہیں اور ان کے کردار پر کس طرح طعن و تذلیل کرتے ہیں لگے ہاتھوں اسی مسئلے میں دیکھ لیجئے ملا باقر مجلسی شیعہ(1111ھ) حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ کے نام سے روایت لکھتا ہے کہ جب حضور ﷺ دنیا سے رخصت ہو گئے تو حضرت فاطمہؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئیں اور فدک کا مطالبہ کیا، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انہیں حدیث سنائی حضرت فاطمہؓ گھر لوٹ آئیں حضرت علیؓ نے پھر انہیں جانے کو کہا اور وہ پھر گئیں اور واپس لوٹ آئیں تو حضرت علیؓ نے ایک گدھے پر حضرت فاطمہؓ کو سوار کیا ساتھ ہی حسنؓ و حسينؓ کو بھی لیا اور مدینہ کے ایک ایک گھر کے سامنے فریاد کے لیے انہیں لے گئے، اس فریاد میں ان کا سارا دن گزر گیا دوسرے دن حضرت علیؓ نے پھر اسی طرح انہیں در در پھرایا پھر تیسرے روز بھی یہی کیا اور یہ معاملہ (دوتین دن کی بات نہیں) بلکہ پورے چالیس دن. جی ہاں. پورے چالیس دن رہا حضرت علیؓ حضرت فاطمہؓ اور ان کے معصوم بچوں کو مہاجرین وانصار کے در در پھراتے رہے کہ فدک پر ہمارا حق ہے تم لوگ فدک دلانے میں ہماری مدد کرو.

✍️(بحار الأنوار صفحہ 101 کتاب الفتن)

🔹اب آپ ہی بتائیں کیا مسلمان یہ سوچ سکتا ہے کہ حضرت علیؓ محض دولت اور جائیداد کے لیے خاتون جنت اور حضورﷺ کے نواسوں کو اس طرح در در کی ٹھوکریں کھلاتے رہے ہیں اور فقیروں کی طرح مدینہ کے ہر گھر کے آگے جاکر جائیداد نہ ملنے کی فریاد کرتے رہے اور چالیس دن تک یہ تماشا ہوتا رہا. (استغفرﷲ)

پھر کیا ہم اس بات کا تصور بھی کر سکتے ہیں کہ خود خاتون جنت سیدہ فاطمہؓ بھی ایک باغ کے حصول کے لیے اس طرح کی ذلت برداشت کرنے کو تیار تھیں کہ ان کے شوہر حضرت علیؓ ان کے دو بچوں حضرات حسنینؓ کے ساتھ انہیں چالیس دن گلی گلی پھراتے رہیں اور آپؓ بھی در در جا کر فریادیں کرتی رہیں کہ کہ مجھے فدک دلا دو میری مدد کرو.. 

انا للہ وانا الیہ راجعون

سچی بات تو یہ ہے کہ یہ سب سبائی ذہن کی پیداوار ہے اور اس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ حضور اکرم ﷺ اور آپ کی اولاد کو بدنام کیا جائے۔

لیجیے اسی سلسلے کا ایک اور واقعہ بھی دیکھتے جائیے کہ 

♦️شیعہ علماء کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ کے انتقال کے بعد جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ حاکم بن گئے تو حضرت فاطمہؓ نے ان سے میراث مانگا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انہیں حدیث سنا کر واپس کر دیا تو حضرت فاطمہؓ اکیلی واپس حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئیں،۔اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس لوگوں کا ایک بڑا مجمع تھا، حضرت فاطمہؓ نے اس مجمع کے سامنے ایک طویل خطبہ دیا اس میں علاوہ اور باتوں کے اور کیا کہا؟ اسے آفتاب حسین جوادی شیعی سے سنیے یہ خطبہ فدک نامی ایک کتاب میں لکھتا ہے

اپنے شوہر نامدار حیدر کرار کی جانفشانیوں کا تذکرہ اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے وقت حکمراں مہاجرین و انصار اور خواتین کے سامنے شدید احتجاج کیا ہے

✍️ (خطبہ فدک صفحہ 5 )

♦️شیعہ علماء نے حضرت فاطمہؓ کے جس احتجاج کا ذکر کیا ہے پیش نظر رہے کہ یہ احتجاج حضور ﷺ کے وصال کے چند روز بعد کا بتایا جاتا ہے اور ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ حضرت فاطمہؓ کے اس احتجاج میں ہمیں ان کے شوہر نامدار حضرت علیؓ نظر نہیں آتے؟ اور نہ ہمیں حضرت عباسؓ کہیں دیکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی حضرت مقداد حضرت ابوذرؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ حضرت فاطمہؓ کی حمایت میں وہاں کھڑے دکھائی دیتے ہیں شیعہ علماء کے بیان کردہ اس واقعہ سے حضرت فاطمہؓ کی جو تصویر نظر آتی ہے کیا کوئی مسلمان اسے قبول کر سکتا ہے؟؟

حضرت مولانا سید شاہ ولایت حسین صاحب بہاری رحمہ اللہ (خلیفہ محدث جلیل حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللّٰہ) لکھتے ہیں:

♦️ہم شیعہ علماء سے پوچھتے ہیں کہ اگر مقتضائے محبت نبوی یہی ہے کہ سب لوگ نوحہ و ماتم میں آگے رہتے اور ایسے سخت ترین حادثہ کا کم از کم دس بیس دن تو سوگ اور نوحہ و ماتم کرتے تو فرمائیے جناب سیدہؓ جن کے غم و الم کی کوئی حد نہیں تھی وہ کیوں طلب میراث کے لیے ایک عام مجمع کے وقت خدمت صدیقیؓ میں وفات کے تیسرے چوتھے روز ہی تشریف لے گئیں اور بہت طول و طویل فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا اور حضرت صدیقؓ سے مناظرہ کیا جس کو مجلسی وغیرہ نے بحار الانوار میں نقل کیا ہے کیا تین دن ہی میں سارا غم جاتا رہا اور کیا یہ حرص دنیا پر دلیل نہیں ہے؟

حالانکہ بعد تحقق غلب شئے مغصوب کا لینا آپ کو حسب روایات شیعہ حرام تھا پھر حرام چیز کے لیے ماتم خانہ سے نکلنا اور سارے رنج و غم نوحہ وبکاء کو طاق پر رکھ دینا اور عام مجلس میں لوگوں کے سامنے اس طاقت لسانی سے حضرت صدیقؓ اور تمام لوگوں کو مخاطب کرکے خطبہ پڑھنا بجز بےصبری اور حب دنیا کے اور کیا سمجھا جا سکتا ہے؟

حالانکہ صراة الخاہ از ملا باقر مجلسی میں ہے

ازگناہان دعویٰ ومخاصمات و مطالبات خود را نزد حکام جور بردن

مگر پھر بھی آپ نے دعویٰ فدک سے اجتناب نہ کیا اور دنیا کے لیے گناہ کا بار اپنے سر لیا سچ ہے

*حب الدنیا رأس کل خطیئة

✍️ ( کشف التلبیس جلد 3 صفحہ 19)

شیعہ علماء خاندان نبوت کے خلاف جس قسم کے انتہائی نازیبا بلکہ گھٹیا بیانات اور واقعات منسوب کرتے ہیں اس سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ اس گروہ کا اصل مقصد خاندان نبوت کی عزت داغدار کرنا ہے اور شیخ الروافض عبداللہ ابن سباء کی روحانی ذریت سے ہم اس کے سوا اور کیا توقع رکھیں۔

علامہ عبدالرحمن جوزی رحمہ اللہ نے سچ کہا ہے

*** غلو الرافضة فی حب علیؓ حملھم علی ان وضعوا احادیث کثیرة فی فضائله اکثرھا تشنیه وتؤذیه

✍️(تلبیس ابلیس: صفحہ 99) 

رافضی گروہ نے حبِ علی میں اس قدر غلو( حد سے زیادتی) کر لیا کہ ان کے فضائل میں بےشمار ایسی روایتیں گھڑ لیں جن میں سے اکثر میں حضرت علیؓ کی برائی اور ایذاء نکلتی ہے۔ 


جاری ہے 

*ادارہ دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ*

Wednesday, 28 August 2024

یہاں دلائل جو دیے جائیں گے وہ امام کے پیچھے قراءت یعنی سورہ فاتحہ نہ پڑھنے کے دیے جائیں گے

 Khalil Rehman 



بِسمِ اللّٰہِ۔

(یہاں دلائل جو دیے جائیں گے وہ امام کے پیچھے قراءت یعنی سورہ فاتحہ نہ پڑھنے کے دیے جائیں گے)  چناچہ 

یہ خلیل الرحمٰن صاحب ایک غیر مقلد ہیں۔ انکا دعویٰ ہے کہ سورہ فاتحہ اور قراءت الگ الگ ہیں اور انہونے کہا ہے کہ اس بات کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سورہ فاتحہ اور قراءت الگ الگ ہیں۔۔۔  میںنے ان کو امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کی بہت دلیلیں دیں لیکِن انہونے انکار کیا کہ ہم بھی قائل ہیں کے امام کے پیچھے قراءت نہیں کرنی چاہیے مگر سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے کیوں کہ سورہ فاتحہ اور قراءت الگ الگ ہیں اور انہونے مطالبہ کیا کے وہ حدیث لاؤ جِس میں سورہ فاتحہ کا لفظ ہو کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے ۔  سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے سورہ فاتحہ اور قراءت الگ الگ ہیں یا پھر سورہ فاتحہ ہی قراءت اور قراءت ہی کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔ ہم اپنی بات بلکل نہیں رکھیں گے اس مسلے پر۔

ہم اس کا فیصلہ صحیح حدیث سے کریں گے ۔۔چناچہ 

(1)ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَيَفْتَتِحُ الْقِرَاءَةَ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.

ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ الحمد لله رب العالمين سے قراءت شروع کرتے تھے

۔  سنن ابن ماجہ

کتاب: اقامت نماز اور اس کا طریقہ

باب: قرائت شروع کرنا

حدیث نمبر: 812

(2)ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هِشَامٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبَا بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعُثْمَانَ كَانُوا يَفْتَتِحُونَ الْقِرَاءَةَ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2.


انس ؓ کہتے ہیں کہ  نبی اکرم ﷺ، ابوبکر ؓ، عمر ؓ اور عثمان ؓ عنہ  الحمد لله رب العالمين  سے قرآت شروع کرتے تھے

۔   

 تخریج دارالدعوہ:  تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ١٣٨٢)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان ٨٩ (٧٤٣)، صحیح مسلم/الصلاة ١٣ (٣٩٩)، سنن الترمذی/الصلاة ٦٨ (٢٤٦)، سنن النسائی/الافتتاح ٢٠ (٩٠٣)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤ (٨١٣)، موطا امام مالک/الصلاة ٦ (٣٠)، مسند احمد (٣/١٠١، ١١١، ١١٤، ١٨٣، ٢٧٣)، سنن الدارمی/الصلاة ٣٤ (١٢٧٦) (صحیح  )

سنن ابوداؤد782

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

( الْقِرَاءَةَ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) اس حدیث میں 

بتا رہے ہیں سورہ فاتحہ اور قراءت دونوں ایک ہی ہیں۔


مگر  خلیل الرحمٰن صاحب کہہ رہے ہیں سورہ فاتحہ اور قراءت الگ الگ ہیں  میں صحیح حدیث سے بتا چُکا ہوں فاتحہ ہی قراءت ہے۔ 

میرا مطالبہ ہے کہ ایک حدیث دکھا دیں جس میں سورہ فاتحہ کو اور قراءت کو الگ الگ قرار دیا ہو۔ مگر آپ قیامت تک ایسا نہیں کر سکو گے ۔کیوں کہ صحیح حدیث نے فیصلہ کر دیا ہے کہ فاتحہ ہی قراءت ہے۔ ایک صحابی کا ہی قول نقل کر دیں کہ سورہ فاتحہ الگ چیز ہے اور قراءت الگ چیز ہیں ۔ اُس کو 10000 روپے نقد انعام ۔۔

سو تو جب فاتحہ ہی قراءت ہے تو جتنی لفظِ قراءت سے حدیث نقل کی جائیں گی وہ حجت ہوں گی میرے لیے  چناچہ حدیث میں آتا ہے کہ ۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سنن ابن ماجہ

کتاب: اقامت نماز اور اس کا طریقہ

باب: جب امام قرأت کرے تو خاموش ہو جاؤ

حدیث نمبر: 847

، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَكُنْ أَوَّلَ ذِكْرِ أَحَدِكُمُ التَّشَهُّدُ.

ابوموسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  جب امام جہری قراءت کرے تو تم خاموش رہو، اور جب وہ قعدہ میں ہو تو تم میں سے ہر ایک پہلے التحيات پڑھے  )   

 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 ابن ابی شیبہ

کتاب: نماز کا بیان

باب: جو حضرات امام کے پیچھے قراءت کو مکروہ خیال فرماتے ہیں

حدیث نمبر: 3802

 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الأَصْبَہَانِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بن الأصبہانی ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الإِمَامِ فَقَدْ أَخْطَأَ الْفِطْرَۃَ۔

حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی اس نے فطرت سے بغاوت کی۔ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ابن ابی شیبہ کتاب: نماز کا بیان

باب: جو حضرات امام کے پیچھے قراءت کو مکروہ خیال فرماتے ہیں حدیث نمبر: 3803

 حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ أَبِی بِجَادٍ ، عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ : وَدِدْت أَنَّ الَّذِی یَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ فِی فِیہِ جَمْرَۃٌ۔


حضرت سعد فرماتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں کہ امام کے پیچھے قراءت کرنے والے کے منہ میں انگارا ہو۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ابن ابی شیبہ

کتاب: نماز کا بیان

باب: جو حضرات امام کے پیچھے قراءت کو مکروہ خیال فرماتے ہیں

حدیث نمبر: 3804  حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قُسَیْطٍ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : لاَ قِرَائَۃَ خَلْفَ الإِمَامِ۔ حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے قراءت نہیں ہوتی۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ابن ابی شیبہ

کتاب: نماز کا بیان

باب: جو حضرات امام کے پیچھے قراءت کو مکروہ خیال فرماتے ہیں

حدیث نمبر: 3810  حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ وَبَرَۃَ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ یَزِیدَ ، أَنَّہُ قَالَ : وَدِدْت أَنَّ الَّذِی یَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ مُلِیئَ فُوہُ تُرَابًا۔ حضرت اسود بن یزید فرماتے ہیں کہ جو شخص امام کے پیچھے قراءت کرے میرا دل چاہتا ہے کہ اس کا منہ مٹی سے بھر جائے۔ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ابن ابی شیبہ

کتاب: نماز کا بیان

باب: جو حضرات امام کے پیچھے قراءت کو مکروہ خیال فرماتے ہیں

حدیث نمبر: 3812 حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَبِی ہَارُونَ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا سَعِیدٍ ، عَنِ الْقِرَائَۃِ خَلْفَ الإِمَامِ ؟ فَقَالَ: یَکْفِیک ذَاکَ الإِمَامُ۔

 حضرت ابو ہارون کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید سے امام کے پیچھے قراءت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ تمہارے لیے امام کی قراءت کافی ہے ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سنن کبریٰ للبیہقی

کتاب: نماز کا بیان

باب: عدمِ قراءت خلف الامام کا بیان

حدیث نمبر: 2896

 سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ نبی ﷺ سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے نماز پڑھی اور لوگ آپ کے پیچھے قراءت کر رہے تھے تو صحابہ میں سے ایک شخص انھیں نماز میں قراءت سے منع کرنے لگا۔ جب انھوں نے نماز سے سلام پھیرا تو ایک شخص ان کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: کیا تو رسول اللہ ﷺ کے پیچھے مجھے قراءت سے منع کررہا تھا؟ حتیٰ کہ ان میں تکرار ہوگیا۔ انھوں نے نبی ﷺ کے سامنے بات پیش کی تو نبی ﷺ نے فرمایا: " جو آدمی امام کے پیچھے نماز (پڑھ رہا ہو) تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہوگی۔

 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ہم اُپر ثابت کر آئے ہیں کے سورہ فاتحہ ہی قراءت ہے۔

لہٰذا اس حدیث سے پتہ چلا 

جو آدمی امام کے پیچھے نماز (پڑھ رہا ہو) تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہوگی۔ 

 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سنن کبریٰ للبیہقی 2901

 سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قراءت اسے کافی ہے۔

(ب) ایک دوسری سند سے سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ من کان لہ امام۔۔۔ جو امام کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو تو اس کو امام کی قراءت ہی کافی ہے۔

 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سنن نسائی923

ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب وہ قرآت کرے تو تم خاموش رہو

 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

موطا امام محمد 117

عبداللہ بن شداد نے جابر بن عبداللہ ؓ کی روایت نقل کی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ جس نے امام کے پیچھے نماز ادا کی پس امام کی قراءت اس کی قراءت ہے۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سنن دار قطنی1238

 حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: جس شخص کا امام ہو (یعنی جو باجماعت نماز ادا کررہا ہو) تو امام کا قرات کرنا اس شخص کا قرات کرنا شمار ہوگا

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سنن دار قطنی: 1240 حضرت علی ؓ ارشاد فرماتے ہیں جو شخص امام کی اقتداء میں قرات کرے اس نے سنت کی خلاف ورزی کی ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سنن دار قطنی: 1245

. حضرت علی ؓ ارشاد فرماتے ہیں: تمہارے لیے امام کا قرات کرنا کافی ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

عن حیطان بن عبد الله الرقاشي قال: صليت مع أبي موسي الأشعري ... أن رسول الله صلي الله عليه وسلم خطبنا، فبين لنا سنتنا و علمنا صلواتنا فقال: إذا صليتم فأقيموا صفوفكم ثم ليؤمكم أحدكم؛ فإذا كبر فكبروا و إذا قرأ فأنصتوا..." صحیح مسلم 

( كتاب الصلوة،باب التشهد في الصلاة،ج :2 ،ص :114 ،ط:دارالطباعة العامرة)

ترجمہ:" حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور ہمیں طریقہ بیان کیا اور ہمیں نماز سکھلائی کہ جب تم نماز ادا کرو تو اپنی صفوں کو درست کرو، پھر تم میں سے کوئی امامت کرائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو بالکل خاموش رہو ۔۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


یہ وہ حدیث تھیں جِس میں قراءت کا لفظ ہے 

اور ہم قراءت کو اور سورہ فاتحہ کو ایک ہی ثابت کر آئیں ہیں صحیح حدیث کی روشنی میں ۔ لیکِن موصوف کو وہ حدیث چاہیے جس میں لفظ سورہ فاتحہ ہو ۔۔چلیے اب اُن حدیثوں کو نقل کرتے ہیں 

۔ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


تفسير بالحديث :  ثنا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَنْبَأَ ابْنُ وَهْبٍ ، ثنا أَبُو صَخْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ ، قَالَ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَإِذَا قَرَأَ فِي الصَّلاةِ أَجَابَهُ مَنْ وَرَاءَهُ ، إِنْ قَالَ : بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، قَالُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ، حَتَّى تَنْقَضِيَ الْفَاتِحَةُ وَالسُّورَةُ ، فَلَبِثَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَلْبَثَ ، ثُمَّ نَزَلَتْ : وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْءَانُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ سورة الأعراف آية 204 ، فَقَرَأَ وَأَنْصِتُوا " .[تفسر ابن أبي حاتم (المتوفي ٣٢٧ھ) » سُورَةُ الأَعْرَافِ  » قَوْلُهُ تَعَالَى : وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْءَانُ فَاسْتَمِعُ ...، رقم الحديث: 9487 (8727)]؛


ترجمہ : حضرت محمد بن کعب القرظی رح فرماتے ہیں : پہلے آپ (صلی الله علیہ وسلم) نماز پڑھاتے تو پیچھے نماز پڑھنے والے بھی ساتھ ساتھ کلمات دہراتے جاتے، اگر آپ  پڑھتے بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ ، تو پیچھے والے بھی بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ پڑھتے، یہاں تک کہ سورہ فاتحہ اور دوسری صورت مکمل ہوجاتی اور یہ سلسلہ جب تک الله نے چاہا چلتا رہا، پھر جب یہ آیتِ کریمہ اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم ہو﴿الاعراف: ۲۰۴﴾ نازل ہوئی، تو آپ (صلی الله علیہ وسلم) قرأت فرماتے اور صحابہ کرام (رضی الله عنھم) خاموش رہتے.؛۔۔(۔   یہاں پر سورہ فاتحہ کا لفظ ہے) 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ابن ابی شیبہ: 3641

 حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْن أَبِی ہِشَامٍ ، عَنْ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ ، قَالَ : قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ : مَنْ لَمْ یَقْرَأْ فِی کُلِّ رَکْعَۃٍ بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ یُصَلِّ ، إِلاَّ خَلْفَ الإِمَام۔ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے ہر رکعت میں سورة الفاتحہ نہ پڑھی اس نے گویا نماز ہی نہیں پڑھی۔ البتہ امام کے پیچھے پڑھنا ضروری نہیں ( یہاں بھی سورہ فاتحہ کا لفظ ہے)

( بِأُمِّ الْقُرْآنِ) سے مراد سورہ فاتحہ ہے) 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سنن دار قطنی: 1236  

 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ ثَابِتٍ الصَّيْدِلاَنِىُّ وَأَبُو سَهْلِ بْنُ زِيَادٍ قَالاَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ قَالَ سَمِعْتُ أَبِى يُحَدِّثُ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِى صَالِحٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِذَا قَالَ الإِمَامُ (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ) فَأَنْصِتُوا ».

 حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: جب امام غیرالمغضوب علیھم والاالضآلین۔ پڑھے تو تم خاموش رہو۔

( اس میں کتنی وضاحت سے بتایا ہے جب امام سورہ فاتحہ پڑھے تو خاموش رہو۔ کوئی غیر مقلدین بتا سکتا ہے  (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ) سورہ فاتحہ نہیں ہے ? پس ثابت ہوا سورہ فاتحہ بھی پڑی جائے تب بھی خاموش رہو ۔۔۔

ایک اور حدیث 

صحیح مسلم میں ہے کہ 

 حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا اور سنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین فرمائی اور نماز کا طریقہ بتلایا اور یہ فرمایا کہ : نماز پڑھنے سے پہلے اپنی صفوں کو درست کر لو، پھر تم میں سے ایک تمہارا امام بنے ، جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہوا اور جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو، اور جب۔غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ)  کہے تو تم آمین کہو ۔ صحیح مسلم جِلد 1 صفحہ 174۔   

سنن کبریٰ للبیہقی: 2891

 عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- قَالَ: ((إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہِ فَلاَ تَخْتَلِفُوا عَلَیْہِ ، فَإِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوا ، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا ، وَإِذَا قَالَ {غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّینَ} فَقُولُوا آمِینَ ،  

سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، تم اس سے اختلاف نہ کرو، پس جب امام تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو چپ رہو اور جب امام کہے: { غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّینَ } [الفاتحہ: ٧ 


--------------------------------------ـ---------+++

غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّینَ

یہاں بھی لفظ فاتحہ ہے یعنی جب قراءت ہو تو چُپ رہو 

 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

طحاوی: 1265

: حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ :  ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَلَّامٍ، قَالَ :  ثَنَا مَالِکٌ، عَنْ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنَّہٗ قَالَ :  (مَنْ صَلّٰی رَکْعَۃً، فَلَمْ یَقْرَأْ فِیْہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَلَمْ یُصَلِّ إِلَّا وَرَائَ الْاِمَامِ) .

 وہب بن کیسان نے جابر بن عبداللہ سے انھوں نے جناب نبی اکرم ﷺ سے روایت نقل کی ہے کہ جس نے ایک رکعت پڑھی اور اس میں امّ القرآن نہ پڑھی تو گویا اس نے نماز ہی نہیں پڑھی مگر جب کہ وہ امام کے پیچھے ہو (معلوم ہوا کہ امام کے پیچھے نہ قراءت فاتحہ ہے اور نہ اور کوئی سورة)( یہاں بھی سورہ فاتحہ کا لفظ ہے)  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سنن دار قطنی: 1226

۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے جس نماز میں سورة فاتحہ نہ ہو تو وہ ناقص ہوتی ہے ماسوائے اس نماز کے جو امام کی اقتداء میں ہو۔

یہاں بھی سورہ فاتحہ کا لفظ ہے ))

۔ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سنن کبریٰ للبیہقی

حدیث نمبر: 2899

 أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْمِہْرَجَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْعَبْدِیُّ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ: وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ یَقُولُ: مَنْ صَلَّی رَکْعَۃً لَمْ یَقْرَأْ فِیہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ یُصَلِّ إِلاَّ وَرَائَ الإِمَامِ۔ 

 وہب بن کیسان فرماتے ہیں کہ انھوں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا کہ جس نے ایک بھی رکعت ایسی پڑھی جس میں سورة فاتحہ نہ پڑھی تو ایسی نماز صرف امام کے پیچھے ہی پڑھ سکتا ہے وگرنہ نہیں۔

( یہاں بھی سورہ فاتحہ کا لفظ ہے) 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ:  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اس شخص کی نماز جائز نہیں جو سورہ فاتحہ کے ساتھ مزید کچھ اور نہ  پڑھے۔ حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ اللہ فرماتے ہیں کہ : آپ ﷺ کا یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جو اکیلا نماز پڑھ رہا ہو۔ابوداود ۱۱۹ج۱، باب من ترك القراءة في صلوته ، رقم الحديث: ۸۲۱ )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

جامع ترمذی: 313

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.


جس نے کوئی رکعت ایسی پڑھی جس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس نے نماز ہی نہیں پڑھی، سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

( امام ترمذی رح نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

امام ترمذی رح فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اس کی نماز جائز نہیں جو سورہ فاتحہ کے ساتھ قراءت نہ کرے کے متعلق حضرت اِمام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ارشاد ہے کہ یہ اُس وقت ہے جب کہ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو ترمذی جلد 1 صفحہ 71 حدیث : 312 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ہم نے خلیل الرحمٰن صاحب غیر مقلد کی منہ مانگی دلیل دے دی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


ــــــــــــخلفاء رشیدین امام کے پیچھے قراءت کو منع کرتے ــــــــــــــ


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

امام عبد الرزاق عبد الرحمن بن زید رحمہ اللہ سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے  امام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ عبد الرحمن بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : مجھے بہت سے مشائخ نے خبر دی ہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ : جس نے امام کے پیچھے قراءت کی اس کی نماز نہیں ہوئی۔

، اور موسی بن عقبہ رحمہ اللہ نے مجھے خبر دی کہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور حضرت ابوبکر حضرت

عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم امام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع فرماتے تھے۔

مصنف عبد الرزاق جلد 2 صفحہ 139 حدیث 2810

حضرت قاسم بن محمد رح فرماتے ہیں کہ:

حضرت  عمر  رض کا ارشاد : امام کے پیچھے قراءت نہ کی جائے امام جہر کرے یا نہ کرے سنن کبریٰ للبیہقی  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


Not 

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ غیر مقلدین سورہ فاتحہ امام کے پیچھے پڑھنے کو واجب کہتے ہیں اور جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے اُس کی نماز کو باطل قرار دیتے ہیں----------

اب ہم سوال کرتے ہیں کہ 

صحیح البخاری میں ہے 

حدیث نمبر: 783

 حضرت ابوبکرہ ؓ  رسول اللہ  ﷺ  کی طرف  (نماز پڑھنے کے لیے)  گئے۔ آپ  ﷺ  اس وقت رکوع میں تھے۔ اس لیے صف تک پہنچنے سے پہلے ہی انہوں نے رکوع کرلیا، پھر اس کا ذکر نبی کریم  ﷺ  سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تمہارا شوق اور زیادہ کرے لیکن دوبارہ ایسا نہ کرنا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اب دیکھیں حضرت ابو بکر صدیق رض نے سورہ فاتحہ تو پڑی نہیں 

اور رکوع میں چلے گئے جب کے غیر مقلدین کا موقف ہے جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے امام کے پیچھے اُس کی نماز باطل ہے 

تو کیا نعوذ باللہ حضرت ابو بکر رض کی نماز باطل تھی۔

اللہ کے رسول صلی االلہ علیہ السلام نے دوبارہ پڑھنے کو حُکم کیوں نہ دیا کہ جاؤ ابو بکر نماز دوبارہ پڑھو کیوں کے تُم نے سورہ فاتحہ نہیں پڑی بس رکوع کر لیا ۔۔۔۔۔

معلوم ہوا خلفاء راشدین میں سے حضرت ابو بکر رض کا بھی یہی یقین تھا امام کے پیچھے خاموش رہنا سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tuesday, 20 August 2024

سیدنا امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ پر شیعہ اور مزرا جہلمی کا مشہور الزام

 *سیدنا امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ پر شیعہ اور مزرا جہلمی کا مشہور الزام*

"کہ معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے ناحق مال کھانے اور لوگوں کو ناحق قتل کرنے کا حکم دیا*۔ (مسند ابی عوانہ)"


  *الجواب اہلسنّت*

1_یہ روایت سند کے اعتبار سے محدثین کے ہاں مجروح غیر مقبول اور مردود ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی زید بن وہب بنی الجہنی الکوفی  ہے جس کے بارے میں جرح و تعدیل کے حضرات ارباب علم کا فرمان ہے۔ (في حديثه خلل كثير) کہ اس کی روایت میں بہت زیادہ خلل ہے۔ 

(1) تہذیب التہذیب لابن حجر جلد 3 صفحہ427  تحت زید بن وہب،

(2) كتاب المعرفتہ  والتاريخ للبسوی جلد2 صفحہ 769،768، تحت زید بن وہب)

معلوم ہوا یہ روایت ارباب علم کے معیار قبول پر پوری نہیں اترتی۔

2_ یہی روایت دیگر کئی محدثین نے بھی نقل فرمائی ہے مگر یہ جملہ (یا مرنا أن ناكل اموالنا بالباطل و تقتل الضنا) انہوں نے نقل نہیں کیا جیسے السنن لابن ماجہ صفحہ292  آخر باب السواء الاعظم من ابواب الفتن۔السنن النسائی صفحہ 165,164 جلد 2 کتاب البیعہ تحت ذکر ما على من بايع الامام میں یہی روایت مذکور ہے لیکن جو الفاظ اضافی طور پر یہاں نقل کیے گئے ہیں وہ الفاظ (یا مرنا ......) انہوں نے ذکر نہیں کیے جس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ راویوں نے اپنے ذاتی تصرف سے الفاظ روایت میں کمی پیشی کی ہے اصل روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں اور اندراج راوی کی بنا پر صحابہ کرامؓ کو مجروح نہیں کیا جاسکتا یہ الفاظ راوی کا اپنا گمان ہیں جس کو اس نے روایت میں ملا دیا۔

3_درایت کے اعتبار سے بھی اس روایت میں کوئی وزن نظر نہیں آتا کیوں کہ اگر اس جملہ (اكل اموال الباطل الخ) کا حکم درست ہے تو جو حضرات امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے شرف صحابیت و مراتب کثیر ان کو حاصل تھے انہوں نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس جرم سے کیوں نہ روکا *امر بالمعروف و نهی عن المنکر* کی تکمیل سے وہ کیوں عاجز رہے؟

بالفرض یوں کہا جائے کہ وہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے جبر سے خوف زدہ تھے تو سوال یہ ہے کہ ان کے ساتھ مل کر جنگوں میں شریک کیوں ہوئے اور ان کی جمعیت و قوت میں اضافے کا باعث کس لئے ہوئے؟

جبکہ یہ بات صحابہ کرامؓ کی شان کے بالکل خلاف ہے کہ وہ نا انصاف شخص کی قوت و طاقت میں مزید اضافہ کا باعث بن کر اس کے جرم میں شریک ہو جائیں جب یہ بات صحابہ کرامؓ سے بعید تر ہے تو پھر عقل اس روایت کے غلط ہونے کا فیصلہ صادر کرتی ہے۔

  ( *وهوالمراد، والعلم عندالله*)۔

Tuesday, 4 June 2024

کیا المہند" فاضل بریلوی کی وفات کے بعد شائع ہوئی

 *"المہند" کی اشاعت کے متعلق رضا خانی سعد حنفی کے ڈھول کا پول اور اتمام حجت*


✍️ ابو سعد لئیق رحمانی


  قارئین کرام! ہم نے کل یا پرسوں "المہند" کی اشاعت کے متعلق سعد حنفی کے ایک جھوٹ کی قلعی کھولنے کے لیے موصوف کے سامنے آئینہ رکھا تھا۔ آج جناب نے بجائے اپنا منہ اس آئینے میں دیکھنے اور اپنی اصلاح کرنے کے، مماتیوں کے جھوٹے برتن میں منہ ڈال دیا ہے۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ عزت تو آتی جاتی ہے بس آدمی کو ڈھیٹ ہونا چاہئے، سعد حنفی نے اس بار ایسا ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کیا ہے کہ موصوف ہمارے نزدیک "نوبل پرائز براے ڈھیٹ پن" کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ آئیے موصوف کے اس کارنامۂ ڈھیٹ پن کا زرا تفصیل سے جائزہ لیں۔ 

موصوف کا جھوٹ یہ تھا کہ 

"المہند" فاضل بریلوی کی وفات کے بعد شائع ہوئی... الخ"

ہم نے اس جھوٹ کی قلعی کھولنے کے لئے میثم عباس رضوی کا حوالہ دے کر ثابت کیا تھا کہ المہند فاضل بریلوی کی حیات میں ہی شائع ہوئی تھی، اب موصوف کو چاہئے تھا اپنے جھوٹ سے توبہ کرے، مگر بجائے توبہ کرنے کے موصوف نے اپنے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے کسی متعصب و بدبودار مماتی مولوی کا حوالہ پیش کردیا۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ محض اپنے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے موصوف نے انتہائی متعصب اور کذاب مماتی کا سہارا لیا اور یہ بھی تعجب ہے کہ محض اس مماتی کے کہنے پر اتنا اعتماد کرلیا کہ اپنے ہی علماء کو لات مارنے پر اتر آیا۔ توبہ توبہ 

   حالانکہ بریلوی علامہ پیر مظفر شاہ قادری کی جانب سے شائع کی گئی کتاب میں لکھا ہے کہ : 

   ”حضور سیّد عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کا فرمان ہے

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ"

  اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ ہر سنی سنائی بات بیان کرنے والا بھی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو سکتا اور اُسے جھوٹا قرار دیا گیا ہے ، حالانکہ وہ خود اپنی طرف سے کوئی بات بیان نہیں کررہا، بلکہ بلا تحقیق دوسروں کی باتیں نقل کر رہا ہے۔

ایک دوسری روایت میں تو صریحاً 

"كفى به إنما أن يحدث بكل ما سمع "

کے الفاظ موجود ہیں، جس میں بلا تحقیق باتیں نقل کرنے والے کو گناہ گار ٹھہرایا گیا ہے“۔ (کشف القناع : ج ۱ ص ۲۳۷)


   ہوسکتا ہے موصوف مزید ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ "ہم نے مماتی کا حوالہ الزامی طور پر پیش کیا تھا" تو نقد جواب عرض ہے کہ آپ کی جماعت کے مفتی عبدالمجید سعیدی فرماتے ہیں کہ:

   ”ہم پر اس کا قول حجت ہوسکتا ہے جو ہمارے مسلک کا ہو اس لیے قول آپ اسی کا لائیں جو ہمارے لئے حجت ہو“ (مناظرہ مسئلہ رفع یدین : ص ۲۳)

  لہزا مماتی ہمارے مسلک کے نہیں تو ان کا قول ہم پر کیسے حجت ہوسکتا ہے؟ اور پھر یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ "المہند" کی اشاعت فاضل بریلوی کی حیات میں ہی ہوئی تھی پھر اصول بھی یہ ہے کہ حقیقت کے خلاف کسی کی بھی بات قبول نہیں کی جاتی خود فاضل بریلوی لکھتے ہیں کہ : 

   ”آپ کو معلوم ہے کہ یہ بات نقل کے خلاف ہے اور منقول کے خلاف کوئی بحث قابل قبول نہیں ہوتی خصوصاً جبکہ وہ بحث خود بھی درست نہ ہو“ (فتاویٰ رضویہ : ج ۷ ص ۵۵۱)

منقول کے خلاف کوئی بحث قابل قبول نہیں، اور منقول تو یہی ہے کہ "المہند" فاضل بریلوی کی حیات میں شائع ہوئی پھر اس منقول کے خلاف بحث کیونکر قابل قبول ہوسکتی ہے۔؟ اگر پھر بھی موصوف بضد ہو اور ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرے اور کہے کہ میں نے مماتی کا حوالہ الزاماً پیش کیا ہے، تو مزید عرض ہے کہ آپ کے گھر کی کتاب میں لکھا ہے کہ :


”تحقیق کے میدان میں الزامی حوالہ جات مردود اور فضول ہیں“۔ (ترک رفع الیدین علمی و تحقیقی دستاویز : ص ۱۶۲)

  تو موصوف کا حوالہ فضول و مردود قرار پایا لہزا موصوف سے گزارش ہے کہ ایسے مردود اور فضول کام سے باز آئیں اور "المہند"  کی اشاعت کے متعلق اپنے بڑے بھائی جناب میثم عباس رضوی کا یہ طویل اقتباس ایک مرتبہ اور ملاحظہ فرمائیں، موصوف لکھتے ہیں کہ : 


"(1) خلیفہ اعلیٰ حضرت صدرالافاضل فخرالاماثل حضرت علامہ مولانا سیدمحمد نعیم الدین مرادآبادی نے (المهند“ کی اشاعت کے بعد تیسرے سال یعنی ۱۳۳۲ھ میں) ”التحقيقات لدفع التلبيسات“ کے نام سے المہند کا ر لکھ دیا تھا۔ 

(۲) خلیفہ اعلیٰ حضرت مولانا حاجی لعل خان نے بھی ۱۳۳۴ھ میں شائع ہونے والی اپنی کتاب تاریخ وہابیہ و دیوبندیہ میں المھند کا رد کیا تھا۔ 

(۳) اعلیٰ حضرت کے ایک اور خلیفہ، محدث عظم ہند، حضرت علامہ مولانا سید محمد اشرفی الجیلانی کچھوچھوی نے بھی اعلیٰ حضرت کی حیات مبارکہ میں ”اتمام حجت“ کے نام سے المهند‘ کا رد لکھ کر ۱۹۲۰ ء میں شائع کر دیا تھا۔

 (۴) اسی طرح حضرت علامہ مولانا مولوی ریاست علی خان شاہجہانپوری نے بھی اعلی حضرت کی حیات مبارکہ میں ”المہند“ کے رد میں التحقيقات لدفع التحریفات کے نام سے کتاب لکھی تھی، یہ کتاب ۱۹۱۹ء میں شائع ہو گئی تھی ۔

 (۵) انوار آفتاب صداقت پر اعلیٰ حضرت کی تقریظ موجود ہے۔ اس کتاب میں بھی المهند“ کا رد کیا گیا ہے۔ جس کا عنوان "رسالہ التَّصْدِيقَاتُ لِدَفْعِ التَّلْبِيسَات المعروف بمهند مؤلفہ مولوی خلیل احمد صاحب کی حقیقت اور اُس کے فرضی و جعلی ہونے کی کیفیت ہے۔ س وضاحت سے معلوم ہوا کہ سیدی اعلی حضرت کی حیاتِ مبارکہ میں ہی آپ کے متعلقین میں ۵ شخصیات (جن میں تین آپ کے خلفا تھے) نے المہند کا رد لکھ دیا تھا“ (المہند اور اعلی حضرت: ص 242-243)"


    اس طویل اقتباس میں میثم عباس صاحب یہ ثابت کررہے ہیں کہ "المہند" کا رد اعلی حضرت کی حیات میں ہی کیا جا چکا تھا، جبکہ سعد حنفی اس پر مصر ہے کہ "المہند" اعلی حضرت کے مرنے کے بعد شائع ہوئی، اب ہمارا سوال یہ ہے کہ جب "المہند" اعلی حضرت کی حیات میں شائع نہیں ہوئی تو اس وقت اس کا رد کیسے لکھا گیا۔؟ اگر سعد حنفی سچا ہے تو کیا ہم یہ مان لیں کہ میثم عباس اور دیگر بریلوی علماء جھوٹے، کذاب، مکار ہیں۔؟؟؟ 


*آخری گزارش:*

 ہم سعد حنفی کو انتہائی لاڈ اور سنجیدگی سے سمجھا رہے ہیں کہ وہ ایسے بے تکے اور جھوٹے حوالے دینے سے باز آجائے، ورنہ پھر *"حسام الحرمین"* کے خلاف مفتی خلیل بدایونی، ڈاکٹر طاہرالقادری و علماء جامعہ اشرفیہ مبارکپور سمیت سینکڑوں حوالے پیش کرنے کے ہم بھی مجاز ہوں گے۔!!!












Saturday, 25 May 2024

Lafz Deoband par aitraaz ka jawab

 محترم قارئین۔۔۔

رضاخانی حضرات اکثر دیوبند شہر کے نام کو لے کر بکواس کرتے پھرتے ہیں کہ دیوبند کا معنی ہے "دیو کا شہر" یہ "شیطان کا شہر" وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

جب کہ یہ رضا خانیوں کا ایک جھوٹا پروپگینڈا ہے دیوبند کو بدنام کرنے كا جو اعلیٰ سے لے کر ادنا حضرت  تک کرتے چلے آرہے ہیں۔۔۔۔۔۔


اب ہم دکھاتے ہیں کہ اصل میں "دیو" یعنی "شیطان" کا شہر کون سا ہے۔۔۔

یہ بریلی سے چھپنے والا رضا خانیوں کا مشہور رسالہ ہے نام ہے "ماھنامہ اعلیٰ حضرت"۔۔۔

اس میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ "جگت سنگھ" کے بیٹوں #بانس_دیو اور #برل_دیو نے۱۵۲۷ میں موجودہ بریلی کی بنیاد ڈالی ان دونوں بھائیوں یعنی (بانس دیو اور برل دیو) کی نسبت سے اس شہر کا نام "بانس بریلی" مشہور ہوا۔۔۔۔


یعنی دو دیو کے نام پر بریلی شہر کا نام رکھا گیا۔۔۔😂😂

اب سے سبھی ساتھی اس کو ڈبل دیو کے شہر کے نام سے پُکارا کریں۔۔۔۔۔ویسے سب سے بڑا دیو تو اپنی قبر میں پڑا ہوا ہے۔۔۔۔😂😂




Sunday, 19 May 2024

رضا خانیوں کا گھر بدفعلیوں سے بھرا پڑا ہوا

 #Barailviyat kai Liyai #Zalzala 

*رضاخانی بدعتی کھٹمل اسرار کشمیری کا علماء دیوبند پر اعتراض کا مدلل و محقق جواب

 رضا خانیوں کا گھر بدفعلیوں سے بھرا پڑا ہوا ھ


👇


ناظرین !

یہ مثل مشہور ہے کہ جو جیسا ہوتا ہے دوسروں کو بھی ویسا ہی سمجتا ہے چونکہ ان برائلر رضا خانی کے یہاں اور انکے مدرسو میں یہی  سب کچھ ہوتا ہے جسکا اقرار خود رضاخانی حکیم الامت کو ہے چنانچہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں


*’’ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﯾﻨﯽ ﻣﺪﺍﺭﺱ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﭼﺎﮨﺌﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧﻭﮨﺎﮞ ﻣﺮﺩ ﺑﮯ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﻭﺍلےﺑﭽﮯﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﮍﮬﺘﮯﮨﯿﮟ ﺍﻧﮑﺎ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﺧﺘﻼﻁ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱﮐﮯ ﺑﺮﮮ ﻧﺘﯿﺠﮯﺑﮭﯽ ﺑﺮﺁﻣﺪ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ(لواطت کرتے ہیں)* ‘‘ ۔ 😏

📗ﺟﺎﺀﺍﻟﺤﻖ ،ﺹ۲۱۱




اب یہ اپنے گھر کی کارستانی اور گندگی کو  ہمارے صف اول کے اکابرین اولیاء کا ملین پر کرنا یہ رضا خانیوں کی  اسی گندگی میں پلنے کا جیتا جاگتا نمونہ ہے 

قارئین! 

 جواب دینے سے پہلے ہم وہ پورا واقعہ نقل کردیتے ہیں تاکہ آپ پر رضاخانی گندی ذہنیت وتربیت کا نمونہ با لکل عیاں ہو جائے 👇


*ایک دفعہ گنگوہ کی خانقاہ میں مجمع تھا حضرت گنگوہی ، حضرت نانوتوی کے مرید و شاگرد سب جمع تھے اور یہ دونوں حضرات بھی وہیں مجمع میں تشریف فرما تھے کہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی سے محبت آمیز لہجے میں فرمایا ۔ یہاں ذرا سا لیٹ جاؤ* ۔

 *ﺣﻀﺮﺕ ﻧﺎﻧﻮﺗﻮﯼﺷﺮﻣﺎﺳﮯ ﮔﺌﮯ ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎ ﯾﺎ ﺗﻮ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺑﮩﺖﺍﺩﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﺖ ﻟﯿﭧ ﮔﺌﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽﭘﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﺮﻭﭦ ﻟﯿﮑﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﻥﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺎﺷﻖ ﺻﺎﺩﻕ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﻠﺐﮐﻮ ﺗﺴﮑﯿﻦ ﺩﯾﺎﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﮨﺮ ﭼﻨﺪ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﺎﮞﮐﯿﺎ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﻟﻮﮒ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﺣﻀﺮ ﺕ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻟﻮﮒﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﺩﻭ*۔

📗 ﺍﺭﻭﺍﺡ ﺛﻼﺛﮧ ،ﺹ 289



قارئین ! یہ پورا واقعہ پڑھیں

اول عام لوگوں کے سامنے واقعہ ہے جہاں اس خباثت کی کوئی گنجائش نہیں 

دوسرا کہیں اس واقعہ میں بدفعلی کا ذکر نہیں اور نہ صبح قیامت تک کوئی زندہ مردہ رضاخانی اس واقعہ میں بدفعلی ثابت کرسکتا ہے ۔👀

یہاں تو سینہ پر ہاتھ صرف ہاتھ رکھنے کا ذکر ہے 🤔

پیر اپنے مرید سے بڑا چھوٹے سے محبت و شفقت کا اظہار اس طرح کرتے ہیں 

یہ دیکھیں میرے پاس ابوداؤد شریف ہے 

کتاب المناسک باب صفۃ حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے 


حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهِ سَأَلَ عَنِ الْقَوْمِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ فَقُلْتُ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ. فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى رَأْسِي فَنَزَعَ زِرِّي الأَعْلَى ثُمَّ نَزَعَ زِرِّي الأَسْفَلَ ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلاَمٌ شَابٌّ. فَقَالَ مَرْحَبًا بِكَ وَأَهْلاً يَا ابْنَ أَخِي۔۔

📕سنن ابوداؤد شریف کتاب المناسک۔حدیث نمبر 1097




*حضرت جعفر بن محمد اپنے والد سے نقل کرتے ہیں ہم لوگ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی خدمت حاضر ہوئے ہم لوگ جب پہونچے تو انہوں نے دریافت کیا کہ کون کون حضرات ہیں یہاں تک کہ میرا نمبر بھی آگیا میں نے کہا میں محمد بن علی بن حسین ہوں انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سرپر پھیرا اور میرا اوپر کا دامن اٹھایا پھر نیچے کا دامن اٹھایا اسکے اپنا ہاتھ میرےدونوں چھاتی کے درمیان میں  رکھا اور میں اس وقت نوجوان لڑکا تھا اور کہاکہ تم کو خوشی ہو تم اپنوں میں آگئے*۔۔

ناظرین !😳

اس حدیث میں غور کریں 

 اس حدیث میں تو ارواح ثلاثہ  سے بھی خطرناک بات لکھی ہوئی ہے 👆


نمبر ایک اس حدیث میں ایک

 نو جوان یعنی جو ابھی جوان نہ  ہواہو اس کا ذکر ہے 👆😳


نمبر دو کپڑا اٹھاکر سینہ پر  ہاتھ رکھنے کا ذکر ہے 😳👆


جبکہ ارواح ثلاثہ کے واقعہ میں نہ نوجوان کا ذکر ہے 🥺


نہ کپڑا اٹھانے کا ذکر ہے🧐

تو 

اگر خانقاہ گنگوہ میں ایک بڑا اپنے چھوٹے سے محبت اور شفقت کا اظہار کرتے ہوئے سینے پر ہاتھ رکھ دے تو بریلوی اپنی خباثتی ذہن سے گندا معنی سمجھ کر عوام کو علماء اہل سنت سے بدظن کرتے ہیں کیا ایسے خناسی کچھ مذکورہ حدیث پر بھی لب کشائی کریں گے 👆❓😏


*بریلوی حکیم الامت کا حوالہ*👀👇


 دیکھیں رضا خانی حکیم الامت لکھتے ہیں کہ

*اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو زاہر اپنا سامان بیچ رہے تھے حضور نے انکو پیچھے سے گود میں لے لیا وہ حضور کو نہ دیکھے تھے بولے یہ کون ہے مجھے چھوڑ دو انہوں نے التفات کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان  لیا تو انہوں نےکی نہیں اپنی پیٹھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ سے رگڑنے لگے جب کہ حضور کو پہچان لیا* ۔

📕مراۃ المناجیح جلد 6 صفحہ 374




مولانا رشید گنگوہی اور قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ پر ک ت ے س و ر کی طرح بھونکنے والے رضا خانی ذرا اپنے حکیم الامت کی کتاب میں مذکور اس حدیث کے بارے کیا کہیں گے یہاں بھی ارواح ثلاثہ کی عبارت سے خطرناک بات لکھی ہوئی ہے


*کہ ایک صحابی کو نبی علیہ السلام نے پیچھے سے اپنے گود میں بٹھا لیا*🧐👀

اور  اپنی بدن کو رگڑ بھی رہے ہیں 🧐

یاپھر اپنے مجدد کی طرح

 بے غیرتی کا کرتا یہاں بھی سرباز ار اٹھاکر آنکھ پر رکھ لے گا 👆😆


*بریلویوں کو اپنے گھر کی خبر نہیں*👇🙈


*آلہ تناسل کی مار بریلوی بیمار*😄😋👇


جامع کرامات اولیاء یہ کتاب ہے ترجمہ کر نے والا بریلوی ذاکر سیالوی ہے 

اسمیں ایک کرامت یوں بیان کیا گیا ہے کہ

*وہ کرامت یہ ہے کہ میں ابرہیم مذکور ایک دن حمام میں شیخ کیسا تھ گیا ہمارے ساتھ آپ کا خادم شیخ دبوسی طرابلیسی بھی تھا رشتہ میں یہ شیخ کی بیوی کا بھائی لگتا تھا حمام میں ہمارے علاوہ کوئی نہ تھا بیان کرتاہے میں نے شیخ سے ایک عجیب شروع عادت کرامت دیکھی وہ یہ کہ آپ کو ایک خادم پر کسی وجہ سےغصہ آگیا اور ارادہ کیا کہ کسی وجہ سے مناسب تادیب کی جائےشیخ نے اپنے تہبند کے نیچے ہاتھ ڈال کر دونوں ہاتھوں سے اپنا آلہ تناسل پکڑا وہ کافی لمبا ہوگیاحتی کہ کاندھوں تک اسکی لمبائی ہوگئی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ پھر اسکے ساتھ اس خادم کو مارنا شروع کردیا اور خادم تکلیف کی وجہ سے چلا رہا تھا آپنے اسے چند ضربیں لگائیں اور پھر چھوڑدیا اور آلہ تناسل دوبارہ اپنی اصلی حالت پر آ گیا میں سمجھ گیا کہ خادم نے ضرور کوئی ایسا حرکت کی ہوگی جس کی وجہ سے تادیب کے لیے ایسا کیا ہے جب الحاج ابرہیم نے شیخ کی یہ کرامت کی بیان کی اس وقت شیخ بھی کھڑے تھے آپ نےمجھے فرمایا کہ اسکی بات نہ ماننا اور اس واقعہ کو سچا نہ جاننا یہ کہتے ہوئے آپنے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے آلہ تناسل کی جگہ پر رکھ دیا مجھے وہاںکچھ بھی محسوس نہ ہوا*۔۔

🧐کرامات اولیاء مترجم ذاکر سیالوی ۔صفحہ 604/605





یہاں ذکر آلہ تناسل سے پٹائی بھی ہورہی ہے حتی کہ  ہاتھ۔ پکڑ ذکر آلہ تناسل کی جگہ رکھا جارہا مگر رضا خانی یہاں گونگا شیطان بناہوا 👆😋


*ران میں بوسہ زنی* 👇😃


سبع سنابل جو بریلوی کے یہاں معتبر کتاب ہے اسمیں سید محمود گیسو دراز کا واقعہ  لکھا ہے 👇

*جس وقت آپ حضرت مخدوم نصیر الدین مخدوم کی خدمت پہونچے حضرت مخدوم گھوڑے پر سوار تھے آپنے حضرت مخدوم کی ران کو بوسہ دیا مخدوم نے فرمایا اور نیچے مخدوم نے پیر کا بوسہ لیا*

📗 سبع سنابل صفحہ 158 




یہاں  مرید اپنے پیر کے ران میں بوسہ لے رہا ہے جو کہ ستر میں داخل ہے اور حضرت نانوتوی نے بوسہ بھی نہیں دیا اور ستر بھی نہیں تھا غیر ستر پر صرف ہاتھ رکھا تو یہ رضا خانی ایسا شور مچایا گویا کہ کہ انکی ہمشیرہ پر ہاتھ رکھ دیا ہو 😆


اب اس واقعہ پر بھی وہی خبیث اعتراض کریں گے یا پھر اپنے مجدد کا وہی بے غیرتی والا لمبا کرتا سرباز ار اٹھاکر آنکھوں پر پھر سے لگاکر اپنے مجدد کے اس ننگے تقوے پر یہاں بھی عمل کرتے ہوئے نظر آئیں گے😆


*گدھے سے بریلوی مولوی کی عجیب محبت*😄👇


ایک روز ایک گدھے کو  آپنے بوجھ اٹھانے ہوئے دیکھا تو اس کو دیکھ کر *آپ اس کو مٹھیاں بھرنے لگیں اور اس سے ایسی محبت کی جس طرح کسی محبوب سے (محبت) کی جاتی ہے اور فرمایا سونیا !*

*اے حسین ! تو بوجھ اٹھائے پھرتا ہے کبھی اس (گدھے )کو محبت کرتے ہوئے گردن چومنے لگتے*

📗خزینہ معرفت ۔صفحہ 142  

 



یہ تو گدھی سے عشق بازی آپنے ملاحظہ کیا اب گدھی سے بدفعلی بھی ملاحظہ کریں 😄

کیسے کیسے بریلوی اس دنیا میں پیدا ہوگئے جنہوں نے انسانیت کے وقار کو مجروح کردیا ہے🤔


*بریلوی پیر کا گدھی سے بدفعلی*👇🤓


ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﺎ ﺷﻤﺲ ﺍﻟﻌﺎﺭﻓﯿﻦ ﻧﻮﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺣﺴﻦ ﺷﺎﮦ

ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ :


*ﺣﻀﺮﺕ ﻏﻮﺙ ﻋﻠﯽ ﺷﺎﮦ ﺻﺎﺣﺐ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺘﯽ ﻗﺪﺱ ﺳﺮﮦ ﻧﮯﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺮ ﻭ ﻣﺮﺷﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﯿﺮ ﺍﻋﻈﻢ ﻋﻠﯽﺷﺎﮦ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻗﺼﺒﮧ ﻣﮩﻢﺳﮯ ﺩﮨﻠﯽ ﮐﻮ ﻭﺁﭘﺲ ﺁﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺛﻨﺎﺋﮯ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﭘﯿﺶ ﺁﯾﺎ*۔۔۔۔۔۔

*آگے لکھتے ہیں کہﺁﺧﺮ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﮔﮍﮪ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﯿﺮﮮ ۔ﻓﻘﯿﺮﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺑﻌﺪ ﻧﻤﺎﺯ ﻋﺸﺎﺀ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﻭﭨﯽ ﺍﺳﯽﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺁﻧﺎﺟﺐ ﮨﻢ ﺭﻭﭨﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧﻣﯿﺎﮞ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﯾﮏ ﮔﺪﮬﯽ ﺳﮯ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﯿﮟ ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻨﮧﭘﮭﯿﺮ ﻟﯿﺎ ۔ﭘﮭﺮ ﺟﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ* ۔۔۔۔۔

*آگے لکھتے ہیں ﺻﺒﺢ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮨﻢ ﺩﮨﻠﯽ ﮐﻮ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻓﻘﯿﺮﺻﺎﺣﺐ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﻮﮔﺌﮯ ۔ﺟﺐ ﮨﻢ ﺩﮨﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﻣﻮﻻﻧﺎﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻌﺰﯾﺰﺻﺎﺣﺐ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﮯﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ۔ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺧﻀﺮ ﻭﻗﺖ ﯾﺎﺍﺑﻮ ﺍﻟﻮﻗﺖ ﺗﮭﺎ*۔

📗( ﺍﻻﻧﺴﺎﻥﻓﯽﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ،ﺹ253/254/255



ﺭﺿﺎﺧﺎﻧﯽ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟﮔﺪﮬﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﺫ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﺪﻓﻌﻠﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ’’ ﺧﻀﺮ

ﻭﻗﺖ ‘‘ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺫﮐﺮ ﺳﮯ ﻣﻨﻮﺭ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪ ﮐﯽ ﺧﺎﻧﻘﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺑﺪﺑﺨﺖﺍﭘﻨﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﭘﺮ ﻗﯿﺎﺱ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ 🤔


*رضا خانی اکابر کی پریم کہانی*👇😋


بریلویوں کے ایک  اعلی حضرت شرقپوری نے میاں رحیم اللہ کے ساتھ بستر پر ایسی پریم کہانی نبھائی کہ میاں رحیم اللہ رات کو اسی حالت میں مرگیا 😆


حدیث دلبراں بریلویوں کی کتاب ہے جو انکے ایک اعلی حضرت کی سوانح حیات پر مشتمل  ہے لکھتے ہیں کہ

*آپ انکے یہاں تشریف لے گئے اور میاں رحیم اللہ کے ساتھ بستر پر لیٹ گئے اور آپ ان سے لپٹ گئے اور خوب توجہ فرمائی اور آپ کی خصوصی توجہ کا یہ نتیجہ نکلا کہ انکا قلب جاری ہوگیا اور وہ ذکر فکر میں محو ہو گئے آدھی رات میں اسی حالت میں انتقال ہو گیا*

📗 حدیث دلبراں ۔ صفحہ 178 



اب یہ دیکھیں ایک ہی چارپائی پر بریلوی اکابر رحیم اللہ کے ساتھ لیٹ بھی رہا ہے حتی کہ لپٹ بھی گیا ہے 😋

پھر بھی رضاخانی یہاں گونگا شیطان بناہوا ہے کوئی شور شرابہ نہیں  👆😄


*ارواح ثلاثہ پر ایک ضمنی  اعتراض کا جواب* 👇

ایک رضاخانی نے اس واقعہ پر یہ اعتراض کیا کہ اس کے اندر عشق بازی کرنے کا ذکر ہے جبکہ دیگر واقعات میں عشق عاشقی کا ذکر نہیں 🤓


الجواب 👇🧐

یہ بھی صریح جھوٹ ہے کہ عشق بازی کرنے کا ذکر ہے البتہ عاشق صادق کے الفاظ بطور تمثیل کے بیان ہیں اور  


 عشق عاشق کے الفاظ یہاں کمال محبت کے لیے ہے نہ کہ تیرے مجدد کی گندی ذہنیت کی عکاسی کرنے کے لئے 😋

تو کہتاہے ہم عاشق اولیاء ہیں🥲 

عاشق رسول ہیں🥲


تو تیرے اصول سے یہاں بھی تونے عشق بازی کی ہے

 👆😳😍😂😂😜😜


امید ہے کہ احمد رضا خان بریلوی کے ننگے تقوی پر عمل نہ کرنے والے رضاخانی کے لیے اتنا جواب کافی ہوگا 😄

مزید جوابات کے لیے دفاع اہل سنت دیکھیں ۔

✍️از قلم ریان ندوی حنفی چشتی🌹